خواتین کا پڑھنا لکھنا قرآن و حدیث کی روشنی میں حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام : اسلام میں خواتین کا مقام و مرتبہ واضح ہے ۔ انہیں علمی اور عملی ہر طرح کی سرگرمیاں انجام دینے کی اجازت ہے ۔ ان کے حقوق اور فرائض سب متعین کر دیے گئے ہیں ۔ لیکن مقامِ حیرت و افسوس ہے کہ ان کے بارے میں اپنے اور پرائے سب غلط بیانی اور غلط فہمی کا شکار ہیں ۔ ایک طرف اسلام کے مخالفین اور بدخواہ طرح طرح کے اعتراضات اور الزامات عائد کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلام نے مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو پست درجہ دیا ہے ۔ انہیں گھر کی چہار دیواری میں قیدی بنا کر رکھا ہے ۔ ان پر حجاب کی بندشیں عائد کر کے انہیں معاشرے سے بالکلیہ کاٹ دیا ہے اور کسی کو ان کی علمی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ اور اس طرح کے دیگر اعتراضات اسلام کی صحیح تعلیمات سے نا واقفیت کا نتیجہ ہیں ۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اسلام کے نام لیواؤں نے اسلام میں خواتین کے مقام و مرتبہ کا صحیح تعارف نہیں کرایا ہے ۔ یہی نہیں ، بلکہ ان کا عملی رویّہ مخالفینِ اسلام کے مذکورہ بالا اعتراضات کی تائید و توثیق کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ علمِ دین اسلام کی بنیادوں میں سے ایک اہم بنیاد ہے ۔ علم کی اس سے بڑھ کر کیا اہمیت بیان کی جا سکتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے محبوب اور آخری نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر جب نزول وحی کی ابتدا فرمائی تو پہلا حکم ہی پڑھنے کا نازل فرمایا ۔ اس پر تمام ائمہ و مفسرین کا اتفاق ہے کہ نزول وحی کا آغاز سورۃ العلق کی ابتدائی پانچ آیات مبارکہ سے ہوا ہے : اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ۔ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ۔ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ۔ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۔ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ۔ (سورہ العلق آیت نمبر 1 تا 5)
ترجمہ : پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ۔آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا ۔ پڑھو اور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم ۔ جس نے قلم سے لکھنا سکھایا ۔ آدمی کو سکھایا جو نہ جانتا تھا ۔
موجودہ دور میں تعلیمِ نسواں کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کیوں کہ خواتین معاشرے کا نصف حصہ ہیں لہٰذا ان کی تعلیم و تربیت قوم اور معاشرے دونوں کی ترقی اور بھلاٸی کےلیے ضروری ہے ۔
لفظ تعلیم و تربیت دواجزا کا مرکب ہے : 1 ۔ تعلیم یعنی سکھنا سکھانا اور پڑھنا اور پڑھانا معلومات اور پہچاننا اور ۔ 2 ۔ تربیت یعنی اچھی پرورش کرنا ۔ اچھے اخلاق و عادات کا خوگر بنانا اس لیے تعلیم اور تربیت دونوں اسلام میں بنیادی اہمیت کا حامل ہیں ۔
اسلام کی نظر میں تعلیم کا مقصد خالص رضاۓ الہی کا حصول ہے جس کےلیے تعلیم و تربیت دوسرے نظامِ تعلیم سے منفرد ہے ۔ کیوں کہ اس میں تربیت کا تصور بھی پایا جاتا ہے یہ طلبہ و طالبات کو صرف معلومات ہی فراہم نہیں کرتا بلکہ نفس کی تربیت کا بھی اہتمام کرتا ہے اور ساتھ ہی زندگی کے تمام شعبوں میں رہنمائی کرتا ہے دیگر نظامِ تعلیم صرف ایک شہری بنانا چاہتے ہیں جبکہ اسلامی نظامِ تعلیم ایک اچھا انسان بناتا ہے
یہی وجہ ہے کہ اسلام نے تعلیم و تربیت کو ابتدا ہی سے بنیادی اہمیت دی ہے اور حصولِ علم کو مرد اور عورت دونوں کےلیے یکساں و لازمی قرار دیا قرأن و حدیث میں علم کی بہت فضیلت بیان کی گٸی ہے بلکہ معلوم ہے کہ اسلام میں حصولِ علم سے بڑھکر کوٸ چیز نہیں ہے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو پہلی وحی نازل ہوٸی اس کا أغاز بھی لفظ ،،اقرأ،، سے ہوا ایک اور جگہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا : قل ھل یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون ۔ ان سے پوچھو کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں ۔
اب ان آیات مبارکہ میں جہاں پہلا حکم ہی حصولِ علم کے پہلے مرحلے یعنی پڑھنے کے حکم سے ہوا، وہاں پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کے رب اور خالق ہونے کے بیان کے ساتھ ساتھ علوم کی دو اہم شاخوں ۔ عمرانیات اور تخلیقات ۔ کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے ۔ دوسری آیت میں علم حیاتیات ؛ تیسری آیت میں علم اخلاقیات کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے یہ بات بھی واضح کر دی گئی کہ اسلام کا تصوّر علم بڑا وسیع ہے اور جب اسلام طلب و حصول علم کی بات کرتاہے تو وہ سارے علوم اس میں شامل ہوتے ہیں جو انسانیت کےلیے نفع مند ہیں؛ اور اس سے مراد صرف روایتی مذہبی علوم نہیں۔ قرآن مجید کی متعدد آیات میں زمین و آسمان کی تخلیق میں تدبر و تفکر کی دعوت دی گئی اور یہی تدبر و تفکر جدید سائنس کی بنیاد بنا۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جدید سائنس، جس پر آج انسانیت ناز کرتی ہے، اس کی صرف بنیاد ہی مسلمانوں نے نہیں رکھی بلکہ وہ اصول و ضوابط اور ایجادات و دریافتیں بھی مسلمانوں نے ہی کی ہیں جنہوں نے سائنس کی ترقی میں اہم ترین کردار اداکیا ہے ۔
اسلام کے ایک ہزار سالہ عروج کے بعد اس کو درپیش آنے والے زوال کا ایک افسانہ یہ بھی ہے کہ بہت سے واضح اور بنیادی تصورات ۔ جن پر تاریخ میں کبھی ابہام نہ رہا تھا ۔ اس دور میں دھندلائے ہی نہیں بلکہ پراگندہ ہو گئے ہیں۔ ان میں ایک خواتین کا حصول علم ہے ۔ آج کے دور میں بعض ایسے مذہبی ذہن موجود ہیں جو عورتوں کے حصول علم کے خلاف ہیں اور اگر خلاف نہیں تو ایسی پابندیوں کے قائل ضرور ہیں کہ جن کی وجہ سے خواتین اور بچیوں کا حصول علم ناممکن ہوجائے۔ حصول علم کے فرض ہونے پر کوئی اختلاف نہیں ۔ قرآن مجید میں پانچ سو کے لگ بھگ مقامات پر بلا واسطہ یا بالواسطہ حصول علم کی اہمیت اور فضیلت بیان کی گئی۔ حضور نبی اکرم ا کے فرائض نبوت کا بیان کرتے وقت بھی اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَ ۔ (سورہ البقرۃ آیت نمبر ۱۵۱)
ترجمہ : جیسے ہم نے تم میں بھیجا ایک رسول تم میں سے کہ تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں پاک کرتا اور کتاب اور پختہ علم سکھاتا ہے اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جس کا تمہیں علم نہ تھا ۔
هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ۔ (سورہ الجمعہ آیت ۲)
ترجمہ : وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا کہ ان پر اس کی آیتیں پڑھتے ہیں اور انھیں پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب اور حکمت کا علم عطا فرماتے ہیں اور بے شک وہ اس سے پہلے ضرور کھلی گمراہی میں تھے ۔
ان آیات کے بغور مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرائض نبوت : تلاوت آیات ، تزکیہ نفس ، تعلیم کتاب ، تعلیم حکمت اور ابلاغ علم ہیں ۔ ان پانچ میں سے چار براہ راست علم سے متعلق ہیں جبکہ پانچواں اور ترتیب میں دوسرا تزکیہ نفس بھی علم کی ایک خاص قسم ہے جسے علم تزکیہ و تصفیہ یا اصطلاحاً تصوف کہا جاتا ہے ۔ اب اگر علم کے دروازے خواتین پر بند کر دیے جائیں یا ان کے حصولِ علم پر بے جا پابندیاں عائد کرنا شروع کر دی جائیں تو پھر وہ کس دین پر عمل کریں گی ۔ یا ان کا دینِ اسلام سے کیا رابطہ رہ جائے گا ۔ کیونکہ جو دین حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لے کر آئے وہ تو سارے کا سارا علم سے عبارت ہے ۔
اسلامی شریعت کا ایک بنیادی قائدہ ہے کہ جب بھی کوئی حکم نازل ہوتا ہے تو اس کےلیے صیغہ مذکر استعمال ہوتا ہے لیکن اس میں صنف نازک بھی شامل ہوتی ہے ۔ اگر اس حکم و اصول کو ترک کر دیا جائے تو نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰۃ جیسے بنیادی ارکان سمیت بے شمار احکامِ شریعت کی پابندی خواتین پر نہیں رہتی ۔ چونکہ ان احکام کے بیان کے وقت عموماً مذکر کا صیغہ ہی استعمال کیا گیا ہے ، لہٰذا یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جن آیات و احادیث کے ذریعے فرضیت و اہمیت علم مردوں کےلیے ثابت ہے ، انہی کے ذریعے یہ حکم خواتین کےلیے بھی من و عن ثابت شدہ ہے ۔
فرضیت علم کا براہ راست بیان بے شمار احادیث میں بھی آیا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حصولِ علم تمام مسلمانوں پر (بلا تفریق مرد و زن) فرض ہے ۔ (سنن ابن ماجہ، المقدمہ، ۱:۸۱، رقم: ۲۲۴)
اسی طرح ایک دوسرے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے ، بے شک علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ (ابن عبد البر، جامع بیان العلم، ۱: ۲۴، رقم: ۱۵،چشتی)
ایک اور مقام پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمایا : جو شخص طلبِ علم کےلیے کسی راستہ پر چلا ، اللہ تعالیٰ اس کےلیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے ۔ (صحیح مسلم، کتاب الذکر، ۴: ۲۰۷۴، رقم: ۲۶۹۹)
لہٰذا جب یہ بات واضح ہوگئی کہ قرآن سے حصول علم خواتین کےلیے بھی اسی طرح فرض ہے جیسے مردوں کےلیے تو اب اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روشنی میں جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود خواتین کی تعلیم و تربیت کا خصوصی اہتمام فرمایا : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عورتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئیں : آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب مرد ہم سے آگے نکل گئے ، لہٰذا ہمارے استفادہ کےلیے بھی ایک دن مقرر فرما دیجیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کےلیے ایک دن مقرر فرما دیا ۔ اس دن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان سے ملتے انہیں نصیحت فرماتے اور انہیں اللہ تعالیٰ کے احکام بتاتے ۔ (صحیح بخاری، کتاب العلم، ۱: ۵۰، رقم: ۱۰۱،چشتی)
ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا عالمہ ، محدثہ اور فقیہہ تھیں ۔ آپ سے کتب احادیث میں ٢٢١٠ مروی احادیث ملتی ہیں ۔ مردوں میں صرف حضرت ابو ہریرہ ، حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت انس بن مالک ث ہی تعداد میں آپ سے زیادہ احادیث روایت کرنے والوں میں سے ہیں ۔ اس سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ ضروری تقاضے پورے کرنے کی صورت میں عورتیں نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں کو بھی پڑھا سکتی ہیں ۔
حضرت عائشہ بنت طلحہ روایت کرتی ہیں : میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کے پاس رہتی تھیں ، میرے پاس ہر شہر سے لوگ آتے (جو بغرض تعلیم سوالات کرتے تھے) اور بوڑھے لوگ بھی آتے تھے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ میں ان کی خادمہ ہوں ۔ اور جو طالب علم نوجوان تھے وہ میرے ساتھ بہنوں جیسا برتاؤ کرتے تھے اور (میرے واسطہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں) ہدایا پیش کرتے تھے ۔ بہت سے مختلف شہروں سے مجھے بھی خط لکھتے تھے (تاکہ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے معلوم کر کے جواب لکھ دوں) ۔ میں عرض کرتی تھی : اے خالہ! فلاں کا خط آیا ہے اور اس کا ہدیہ ہے تو اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں کہ اے بیٹا ! اس کو جواب دے دو اور اس کے ہدیہ کا بدلہ بھی دے دو۔ اگر تمہارے پاس دینے کو کچھ نہیں تو مجھے بتا دینا میں دے دوں گی ۔ چنانچہ وہ دے دیا کرتی تھیں (اور میں خط کے ساتھ بھیج دیتی تھی) ۔ (بخاری، الادب المفرد، ۱:۳۸۲، رقم: ۱۱۱۸،چشتی)
ایک مغالطہ یہ بھی پایا جاتا ہے کہ عورتوں اور بچیوں کا مردوں سے پڑھنا ناجائز ہے ۔ بہتر یہی ہے کہ بچیوں کےلیے خواتین اساتذہ کاہی انتظام ہو مگر ایسا نظام نہ ہونے کی صورت میں مردوں کا باپردہ ماحول میں عورتوں کو پڑھانا بھی از روئے شرع منع نہیں ہے ۔ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خواتین کی تعلیم و تربیت کا اہتمام فرماتے تھے ، مسجد نبوی میں ہفتے کا ایک دن خواتین کےلیے مخصوص کرنے کا ذکر بھی ملتاہے ۔ (صحیح بخاری، کتاب العلم، ۱: ۵۰، رقم: ۱۰۱)
بعض لوگ احکامِ پردہ کا بہانہ بنا کر عورتوں اور بچیوں کی تعلیم کے مخالفت کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ گھر سے باہر ہر طرف مرد ہوتے ہیں ، لہٰذا پردہ قائم نہیں رہتا ۔ سب سے پہلے تو یہ عذر انتہائی مضحکہ خیز ہے ۔ اگر بچیاں تعلیم کےلیے باہر نہیں نکل سکتیں تو ان کا کسی مقصد کےلیے بھی باہر نکلنا جائز نہ ہوا ۔ ایسے لوگوں کی نظر میں خواتین کا گھروں سے باہر نکلنا ہی ممنوع ہے ۔ حالانکہ اسلامی شریعت و تاریخ میں اس کے اثبات میں کوئی حکم نہیں ملتا ۔ خود آیت پردہ ہی اس بات پر دلیل ہے کہ اسلامی پردہ گھر سے باہر نکلنے کےلیے ہی ہے ۔ گھروں میں بیٹھے رہنے سے احکامِ پردہ لاگو نہیں ہوتے کیونکہ پردہ غیر محرموں سے ہوتاہے اور گھر میں تو عموماً محرم ہی ہوتے ہیں ۔ آیت پردہ کا مطالعہ کریں : وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۔ (النور آیت نمبر ۳۱)
ترجمہ : اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے ۔
اس میں منع زینت کے اظہار سے کیا گیا ہے ۔ اور زینت کے اظہار سے مراد ہے بناؤ سنگھار کا اظہار کرنا ۔ دوسرا یہ کہاگیا کہ جب گھر سے نکلیں تو چادر اوڑھ لیاکریں تاکہ باہر دوسری فطرت کی عورتوں میں مومنات کا امتیاز نظر آئے ۔ سورۃ الاحزاب میں امہات المومنین اور خانوادۂ نبوت کی خواتین کو خطاب کے ذریعے تعلیم امت کےلیے حکم فرمایا : يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا َّحِيمًا ۔ (سورہ احزاب آیت نمبر ٥٩)
ترجمہ : اے نبی اپنی بیبیوں اور صاحبزادیو ں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادو کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ ان کی پہچان ہو تو ستائی نہ جائیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔
لہٰذا احکام پردہ خود خواتین کے گھر سے باہر نکلنے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ دوسرا اگر خواتین کا گھر سے نکلنا ممنوع ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ آپ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن غزوہ بدر میں کیوں شریک ہوئیں ۔ آپ درج ذیل احادیث کا مطالعہ کریں تو واضح ہو جائے گا کہ دور رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں خواتین کن معمولات میں شریک ہوئیں ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جب جنگ احد میں لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے دور ہو گئے تو میں نے حضرت عائشہ بنت ابی بکر اور حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہم کو دیکھا کہ دونوں نے اپنے دامن سمیٹے ہوئے ہیں ۔ دونوں اپنی پیٹھ پر پانی کی مشکیں لاتیں اور پیاسے مسلمانوں کو پلاتی تھیں ، پھر لوٹ جاتیں اور مشکیزے بھر کر لاتیں اور پیاسے مسلمانوں کو پلاتیں ۔ (صحیح بخاری، کتاب الجھاد والسیر، ۳: ۱۰۵۵، رقم: ۲۷۲۴،چشتی)
حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ سات جہاد کیے ، میں غازیوں کی منزلوں میں ان کے پیچھے رہتی تھی ، ان کےلیے کھانا پکاتی اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھی اور بیماروں کے علاج کا انتظام کرتی تھی ۔ (صحیح مسلم، کتاب الجہاد و السیر، ۳: ۱۴۴۷، رقم: ۱۸۱۲)
اور یہ معمول ظاہری زمانہ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد خلافت راشدہ میں بھی جاری رہا جیسے دور فاروقی میں خواتین پارلیمنٹ (مجلس شوریٰ) کی رکن تھیں ۔ (مصنف عبد الرزاق، ۶: ۱۸۰، رقم: ۱۰۴۲۰،چشتی) ۔ اور سیدنا عثمان غنی ص کے دور میں خواتین کو دوسرے ممالک میں سفیر نام زد کیا گیا ۔ (تاریخ طبری، ۲: ۶۰۱)
اسی طرح تاریخِ اسلام میں بے شمار ایسی خواتین کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے علم التفسیر ، علم الحدیث ، علم الفقہ، علم لغت و نحو ، علم طب ، شاعری ، کتابت ، وغیرہ میں منفرد مقام حاصل کیا ۔ (تفصیل آنے والے مضامین میں ان شاء اللہ)
لہٰذا عورتوں کے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی کا فلسفہ و فکر ہی مزاجاً اسلامی نہیں ۔ یہ کسی علاقے کی روایت و رسم تو ہو سکتی ہے مگر اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔ اب اس اعتراض کا ایک اور انداز سے بھی جائزہ لیں ۔ اگر بالفرض معاشرہ ایسا ہے کہ پردہ کے جملہ لوازمات پورے نہیں ہوتے اور اسلامی پردہ ممکن ہی نہ ہو تو پھر دو احکام کا تقابلی جائزہ لیا جائے گا ۔ پردہ کا حکم قرآن حکیم میں دو مقامات پر آیا ہے اور حصولِ علم کا بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر کم و بیش پانچ سو بار آیا ہے ۔ اب خدانخواستہ حالات ایسے ہیں کہ خواتین کو مکمل شرعی پردے اور تعلیم میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو بھلا کس کا انتخاب کیاجائے گا ؟ ظاہر ہے اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کے تمام تقاضوں کی تکمیل کرتے ہوئے اس حکم کا انتخاب کرنا پڑے گا جس کی اہمیت اللہ تعالیٰ نے زیادہ بیان کی ہے ، نہ کہ اس کی جس کی اہمیت کسی نام نہاد مفکرین کے نزدیک زیادہ ہے ۔ لہٰذا پردہ کا بہانہ بناکر خواتین کی تعلیم پر پابندی لگانا خلافِ اسلام ہے اور قرآن و سنت کی تعلیمات اس کی اجازت ہر گز نہیں دیتیں ۔
فرضیتِ علم کےلیے مرد و خواتین میں کوئی امتیاز اسلام نے قائم نہیں کیا ۔ آخر میں اسی اہم مسئلہ کی طرف فقیر چشتی اہلِ علم کی توجہ مبذول کروانا ضروری سمجھتا ہے کہ حصولِ علم فرض عین ہے اور یہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے ۔ اس امر پر بھی اسلام کے جملہ مسالک و مذاہب متفق ہیں کہ کسی فرض کا صریح انکار کفر ہے ۔ لہٰذا اگر کوئی شخص آج کے دور میں خواتین کی تعلیم کو حرام سمجھتا ہے چاہے اس کی تاویل کوئی بھی کرے تو ایک فرض کا صریح انکار ہے ۔ لہٰذا اس طرح کے بے بنیاد فتوے ، جس سے پوری دنیا میں اسلام کی جگ ہنسائی ہو ، اسلام کے روشن چہرے کو داغ دار کیا جائے اور من گھڑت تصورِ اسلام عام کیا جاتا ہو ، کی بھر پور حوصلہ شکنی ہونی چاہیے اور تمام علماٸے کرام کو اس کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل پر اتفاق کرنا چاہیے تاکہ اسلام کو بدنام کرنے والے اس طرح کے مذموم عناصر کو لگام دی جا سکے ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment