Wednesday 30 August 2023

مزارات اولیاء اللہ علیہم الرحمہ پر حاضری و دُعا کا جواز اور خرافات کا رد

0 comments

مزارات اولیاء اللہ علیہم الرحمہ پر حاضری و دُعا کا جواز اور خرافات کا رد

محترم قارئینِ کرام : اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے مزارات شعائر اللہ ہیں‘ ان کا احترام و ادب ہر مسلمان پر لازم ہے‘ خاصان خدا ہر دور میں مزارات اولیاء پر حاضر ہو کر فیض حاصل کرتے رہے ہیں ۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مزار پر حاضر ہو کر سے فیض حاصل کیا کرتے تھے ۔ پھر تابعین کرام صحابہ کرام علیہم الرضوان کے مزارات پر حاضر ہوکر فیض حاصل کیا کرتے تھے‘ پھر تبع تابعین‘ تابعین کرام کے مزارات پر حاضر ہوکر فیض حاصل کیا کرتے تھے‘ تبع تابعین اور اولیاء کرام کے مزارات پر آج تک عوام وخواص حاضر ہوکر فیض حاصل کرتے ہیں اور ان شاء اللہ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا ۔ اولیاء اللہ کے مزارات پر حاضری اور دُعا سے متعلق بعض طبقات کی سوچ اور طرزِ عمل افراط و تفریط کا شکار ہے۔ ایک طبقہ وہ ہے جو سرے سے اِس کے جواز کا ہی قائل نہیں بلکہ اِسے صریح شرک و بدعت گردانتا ہے ۔ اِس کے برعکس ایک طبقہ عوام الناس کا ہے جسے اہلِ علم کی سند حاصل نہیں وہ بھی اِس سلسلہ میں جہالت اور تفریط میں مبتلا ہے ۔ جمہور مسلمانوں کا مزارات پر طریقِ حاضری و دُعا نہایت معقول اور حزم و احتیاط کا آئینہ دار ہے ۔ قاضی الحاجات ، فریاد رس اور حقیقی مشکل کشا اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔ لیکن مقربینِ بارگاہِ الٰہی انبیاء و اولیاء کا دُعا میں توسل جائز ہے اور اِن کے توسل سے دُعائیں قبول ہوتی ہیں ۔ اِس سلسلہ میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : واز جملہ آدابِ زیارت است کہ روئے بجانب قبر و پشت بجانب قبلہ مقابل روئے میت بایستد و سلام دہد و مسح نکند قبر را بدست و بوسہ ندہد آنرا و منحنی نشود و روئے بخاک نمالد کہ ایں عادتِ نصاریٰ است۔ وقرات نزد قبر مکروہ است نزدِ ابی حنیفہ و نزدِ محمد مکروہ نیست۔ و صدر الشہید کہ یکے از مشائخ حنفیہ است بقولِ محمد اخز کرد و فتویٰ ہم بریں است۔ و شیخ امام محمد بن الفضل گفتہ کہ مکروہ قراتِ قرآن بہ جہر است واما مخافت لا باس بہ است اگرچہ ختم کند ۔
ترجمہ : قبورِ اولیاء کی زیارات کے آداب میں سے ہے کہ زائر قبر کی طرف منہ اور قبلہ کی جانب پیٹھ کر کے صاحبِ قبر کے منہ کے برابر کھڑا ہو جائے، اُسے سلام کہے، ہاتھ سے قبر کو نہ چھوئے اور نہ قبر کو بوسہ دے اور نہ قبر کے سامنے جھکے اور قبر کے سامنے مٹی پر اپنا منہ نہ ملے کیونکہ یہ طریقہ نصاریٰ کا ہے۔ قبر کے پاس قرآن حکیم کی تلاوت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک (بآوازِ بلند) مکروہ ہے، مگر امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مکروہ نہیں ہے۔ علمائِ احناف میں سے صدر الشہید نے امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے قول کو اختیار کیا ہے اور اِسی پر فتویٰ ہے۔ شیخ امام محمد بن الفضل نے کہا ہے کہ قبر کے نزدیک اُونچی آواز میں قرآن خوانی مکروہ ہے، لیکن اگر دھیمی آواز میں ہو تو سارا قرآن مجید پڑھ لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ۔ (اشعة اللمعات باب زيارة القبور صفحہ 763)

یہ بات ذہن نشین رہے کہ صالحینِ اُمت کے مزارات کو بوسہ دینا ضروری اُمور میں سے نہیں ہے لہٰذا اس عمل کو منکرین و مخالفین کے ردِعمل میں بے ادبی اور گستاخی سمجھنا اچھا نہیں ہے۔ اکابر مشائخ کے ملفوظات اور اُن کے معمولات میں احتیاط پسندی کی خاطر بوسہ دینے سے منع کیا گیا ہے۔ چنانچہ پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ اِس سلسلہ میں لکھتے ہیں : پس اقربِ بصواب می نماید کہ کسے از ثقات و مقتدایان تقبیلِ مزارات متبرکہ ہم ننماید، تاکہ عوام کالانعام در ورطۂ ضلال نیفتند۔ چہ بہ سبب جہل فرق میانِ سجود و تقبیل کردن نمی توانند ۔
ترجمہ : بہتر یہی ہے کہ اربابِ علم اور رہنمایانِ قوم میں سے کوئی آدمی مزارات کا بوسہ نہ لے تاکہ دیکھا دیکھی میں بے علم اور عام اَن پڑھ لوگ گمراہی کے بھنور میں نہ پھنس جائیں۔ کیونکہ وہ جہالت کی وجہ سے بوسہ اور سجدہ میں تمیز نہیں کر سکتے ۔ (تحقيق الحق صفحہ 159)

تعظیماً بوسہ دینا فی نفسہ منع اور ناجائز نہیں ہے ۔ اکابر علماء و مشائخ نے صرف احتیاط کی خاطر بوسہ دینے سے منع کیا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خواص کا عمل عامۃ الناس کےلیے دلیل و حجت ہوتا ہے اِس لیے خواص کو بطورِ خاص احتیاط کا دامن تھامنے کی طرف متوجہ کیا گیا ہے ۔ خواص تو بوسہ اور سجدہ کا فرق بخوبی سمجھتے ہیں لیکن عوام یہ فرق نہیں سمجھتے اِس لیے عوام کی خاطر انہیں بھی منع کیا گیا ہے ۔

مزاراتِ اولیاء پر جانا جائز اور مستحب کام ہے ۔ جیسا کہ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیاتھا ۔ اب زیارت کیا کرو ۔ (صحیح مسلم کتاب الجنائز حدیث نمبر 2260 مطبوعہ دارالسلام ریاض سعودی عرب)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی مزارات پر تشریف لے جایا کرتے تھے ۔ جیسا کہ مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وہاں گریہ فرمایا اور جو صحابہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ تھے وہ بھی روئے ۔ (صحیح مسلم کتاب الجنائز حدیث 2258 مطبوعہ دارالسلام، ریاض سعودی عرب،چشتی)

فقہ حنفی کی مایہ ناز کتاب رد المحتار میں حضور خاتم المحققین ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ (وصال1252ھ) فرماتے ہیں : امام بخاری علیہ الرحمہ کے استاد امام ابن ابی شیبہ علیہ الرحمہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر سال شہداء احد کے مزارات پر تشریف لے جاتے تھے ۔ (رد المحتار باب مطلب فی زیارۃ القبور مطبوعہ دارالفکر بیروت)

امام فخر الدین رازی علیہ الرحمہ (سن وصال606ھ) اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر سال شہداء احد کے مزارات پر تشریف لے جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد چاروں خلفاء کرام علیہم الرضوان بھی ایسا ہی کرتے تھے ۔ (تفسیر کبیر، زیر تحت آیت نمبر 20، سورہ الرعد)

صحابہ کرام علیہم الرضوان حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مزار اقدس پر حاضری دیا کرتے تھے ۔ جیسا کہ حضرت مالک دار رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی ﷲ عنہ کے زمانے میں لوگ قحط میں مبتلا ہوگئے ۔ ایک صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر اطہر پر آئے اور عرض کیا ۔ یارسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ اپنی امت کے لئے بارش مانگئے کیونکہ وہ ہلاک ہوگئی ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الفضائل حدیث نمبر 32002 مکتبہ الرشد ریاض سعودی عرب،چشتی)
اس سے ملوم ہوا کہ زیارت مزار کے ساتھ، صاحبِ مزار سے مدد طلب کرنا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طریقہ ہے ۔

حضرت داؤد بن صالح سے مروی ہے کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز مروان آیا اور اس نے دیکھا کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مزارِ انور پر اپنا منہ رکھے ہوئے ، تو اس (مروان) نے کہا : کیا تو جانتا ہے کہ توکیا کر رہا ہے ؟ جب مروان اس کی طرف بڑھا تو دیکھا وہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ تھے ۔ اور انہوں نے جواب دیا۔ ہاں میں جانتا ہوں ۔ میں رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آیا ہوں ’’لم ات الحجر‘‘ میں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا ۔ (مسند امام احمد بن حنبل،حدیث نمبر 23646، مطبوعہ دارالفکر ، بیروت،چشتی)

ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ : حدیث شریف میں ہے کہ تین مسجدوں (مسجد حرام ، مسجد اقصیٰ اور مسجد نبوی شریف) کے سوا کسی جگہ کا سفر نہ کیا جائے ۔ پھر لوگ مزارات اولیاء پر حاضری کی نیت سے سفر کیوں کرتے ہیں ؟
جواب : اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ان تینوں مسجدوں میں نماز کا ثواب زیادہ ملتا ہے ۔ لہٰذا ان مساجد میں یہ نیت کرکے دور سے آنا چونکہ فائدہ مند ہے ، جائز ہے ۔ لیکن کسی اور مسجد کی طرف سفر کرنا ’’یہ سمجھ کر‘‘ کہ وہاں ثواب زیادہ ملتا ہے ۔ یہ ناجائز ہے کیونکہ ہر جگہ کی مسجد میں ثواب یکساں ہے اور حدیث میں اسی نیت سے سفر کو منع فرمایا ہے ۔ آج لوگ تجارت کے لئے سفر کرتے ہیں ۔ علم دین کے لئے سفر کرتے ہیں۔ تبلیغ کے لئے سفر کرتے ہیں اور بے شمار دنیاوی کاموں کےلیے مختلف قسم کے سفر کئے جاتے ہیں ۔ کیا یہ سب سفر حرام ہوں گے ؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ سارے سفر جائز ہیں اور ان کا انکار کوئی بھی نہیں کر سکتا ۔ تو پھر مزارات اولیاء کے لئے سفر کرنا ناجائز کیوں ہوگا بلکہ لاکھوں شافعیوں کے پیشوا امام شافعی علیہ الرحمہ (سن وصال 204ھ) فرماتے ہیں : میں امام ابو حنیفہ رضی ﷲ عنہ سے برکت حاصل کرتا اور ان کے مزار پر آتا ہوں ۔ اگر مجھے کوئی حاجت درپیش ہوتی ہے تو دو رکعتیں پڑھتا ہوں اور ان کے مزار کے پاس جاکر ﷲ سے دعا کرتا ہوں تو حاجت جلد پوری ہوجاتی ہے ۔ (رد المحتار، مقدمہ، مطبوعہ دارالفکر ، بیروت،چشتی)

امام شافعی علیہ الرحمہ اپنے وطن فلسطین سے عراق کا سفر کرکے امام صاحب رضی اللہ عنہ کے مزار پر تشریف لاتے تھے اور مزار سے برکتیں بھی حاصل کرتے تھے ۔ کیا ان کا یہ سفر کرنا بھی ناجائز تھا ؟

محمد بن معمر سے روایت ہے کہ کہتے ہیں : امام المحدثین ابوبکر بن خذیمہ علیہ الرحمہ ، شیخ المحدثین ابو علی ثقفی علیہ الرحمہ اور ان کے ساتھ کئی مشائخ امام علی رضا بن موسیٰ رضی ﷲ تعالیٰ عنہما کے مزار پر حاضر ہوئے اور مزار کی خوب تعظیم فرمائی ۔ (تہذیب التہذیب حروف العین المہملہ مطبوعہ دارالفکر بیروت،چشتی)

اگر مزاراتِ اولیاء اللہ پر جانا شرک ہوتا تو ؟

کیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی والدہ ماجدہ اور شہداء احد کے مزاروں پر تشریف لے جاتے ؟

کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مزار پر انوار پر حاضری دیتے ؟ کیا تابعین ، محدثین ، مفسرین ، مجتہدین مزارات اولیاء پر حاضری کے لئے سفر کرتے ؟

پتہ چلا مزارات پر حاضری حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم اور امت کے مجتہدین، محدثین اور مفسرین کی سنت ہے اور یہی اہلِ اسلام کا طریقہ رہا ہے اور اس مبارک عمل پر شرک کے فتویٰ دینے والے صراط ِمستقیم سے بھٹکے ہوئے ہیں ۔ ان کی اسی روش نے ان کے ہم خیال دھشت گرد گروە کو تشدد کی راە دی اور آج مزارات اولیاء کو وھابی دھشت گرد بموں سے شھید کر رہے ہیں ۔ جبکہ وھابیوں نے حرمین کے قبرستانوں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و اکابرین کے مزارات کو زمین بوس کر دیا ۔

مزاراتِ اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ پر ہونے والی خرافات

اکثر مخالفین مزاراتِ اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ پر ہونے والی خرافات کو امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مزارات اولیاء پر ہونے والی خرافات کا اہلسنت و جماعت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ نے اپنی تصانیف میں ان کا رد بلیغ فرمایا ہے ۔ لادینی قوتوں کا یہ ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے کہ وہ مقدس مقامات کو بدنام کرنے کےلیے وہاں خرافات و منکرات کا بازار گرم کرواتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے دلوں سے مقدس مقامات اور شعائرﷲ کی تعظیم و ادب ختم کیا جا سکے ۔ یہ سلسلہ سب سے پہلے بیت المقدس سے شروع کیا گیا ۔ وہاں فحاشی و عریانی کے اڈے قائم کیے گئے‘ شرابیں فروخت کی جانے لگیں اور دنیا بھر سے لوگ صرف عیاشی کرنے کے لئے بیت المقدس آتے تھے ۔ (معاذ ﷲ) ۔ اسی طرح آج بھی مزارات اولیاء پر خرافات‘ منکرات‘ چرس و بھنگ‘ ڈھول تماشے‘ ناچ گانے اور رقص و سرور کی محافلیں سجائی جاتی ہیں تاکہ مسلمان ان مقدس ہستیوں سے بدظن ہوکر یہاں کا رخ نہ کریں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بعض لوگ یہ تمام خرافات اہلسنت اور امام اہلسنت امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ کے کھاتے میں ڈالتے ہیں جوکہ بہت سخت قسم کی خیانت ہے ۔ اس بات کو بھی مشہور کیا جاتا ہے کہ یہ سارے کام جو غلط ہیں‘ یہ امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ کی تعلیمات ہیں ۔ پھر اس طرح عوام الناس کو اہلسنت اور امامِ اہلسنت علیہ الرحمہ سے برگشتہ کیا جاتا ہے ۔ اگر ہم لوگ امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ کی کتابوں اور آپ کے فرامین کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ بدعات و منکرات کے قاطع یعنی ختم کرنے والے تھے ۔ اب مزارات پر ہونے والے خرافات کے متعلق آپ ہی کے فرامین اور کتابوں سے اصل حقیقت ملاحظہ کریں اور اپنی بدگمانی کو دور کریں ۔

مزار شریف کو بوسہ دینا اور طواف کرنا

امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مزار کا طواف کہ محض بہ نیت تعظیم کیا جائے ناجائز ہے کہ تعظیم بالطواف مخصوص خانہ کعبہ ہے۔ مزار شریف کو بوسہ نہیں دینا چاہیے ۔ علماء کا اس مسئلے میں اختلاف ہے مگر بوسہ دینے سے بچنا بہتر ہے اور اسی میں ادب زیادہ ہے ۔ آستانہ بوسی میں حرج نہیں اور آنکھوں سے لگانا بھی جائز کہ اس سے شرع میں ممانعت نہ آئی اور جس چیز کو شرح نے منع نہ فرمایا وہ منع نہیں ہو سکتی ۔ ﷲ تعالیٰ کا فرمان ’’ان الحکم الا ﷲ‘‘ ہاتھ باندھے الٹے پاٶں آنا ایک طرز ادب ہے اور جس ادب سے شرح نے منع نہ فرمایا اس میں حرج نہیں ۔ ہاں اگر اس میں اپنی یا دوسرے کی ایذا کا اندیشہ ہو تو اس سے احتراز (بچا) کیا جائے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد چہارم ص 8‘ مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی،چشتی)

روضہ انور پر حاضری کا صحیح طریقہ

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ : خبردار جالی شریف (حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مزار شریف کی سنہری جالیوں) کو بوسہ دینے یا ہاتھ لگانے سے بچو کہ خلافِ ادب ہے بلکہ (جالی شریف) سے چار ہاتھ فاصلہ سے زیادہ قریب نہ جاٶ ۔ یہ ان کی رحمت کیا کم ہے کہ تم کو اپنے حضور بلایا‘ اپنے مواجہ اقدس میں جگہ بخشی‘ ان کی نگاہ کرم اگرچہ ہر جگہ تمہاری طرف تھی اب خصوصیت اور اس درجہ قرب کے ساتھ ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 10 صفحہ 765 مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)

روضہ انور پر طواف و سجدہ منع ہے

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں : روضہ انور کا طواف نہ کرو‘ نہ سجدہ کرو‘ نہ اتنا جھکنا کہ رکوع کے برابر ہو ۔ حضور کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعظیم ان کی اطاعت میں ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ شریف جدید جلد 10ص 769 مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور،چشتی)

معلوم ہوا کہ مزارات پر سجدہ کرنے والے لوگ جہلا میں سے ہیں اور جہلاء کی حرکت کو تمام اہلسنت پر ڈالنا سراسر خیانت ہے‘ اور امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی تعلیمات کے خلاف ہے ۔

مزارات پر چادر چڑھانا

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے مزارات پر چادر چڑھانے کے متعلق دریافت کیا تو جواب دیا جب چادر موجود ہو اور ہنوز پرانی یا خراب نہ ہوئی کہ بدلنے کی حاجت ہو تو بیکار چادر چڑھانا فضول ہے بلکہ جو دام اس میں صرف کریں ﷲ تعالیٰ کے ولی کی روح مبارک کو ایصال ثواب کےلیے محتاج کو دیں ۔ (احکام شریعت حصہ اول صفحہ 42)

عرس کا دن خاص کیوں کیا جاتا ہے

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ بزرگان دین کے اعراس کی تعین (یعنی عرس کا دن مقرر کرنے) میں بھی کوئی مصلحت ہے ؟
آپ سے جواباً ارشاد فرمایا ہاں اولیائے کرام کی ارواحِ طیبہ کو ان کے وصال کے دن قبور کریمہ کی طرف توجہ زیادہ ہوتی ہے چنانچہ وہ وقت جو خاص وصال کا ہے ۔ اخذ برکات کےلیے زیادہ مناسب ہوتا ہے ۔ (ملفوظات صفحہ 383 مطبوعہ مکتبتہ المدینہ کراچی،چشتی)

عرس میں آتش بازی اور نیاز کا کھانا لٹانا حرام ہے

سوال : بزرگان دین کے عرس میں شب کو آتش بازی جلانا اور روشنی بکثرت کرنا بلا حاجت اور جو کھانا بغرض ایصال ثواب پکایا گیا ہو ۔ اس کو لٹانا کہ جو لوٹنے والوں کے پیروں میں کئی من خراب ہوکر مٹی میں مل گیا ہو‘ اس فعل کو بانیان عرس موجب فخر اور باعث برکت قیاس کرتے ہیں ۔ شریعت عالی میں اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب : آتش بازی اسراف ہے اور اسراف حرام ہے ‘ کھانے کا ایسا لٹانا بے ادبی ہے اور بے ادبی محرومی ہے‘ تصنیع مال ہے اور تصنیع حرام ۔ روشنی اگر مصالح شرعیہ سے خالی ہو تو وہ بھی اسراف ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 24 صفحہ 112‘ مطبوعہ رضا فائونڈیشن لاہور)

عرس میں رنڈیوں کا ناچ حرام ہے

سوال : تقویۃ الایمان مولوی اسمعیل کی فخر المطابع لکھنؤ کی چھپی ہوئی کہ صفحہ نمب 329 پر جو عرس شریف کی تردید میں کچھ نظم ہے اور رنڈی وغیرہ کا حوالہ دیا ہے‘ اسے جو پڑھا تو جہاں تک عقل نے کام کیا سچا معلوم ہوا کیونکہ اکثر عرس میں رنڈیاں ناچتی ہیں اور بہت بہت گناہ ہوتے ہیں اور رنڈیوں کے ساتھ ان کے یار آشنا بھی نظر آتے ہیں اور آنکھوں سے سب آدمی دیکھے ہیں اور طرح طرح کے خیال آتے ہیں ۔ کیونکہ خیال بد و نیک اپنے قبضہ میں نہیں‘ ایسی اور بہت ساری باتیں لکھی ہیں جن کو دیکھ کر تسلی بخش جواب دیجئے ؟
جواب : رنڈیوں کا ناچ بے شک حرام ہے‘ اولیائے کرام کے عرسوں میں بے قید جاہلوں نے یہ معصیت پھیلائی ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 29 صفحہ 92 مطبوعہ رضا فائونڈیشن لاہور)

وجد کا شرعی حکم

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے سوال کیا گیا کہ مجلس سماع میں اگر مزامیر نہ ہوں (اور) سماع جائز ہو تو وجد والوں کا رقص جائز ہے یا نہیں ؟
آپ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ اگر وجد صادق (یعنی سچا) ہے اور حال غالب اور عقل مستور (یعنی زائل اور اس عالم سے دور تو اس پر تو قلم ہی جاری نہیں ۔ اور اگر بہ تکلف وجد کرتا ہے تو ’’تشنی اور تکسر‘‘ یعنی لچکے توڑنے کے ساتھ حرام ہے اور بغیر اس کے ریا و اظہار کےلیے ہے تو جہنم کا مستحق ہے اور اگر صادقین کے ساتھ تشبہ بہ نیت خالصہ مقصود ہے کہ بنتے بنتے بھی حقیقت بن جاتی ہے تو حسن و محمود ہے حضور کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو کسی قوم سے مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے ۔ (ملفوظات صفحہ نمبر 231 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

حرمتِ مزامیر

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مزامیر یعنی آلات لہو و لعب بروجہ لہو و لعب بلاشبہ حرام ہیں جن کی حرمت اولیاء و علماء دونوں فریق مقتداء کے کلمات عالیہ میں مصرح‘ ان کے سننے سنانے کے گناہ ہونے میں شک نہیں کہ بعد اصرار کبیرہ ہے اور حضرات علیہ سادات بہشت کبرائے سلسلہ عالیہ چشت کی طرف اس کی نسبت محض باطل و افتراء ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد دہم صفحہ 54)

نشہ و بھنگ و چرس

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ نشہ بذاتہ حرام ہے ۔ نشہ کی چیزیں پینا جس سے نشہ بازوں کی مناسبت ہو اگرچہ حد نشہ تک نہ پہنچے یہ بھی گناہ ہے ہاں اگر دوا کے لئے کسی مرکب میں افیون یا بھنگ یا چرس کا اتنا جز ڈالا جائے جس کا عقل پر اصلا اثر نہ ہو حرج نہیں ۔ بلکہ افیون میں اس سے بھی بچنا چاہئے کہ اس خبیث کا اثر ہے کہ معدے میں سوراخ کر دیتی ہے ۔ (احکام شریعت جلد دوم)

غیر ﷲ کو سجدہ تعظیمی حرام اور سجدہ عبادت کفر ہے

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مسلمان اے مسلمان ! اے شریعت مصطفوی کے تابع فرمان ! جان اور یقین جان کہ سجدہ حضرت عزت عز جلالہ (رب تعالیٰ) کے سوا کسی کےلیے نہیں غیر ﷲ کو سجدہ عبادت تو یقینا اجماعاً شرک مہین و کفر مبین اور سجدہ تحیت (تعظیمی) حرام و گناہ کبیرہ بالیقین ۔ (الزبدۃ الزکیہ لتحریم سجود التحیہ صفحہ 5 مطبوعہ بریلی ہندوستان،چشتی)

چراغ جلانا

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے قبروں پر چراغ جلانے کے بارے میں سوال کیا گیا تو شیخ عبدالغنی نابلسی علیہ الرحمہ کی تصنیف حدیقہ ندیہ کے حوالے سے تحریر فرمایا کہ : قبروں کی طرف شمع لے جانا بدعت اور مال کا ضائع کرنا ہے (اگرچہ قبر کے قریب تلاوت قرآن کےلیے موم بتی جلانے میں حرج نہیں مگر قبر سے ہٹ کر ہو) ۔ (البریق المنار بشموع المزار صفحہ 9 مطبوعہ لاہور)
اس کے بعد محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں یہ سب اس صورت میں ہے کہ بالکل فائدے سے خالی ہو اور اگر شمع روشن کرنے میں فائدہ ہو کہ موقع قبور میں مسجد ہے یا قبور سر راہ ہیں‘ وہاں کوئی شخص بیٹھا ہے تو یہ امر جائز ہے ۔ (البریق المنار بشموع المزار صفحہ 9 مطبوعہ لاہور)
ایک اور جگہ اسی قسم کے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں اصل یہ کہ اعمال کا مدار نیت پر ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں عمل کا دارومدار نیت پر ہے اور جو کام دینی فائدے اور دنیوی نفع جائز دونوں سے خالی ہو عبث ہے اور عبث خود مکروہ ہے اور اس میں مال صرف کرنا اسراف ہے اور اسراف حرام ہے ۔ قال ﷲ تعالیٰ ولا تسرفوا ان ﷲ لا یحب المسرفین ، اور مسلمانوں کو نفع پہنچانا بلاشبہ محبوب شارع ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ تم میں جس سے ہوسکے کہ اپنے بھائی کو نفع پہنچائے تو پہنچائے ۔ (احکام شریعت حصہ اول صفحہ 38 مطبوعہ آگرہ ہندوستان)

اگر بتی اور لوبان جلانا

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے قبر پر لوبان وغیرہ جلانے کے متعلق دریافت کیا گیا تو جواب دیا گیا عود‘ لوبان وغیرہ کوئی چیز نفس قبر پر رکھ کر جلانے سے احتراز کرنا چاہئے (بچنا چاہئے) اگرچہ کسی برتن میں ہو اور قبر کے قریب سلگانا (اگر نہ کسی تالی یا ذاکر یا زائر حاضر خواہ عنقریب آنے والے کے واسطے ہو) بلکہ یوں کہ صرف قبر کے لئے جلا کر چلا آئے تو ظاہر منع ہے اسراف (حرام) اور اضاعیت مال (مال کو ضائع کرنا ہے) میت صالح اس عرضے کے سبب جو اس قبر میں جنت سے کھولا جاتا ہے اور بہشتی نسیمیں (جنتی ہوائیں) بہشتی پھولوں کی خوشبوئیں لاتی ہیں۔ دنیا کے اگر اور لوبان سے غنی ہے ۔ (السنیۃ الانیقہ صفحہ 70 مطبوعہ بریلی ہندوستان،چشتی)

فرضی مزار بنانا اور اس پر چادر چڑھانا

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں سوال کیا گیا : ⬇

مسئلہ : کسی ولی کا مزار شریف فرضی بنانا اور اس پر چادر وغیرہ چڑھانا اور اس پر فاتحہ پڑھنا اور اصل مزار کا سا ادب و لحاظ کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ اور اگر کوئی مرشد اپنے مریدوں کے واسطے بنانے اپنے فرضی مزار کے خواب میں اجازت دے تو وہ قول مقبول ہوگا یا نہیں ؟
الجواب : فرضی مزار بنانا اور اس کے ساتھ اصل کا سا معاملہ کرنا ناجائز و بدعت ہے اور خواب کی باتیں خلاف شرع امور میں مسموع نہیں ہوسکتی  (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 9ص 425‘ مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)

عورتوں کا مزارات پر جانا ناجائز ہے

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : غنیہ میں ہے یہ نہ پوچھو کہ عورتوں کا مزاروں پر جانا جائز ہے یا نہیں ؟ بلکہ یہ پوچھو کہ اس عورت پر کس قدر لعنت ہوتی ہے ﷲ تعالیٰ کی طرف سے اور کس قدر صاحب قبر کی جانب سے ۔ جس وقت وہ گھر سے ارادہ کرتی ہے لعنت شروع ہو جاتی ہے اور جب تک واپسی آتی ہے ملائکہ لعنت کرتے رہتے ہیں ۔ سوائے روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کسی مزار پر جانے کی اجازت نہیں ۔ وہاں کی حاضری البتہ سنت جلیلہ عظیمہ قریب بواجبات ہے اور قرآن کریم نے اسے مغفرت کا ذریعہ بتایا ۔ (ملفوظات شریف صفحہ نمبر 240‘ ملخصاً رضوی کتاب گھر دہلی،چشتی)

مزارات اولیاء پر خرافات

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اولیاء کرام کے مزارات پر ہر سال مسلمانوں کا جمع ہوکر قرآن مجید کی تلاوت اور مجالس کرنا اور اس کا ثواب ارواح طیبہ کو پہنچانا جائز ہے کہ منکرات شرعیہ مثل رقص و مزامیر وغیرھا سے خالی ہو‘ عورتوں کو قبور پر ویسے جانا چاہئے نہ کہ مجمع میں بے حجانہ اور تماشے کا میلاد کرنا اور فوٹو وغیرہ کھنچوانا یہ سب گناہ و ناجائز ہیں جو شخص ایسی باتوں کا مرتکب ہو‘ اسے امام نہ بنایا جائے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد چہارم صفحہ نمبر 216‘ مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی)

مزارات پر حاضری کا طریقہ

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی کتاب فتاویٰ رضویہ سے ملاحظہ ہو :

مسئلہ : حضرت کی خدمت میں عرض یہ ہے کہ بزرگوں کے مزار پر جائیں تو فاتحہ کس طرح سے پڑھا کریں اور فاتحہ میں کون کون سی چیز پڑھا کریں ؟
الجواب : مزارات شریفہ پر حاضر ہونے میں پائنتی قدموں کی طرف سے جائے اور کم از کم چار ہاتھ کے فاصلے پر مواجہہ میں کھڑا ہو اور متوسط آواز باادب سلام عرض کرے السلام علیک یا سیدی و رحمة اللہ و برکاتہ ‘ پھر درود غوثیہ ‘ تین بار‘ الحمد شریف ایک‘ آیتہ الکرسی ایک بار ‘ سورہ اخلاص سات بار‘ پھر درود غوثیہ سات بار اور وقت فرصت دے تو سورہ یٰس اور سورہ ملک بھی پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کہ الٰہی ! اس قرات پر مجھے اتنا ثواب دے جو تیرے کرم کے قابل ہے‘ نہ اتنا جو میرے عمل کے قابل ہے اور اسے میری طرف سے اس بندہ مقبول کی نذر پہنچا ۔ پھر اپنا جو مطلب جائز شرعی ہو‘ اس کےلیے دعا کرے اور صاحب مزار کی روح کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنا وسیلہ قرار دے‘ پھر اسی طرح سلام کرکے واپس آئے ۔ مزار کو نہ ہاتھ لگائے نہ بوسہ دے (ادب اسی میں ہے) اور طواف بالاتفاق ناجائز ہے اور سجدہ حرام ۔ واللہ تعالی اعلم ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید جلد نمبر 9 صفحہ نمبر 522 مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔