Wednesday 16 August 2023

انہوں نے اپنے پادریوں اور جوگیوں کو اللہ کے سوا خدا بنالیا

0 comments
انہوں نے اپنے پادریوں اور جوگیوں کو اللہ کے سوا خدا بنالیا
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اِتَّخَذُوۡۤا اَحۡبَارَهُمۡ وَرُهۡبَانَهُمۡ اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ وَالۡمَسِيۡحَ ابۡنَ مَرۡيَمَ‌ ۚ وَمَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِيَـعۡبُدُوۡۤا اِلٰهًا وَّاحِدًا‌ ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ‌ ؕ سُبۡحٰنَهٗ عَمَّا يُشۡرِكُوۡنَ‏ ۔ (سورہ توبہ آیت نمبر 31)
ترجمہ : انہوں نے اپنے پادریوں اور جوگیوں کو اللہ کے سوا خدا بنالیا اور مسیح ابنِ مریم کو اور انہیں حکم نہ تھا مگر یہ کہ ایک اللہ کو پوجیں اس کے سوا کسی کی بندگی نہیں اسے پاکی ہے ان کے شرک سے ۔

اس سے پہلی آیت میں یہودیوں کی یہ بدعقیدگی بیان فرمائی تھی کہ انہوں نے عزیر کو ابن اللہ کہا اور اس آیت میں ان کی یہ بداعمالی بیان فرمائی ہے کہ انہوں نے اپنے احبار اور رہبان کو خدا بنا رکھا تھا ۔

یہودیوں نے اپنے پادریوں اور درویشوں کو اللہ عزوجل کے سوا رب بنالیا کہ حکمِ الٰہی کو چھوڑ کر ان کے حکم کے پابند ہوئے اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا بنایا اور ان کی نسبت یہ باطل عقیدہ رکھا کہ وہ خدا یا خدا کے بیٹے ہیں یا خدا نے ان میں حُلول کیا ہے حالانکہ انہیں ان کی کتابوں میں اور ان کے انبیاءِ کرام علیہم السلام کی طرف سے صرف یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ ایک معبود کی عبادت کریں ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں اوروہ ان کے شرک سے پاک ہے۔ (تفسیر خازن سورہ توبۃ آیت نمبر ۳۱ جلد ۲ صفحہ ۲۳۳)

یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنے پادریوں اور علماء کو معبود بنا کر ان کی کوئی باقاعدہ عبادت نہیں کی تھی بلکہ خدا کے حکم کو چھوڑ کر ان کے حکم کو اپنے لیے شریعت بنالیا تھا اور اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہوں نے خدا بنالیے چنانچہ پادریوں اور درویشوں سے متعلق ان کی اِس روِش کے بارے میں حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، اس وقت میرے گلے میں سونے کی صلیب تھی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ عدی ! اس بت کو دور کر دو ۔ نیز صحابی فرماتے ہیں کہ میں نے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سورۂ براءت سے پڑھ رہے تھے ’’ اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ ‘‘ (یعنی عیسائیوں ، یہودیوں نے اپنے درویشوں اور علماء کو اللہ کے سوا رب بنا لیا) پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے (اس کی وضاحت کرتے ہوئے ارشاد) فرمایا کہ ’’ وہ ان کو پوجتے نہیں تھے بلکہ جب وہ ان کےلیے کسی چیز کو حلال قرار دیتے تو یہ حلال سمجھتے اور جب وہ حرام قرار دیتے تو یہ حرام سمجھتے تھے ۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ التوبۃ، ۵ / ۶۵، الحدیث: ۳۱۰۶)

احبار اور رہبان کا صحیح معنیٰ و مفہوم : ⬇

امام ابو عبید متوفی ٢٢٤ ھ علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ : احبار ، حبر کی جمع ہے ۔ حبر عالم کو کہتے ہیں ، کعب کو حبر کہا جاتا تھا ۔ (غریب الحدیث ج ١ ص ٦٠ )

علامہ راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ : حبر کا معنی ہے : نیک اثر اور اچھی نشانی ۔ جب علماء لوگوں کے دلوں میں اپنے علوم سے اچھے تاثرات اور اپنے افعال کے نیک آثار چھوڑتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی نیکیوں کی اقتداء کی جاتی ہے تو ان کو احبار کہتے ہیں، اسی وجہ سے حضرت عمر (رض) نے فرمایا : علماء تو قیامت تک باقی رہیں گے اور احبار گم ہوگئے اور ان کے آثار دلوں میں موجود ہیں ۔ (المفردات ج ١ ص ١٣٨) ۔

نیز علامہ راغب علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ : رہب کا معنی ہے گھبراہٹ کے ساتھ ڈر اور خوف، اور راہب کا معنی ہے اللہ سے ڈرنے والا اور رہبان راہب کی جمع ہے ۔ (المفردات ج ١ ص ٢٦٩)

امام فخر الدین رازی المتوفی ٦٠٦ ھ علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ : حبر اس عالم کو کہتے ہیں جو عمدہ بیان کرتا ہو اور راہب اس شخص کو کہتے ہیں جس کے دل میں خوف خدا جاگزیں ہو اور اس کے چہرے اور لباس سے خوف خدا ظاہر ہوتا ہو، اور عرف میں احبار کا لفظ علماء یہود کے ساتھ خاص ہے اور رہبان کا لفظ ان علماء نصاریٰ کے ساتھ خاص ہے جو گرجوں میں رہتے ہیں ۔ (تفسیر کبیر ج ٤ ص ٣١۔ ٣٠)

قرآن اور حدیث کے مقابلہ میں اپنے دینی پیشواٶں کو ترجیح دینے کی مذمت : ⬇

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ کیا یہودیوں نے اپنے احبار (علماء) کی اور عیسائیوں نے اپنے رہبان (گرجا میں رہنے والے علماء) کی عبادت کی تھی ؟ اور اس آیت کی کیا توجیہ ہے ؟ انہوں نے کہا : انہوں نے اپنے علماء کی عبادت نہیں کی لیکن جب وہ ان کےلیے حرام کو حلال کردیتے تو وہ اس کو حلال کہتے اور جب وہ ان کےلیے حلال کو حرام کردیتے تو وہ اس کو حرام کہتے تھے اور یہی ان کا اپنے اپنے علماء کو خدا بنانا تھا ۔ (الجامع لاحکام القرآن : جز ٨ ص ٥٤، مطبوعہ بیروت) ۔

حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت میری گردن میں سونے کی صلیب تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عدی ! اس بت کو اتار پھینک دو ، میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس آیت کے متعلق پوچھا : اتخذوا احبارھم ورھبانھم اربابا من دون اللہ والمسیح ابن مریم ۔ (سورہ توبہ آیت نمبر ٣١) ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ اپنے علماء کی عبادت نہیں تھے لیکن جب وہ کسی چیز کو حلال کردیتے تو وہ اس کو حلال کہتے اور جب وہ کسی چیز کو حرامکر دیتے تو وہ اس کو حرام کہتے ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٠٩٥، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٤ ھ،چشتی)

قرآن مجید کی اس آیت اور اس حدیث سے واضح ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مقابلہ میں اپنے کسی دینی پیشوا کے قول کو ترجیح دینا اور اس پر اصرار کرنا اس دینی پیشوا کو خدا بنا لین ہے، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صریح حدیث کے مقابلہ میں اپنے کسی دینی پیشوا کے قول کو ترجیح دینا اس کو رسول کا درجہ دینا ہے، اسی گمراہی کا قلع قمع کرنے کےلیے امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب میرے قول کے خلاف کوئی حدیث صحیح مل جائے تو وہی میرا مذہب ہے اور امام شافعی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر میری قول کسی حدیث کے خلاف ہو تو میرے قول کو دیوار پر مار دو اور حدیث پر عمل کرو ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے متقدمین فقہاء پر رحمتیں نازل فرمائے ، انہوں نے کتنے ہی مسائل میں ائمہ کے اقوال کے خلاف احادیث پر عمل کیا ہے اور اس گمراہی کی جڑ کاٹ دی ہے، لیکن اس زمانہ میں ہم نے دیکھا کہ اگر کسی شخص کے دینی پیشوا کے کسی قول کے خلاف قرآن اور حدیث کتنا ہی کیوں نہ پیش کیا جائے وہ اپنے دینی پیشوا کے قول کے ساتھ چمٹا رہتا ہے اور کہتا ہے کیا یہ قرآن کی آیت اور یہ حدیث ان کو معلوم نہیں تھی اور وہ قرآن اور حدیث کو تم سے بہت زیادہ جاننے والے تھے ! امام عبدالبر مالکی متوفی ٤٦٣ ھ نے متعدد اسانید کے ساتھ عتیبہ اور مجاہد سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا ہر شخص کا قول قبول بھی کیا جاتا ہے اور ترک بھی کیا جاتا ہے ۔ (جامع بیان العلم و فضلہ ج ٢ ص ٩٢٧۔ ٩٢٥، دار ابن الجوزیہ جدہ،چشتی)

نبی کے سوا کسی بشر کا قول خطا سے معصوم نہیں : ⬇

مروان بن الحکم بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس تھا ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حج تمتع سے منع کر رہے تھے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر حج تمتع کا احرام باندھا اور فرمایا میں کسی شخص کے قول کی بناء پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو ترک نہیں کروں گا ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٥٦٣)(صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٢٢٣،چشتی)(سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٧٣٣)(سنن دارمی رقم الحدیث : ١٩٢٣)

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں حج تمتع کیا اور قرآن نازل ہوا اور ایک شخص نے اپنی رائے سے جو چاہا کیا ۔ امام مسلم کی روایت میں ہے ان کی مراد حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٥٧١،چشتی)(صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٢٢٦)(سنن نسائی رقم الحدیث : ٢٧٣٩)(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٩٧٨)(سنن دارمی رقم الحدیث : ١٨١٣)

سالم بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے حج تمتع کے متعلق سوال کیا ، انہوں نے کہا جائز ہے ۔ اس نے کہا آپ کے باپ تو حج تمتع سے منع کرتے تھے ؟ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یہ بتائو کہ میرا باپ ایک کام سے منع کرتا ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کام کو کیا ہو تو آیا میرے باپ کے حکم پر عمل کیا جائے گا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر عمل کیا جائے گا ؟ اس شخص نے کہا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر عمل کیا جائے گا ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا : تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج تمتع کیا ہے ۔ یہ حدیث صحیح ہے ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٨٢٥، دارالفکر بیروت، ١٤١٤ ھ)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے تو میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ذکر کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ میت کے گھروالوں کے رونے سے میت کو قبر میں عذاب ہوتا ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : اللہ تعالیٰ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ میت کے گھر والوں کے رونے سے اللہ اس میت کو عذاب دیتا ہے ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرماتا تھا کہ کافر پر اس کے گھر والوں کے رونے سے اللہ اس کے عذاب میں زیادتی کرتا ہے اور تمہارے لیے قرآن مجید کی یہ آیت کافی ہے : ولا تزر وازرۃ اُخریٰ ۔ (الانعام : ١٦٤) اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٢٨٨۔ ١٢٨٧)(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩٢٩۔ ٩٢٨)(سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٠٠٢)(سنن النسائی رقم الحدیث : ١٨٥٥)(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٥٩٤)

عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک قوم کو جلوا دیا ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما تک یہ خبر پہنچی تو انہوں نے کہا اگر میں ہوتا تو ان کو نہ جلاتا ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے : اللہ کے عذاب سے سزا نہ دو ، البتہ میں ان کو قتل کر دیتا ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے : جو شخص اپنے دین بدلے اس کو قتل کردو ۔ ترمذی کی روایت میں ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ خبر پہنچی تو انہوں نے کہا : ابن عباس نے سچ کہا ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٩٢٢، ٣٠١٦)(سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٤٦٣)(سنن النسائی رقم الحدیث : ٤٠٧١،چشتی)(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٥٢٥)(مسند احمد ج ١ رقم الحدیث : ١٨٧١)(المستدرک ج ٣ ص ٥٣٨)(سن بیہقی ج ٨ ص ١٥٩)(مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٢٥٣٢)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک زانیہ حاملہ کو رجم کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا جو بچہ اس کے پیٹ میں ہے اس کو ہلاک کرنے کا آپ کے پاس کیا جواز ہے ؟ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اگر معاذ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا ۔ (جامع بیان العلم و فضلہ ج ٢ ص ٩٢٠، رقم : ١٧٤٥۔ ١٧٤٢، مطبوعہ دار ابن الجوزیہ ریاض، ١٤١٩ ھ)

ایک عورت کے نکاح کے چھ ماہ بعد بچہ پیدا ہو گیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس یہ مقدمہ پیش ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس عورت کو رجم (سنگسار) کرنے کا حکم دیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اس کو رجم کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے ۔ قرآن مجید میں ہے : عورتیں پورے دو سال تک بچوں کو دودھ پلائیں ۔ (البقرہ : ٢٢٣) اور فرمایا : حمل کی مدت اور دودھ چھڑانے کی (مجموعی) مدت تیس ماہ ہے ۔ (الاحقاف : ١٥) تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول کی طرف رجوع کر لیا ۔ (جامع بیان العلم و فضلہ ج ٢ ص ٩٢٠، رقم : ١٧٤٦، مطبوعہ ریاض،چشتی)

عبداللہ بن مصعب بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا : عورتوں کا مہر چالیس اوقیہ (دس چھٹانک چاندی) سے زیادہ نہ باندھو ، اور جس نے اس سے زیادہ مہر باندھا میں وہ زیادہ مقدار بیت المال میں داخل کر دوں گا، تب ایک چپٹی ناک والی دراز عورت پچھلی صف میں کھڑی ہوئی اور اس نے کہا : آپ کےلیے یہ حکم دینا جائز نہیں ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا : کیوں ؟ اس نے کہا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : واٰتیتم احدٰھن قنطارا فلا تاخذوا منہ شیئا۔ (سورہ النساء : ٢٠) اور تم ان میں سے کسی بیوی کو ڈھیروں مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ واپس نہ لو ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : عورت نے صحیح کہا اور مرد نے خطا کی ۔ (مصنف عبدالرزاق ص ١٨٠)(سنن کبریٰ للیہقی، ج ٧ ص ٢٣٣)(سنن سعید بن منصور رقم الحدیث : ٥٩٨۔ ٥٩٧)(جامع بیان العلم و فضلہ ج ١ ص ٥٣٠، رقم : ٨٦٤،چشتی)(تفسیر ابن کثیر ج ١ ص ٥٢٨، دارالفکر ١٤١٨ ھ)(الدر المنثور ج ٢ ص ٤٦٦، دارالفکر ١٤١٤ ھ)

غور کیجیے جب اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال خطاء سے معصوم نہیں ہیں تو بعد کے ائمہ ، فقہاء اور علماء علیہم الرحمہ کے اقوال کی خطاء سے معصوم ہونے کی کیا ضمانت ہے ؟ اس لیے کسی امام ، عالم اور فقیہ کے متعلق یہ عقیدہ نہیں رکھنا چاہیے کہ اس کے قول میں خطاء نہیں ہو سکتی اور ایسا عقیدہ رکھنا شرک فی الرسالت کے مترادف ہے : اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری متوفی ١٣٤٠ ھ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : انبیاء علیہم الصلوٰۃ والثناء کے سوا کوئی بشر معصوم نہیں اور غیر معصوم سے کوئی نہ کوئی کلمہ غلط یا بےجا صادر ہونا کچھ نادر کالمعدوم نہیں ، پھر سلف صالحین و ائمہ دین سے آج تک اہل حق کا یہ معمول رہا ہے کہ ہر شخص کا قول مقبول بھی ہوتا ہے اور مردود بھی ماسوا اس قبر والے کے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ (فتاویٰ رضویہ ج ٦ ص ٢٨٣، مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ سے سوال کیا گیا کہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی متوفی ١٢٣٩ ھ علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ پیر کے نام کا بکرا حرام ہے خواہ بہ وقت ذبح تکبیر کہی جائے ، اس کے جواب میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ تعالیٰ لکھتے ہیں : اس مسئلہ میں حق یہ ہے کہ نیت ذابح کا اعتبار ہے ، اگر اس نے اراقت دم تقربا الی اللہ کی (اللہ کے لیے جانور کا خون بہایا) اور وقت ذبح نام الٰہی لیا ، جانور بنص قطعی قرآن عظیم حلال ہو گیا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : مالکم ان لا تاکلوا مما ذکراسم اللہ علیہ ۔ (الانعام : ١١٩) تمہیں کیا ہوا کہ تم اس کو نہیں کھاتے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے ۔ تفصیل فقیر کے رسالہ سبل الاصفیاء میں ہے ، شاہ صاحب سے اس مسئلہ میں غلطی ہوئی اور وہ فقط فتاویٰ بلکہ تفسیر عزیزی میں بھی ہے اور نہ ایک ان کا فتاویٰ بلکہ کسی بشر غیر معصوم کی کوئی کتاب ایسی نہیں ، جس میں سے کچھ متروک نہ ہو ۔ سیدنا امام مالک علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ہر شخص کا قول مقبول بھی ہے اور مردود بھی سوا اس قبر والے کے (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ۔ (فتاویٰ رضویہ ج ٨ ص ٣٥٦، مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی)

مذکورہ آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ و رسول کے مقابلے میں جس کی دینی اطاعت کی جائے گی گویا اسے رب بنا لیا گیا جیسا کہ عیسائی اور یہودی خدا کے مقابلے میں اپنے پادریوں اور درویشوں کی بات مانتے تھے اس لیے ان کے بارے میں کہا گیا کہ انہوں نے اپنے پادریوں اور درویشوں کو اللہ کے سوارب بنالیا ۔ جبکہ اللہ عزوجل کے فرمان کے ماتحت علماء ، اولیاء اور صالحین کی اطاعت عین اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت ہے ۔ رب تعالیٰ ارشادفرماتا ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۔ (سورہ النساء آیت ۵۹)
ترجمہ : اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں سے حکومت والے ہیں ۔

حضرت عطا علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : اس ا ٓیت میں رسول کی اطاعت سے مراد قرآن اور سنت کی پیروی ہے اور ’’اُولِی الْاَمْرِ‘‘ کی اطاعت سے علماء اور فقہاء کی اطاعت مراد ہے ۔ (سنن دارمی، باب الاقتداء بالعلماء،  ۱ / ۸۳، الحدیث: ۲۱۹)

ایک جگہ ارشاد فرمایا : فَسْٸَلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ۔ (النحل:۴۳)
ترجمہ : اے لوگو ! اگر تم نہیں جانتے تو علم والوں سے پوچھو ۔

ایک مقام پر ارشاد فرمایا : وَ اتَّبِـعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ ۔ (لقمان:۱۵)
ترجمہ : اور میری طرف رجوع کرنے والے آدمی کے راستے پر چل ۔

اور ارشاد فرمایا : وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ ۔ رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ ۔ (التوبہ:۱۰۰)
ترجمہ : اور بیشک مہاجرین اور انصار میں سے سابقینِ اَوّلین او ردوسرے وہ جو بھلائی کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والے ہیں ان سب سے اللہ راضی ہوا اور یہ اللہ سے راضی ہیں ۔

اس آیت کی تفسیر میں  ایک قول یہ ہے کہ پیرو ی کرنے والوں سے قیامت تک کے وہ ایماندار مراد ہیں جو ایمان ، طاعت اورنیکی میں انصار و مہاجرین رضی اللہ عنہم کے راستے پرچلیں ۔ ان سب سے اللہ عزوجل راضی ہوا ۔ (تفسیر خازن سورہ التوبۃ الآیۃ: ۱۰۰، ۲ / ۲۷۵،چشتی)(تفسیر مدارک سورہ التوبۃ الآیۃ: ۱۰۰، ص۴۵۲)

احادیثِ مبارکہ میں بھی علماء کی اطاعت کی ترغیب دی گئی ہے : ⬇

صحیح مسلم میں حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : دین خیر خواہی (کا نام) ہے ۔ صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی : یا رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، کس کی خیر خواہی کریں ؟ ارشاد فرمایا ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ کی، اس کی کتاب کی ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ، مسلمانوں کے امام کی اور عام مومنین کی ۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب بیان انّ الدین النصیحۃ، ص۴۷، الحدیث: ۹۵(۵۵))

اس حدیث کی شرح میں ہے کہ یہ حدیث ان اماموں کو بھی شامل ہے جو علمائے دین ہیں ، ان کی روایت کی ہوئی احادیث کو قبول کرنا ، احکام میں ان کی تقلید کرنا اور ان کے ساتھ نیک گمان رکھنا ان کی خیرخواہی سے ہے ۔ (شرح نووی علی المسلم، کتاب الایمان، باب بیان انّ الدین النصیحۃ، ۱ / ۳۹، الجزء الثانی)

حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تین چیزیں ایسی ہیں کہ مومن کا دل ان پر خیانت نہیں کرتا ۔ (1) اللہ تعالیٰ کےلیے عمل خالص کرنا ۔ (2 ) علماء کی اطاعت کرنا اور (3) (مسلمانوں کی) جماعت کو لازم پکڑنا ۔ (مسند امام احمد، مسند المدنیین، حدیث جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالی عنہ، ۵ / ۶۱۵، الحدیث: ۱۶۷۳۸،چشتی)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ علم سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ ، فرائض سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ ، قرآن سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ۔ میں وفات پانے والا ہوں علم عنقریب اٹھ جائے گا ، فتنے ظاہر ہوں گے حتّٰی کہ دو شخص ایک فریضہ میں جھگڑیں گے اور ایسا کوئی شخص نہ پائیں گے جو ان میں فیصلہ کردے ۔ (سنن دارمی باب الاقتداء بالعلماء، ۱ / ۸۳، الحدیث: ۲۲۱)

فَسْئَلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ۔ (سورہ الانبیاء آیت نمبر 7)
ترجمہ : تو اے لوگو علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہ ہو ۔

اس میں علماء کا اختلاف نہیں ہے کہ عام شخص پر علماء کی تقلید کرنا واجب ہے اور اس آیت میں اہل ذکر سے مراد علماء ہیں اور اس پر اجماع ہے کہ جب نابینا شخص کو قبلہ کا علم نہ ہو تو اس پر اس شخص کی تقلید کرنا واجب ہے جس کو قبلہ کا علم ہو ، اسی طرح جس شخص کو دینی مسائل میں عمل اور بصیرت نہ ہو ، اس پر اس شخص کی تقلید کرنا واجب ہے جس کو ان مسائل کا علم ہو اور جس کو ان مسائل پر بصیرت حاصل ہو ، اسی طرح اس میں بھی کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ عام آدمی کو فتویٰ دینا جائز نہیں ہے کیونکہ اس کو ان دلائل کا علم نہیں ہے جن کے ساتھ تحلیل اور تحریم کا تعلق ہوتا ہے ۔ (الجامع لاحکام القرآن جز 11 ص 182، مطبوعہ دارالفکر بیروت، 1415 ھ،چشتی)

غیرمقلدین کے امام محمد بن علی بن محمد الشوکانی متوفی 1250 ھ لکھتے ہیں : اس آیت سے تقلید کے جواز پر استدلال کیا گیا ہے اور یہ استدلال خطا ہے اور اگر اس استدلال کو مان لیا جائے تو اس کا معنی ہے کہ علماء سے کتاب اور سنت کی نصوص کا سوال کیا جائے نہ کہ علماء کی رائے کے متعلق سوال کیا جائے اور تقلید کا معنی ہے کہ کسی شخص کے قول کو بغیر دلیل کے قبول کیا جائے ۔ (فتح القدیر ج 3 ص 546، مطبوعہ دارالوفاء 1418 ھ)

غیرمقلدین کے پیشوا نواب صدیق حسن خان بھوپالی متوفی 1307 ھ لکھتے ہیں : اس آیت سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ تقلید جائز ہے اور یہ استدلال خطاء ہے اور اگر یہ استدلال مان لیا جائے تو اس کا معنی ہے کتاب اور سنت کی نصوص اور تصریحات کے متعلق سوال کرنا نہ کہ محض رائے کے متعلق سوال کرنا اور تقلید کا معنی ہے بغیر دلیل کے غیر کے قول کو قبول کرنا اور مقلد جب اہل الذکر سے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے متعلق سوال کرے گا تو وہ مقلد نہیں رہے گا ۔ اکثر فقہاء نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ عام آدمی کےلیے علماء کے فتویٰ کی طرف رجوع کرنا جائز ہے، اور ایک مجتہد کےلیے دور سے مجتہد کے قول پر عمل کرنا جائز ہے لیکن یہ قول بعید ہے کیونکہ اس آیت میں خصوصیت کے ساتھ یہ بتایا ہے کہ علماء یہود اور علماء نصاریٰ سے یہ معلوم کرلو کہ بشر کو رسول بنا کر بھیجنا جائز ہے یا نہیں ، آیات کے سیاق اور سباق سے یہی معنی متعین ہے ۔ (فتح البیان ج 8 ص 306، مطبوعہ المتکبہ العصریہ، بیروت، 1415 ھ)

ہر چند کے اس آیت کا شانِ نزول خاص ہے لیکن اس کے الفاظ عام ہیں اور اعتبار عموم الفاظ کا ہوتا ہے نہ کہ خصوصیت مورد کا ۔

علامہ محمد بن احمد السفارینی الحنبلی المتوفی 1188 ھ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : ہر وہ مکلف جس میں اجتہاد مطلق کی صلاحیت نہ ہو اس کےلیے ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام کی تقلید کرنا جائز ہے ، ان ائمہ کے مذاہب اور ان کے اقوال ہر زمانہ میں محفوظ اور مضنبط ہیں اور ان کی شرائط اور ان کے ارکان تواتر سے معلوم ہیں ۔ تقلید کا لغت میں معنی ہے کسی چیز کو گلے میں اس طرح ڈالنا کہ وہ گلے کا احاطہ کر لے ، اسی لیے ہار اور پتے کو قلاوہ کہتے ہیں اور عرف میں اس کا معنی ہے کسی دوسرے کے مذہب کو صحیح اعتقاد کر کے قبول کرنا اور اس کی اتباع کرنا بغیر اس کی دلیل کی معرفت کے لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قول کی طرف رجوع کرنا ، یا مفتی ، یا اجماع یا قاضی کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں ہے ہر چند کہ لغوی اعتبار سے اس کو تقلید کہنا جائز ہے ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا قول اور اجماع دلیل ہے ، اس طرح صحابی رضی اللہ عنہ کا قول بھی چند کے لغوی اعتبار سے اس کو تقلید کہنا جائز ہے ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا قول اور اجماع دلیل ہے ، اس طرح صحابی کا قول بھی دلیل ہے لہٰذا ان کی طرف کرنا تقلید نہیں ہے ، تقلید کے جواز پر قرآن مجید کی اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے ۔ فسئلوا اھل الذکر ان کنتم لاتعلمون ۔ (الانبیاء : 7) ۔ پس اگر تم کو معلوم نہیں ہے تو اہل ذکر (علماء) سے معلوم کرلو ۔ یہ آیت عام ہے اور سوال کرنے کی علت جہل ہے اور اس پر اجماع ہے کہ ہمیشہ سے عام لوگ علماء کی تقلید کرتے رہتے ہیں ، نیز اگر یہ کہا جائے کہ ہر آدمی کےلیے اتنا علم حاصل کرنا فرض ہے کہ وہ کتاب ، سنت ، آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم اور اجماع سے براہ راست مسائل نکال سکے تو اس سے لازم آئے گا کہ لوگ ذریعہ معاش اور صنعت اور حرفت سے معطل ہوجائیں اور توحید و رسالت اور آخرت کے عقائد میں یہ لازم نہیں آتا ، اس لیے امام مالک نے یہ کہا ہے کہ عوام پر واجب ہے کہ وہ احکام شرعیہ میں مجتہدین کے اقوال پر عمل کریں ۔ (لوامع الانوار البیتہ : ج 2 ص 463-464 مبوعہ المتکب الاسلامی بیروت، 1411 ھ،چشتی)

مذکورہ آیتِ مبارکہ میں نہ جاننے والے کو جاننے والے سے پوچھنے کا حکم دیا گیا کیونکہ ناواقف کےلیے اس کے علاوہ اور کوئی چارہ ہی نہیں  کہ وہ واقف سے دریافت کرے اور جہالت کے مرض کا علاج بھی یہی ہے کہ عالم سے سوال کرے اور اس کے حکم پر عمل کرے اور جو اپنے اس مرض کا علاج نہیں  کرتا وہ دنیا و آخرت میں  بہت نقصان اٹھاتا ہے ۔ یہاں  اس کے چند نقصانات ملاحظہ ہوں : ⬇

ایمان ایک ایسی اہم ترین چیز ہے جس پر بندے کی اُخروی نجات کا دارومدار ہے اور ایمان صحیح ہونے کےلیے عقائد کا درست ہونا ضروری ہے ، لہٰذا صحیح اسلامی عقائد سے متعلق معلومات ہونا لازمی ہے۔ اب جسے اُن عقائد کی معلومات نہیں  جن پر بندے کا ایمان درست ہونے کا مدار ہے تو وہ اپنے گمان میں  یہ سمجھ رہا ہو گا کہ میرا ایمان صحیح ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس بھی ہو سکتی ہے اور اگر حقیقت بر عکس ہوئی اور حالت ِکفر میں  مر گیا تو آخرت میں  ہمیشہ کےلیے جہنم میں  رہنا پڑے گا اور ا س کے انتہائی دردناک عذابات  سہنے ہوں  گے ۔

فرض و واجب اور دیگر عبادات کو شرعی طریقے کے مطابق ادا کرنا ضروری ہے،اس لئے ان کے شرعی طریقے کی معلومات ہونا بھی ضروری ہے ۔ اب جسے عبادات کے شرعی طریقے اوراس سے متعلق دیگر ضروری چیزوں  کی معلومات نہیں  ہوتیں  اور نہ وہ کسی عالم سے معلومات حاصل کرتا ہے تو مشقت اٹھانے کے سوا اسے کچھ حاصل نہیں  ہوتا ۔ جیسے نماز کے درست اور قابلِ قبول ہونے کےلیے ’’طہارت‘‘ ایک بنیادی شرط ہے اور جس کی طہارت درست نہ ہو تووہ اگرچہ برسوں  تک تہجد کی نما زپڑھتا رہے ، پابندی کے ساتھ پانچوں  نمازیں  باجماعت ادا کرتا رہے اورساری ساری رات نوافل پڑھنے میں مصروف رہے ، اس کی یہ تمام عبادات رائیگاں  جائیں  گی اور وہ ان کے ثواب سے محروم رہے گا ۔

کاروباری ، معاشرتی اور ازدواجی زندگی کے بہت سے معاملات ایسے ہیں  جن کےلیے شریعت نے کچھ اصول اور قوانین مقرر کیے ہیں  اور انہی اصولوں پر اُن معاملات کے حلال یا حرام ہونے کا مدار ہے اور جسے ان اصول و قوانین کی معلومات نہ ہو اور نہ ہی وہ کسی سے ان کے بارے میں  معلومات حاصل کرے تو حلال کی بجائے حرام میں  مبتلا ہونے کا چانس زیادہ ہے اور حرام میں  مبتلا ہونا خود کو  اللہ تعالیٰ کے عذاب کا حقدار ٹھہرانا ہے ۔

سرِِ دست یہ تین بنیادی اور بڑے نقصانات عرض کیے ہیں  ورنہ شرعی معلومات نہ لینے کے نقصانات کی ایک طویل فہرست ہے جسے یہاں  ذکر کرنا ممکن نہیں ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو عقائد ، عبادات ، معاملات اور زندگی کے ہر شعبے میں  شرعی معلومات حاصل کرنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔

یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ ہر آدمی پر اپنی ضرورت کے مسائل سیکھنا ضروری ہے نمازی پر نماز کے ، روزہ رکھنے والے پر روزے کے ، زکوٰۃ دینے والے پرزکوٰۃ کے ، حاجی پر حج کے ، تجارت کرنے والے پر خرید و فروخت کے ، قسطوں پر کاروبار کرنے والے کےلیے اس کاروبار کے ، مزدوری پر کام کرنے والے کےلیے اجارے کے ، شرکت پر کام کرنے والے کےلیے شرکت کے ، مُضاربت کرنے والے پر مضاربت کے (مضاربت یہ ہوتی ہے کہ مال ایک کا ہے اور کام دوسرا کرے گا) ، طلاق دینے والے پر طلاق کے ، میت کے کفن ودفن کرنے والے پر کفن ودفن کے، مساجد ومدارس، یتیم خانوں اور دیگر ویلفیئرز کے مُتَوَلّیوں پر وقف اور چندہ کے مسائل سیکھنا فرض ہے ۔ یونہی پولیس ، بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں اور دیگر محکموں کے ملازمین نیز جج اور کسی بھی ادارے کے افسر و ناظمین پر رشوت کے مسائل سیکھنا فرض ہیں ۔ اسی طرح عقائد کے مسائل سیکھنا یونہی حسد ، بغض ، کینہ ، تکبر ، ریا وغیرہا جملہ اُمور کے متعلق مسائل سیکھنا ہر اس شخص پر لازم ہے جس کا ان چیزوں سے تعلق ہوپھر ان میں  فرائض و مُحَرّمات کا علم فرض اور واجبات ومکروہِ تحریمی کا علم سیکھنا واجب ہے اور سنتوں  کا علم سیکھنا سنت ہے ۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: علم کا طلب کرنا ہر مومن پر فرض ہے یہ کہ وہ روزہ، نماز اور حرام اور حدود اور احکام کو جانے ۔ ( الفقیہ والمتفقہ، وجوب التفقّہ فی الدِّین علی کافۃ المسلمین، ۱ / ۱۶۸، الحدیث: ۱۵۷،چشتی)

اس حدیث کی شرح میں خطیب بغدادی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ فرماتے ہیں  : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس فرمان ’’ علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘ کا معنی یہ ہے کہ ہرشخص پر فرض ہے کہ وہ اپنی موجودہ حالت کے مسائل سیکھے جس پر اس کی لاعلمی کو قدرت نہ ہو ۔ (الفقیہ والمتفقہ، وجوب التفقّہ فی الدِّین علی کافۃ المسلمین، ۱ / ۱۷۱)

اسی طرح کا ایک اور قول حضرت حسن بن ربیع رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  سے مروی ہے ، وہ فرماتے ہیں  کہ میں نے حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ کی تفسیر کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ وہ علم نہیں  ہے جس کو تم آج کل حاصل کر رہے ہو بلکہ علم کاطلب کرنا اس صورت میں  فرض ہے کہ آدمی کو دین کاکوئی مسئلہ پیش آئے تو وہ اس مسئلے کے بارے میں  کسی عالم سے پوچھے یہا ں  تک کہ وہ عالم اسے بتا دے ۔ (الفقیہ والمتفقہ، وجوب التفقّہ فی الدِّین علی کافۃ المسلمین، ۱ / ۱۷۱، روایت نمبر: ۱۶۲)

حضرت علی بن حسن بن شفیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہے کہ میں  نے حضرت عبد اللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ سے پوچھا : علم سیکھنے کے اندر وہ کیا چیز ہے جو لوگوں  پر فرض ہے ؟ آپ نے فرمایا : وہ یہ ہے کہ آدمی کسی کام کی طرف قدم نہ اٹھائے جب تک اس کے بارے میں  سوال کر کے اس کا حکم سیکھ نہ لے ، یہ وہ علم ہے جس کا سیکھنا لوگوں  پر واجب ہے ۔ اور پھر اپنے اس کلام کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا : اگر کسی بندے کے پاس مال نہ ہو تو اس پر واجب نہیں کہ زکوٰۃ کے مسائل سیکھے بلکہ جب اس کے پاس دو سو درہم (ساڑھے باون تولے چاندی یا ساڑھے سات تولے سونا) آجائے تو اس پر یہ سیکھنا واجب ہوگا کہ وہ کتنی زکوٰۃ ادا کرے گا ؟ اور کب نکالے گا ؟ او ر کہاں  نکالے گا ؟ اور اسی طرح بقیہ تمام چیزوں کے احکام ہیں ۔ (یعنی جب کوئی چیز پیش آئے گی تو اس کی ضرورت کے مسائل سیکھنا ضروری ہو جائے گا) ۔ (الفقیہ والمتفقہ، وجوب التفقّہ فی الدِّین علی کافۃ المسلمین، ۱ / ۱۷۱، روایت نمبر: ۱۶۳،چشتی)

امام ابوبکر احمد بن علی خطیب بغدادی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ہر مسلمان پر یہ بات واجب ہے کہ وہ کھانے پینے ، پہننے میں اور پوشیدہ امور کے متعلق ان چیزوں کا علم حاصل کرے جو اس کےلیے حلال ہیں اور جو اس پر حرام ہیں ۔ یونہی خون اور اموال میں جو اس پر حلال ہے یا حرام ہے یہ وہ تمام چیزیں ہیں جن سے بے خبر (غافل ) رہنا کسی کو بھی جائز نہیں ہے اور ہر شخص پر فرض ہے کہ وہ ان چیزوں  کو سیکھے ۔ اور امام یعنی حاکمِ وقت عورتوں کے شوہروں کو اور لونڈیوں کے آقاؤں کو مجبور کرے کہ وہ انہیں وہ چیزیں سکھائیں جن کا ہم نے ذکر کیا اور حاکمِ وقت پر فرض ہے کہ وہ لوگوں  کی اس بارے میں پکڑ کرے اور جاہلوں کو سکھانے کی جماعتیں ترتیب دے اور ان کےلیے بیت المال کے اندر رزق مقرر کرے اور علماء پر واجب ہے کہ وہ جاہلوں  کو وہ چیزیں سکھائیں جن سے وہ حق و باطل میں فرق کرلیں ۔ (الفقیہ والمتفقہ، وجوب التفقّہ فی الدِّین علی کافۃ المسلمین، ۱ / ۱۷۴،چشتی)

ان تمام اَقوال سے روزِ روشن کی طرح عیاں  ہے کہ علمِ دین سیکھنا صرف کسی ایک خاص گروہ کا کام نہیں بلکہ اپنی ضرورت کی بقدر علم سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ لیکن نہایت افسوس کی بات ہے کہ آج مسلمانوں  کی اکثریت علمِ دین سے دور نظر آتی ہے ۔ نمازیوں  کو دیکھیں  تو چالیس چالیس سال نماز پڑھنے کے باوجود حال یہ ہے کہ کسی کو وضو کرنا نہیں  آتا تو کسی کو غسل کا طریقہ معلوم نہیں ، کوئی نماز کے فرائض کو صحیح طریقے سے ادا نہیں کرتا تو کوئی واجبات سے جاہل ہے ، کسی کی قرأ ت درست نہیں تو کسی کا سجدہ غلط ہے ۔ یہی حال دیگر عبادات کا ہے خصوصاً جن لوگوں نے حج کیا ہو ان کو معلوم ہے کہ حج میں کس قدر غلطیاں کی جاتی ہیں ! ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ بس حج کےلیے چلے جاؤ جو کچھ لوگ کر رہے ہوں  گے وہی ہم بھی کرلیں گے ۔ جب عبادات کا یہ حال ہے تو دیگر فرض علوم کا حال کیا ہوگا ؟ یونہی حسد، بغض ، کینہ ، تکبر ، غیبت ، چغلی ، بہتان اورنجانے کتنے ایسے امور ہیں  جن کے مسائل کا جاننا فرض ہے لیکن ایک بڑی تعداد کو ان کی تعریف کا پتہ تک نہیں بلکہ ان کی فرضیت تک کا علم نہیں ۔ یہ وہ چیزیں  ہیں  جن کا گناہ ہونا عموماً لوگوں  کو معلوم ہوتا ہے اور وہ چیزیں  جن کے بارے میں بالکل بے خبر ہیں جیسے خرید و فروخت ، ملازمت ، مسجد و مدرسہ اور دیگر بہت سی چیزیں ایسی ہیں  جن کے بارے لوگوں کو یہ تک معلوم نہیں کہ ان کے کچھ مسائل بھی ہیں ، بس ہر طرف ایک اندھیر نگری مچی ہوئی ہے ، ایسی صورت میں ہر شخص پر ضروری ہے خود بھی علم سیکھے اور جن پر اس کا بس چلتا ہو انہیں  بھی علم سیکھنے کی طرف لائے اور جنہیں خود سکھا سکتا ہے انہیں  سکھائے ۔

اگر تمام والدین اپنی اولاد کو اور تمام اساتذہ اپنے شاگردوں  کو اور تمام پیر صاحبان اپنے مریدوں  کو اور تمام افسران و صاحبِ اِقتدار حضرات اپنے ماتحتوں کوعلمِ دین کی طرف لگا دیں تو کچھ ہی عرصے میں ہر طرف دین اور علم کا دَور دورہ ہو جائے گا اور لوگوں کے معاملات خود بخود شریعت کے مطابق ہوتے جائیں گے ۔ فی الوقت جو نازک صورتِ حال ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ ایک مرتبہ سناروں کی ایک بڑی تعداد کو ایک جگہ جمع کیا گیا جب ان سے تفصیل کے ساتھ ان کا طریقۂ کار معلوم کیا گیا تو واضح ہوا کہ اس وقت سونے چاندی کی تجارت کا جو طریقہ رائج ہے وہ تقریباً اسی فیصد خلافِ شریعت ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ہماری دیگر تجارتیں اور ملازمتیں بھی کچھ اسی قسم کی صورتِ حال سے دوچار ہیں ۔ جب معاملہ اتنا نازک ہے تو ہر شخص اپنی ذمہ داری کو محسوس کرسکتا ہے، اس لیے ہر شخص پر ضروری ہے کہ علمِ دین سیکھے اور حتّی الامکان دوسروں  کو سکھائے یا اس راہ پر لگائے اور یہ محض ایک مشورہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا حکم ہے ، چنانچہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ  اللہ تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور تم میں سے ہرایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا پس شہر کا حکمران لوگوں پر حاکم ہے اس سے اس کے ماتحت لوگوں کے بارے میں پوچھا جائے گا اور مرد اپنے گھر والوں پر حاکم ہے اور اس سے اس کی بیوی کے بارے میں اور ان (غلام لونڈیوں) کے بارے میں پوچھا جائے گاجن کا وہ مالک ہے ۔ ( معجم صغیر، باب الدال، من اسمہ: داود، ص۱۶۱،چشتی)

مذکورہ بالا حدیث میں اگرچہ ہر بڑے کو اپنے ماتحت کو علم سکھانے کا فرمایا ہے لیکن والدین پر اپنی اولاد کی ذمہ داری چونکہ سب سے زیادہ ہے اس لئے ان کو بطورِ خاص تاکید فرمائی گئی ہے ،چنانچہ حضرت عثمان الحاطبی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں : میں نے حضرت عبداللّٰہ بن عمررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کو سنا کہ آپ ایک شخص کو فرما رہے تھے : اپنے بیٹے کو ادب سکھاؤ ، بے شک تم سے تمہارے لڑکے کے بارے میں پوچھا جائے گا جو تم نے اسے سکھایا اور تمہارے اس بیٹے سے تمہاری فرمانبرداری اور اطاعت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔( شعب الایمان، الستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۶ / ۴۰۰، روایت نمبر: ۸۶۶۲)

اس حدیث پر والدین کو خصوصاً غور کرنا چاہیے کیونکہ قیامت کے دن اولاد کے بارے میں یہی گرفت میں آئیں  گے ، اگر صرف والدین ہی اپنی اولاد کی دینی تربیت و تعلیم کی طرف بھرپور توجہ دے لیں تو علمِ دین سے دوری کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے ۔ مگر افسوس کہ دُنْیَوی علوم کے سکھانے میں تو والدین ہرقسم کی تکلیف گوارا کرلیں گے ، اسکول کی بھاری فیس بھی دیں گے ، کتابیں بھی خرید کر دیں گے اور نجانے کیا کیا کریں  گے لیکن علمِ دین جو ان سب کے مقابلے میں  ضروری اور مفید ہے اس کے بارے میں  کچھ بھی توجہ نہیں دیں  گے ، بلکہ بعض ایسے بدقسمت والدین کو دیکھا ہے کہ اگر اولاد دین اور علمِ دین کی طرف راغب ہوتی ہے تو انہیں  جبراً منع کرتے ہیں  اور کہتے ہیں  کہ اس میں کیا رکھا ہے ۔ ہم دنیوی علم کی اہمیت و ضرورت کا انکار نہیں کرتے لیکن یہ دینی علم کے بعد ہے اور والدین کا یہ کہنا کہ علمِ دین میں رکھا ہی کیا ہے ؟ یہ بالکل غلط جملہ ہے ۔ اول تو یہ جملہ ہی کفریہ ہے کہ اس میں علمِ دین کی تحقیر ہے ۔ دوم اسی پر غور کرلیں کہ علمِ دین سیکھنا اور سکھانا افضل ترین عبادت ، انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وراثت ، دنیا و آخرت کی خیر خواہی اور قبر و حشر کی کامیابی کا ذریعہ ہے ۔ آج نہیں تو کل جب حساب کےلیے بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہونا پڑے گااس وقت پتہ چلے گا کہ علمِ دین کیا ہے ؟ بلکہ صرف اسی بات پر غور کرلیں کہ مرتے وقت آج تک آپ نے کسی شخص کو دیکھا ہے کہ جس کو دنیا کا علم حاصل نہ کرنے پر افسوس ہورہا ہو ۔ ہاں  علمِ دین حاصل نہ کرنے ، دینی راہ پر نہ چلنے ، اللہ تعالیٰ کی رضا کے کام نہ کرنے پر افسوس کرنے والے آپ کو ہزاروں ملیں گے اور یونہی مرنے کے بعد ایسا کوئی شخص نہ ہوگا جسے ڈاکٹری نہ سیکھنے پر ، انجینئر نہ بننے پر، سائنسدان نہ بننے پر افسوس ہو رہا ہو البتہ علمِ دین نہ سیکھنے پر افسوس کرنے والے بہت ہوں گے ۔ بلکہ خود حدیث پاک میں موجود ہے کہ کل قیامت کے دن جن آدمیوں کو سب سے زیادہ حسرت ہوگی ان میں ایک وہ ہے جس کو دنیا میں علم حاصل کرنے کا موقع ملا اور اس نے علم حاصل نہ کیا۔(ابن عساکر، حرف المیم، محمد بن احمد بن محمد بن جعفر۔۔۔ الخ، ۵۱ / ۱۳۷،چشتی)

اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سوال کرنا علم حاصل ہونے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : علم خزانے ہیں  اور ان خزانوں  کی چابی سوال کرناہے تو تم سوال کرو، اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے ، کیونکہ سوال کرنے کی صورت میں چار لوگوں کو اجر دیاجاتا ہے۔ (1) سوال کرنے والے کو ۔ (2) سکھانے والے کو ۔ (3) سننے والے کو ۔ (4) ان سے محبت رکھنے والے کو ۔ (الفقیہ والمتفقہ، باب فی السؤال والجواب وما یتعلّق بہما۔۔۔ الخ، ۲ / ۶۱، الحدیث: ۶۹۳)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اچھا سوال کرنا نصف علم ہے۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: محمد، ۵ / ۱۰۸، الحدیث: ۶۷۴۴)

اللہ عزوجل ہمیں زندگی کے تمام پہلوؤں میں در پیش معاملات کے بارے میں  اہلِ علم سے سوال کرنے اور اس کے ذریعے دین کے شرعی اَحکام کا علم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔