Thursday, 17 August 2023

بیک وقت یا الگ الگ تین طلاق تین دینے کا شرعی حکم حصّہ اوّل

بیک وقت یا الگ الگ تین طلاق تین دینے کا شرعی حکم حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ‌ ۖ فَاِمۡسَاكٌ ۢ بِمَعۡرُوۡفٍ اَوۡ تَسۡرِيۡحٌ ۢ بِاِحۡسَانٍ‌ ؕوَلَا يَحِلُّ لَـکُمۡ اَنۡ تَاۡخُذُوۡا مِمَّآ اٰتَيۡتُمُوۡهُنَّ شَيۡــئًا اِلَّاۤ اَنۡ يَّخَافَآ اَ لَّا يُقِيۡمَا حُدُوۡدَ اللّٰهِ‌ؕ فَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَ لَّا يُقِيۡمَا حُدُوۡدَ اللّٰهِۙ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡهِمَا فِيۡمَا افۡتَدَتۡ بِهٖؕ‌ تِلۡكَ حُدُوۡدُ اللّٰهِ فَلَا تَعۡتَدُوۡهَا ‌ۚ‌ وَمَنۡ يَّتَعَدَّ حُدُوۡدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ۔ (سورہ البقرہ آیت نمبر 229)
ترجمہ : یہ طلاق دو بار تک ہے پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا نکوئی (اچھے سلوک) کے ساتھ چھوڑ دینا ہے اور تمہیں روا نہیں کہ جو کچھ عورتوں کو دیا اس میں سے کچھ واپس لو مگر جب دونوں کو اندیشہ ہو کہ اللہ کی حدیں قائم نہ کریں گے پھر اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں ٹھیک انہیں حدوں پر نہ رہیں گے تو ان پر کچھ گناہ نہیں اس میں جو بدلہ دے کر عورت چھٹی لے یہ اللہ کی حدیں ہیں ان سے آگے نہ بڑھو اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھے تو وہی لوگ ظالم ہیں ۔

یہ آیت ایک عورت کے متعلق نازل ہوئی جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اس کے شوہر نے کہا ہے کہ وہ اس کو طلاق دیتا رہے گا اور رجوع کرتا رہے گا اور ہر مرتبہ جب طلاق کی عدت گزرنے کے قریب ہو گی تو رجوع کرلے گا اور پھر طلاق دیدے گا ، اسی طرح عمر بھر اس کو قید رکھے گا اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔(تفسیر البحر المحیط جلد ۲ صفحہ ۲۰۲)

اور ارشاد فرمادیا کہ طلاق رَجعی دو بار تک ہے اس کے بعد طلاق دینے پر رجوع کا حق نہیں ۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مرد کو طلاق دینے کا اختیار دو بار تک ہے ۔ اگر تیسری طلاق دی تو عورت شوہر پر حرام ہو جائے گی اور جب تک پہلے شوہر کی عدت گزار کر کسی دوسرے شوہر سے نکاح اور ہم بستری کر کے عدت نہ گزار لے تب تک پہلے شوہر پر حلال نہ ہو گی ۔ لہٰذا ایک طلاق یا دو طلاق کے بعد رجوع کرکے اچھے طریقے سے اسے رکھ لو اور یا طلاق دے کر اسے چھوڑ دو تاکہ عورت اپنا کوئی دوسرا انتظام کر سکے ۔ اچھے طریقے سے روکنے سے مراد رجوع کر کے روک لینا ہے اور اچھے طریقے سے چھوڑ دینے سے مراد ہے کہ طلاق دے کر عدت ختم ہونے دے کہ اس طرح ایک طلاق بھی بائنہ ہو جاتی ہے ۔ شریعت نے طلاق دینے اور نہ دینے کی دونوں صورتوں میں بھلائی اور خیر خواہی کا فرمایا ہے ۔ ہمارے زمانے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد دونوں صورتوں میں الٹا چلتی ہے ، طلاق دینے میں بھی غلط طریقہ اور بیوی کو رکھنے میں غلط طریقہ ۔ اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے آمین ۔
 
فَاِنۡ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنۡۢ بَعۡدُ حَتّٰى تَنۡكِحَ زَوۡجًا غَيۡرَهٗ ‌ؕ فَاِنۡ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡهِمَآ اَنۡ يَّتَرَاجَعَآ اِنۡ ظَنَّآ اَنۡ يُّقِيۡمَا حُدُوۡدَ اللّٰهِ‌ؕ وَتِلۡكَ حُدُوۡدُ اللّٰهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوۡمٍ يَّعۡلَمُوۡنَ ۔ (سورہ البقرة آیت نمبر 230)
ترجمہ : پھر اگر تیسری طلاق اسے دی تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے پھر وہ دوسرا اگر اسے طلاق دیدے تو ان دونوں پر گناہ نہیں کہ پھر آپس میں مل جائیں اگر سمجھتے ہوں کہ اللہ کی حدیں نباہیں گے ، اور یہ اللہ کی حدیں ہیں جنہیں بیان کرتا ہے دانش مندوں کےلیے ۔

اللہ تعالیٰ نے طلاق دینے کا یہ قاعدہ بیان فرمایا ہے کہ دو طلاقوں کے بعد بھی خاوند کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ چاہے تو ان طلاقوں سے رجوع کرلے اور چاہے تو رجوع نہ کرے لیکن : فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ ۔ (سورہ البقرة آیت نمبر 230)
ترجمہ : پھر اگر تیسری طلاق اسے دی تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے ۔

اس آیت سے پہلے ” الطلاق مرتان“ کا ذکر ہے یعنی طلاق رجعی دو مرتبہ دی جاسکتی ہے ‘ اس کے بعد ” فان طلقھا “ فرمایا : اس کے شروع میں حرف ” فا “ ہے جو تعقیب بلامہلت کے لیے آتا ہے اور اب قواعد عربیہ کے اعتبار سے معنی یہ ہوا کہ دو رجعی طلاقیں دینے کے بعد خاوند نے اگر فورا تیسری طلاق دے دی تو اب وہ عورت اس مرد کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہے جب تک کہ وہ شرعی قاعدہ کے مطابق کسی اور مرد کے ساتھ نکاح نہ کرے ‘ اس آیت میں اگر حرف ” ثم “ یا اس قسم کا کوئی اور حرف ہوتا جو مہلت اور تاخیر پر لالت کرتا تو علی التعیین یہ کہا جا سکتا تھا کہ ایک طہر میں ایک طلاق اور دوسرے طہر میں دوسری طلاق اور تیسرے طہر میں تیسری طلاق دی جائے گی ‘ لیکن قرآن مجید میں ” ثم “ کی بجائے ‘ ” فا “ کا ذکر کیا گیا ہے ‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر خاوند نے دو طلاقیں دینے کے بعد فوراً تیسری طلاق دے دی تو اس کی بیوی اس کےلیے حلال نہیں رہے گی ۔

قرآن مجید نے ” الطلاق مرتان “ فرمایا ہے یعنی دو مرتبہ طلاق دی جائے اور دو مرتبہ طلاق دینا اس سے عام ہے کہ ایک مجلس میں دو مرتبہ طلاق دی جائے یا دو طہروں میں دو مرتبہ طلاق دی جائے اور اس کے بعد فورا اگر تیسری طلاق دے دی تو اس کی بیوی اس پر حرام ہوجائے گی اس سے واضح ہوگیا کہ اگر کسی شخص نے ایک مجلس میں تین بار طلاق دی اور بیوی سے کہہ دیا : میں نے تم کو طلاق دی ‘ میں نے تم کو طلاق دی ‘ میں نے تم کو طلاق دی تو یہ تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی اور اس کی بیوی اس پر حرام ہو جائے گی ۔ غیرمقلدوں کے مشہور ‘ مستند اور ان کے بہت بڑے عالم علامہ ابن حزم اس آیت کے بارے میں لکھتے ہیں : یہ آیت بیک وقت دی گئی تین طلاقوں اور الگ الگ دی گئی طلاقوں دونوں پر صادق آتی ہے اور اس آیت کو بغیر کسی نص کے طلاق کی بعض صورتوں کے ساتھ خاص کرنا جائز نہیں ۔ (المحلی جلد ١٠ صفحہ ١٧‘ مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المینریہ ١٣٥٢ ھ،چشتی)

قرآن مجید کی اس آیت سے بھی جمہور فقہاء اسلام کا استدلال ہے : اذا نکحتم المؤمنت ثم طلقتموھن من قبل ان تمسوھن فمالکم علیھن من عدۃ تتعدونھا ۔ (سورہ الاحزاب آیت نمبر ٤٩)
ترجمہ : جب تم مسلمان عورتوں سے نکاح کرو ‘ پھر ان کو مقاربت سے پہلے طلاق دے دو ‘ تو ان پر تمہارے لیے کوئی عدت نہیں جس کو تم گنو ۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے غیر مدخولہ کو طلاق دینے کا ذکر فرمایا ہے اور طلاق دینے کو اس سے عام رکھا ہے کہ بیک وقت اکٹھی تین طلاقیں دی جائیں یا الگ الگ طلاقیں دی جائیں اور جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے مطلق اور عام رکھا ہو اس کو اخبار آحاد اور احادیث صحیحہ سے بھی مقید اور خاص نہیں کیا جا سکتا چہ جائیکہ ما و شما کی غیر معصوم آراء اور غیر مستند اقوال سے اس کو مقید کیا جا سکے ۔

تین طلاقوں کے تین واقع ہونے پر اجماعِ امت

قَدْ قَالَ الْاِمَامُ أَبُوْبَکْرِ ابْنُ الْمُنْذِرِ النِّیْشَابُوْرِیُّ : وَأجْمَعُوْا عَلٰی أَنَّ الرَّجُلَ اِذَاطَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلاَثًا أَنَّھَالَاتَحِلُّ لَہُ اِلَّابَعْدَ زَوْجٍ عَلٰی مَا جَائَ بِہ حَدِیْثُ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ:أَوْ اَجْمَعُوْاعَلٰی أَنَّہُ اِنْ قَالَ لَھَا أَنْتِ طَالِقٌ ثَلاَثاً اِلَّا ثَلاَثاً اَنَّھَا اُطْلِقَ ثَلاَ ثًا ۔ (کتاب الاجماع لابن المنذر صفحہ 92،چشتی)
ترجمہ : امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے فرمایا : فقہاء اورمحدثین امت نے اس پر اجماع کیا ہے کہ جب مرد اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے تو وہ اس کےلیے حلال نہیں رہتی ۔ ہاں ! جب وہ دوسرے شوہر سے نکاح کرلے تو اب حلال ہو جاتی ہے کیونکہ اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث وارد ہوئی ہے ۔ ابن المنذر رحمہ اللہ نے فرمایا : فقہاء ومحدثین کا اس پر بھی اجماع ہے کہ اگر شوہر نے بیوی کو کہا ،،اَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثاً اِلَّا ثَلَاثاً،، (تجھے تین طلاقیں ہیں مگر تین طلاق) تو تین ہی واقع ہوں گی ۔

تین طلاق تین ہی شمار ہونگی صحیح بخاری شریف سے ثبوت

قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْکَبِیْرُ مُحَمَّدُ بْنُ اِسْمٰعِیْلَ الْبُخَارِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ قَالَ اَخْبَرَنَا مَالِکٌ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ اَنَّ سَھْلَ بْنَ سَعْدٍ السَاعِدِیَّ اَخْبَرَہُ…قَالَ عُوَیْمَرُکَذِبْتُ عَلَیْھَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنْ اَمْسَکْتُھَا فَطَلَّقَھَا ثَلاَ ثًا قَبْلَ اَنْ یَّامُرَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ {وَفِیْ رِوَایَۃ ٍ}قَالَ فَطَلَّقَھَا ثَلاَثَ تَطْلِیْقَاتٍ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاَنْفَذَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔ (صحیح البخاری جلد 2 صفحہ791 باب من اجاز اطلاق الثلاث،چشتی)(سنن ابی داود جلد 1صفحہ 324 باب فی اللعان)
ترجمہ : حضرت سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ حضرت عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اگر میں اس کو اپنے پاس روکوں اور بیوی بناکر رکھوں تو میں نے پھر اس پر جھوٹ کہا پھراس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم صادر فرمانے سے پہلے ہی اس کو تین طلاقیں دے دیں ۔ (سنن ابی داود کی روایت میں ہے کہ) اس نے اس کو (یعنی عویمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس تین طلاقیں دیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو نافذ کر دیا ۔

قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْکَبِیْرُ مُحَمَّدُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ الْبُخَارِیُّ حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا یَحْیٰ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ قَالَ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَۃَاَنَّ رَجُلاً طَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلٰثاً فَتَزَوَّجَتْ فَطَلَّقَ فَسُئِلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَتَحِلُّ لِلْاَوَّلِ ؟ قَالَ:لَاحَتّٰی یَذُوْقَ عُسَیْلَتَھَا کَمَا ذَاقَ الْاَوَّلُ ۔ (صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 791 باب من اجاز طلاق الثلاث،چشتی)
ترجمہ  : ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں ، اُس نے کسی اور مرد سے نکاح کیا اور (ہمبستری سے پہلے) اسے طلاق دے دی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ وہ عورت اپنے پہلے خاوند کےلیے حلال ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : نہیں ! جب تک کہ دوسرا خاوند اس سے ہمبستری نہ کرے (اور لطف اندوز نہ ہو جائے) جیسا کہ پہلا خاوند ہوا ۔

قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْفَقِیْہُ أَبُوْجَعْفَرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ الطَّحَاوِیُّ مَنْ طَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلاَثاً فَاَوْقَعَ کُلاًّ فِیْ وَقْتِ الطَّلَاقِ لَزِمَہُ مِنْ ذٰلِکَ…فَخَاطَبَ عُمَرُ بِذٰلِکَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَفِیْھِمْ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمُ الَّذِیْنَ قَدْعَلِمُوْامَاتَقَدَّمَ مِنْ ذٰلِکَ فِیْ زَمَنِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یُنْکِرْہُ عَلَیْہِ مِنْھُمْ مُنْکِرٌوَلَمْ یَدْفَعْہُ دَافِعٌ فَکَاَنَّ ذٰلِکَ اَکْبَرُ الْحُجَّۃِ فِیْ نَسْخٍ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذٰلِکَ لِاَنَّہُ لَمَّاکَانَ فِعْلُ اَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَمِیْعاً فِعْلاً یَجِبُ بِہِ الْحُجَّۃُ کَانَ کَذٰلِکَ اَیْضاً اِجْمَاعُھُمْ عَلَی الْقَوْلِ اِجْمَاعاً یَجِبُ بِہِ الْحُجَّۃُ ۔ (سنن الطحاوی جلد 2صفحہ 34باب الرجل یطلق امرأتہ ثلاثاً معا ، ونحوہ فی مسلم جلد 1 صفحہ 477 )
ترجمہ : محدث کبیر امام ابوجعفر طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں اور تینوں کو طلاق کے وقت واقع بھی کردیا تو اس سے لازم ہو جائیں گی (دلیل اس کی حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے کہ) جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تمام لوگوں کو اس چیز کے متعلق خطاب فرمایا کہ تین طلاقیں تین ہی ہوں گی اوران لوگوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی بھی موجود تھے جو حضور علیہ السلام کے عہد مبارک میں اس معاملہ سے بخوبی واقف تھے لیکن کسی نے بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس بات کا انکار نہ کیا اورنہ ہی کسی نے اسے رد کیا ۔ تو یہ سب سے بڑی دلیل ہے کہ اس سے پہلے جو کچھ معاملہ رہا ، منسوخ ہے ۔ اس لیے کہ جس طرح تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا فعل اتنی قوت رکھتا ہے کہ اس سے دلیل پکڑنا واجب ہے اسی طرح حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کاکسی بات پر اجماع کرنا بھی حجت ہے (جیسا کہ اس مسئلہ طلاق میں ہے) ۔

قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْمُفَسِّرُ الْقَاضِیُّ ثَنَائُ اللّٰہِ الْعُثْمَانِیُّ فِیْ تَفْسِیْرِ ھٰذِہِ الْآیَۃِ{أَلطَّلاَقُ مَرَّتٰنِ}لَاَنَّ قَوْلَہُ أَلطَّلَاَقُ عَلٰی ھٰذَا التَّاوِیْلِ یُشْمِلُ الطَّلَقَاتِ الثَّلاَثَ اَیْضاً…لٰکِنَّھُمْ اَجْمَعُوْا عَلیٰ اَنَّہُ مَنْ قَالَ لِاِمْرَأتِہِ أَنْتِ طَالِقٌ ثَلاَثاً یَقَعُ ثَلاَثٌ بِالْاِجْمَاعِ ۔ (تفسیر مظہری جلد 2 صفحہ 300)
ترجمہ : مفسر قرآن قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ آیت {اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ} کی تفسیر میں فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ کا فرمان ’’اَلطَّلَاقُ‘‘اس تفسیر کے مطابق (جو پہلے ذکر کی ہے) تین طلاقوں کو بھی شامل ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ فقہاء ومحدثین نے اس بات پر اجماع کیاہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی کوکہا ’’اَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثاً ‘‘ (تجھے تین طلاقیں ہیں) تو بالاجماع تین ہی واقع ہو جائیں گی ۔

واضح رہے کہ از روئے قرآن وحدیث وجمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین و تبع تابعین ، ائمہ مجتہدین بالخصوص چاروں ائمہ کرام امام اعظم ابوحنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل علیہم الرّحمہ ان تمام حضرات کے نزدیک ایک ساتھ تین طلاق دینے سے تینوں طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان ۔ (سورہ بقرہ آیت نمبر ۲۲۹)

اور اگلی آیت میں ہے : فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ ۔ (سورہ بقرہ آیت نمبر ۲۳۰)

یعنی دو طلاق دینے تک تو مرد کو رجوع کا اختیار ہے ، لیکن جب تیسری طلاق بھی دیدی تو اب مرد کے لئے رجوع کا حق باقی نہیں رہتا ، عورت اپنے شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہو جاتی ہے ۔ اس آیت کی تفسیر میں علامہ قرطبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ترجم البخاری علی ہذہ الایة باب من اجاز الطلاق الثلاث بقولہ تعالیٰ الطلاق مرتان، فامساک بمعروف او تسریح باحسان، وہذا اشارة الی ان ہذہ التعدید انما ہو فسخة لہم فمن ضیق علی نفسہ لزمہ قال علمائنا : واتفق ائمة الفتویٰ علی لزوم ایقاع الطلاق الثلاث فی کلمة واحدة وہو قول جمہور السلف ۔۔۔ المشہور عن الحجاج بن ارطاة وجمہور السلف والائمة انہ لازم واقع ثلاثاً ولافرق بین ان یوقع ثلاثًا مجتمعة فی کلمة او متفرقة فی کلمات ۔ (الجامع لاحکام القرآن جلد ۳ صفحہ ۱۲۹)

اسی طرح احکام القرآن للجصاص میں ہے : قال ابوبکر : قولہ تعالیٰ الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان الایة : یدل علی وقوع الثلاث معاً مع کونہ منہیاً عنہا ۔ (احکام القرآن جلد ۱ صفحہ ۴۶۷)

اسی طرح حدیث میں ہے : حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، قَالَ : حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، " أَنَّ رَجُلًا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فَتَزَوَّجَتْ ، فَطَلَّقَ ، فَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَتَحِلُّ لِلْأَوَّلِ ؟ قَالَ : لَا حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَهَا كَمَا ذَاقَ الْأَوَّلُ ۔
ترجمہ : محمد بن بشار ، یحیی ، عبیداللہ ، قاسم، بن محمد ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم سے روایت کرتے ہیں کہ : ایک شخص نے اپنی بیوی کو "تین طلاق"  دیدیں تو اس عورت نے (دوسرا) نکاح کرلیا پھر اس نے (صحبت کیے بغیر) بھی طلاق دے دی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا کہ کیا وہ پہلے شوہر کےلیے حلال ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا نہیں جب تک کہ اس کا شوہر اس سے لطف اندوز نہ ہو لے جس طرح پہلا شوہر لطف اندوز ہوا تھا ۔ (صحيح البخاري كِتَاب الطَّلَاقِ بَاب مَنْ أَجَازَ طَلَاقَ الثَّلَاثِ رقم الحديث : 4885 (5261))

اس حدیث میں ”طلق امراتہ ثلاثًا“ کا جملہ اس کا مقتضی ہے کہ تین طلاق اکھٹی اور دفعةً دی گئیں ۔ اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے تین طلاقیں اکٹھی واقع ہو جانے پر استدلال ہے ۔ چنانچہ فرماتے ہیں : وہی بایقاع الثلاث اعم من ان تکون مجمعةً او متفرقةً ۔ (فتح الباری جلد ۹ صفحہ ۳۶۲ ط ادارة بحوث العلمیة) ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...