خواتین کا پڑھنا لکھنا قرآن و حدیث کی روشنی میں حصّہ دوم
ایک باشعور معاشرہ بنانے کےلیے تعلیم بے حد ضروری ہے ۔ اس کے حصول کےلیے عمر کی قید و شرط سے آزاد ہوکر ایک کم سِن بچے بلکہ سو سال کے بوڑھے کو بھی زیورِ علم سے آراستہ ہونا چاہیے ۔ تعلیم کی ضرورت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ جب نزولِ وحی کا سلسلہ شروع ہوا تو اللہ پاک نے اس کے پہلے ہی لفظ میں حصولِ علم کا حکم دیتے ہوئے ارشادفرمایا : اقراء (پڑھو) یعنی علم حاصل کرو ۔ اگر ہم اس حکمِ قرآنی پر عمل نہ کریں تو نتیجۃً ہمارے معاشرے میں جہالت وگمراہی اور بے راہ روی جیسی بُرائیاں جنم لیں گی، جس سے ہمارا خاندانی ، معاشی ، معاشرتی ، دینی اور دنیوی نظام تباہ و برباد ہو سکتا ہے ۔
علم کی اہمیت وافادیت اس سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اللہ پاک نے اپنی ساری مخلوق میں سے انسان کو عزت و شرافت کا تاج پہنا کر اسے ممتاز فرمایا اور ان میں بھی ایک دوسرے پر نمایاں فضیلت دینے کےلیے ”علم“ کو معیار قرار دیا ہے جیسا کہ فرمانِ خُداوندی ہے : اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا ۔ (سورہ المجادلہ آیت نمبر 11)
حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تلاوت کرنے کے بعد فرمایا : اے لوگو ! اس آیت کو سمجھو اور علم حاصل کرنے کی طرف راغب ہو جاؤ کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ وہ مومن عالِم کو اس مومن سے بلند درجات عطا فرمائے گاجو عالِم نہیں ہے ۔ (تفسیر خازن سورہ المجادلۃ زیرِ آیت : 11 ، 4 / 258)
عَنْ عَبْدِ اللّٰہ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہ صلیٰ الله عليه وآله وسلم يَقُولُ : مَنْ کَانَتْ لَهُ ابْنَةٌ فَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ أَدَبَهَا، وَعَلَّمَهَا فَأَحْسَنَ تَعْلِيْمَهَا، وَأَوْسَعَ عَلَيْهَا مِنْ نِعَمِ اللہ الَّتِي أَسْبَغَ عَلَيْهِ، کَانَتْ لَهُ مَنَعَةً وَسُتْرَةً مِنَ النَّارِ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس کی بیٹی ہو اور اس نے اسے اچھا ادب سکھلایا اور اچھی تعلیم دی اور اس پر ان انعامات کو وسیع کیا جو کہ اﷲ نے اس کو دیے ہیں تو وہ بیٹی اس کےلیے جہنم سے رکاوٹ اور پردہ بنے گی ۔ (المعجم الکبير، 10: 197، رقم: 10447، الموصل: مکتبة الزهراء)(مجمع الزوائد، 8: 158، بيروت، القاهرة: دار الکتاب)
حضرت عطاء بن ابی رباح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر گواہی دیتا ہوں یا عطاء رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما پر گواہی دیتا ہوں ۔
أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم خَرَجَ وَمَعَهُ بِلَالٌ فَظَنَّ أَنَّهُ لَمْ يُسْمِعْ فَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ فَجَعَلَتْ الْمَرْأَهُ تُلْقِي الْقُرْطَ وَالْخَاتَمَ وَبِلَالٌ يْخُذُ فِي طَرَفِ ثَوْبِهِ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف فرما ہوئے اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت بلال رضی اللہ عنہ تھے ۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیال فرمایا کہ عورتوں نے خطبہ نہیں سنا ۔ لہٰذا انہیں نصیحت فرمائی اور صدقہ کا حکم دیا تو کوئی بالی اور کوئی انگوٹھی ڈالنے لگی جنہیں حضرت بلال رضی اللہ عنہ اپنے کپڑے کے پلو میں لینے لگے ۔ (بخاري، الصحيح، 1: 49، رقم: 98، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة،چشتی)
معلوم ہوا مجلسِ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عورتیں بھی موجود تھیں لیکن کسی وجہ سے وہ وعظ و نصیحت نہ سن سکیں تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کو باہر آ کر الگ وعظ فرمایا تو عورتوں نے اپنے زیورات صدقہ کر دیئے۔ اگلی حدیث مبارکہ میں باندی کو تعلیم دلانے کا دوگنا اجر و ثواب بیان فرمایا ہے : عَنْ أَبِي مُوسَی قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللہ صلیٰ الله عليه وآله وسلم: مَنْ کَانَتْ لَهُ جَارِيَةٌ فَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ أَدَبَهَا وَعَلَّمَهَا فَأَحْسَنَ تَعْلِيمَهَا ثُمَّ أَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا فَلَهُ أَجْرَانِ ... الخ ۔
ترجمہ : حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس کے پاس کوئی باندی ہو پھر وہ اسے مودب بنائے اور تعلیم دلائے، پھر آزاد کر کے اس سے نکاح کرے اس کے لیے دوگنا ثواب ہے ۔ (أحمد بن حنبل، المسند، 4: 414، رقم: 19727، مصر: مؤسسة قرطبة،چشتی)(نسائي، السنن، 3: 312، رقم: 5502، بيروت: دار الکتب العلمية)(ابن ماجه، السنن، 1: 629، رقم: 1956، بيروت: دار الفکر)
نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو باندی کی تعلیم کےلیے دوگنا اجر فرمایا ہے تو پھر اپنی حقیقی بیٹی کی تعلیم سے منع کیسے کیا جا سکتا ہے ؟ درج ذیل حدیث مبا رکہ میں عورت اور مرد کی کوئی تخصیص نہیں کی گئی، بلا تفریق فرمایا بہتر وہ ہی ہے جو قرآن کی تعلیم دے : ⬇
عَنْ عُثْمَانَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم قَالَ خَيْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ ۔
ترجمہ : حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں بہتر وہ شخص ہے جو قرآن کریم سیکھے اور سکھائے ۔ (بخاري، الصحيح، 4: 1919، رقم: 4739)(أبي داؤد، السنن، 2: 70، رقم: 1452،چشتی)(ترمذي، السنن، 5: 173، رقم: 2907، بيروت: دار احياء التراث العربي)
نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی ہمارے لیے کامل نمونہ حیات ہے ۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے : لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِيْ رَسُوْلِ ﷲِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ کَانَ يَرْجُو ﷲَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ ﷲَ کَثِيْرًا ۔
ترجمہ : بیشک تمہیں رسولُ الله کی پیروی بہتر ہے اس کےلیے کہ الله اور پچھلے دن کی امید رکھتا ہو اور الله کو بہت یاد کرے ۔ (سورہ الاحزاب آیت نمبر 21)
تو جب نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لیے بہترین نمونہ حیات ہیں تو پھر ہمیں عورتوں کی تعلیم و تربیت کے معاملہ میں بھی نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرنی چاہیے۔ آپ علیہ السلام نے تو عورتوں کی تعلیم و تربیت کےلیے دن مقرر فرمایا ۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے : عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَتْ النِّسَاءُ لِلنَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم غَلَبَنَا عَلَيْکَ الرِّجَالُ فَاجْعَلْ لَنَا يَوْمًا مِنْ نَفْسِکَ فَوَعَدَهُنَّ يَوْمًا لَقِيَهُنَّ فِيهِ فَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ فَکَانَ فِيمَا قَالَ لَهُنَّ مَا مِنْکُنَّ امْرَأَةٌ تُقَدِّمُ ثَلَاثَةً مِنْ وَلَدِهَا إِلَّا کَانَ لَهَا حِجَابًا مِنْ النَّارِ فَقَالَتْ امْرَأَةٌ وَاثْنَتَيْنِ فَقَالَ وَاثْنَتَيْنِ ۔
ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ عورتیں نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئیں: آپ کی جانب مرد ہم سے آگے نکل گئے ۔ لہٰذا ہمارے استفادہ کےلیے بھی ایک دن مقرر فرما دیجیے ۔ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک روز کا وعدہ فرما لیا ۔ ان سے ملے چنانچہ نصیحت فرمائی اور اوامر بتائے ، ان کے ساتھ ہی ان سے فرمایا : تم میں سے کوئی عورت ایسی نہیں جو اپنے تین بچے آگے بھیجے مگر وہ اس کے لیے جہنم سے آڑ ہو جائیں گے ۔ ایک عورت عرض گزار ہوئی کہ دو بچے ؟ فرمایا کہ دو بچے بھی ۔ (بخاري، الصحيح، 1: 50، رقم: 101،چشتی)(أحمد بن حنبل، المسند، 3: 34، رقم: 11314)(ابن حبان، الصحيح، 3: 206، رقم: 2944، بيروت: مؤسسة الرسالة)
درج ذیل حدیث مبارکہ میں بھی مسلمان میں مرد وزن شامل ہیں نہ کہ صرف مسلمان مردوں کےلیے حکم صادر فرمایا ہے : عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ قَالَ رَسُولُ ﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ ۔
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : علم کا سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ (امام طبرانی نے یہ حدیث عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے) ۔ (ابن ماجة، السنن، 1: 81، رقم: 224)(أبو يعلی، المسند، 5: 223، رقم: 2837، دمشق: دار المأمون للتراث)(طبراني، المعجم الکبير، 10: 195، رقم: 10439)
بعض لوگ کالجز اور یونیورسٹیز میں مردوں کی موجودگی کو تعلیم نسواں کی راہ میں رکاوٹ بناتے ہیں جبکہ اسلام تو مرد وزن دونوں کو شرم و حیاء کا درس دیتا ہے ۔ جیسا کہ قرآن وحدیث میں بیان کر دیا گیا ہے : قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ط ذٰلِکَ اَزْکٰی لَهُمْ ط اِنَّ ﷲَ خَبِيْرٌم بِمَا يَصْنَعُوْنَ ۔
ترجمہ : مسلمان مردوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کےلیے بہت ستھرا ہے بیشک اللہ کو ان کے کاموں کی خبر ہے ۔ (سورہ النور آیت نمبر 30)
اس طرح عورتوں کےلیے حکم ہے : وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰی جُيُوْبِهِنَّص وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ ۔
ترجمہ : اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے اور دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں اور اپنا سنگار ظاہر نہ کریں ۔ (سورہ النور آیت نمبر 31)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ ، قَالَ : رَسُولُ ﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم الْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنْ الْإِيمَانِ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : شرم وحیاء بھی ایمان کی ایک شاخ ہے ۔ (أحمد بن حنبل، المسند، 2: 442، رقم: 9708)(نسائي، السنن، 6: 532، رقم: 11737،چشتی)(عبد الرزاق، المصنف، 5: 212، رقم: 25341، بیروت: المکتب الاسلامي)
لہٰذا اسلام بلا تفریق مردوں اور عورتوں کی تعلیم وتربیت کا قائل ہے ۔
عوت کی حیثیت ایک پھول کی ہے جس طرح گلشن کی رونق اور چمک دمک پھولو ںسے ہوتی ہے اسی طرح دنیا کی رونق اور رنگینی عورت سے ہوتی ہے ۔ وجود زن سے ہے کائنات میں رنگ، اگر اس کا وجود نہ ہوتا تو کائنات بے رنگ ہوتی ۔نسلوں اور خاندان کا تسلسل قائم نہیں رہتا ، تہذیب و تمدن کی ترقی نہ ہوتی ، تعلیم وادب پروان نہیں چڑھتے اور نہ قومو ںاور ملکوں کی تاریخ لکھی جاتی ۔ اسلام نے بلا امتیاز مردو زن تمام مسلمانوں پر علم کا حصول ضروری قرار دیا ہے ۔ جس طرح مردوں کو علم دین کے حصول اور ا س کی نشر و اشاعت کی ترغیب دی اسی طرح عورتوں کو بھی زیور علم سے آراستہ ہونے کی تلقین کی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے مقصد تخلیقِ انسانی بیان کرتے ہوئے فرمایا : وما خلقت الجن ولانس الا لیعبددون ۔ (سورہ الذاریات) ، میں نے جن و انس کو محض اپنی عبادت کےلیے پیدا کیا ہے ۔
اس آیت میں انسانوں سے مراد صرف مرد نہیں بلکہ خواتین بھی ہیں ۔ ان پر بھی لازم ہے کہ وہ توحیدر اختیار کریں اور شرک سے بچیں ۔ اسی طرح پوری شریعت اور احکام دین کا معاملہ ہے جس طرح مردوں پر نمازیں فرض ہیں عورتوں پر بھی ہیں ، مردوں کی طرح عورتیں بھی روزے کی مکلف ہیں ، اگر مردوں پر بشرط استطاعت زکوة اور حج کی فرضیت عائد ہوتی ہے تو خواتین بھی اس حکم سے مستثنیٰ نہیں ہیں اور جس طرح مردوں کےلیے یہ ممکن نہیں کہ وہ صحیح علم کے بغیر اپنے فرائض و حقوق کو ادا کرسکے تو خواتین کےلیے کیسے ممکن ہوسکتی ہے ۔ تعلیم رجال جتنی ضروری اور اہمیت و افادیت کی حامل ہے ، تعلیمِ نسواں بھی اسی قدر ضروری اور اہمیت و افادیت کی حامل ہے ۔
معاشرہ کی اصلاح میں تعلیم یافتہ خواتین کا بڑا اہم رول ہوتا ہے ۔ ایسی عورتیں کیا کردار ادا کر سکتی ہیں جو خود صاحبِ کردار نہیں ہیں ۔ جو تعلیم سے نابلد ہیں ، جیسے کفر و شرک ، بدعقیدگی و بدمذھبی ، حلال و حرام کی تمیز نہیں اور جو اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام و مرتبہ کو نہیں پہنچانتی ؟ کیا ایسی عورتیں معاشرے کےلیے باعث ننگ و عار کلنک کا ٹیکہ نہیں ہیں جو رسم و رواج کی بندشوں میں گرفتار بے حجابی و عریانیت کی دلدادہ ہیں ۔ شوہروں کی نافرمانی ، سسرالی رشتے داروں اور پڑوسیوں کے حقوق کی پامالی جن کا شیوہ ہے ۔ تعلیمِ نسواں اس لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اسلام کے ابدی اور آفاقی پیغام کو سمجھے ، رسول رحمت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دلنشیں ارشادات کو جانے ، اپنے ماحول میں تبلیغِ اسلام کا فریضہ انجام دے ، اپنی ازدواجی و عائلی زندگی کو پرامن و پر بہار بنائے اور اپنے جگر کے ٹکڑوں کی صالح تربیت کرے ، اگر ماں تعلیم یافتہ ، اخلاق وآداب سے مزین ہوگی تو ظلم و جہالت کی تاریکیاں چھٹ جائیں گی ، صالح معاشرہ کی تشکیل ہو گی اور اس کے بچوں کی زندگی پر خوشگوار اثرات ظاہر ہوں گے اور وہ سحر نمودار ہوگی جس کا زاویہ نگاہ توحید ، رسالت اور آخرت پر ہوگا ، علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے کہا تھا : ⬇
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود
ہوتی ہے بندئہ مومن کی اذاں سے پیدا
محترم قارئین کرام : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات اور سیرتِ طیبہ میں تعلیمِ نسواں کا ایجاب ، تاکید اور تلقین بھر پور انداز میں موجود ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ مشہور ارشاد ہے ”طلب العلم فریضة علی کل مسلم“ ۔ (سنن ابن ماجہ) ، علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ اس ارشاد گرامی میں مسلم کے عموم میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شامل ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کو دو آیتوں سے ختم کیا ہے جو مجھے عرش کے تلے خزانہ سے دی گئی ہیں فتعلمو ھن وعلموھن نساءکم تم سورہ بقرہ خود سیکھو اور اپنی خواتین کو بھی سکھاﺅ ۔ (سنن دارمی حدیث نمبر 3430) ۔ یہ لونڈی جس کی عرب معاشرے میں کوئی حیثیت نہیں تھی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نہ صرف اس کی تعلیم و تربیت اور اس کے ساتھ حسن معاملہ کی تعلیم دی بلکہ اسے آزاد کر کے اس سے شادی کر لینے پر دوہرے اجر کا مستحق قرار دیا ۔ (صحیح بخاری)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مختلف موقعوں پر عورتوں کی تعلیم و تربیت پروالدین کو جنت کی خوشخبری سنائی ہے فرمایا ” جس نے تین لڑکیوں کی بہترین انداز میں پرورش کی ، ان کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھا اوران کی شادی کر دی ، ان کے ساتھ حُسنِ سکول کیا توا س کےلیے جنت ہے ۔ (سنن ابوداﺅد) ۔ اسی طرح حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ عورتوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ کے پاس ہمیشہ مردوں کا ہجوم رہتا ہے ، لہذا آپ ہماری تعلیم و تربیت کےلیے الگ سے ایک دن مقرر کیجئے، چنانچہ آپ نے ان کےلیے ایک دن متعین کردیا ، ان کے پاس تشریف لے گئے ، وعظ و نصیحت فرمائی اور انہیں نیک کاموں کا حکم دیا ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر101)
ام المونین حضرت عائشہ صدیقہ انصاری صحابیات رضی اللہ عنہ کے تفقہ فی الدین کے شوق و طلب کا ذکر کرتے ہوئی فرماتی ہیں : عورتوں میں انصاری عورتیں کتنی اچھی ہیں کہ دین کی سمجھ حاصل کرنے کے سلسلے میں حیا ان کے آڑے نہیں آتی ۔ (صحیح مسلم ،کتاب الحیض حدیث نمبر 332)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عید کا خطبہ دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ احساس ہوا کہ ہماری آواز عورتوں تک نہیں پہنچ سکی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے قریب گئے اور خطاب فرمایا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت شفاء بنت عبداللہ رضی اللہ عنہما کو جو لکھنا جانتی تھی یہ حکم دیا کہ وہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو لکھنا سکھائیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسجد میں عورتوں کی آمد کا دروازہ کھلا رکھا ، مردوں کو واضح تنبیہ کی کہ اللہ کی بندیوں کو مساجد میں جانے سے نہ روکو ” لا تمنعو ایاءاللہ مساجد اللہ“ ۔ (سنن ابو داﺅد) چنانچہ یہ صحابیات رضی اللہ عنہن پنچ وقتہ نمازوں میں گہن کی نمازوں میں ، عیدین میں شریک ہوتی تھیں اور خطبوں ، دروس و تعلیمات سے استفادہ کرتی تھیں ۔ بعد میں فتنوں کے خوف کی وجہ سے مساجد میں خواتین کے داخلے کی ممانعت کر دی گٸی اس پر ہم تفصیل سے لکھ چُکے ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس تعلیم و ترغیب کا فیض ہے کہ ہر دور اور زمانے میں ایسی خواتین گذری ہیں جنہو ں نے علم دین کے حصول اور اس کی نشرو اشاعت میں گرانقدر اور نمایاں خدمات انجام دی ہیں اور یادگار تابندہ نقوش چھوڑے ہیں ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہعنہا جو حدیث ، فرائض ، احکام ، حلال و حرام ، احبار و اشفار میں سب سے فائق تھیں اجلاّ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان سے رجوع فرماتے ، اسی طرح ام المومنین ام سلمہ ، حفصہ ، ام حبیبہ ، اسما بنت ابی بکر اور ام عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنہن جیسی صحابیات میدان علم میں نمایاں مقام کی حامل تھیں اور ان سے سارے کبار تابعین رضی اللہ عنہم نے حدیثیں روایت کی ہیں ۔ یہ سلسلہ صرف صحابیات تک محدود نہ رہا بلکہ بعد کے ادوار میں ایسی خواتین پیدا ہوتی رہیں جنہوں نے روایتِ حدیث ، درس و افتاء ، تصنیف و تالیف ، وعظ و تذکیر کے سلسلے میں گرانقدر خدمات انجام دی ہیں اور ہزاروں تشنگانِ علوم ان سے فیضیاب ہوئے ۔ جسے علماء طبقات و رجال نے اپنی کتابوں میں ان کی خدمات اور جلالت شان کو خاص طور سے ذکر کیا ہے ۔ یہ اسماء بنت یزید بن السکن مشہور خطیبہ تھیں ۔ شفاء بنت حارث اسلام کی پہلی استانی ام سلیم بنت ملحان اور ام شریک اسلام کی مشہور داعیہ تھیں ۔ تابعات میں حفصہ بنت سیرین ، عبادت ، فقہ اور قرآن وحدیث میں علم کے بلند مقام پر فائز تھیں ۔امام شافعی علیہم الرحمہ نفیسہ بنت الحسن کے دروس میں شریک ہوتے اور ان سے حدیث سنتے تھے ۔ حافظ ابن عساکر نے 80 سے زائد عورتوں سے احادیث مبارکہ کو روایت کیا ہے ۔ ان خواتینِ اسلام کے تذکرے میں متعدد اور مستقل کتابیں تصنیف کی گئی ہیں جن کے مطالعے سے ہمیں اپنے شاندار ماضی اور روشن تاریخ کا احساس ہوگا ۔ ان میں چند کتابوں کے نام یہ ہیں عشرة النسائطبرانی ، آداب النسائجوزی ، کتاب النساء ابن قاسم اندلسی ، اشعار النسا ، اعلام النسا عمر رضا کحالة ، المراة المسلمة وھبی سلیان غاوجی ، المراة فی القران عباس محمود عقاد ، المراة المسلمة فرید وجدی خاص طو رپر قابل ذکر ہیں ۔
خلاصہ کلام یہ کہ تعلیمِ نسواں قرآن کا بھی حکم ہے ، احادیث کا بھی ، عقل و فطرت کا تقاضا ہے اور اسلامی تاریخ بھی اس کے زبردست نمونے اور مثالیں پیش کرتی ہیں ۔ اس لیے بچیوں کی تعلیم و تربیت کے متعلق ہم بیدار ہوں ، ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا نہ بنیں ورنہ ہماری نسلیں برباد ہو سکتی ہیں اور خاندان و معاشرہ کے سارے تانے بانے بگڑ سکتے ہیں ۔
ظاہری دورِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں تعلیم نسواں کا اہتمام : ⬇
فی زمانہ مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی اپنی ضرورت کے مسائل سیکھنے چاہئیں ۔ دورِ نبوی میں جہاں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اپنی علمی پیاس بجھانے کےلیے بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضر ہوتے وہیں صحابیات رضی اللہ عنہن کا شوقِ علم بھی دیدنی ہوا کرتا تھا ، ایک عورت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی : مرد حضرات تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگا ہ میں حاضری دے کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشادات سن لیتے ہیں ، ہمیں بھی ایک دن عطا فرما دیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمیں وہ کچھ سکھائیں جو اللہ عزوجل نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سکھایا ہے ۔ ارشاد فرمایا : تم فلاں دن فلاں مقام پر جمع ہوجایا کرو۔ چنانچہ وہ عورتیں جمع ہو گئیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں اللہ پاک کے سکھائے ہوئے (احکامات) میں سے کچھ سکھایا ۔ (صحیح بخاری،4/ 510، حدیث: 7310،چشتی)
اسی طرح ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تعلیمِ نسواں کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : جس کی ایک بیٹی ہو وہ اسے اچھے آداب سکھائے ، اچھی تعلیم دلائے اور جونعمتیں اللہ پاک نے اسے دی ہیں ان میں سے خوب خرچ کرے تو یہ بیٹی اس کےلیےجہنم سے رُکاوٹ بن جائے گی ۔(معجم کبیر طبرانی ،10/197، حدیث10447)
اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خواتینِ اسلام عبادت وریاضت کے ساتھ ساتھ علمِ حدیث وتفسیر ، درس وتدیس ، وعظ وتقریر کے ذریعے اپنی خدمات سرانجام دے کر علمی مقام میں کئی مردوں سے ممتاز قرار پائیں ۔ اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا شمار بھی انہی خواتین میں ہوتا ہے ۔ یوں تو تمام اَزواجِ مطہرات ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صحبت بابرکت سے علم و فضل والی تھیں مگر حضرت سیدتنا عائشہ صِدِّیقہ رضی اللہ عنہا کو ان تمام پر علمی برتری حاصل ہے ۔ حضرت عُرْوَہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ فرماتے ہیں : میں نے لوگوں میں آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا سےبڑھ کر کسی کو قرآن ، میراث ، حلال و حرام ، اشعار ، عربوں کی رِوایات اورحسب و نسب کا عالِم نہیں دیکھا ۔ (حلیۃ الاولیاء، 2/60، رقم:1482)
آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا کا شمار فقہی مسائل میں زبر دست مہارت رکھنے والے صحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان میں ہوتا ہے نیز جن چھ (6) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے سب سے زیادہ احادیثِ مُبارَکہ روایت کی ہیں اُن میں آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا بھی شامل ہیں کہ جن سے 2210 احادیثِ مُبارَکہ مروی ہیں ۔ (عمدۃ القاری، 1/72)
اسی طرح اُمُّ المومنین حضرت اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا کو بھی علمِ فقہ میں خاصی مَہارت حاصل تھی ، آپ کا شمار فقیہ صحابیات میں ہوتا تھا ۔ (سیر اعلام النبلاء، 3/475)
نیز شرعی مُعاملات میں آپ کی طرف رُجو ع کیا جاتاتھا ۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا عابِدہ ، زاہدہ ، نِہایت عقلمند اور فَہْم وفِراست جیسی عمدہ صفات کی حامِل خاتون تھیں ۔ (الاصابہ،8/406،چشتی)
صحابیات اور تابعیات رضی اللہ عنہن میں بھی ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے قرآن وحدیث کے علوم میں بڑا مقام پایا اوراس کی نشر و اشاعت میں بڑھ چڑھ کراپنا کردار ادا کیا ،ان عالی مرتبہ خواتین کے علمی فیضان سےامتِ مسلمہ نے خوب استفادہ کیا ۔
حضرتِ حفصہ بنت سیرین : امام حضرت محمد بن سیرین رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کی بہن اور مشہور تابعیہ ہیں ۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہَا نے بارہ سال کی عمر میں قرآنِ مجید پڑھ لیا تھا ۔ (تہذیب التہذیب، 10/464)
علمِ تجوید وقراء ت میں آپ کو وہ مقام اور مہارت حاصل تھی کہ آپ کے بھائی حضرت محمد بن سیرین رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کو جب قرآنِ پاک کی قراءت سے متعلق کوئی مشکل پیش آتی تو اپنے شاگردوں سے کہتے کہ جاؤ اور حفصہ سے پوچھ کر آؤ وہ کیسے پڑھتی ہیں ۔ (صفۃ الصفوہ، 2/الجزء الرابع21،چشتی)
اسی طرح آپ نے علمِ حدیث کی ترویج واشاعت میں بھی اپنا کردار ادا کیا ۔ اور صحابہ وتابعینِ عظام سےکئی احادیثِ مبارکہ روایت کیں جن میں حضرت سیدنا انس بن مالک اور حضرت سیدتنا اُمِّ عطیہ انصاریہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُما وغیرہ شامل ہیں نیز ان سےجن افرادنے روایات نقل فرمائیں ان میں حضرت اِبنِ عون، خالد، قتادہ، ہشام بن حسان رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ وغیرہ شامل ہیں۔حضرت امام یحیٰ بن معین رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ جو احادیثِ مبارکہ کے صحیح اور ضعیف ہونے کے علم میں ماہر تھے انہوں نے حضرت حفصہ کو ثقہ قرار دیا ہے۔حضرت ایاس بن معاویہ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں: میں نےحفصہ سے افضل کسی کو نہیں پایا ۔ (تہذیب التہذیب: 10/463،464)
فاطمہ بنت محمد بن احمد سمر قَنْدِیہ : خواتینِ اسلام کی ایک اور ممتاز شخصیت فاطمہ بنتِ محمد بھی ہیں جو بہت بڑی عالمہ اور فقیہہ خاتون تھیں ۔ آپ نے علمِ فقہ کی تعلیم اپنے والد حضرت امام محمد بن احمد سمرقندی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہما سے حاصل کی جو مشہور محدث اور فقیہ تھے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہا کو اپنے والدِ گرامی کی لکھی ہوئی کتاب ”تحفۃ الفقہاء“ مکمل یاد تھی ۔ ان کی فقہی مہارت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب ان کے شوہر صاحبِ بدائع الصنائع ، ملکُ العلماء حضرت علامہ علاؤ الدین ابوبکر بن مسعود کاسانی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کو فتویٰ دیتے وقت کسی علمی مسئلے میں دشواری پیش آتی توحضرت فاطمہ اس مسئلے کاحل پیش کر دیتیں اور وہ ان کی بات مان لیا کرتے تھے ، اسی وجہ سے ان کے شوہر احترام وتعظیم کرتے تھے ۔ (الجوہر المضیہ ، 2/278)
حضرت نفیسہ بنت حسن : یہ حضرت سیدنا امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ عَنۡہُ کی اولاد سے ہیں آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہا پرہیزگار او رصالحہ ہونے کے ساتھ ساتھ قرآنِ پاک کی حافظہ اور تفسیر وحدیث کی عالمہ بھی تھیں ۔ آپ کی بھتیجی حضرت زینب رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہا فرماتی ہیں کہ میری پھوپھی جان قرآن کی تلاوت کرتے وقت رویا کرتی تھیں ، آپ کی علمی شہرت کی وجہ سے ایک بہت بڑی تعداد آپ سے علم دین حاصل کرتی تھی ۔ ( الاعلام،8/ 44، نورالابصار، ص207،چشتی)
اسلامی تاریخ میں ایسی کئی عظیم خواتین کےعلمی کارناموں کا ذکر ملتاہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس دور میں خواتین کی دینی تعلیم و تربیت کے حوالے سے بہت اہتمام کیا جاتا تھا ۔
اولاد بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم و تربیت والدین کی اہم ذمہ داری ہے ، اگر انہیں بچپن ہی سے دینی ماحول فراہم کیا جائے تو ایسی بیٹیاں نیک پرہیز گار ، والدین کی فرمانبردار اور پاکیزہ کردار کی حامل بن کر خاندان اور شادی کے بعد سسرال میں ماں باپ کی عزت رکھتی ہیں اور اگراس نازک دور میں اسلامی تعلیمات کے مطابق تربیت نہ کی جائے تو جوانی میں یہی بیٹیاں ماں باپ کےلیے باعثِ عار بن سکتی ہیں ۔ لہٰذا والدین کو چاہیے کہ اس انتظار میں نہ بیٹھیں کہ ابھی تو میری بیٹی بہت چھوٹی ہے کچھ سمجھدار ہوجائے تو تربیت کریں گے۔ یاد رکھیے ! بچوں کی زندگی کے ابتدائی سال بقیہ زندگی کو بہتر بنانے کےلیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں ، جواچھی یا بری بات چھوٹی عمر میں بچہ سیکھ لیتا ہے وہ اس کے ذہن میں زندگی بھر کےلیے راسخ ہو جاتی ہے جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے : بچپن میں علم حاصل کرنا پتھر پر لکیر کی طرح (پختہ)ہوتا ہے ۔ (مجمع الزوائد،1/333، حدیث:515)
نومولود بچی کے سامنے بار بار ذِکْرُ اللہ کیجیے تاکہ جب وہ بولے تواس کی زبان سے ادا ہونے والاپہلا لفظ ”اللہ “ ہو اور پھر آہستہ آہستہ کلمہ طیبہ سکھائیے ۔ حضرتِ سیدنا ابنِ عباس رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُما سے مروی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا : اپنے بچوں کی زبان سے سب سے پہلے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہلواؤ ۔ (شعب الایمان ،6/397، حدیث: 8649)
جب بچی روئے تو اسے چپ کروانے کےلیے میوزک یا موبائل پر کہانیاں وغیرہ سنا کر بہلانے کے بجائے قرآنِ پاک کی تلاوت اور حمد و نعت سنائیے تاکہ بچی کے دل میں ان چیزوں سے انسیت پیدا ہو اور بڑی ہوکر بھی ان میں رغبت باقی رہے ۔
ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے شرعی احکام کی پاسداری ویسے بھی ہم پر لازم ہے مگر بچی کو سکھانے کی نیت سے شرعی احکامات کی ادائیگی کرتے رہیے ، نماز وروزے اور ذکرو درود کی کثرت کیجیے ، اچھے اخلاق و عادات اپنائیے کہ ماں باپ کی دیکھا دیکھی بچی کے دل میں بھی ان کاموں کا شوق پیدا ہوگا ۔
بچی کے سامنے منفی باتوں اور کاموں سے بھی پرہیز کیجیے مثلاً گانے سننے ، جھوٹ بولنے ، گالی گلوچ کرنے ، غصہ کرنے سے بچوں میں بھی یہ بری عادات منتقل ہوسکتی ہیں ۔
جب بچی پڑھنے لکھنےکے قابل ہو جائے تو کسی اچھے تعلیمی ادارے کا انتخاب کیجیے جس میں عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی اور اخلاقی تربیت بھی کی جاتی ہو ۔
دورانِ تعلیم بچی کی نگہداشت و نگرانی بھی کرتے رہیے ، فضول کاموں اوربے کار کھیلوں کے بجائے اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بیدار کرنے کےلیے اسلامی معلومات پر مشتمل سوالات پوچھیے اور جواب نہ دینے پر مختصر جوابات دیجیے تاکہ ہمیشہ کےلیے وہ باتیں اس کے ذہن میں راسخ ہو جائیں ۔
غلطی پر جھڑکنے یا سختی کرنے کے بجائے پیار محبت سے سمجھائیے ، اچھے کارناموں پر دلجوئی اورحوصلہ افزائی کیجیے ، بچوں کو بات کرنے پر بار بار ٹوکنے کے بجائے انہیں بولنے کا موقع دیجیے ورنہ دوسروں کے سامنے بات کرنے کاحوصلہ ماند پڑ سکتا ہے ۔
لڑکی جب بڑی ہو جائے تو اسے سلیقہ شعار اور ہنر مند بنانے کیلئے کھانے پکانے ، صفائی کرنے وغیرہ جیسے کاموں میں ماں کا ہاتھ بٹانے ، اپنا کام خود کرنےاورسلائی کڑاہی کرنے کے مواقع فراہم کریں ، ایسی بیٹیاں ماں باپ کےلیے باعثِ فخر ہوتی ہیں ۔
بڑی عمر کی بچیوں کی تعلیم کےلیے بھی ایسا ادارہ منتخب کیجیے کہ جس میں ان کی عفت وعصمت محفوظ رہے اور شرعی حدود کی پامالی نہ کی جاتی ہو ۔
فی زمانہ تعلیم ایک لڑکی کےلیے اس کی زندگی کے مختلف گوشوں میں کام آتی ہے مگر یہ بھی یاد رہے کہ صرف عصری علوم پر اکتفا کرنا اور ان میں اپنی مہارت و صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے کسی اچھے عہدے پر فائز ہونا ہی روشن مستقبل کی ضمانت نہیں بلکہ عورت اگر بیٹی کی حیثیت سے کسی کی لختِ جگر ہے تو کل اسی نے کسی کی شریک حیات بھی بننا ہے ، بیوی کے بعد ماں کا کردار نبھاکر اولاد کی تربیت بھی کرنی ہے ، پھر اچھی بہو اور ایک اچھی ساس کی حیثیت سے بھی زندگی بسر کرنی ہے تو صرف عصری علوم کے حصول سے ہی ایک عورت اپنی یہ ذمہ داریاں اچھی طرح نہیں نبھا سکتی ہے بلکہ اس کو ایک اطاعت گزار بیوی ، خدمت گزار بہو اور ایک سلیقہ شعار ماں بننے کےلیے دینی تعلیمات سے آشنا ہونا بے حد ضروری ہے ۔ کیونکہ ایک دینی تعلیم یافتہ عورت اپنی اور اپنی اولاد ، خاندان اور رفتہ روفتہ اصلاحِ معاشرہ کےلیے اہم کردار ادا کر سکتی ہے ، ماضی میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ خواتینِ اسلام نے ماں ، بہن ، بیٹی اور بیوی کی حیثیت سے افراد کی اصلاح کےلیے اہم کردار ادا کیا ۔ بالخصوص اگر ایک ماں دینی تعلیم یافتہ ہو ، شریعت و سنت کی عالمہ ہو ، اچھے اخلاق و کردار کی جامع ہو تو اولاد کی اچھی تربیت کر کے انہیں معاشرے کی ہر دلعزیز شخصیت بنانے میں معاون و مددگار ثابت ہو گی ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment