Sunday, 6 August 2023

نورانیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قرآن کی روشنی میں حصّہ دوم

نورانیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قرآن کی روشنی میں حصّہ دوم
نورانیتِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے متعلق ایک جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا ، وَّدَاعِيًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًا ۔ (سورۃ االاحزاب آیت45,46)
ترجمہ : اے غیب کی خبریں بتانے والے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم بے شک ہم نے تجھے بھیجا حاضروناظر بنا کر اور خوشخبری دینے والااور ڈر سنانے والااور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والااور نور بانٹنے والاآفتا ب بنا کر ۔

عربی لغت میں سراج سے مراد سورج ہے اور منیرا سے مراد نور بانٹنے والا ، یا نور تقسیم کرنے والا،جو لوگ سِرَاجًا مُّنِیْرًا کا ترجمہ کرتے ہیں روشن آفتاب وہ صحیح نہیں ہے کیونکہ عربی میں روشن کےلیے لفظ منور استعمال ہو تا ہے جبکہ منیرسے مراد نور تقسیم کرنے والا کے ہیں ۔ اگر ہم قرآن پاک کے الفاظ سِرَاجًا مُّنِیْرًا کی گہرائی میں جا کر دیکھیں ، تو ہمیں پتہ چلے گا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں سورج کےلیے لفظ استعمال کیا ہے وجعل فیھا سراج اور چاند کےلیے لفظ استعمال کیا ہے وقمرًا منیرًا ۔چونکہ سراج یعنی سور ج کی حکمرانی دن کو ہوتی ہےیعنی وہ دن کو روشنی بکھیرتا ہے اور قمر یعنی چاند کی حکمرانی رات کو ہوتی ہےاوروہ رات کو روشنی تقسیم کرتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کےلیے یہ دونوں الفاظ یکجا کر دئیےاور سِرَاجًا مُّنِیْرًا ارشاد فرما کر یہ عیاں کر دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نور کی ضیا پاشیاں دن کو بھی ہوتی ہیں اور رات کو بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا نور روشنی بکھیرتا ہے ۔

يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَيَاْبَى اللّٰهُ اِلَّآ اَنْ يُّتِمَّ نُوْرَهٗ وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ ۔ (سورۃ توبہ آیت 33)
ترجمہ : کفار چاہتے ہیں کہ اللہ کا نور (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) اپنے مونہوں سے (پھونکیں مار کر) بجھا دیں مگر اللہ انہیں ایسا نہیں کر نے دے گا وہ اپنے نور کو پورا کرکے چھوڑے گا اگرچہ کا فروں کو برا ہی لگے ۔ اس آیت میں بھی نور سے مراد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہی ہیں حوالہ کے لیے کتابیں درج ہیں ۔ (تفسیر دُرّ ِ منشورجلد3صفحہ 231)(نسیم الریاض جلد2صفحہ 396،چشتی) (مطالع المسرات استناداً صفحہ 104)(موضوعاتِ ملاعلی قاری صفحہ99)(زرقانی علی المواہب جلد 3صفحہ149)

اللہ جل شانہُ ایک اور مقام پر یہ ارشاد فرماتا ہے : يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ ۭ وَاللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ ۔ (سورۃ الصف، آیت 8)
ترجمہ : چاہتے ہیں کافر لوگ کہ اللہ کے نور (حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم) کو اپنے مونہوں (کی پھونکوں( سے بجھا دیں اور اللہ کو تو اپنا نور پورا کرنا ہے اگرچہ کافر برا ہی منائیں ۔

یہاں بھی نور سے مراد نورِ مصطفیصلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ہی ہے ،حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم اللہ کا نور ہیں ۔کافریہ چاہتے تھے کہ نعوز با للہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کو قتل کر دیں تا کہ اسلام کی شمع گل ہو جائےمگر اللہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا محافظ و نگہبان ہے ۔

حکیم الامت مفتی احمد یار خاں نعیمی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر نور العرفان کے صفحہ نمبر 305 میں امام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف موضوعاتِ کبیر کے حوالے سےبیان کیا ہے کہ کہ ملا علی قاری نے موضوعات ِکبیر کے آخر میں فرمایاکہ قرآن مجید میں ہر جگہ نور سے مراد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ہیں ۔ (نور العرفان ازمفتی احمد یار خاں نعیمی صفحہ305 ,882)

اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ ۭ اَلْمِصْبَاحُ فِيْ زُجَاجَةٍ ۭ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَيْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَّلَا غَرْبِيَّةٍ ۙ يَّكَادُ زَيْتُهَا يُضِيْۗءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۭ نُوْرٌ عَلٰي نُوْرٍ ۭ يَهْدِي اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ ۔ (سورہ النور آیت 35)
ترجمہ : اس کے نور )محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم) کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق کے اندر ایک چراغ ہے جس کے اور ایک فانوس ہےوہ فانوس گویا ایک ستارے کی مانند ہے جو موتی کی طرح چمکتا ہوا روشن ہے جو جلتا ہے ایک برکت والے زیتون کےدرخت مبارک کے تیل سے،جو نہ مشرق کا نہ مغرب کا ،قریب ہے کہ اس کا تیل بھڑک اُٹھے اگرچہ اس کو آگ نہ چھوئے ،نور کے اوپر ایک اور نور ہے ،اللہ اپنے نور کی راہ بتاتا ہے جسے چاہتا ہے ۔ اس آیت میں مثل نورہ اس کے نور سے مراد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں ۔ (تفسیر کبیرجلد7صفحہ 403)(تفسیرمظہری جلد6صفحہ 522)( تفسیر دُرِ منشور جلد 5صفحہ 48)(شرح شمائل القار ی جلد 1صفحہ 47،) (اشعۃُاللمعات جلد1صفحہ 725، جواہر البحار جلد 1 صفحہ 6،چشتی)(تفسیر خازن جلد3صفحہ332)(زرقانی علی المواہب جلد6صفحہ238)(تفسیر حقانی جلد5صفحہ 244)(موضوعاتِ قاری صفحہ 99)(شواہد النبوت صفحہ3)(تفسیر روح البیان جلد 4 صفحہ 141)

امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ اَلْمِصْبَاحُ فِيْ زُجَاجَةٍ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَيْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَّلَا غَرْبِيَّةٍ يَّكَادُ زَيْتُهَا يُضِيْۗءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌنُوْرٌ عَلٰي نُوْرٍ يَهْدِي اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ ۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا نور ہے حضرت کعب اور حضرت ابنِ جبیر رضی اللہ عنہما نے فرمایا اس کے نور کی مثال نورِمحمد صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ہے ۔ حضرت سہل تستری نے فرمایا اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ آسمان اور زمین والوں کا ہادی ہے اس کا نور ،نورِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی مثل جب کہ وہ پیٹھوں میںتھا طاق کی طرح ہے یعنی اس کے نور کی صفت اس طرح تھی اور مصباح سے مراد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا قلب مبارک ہے ،زجاجہ [فانوس] حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا سینا ہے یعنی وہ چمکتا ہوا موتی روشن ستارہ ہےاس لیے کہ اس میں ایمان اور حکمت ہے ۔ برکت والے درخت یعنی نورِ ابراہیم علیہ السّلام سے منور ہےنورِ ابراہیم علیہ السّلام کی مثال شجرہ مبارکہ سے بیان کی گئی ہے اور قریب ہے کہ اس کا تیل بھڑک اٹھے یعنی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی نبوت کلام سے قبل اس تیل کی طرح خودبخود لوگوں کے لیے ظاہر ہو جائے ۔ (شفا شریف جلد 1صفحہ 13)(شرح شفا القاری جلد1صفحہ108)(زرقانی مواہب الدنیہ جلد 6 صفحہ 238)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات اقدس نور ہے اللہ کریم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی نورانیت کو کبھی براہ ِراست اور کبھی تشبیہ و استعارہ کے روپ میں قرآن مجید میں بیان کیا ہے ۔ درج ذیل آیت میں نبی کرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نور مقدس کو بطور استعارہ استعمال کیا ہے :

وَالنَّجْمِ اِذَا هَوٰى ۔
ترجمہ : اس چمکتے ہوئے تارے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کی قسم جب یہ معراج سے اترے ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے النجم کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ نجم سے مراد محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں ھو ا کے معنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا انوار سے بھرا اورغیر اللہ سے منقطع کشادہ سینہ مبارک ہے ۔ (شفا شریف جلد 1صفحہ 28)(تفسیر روح البیان جلد 6 صفحہ 4،چشتی)(تفسیر مظہری ،جلد9 صفحہ 103)(شرح زرقانی جلد 6 صفحہ 216)

اس آیت مقدسہ میں نجم سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں ، ستارہ آسمان کا نور اور اس کی زینت ہوتا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم زمین کا نور اور اس کی زینت ہیں ۔ جن مفسرین کرام نے نجم سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات مبارکہ کو لیا ہے ، ان کا حوالہ پیش خدمت ہے ۔ (تفسیر خازن،جلد 4صفحہ 190)( تفسیر صاوی جلد 4 صفحہ 114)(تفسیر خزائن العرفان صفحہ625)

وَالْفَجْرِ ، وَلَيَالٍ عَشْرٍ ۔ (پارہ 30 سورہ فجر)
ترجمہ : قسم ہے صبح کی اور قسم ہےدس راتوں کی ۔
حضرت ابن عطا ء رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کے اس قول والفجر o و لیال عشر o کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ فجر سے مراد حضورصلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ہیں اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ایمان کا مطلع ہیں ، ایمان آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ظاہر ہوا ۔ آپ ہی کا وجود تاریکیوں میں فجر کی علامت ہے ۔ (شفا شریف جلد 1 صفحہ 82)

وَالسَّمَاۗءِ وَالطَّارِقِ ، وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا الطَّارِقُ ، النَّجْمُ الثَّاقِبُ ۔ (سورۃ طارق)
ترجمہ : آسمان کی قسم اور رات کو آنے والے کی قسم ، اور کچھ تم نے جانا رات کو آنے والا کیا ہے ،خوب چمکتا ہوا تارا ہے ۔

مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ان انجم ھنا ایضاً محمد ۔ یعنی نجم سے مراد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں ۔ (شفا شریف ،جلد 1صفحہ 30)(نسیم الریاض جلد 1 صفحہ 215)

وَالشَّمْسِ وَضُحٰهَا ، وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰهَا ۔ (سورۃ الشمس)
ترجمہ : سورج کی قسم اور اس کی روشنی کی قسم اور چاند کی جب اس کے پیچھے آئے ۔

اس آیت میں شمس سے مراد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا دل انور ہے اور ضحی سے مراد نور نبوت کی روشنی ہے ،اور قمر سے مراد مرشد کامل ہے ۔ بعض تفا سیر میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چہرہ انور کو وضحی کہا گیا ہے اور لیل سے مراد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زلفیں ، ضحی وہ وقت ہوتا ہے جب سورج اپنی پوری آب و تاب سے آسمان پر جلوہ گر ہوتا ہے ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم چونکہ منبع انوار ہیں اس لیے ضحی کا وقت وہ ہو تا ہے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چہرہ انور کی روشنی سے پورا عالم منور ہوتا ہے ، حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں : شمس سے مراد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا دل مبارک ہے ، ضحی سے مراد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نور نبوت کی روشنی ہے اور قمر سے مراد مرشد کامل ہو تا ہے ، جو پیغمبر کے نقش قدم پر ہوتا ہے جس طرح چاند سورج کی پیروی کرتا ہے یعنی سورج کے بعد طلوع ہوتا ہے اس طرح مرشد کامل حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد چاند کی مانند حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے روشنی لے کر تقسیم کرتا ہے ۔ (تفسیر عزیزی پارہ نمبر 30 صفحہ نمبر 188ٍ،چشتی)

حضرت سیّدہ آمنہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ کی ولادت کے وقت ایسا نور ظاہر ہوا جس نے جملہ عالم مشرق و مغرب کو منور کر دیا ۔ بصریٰ و روم و شام کے محلات نظر آگئے ۔ فاطمہ بنت عبداللہ بھی اس وقت موجود تھیں انہوں نے دیکھا کہ ہمارا گھر آپ کے نور سے معمور ہو گیا ۔ (مواہب الدنیا مدارج النبوت جلد 2 صفحہ 14)

ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت ہے کہ بوقت سحر میں کپڑا سی رہی تھی کہ اچانک چراغ بجھ گیا اور سوئی ہاتھ سے گر گئی پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لائے تو آپ کے چہرہ مبارک کے نور میں میں نے سوئی تلاش کر لی اور اسی روشنی سے دھاگا سوئی میں ڈال لیا ۔ (جواہر البحار صفحہ 814 نسیم الریاض جلد 1 صفحہ 328 مطالع المسرات صفحہ 239،چشتی)

حدیث قدسی : حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ تعالٰی عنہ)سے روایت ہے" اللہ تعالٰی نے(اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان اقدس پر ) فرمایا کہ جس نے میرے ولی سے عداوت کی میرا اس سے اعلان جنگ ہے اور جن چیزوں کے ذریعے بندہ مجھ سے نزدیک ہوتا ہے ان میں سب سے زیادہ محبوب چیز میرے نزدیک فرائض ہیں اور بندہ نوافل کے ذریعہ میری طرف ہمیشہ نزدیکی حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں تو جب میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں تو اس کے کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اسکی آنکھیں ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور میں اس کے پاؤں بن جاتا جس وہ چلتا ہے ، اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے ضرور دیتا ہوں اگر وہ مجھ سے پناہ مانگ کر کسی بری چیز سے بچنا چاہے تو میں اسے ضرور بچاتا ہوں ۔ (صحیح بخاری مطبوعہ مجتبائی جلد 2 صفحہ 963،چشتی)(مشکٰوۃ مطبوعہ کانپور کتاب الداعوات جلد 1)

امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ اسی حدیث قدسی کی تشریح کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : اور اسی طرح جب کوئی بندہ نیکیوں پر ہمیشگی اختیار کر لیتا ہے تو اس مقام پر پہنچ جا تا ہے جس کے متعلق اللہ تعالٰی نے " کنت لہ سمعاً و بصراً" فرمایا ہے ، جب اللہ کے جلال کا نور اس کی سمع ہو جاتا ہے تو وہ دورونزدیک کی بات کو سن لیتا ہے اور جب یہی نور اس کا بصر ہو گیا تو وہ دورونزدیک کی چیزوں کو دیکھ لیتا ہے اور جب یہی نور جلال اس کا ہاتھ ہو جائے تو یہ بندہ مشکل اور آسان دور اور قریب کی چیزوں میں تصرف کرنے پر قادر ہو جاتا ہے ۔ (امام فخرالدین رازی تفسیر کبیر سورہ کہف آیت ام حسبت ان اصحٰب الکھف جلد 21 صفحہ 91)

اس حدیث قدسی کی شرح میں امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے مقرب بندہ کی شان میں جو کچھ لکھا ہے وہ عبد اور بشر سمجھتے ہوئے لکھا ہے ، جس ظاہر ہے کہ اس طرح ان صفاتِ عالیہ کا اس بندے کےلیے ماننا اس کی عبدیت اور بشریت کے منا فی نہیں ۔

اللہ تعالٰی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کہیں بھی اپنے طور پر بشر نہیں کہا، بلکہ اگر ضرورت پیش آگئی تو نبی ہی سے کہلوایا کہ وہ بشر ہیں اگر اللہ اپنے طور پر اعلان فرما دیتا کہ نبی بشر ہیں تو سارا جھگڑا ہی ختم ہو جاتا، نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں اللہ تعالٰی نے یٰسین ۔ طٰہ ۔ نور ۔ سراجاً منیرا اور بہت سے صفاتی ناموں سے پکارا ہے ۔

انوار محمدیہ من مواہب اللدنیا صفحہ 9 میں ہے : نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ، میں آدم علیہ الصلٰوۃ والسلام کے پیدا ہونے سے چودہ ہزار سال پہلے اپنے رب کے حضور میں ایک نور تھا ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ الصلٰوۃ و السلام سے فرمایا اے جبریل آپ کی عمر کتنے سال ہے ؟ جبریل علیہ الصلٰوۃ و السلام نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ تعالٰی علیک وسلم) اس کے سوا میں نہیں جانتا کہ ایک ستارہ ستر ہزار سال بعد طلوع ہوتا تھا میں نے اسے بہتر ہزار مرتبہ دیکھا طلوع ہوتے دیکھا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اے جبریل مجھے اپنے رب جل جلالہ کی قسم وہ ستارہ (نور) میں ہوں ۔ (جواہر البحار صفحہ 248،چشتی)(تفسیر روح البیان جلد 3 صفحہ 974)

قدجاء کم من اللہ نور کی تفسیر بیان علامہ سید احمد سعید شاہ صاحب کاظمی علیہ الرحمہ از خطباتِ کاظمی : ⬇

٭ حضرات محترم! فقیر اسی مارہ ربیع الاول میں ایک دن سفر میں جارہا تھا کہ کسی نے پوچھا کہ تم اتفاقی چیزیں کیوں بیان نہیں کرتے۔ بلاوجہ لوگوں کو اختلافات میں ڈالا ہوا ہے اور ایسے مسائل بیان کرتے ہو جو موجب نزاع ہیں تو فقیر نے جواب دیا ہم جو مسائل بیان کرتے ہیں وہ سب اتفاقی ہیں اور ان پر اجماع ہوچکا ہے پھر اگر کوئی منکر سلف صالحین کے گروہ سے نکل کر کلام کرے تو یہ اس منکر کا قصور ہے۔ البتہ ہمارا کام ہے اسکو سمجھانا اگرچہ وہ نہ سمجھیں گے۔ لیکن عوام تو انکی گمراہی سے بچ جائیں گے۔
٭ حضرات محترم! قَدْ جَائَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتَابٌ مُّبِیْنٌ آیت مبارکہ میں جو میں نے آپکے سامنے تلاوت کی۔ اس آیت میں لفظ نور سے مراد بعض لوگوں نے اسلام لیا ہے۔بعض نے قرآن مگر حقیقت یہ ہے کہ یہاں اس نور سے مراد بالاتفاق و بالا جماع ذات پاک محبوب کبریا محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ﷺ ہیں اور نور آپﷺ کے اسماء میں سے بھی ہے۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا’’ قَدْ جَائَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ ‘‘ سے مراد حضرت محمدﷺ ہیں۔ اسی طرح حضرت امام مجاہد جو آپ کے شاگر د ہیں فرماتے ہیں کہ’’ قَدْ جَائَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ‘‘ سے مراد محمد ﷺ ہیں۔ سید بن جریج و قتادہ وزجاج اور جلال الدین سیوطی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ’’ قَدْ جَائَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ‘‘ سے مراد ذات پاک محمد رسول اللہ ﷺ ہیں۔
شبہ
٭ آپ فرماچکے ہیں کہ بعض کے نزدیک نور سے مراد اسلام و قرآن ہے۔ لہذا یہ اجماع امت تو نہ ہوا کہ حضورﷺ نور ہیں۔
شبہ کا ازالہ
٭ بعض لوگوں نے نور سے مراد اسلام اور قرآن لیا ہے یہ دراصل معتزلہ کا مسلک ہے۔ اہل سنت کا یہ مسلک ہرگز نہیں جیسا کہ ذیل کا حوالہ شاہدہے اور ہمارا اجماع امت کہنے کا مقصد بھی یہی اہل سنت و جماعت کا اجماع ہے۔
وقال ابو علی الجبانی عنی بالنور القرآن لکشفہ و اظہارہ طرق الھدی و الیقین واقتصر علی ذالک الزمخشری(روح المعانی الجز السادس ص ۸۷)
٭ باقی رہا یہ کہ جب یہ قول معتزلہ کا ہے تو بعض علماء نے اس قول کو کیوں لیا ہے؟ اسکی وجہ یہ ہے کہ معتزلی اپنے آپکو حنفی کہلاتے تھے جیسا کہ روح المعانی میں ہے اسیطرح زمحشری کو بعض نے حنفی شمار کیا ہے کیونکہ حنفیت اعمال ہے اور اعتزال اعتقاد ہے فقط زبانی باتوں سے نہیں پہچانا جاتا کہ یہ معتزلی ہے جب تک اعتقاد کے بارے میں گفتگو نہ کی جائے جب یہ ثابت ہوگیا کہ نور سے اسلام اور قرآن مراد لینا معتزلہ کا مسلک ہے۔ اہلسنت و جماعت کا مسلک نہیں تو یقینا نور سے مراد ہمارے آقاﷺ  ہیں جیسا کہ صاحب روح المعانی اس آیت کے تحت فرمایا ہے
وَھُوَ نُوْرُ الْاَنْوَارِ النَّبِیُّ الْمُخْتَارُ(روح المعانی الجزء السادس ص ۸۷)
ترجمہ٭ یعنی ہمارے آقاﷺ  نوروں کے نور اور نبی المختار ہیں۔
٭ حضرات محترم! اگر بالفرض نور سے مراد قرآن و اسلام بھی لیاجائے تو پھر بھی ہمارے آقاﷺ  نور ہیں کیونکہ قرآن کی تعریف ہے کہ کلام اللہ غیر مخلوق ۔ کلام اللہ کیساتھ غیر مخلوق کی قید بڑھائی گئی ہے تو مشائخ متکلمین نے اسکی وجہ یہ بیان کی ہے کہ یہ تعریف کلام نفسی کی ہے نہ کہ کلام لفظی کی اور کلام نفسی غیر مخلوق ہے کیونکہ یہ اللہ کی صفت قدیمہ اور غیر مخلوقہ ہے اور کلام لفظی مخلوق وحادث ہے اور نور کلام لفظی کی صفت ہے نہ کہ کلام نفسی کی ہمارے آقا ﷺ جمیع مخلوق سے افضل ہیں۔ لہذا کلام لفظی جو مخلوق و حادث ہے۔ اس سے بھی افضل ہوئے تو بتائو جب قرآن  (جوباعتبار کلام لفظی مخلوق و حادث ہے) نور ہے۔ تو ہمارے آقاﷺ  بھی ضرور نور ہونگے کیونکہ جو کچھ حضورﷺ نے فرمایا اور کرکے دکھایا وہ ادائیں نور ہیں تو ادائوں والا کیسے نور نہ ہوگا ؟علاوہ ازیں حضورﷺ جمیع اشیاء کی اصل ہیں اگر اصل بے نور ہوتو فرع کیسے نور ہوگی؟ علم و عمل‘ ایمان و عرفان‘ عقل و دانش نور ہیں‘ آفتاب و ماہتاب اور ستارے نور ہیں جوکہ فرع ہیں اور پھر اصل کیسے بے نور ہوگا؟
شبہ
٭ جیسا نور تم حضور سید عالم ﷺ کیلئے ثابت کیا ہو ویسا نور تو نہیں ہے لہذا حضورﷺ نور ہوئے تو کیا ہوا؟ قرآن پڑھنے کیلئے بھی شمع کی ضرورت ہے اور حضور سید عالم ﷺ کے دولت کدہ پر بھی شمع جلانے کی ضرورت ہوتی تھی۔
شبہ کا ازالہ
٭ لفظ ایک ہوتا ہے لیکن منسوب ہونے کی وجہ سے معنی متفاوت ہوجاتے ہیں جیسا کہ اللہ نے اپنے آپﷺ کو شہید کہا ہے
وَھُوَ بِکْلِّ شَیْ ئِ شَہِیْدٌ
٭ اور اپنے رسول کو بھی شہید کہا ہے
وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا
٭ اور قرآن نے ہم کو بھی شہید کہا
وَکَذَالِکَ جَعَلْنَاکُمْ اُمَّۃٌ وَّسَطاً لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَائَ عَلَی النَّاسِ
٭ تو بتائو کیسا ہر ایک کے شہید ہونے کا ایک معنی ہے ہرگز نہیں بلکہ ہر ایک کے لائق معنی ہوگا۔ اسیطرح ’’مَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللّٰہ ُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ‘‘ کیا یہاں بھی مکر کا ایک معنی ہوگا‘ ہرگز نہیں بلکہ مکر کا معنی ہے دھوکہ میں ڈالنا اور ’’ مَکَرَ اللّٰہ‘‘ کا مطلب دھوکہ سے نکالنا اسیطرح تورات بھی نور ہے اورقرآن بھی نور ہے تو بتائو قرآن اور تورات یکساں ہیں ہرگز نہیں بلکہ قرآن افضل ہے لہذا ثابت ہوا کہ فقط ایک لفظ کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ نسبت کوبھی دیکھایاجاتا ہے۔ نور قرآن کی طرف منسوب ہوگا تو معنی اور ہوگا اور نور حضور سید عالم نور مجسم محمد عربی ﷺ کیطرف منسوب ہوگا تو معنی اور ہوگا ۔علاوہ ازیں آپ نے اس واقعہ کو تو دیکھا کہ شمع آپﷺ کے دولت کدہ میں جلتی تھی مگروہ بات آپ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جب آپﷺ تبسم فرماتے تھے تو پورا گھر روشن ہوجاتا تھا۔ آپ نے ایک آنکھ سے تو دیکھا کہ شمع روشن ہوتی تھی مگر دوسری آنکھ سے نہ دیکھا کہ حکمت کے تحت جلوئوں کا اظہار ہوتا تھا۔
٭ بعض چیزوں میں معنی اور بعض اعیان ہوتی ہیں جیسے قرآن کے الفاظ و اوراق اعیان ہیں اور مفہوم و مطلب معانی اور علم و عرفان اور ایمان معانی ہیں اور قرآن کا معنی نور ہے اور میرے آقاﷺ  جامع اعیان و معنی ہیں تو تعجب ہے کہ جس کا فقط معنی نور ہو اسکو تو نور مانتے ہیں اور جو جامع اعیان و معانی ہو اسکو نور نہیں مانتے ابن کثیر جو بڑا محتاط مفسر ہے متعدد سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے کہ جب حضورﷺ پیدا ہوئے تو تمام گھر نور سے بھر گیا حتیٰ کہ بصری نظر آنے لگا اور وہاں اونٹ بھی نظر آئے۔ یہاں تک ایک اونٹ کی گردن مڑی ہوئی تھی وہ بھی نظر آنے لگا۔
شبہ
٭ اگر نور ہیں تو کھاتے پیتے کیوں تھے دندان مبارک سے خون جاری کیوں ہوا؟ آپﷺ کی اولاد کیوں ہوئی؟ ہجرت کیوں فرمائی غار میں پناہ کیوں لی؟ غسل کیوں دیاگیا کفن کیوں پہنایا گیا۔ مزار کیوں بنائی گئی؟ نور ان تمام مذکورہ بالا احکام سے مبرا ہے اور یہ جمیع احکام عدم نورانیت پر دال ہیں۔
شبہ کا ازالہ
٭ بے شک ہم جانتے ہیں کہ یہ احکام عدم نور پر دال ہیں۔ یہ اس نور کے منافی ہیں جو فقط نور مانیں اور ہم نے ہزار بارکہا کہ آپﷺ فقط نور نہیں ہیں بلکہ جمیع اشیاء کے حقائق کا منبع ہیں۔ آپﷺ کے اندر آگ پانی ہوا کی حقیقت موجود ہے۔ آپﷺ میں بشریت بھی ہے اور نورانیت بھی لیکن بے عیب بشریت ہے۔ غرضیکہ محبوب ﷺ کے اندر کوئی عیب نہیں۔لوگوں کا یہ الزام لگانا کہ بشریت کا انکار کرتے ہیں ہذا بہتان عظیم۔ ہم بے شک بشریت مانتے ہیں لیکن بے عیب بشریت مانتے ہیں اور تمام حقائق اور لطائف کا مجموعہ ہیں۔ جیسے آم کا درخت پچاس من کا وزن رکھتا ہے اور گٹھلی بہت کم وزن رکھتی ہے تو بتائو کہ یہ آم یہ پچاس من رکھنے والا آم اس گٹھلی کے اندر ہے۔ کیا یہ پچاس من کا وزن اس گٹھلی میں ہے؟ ہرگز نہیں مگر پچاس من کا وزن رکھنے والی شاخوں اور تنے کی حقیقت لطیفہ اس گٹھلی کے اندر موجود ہے۔اسی طرح جیسے اللہ تعالیٰ  قادر ہے کہ پچاس من کی حقیقت لطیفہ کو ایک گٹھلی کے اندر سمادے ۔ اسی طرح قادر ہے کہ اٹھارہ ہزار عالم کی حقیقت لطیفہ کو حضور سید عالم ﷺ کے اندر سما دے۔آپ بھی آئینہ دیکھتے ہیں تو آپ کی صورت اس آئینہ کے اندر نظر آئے گی۔ جو ذات قادر ہے کہ تمہاری صورتوں کو لطیف کردے وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ جمیع حقیقتوں کو لطیف کردے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے جنت اور دوزخ کوبوقت نماز سورج گرہن ایک دیوار میں دکھادیا اب ثابت ہوا کہ حضورﷺ تمام حقائق کائنات کا مجموعہ ہیں اور آپﷺ بے عیب ہیں اس لئے کہ آپﷺ محمد ہیں اور محمد بے عیب ہوتا ہے۔
٭ اب پتہ چلا کہ بشریت ہے لیکن بے عیب۔ بشریت میں آدم علیہ السلام کے بیٹے ہیں اور نورانیت میں والد ہیں۔ آپ نے فقط نسل کو دیکھا اصل کو نہ دیکھا ہم نے دونوں کو دیکھاہے ذرا غور سے دونوں کو دیکھو۔ جسکی ایک آنکھ ہوتو وہ کہے کہ تمام انسانوں کی ایک آنکھ ہے کیوں کہ میری آنکھ جو ایک ہے تو یہ اسکا اپنا قصور ہے یا عیب ہے۔ذرا آپ ایک آنکھ سے نہ دیکھیں بلکہ دونوں آنکھوں سے دیکھیں۔ صوم وصال شاہد ہے نورانیت کا۔ حتی کہ اکیس دن تک بھی ثابت ہے کہ آپﷺ نے نہ کھایا ہے نہ پیا۔ یہ نہ کھانا نورانیت کی دلیل ہے اور کبھی کبھی کھانا بشریت کی دلیل ہے۔ جب سرکارﷺ نے صو م وصال رکھے تو صحابہ کرام نے بھی صوم وصال شروع کردیا تو تیسرے یوم تک یہ حالت تھی کہ مسجد کے دروازے پر گر پڑے چلنے کی طاقت نہ رہی توآپﷺ نے پوچھا کہ کیاوجہ ہے کہ اتنی بے طاقتی ہوگئی ہے تو صحابہ نے عرض کیا کہ حضور ﷺ جب ہم نے آپﷺ کو صوم وصال رکھتے ہوئے دیکھا تو ہم نے بھی شروع کردیے تو آپﷺ نے فرمایا
اَیُّکُمْ مِثْلِیْ اَبِیْتُ عِنْدَرَبِّیْ وَھُوَ یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِیْ
ترجمہ٭ تم میں کون میری مثل ہے میں تو رب کے پاس رات گذارتا ہوں وہ مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے۔
شبہ
٭ یہ کیسا روزہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کھاتے بھی ہیں اور پیتے بھی ہیں اور ظاہر ہے کہ اللہ ہر ایک کو کھلاتا بھی ہے اور پلاتا ہے لہذا ہم بھی روزہ رکھ کر کھاناشروع کردیں اور کہیں کہ ہمیں اللہ کھلاتا بھی ہے اور پلاتا بھی ہے حالانکہ ایسا کرنے سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے تو یہ کیسا روزہ ہے کہ کھاتے پیتے بھی تھے اور صوم وصال بھی تھا۔
شبہ کا ازالہ
٭ وَھُوَ یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِیْ کا یہ مطلب نہیں کہ جسمانی غذا روٹی پانی وغیرہ استعمال فرماتے تھے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک وہ مزہ لیتے تھے جو جسمانی غذا سے متعلق نہ تھا۔ فساد روزہ جسمانی غذا سے ہوتا ہے ۔ اکل وشرب جسمانی غذا سے ہے اور آپﷺ ہم جیسے نہیں بلکہ آپﷺ کی بشریت نہایت لطیف بشریت ہے بلکہ مولوی رشید احمد گنگوہی نے بھی لکھا ہے کہ انبیاء کی بشریت روح کا حکم رکھتی ہے اسلئے حضورﷺ نے فرمایا
اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَیٰ الْاَرْضِ اَنْ تَاکُلَ اَجْسَادَ الْاَنْبِیَائِ
٭ اسیطرح آپﷺ کا خون نکلنا بشریت کی دلیل ہے اور شق صدر کے موقع پر خون کا نہ نکلنا نورانیت کی دلیل ہے بلکہ میں تو یوں کہوں گا کہ آپﷺ کا خون مقدس اسلئے نکلا کہ شہداء کا خون اسکے دامن میں آجائے اسطرح واقعی بیمار ہوئے اور بیمار ہونا بشریت کی دلیل ہے لیکن ذرا مسلم شریف اٹھا کر دیکھئے کہ اسماء رضی اللہ عنہ کے پاس جبہ مبارک تھا جس رات سے مریض شفا یاب ہوجاتے تھے۔ اسیطرح آپﷺ کالعاب مبارک بھی ذریعہ شفا تھا اگر اسکے بارے میں تمام احادیث بیان کی جائیں تو عمر کم ہے بیان نہ ہو سکیں گی اسلئے خصائص کبری کا مطالعہ کافی ہے جسکے پڑھنے سے پوری تشفی ہوجاتی ہے بلکہ میں تو یوں عرض کروں گا کہ اگر سرکارﷺ بیمار نہ ہوتے تو ہماری بیماریاں ضائع ہوجاتیں حالانکہ ایک چھوٹی سی بیماری کے بدلہ میں دس گناہ معاف ہوتے ہیں۔
٭ حضرات محترم! آپﷺ جیسے دن میں دیکھتے تھے ویسے ہی رات کو بھی دیکھتے تھے اندھیرا اور اجالا آپﷺ کیلئے برابر تھا۔ اور آپﷺ آگے پیچھے برابر دیکھتے تھے۔ حضور دنیا میں رہ کر عالم برزخ ‘ فوق سما کو برابر دیکھتے تھے اور جنت اور دوزخ کا مشاہدہ بھی فرماتے تھے۔ اسلئے حضورﷺ نے فرمایا
وَاِنِّی لَاَنْظُرُ اِلٰی حَوْضِی الْاٰنَ (بخاری جلد ۲ ص ۵۸۵)
٭ اسی طرح آقا دوجہاںا دو قبروں سے گذرے اور فرمایا کہ ان دو قبر والوں پر عذاب ہورہا ہے اور ان سے عذاب کم کرنے کیلئے کھجور کی دو ٹہنیوں کو توڑ کر قبر پر رکھا اور اس عمل سے بتا دیا کہ قبر والوں کا حال میری نگاہ سے پوشیدہ نہیں اور ان سے عذاب دفع کرنے کی دوا بھی جانتا ہوں ۔ ان کا مددگار بھی ہوں دوا بھی ہوں اور مشکل کشا بھی ہوں۔
٭ حضرات محترم!ان امور سے ثابت ہوا کہ آپﷺ بشر بھی ہیں اور نور بھی۔ لیکن ایک آنکھ بند کرکے صرف بشریت کا اعلان کرنا اور نورانیت سے روکنا نہایت جہل نہیں تواور کیا ہے۔ ہم حضورﷺ کی بے عیب بشریت کو مانتے ہیں اور نو ربھی مانتے ہیں اور اس پر اجماع امت ہے کہ ہمارے آقاﷺ  واقعی نو ر ہیں ۔ وما علینا الالبلاغ ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...