حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شھادت
نو (9) محرم الحرام 61ھ کو ابن سعد کا دستہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے خیموں کی طرف آیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ذریعے ان سے آنے کا ارادہ معلوم کیا تو انہوں نے کہا کہ امیر ابن زیاد کا حکم ہے کہ تم اس کی اطاعت قبول کر لو ورنہ ہم تمہارے ساتھ جنگ کریں گے ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو کہا : ان لوگوں سے کہو کہ ہمیں ایک رات کی مہلت دے دیں تاکہ اس آخری رات ہم اچھی طرح نماز پڑھ لیں ، دعا مانگ لیں اور توبہ استغفار کر لیں ۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ مجھے نماز، تلاوت اور دعا و استغفار سے بڑا قلبی تعلق ہے ۔ (البدایہ والنہایہ، 8 / 175)
ابن سعد کے دستہ نے یہ بات مان لی اور قافلہ حسینی رضی اللہ عنہ نے رات اللہ تعالیٰ کی عبادت اور مناجات میں بسر کی ۔
رفقاء سے حضرت سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا خطاب
ابن سعد کے دستے واپس لوٹنے کے بعد حضرت سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے رفقاء کو جمع کیا ۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے اصحاب سے نہایت فصیح و بلیغ خطاب فرمایا کہ : میں کسی کے ساتھیوں کو اپنے ساتھیوں سے زیادہ وفادار اور بہتر نہیں سمجھتا اور نہ کسی کے اہل بیت کو اپنے اہل بیت سے زیادہ نیکوکار اور صلہ رحمی کرنے والا دیکھتا ہوں۔ ﷲ تعالیٰ تم سب کو میری طرف سے جزائے خیر عطا کرے گا۔ اگر تم میں سے کوئی جانا چاہتا ہے تو رات کی تاریکی میں چلا جائے ۔ بے شک یہ لوگ میرے ہی قتل کے طالب ہیں جب مجھے قتل کریں گے تو پھر کسی اور کی ان کو طلب نہیں ہو گی مگر آپ رضی اللہ عنہ کے اصحاب اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے عرض گزار ہوئے ’’ اے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم آپ پر اپنی جانیں قربان کر دیں گے، ہم اپنی گردنوں، پیشانیوں، ہاتھوں اور جسموں سے آپ رضی اللہ عنہ کا دفاع کریں گے ۔ جب ہم قتل ہو جائیں گے تو سمجھیں گے کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے ۔ (البدایہ والنہایہ 8 / 176 - 177،چشتی)
حضرت سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کے جذبات سُن کر انہیں اجازت مرحمت فرمائی اور پھر حضرت سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے اصحاب نے حضرت سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی معیت میں رات بھر نوافل ادا کیے اور بارگاہِ ایزدی میں عاجزی و انکساری کے ساتھ مغفرت کی دعائیں مانگیں۔(البدایہ والنہایہ، 8 / 177،چشتی)(ابن اثیر، 4 / 59)
10 محرم الحرام 61 ھ کا خونی آفتاب اپنی پوری خون آشامیوں کے ساتھ طلوع ہوا حسینی فوج کے 72 سپہ سالاروں نے یزیدی فوج کا ڈٹ کے مقابلہ کیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یزیدی فوج میدان چھوڑ کر بھاگ جائے گی۔ اس طرح مٹھی بھر جانثارانِ حضرت سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ پروانہ وار شمع امامت پر قربان ہونے لگے ۔ اس وقت حضرت سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت سیدنا زین العابدین رضی اللہ عنہ علیل تھے ۔ علالت کے باوجود اپنے والد گرامی سے اجازت طلب کی مگر آپ رضی اللہ عنہ نے سمجھایا کہ ایک تو آپ رضی اللہ عنہ علیل ہیں اور دوسرے آپ رضی اللہ عنہ کا زندہ رہنا ضروری ہے کیونکہ خانوادہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہر چراغ گل ہو چکا ہے ، ہر پھول مرجھا چکا ہے ، اب میری نسل میں فقط تو ہی باقی رہ گیا ، مجھے تو شہید ہونا ہی ہے اگر تو بھی شہید ہو گیا تو میرے نانا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل کیسے چلے گی ۔ تجھے اپنے نانا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل کی بقاء کےلیے زندہ رہنا ہے ۔ پھر آپ کو کچھ نصیحتیں کیں اور یوں فرزند صاحب ذوالفقار حضرت سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر خود میدانِ کربلا میں اترے ۔ مقابلے میں حضرت سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ دیر تک یزیدیوں کو واصل جہنم کرتے رہے ۔ پورے یزیدی لشکر میں کہرام مچ گیا ۔ حیدر کرار کا یہ فرزند رضی اللہ عنہما جس طرف تلوار لے کر نکلتا یزیدی لشکر خوفزدہ بھیڑوں کی طرح آگے بھاگنے لگتا ۔
اسی معرکہ کے دوران حضرت سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو بہت پیاس لگی ، حضرت سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے پانی کےلیے دریائے فرات کا رخ کیا مگر دشمن سخت مزاحمت کرنے لگا ، اچانک ایک تیر آپ رضی اللہ عنہ کے چہرہ مبارک پر لگا اور آپ رضی اللہ عنہ کا چہرہ مبارک زخمی ہو گیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے تیر کھینچ کر نکالا پھر ہاتھ چہرے کی طرف اٹھائے تو دونوں چلو خون سے بھر گئے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنا خون آسمان کی طرف اچھال دیا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا : الٰہی میرا شکوہ تجھی سے ہے ، دیکھ تیرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے کے ساتھ کیا برتاؤ ہو رہا ہے ۔ (الطبری جلد 6 صفحہ 33)
حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ دن کا طویل حصہ میدانِ کربلا میں تنہا دشمن کا مقابلہ کرتے رہے اور دشمنوں میں سے ہر کوئی آپ رضی اللہ عنہ کے قتل کو دوسرے شخص پر ٹالتا رہا کیونکہ حضرت سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا قتل کوئی بھی اپنے ذمہ نہ لینا چاہتا تھا ۔ آخر شمر بن ذی الجوشن نے کہا : تمہارا برا ہو کیا انتظار کر رہے ہو ؟ کام تمام کیوں نہیں کرتے ؟ آپ رضی اللہ عنہ ہر طرف سے نرغہ ہوا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پکار کر کہا : کیا میرے قتل پر ایک دوسرے کو ابھارتے ہو ؟ واللہ ! میرے بعد کسی بندے کے قتل پر اللہ تعالیٰ اتنا ناخوش نہیں ہو گا جتنا میرے قتل پر ۔ (ابن اثیر جلد 4 صفحہ 78،چشتی)
حافظ ابن کثیر نے نقل کیا کہ : حضرت سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نماز ظہر پہلے ہی ادا کر چکے تھے : ثم صلی الحسین باصحابہ الظھر صلاۃ الخوف ثم اقتتلوا بعدھا قتالا شدیدا ۔
ترجمہ : پھر حضرت سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے رفقا کے ساتھ نماز ظہر صلاۃ خوف کے طریقے پر ادا کی نماز کے بعد شدید قتال فرمایا ۔ (البدایہ و النہایہ جلد 8 صفحہ 260)
حافظ ابن کثیر نے صفحہ 265 تک امام عالی مقام کے رفقاء رضی اللہ عنہم کی شہادتیں ذکر فرمائی آخر میں امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو یوں بیان کیا : جب لوگ ڈر رہے تھے امام پاک پر حملہ کرنے سے تو شمر نے پکارا کس چیز کا انتظار کر رہے ہو تو پھر زرعہ بن شریک التمیمی آگے بڑھا آپ کے کندھے پر وار کیا پھر سنان بن انس نے نیزے سے حملہ کیا (جس کے بعد امام حسین رضی اللہ عنہ نے غالباً سجدہ کی حالت اپنا لی حافظ ابن کثیر نے یہ نہیں لکھا) پھر (شمر) سواری سے نیچے اترا اور حضرت سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی گردن مبارک کو تن سے جدا کر دیا ۔ (البدایہ و النہایہ جلد 8 صفحہ 265)
شمر لعین کے اکسانے پر یزیدی لشکر حضرت سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ پر ٹوٹ پڑا ، زرعہ بن شریک تمیمی نے آگے بڑھ کر حضرت سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے بائیں کندھے پر تلوار ماری جس سے حضرت سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ لڑکھڑا گئے ۔ اس پر سب حملہ آور پیچھے ہٹے پھر سنان بن ابی عمرو بن انس نخفی نے آگے بڑھ کر حضرت سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو نیزہ مارا جس سے حضرت سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ گر پڑے ۔ سنان نے سواری سے اتر کر حضرت سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر تن سے جدا کر کے خونی یزید کے حوالے کر دیا ۔(البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 188،چشتی)
یوں نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جگر گوشۂ بتول حضرت سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے کربلا کے میدان میں جانثاری کی ایک نئی تاریخ رقم کر کے قربانی کی ایک لازوال مثال قائم کر دی اور رہتی دنیا تک یہ پیغام دے دیا کہ باطل کے خلاف حق کی سربلندی کےلیے اگر سر تن سے جدا بھی ہوتا ہے تو پرواہ نہ کی جائے اور قربانی سے دریغ نہ کیا جائے : ⬇
اس سانحہ کو قید زمین و مکاں نہیں
اک درس دائمی ہے شہادت حسین کی
یہ رنگ وہ نہیں جو مٹانے سے مٹ سکے
لکھی گئی ہے خون سے امامت حسین کی
واقعاتِ کربلا اور شہادت نواسۂ رسول کا غم اپنی جگہ مگر یہ نکتہ اب بھی عام افراد کی نگاہوں سے اوجھل ہے کہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے دشتِ کربلا میں اپنی اور اپنے اعیال کی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے اسلامی حصار و مزاج کے تعمیر میں جو نمایاں کردار ادا کیا ہے تاریخ اسلامی قیامت تک ان کی دوربین نگاہوں کی معترف اور ان کی کرم نوازیوں پر نازاں رہے گی، حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے جبر و استبداد، انحراف سنت نبوی، تمرد و سر کشی اور بد خلقی کے مقابلے میں اخلاق و رواداری، جذبۂ اسلامی اور اطاعت احکام نبوی کی روح شہادت عظمیٰ کے باوجود نئی نسلوں کی بجھی ہوئی رگوں میں پھونک کر چلے گئے اور کفر و انحراف پر ایمان و اطاعت کی یہ ایسی کامرانی تھی جو آج تک جاری ہے، زندہ رہ کر تو کبھی شکست و ریخت ہاتھ آتی ہے تو کبھی فتح و کامرانی مگر جو شہید ہوکر فاتح ہوتے ہیں ان کی فتح کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا ۔
جو لوگ شہادت حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو شکست و ریخت سے تعبیر کرتے ہیں انہیں سب سے پہلے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ فتح کسے کہتے ہیں ؟ اے کاش ! اگر انہوں نے یہ جان لینے کی کوشش کی ہوتی تو زندگی بھر ملت اسلامیہ کی جانب سے رسول دوجہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے وفا کیشی کا خراج وصولتے رہتے ۔ فتح کیا ہے ؟ (1) اپنے موقف پر ثابت قدمی، (2) اور اپنے مقصد کا حصول اب دیکھنا یہ ہے کہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا موقف کیا تھا ؟ اور وہ اپنے موقف پر ثابت قدم کیسے رہے ؟ کیا ان کا موقف مال و متاع اور تخت و تاج کی حصولیابی تھی ؟ اگر ایسا ہوتا تو کبھی بھی وہ صرف 72 افراد جن میں معصوم بچے اور پردہ نشین خواتین بھی شامل تھیں کو لیکر اہل عراق کی دعوت پر یزید کی مطلق العنانی حکومت کی مخالفت کےلیے نہ نکل پڑتے اور اگر نکل پڑے تھے تو کربلا کے میدان کارزار میں 22 ہزار افواج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے ہوتے کیونکہ حکومت کے حصول کےلیے قوت مقابلہ اور مدافعت دونوں ہی شرطیں ہیں اور حضرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کے پاس ان دونوں میں سے کچھ بھی نہ تھا، اسی سے واضح ہو گیا کہ نہ تو ان کو مال و زر اور نہ ہی تخت و تاج کی طلب تھی ، تو پھر ان کا موقف کیا تھا ؟ اس بات کو تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ جب خلافت نبوی بنی امیہ کو ملی تو اس عظیم منصب پر ٥٠ھ میں یزید بن معاویہ تخت نشین ہوا جس کی بدکاریوں کے چرچے عام تھے ، فسق و فجور اور جرم و خطا کی ساری سرحدیں اس نے پھلانگ دی تھی اور وہ کسی بھی طور اس با برکت اور عظیم الشان منصب کا اہل نہ تھا، جس کے بارے میں خود مخبر صادق محبوب دوجہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پیشین گوئی فرمائی تھی کہ : اول من يبدل سنتى رجل من بنى امية يقال له يزيد ۔
ترجمہ : میری سنت کا پہلا بدلنے والا بنی امیہ کا ایک شخص ہوگا جس کا نام یزید ہوگا ۔ (تاریخ الخلفاء،چشتی)
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا : لايزال أمر امتى قائما بالقسط حتى يكون أول من يثلمة رجل من بنى امية يقال له يزيد ۔
ترجمہ : میری امت ہمیشہ عدل و انصاف پر قائم رہے گی یہاں تک کہ بنی امیہ میں یزید نامی ایک شخص ہوگا جو اس عدل میں رخنہ اندازی کرے گا ۔ (تاریخ الخلفاء)
ایسے بدکردار شخص نے جب منصب حکومت سنبھالا تو حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے اس کی بیعت و خلافت سے انکار کر دیا اور یہی ان کا موقف تھا، کیونکہ یہ اسلامی منصب تھا جو فرامین اللہ عزوجل و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا پابند تھا جس منصب پر بیٹھ کر انسان خودمختار ہوکر بھی احکامِ خداوندی اور اطاعت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا پابند تھا اور صالح نظام کی تشکیل میں اس کے کسی بھی فیصلے میں اپنے جذبات و احساسات کا عمل دخل نہ تھا بلکہ عمل کے صدور و نفاذ میں وہ اسلامی اصول و ضوابط کا مطیع تھا ، جس کی بنیاد اللہ عزوجل نے اپنے اس فرمان کے ذریعہ ڈال دی کہ : يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ إِلَى ٱلْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِى يَوْمٍۢ كَانَ مِقْدَارُهُۥٓ أَلْفَ سَنَةٍۢ مِّمَّا تَعُدُّونَ ۔ (پ ٢١ سورہ سجدہ)
ترجمہ : کام کی تدبیر فرماتا ہے آسمان سے زمین تک پھر اسی کی طرف رجوع کرےگا اس دن کہ جس کی مقدار ہزار برس ہے تمہاری گنتی میں ۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ ۔ (پ ١٧ سورہ حج)
ترجمہ :کیا تونے نہ جانا کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے بے شک یہ سب ایک کتاب میں ہے، بے شک یہ اللہ پر آسان ہے ۔
ہفت اقلیم کے اسی تصور کی بنیاد پر کائنات میں اللہ ربّ العزت کی فرمانروائی ہے اور ساری انتظام و انصرام اسی کی ذات سے وابستہ ہے ، عالم فانی سے لیکر عالم جاودانی تک ہر ایک ذرہ اس کی جنبشِ نگاہ کا پابند ہے جس کی اعتراف کےلیے کسی خارجی حجت کی ضرورت نہیں ، وہ اپنی حاکمیت کو بزور مسلط نہیں کرتا بلکہ اپنی کتاب قرآن مقدس کے ذریعہ متلاشیانِ حق و صداقت کو دعوت فکر و عمل دیتا ہے ، جو راست پر آ گئے دنیا و آخرت اس کی زیرِ نگیں ہوگئی جو بھٹک گئے نامرادی ان کا مقدر ٹھہری : قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ أَمَّن يَمْلِكُ ٱلسَّمْعَ وَٱلْأَبْصَٰرَ وَمَن يُخْرِجُ ٱلْحَىَّ مِنَ ٱلْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ ٱلْمَيِّتَ مِنَ ٱلْحَىِّ وَمَن يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ ۚ فَسَيَقُولُونَ ٱللَّهُ ۚ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ ۔ (سورہ یونس)
ترجمہ : تم فرماؤ تمہیں کون روزی دیتا ہے آسمان اور زمین سے یا کون مالک ہے کان اور آنکھوں کا اور کون نکالتا ہے زندہ کو مردے سے اور نکالتا ہے مردہ کو زندے سے اور کون تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے تو اب کہیں گے کہ اللہ تو تم فرماؤ تم کیوں نہیں ڈرتے ۔
کائنات میں اپنی حاکمیت کے اس نظام کو چلانے کےلیے اس نے جہاں رسل و انبیاء علیہم السلام کی بعثت فرمائی وہیں اپنی نیابت و خلافت کا اعلان بھی کیا تاکہ انسانی معاشرہ فطرت خداوندی کا آئینہ دار ہو جس نظام کو چلانے میں بشری کمیاں اور کمزوریاں حائل نہ ہو گویا وہ انسانی حکومت کے چلانے میں خدا و رسول کی بالادستی قبول کرتے ہوئے اس کی نیابت کا فریضہ انجام دے اور اپنے تمام اختیارات خواہ وہ تشریعی ہو یا عدالتی یا انتظامی وہ خدائی احکام سے مقید ہو ۔ اسلامی نظام کی تشکیل کی جو بنیاد مالک کونین نے ڈالی تھی اس کی صحیح تصویرتاجدارِ کائنات نے پیش فرمائی اور اس عظیم منصب پر متمکن ہونے والوں کو اپنے قول و فعل سے مجبور کردیا کہ وہ بھی ان ہدایات پر سختی سے کاربند رہیں ۔ جس نیابت و خلافت کو خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے احسن طریقے سے چلا کر محبوب کُل جہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سچے جانشین ہونے کا حق ادا کیا ، یہی وجہ ہے کہ اس زریں عہد میں جو خلیفہ ہوتا تھا وہی سیاسی حکمراں بھی ہوا کرتا تھا ، قاضی القضاء بھی ، مذہبی قائد بھی ، سپہ سالار بھی اور روحانی تاجدار بھی ، جہاں تمام مسائل کی عقدہ کشائی اور اس کے حل کےلیے ایک ہی ذات ہوا کرتی تھی جس کے ارد گرد معاشرے کا سارا نظام چلتا تھا مگر جب یہ خلافتِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تبدیل ہوتے ہوئے یزید بن معاویہ کے ہاتھوں آئی تو برسوں سے چلی آ رہی خدائی بنیادوں کی جڑیں ہل گئیں،جو دل اطاعت خداوندی کا آئینہ دار اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آماجگاہ تھے تمرد و سرکشی پر اتر آئے جو معاشرہ فطرت خداوندی کا مظہر تھا شر و فساد کا مسکن بن گیا ۔
خدائی فکر و عمل کے خلاف آج سے چودہ سو برس قبل جو طوفان سر اٹھا رہا تھا حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے اگر اس پر بندھ نہ باندھا ہوتا اور گلشنِ اسلام کی آبیاری اپنے خونِ جگر سے نہ کی ہوتی تو خلافت و نیابت کا مزاج کچھ اور ہی ہوتا ، یہ حضرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی فتح و نصرت کی بین دلیل ہے کہ انہوں نے ایسے بدکردار شخص کی مخالفت کرکے اور اس کی بیعت نہ کرکے ملتِ اسلامیہ کو یہ مزاج دے دیا کہ نائب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور خلیفۂ نبی وہی ہو سکتا ہے جو اپنے قول و عمل سے خدائی احکام کی تشریح کرے اور اپنے اس موقف پر اپنی سانسوں کی آخری رفتار تک ثابت قدم رہے ، اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے جگر کے ٹکڑوں کے لہو بہتے دیکھتے رہے مگر ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی ، کیونکہ ان کی دور رس نگاہیں یہ دیکھ رہی تھیں کہ آج اگر میرے قدم ڈگمگا گئے تو آنے والی نسلوں کےلیے میں یہ سند فراہم کردوں گا کہ نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک ظالم و جابر حکمراں کے ہاتھوں اپنا ہاتھ دے کر جبر و استبداد اور انحراف خداوندی کے ہاتھ مضبوط کر دیے اس لیے کوئی بھی نا اہل اس منصب پر بیٹھ کر خدا کی حاکمیت کا مزاق اڑا سکتا ہے ۔ (چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا تھا کہ : الحسين منى و انا من الحسين ،، حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس دقیع جملے سے جہاں ذاتِ حسین رضی اللہ عنہ مراد ہے وہیں اس کا واضح مفہوم یہ بھی ہے کہ جب جب میرے دین سے کوئی انحراف کرے گا ، حسین رضی اللہ عنہ اسے اطاعت و بندگی سیکھائیں گے ، ناموسِ الوہیت و رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا تحفظ اپنی زندگی کا مشن بنائیں گے اور اگر کبھی کوئی میرے دین پر انگشت نمائی کرے گا تو اس کی سرخروئی کےلیے اپنا خون دے کر بھی اس کی آبیاری کرنی پڑی تو حسین رضی اللہ عنہاس بھی دریغ نہ کریں گے ، حضرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہ نے نانا جان صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس بھرم کو دنیا میں عملی طور پر پیش کرکے یقیناً اسلامی مزاج کا تحفظ کیا ہے ۔
اس پورے منظر نامے سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو گئی کہ حضرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہ اپنے موقف میں پوری طرح ثابت قدم رہے اور جان دے کر یزید سے منصب خلافت چھین لی ، حالانکہ یزید کو خلافت کےلیے نامزد بھی کیا گیا ، اس نے سماج سے اپنی بیعت بھی لی مگر اپنے ماسبق خلفاء حضرت ابوبکر صدیق ، حضرت عمر فاروق ، حضرت علی اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہم کی طرح منصب خلافتِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مذہبی قیادت حاصل نہ کر سکا ، یزید لعین کو حکمرانی تو مل گئی مگر حضرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہ نے اس کے خلاف منصبِ خلافتِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مذہبی قیادت کی نااہلیت کا بگل بجا کر اسلام مزاج کو جو تحفظ فراہم کیا تھا وہ پورا ہو گیا اور اس کی دھمک اس طرح قائم ہوئی کہ مشرقِ وسطیٰ سے لے کر مغرب میں جہاں تک اس کی سلطنت قائم تھی عسکری قوت کے زیر اثر اسے اپنا سیاسی حکمراں تو مان لیا مگر خلیفۃ المسلمین ، امیر المومنین اور مذہبی و روحانی قائد ماننے سے ہر شخص انکاری ہو گیا ، تاریخ شاہد ہے کہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے منصب خلافت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مذہبی قیادت کی نااہلیت کی بنیاد پر یزید کے خلاف جو تحریک چلائی تھی جب تک زمین پر خلافت باقی رہی کسی بھی ظالم و جابر حکمراں کو منصب نہ مل سکا ، لہٰذا یہ ماننا ہوگا کہ کہ حضرت امام حسین نے شہادت پاکر بھی اپنا نام تاریخ اسلامی میں ایک فاتح کی حیثیت سے درج کرا لیا ۔
آج جہاں ہم حضرتسیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں تو ضروری ہے کہ سیرتِ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ پر عمل پیرا ہوں ۔ اپنے ظاہر و باطن کو ان کی سیرت میں ڈھالنے کی کوشش کریں ۔ باہمی رنجشوں اور فرقہ واریت کو چھوڑ کر محبت و عمل کا نشان، دینِ محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علمبردار اور اسلام کی خاطر مر مٹنے والے بن جائیں تاکہ روز حشر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے سامنے سرخرو ہو سکیں اور کہہ سکیں کہ اے حبیبِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگیاں دین کی سربلندی کی خاطر قربان کی ہیں ۔اللہ عزوجل ہمیں سیرتِ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ پر چلنے کی توفیق عطا فرماۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment