مزارات پر گنبد اور پکی قبر بنانے پر نجدیوں کے اعتراض کا مدلّل جواب
محترم قارئینِ کرام : مشائخ کرام اور اولیائے عظام علیہم الرحمہ کے مزارات کے اِرد گِرد یا اس کے قریب کوئی عمارت بنانا جائز ہے ۔ اس کا ثبوت قرآن کریم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و عامۃ المسلمین کے عمل اور علماء کے اقوال سے ہے ۔ قرآن کریم نے اصحاب کہف کا قصہ بیان فرماتے ہوئے کہا ۔ قال الذین غلبو علی امرھم لتخذن علیھم مسجدًا وہ بولے جو اس کام میں غالب رہے کہ ہم تو ان اصحاب کہف پر مسجد بنائیں گے ۔ (پارہ 15 سورہ کہف آیت 21)
تفسیر روح البیان مین اس آیت میں بنیاناً کی تفسیر میں فرمایا ۔ دیوارے کہ از چشم مردم پوشیدہ سومذ یعنی لایعلم احد تربتھم وتکون محفوظتۃ من تطرق الناس کما حفظت تربت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بالحظیرۃ ۔ (تفسیر روح البیان جلد 5 صفحہ 274 ، 275 داراحیاء التراث العربی،چشتی)
ترجمہ : انہوں نے کہا کہ اصحاب کہف پر ایسی دیوار بناؤ جو ان کی قبر کو گھیرے اور ان کے مزارات لوگوں کے جانے سے محفوظ ہوجائیں ۔ جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر شریف چاردیواری سے گھیر دی گئی ہے ۔ مگر یہ بات نامنظور ہوئی تب مسجد بنائی گئی ۔ مسجداً کی تفسیر روح البیان میں ہے ،،یصلی فیہ المسلمون و یتبرکون بمکانھم،، لوگ اس میں نماز پڑھیں اور ان سے برکت لیں ۔ قرآن کریم نے ان لوگوں کی باتوں کا ذکر فرمایا ایک تو اصحاب کہف کے گرد قبہ و مقبرہ بنانے کا مشورہ کرنا اور دوسرے ان کے قریب مسجد بنانا اور کسی باب کا انکار نہ فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ دونوں فعل جب بھی جائز تھے اور اب بھی جائیز ہیں جیسا کہ کتب اصول سے ثابت ہے کہ شرائع قبلنا یلزمنا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حضرت عاٸشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں دفن کیا گیا ۔ اگر یہ ناجائز تھا تو پہلے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کو گرا دیتے پھر دفن کرتے ۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں اس کے گرد کچی اینٹوں کی گول دیوار کھچا دی ۔ پھر ولید ابن عبدالملک کے زمانہ میں سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں اس عمارت کو نہایت مضبوط بنایا اور اس میں پتھر لگوائے ۔ چنانچہ خلاصۃ الوفا باخبار دارالمصطفیٰ مصنفہ سید سمہودی دسویں فصل ۔ فیما یتعلق بلحجرہ المنیفتہ 196 میں ہے : عن عمر ابن دینار و عبیداللہ ابن ابی زید قالا لم یکن علی عھد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حائط فکان اول من بنی علیہ جدارا عمر ابن الخطاب۔ قال عبیداللہ ابن ابی زید کان جدار قصیرا ثم بناہ عبداللہ ابن الزبیر الخ وقال الحسن بصری کنت ادخل بیوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وانا غلام مراھق اذا نال السقف بیدی وکان لکل بیت حجرۃ وکانت حجرہ من العکستہ من سعیر مربوطتہ فی حشب عرعرۃ ۔ ترجمہ وہی جو اوپر بیان ہو چکا ۔ (خلاصۃ الوفا باخبار دار المصطفیٰ دسویں فصل فیما یتعلق بالحجرہ المنیفۃ صفحہ 196،چشتی)
بخاری جلد اول کتاب الجنائز اور مشکوۃ باب البکا علی المیت میں ہے کہ حضرت حسن ابن حسن ابن علی رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا : ضربت امراتہ القبۃ علی قبرہ سنۃ ۔
ترجمہ : تو ان کی بیوی نے ان کی قبر پر ایک سال تک قبہ ڈالے رکھا ۔ (صحیح بخاری کتاب الجنائز باب الجرید علی القبر جلد 1 صفحہ 442 ابن کثیر بیروت و فی نسخہ جلد 1 صفحہ 177 مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی)
یہ بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں ہوا ان سب کی موجودگی میں ہوا ۔ کسی نے انکار نہ کیا۔ نیز ان کی بیوی ایک سال تک وہاں رہیں ۔ پھر گھر واپس آئیں ۔ جیسا کہ اسی حدیث میں ہے ۔ اس سے بزرگوں کی قبروں پر مجاوروں کا بیٹھنا بھی ثابت ہوتا ہے ۔
روح البیان جلد 3 پارہ از زیر آیت (پارہ 10 سورہ 9 آیت 18) انما یعمر مسجد اللہ من امن باللہ میں ہے : فبناء قباب علی قبور العلماء والاولیاء والصلحاء امر جائز اذان کان القصد بذلک التعظیم فی این العآمۃ حتی لا یحتقروا صاحب ھذا القبر ۔
ترجمہ : علماء اور اولیاء صالحین کی قبروں پر عمارت بنانا جائز کام ہے جبکہ اس سے مقصود ہو لوگوں کی نگاہوں میں عظمت پیدا کرنا تاکہ لوگ اس قبر والے کو حقیر نہ جانیں ۔ (تفسیر روح البیان جلد 3 صفحہ 510 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی،چشتی)
یعنی پارہ 15 سورہ کہف آیت نمبر 21 کی تصدیق میں صحیح حدیث بھی پیش کردی اور سلف کا قول اور عمل بھی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور یعنی خیر القرون سے ثبوت بھی ۔
خوارج اکثر عوام کو ایک حدیث کے ذریعے مغالطے میں مبتلا کرتے ہیں کہ دیکھو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فلاں صحابی کو قبروں کو ہموار کرنے کا حکم دیا تھا ۔ یعنی توڑنے کا ۔ تو اس میں دو اہم باتیں ہیں وہ یہ کہ وہ کفار اور مشرکین کی ان قبور کا حکم تھا جو اس زمانے میں مدینہ کی اولین اسلامی ریاست کے حدود میں تھیں اور دوسرا یہ کہ یہ جو تصاویر میں جیسے بت بنائے گئے ہیں اس طرح کی قبور کے بارے میں حکم ہے نا کہ مسلمانوں کے قبرستان کی یا اولیائے کرام علیہم الرحمہ کی قبور پر گنبدوں کا ذکر ۔
تاریخ مدینۃ الدمشق ابن عساکر ، تاریخ ابن خلدون اور تمام تر کتب اسلامی میں باقاعدہ احادیث کے مطابق اور قرآن کی تعلیمات کے مطابق ہی مزارات جو شعارِ اسلام ہیں بنائے گئے ۔ خوارج اپنی گمراہی میں عوام کو دھوکہ دینے پر معافی نہیں مانگتے لیکن کافروں کےلیے نازل کیے گئے احکامات کو مسلمانوں پر لگا کر ان کے قتال کو جائز کرتے ہیں یہی تو ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کا مفہوم تھا اور ہے ۔
اعتراض کرنے والے امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فتویٰ بیان کرتے ہیں : وَعَنْ اَبِیْ حَنِیْفَۃ یَکْرَہُ اَنْ یُّبْنٰی عَلَیْہِ بِنَا٫مِنْ بَیْتٍ اَوْقُبَّۃٍ وَّنَحْوَ ذَالِکَ لِمَا رَوَی جَابِرٌ نَھِیِ رَسُوْلِ ﷲِ عَنْ تَجْصِیْصِ الْقُبُوْرِ وَاَنْ یُّکْتَبَ عَلَیْھَا وَاَنْ یُّبْنٰی عَلَیْھَا(شامی جلد1 صفحہ 839 مطبوعہ استنبول،چشتی)
ترجمہ : امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قبر پر کوئی عمارت مثلاً گھر ، قبہ وغیرہ بنانے سے منع کیا ہے کیونکہ جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس کی ممانعت آئی ہے کہ قبر کو پختہ بنایا جائے، اس پر کتبہ لگایا جائے یا اس پر عمارت تعمیر کی جائے ۔ یہ درالمحتار کی عبارت ہے جو کتاب الجنائز سے لی گئی ہے ۔
قبر کو ایک ہاتھ سے اونچا کرنا منع ہے کیونکہ مسلم میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قبر کو پختہ کرنے اور اس پر کچھ بنانے سے منع فرمایا ۔
درمختار کے اسی باب میں ہے وتکرہ الزیادۃ علیہ من التراب لانہ بمنزلۃ البنآء قبر پر مٹی زیادہ ڈالنا منع ہے کیونکہ یہ عمارت بنانے کے درجہ میں ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ قبر پر یہ بنایا یہ ہے کہ قبر دیوار میں آجائے اور گنبد بنانا یہ حول القبر یعنی قبر کے اردگرد بنانا ہے یہ ممنوع نہیں ہے۔ دوسرے یہ حکم عامۃ المسلمین کی قبروں کے لیئے ہے۔ تیسرا جواب یہ کہ اس بنانے کی تفسیر خود دوسری حدیث نے کردی جو کہ مشکوٰۃ باب المساجد میں ہے : اللھم لاتجعل قبری ۔
ترجمہ : اے اللہ میری قبر کو بت نہ بنانا جس کی پوجا کی جائے اس قوم پر خدا کا سخت غضب ہے جس نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو مسجد بنا لیا ۔ (مشکوٰۃ المصابیح فصل اول صفحہ 72 نور محمد کتب خانہ کراچی)
اس سے معلوم ہوا کہ کسی قبر کو مسجد بنانا اس پر عمارت بنا کر اس کی طرف نماز پڑھنا حرام ہے یہ ہی اس حدیث سے مراد ہے قبروں پر کیا نہ بناؤ مسجد ۔ قبر کو مسجد بنانے کے معنی یہ ہیں کہ اس کی عبادت کی جائے ۔ یا کم از کم اس کو قبلہ بنا کر اس کی طرف سجدہ کیا جائے ۔
علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ فتح الباری میں فرماتے ہیں : بیضاوی نے فرمایا کہ جبکہ یہود و نصاریٰ پیغمبروں کی قبروں کو تعظیماً سجدہ کرتے تھے اور اس کو قبلہ بنا کر اس کی طرف نماز پڑھتے تھے اور ان کقبور کو انہوں نے بت بنا رکھا تھا لہٰذا اس پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لعنت فرمائی اور مسلمانوں کو اس سے منع فرمایا گیا ۔
یہ حدیث اعتراض کرنے والوں کی پیش کردہ حدیث کی تفسیر ہو گئی ۔
معلوم ہوا کہ قبہ بنانے سے منع نہیں فرمایا بلکہ قبر کو سجدہ گاہ بنانے سے منع فرمایا چوتھے یہ کہ یہ ممانعت حکم شرعی نہیں ہے ۔ بلکہ زہد و تقویٰ کی تعلیم ہے جیسے کہ رہنے کے پختہ مکانات سے بھی روکا گیا ہے بلکہ گرا دیے گئے ۔ پانچواں جواب یہ ہے کہ جب بنانے والے کا یہ اعتقاد ہو کہ اس عمارت سے میت کو راحت یا فائدہ پہنچتا ہے تو منع ہے کہ غلط خیال ہے اور اگر زائرین کی آسائش کی وجہ سے عمارت بنائی جائے تو جائز ہے ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے خاص خاص قبروں پر عمارت بنائی ہیں یہ فعل سنتِ صحابہ رضی اللہ عنہم ہے چنانچہ حضرت امام حسن مثنی رضی اللہ عنہ کی بیوی نے اپنے شوہر کی قبر پر قبہ ڈالہ جو کہ مشکوٰۃ باب البکاء میں موجود ہے۔ زوجہ حسن مثنی کے اس فعل کے ماتحت امام ملا علی قاری الحنفی مرقاۃ شرح مشکوۃ باب البکاء میں فرماتے ہیں : الظاھر انہ لاجتماع الاحباب للذکر والقراءۃ و حضور الاصاحب للدعا بالمغفرۃ والرحمۃ اما حمل فعلھا علی العبث المکروہ فغیر لائق لصنیع اھل البیت ۔
ترجمہ : ظاہر یہ ہے کہ یہ قبور دوستوں اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے جمع ہونے کےلیے تھا تاکہ ذکر اللہ اور تلاوت قرآن کریں اور دعائے مغفرت کریں لیکن ان بی بی کے اس کام کو محض بے فائدہ بنانا جو کہ مکروہ ہے یہ اہلبیت رضی اللہ عنہم کی شان کے خلاف ہے ۔ (مرقاۃ المفاتیح کتاب الجنائز البکاء علی المیت الفصل الثانی تحت رقم الحدیث 1749 ص 237 مطبوعہ رشیدیہ کوئٹہ،چشتی)
صاف معلوم ہوا کہ بِلا فائدہ عمارت بنانا منع اور زائرین کے آرام کےلیے جائز ہے ۔ نیز حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت زینت بن جحش رضی اللہ عنہا کی قبر پر قبہ یعنی گنبد بنوایا ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھائی عبدالرحمٰن کی قبر پر اور حضرت محمد ابن حنیفہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کی قبر پر قبہ بنایا ۔ متقیٰ شرح موطا امام مالک میں ابوعبد سلیمان علیہما الرحمہ فرماتے ہیں : وضربہ عمر علی قبر زینب بن جحش و ضربتہ عائشۃ علی قبر اخیھا عبدالرحمٰن وضربہ محمد ابن الحنفیۃ علی قبر ابن عباس وانما کرھہ لمن ضربہ علی وجہ السمعۃ والمباھات ۔
ترجمہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت زینب بنت حجش کی قبر پر قبہ بنایا ۔ حضرت عائشہ نے اپنے بھائی عبدالرحمٰن کی قبر پر قبہ بنایا محمد ابن حنیفہ (ابن علی رضی اللہ عنہما) نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قبر پر قبہ بنایا ۔ اور جس نے قبہ بنانا مکروہ کہا ہے تو اس کے لیئے کہا جو کہ اس کو فخر دریا کےلیے بنائے ۔ ایسے ہی بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع جلد ۲ صفحہ ۳۵۹ دارالکتب العلمیۃ بیروت از امام ابی بکر کاسانی الحنفی رحمة اللہ علیہ میں بھی روایات موجود ہیں ۔
خوارجی طبقات یعنی (وہابی دیوبندی) کے بطلان کا مکمل رد
خوارج یہ حدیث اپنے حق میں بطور دلیل اور جواز کے پیش کرتے ہیں اور اسی کو بنیاد بنا کر انبیائے کرام علیہم السلام اور صالحین علیہم الرحمہ کی قبور مزارات کو شہید کرتے ہیں آج اس کا بھی جواب ان کو دیا جا رہا ہے وہ بھی ان کی چھاپی کتاب سے اور سلف صالح سے : ⬇
وہابی دلیل : مشکوٰۃ باب الدفن میں لکھا ہے و عن ابی ھیاج ن الاسدی قال قال لی علی الا ابعثک علی ما بعثنی رسول اللہ علیہ السلام ان لا تدع تمثالا ال طمستہ ولا قبراً مشرفاً الا سویتہ ۔
ترجمہ : ابوہیاج اسدی سے مروی ہے کہ مجھ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا میں تم کو اس کام پر نہ بھیجوں جس پر مجھ کو حضور علیہ السلام نے بھیجا تھا وہ یہ کہ تم کوئی تصویر نہ چھوڑو مگر مٹادو اور نہ کوئی اونچی قبر مگر اس کو برابر کردو ۔ (مشکوۃ المصابیح باب الدفن فصل اول صفحہ 148 نورمحمد کتبخانہ کراچی،چشتی)
بخاری جلد اول کتاب الجنائز الجرید علی القبر میں ہے : روای ابن عمر قسطاطا علی قبر عبدالرحمٰن فقال انزعہ یا غلام قائما یظلہ عملہ ۔
ترجمہ : ابن عمر رضی اللہ عنہما نے عبدالرحمٰن کی قبر پر قبہ خیمہ دیکھا پس آپ نے فرمایا کہ اے لڑکے اس کو علیحدہ کردو کیونکہ ان پر ان کے عمل سایہ کررہے ہیں ۔ (صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 181 مطبوعہ قدیمی کتب خانہ)
ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ اگر کسی قبر پر عمارت بنی ہو یا قبر اونچی ہو تو اس کو گرا دینا چاہیے ۔
جواب : اس حدیث کو آڑ بنا کر خوارج نے صحابہ کرام اور اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کے مزارات کو گرا کر شہید کر کے زمین کے ہموار کر دیا ۔ دیکھیے جنت البقیع کا موجودہ منظر ۔
اب یہ رہا اس کا مفصل جواب : جن قبروں کو گرادینے کا سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے حکم دیا ہے وہ کفار کی قبریں تھیں نہ کہ مسلمین کی ۔ اس کی چند وجوہات ہیں : ⬇
اولاً تو یہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم کو اس کام کے لیے بھیجتا ہوں ۔ جس کےلیے مجھے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھیجا ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں جن قبروں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے گرایا وہ مسلمانوں کی قبریں نہیں ہو سکتیں ۔
دوئم کیونکہ ہر صحابی رضی اللہ عنہ کے دفن میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شرکت فرماتے تھے ۔ نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوئی کام بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بغیر مشورہ کے نہ کرتے تھے لہٰذا اس وقت جس قدر قبور مسلمین بنیں ۔ وہ یا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی موجودگی یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اجازت سے بنی تو وہ کون سے مسلمانوں کی قبریں تھیں جو کہ ناجائز بن گئیں ؟ ۔ اور ان کو مٹانا پڑا ؟
عیسائیوں کی قبور اونچی ہوتی تھیں ۔ جیسا کہ آج کل بھی کوئی گوگل کو سرچ کر کے دیکھ سکتا ہے کہ ان کی قبروں پر تصاویر ، بت اور یا پھر صلیب کے ایک ہاتھ سے اونچے نشانات ہوتے ہیں اور جن کو مسمار کرنے کا حکم دیا ہے وہ آپ سرچ کر کے دیکھ لیں کہ کیسی قبور تھیں سمجھ آ جائے گی بات آسانی سے ۔
بخاری شریف صفحہ 61 مسجد نبوی کی تعمیر کے بیان مین ہے : امر النبی علیہ السلام بقبور المشرکین فبثبت ۔ (صحیح بخاری باب ھل تنبش قبور مشرکی الجاھلیۃ جلد 1 صفحہ 61 قدیمی کتب خانہ)
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مشرکین کی قبروں کا حکم دیا پس اکھیڑ دی گئیں ۔
بخاری شریف میں باقائدہ ایک باب باندھا گیا ۔ کہ مشرکین کی زمانہ جاہلیت کی قبریں اکھیڑ دی جائیں اسی کی شرح میں امام ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ فتح الباری شرح صحیح البخاری شریف جلد دوم میں فرماتے ہیں شرح کرتے ہوئے کہ : ای دون غیرھا من قبور الانبیاء واتباعھم لما فی ذلک اھانۃ لھم ۔
ترجمہ : یعنی ماسوا انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کے متبعین کے کیونکہ ان کی قبریں ڈھانے میں ان کی اہانت (یعنی توہین) ہے ۔ (فتح الباری جلد ۲ کتاب الصلاۃ باب ھل تنبش صفحہ ۶۲۴ حدیث ۴۲۲ (۳۲۸) طبع سلطان بن عبدالعزیز آل سعود)
دوسری جگہ فرماتے ہیں : وفی الحدیث جواز تصرف فی المقبرۃ المملوکۃ وجواز تنبش قبور الدارسۃ اذا لم یکن محرمۃ ۔
ترجمہ : اس حدیث میں اس پر دلیل ہے کہ جو قبرستان ملک میں آگیا اس میں تصرف کرنا جائز ہے اور پرانی قبریں اکھاڑ دی جائیں بشرطیکہ محترمہ نہ ہوں ۔ (فتح الباری شرح بخاری جلد ۲ صفحہ ۶۳۷ (۴۲۸)
لہٰذا اس حدیث اور اس کی شرح نے مخالف کی پیش کردہ حدیثِ علی رضی اللہ عنہ کی تفسیر کردی ۔ کہ مشرک کی قبریں گرائی جائیں ۔ دوسرے اس لیے کہ اس میں قبر کے ساتھ فوٹو کا ذکر کیوں ہے ۔ مسلمان کی قبر پر فوٹو کہاں ہوتا ہے ؟ تصویر کہاں ہوتی ہے ؟ معلوم ہوا کہ کفار کی قبریں ہی مراد ہیں ۔ کیونکہ ان کی قبروں پر میت کا فوٹو بھی ہوتا ہے ۔
تیسرے اس لیے کہ فرماتے ہیں کہ اونچی قبروں کو زمین کے برابر کردو اور مسلمان کی قبر کےلیے سنت ہے کہ زمین سے ایک ہاتھ اونچی رہے ۔ اس کو بالکل پیوند زمین کرنا خلافِ سنت ہے ۔ ماننا پڑے گا کہ یہ قبور کفار کی تھیں ورنہ تعجب ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ تو اونچی قبریں اکھڑوائیں اور ان کے فرزند محمد ابن حنفیہ و ابن عباس رضی اللہ عنہم کی قبر پر گنبد بنائیں ۔ اگر کسی مسلمان کی قبر اونچی بن بھی گئی تب بھی اس کو نہیں اکھیڑ سکتے کیونکہ اس میں مسلمان کی توہین ہے ۔ اولاً اونچی نہ بناو ۔ مگر جب بن جائے تو نہ مٹاؤ ۔
قرآن پاک چھوٹا سائز کا بھی چھپانا منع ہے دیکھو شامی کتاب الکراہیت ۔ مگر جب چھپ گیا تو اس کو پھینکو نہیں اور نہ ہی جلاؤ ۔ کیونکہ اس میں قرآن کی بے ادبی ہے احادیث میں وارد ہے کہ مسلمان کی قبر پر بیٹھنا وہاں پاخانہ کرنا ۔ وہاں جوتے سے چلنا ویسے بھی اس پر چلنا پھرنا منع ہے مگر افسوس کہ نجدیوں وہابیوں نے صحابہ کرام و اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کے مزارات شہید کیے اور معلوم ہوا ہے کہ اب جدہ میں انگریز عیسائیوں کی اونچی اونچی قبریں برابر بن رہی ہیں ۔ صدق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اھل الاسلام ویترکون اھل الاصنام ۔ ہر ایک کو اپنی جنس سے محبت ہوتی ہے ۔ یعنی اہلِ اسلام کو قتل کرتے ہیں اور اہلِ اصنام کو تحفظ دیتے ہیں ۔
لہٰذا خوارج کا اس جہالت بھرے استدلال پر عمل کر کے مزارات و صالحین علیہم الرحمہ کی قبور کو شہید کرنا بھی ان کی صیہونیت کی ایک عمدہ دلیل سے زیادہ کچھ نہیں نا اس کا اسلام سے کوئی تعلق ہے نہ قرآن و سنت سے اور نہ ہی سلف الصالحین علیہم الرحمہ کے عمل سے ۔ یہ ان کی ذاتی خواہشات ہیں اور ان ہی غلط گمراہی بھرے جواز بنا کر انہوں نے اپنے دھرم کی اسلام کے نام پر اشاعت کی ہے اور ہمارے ہاں کے جہلاء بھی اس حرامکاری میں شریک رہے ۔
مزارات پر عمارت اور قبے بنانا وہابیوں کے گھر سے گواہی
انبیاء کرام علیہم السّلام کی قبور پر حضرت سلیمان علیہ السّلام نےقبہ نما چھت بنادی ۔ (اطلس القرآن صفحہ نمبر 38 مطبوعہ غیر مقلد وہابی حضرات)
انبیاء کرام علیہم السّلام کی قبروں پر وحی الٰہی کے مطابق سلیمان علیہ السّلام نے قبے یعنی ، گنبد بنائے ۔ (اطلس القرآن صفحہ 85 وہابی حضرات)
نجدی گمراہ کے پیروکار قرآن و حدیث کا خود ساختہ من گھڑت مفہوم بیان کر کے مزارات اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے روضہ اقدس کے توہین کرنے والو مزارات پر قبہ عمارت بنانا سلیمان علیہ السّلام کی سنّت اور وحی الٰہی کے مطابق ہے او نجدی گمراہ کے پیروکارو خود تو گمراہ ہوئے ہو سادہ لوح مسلمانوں کو کیوں گمراہ کرتے ہو ؟ کیوں مزارات کی توہین کرتے ہو شرم تم کو مگر آتی نہیں شرم آئے تو کہاں سے تم لوگوں میں کہیں شرم و حیاء اور دیانت باقی ہو تو آئے نا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment