Tuesday 29 August 2023

حضرت سیّدنا عَمرو بن عاص قرشی رضی اللہ عنہ

0 comments

حضرت سیّدنا عَمرو بن عاص قرشی رضی اللہ عنہ

محترم قارئینِ کرام : حضرت سیّدنا عَمرو بن عاص قرشی رضی اللہ عنہ کا نام  عمرو اور والد کا نام عاص تھا ۔ آپ رضی اللہ عنہ کا تعلق قبیلہ قریش کی شاخ سہم سے تھا . آپ رضی اللہ عنہ کے والد اپنے قبیلے کے سردار تھے  اور بڑے تاجر تھے ۔ حجرت سے کوئی 47 برس پہلے مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے مکہ مکرمہ میں ہی پرورش پائی اور اپنے والد کے ساتھ تجارت کا پیشہ اختیار کیا اور تجارتی سفر بھی کیے ۔ اسی دوران  مختلف قوموں اور ملکوں کے لوگوں سے ملتے جلتے رہے میل جول سے آپ کے تجربہ اور عقل و دانش  میں بہت اضافہ ہوا ۔ کاروبار کےلیے لکھنا پڑھنا بھی سیکھ لیا تھا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے بچپن ہی سے سپہ گری اور شہ سواری کا فن سیکھا تھا "ان کا کہنا تھا کہ" سپہ گری اور شہ سواری  میرے آباو اجداد کا فن ہے  اور میں  اسے انسان کا سب سے بڑا جوہر سمجھتا ہوں ۔

حضرت عمر  فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ایک سال سَخْت  قَحط پڑا تو امیر المؤمنین نے مصر کے گورنر کو فرمان بھیجا : جب تم اور تمہارے ملک والے سیر ہوں تو تمہیں کچھ پروا نہیں کہ میں اور میرے ملک والے ہلاک ہوجائیں، فریاد رسی کرو، حاجت روائی کرو،مدد کو پہنچو۔ مصر کے گورنر نے جواباًعرض کی: فریاد پوری کرنے والا آپ کے پاس آرہا ہے انتِظار کیجیے ، میں نے آپ کی بارگاہ میں  ایک ایسا  کارواں روانہ کیا ہے جس کاپہلا حصّہ آپ کے پاس پہنچے گا تو آخر حصہ میرے پاس سے روانہ ہورہا ہوگا ، چنانچہ مصر کے گورنر نے جو قافلہ روانہ کیا اس کا پہلااونٹ مدینہ طیبہ میں جبکہ آخری  مصر میں تھا اور تمام اونٹوں  پر اناج لدا ہوا تھا ، امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ نے وہ تمام اونٹ تقسیم فرما دیے ۔ (طبقات ابن سعد جلد 3 صفحہ 236،چشتی)

عزّت و شرافت ، سخاوت و شجاعت ، ذِہانت و فطانت اور ہمدردی  جیسے اوصاف اور صلاحیتوں سے مالامال یہ عظیم ہستی صحابیِ رسول فاتحِ مصر حضرت عَمرو بن عاص قرشی رضی اللہ عنہ کی تھی ۔ قبولِ  اسلام کا واقعہ قبولِ اسلام سے پہلے آپ رضی اللہ عنہ کے دل میں مسلمانوں سے سخت عداوت (دشمنی) تھی ، معرکۂ بدر ، اُحد اور خندق میں مسلمانوں کے خلاف جنگ میں حصّہ لیا ، صلحِ حُدَیبیہ  کے بعد تو آپ رضی اللہ عنہ کے یہ جذبات تھے کہ اگر پورا قبیلۂ قریش اسلام  لے آئے تو میں پھر بھی اسلام نہیں لاؤں گا ، پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے ہم خیال لوگوں کو جمع کر کے ان کے سامنے اپنی رائے رکھی کہ ہم حبشہ چلے جاتے ہیں اور وہیں رہتے ہیں ، اس رائے کو پسند کیا گیا چنانچہ انہوں نے حبشہ کے بادشاہ کےلیے تحفے تحائف جمع کر کے آپ کے حوالے کردئیے یوں آپ حبشہ چلے آئے ۔ (مغازی للواقدی جلد 2 صفحہ741 )

ایک روایت کے مطابق قریش نے حبشہ سے مسلمانوں  کو واپس لانے کےلیے جن سفیروں کو روانہ کیا ان میں  آپ بھی شامل تھے ، مگر اللہ تعالٰی نے آپ  پر خُصوصی کرم فرمایا اور آپ نے تابعی حضرت نجاشی بادشاہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا پھر مدینے حاضر ہوکر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہو کر درجۂ صحابیت پر فائز ہوئے ۔ یہ تاریخِ اسلام کا منفرد واقعہ ہے کہ کوئی شخص تابعی کے ہاتھ پر ایمان لائے اور بعد میں مرتبۂ صحابیت سے مشرف بھی ہوا ہو ۔ (زرقانی علی المواھب جلد 1 صفحہ 506،چشتی)

قبولِ اسلا م کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کے سینے میں محبت اور عظمتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ایسا دریا موجزن ہوا کہ فرماتے ہیں : کوئی شخص میرے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے زیادہ محبوب نہ تھااور میری آنکھوں میں آپ سے زیادہ عظمت و جلالت والا کوئی نہ تھا ۔ میں نبی کریم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہیبت کی وجہ سے ان کی طرف نظر بھر کر دیکھ نہیں سکتا تھا ۔ اگر مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا حلیہ دریافت کیا جائے تو میں اچّھی طرح بیان نہیں کر سکتا ۔ (صحیح مسلم صفحہ 70 حدیث نمبر 321)

آپ رضی اللہ عنہ مسلسل روزے رکھتے تھے جبکہ رات کو روتے ہوئے نماز پڑھا کرتے اور بارگاہِ الٰہی میں دُعا کرتے جاتے کہ اے اللہ ! تو نے مجھے مال دیا ، اولاد کی نعمت دی ، حکومت عطا کی ، اگر مجھے تجھ سے زیادہ ان چیزوں سے  محبت ہے تو میرا مال ، اولاد  اور حکومت مجھ سے لے لے اور مجھے آگ کا عذاب  نہ دینا ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد 46 صفحہ 164- 180)

آپ رضی اللہ عنہ کو حاکمِ مصر ہونے کے باوجود بوڑھے خچر پر سواری کرتے ہوئے دیکھ کر کسی نے پوچھا : آپ حاکم ہوکر اس خچر پر سوار ہیں ؟ ارشاد فرمایا : جب تک جانور مجھے سوار ہونے دیتا ہے میں اس سے بے زار نہیں ہوتا ، جب تک زوجہ میری اولاد کی اچّھی پرورش کرتی ہے اس سے دل برداشتہ نہیں ہوتا ، جب تک ہمنشین اپنا چہرہ مجھ سے نہ پھیر لے اس سے اُکتاتا نہیں کیونکہ بے زاری مروّت کے خلاف ہے ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد 46 صفحہ 182،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے ہے : اے اللہ ! عَمرو بن عاص پر رحمت نازل فرما بےشک یہ تجھ سے اور تیرے رسول سے مَحبت کرتا ہے ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد 46 صفحہ 137)

ایک مقام پر فرمایا : عَمرو بن عاص بے شک قریش کے نیکو کاروں میں سے ہیں ۔ (جامع ترمذی جلد 5 صفحہ 456 حدیث نمبر 3871)

ایک جنگ کے موقع پر  نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تین بار نیند سے بیدار ہوئے اور ہر مرتبہ یہ جملہ ارشاد فرمایا : اللہ تعالٰی عَمرو پر رحم فرمائے ، پھر فرمایا : جب بھی میں نے صدقہ کےلیے لوگوں کو بُلایا ہے تو عَمرو بن عاص بہت زیادہ لے کر آتے ہیں ، میں پوچھتا ہوں : اے عَمرو ! یہ کہاں سے آیا تو جواب دیتے ہیں کہ اللہ عزوجل کے پاس سے اور عَمرو نے سچ کہا کہ بے شک اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں عَمرو کےلیے خیرِ کثیر ہے ۔ (معجم کبیر جلد 18 صفحہ 5 حدیث نمبر1،چشتی)

ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اے عَمرو ! میں تمہیں ایک جنگ پر روانہ کرنا چاہتا ہوں ، اللہ تعالیٰ تمہیں سلامت رکھے گا اور مالِ غنیمت بھی دے گا اور ہم تم کو کچھ مال بھی عطا فرمائیں گے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے عرض کی : میں مال و دولت کےلیے اسلام نہیں لایا ، مجھے جہاد اور صحبتِ نبوی پانےمیں رغبت ہے ، فرمایا: نیک آدمی کےلیے اچّھا مال بہت ہی اچّھا ہے ۔ (مسند احمد جلد 6 صفحہ 240 حدیث نمبر 17818)

حدثنا قتيبة ، حدثنا ابن لهيعة ، عن مشرح بن هاعان ، عن عقبة بن عامر ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه و آلہ وسلم : اسلم الناس , وآمن عمرو بن العاص ۔
ترجمہ : عقبہ بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : لوگ اسلام لائے اور عمرو بن العاص رضی الله عنہ ایمان لائے ۔ (جامع ترمذی باب مَنَاقِبِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِي رضى الله عنه حدیث نمبر: 3844)

حضرت عمرو بن العاص رضی الله عنہ فتح مکہ سے ایک سال یا دو سال پہلے اسلام لا کر مدینہ کی طرف ہجرت کر چکے تھے ، اور اہل مکہ میں سے جو لوگ فتح مکہ کے بعد اسلام لائے ان کی بنسبت عمرو بن العاص کا اسلام لانا کسی زور و زبردستی اور خوف و ہراس سے بالاتر تھا اسی لیے آپ نے ان کے متعلق فرمایا کہ دوسرے لوگ (جو لوگ فتح مکہ کے دن ایمان لائے وہ) تو خوف و ہراس کے عالم میں اسلام لائے ، لیکن عمرو بن العاص رضی الله عنہ کا ایمان ان کے دلی اطمینان اور چاہت و رغبت کا مظہر ہے ، گویا اللہ نے انہیں اس ایمان قلبی سے نوازا ہے جس کا درجہ بڑھا ہوا ہے ۔

وعن عبد الله بن عمرو أن رسول الله صلى الله عليه و آلہ و سلم قال : استقرؤوا القرآن من أربعة : من عبد الله بن مسعود وسالم مولى أبي حذيفة وأبي بن كعب ومعاذ بن جبل ۔ متفق عليه ۔
ترجمہ : اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا قرآن ان چار آدمیوں سے حاصل کرو اور ان سے پڑھو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ، ابوحذیفہ کے آزاد کردہ غلام سالم رضی اللہ عنہ سے ، ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے ۔ (بخاری ومسلم)۔(مشکوۃ شریف جلد پنجم مناقب کا جامع بیان حدیث 848،چشتی)

ان چاروں صحابہ کرم رضی اللہ عنہم نے قرآن کریم براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حاصل کیا اور سیکھا تھا جب کہ اوروں نے دوسرے حضرات سے قرآن سیکھا اور حاصل کیا تھا ۔ یہ چاروں حافظ قرآن بھی تھے اور صحابہ میں بڑے قاری بھی تھے ۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چاروں کی خصوصی فضیلت سے لوگوں کو آگاہ فرمایا ۔

حضرت سالم رضی اللہ عنہ ان کا نام سالم بن معقل رضی اللہ عنہ ہے حضرت حذیفہ بن عتبہ بن رببیعہ بن عبد شمس کے آزاد کردہ غلام ہیں فارس ایران کے شہر اصرخ یا اصطحرخ کے رہنے والے تھے ارباب فضل و کمال جلیل القدر اور بزرگ صحابہ میں ان کا شمار ہوتا ہے غزوہ بدر میں شریک تھے مدینہ میں ان مہاجرین کی امامت نماز کا شرف انہی کو حاصل ہوتا تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پہلے ہجرت کر کے آگئے تھے باوجودیکہ ان میں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابوسلمہ بھی موجود ہوتے تھے ۔ حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کا اصل نام ہشام تھا ۔ فضلائے صحابہ اور مہاجرین اولین میں ہے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دار ارقم میں آنے میں سے پہلے ہی مشرف بہ اسلام ہو گئے تھے ۔

حضرت ابی بن کعب : حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ انصار صحابہ کرام رضہ اللہ عنہم میں سے ہیں بڑے قاری ہیں ، ان کو سید القراء کہا جاتا تھا حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کو سید المسلمین کے لقب سے یاد کرتے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کاتب وحی ہیں ۔

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی انصار سے ہیں ۔ ان کے فضائل و مناقب بھی بے شمار ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے درمیان بھائی چارہ کرایا تھا ۔

حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے اپنے بسترِ موت پراپنے صاحبزادے سے اپنی زندگی کے تین دور کا تذکرہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میری پہلی حالت یہ تھی کہ میں کفر کی حالت میں سب سے زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جانی دشمن تھا ۔ اگر میں اس حالت میں مر جاتا تو یقینا میں دوزخی ہوتا ۔ دوسری حالت مسلمان ہونے کے بعد تھی کہ کوئی شخص میرے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے زیادہ محبوب نہ تھا اور میری آنکھوں میں آپ سے زیادہ عظمت و جلالت والا کوئی بھی نہ تھا ۔ اور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہیبت کی و جہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف نظر بھر کر دیکھ نہیں سکتا تھا ۔ یہی و جہ ہے کہ اگر مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا حلیہ دریافت کیا جائے تو میں اچھی طرح بیان نہیں کر سکتا اگر میں اس حال پر مر گیا تو مجھے امید ہے کہ میں اہلِ جنت میں سے ہوتا ۔ تیسری حالت میری گورنری اور حکومت کی تھی جس میں مجھے اپنا حال معلوم نہیں ۔ (صحیح مسلم جلد ۱ صفحہ ۷۶ باب کون الاسلام یہدم ماقبلہ)

آپ رضی اللہ عنہ نہایت ذہین اور جنگی تدبیروں سے مالامال بہترین سپہ سالار تھے ایک مرتبہ کسی معرکہ میں آپ رضی اللہ عنہ نے یہ اعلان کیا کہ رات کے وقت لشکر میں کوئی آگ روشن نہیں کرے گا ، جوکہ بعض لوگوں پر ناگوار گزرا ، بعد میں یہ معاملہ بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں پیش ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ نے عرض کی : میرے ساتھیوں کی تعداد کم تھی اورمجھے خوف تھا کہ پہاڑ کے پیچھے کوئی لشکر ہے جو مسلمانوں پر حملہ کردے گا ۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کے اس فعل کو خوب سراہا ۔ اسی معرکہ میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے یہ کلمات بھی آپ کی جنگی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عَمْرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو جنگی اُمورمیں مہارت کی وجہ سے ہم پر امیر مقرّر فرمایا ہے ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد 46 صفحہ 145،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو عمان پر عامل بنا کر بھیجا آپ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ظاہری وفات تک وہیں عامل رہے ۔ خلیفۂ اوّل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کو شام کی جانب لشکرِ اسلام کا امیر بنا کر روانہ کیا ، جہاں آپ رضی اللہ عنہ نے فُتوحات کے جھنڈے گاڑے ، 20 ہجری میں فاتحِ مصر کا اعزاز پایا ، 22 ہجری میں اسکندریہ فتح کیا پھر 23 ہجری میں طرابلس کے علاقے  فتح کیے ، 25  ہجری میں اسکندریہ والوں نے بغاوت کی تو آپ نے ان کی سرکوبی کر کے اسے  دوبارہ فتح کر لیا ۔ دورِ فاروقی میں فلسطین کے والی مقرّر ہوئے جبکہ فتحِ مصر کے  بعد سے 28 ہجری تک مصر کے گورنر رہے ۔ (تہذیب الاسماء جلد 2 صفحہ 346،چشتی)(تاریخ ابن عساکر جلد 46 صفحہ 159)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے آپ کو 38 ہجری میں دوبارہ اس عہدے پر فائز فرما دیا ۔ (الاصابہ جلد 4 صفحہ 540)

آخری لمحات اور موئے مبارک سے تبرّک بَوقتِ وصال : آپ رضی اللہ عنہ نے یہ وصیت بھی فرمائی تھی کہ میرے کفن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےموئے مبارک (بال شریف) رکھ دیے جائیں تاکہ قبر کی مشکل آسان ہو ۔ ایک قول کے مطابق آپ رضی اللہ عنہ نے سن 43 ہجری عید الفطر کی رات (یکم شوالُ المکرّم) تقریباً 100 سال کی عُمْر پا کر اس دارِ فانی سے دارِ آخرت کی جانب کوچ فرمایا ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد 46 صفحہ 202)

آپ رضی اللہ عنہ کا مزار مبارک مُقَطَّم نامی پہاڑ کے دامن  میں (مسجد سیّدی عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کے اندر) ہے ۔ (طبقات ابن سعد جلد 7 صفحہ 342)

مالِ وراثت اور مرویّات : آپ رضی اللہ عنہ بڑے مالدار صَحابی تھے آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے پیچھے کافی مال و دولت ، غلام اور جائیداد چھوڑی ۔ (سیر اعلام النبلاء جلد 4 صفحہ 256،چشتی) ۔ جبکہ روایت کردہ احادیث کی تعداد 37 ہے ۔ (تہذیب الاسماء جلد 2 صفحہ347)

کیا ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ سلام اللہ علیہا نے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ پر لعنت کی ؟ رافضیوں اور نیم رافضیوں کے اعتراض کا تحقیق کی روشنی میں جواب :⬇

امام حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ نے فرمایا : أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى، وَمُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَعْقُوبَ الْحَافِظُ، قَالَا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ الثَّقَفِيُّ، ثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، ثنا *جَرِيرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ،* عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قَالَتْ لِي عَائِشَةُ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: «إِنِّي رَأَيْتُنِي عَلَى تَلٍّ وَحَوْلِي بَقَرٌ تُنْحَرُ» فَقُلْتُ لَهَا: لَئِنْ صَدَقَتْ رُؤْيَاكِ لَتَكُونَنَّ حَوْلَكَ مَلْحَمَةٌ، قَالَتْ: «أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّكَ، بِئْسَ مَا قُلْتَ» ، فَقُلْتُ لَهَا: فَلَعَلَّهُ إِنْ كَانَ أَمْرًا سَيَسُوءُكِ، فَقَالَتْ: «وَاللَّهِ لَأَنْ أَخِرَّ مِنَ السَّمَاءِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَفْعَلَ ذَلِكَ» ، فَلَمَّا كَانَ بَعْدُ ذُكِرَ عِنْدَهَا أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَتَلَ ذَا الثُّدَيَّةِ، فَقَالَتْ لِي: «إِذَا أَنْتَ قَدِمْتَ الْكُوفَةَ فَاكْتُبْ لِي نَاسًا مِمَّنْ شَهِدَ ذَلِكَ مِمَّنْ تَعْرِفُ مِنْ أَهْلِ الْبَلَدِ» ، فَلَمَّا قَدِمْتُ وَجَدْتُ النَّاسَ أَشْيَاعًا فَكَتَبْتُ لَهَا مِنْ كُلِّ شِيَعٍ عَشَرَةً مِمَّنْ شَهِدَ ذَلِكَ قَالَ: فَأَتَيْتُهَا بِشَهَادَتِهِمْ فَقَالَتْ: «لَعَنَ اللَّهُ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ، فَإِنَّهُ زَعَمَ لِي أَنَّهُ قَتَلَهُ بِمِصْرَ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ ۔ (التعليق من تلخيص الذهبي) ۔ على شرط البخاري ومسلم ۔
ترجمہ : مسروق فرماتے ہیں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے کہا میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک ٹیلے پر ہوں اور میرے اردگرد گائے ذبح کی جا رہی ہیں میں نے کہا اگر آپ کا خواب سچا ہوا تو آپ کے ارد گرد خون ریزی ہو گی ام المومنین نے کہا تم نے جو تعبیر بتائی ہے میں اس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں میں نے کہا ہو سکتا ہے کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جائے جو آپ کےلیے تکلیف دہ ہو آپ نے فرمایا اللہ کی قسم میری وجہ سے کوئی فتنہ برپا ہو اس سے مجھے یہ زیادہ عزیز ہے کہ مجھے آسمان سے زمین پر پھینک دیا جائے کچھ عرصے بعد ام المؤمنین کے پاس یہ تذکرہ ہوا کہ علی رضی اللہ عنہٗ نے " ذوالثدیہ " کو قتل کر دیا آپ نے مجھے حکم دیا کہ جب تم کوفہ آؤ تو شہر کے جتنے لوگ اس معاملے میں شریک ہوئے جن کو تم پہچانتے ہو ان سب کے بارے میں مجھے مطلع کرنا جب میں کوفہ میں آیا تو میں نے لوگوں کو جماعت در جماعت پایا میں نے ام المؤمنین کی جانب خط لکھا کہ ہر جماعت میں سے دس آدمی اس میں شریک ہوئے ہیں آپ فرماتے ہیں میں ان کی گواہی بھی ام المؤمنین کے پاس لایا ام المؤمنین نے فرمایا اللہ کی لعنت ہو عمرو بن عاص پر اس نے مجھ سے دعوی کیا تھا کہ اس نے اسے ( ذوالثدیہ کو ) مصر میں قتل کیا ہے ۔ امام حاکم فرماتے ہیں یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے لیکن شیخین نے اسکی تخریج نہیں کی تلخیص میں امام ذھبی نے بھی شیخین کی شرط پر صحیح کہا ۔ (المستدرك على الصحيحين للحاكم : 6744)

رافضیوں اور نیم رافضیوں کا اس روایت سے استدلال : ⬇

(1) صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے ام المؤمنین سے جھوٹ بولا ۔

(2) ام المؤمنین نے صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر لعنت کی ۔

(3) اگر صحابہ پر لعنت کرنا حرام ٬ فسق ٬ کفر اور گناہ ہے تو کیا یہ فتوی ام المؤمنین پر لگے گا یا فتویٰ غلط ہے ؟

جواب : حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ پر لعنت کرنا اور حضرت عمرو بن عاص کا جھوٹ بولنا ثابت نہیں ۔ اسی روایت کو امام ابوبکر بن ابی شیبہ نے اپنی " المصنف " میں عالی سند سے روایت کیا : حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : رَأَيْتنِي عَلَى تَلٍّ كَأَنَّ حَوْلِي بَقَرًا يُنْحَرْنَ ، فَقَالَ مَسْرُوقٌ : إِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ لَا تَكُونِي أَنْتَ هِيَ فَافْعَلِي ، قَالَ : فَابْتُلِيتُ بِذَلِكَ رَحِمَهَا اللَّهُ ۔ (مصنف ابن أبي شيبة - ت الحوت : 30513 إسنادہ صحیح)
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں میں نے اپنے آپ کو خواب میں ایک ٹیلے پر دیکھا اور میرے ارد گرد بہت سی گاۓ ذبح کی جارہی تھیں مسروق نے کہا اگر آپ کے اندر طاقت ہے کہ آپ وہ نہ ہوں تو ایسا ضرور کریں لیکن حضرت عائشہ اس میں مبتلا ہو گئی اللہ ان پر رحم فرمائے ۔

آپ دیکھ سکتے ہیں نہ تو اس روایت میں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے اور نہ ہی ان کا جھوٹ بولنے کا اور نہ ہی ان پر لعنت کا ۔

اعمش سے یہ روایت دو لوگ بیان کر رہے ہیں : ⬇

(1) جرير بن عبد الحميد
(2) أبو معاوية الضرير

اور محدثین کرام اور ناقدین حدیث و رجال نے اعمش سے روایت کرنے میں ابو معاویہ کو جریر پر مقدم اور ابو معاویہ کو جریر سے اعمش کی روایت میں اوثق قرار دیا ہے ۔

(1) ایوب بن اسحاق کہتے ہیں میں نے امام یحیی بن معین اور احمد بن حنبل رحمهما الله سے ابو معاویہ اور جریر کے بارے میں پوچھا تو ان دونوں نے جواب دیا کہ ہمیں ابو معاویہ زیادہ محبوب ہیں اعمش کی روایت میں (بنسبت جریر کے)

قال أيوب بن إسحاق بن سافري سألت أحمد ويحيى عن أبي معاوية وجرير، قالا: أبو معاوية أحب إلينا يعنيان في الأعمش ۔
امام یحیی بن معین سے دوسرا قول بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا ابو معاویہ اعمش کی حدیث میں جریر سے زیادہ مضبوط ہے ۔
يحيى بن معين يقول : أبو معاوية أثبت من جرير في الأعمش ۔ (كتاب تاريخ بغداد وذيوله ط العلمية 2/305/6،چشتی)

(2) امیر المؤمنین فی الحدیث حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں ابومعاویہ اعمش کی حدیث میں میزان ہیں ۔

لأن أبا معاوية هو الميزان في حديث الأعمش ۔ (كتاب فتح الباري لابن حجر 12/286)

(3) امام ذہبی فرماتے ہیں امام احمد سے امام اعمش سے روایت کرنے میں ابو معاویہ اور جریر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے ابو معاویہ کو جریر پر مقدم کیا ۔
سئل أحمد عن أبي معاوية وجرير في الأعمش ، فقدم أبا معاوية ۔ (سير أعلام النبلاء 9/74)

ان تمام تصریحات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جریر بن عبدالحمید کی روایت جس میں جھوٹ بولنے اور لعنت کرنے کا ذکر ہے وہ متن شاذ ہے اوثق کی مخالفت کی وجہ سے جب کہ ابو معاویہ کی روایت جس میں دونوں باتوں کا ذکر نہیں وہی محفوظ اور صحیح متن ہے ۔

شاذ حدیث کی تعریف اور اس کا ضعیف کی اقسام میں سے ہونا : ⬇

شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی رضی اللہ عنہ شاذ حدیث کی تعریف فرماتے ہیں : فإن خولف بأرجح منه: لمزيد ضبط، أو كثرة عدد، أو غير ذلك من وجوه الترجيحات، فالراجح يقال له: "المحفوظ" ومقابله، وهو المرجوح، يقال له : الشاذ ۔
ترجمہ : پس اگر ثقہ راوی کی طرف سے کسی ایسے ارجح کی مخالفت کی جائے جو ضبط٬ یا کثرت عدد٬ یا اس کے علاوہ کسی اور وجوہ ترجیح میں اس سے راجح ہو تو راجح کی حدیث کو محفوظ اور اس کے مقابل یعنی مرجوح کی حدیث کو شاذ کہا جائے گا ۔ (كتاب نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر - ت عتر صفحہ 71)

شاذ حدیث خبر مردود کی اقسام میں سے ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے بھی اس کو خبر مردود کی اقسام میں ذکر کیا ۔

اصول حدیث کی ایک اور " كتاب تيسير مصطلح الحديث " میں محمود طحان فرماتے ہیں : من المعلوم أن الشاذ حديث مردود، أما المحفوظ فهو حديث مقبول ۔ معلوم ہوا کہ شاذ حدیث مردود ( ضعیف ) ہے اور محفوظ حدیث مقبول ( صحیح ) ہے ۔ (كتاب تيسير مصطلح الحديث صفحہ 124)

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ " جریر بن عبدالحمید " جوکہ ثقہ ہے اس نے اعمش سے روایت کرنے میں " ابو معاویہ " جو کہ اوثق ہے اعمش کی حدیث میں جریر سے اس کی مخالفت کی جس کی بنا پر " جریر بن عبدالحمید " کی روایت شاذ ( ضعیف ) ہوئی اور " ابو معاویہ " کی روایت محفوظ (صحیح) ۔

اس روایت کو اپنے طریق سے امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی نقل کیا اس میں لعنت کے الفاظ تو ہیں لیکن شخص کا نام نہیں یعنی صراحت نہیں کہ کس پر لعنت کی نیز یہ کہ وہ سند بھی ضعیف ہے ۔

أخبرنا أبو عبد الله الحافظ أخبرنا الحسين بن الحسن بن عامر الكندي بالكوفة من أصل سماعه حدثنا أحمد بن محمد بن صدقة الكاتب قال: حدثنا عمر بن عبد الله بن عمر بن *محمد بن أبان بن صالح* قال: هذا كتاب جدي: محمد بن أبان فقرأت فيه حدثنا الحسن بن الحر قال: حدثنا الحكم بن عتيبة وعبد الله بن أبي السفر، عن عامر الشعبي، عن مسروق، قال: قالت عائشة: عندك علم من ذي الثدية الذي أصابه علي رضي الله عنه في الحرورية قلت لا قالت فاكتب لي بشهادة من شهدهم فرجعت إلى الكوفة وبها يومئذ أسباع فكتبت شهادة عشرة من كل سبع ثم أتيتها بشهادتهم فقرأتها عليها قالت: أكل هؤلاء عاينوه ؟ قلت: لقد سألتهم فأخبروني أن كلهم قد عاينه قالت: *لعن الله فلانا فإنه كتب إلي أنه أصابهم بنيل مصر ۔ ثم أرخت عينيها فبكت فلما سكتت عبرتها. قالت : رحم الله عليا لقد كان على الحق وما كان بيني وبينه إلا كما يكون بين المرأة وأحمائها ۔ (كتاب دلائل النبوة للبيهقي 6 / 434 / 35) ۔ سند میں موجود راوی " محمد بن أبان بن صالح " ضعیف الحدیث ہے اس کے ضعف پر محدثین کا اجماع ہے ۔ (لسان الميزان :- 6354)
نیز یہ کہ جس شخص پر لعنت کی جا رہی ہے اس کا نام بھی مبھم ہے لہٰذا اس روایت سے کسی طرح بھی استدلال نہیں کیا جا سکتا ۔

خلاصہ کلام یہ ہوا کہ ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ پر لعنت کرنا اور حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے جھوٹ بولنا ثابت نہیں لہٰذا شیعہ کا اس روایت سے استدلال کرنا باطل ہے ۔ اللہ رحم فرمائے امام ذہبی پر کہ انہوں نے ظاہری سند کو دیکھتے ہوئے صحت کا حکم لگا دیا متن پر توجہ نہیں دی جب کہ ہم اوپر خود ان کی آخری کتاب " سیر اعلام نبلاء " سے ثابت کر آئے کہ انہوں نے ابو معاویہ کا جریر پر مقدم ہونا امام احمد علیہم الرحمہ سے نقل کیا ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔