میرا کوئی فرقہ نہیں میں تو بس مسلمان ہوں کا جواب
محترم قارئینِ کرام : آجکل یہ بات بہت زیادہ پسند کی جاتی ہے ۔ خاص طور سے جدید تعلیم یافتہ لوگوں میں ۔ اپنے اس جملہ سے ظاہر وہ یہ کر نا چاہتے ہیں کہ آجکل جتنے فرقے ہیں وہ فرقہ تو ہیں مگر مسلمان نہیں ہیں ، اسلام کو فرقہ پرستی سے کیا لینا ؟ اس لیے میرا تعلق کسی فرقہ سے نہیں بلکہ میں صرف مسلمان ہوں ۔ اگر آپ اس بات یا قول کو حدیث کی روشنی میں دیکھیں تو پائیں گے کہ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بات کے مخالف ہے ۔ حدیث آپ نے سن ہی رکھی ہوگی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : وان بنی اسرائیل تفرقت علی ثنتین وسبعین ملۃ وتفترق امتی علی ثلث و سبعین ملۃ کلھم فی النار الا ملۃ واحدۃ قالوا من ھی یارسول اللہ قال ما انا علیہ واصحابی ۔ (رواہ الترمذی وفی روایۃ احمد و ابی داود) ۔ عن معاویۃ ثنتان و سبعون فی النار وواحدۃ فی الجنۃ وھی الجماعۃ ۔
ترجمہ : بے شک بنی اسرائیل کے بہتر 72 فرقے ہوئے اور میری امت میں تہتر فرقے ہو جائیں گے ایک فرقہ جنتی ہوگا باقی سب جہنمی ہیں صحابہ کرام علیہم الرضوان نےعرض کی وہ ناجی فرقہ کون ہے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، ارشاد فرمایا وہ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں یعنی سنت کے پیرو ۔
دوسری روایت میں فرمایا وہ جماعت ہے یعنی مسلمانوں کا بڑا گروہ جسے سواد اعظم فرمایا ۔ (مشکوٰۃ المصابیح،ص:٣٠، قدیمی کتب خانہ)
اس حدیث پاک کے تحت حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں : بنی اسرائیل کے سارے 72 فرقے گمراہ ہو گئے تھے مگر مسلمانوں میں 72 فرقے گمراہ ہوں گے اور ایک ہدایت پر ۔
مسلم شریف اور سنن ابوداؤد کی حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا عیسائیوں نے بہتر (72) بنالئے اور میری امت تہتر (73) فرقوں میں بٹ جائے گی (72) فرقے ناری ہوں گے اور صرف ایک فرقہ ناجی ہوگا اور وہ جماعت جو میری سنت پر اور میرے صحابہ کی سنت پر عمل کرے گی ۔ حضور غوث الاعظم علیہ الرحمۃ اور حضرت مجدد شیخ احمد سرہندی علیہ الرحمۃ نے اس حدیث کی شرح میں ناجی فرقے سے مراد اہلسنت و جماعت لیے ہیں ۔
لفظ الجماعۃ سے مراد اُمت کا اَکثریتی طبقہ ہے ۔ اِس کی وضاحت حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ سے ہوتی ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود الجماعۃ سے سوادِ اَعظم مراد لیتے ہوئے فرمایا : والذي نفس محمد بيده ! لتفترقن أمتي علي ثلاث و سبعين فرقة، واحدة في الجنة وثنتان وسبعون في النار ۔ قيل : يارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! من هم ؟ قال : الجماعة ۔
ترجمہ : اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد کی جان ہے ! میری اُمت ضرور تہتر (73) فرقوں میں بٹ جائے گی جن میں سے صرف ایک جنت میں جائے گا اور بہتر (72) جہنم میں داخل ہوں گے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : يا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم من هم ؟ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وہ جنتی گروہ کون ہے ؟ ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : الجماعة ۔ وہ (اُمت میں سب سے بڑی) جماعت ہے ۔ (ابن ماجه، کتاب الفتن، باب افتراق الأمم 2 : 1322 رقم : 3992،چشتی)(لالکائي إعتقاد أهل السنة والجماعة، 1 : 101 رقم : 149)
نوٹ : جو کہتے ہیں ہمارا کوئی فرقہ نہیں در اصل وہ اس حدیث کا انکار کرتے ہیں میرا کوئی فرقہ نہیں کا نعرہ ملحدین اور منکرین حدیث کا ہے امت فرقوں میں بٹے گی یہ حدیث پاک میں موجود ہے حق پر ایک جماعت ہوگی اور وہ اہلسنت و جماعت ہے ۔
اس حدیث میں غور کرنے والی بات یہ ہے کہ جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جنت میں جانے والا قرار دیا ہے وہ بھی ایک "فرقہ" ہی ہے اور تہتر فرقے اس کو ملا کر تہتر ہونگے وہ تہتر سے الگ نہیں ہو گا ۔ ان میں سے صرف ایک "فرقہ" کو جنتی قرار دینے کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ " فرقہ" مسلمان ہوگا تبھی تو وہ جنت میں جائے گا ۔ ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ وہ فرقہ چلا تو جائے جنت میں مگر مسلمان نہ ہو ۔ لا محالہ اس "فرقہ" کو مسلمان ماننا ہوگا اب جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ میرا کوئی فرقہ نہیں ہے میں صرف مسلمان ہوں اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ اپنا شمار تہتر فرقوں میں سے کسی میں نہیں کرتا اور جب وہ تہتر میں ہی نہیں ہے تو وہ کیااس "فرقہ" میں ہو سکتا ہے جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جنت کی بشارت دی ہے ؟
بالکل بھی نہیں بلکے وہ الگ ایک فرقہ کا رکن ھے جن کا یہ نظریہ ہے ہمارا کوئی فرقہ نہیں تو چند سال یہ سبق پڑھتے رہتے ہیں پھر آگے بڑہتے ہیں تو کہتے ہیں ھمارا کوئی مذھب نہیں بس ہم انسان ہیں ۔
امام طحطاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : فعليكم معاشر المؤمنين بإتباع الفرقة الناجية المسماة بأهل السنة والجماعة فان نصره أي نصرة الله وحفظه وتوفيقه في موافقأتهم وخذلانه وسخطه و مقته في مخالفتهم وهذه الطائفة الناجية قد اجتمعت اليوم في المذاهب الأربعة هم ألحنفيون والمالكيون والشافيون والحنبليون ومن كان خارجا من هذه المذاهب الأربعة فهو من أهل البدعة والنار-(طحطاوی،شرح الدر المختار، کتاب الذبائح، ٤/١٥٤،چشتی)
ترجمه : واجب ہے تم پر اے گروہ مومنین پیروی کرنا اس نجات یافتہ فرقہ کا جس کا نام اہل سنّت و جماعت ہے ، کیونکہ الله تعالیٰ کی مدد اور حفاظت اور توفیق ان کی موافقت میں ہے ۔ اور ذلت دینا اس (جماعت) کو اور خفا ہونا اور بگاڑنا ان کی مخالفت میں سے ہے . اور یہ نجات یافتہ گروہ آج کے دن مجتمع ہوگیا ہے چار (4) مذاہب (راستوں) میں کہ وہ حنفی اور مالکی اور شافعی اور حنبلی ہیں. جو کوئی نکلا ان چاروں مذہبوں (راستوں) سے تو وو بدعتی اور جہنمیوں میں سے ہے ۔
علامہ ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ نے "كتاب الأشباه و النظائر" میں ناقلا عن المصفى فرماتے ہیں : وإذا سئلنا عن معتقدنا و معتقد خصومنا في القائد يجب علينا عن تقول الحق ما نحن عليه الباطل ما عليه خصومنا-هكذا نقل عن المشائخ أنتهى ۔ (كتاب الأشباه و النظائر، اعتقاد الإنسان في مذهبه، الفصل الثالث، صفحہ ٢٠٧،چشتی)
ترجمہ : اور جس وقت ہم سے پوچھا جاے ہمارے اعتقاد اور ہمارے مخالف کے اعتقاد کے بارے تو ہمیں واجب ہے ہم پر یہ کہنا کہ جس پر ہم ہیں وہ حق ہے اور جس پر ہمارے مخالف ہے وہ ناحق ہے، ایسا ہی اگلوں سے منقول ہے ۔ جو لوگ یہ کہتے ھوئے پائے جاتے ہیں کہ میرا کوئی فرقہ نہیں میں مسلمان ھوںاگر وہ شخص ضروریات دین کا اقرار کرتا ہے اور اہل قبلہ ہے اور کم ازکم دین پرعمل کرتا ہے وہ بلاشبہ جنتی ہے کیونکہ حدیث شریف اپنی جگہ مگر کسی بھی فرقے کی تکفیر نہیں کی گئی چناچہ علامہ شامی امام غزالی امام اعظم صاحیبین علیہم الرّحمہ نے گمراہ تو لکھا ہے اور اسی پر اعلٰحضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ ہے ۔ یعنی اہل قبلہ کی تکفیر نہیں کی جائے گی بعض نے لکھا کہ ان کی یعنی گمراہ فرقوں کی مغفرت کی امید رکھی جائے گی ۔ رہ گئے وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں میرا کوئی فرقہ نہیں تو بعض ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو صرف برائے نام مسلمان ہیں بعض وہ ھیں جو صلح کلیت کے قائل ہیں ، بعض وہ ہیں جو تمام فرقوں کا ردکرتے نظر آتے ہیں جس میں اہلسنّت و جماعت بھی شامل ہے ۔ تو انکے چونکہ الگ الگ مؤقف ہیں اور ایسی اعتبار سے انکا رد بھی کیا جائے گا ۔ مگر یہ جملہ بہرحال غلط العام ہے کہ میرا کوئ فرقہ نہیں ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے سب سے الگ ایک نیافرقہ جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے ، اور ایسے لوگ اکثر و بیشتر صرف تنقید کرنا چاھتے ہیں جو کہ بلکل گمراہی ہے ۔ یہ جو حدیث ہے کہ سوائے ایک کے باقی جہنم میں ہیں اس کا مطلب ہے ابتداًوہ داخل جہنم ہوں گے مگر جب اللّٰہ کی مرضی ہو گی وہ بھی بخشے جائیں گے جبکہ وہ حد کفر کو کراس نا کر گئے ہوں ۔
اہلِ سنّت و جماعت تین لفظوں سے مرکب ہے : (1) اہل .....کا مطلب ہے اشخاص ، مقلدین ، اتباع ، پیرو ۔ (2) سنّت ..... معنی راستہ مجازاً روش ۔
طرز زندگی اورطرز عمل کے معنی میں بهی آتا ہے ۔ (3) جماعت. لغوی معنی تو گروه کے ہیں ۔
لیکن یہاں جماعت سے مراد جماعتِ صحابه رضی اللہ عنہم ہے ۔ اس لفظی یعنی اہل سنت و جماعت کا اطلاق ان اشخاص پر ہوتا ہے جن کے عقائد و نظریات اور اعمال و مسائل کا محور پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت صحیحه اور صحابه کرامرضی اللہ عنہم کا اثر مبارک ہے ۔
سنت کا مقابل لفظ بدعت ہے : بدعت کے معنی نئی بات کے ہیں کہ اصطلاحِ شریعت میں بدعت کہتے ہیں مذهب کے عقائد یا اعمال میں کوئی ایسی بات داخل ہو جس کی تلقین صاحب مذهب نے نہ فرمائی ہو اور نہ ان کے کسی حکم یا فعل سے اس کا منشا ظاہر ہوتا ہو ۔ اس سے صاف معلوم ہو گیا کہ : اہلسنت و جماعت کے عقائد کے علاوه سب تمام عقائد و نظریات بدعت ، ضلالت و گمراہی ہیں ۔ قرآن و سنت کی روشنی سے واضح ہوتا ہے کہ اہل سنت و جماعت اسی راستہ پہ گامزن ہیں : اللہ تعالی نے منع فرمایا فرقہ مت بناؤ مگر وہابی دیوبندی اہل حدیث غیرمقلد فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں : ان لوگوں کے عقائد صحابہ رضی اللہ عنہم کے عقائد کے خلاف ہیں تو ہم انہیں دعوت سخن پیش کرتے ہیں آجاؤ اپنی اصل لائن پہ جس پہ اہل سنت سوادِ اعظم ہیں فرقوں میں تم بٹے ہو نہ کہ اہل سنت ۔
جماعت و فرقے میں فرق
چاروں ائمہ فقہ علیہم الرّحمہ کے عقائد میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ سب کا عقیدہ وہی ہے جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا تھا ۔ ہمیشہ سے امت میں ایک بہت بڑی جماعت کا عقیدہ ایک رہا ہے اور یہی عقیدہ درست ہے ۔ اسی کو جماعت یا سواد اعظم کا نام دیا گیا ہے ۔ جو جماعت سے نکل جاتا ہے اس کو فرقہ کہتے ہیں ۔ جماعت ہمیشہ سے حق پر ہے اور حق پر رہے گی ۔ جتنے بھی فرقے ہوں گے حق پر نہیں ہوں گے کیونکہ یہ بنتے رہے ہیں اور ختم ہوتے رہے ہیں اسی طرح قیامت تک ہوتا رہے گا ۔ اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے افکار و نظریات کی بے پناہ مقبولیت سے متاثر ہو کر مخالفین نے ان کے ہم مسلک علماء و مشائخ کو بریلوی کا نام دے دیا ، مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ دوسرے فرقوں کی طرح یہ بھی ایک نیا فرقہ ہے جو سرزمین ہند میں پیدا ہوا ہے ۔ احادیث مبارکہ میں ہے : ⬇
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان الله لا يجمع أمتی (أو قال امة محمد صلی الله عليه وآله وسلم) علی ضلالة، ويد الله مع الجماعة، ومن شذ شذ الی النار.
ترجمہ : اللہ تعالی میری امت کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا (یا فرمایا : امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا) اور جماعت پر اللہ (تعالی کی حفاظت) کا ہاتھ ہے اور جو شخص جماعت سے جدا ہوا وہ آگ کی طرف جدا ہوا ۔
(ترمذی، السنن، 4 : 466، رقم : 2167، بيروت لبنان)(حاکم، المستدرک، 1 : 201، رقم : 397، دار الکتب العلمية، بيروت، لبنان)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لا يجمع الله هذه الامة علی الضلالة ابدا وقال : يدالله علی الجماعة فاتبعوا السواد الاعظم فانه من شذ شذ فی النار .
ترجمہ : اللہ تعالی اس امت کو کبھی بھی گمراہی پر اکٹھا نہیں فرمائے گا اور فرمایا : اللہ تعالی کا دست قدرت جماعت پر ہوتا ہے۔ پس سب سے بڑی جماعت کی اتباع کرو اور جو اس جماعت سے الگ ہوتا ہے وہ آگ میں ڈال دیا جاتا ہے ۔ (حاکم، المستدرک، 1 : 199، رقم : 391)(ابن ابی عاصم، کتاب السنة، 1 : 39، رقم : 80، مکتبة العلوم والحکم، مدينة منوره، سعودی عرب)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان أمتی لا تجتمع علی ضلالة فاذا رأيتم اختلافا فعليکم بالسواد الاعظم ۔
ترجمہ : بے شک میری امت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو گی پس اگر تم ان میں اختلاف دیکھو تو تم پر لازم ہے کہ سب سے بڑی جماعت کو اختیار کرو ۔ (ابن ماجه، السنن، 4 : 367، رقم : 3950 دارالکتب العلمية، بيروت، لبنان)(طبرانی، معجم الکبير، 12 : 447، رقم : 13623، مکتبة ابن تيمية قاهره)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان بنی اسرائيل افترقت علی أحد وسبعين فرقة. وان أمتی ستفترق علی ثنتين وسبعين فرقة. کلها فی النار، الا واحدة. وهی الجماعة ۔
ترجمہ : یقینا بنی اسرائیل اکتہر فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے اور میری امت یقینا بہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی۔ وہ سب کے سب دوزخ میں جائیں گے سوائے ایک کے اور وہ جماعت ہے ۔ (ابن ماجه، السنن، 2 : 1322، رقم : 3991)(احمد بن حنبل، المسند، 3 : 145، رقم : 12501)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان الله لا يجمع أمتی (أو قال امة محمد صلی الله عليه وآله وسلم) علی ضلالة، ويد الله مع الجماعة، ومن شذ شذ الی النار.
ترجمہ : اللہ تعالی میری امت کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا (یا فرمایا : امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا) اور جماعت پر اللہ (تعالی کی حفاظت) کا ہاتھ ہے اور جو شخص جماعت سے جدا ہوا وہ آگ کی طرف جدا ہوا ۔ (ترمذی ، السنن، 4 : 466، رقم : 2167، بيروت لبنان۔چشتی)(حاکم، المستدرک، 1 : 201، رقم : 397، دار الکتب العلمية، بيروت، لبنان)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لا يجمع الله هذه الامة علی الضلالة ابدا وقال : يدالله علی الجماعة فاتبعوا السواد الاعظم فانه من شذ شذ فی النار ۔
ترجمہ : اللہ تعالی اس امت کو کبھی بھی گمراہی پر اکٹھا نہیں فرمائے گا اور فرمایا : اللہ تعالی کا دست قدرت جماعت پر ہوتا ہے۔ پس سب سے بڑی جماعت کی اتباع کرو اور جو اس جماعت سے الگ ہوتا ہے وہ آگ میں ڈال دیا جاتا ہے ۔(حاکم المستدرک، 1 : 199، رقم : 391،چشتی)(ابن ابی عاصم، کتاب السنة، 1 : 39، رقم : 80، مکتبة العلوم والحکم، مدينة منوره، سعودی عرب)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان أمتی لا تجتمع علی ضلالة فاذا رأيتم اختلافا فعليکم بالسواد الاعظم ۔
ترجمہ : بے شک میری امت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو گی پس اگر تم ان میں اختلاف دیکھو تو تم پر لازم ہے کہ سب سے بڑی جماعت کو اختیار کرو ۔ (ابن ماجه، السنن، 4 : 367، رقم : 3950 دارالکتب العلمية، بيروت، لبنان۔چشتی)(طبرانی، معجم الکبير، 12 : 447، رقم : 13623، مکتبة ابن تيمية قاهره)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان بنی اسرائيل افترقت علی أحد وسبعين فرقة. وان أمتی ستفترق علی ثنتين وسبعين فرقة. کلها فی النار، الا واحدة. وهی الجماعة ۔
ترجمہ : یقینا بنی اسرائیل اکتہر فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے اور میری امت یقینا بہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی ۔ وہ سب کے سب دوزخ میں جائیں گے سوائے ایک کے اور وہ جماعت ہے ۔ (ابن ماجه، السنن، 2 : 1322، رقم : 3991،چشتی)(احمد بن حنبل، المسند، 3 : 145، رقم : 12501)
لہذا چاروں ائمہ علیہم الرّحمہ کو Follow کرنے والے یا پھر کوئی علاقائی طور پر کسی نام سے پکارے جانے والے مسلمان اگر عقیدہ سواد اعظم اہلسنت و جماعت والا رکھتے ہوں تو وہ فرقہ نہیں ہیں بلکہ جماعت ہی ہیں کیونکہ سب کا عقیدہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم والا عقیدہ ہے اور قرآن وحدیث کی تعلیمات کے مطابق ہے ۔ ہاں جس کا عقیدہ جماعت سے مختلف ہوا وہ جہنم کے راستے پر ہے اور وہی فرقہ ہے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment