تحریکِ پاکستان میں خلفاء اور خانوادہ امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کا کردار
محترم قارئینِ کرام : اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ اوردو قومی نظریئے کا اِحیا 1897ء میں پٹنہ بہار شریف (انڈیا) میں پہلی سنّی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں سیکڑوں علما و مشائخ کی موجودگی میں خطاب کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مسلم قومیت کا علیحدہ تصور باضابطہ طور پر پیش کیا ، جب کہ امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ نے ’’دو قومی نظریہ ‘‘ کے عنوان سے اپنی سیاسی جدو جہد کا آغاز 1881ء ہی میں شروع فرما دیا تھا ۔
اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت مولانا شاہ احمد رضا خاں محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے شہزادۂ اصغر مفتیِ اعظمِ ہند حضرت علامہ مولانا شاہ محمد مصطفیٰ رضا خاں نوری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے’’آل انڈیا سنّی کانفرنس‘‘ کے ہراجلاس میں باقاعدگی سے شرکت فرمائی، ۱۹۴۶ء میں آل انڈیا سنّی کانفرنس بنارس میں مشائخ و علما کی جو کمیٹی دستور مرتّب کرنے کےلیے منتخب کی گئی آپ کو اس میں سرِ فہرست رکھا گیا، نیز مرکزی ’’دارالافتاء‘‘ کے سر پرست بھی تجویز کیے گئے۔ تحریکِ پاکستان کی حمایت میں ’’آل انڈیا سنّی کانفرنس‘‘کے مشاہیر علما و مشائخ کا متفقہ فیصلہ اخبار’دبدبۂ سکندری‘ رامپورمیں شائع ہوا ، جس میں مفتیِ اعظم ہند مصطفیٰ رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ کا نام سرِ فہرست ہے اس تاریخی فیصلے کا متن ملاحظہ کیجیئے : آل انڈیا سنّی کانفرنس مسلم لیگ کے اس طریقۂ عمل کی تائید کر سکتی ہے جو شریعت ِمطہرہ کے خلاف نہ ہو ، جیسے کہ الیکشن کے معاملے میں کانگریس کو ناکام کرنے کی کوشش، اس میں مسلم لیگ جس سنّی مسلمان کو بھی اٹھائے، سنّی کانفرنس کے اراکین و ممبران اس کی تائید کر سکتے ہیں، ووٹ دے سکتے ہیں، دوسروں کواس کے ووٹ دینے کی ترغیب دے سکتے ہیں۔ مسئلۂ پاکستان یعنی ہندوستان کے کسی حصّے میں آئینِ شریعت کے مطابق فقہی اصول پر حکومت قائم کرنا سنّی کانفرس کے نزدیک محمود و مستحسن ہے ۔‘‘ مفتیِ اعظمِ ہند رحمۃ اللہ علیہ نے وائسرے ہند کے نام ایک ٹیلی گرام میں بھی اس بات پر زور دیا کہ صرف مسلم لیگ ہی ہندوستان کی مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہے ، مسلم لیگ کے موقف کی حمایت میں مفتیِ اعظمِ ہند رحمۃ اللہ علیہ کی تارکی خبر اور دیگر علمائے بریلی کا بیان ہفت روزہ ’’الفقیہ‘‘ امر تسر میں بھی منظرِ عام پر آیا ۔ ۱۹۴۶ء کے فیصلہ کن الیکشن میں مفتیِ اعظمِ ہند مولانا محمد مصطفیٰ رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ نے بریلی میں مسلم لیگ کے امیدوار کےحق میں سب سے پہلا ووٹ ڈالا ، لیگی رضا کار انہیں جلوس کی شکل میں ’’مفتیِ اعظمِ پاکستان‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے واپس آستانۂ رضویہ تک لائے ۔ اس تاریخی واقعے کو حضرت علامہ مولانا مفتی تقدس علی خاں بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت علامہ مولانا محمد عبدالحکیم شریف قادری رحمۃ اللہ علیہ کے نام ایک خط میں یوں بیان فرمایا ہے : حضرت مفتیِ اعظمِ ہند قُدِّسَ سِرُّہُ الْعَزِیْز غالباً ۱۹۴۶ء کے الیکشن میں جس میں کانگریس اورمسلم لیگ کا سخت مقابلہ تھا اور یہ فیصلہ ہونا تھا کہ پاکستان بنے یا نہیں ؟ اس میں اوّل ووٹ حضرت کا ہوا ، امیدوار عزیز احمد خان ایڈووکیٹ تھے ، عزیز احمد خان مسلم لیگ کی طرف سے تھے اور ووٹ ڈالنے کے بعد حضرت کو جلوس کی شکل میں مسلم لیگ کےرضا کار ’’مفتیِ اعظمِ پاکستان‘‘ کے نعروں کے ساتھ آستانہ شریف پر واپس لائے ۔‘‘ (ماہنامہ ضیائے حرم، لاہور ، اگست ۱۹۹۷ء/ ربیع الثانی ۱۴۱۸ھ، جلد نمبر ۲۷، شمارہ ۱۰، ص ۶۷۔۶۸،چشتی)
تحریکِ پاکستان کو تقویت پہنچانے میں حجۃ الاسلام علامہ حامد رضا خاں بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا کردار
تحریکِ پاکستان کو تقویت پہنچانے میں اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت مولانا شاہ احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے شہزادۂ اکبر حجۃ الا سلام حضرت علامہ مولانا شاہ محمد حامد رضا خاں قادری برکاتی بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۴؍ شعبان المعظّم ۱۳۴۳ھ/ مارچ ۱۹۲۵ء میں مسلمانو ں کی مذہبی علمی اور سیاسی ترقی کے لئے مقتدر علما نے ’’آل انڈیاسنّی کانفرنس ‘‘ کی بنیاد رکھی ۔ کانفرنس کے بانی اراکین میں حجۃ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کا اسمِ گرامی سرِ فہرست ہے ۔ کانفرنس کے پہلے تاسیسی اجلاس منعقدہ۲۰ تا ۲۳؍ شعبان المعظّم ۱۳۴۳ھ/ ۱۶ تا ۱۹؍ مارچ ۱۹۲۵ ء مراد آباد میں بحیثیت صدرِ مجلسِ استقبالیہ جو خطبہ ارشاد فرمایا وہ مسلمانوں کے سیاسی ، سماجی ، مذہبی ، معاشی، معاشرتی ، عمرانی غرض ہمہ وجوہ ترقی کے واضح اور مکمل لائحہ عمل پر مبنی ہے، وقت گزرنے کے باوجود آج بھی وہ خطبہ واضح نشانِ راہ ہے، اسی خطبے میں آپ نے ہندو مسلم اتحاد کی بجائے مسلمانوں کے آپس میں اتحاد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا : ’’بے شک دو گھوڑوں کو ایک گاڑی میں جوت کر زیادہ وزن کھینچا جا سکتا ہے ، لیکن بکری اور بھیڑ یے کو ایک جگہ جمع کر کے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا‘‘۔ (ماہ نامہ ضیائے حرم ، لاہور، اگست ۱۹۹۷ء/ ربیع الثانی ۱۴۱۸ھ ، جلد نمبر ۲۷، شمارہ۱۰، ص ۲۰، بحوالۂ’’تخلیقِ پاکستان میں علمائے اہلِ سنّت کا کردار‘‘، حاشیہ ، ص۱۱۹،چشتی)
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بر صغیر پاک و ہند میں جب گاندھی کی خوفناک آندھی چلی تومسلمانوں کے کئی بڑے لیڈر اس کی زد میں آکر خس و خاشاک کی طرح بہہ گئے اور قشفہ لگانے لگے ۔جے پکارنے لگے ،مشرکوں کی تکریم کرنے لگے ،گائے کی قربانی ترک کرنے لگے ۔ رام لیلیٰ منانے لگے ، مشرکوں کو مسجد میں لے جاکر منبر پربٹھانے لگے تو ان نازک حالات میں بریلی کے مرد مجاہد امام احمد رضا خان محدث بریلوی رحمة اللہ علیہ نے "ہندو مسلم اتحاد" کے خلاف صدائے حق بلند کی ۔ تحریری طور پر دو قومی نظریہ قوم کے سامنے پیش کیا ۔ دو قومی نظریہ کی حفاظت کے لئے "جماعت رضائے مصطفےٰ بریلی شریف " قائم کی ۔1921ء میں آپ وصال فرماگئے مگر اپنے پیچھے خلفاء و تلامذہ کی ایک ایسی منظم جماعت چھوڑ گئے جس نے آپ کے مشن کو آگے بڑھایا بلکہ یہ آپ کی حیات ہی میں سر گرم ہو گئے تھے ۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی رحمة اللہ علیہ کے وصال کے بعد آپ کے مشاہیر خلفاء و تلامذہ اور دیگر متعلقین و معاصرین نے دوقومی نظریہ کی افادیت و اہمیت کے پیش نظر سر دھڑ کی باز ی لگا دی اور میدان عمل میں کود پڑے ۔انکی راہ میں کئی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں لیکن ان کے پائے استقلال میں ذرا لغزش نہ آئی اور وہ نہایت تیزی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف روا ں دواں رہے اور بالآخر اِس خطہ میں ایک اسلامی مملکت پاکستان معرضِ وجود میں آگئی ۔ جو آج عالم اسلام کی پہلی واحد ایٹمی طاقت ہے ۔
تاجدار بریلی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی رحمة اللہ علیہ کے خلفاء تلامذہ اور دیگر سنی علماء و مشائخ نے تحریک پاکستا ن میں نہایت موثر کردار ادا کیا ۔ ان تمام کی خدمات تواحاطہ تحریر میں لانا ایک دشوار گزار مرحلہ ہے ۔ پیش نظر مضمون میں صرف امام احمد رضا محدث بریلوی رحمة اللہ علیہ کے چند مشاہیر خلفاء کی سیاسی خدمات کی صرف ایک جھلک دی جارہی ہے تاکہ تحریک پاکستان میں ان کے روشن کردار سے آگاہی ہو سکے اور غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جا سکے ۔
امام المحدثین سید ابو محمد دیدار علی شاہ الوری رحمة اللہ علیہ
دو قومی نظریہ کی حمایت میں امام المحدثین سید ابو محمد دیدار علی شاہ الوری رحمة اللہ علیہ (تاریخ ولادت 1273ھ تاریخ وصال 1354ھ) کا کردار نہایت روشن اور نمایا ں ہے ۔ آپ نے دو قومی نظریہ کی حمایت میں ایک جامع فتویٰ مرتب فرما کر شائع کیا ۔ جس سے کانگریس نواز علماء بڑے سیخ پا ہوئے اور پورے ہندوستان میں کھلبلی مچ گئی ۔
ہندو اور کانگریسی علماء نے شدید مخالفت کی مگر آپ نے سینہ سپر ہو کر اُن کا مقابلہ کیا ۔مولانا محمدعلی جوہر اور مولانا شوکت علی نے دو قومی نظریہ کی تائید میں آپ کے ٹھوس دلائل سنے تو انہوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور لاہور کی تاریخی جامع مسجد وزیرخان میں منعقد عظیم الشان جلسہ میں اپنی غلطی کا اعتراف کر کے دو قومی نظریہ کی مکمل تائید کا اعلان کر دیا ۔
ایک مرتبہ مسجد وزیر خان میں کانگریسی اور احراری علماء نے ایک بڑے سیاسی جلسے کا اہتمام کیا اورآپ خطیبِ مسجد ہونے کی حیثیت سے مدعو تھے ۔ آ پ نے اسی اسٹیج پر اس شد و مد سے کانگریس اور احرار کے سیاسی خیالات کی مخالفت کی جو وہ اپنے ساتھ ہی لے کر چلے گئے جو لاہور والوں تک پہنچانے کے لئے آئے تھے ۔
فقیہ اعظم علامہ ابو یوسف محمد شریف محدث کوٹلی رحمة اللہ علیہ
تحریک پاکستان میں فقیہ اعظم علامہ ابو یوسف محمد شریف محدث کوٹلی رحمة اللہ علیہ (تاریخ ولادت 1280ھ تاریخ وصال 1370ھ) کا کردار روز روشن کی طرح واضح ہے ۔آپ نے تحریک آزادی اور تحریک پاکستان کے حق میں جگہ جگہ پر جوش تقریریں کر کے مسلمانان ہند کو پاکستان اور مسلم لیگ کے حق میں بیدار اور منظم کیا ۔26،27اکتوبر 1945ء کو ڈسٹرکٹ سنی کانفرنس امر تسر کے زیر اہتمام حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا عرس منعقد ہوا ۔ عرس کی تقریب کی صدارت حضرت امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمة اللہ علیہ کر رہے تھے ۔ ان تقریبات میں حضرت فقیہ اعظم محدث کوٹلی ، صدر الافاضل مولانا سید محمدنعیم الدین مراد آبادی ، محدث اعظم سید محمد محدث کچھو چھوی ، شیخ القرآن علامہ عبد الغفور ہزاروی کے اسماء گرامی نہایت نمایاں ہیں ۔ ان تمام علماء حق نے تصور پاکستان اور مطالبہ پاکستان کی پر زور حمایت کا اعلان کیا ۔1945ء اور 1946ء میں انتخابات کے موقع پر کوٹلی لوہاراں کے مولانا محمد احمد چشتی نے آپ سے دریافت کیا کہ ووٹ کسے دینا چاہئیے تو آپ نے جواب میں صریحاً مسلم لیگ کی حمایت کرنے اور اس کو ووٹ دینے کی ہدایت کی۔ تحریک پاکستان کی حمایت میں علماء کرام اورمشائخ عظام کی حمایت کا واضح اور دو ٹوک موقف بنارس سنی کانفرنس (منعقد ہ 27 تا 30 جولائی 1946ئ) میں ظاہر ہوا ۔
حضرت فقیہ اعظم نے دیگر علمائے سیالکوٹ کے ہمراہ بنارس سنی کانفرنس میں شرکت کی اور مطالبہ پاکستان کو تقویت پہنچائی ۔ تحریک پاکستان کے آخری دور میں حضرت قفیہ اعظم مولانا ابو یوسف محمد شریف محدث کوٹلی نے مولانا فقیر اللہ نیازی ، محمد یوسف سیالکوٹی ، مولانا عبد العزیز ہاشمی ، مولانا محمد امام الدین قادری ، مولانا محمد نور الحسن سیالکوٹی اور سید فتح علی شاہ قادری رحمہم اللہ علیہم اجمعین کے ہمراہ متحدہ پنجاب کے تقریباً تمام اضلاع کا دورہ کیا اور مسلمانوں کے سامنے ہندو اور انگریر دونوںکے سامراجی عزائم کو بے نقاب کیا اور مسلم لیگ کی حمایت پر زور دیا ۔
حجة الاسلام علامہ محمد حامد رضا خان قادری بریلوی رحمة اللہ علیہ
دو قومی نظریہ کی پاسبانی میں حجة الاسلام علامہ مفتی محمد حامد رضا خان قادری بریلوی رحمة اللہ علیہ (تاریخ ولادت 1292ھ تاریخ وصال 1362ھ) کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔4شعبان المعظم 1343 ھ بمطابق 1945ء میں مسلمانوں کی مذہبی علمی اور سیاسی ترقی کے لئے مقتدر علماء حق نے آل انڈیاسنی کانفرنس کی بنیاد رکھی ۔کانفرنس کے بانی اراکین میں شہزادہ اعلیٰ حضرت حجة الاسلام کا اسم گرامی سر فہرست ہے ۔
کانفرنس سے پہلے تاسیسی اجلاس منعقد ہ20تا23شعبان المعظم 1343ھ مراد آباد میں بحیثیت صدر مجلس استقبالیہ جو خطبہ ارشاد فرمایا وہ مسلمانوں کی سیاسی ،سماجی ،مذہبی ،معاشی ،معاشرتی عمرانی ترقی کے واضح اور مکمل لائحہ عمل پر مبنی ہے ۔وقت گذرنے کے باوجود آج بھی وہ خطبہ واضح نشان راہ ہے۔ اسی خطبے میں آپ نے ہندو مسلم اتحاد کی بجائے مسلمانوں کے آپس میں اتحاد و اتفاق کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا ۔بے شک دو گھوڑوں کو ایک گاڑی میں جوڑ کر زیادہ وزن کھینچا جا سکتا ہے۔لیکن بکری اور بھیڑ کو ایک جگہ جمع کر کے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔مسلمانوں کو ہندوئوں سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا ۔
یہ سمجھتے رہنا چاہیے کہ یہ دشمن موقع کی تاک میں ہے اور موقع مل جائے تو وہ ہمارے ساتھ کمی نہ کرنے والا ہے ہم اپنے آپ کو اس موقع سے بچاتے رہیں ۔ ایسا نہ ہو کہ پچھلے زمانے کی طرح دشمنوں پر اعتماد کیا جائے اپنی باگ ان کے ہاتھ میں دے دی جائے ۔اپنی کشتی کا ناخدا ان کو مان کر اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں موت کے منہ میں ڈالا جائے ۔ آنکھیں بند کر کے انکی تقلید کرنے لگیں جس راہ وہ ہمیں لے چلیں ہم وہ راہ چل کھڑے ہوں ۔ماضی قریب کی سیاسی جماعتوں اور کمیٹیوں کے اغواء سے مسلمان ان غلطیوں کا شکار ہو چکے ہیں جن کے نتائج آج یہ رو نما ہو رہے ہیں یہ ہندو نے مسلمانوں کے استحصال پر کمر باندھ لی ہے ۔کہیں مرتد کرنے کی کوششیں ہیں ۔کہیں تیغ سے حملے ہیں ۔کہیں قانونی شکنجوں سے کسا جاتا ہے ۔یہ سب اسی ہندو پرستی کا صدقہ ہے جو پچھلے چار پانچ سال مسلمان کرچکے ہیں ۔
مزید فرمایا : الحاصل مسلمان ہندو اور ہندوپرستوں سے پرہیز کریں اپنے امور ان کے ہاتھ میں نہ دیں ۔ اپنے آپ کو ان کی رائے کے سپرد نہ کریں ۔رہزنوں کو رہنما نہ بنائیں ۔ان کی مجالس میں شرکت نہ کریں ۔ ان کی چکنی چیڑی باتوں اور درد اسلام کے دعویٰ سے دھوکہ نہ کھائیں ۔حریفاں چابک فن سے بچیں ۔
لیکن افسوس کہ جن علماء و مشائخ نے تحریک پاکستان میں اپنا تن من دھن قربان کیا ، تقریر و تحریر سے قائد اعظم کے ہاتھوں کو مضبوط کیا آج تحریک پاکستان کے تذکروں میں ان کا نام دور دور تک دکھائی نہیں دیتا ،یہ تاریخ کے ساتھ نا انصافی ہی تو ہے کہ جنہوں نے پاکستان کی خاطر اتنی قربانیاں دیں ان کا تو ذکر ہی موجود نہیں اور جو پاکستان کی "پ"بننے کے مخالف تھے ،قائد اعظم کو کافر اعظم گردانتے تھے انہیں پاکستان کے حامی بلکہ ہیرو کی حیثیت سے پیش کیا جا رہا ہے ۔ اسی لیے شاعر نے کہا تھا :
نیر نگیء سیاست دوراں تو دیکھئے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
ہم سوال کرتے ہیں کہ کیا امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ رحمة اللہ علیہ ، شیخ القرآن علامہ عبد الغفور ہزاروی جیسے افرادِ مجاہد کا تذکرہ موجودہ علماء و مشائخ کےلیے قابلِ تقلید نہ ہے ؟ جو استحکام پاکستان کےلیے ابھی تک میدان میں نہیں نکل رہے ۔ پاکستا ن میں دہشت گردی میں وہی لوگ ملوث ہیں جو پاکستان بننے کی مخالفت کرنے والوں کے پیروکار ہیں ۔حکومت محبِ وطن اور دشمنانِ وطن کی پہچان کرتے ہوئے تحریک قیام پاکستان اور تحریک استحکام پاکستان میں نمایاں کردار ادا کرنے والے علماء و مشائخ کے تذکروں کو شامل نصاب کرے ۔ تاکہ نئی نسل اپنے محسنین کی پہچان کر سکیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment