Sunday 13 August 2023

خواتین کا پڑھنا لکھنا قرآن و حدیث کی روشنی میں حصّہ سوم

0 comments

خواتین کا پڑھنا لکھنا قرآن و حدیث کی روشنی میں حصّہ سوم

ابتدائی دورِ اسلام میں پانچ خواتین لکھنا پڑھنا جانتی تھیں ام کلثوم ، عاٸشہ بنت سعد ، مریم بنت مقدار ، ام المٶمنین حضرت عاٸشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہم کو کتابت سکھاتی تھیں تو أپنے فرمایا کہ انہیں خوش خطی بھی سکھاٶ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس توجہات کا نتیجہ تھا کہ تمام اسلامی علوم و فنون مثلاً تفسیر ، حدیث ، فقہ ، فتاوی ، خطابت ، شاعری اور طب و جراحت میں بے شمار صحابیات رضی اللہ عنہن نے کمال حاصل کیا عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد خلفاۓ راشدین رضی اللہ عنہم کے دور میں بھی خواتین کی تعلیم وتربیت کی طرف بھر پور توجہ دی گٸ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنی مملکت کے تمام اطراف میں یہ فرمان جاری کیا کہ (علّموا انسإٶکم) ۔ (سورة النور پ ١٨) اپنی خواتین کو سورة النور ضرور سکھاٶ کہ اسمیں خانگی و معاشرتی زندگی کے متعلق بے شمار مساٸل اور احکام موجود ہیں ۔

افسوس کہ قرأن و سنت کی اتنی تاکید کے باوجود بھی آج ہم لوگ لڑکیوں کی تعلیم کی طرف سے غافل ہیں بعض لوگ کہتے ہیں ہمیں اپنی بچیوں سے نوکری نہیں کرانی ہے یا اپنی بیویوں کی کمائی نہیں کھانی ہے لہٰذا ان کو تھوڑی بہت تعلیم دلانا کافی ہے لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ ایک عورت کو تعلیم دلانا پورے خاندان کو تعلیم دلانا ہے کیوں کہ ماں کی گود ہی بچے کی اولین درسگاہ ہوتی ہے اگر وہ تعلیم یافتہ ہوگی تبھی اپنے بچوں کی صحیح تربیت کرسکے گی بعض لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ اس سے لڑکیاں بگڑ جاتی ہیں لیکن اسکا حل یہ نہیں کہ سرے سے تعلیم ہی نہ دلاٸ جاۓ بلکہ انکی ایسی تربیت کی جاۓ کہ وہ کہیں بھی جاٸیں لیکن وہ تبدیل نہ ہوں اور پھر یہ بھی کہ تعلیم کے بعض شعبوں میں مسلم خواتین کو لامحالہ مرد ڈاکٹروں سے علاج کرانا ہوگا اور نہ چاہتے ہوۓ بھی ان کے سامنے قابل ستر اعضا کھولنے پڑیں گے یہ تو صرف دنیاوی محاذ ہے اگر کسی کو مسائل یعنی حیض و نفاس واستحاضہ تمام طرح کے مساٸل جو عورتوں کیلیے بالخصوص ہو یہ ایسے مساٸل ہیں جس سے ایک عورت اپنے شوہر دیگر حضرات سے پوچھنے میں جھجھک محسوس کرتی ہے اور اپنے معاشرے میں بڑھتی خرابیاں کو روکنے کے بجاۓ اور اسمیں غرق ہوتی چلی جاتی ہیں اور شرمندگی کرتے ہوۓ اپنے اندر مزید خرابی اور گناہوں میں مبتلا ہوجاتیں ہیں اسی طرح پر عاٸلی چیزوں میں عمل پیرا نہ ہونے کی صورت میں وہ گناہگار ہوجاتیں ہیں اگر کسی کا شوہر انتقال ہوجاۓ تو اب ایک غلاموں کی طرح زندگی گزارتی پھرتی ہے لیکن اگر أپ تعلیم یافتہ ہوں گے تو پہلی بات کے آپ کے اندر جوبھی شرمندگی ہوگی آپ اس سے ہم کنار ہو کر اپنی زندگی کی گاڑی بڑھا سکتی ہو ایک تعلیم یافتہ عورت شوہر کے انتقال کے بعد نوکری کے اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی کی گاڑی أسانی سے کھینچ سکتی ہے ۔

خواتین کا اسلامی تعلیمات سے غفلت کا نتیجہ ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی ، مختلف شرک و بدعات ، والدین اور دوسرے لوگوں کے حقوق سے ناواقفیت شوہر کی عدمِ اطاعت ، اس سے غیر ضروری مطالبات کر کے ناک میں دم کرنا اولاد کےلیے جادو ٹونا ایک دوسرے پر لعن طعن غیبت ، فیشن و عریانیت بےحجابی اور فضول رسم و رواج کی مرتب ہوتی ہیں اس کے برعکس ایک تعلیم یافتہ عورت صحیح غلط ، حق و ناحق اور جاٸز و ناجاٸز کی نہ صرف تمیز کرتی ہے بلکہ اپنی زندگی میں آنے والے تمام مساٸل کو خوش اسلوبی سے حل کرتی ہے ۔ اسلامی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معاشرے کی تعمیر و ترقی میں خواتین کا کردار بڑا درخشاں اور مثالی نظر آتاہے ۔ ان کی خدمات ہمہ جہت ہیں ۔ خاص طور سے علوم و فنون کی اشاعت کے میدان میں انہوں نے بہت سرگرمی سے حصہ لیا ہے ۔ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں ان کا یہ کردار بہت نمایاں نظر آتاہے ۔ علم کی نسل در نسل منتقلی میں خواتین نے اہم کردار نبھایا ہے ۔ انہوں نے قرآن کریم حفظ کیاہے اور حفظ کرایاہے ، تجوید اور علم قراء ت میں مہارت حاصل کی ہے اور دوسروں کو یہ فن سکھایا ہے ، اپنے شیوخ سے احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سرمایہ حاصل کیا ہے اور پوری حفاظت کے ساتھ اسے دوسروں تک پہنچایا ہے ، فقہ سے اشتغال رکھا ہے اور اپنے فتاویٰ کے ذریعہ عوام کی رہ نمائی کی ہے ، زہد و تصوف میں شہرت حاصل کی ہے اور وعظ و ارشاد کی محفلیں سجائی ہیں ۔ الغرض علوم و فنون اور خاص طور پر اسلامی علوم کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو خواتین کا مرہونِ منت نہ ہو ۔

فروغِ علم کا ایک اہم ذریعہ یہ ہے کہ تعلیم و تربیت کےلیے مکاتب ، مدارس ، رباطات ، ادارے اور مراکز قائم کیے جائیں ، ان کےلیے اوقاف خاص کیے جائیں ، ان میں تعلیم دینے والوں کےلیے وظائف مقرر کیے جائیں اور تعلیم حاصل کرنے والوں کے مصارف برداشت کیے جائیں ۔ جن لوگوں نے خود کو علمی کاموں کےلیے وقف کر رکھا ہے انہیں معاشی تگ و دور کرنے سے آزاد رکھا جائے ۔ اسلامی تاریخ بتاتی ہے کہ حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والی اور دولت و ثروت سے بہرہ ور خواتین نے ہر دور میں یہ خدمات انجام دی ہیں ۔ یہاں صرف چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں : ⬇

عباسی خلیفہ ہارون رشید (م۱۹۳ھ)کی بیوی زبیدہ بنت جعفر (م ۲۱۶ھ) کو رفاہی کاموں کی انجام دہی کے معاملے میں بہت شہرت حاصل ہے۔ اسے قرآن مجید کی تعلیم سے بہت دل چسپی تھی ۔ ابن خلکان نے لکھاہے کہ اس نے اپنی سو (۱۰۰) باندیوں کو اس کےلیے فارغ کررکھاتھا : کان لھا ماءۃ جاریۃ یحفظن القرآن، ولکل واحدۃ وِرد عُشر القرآن، وکان یسمع في قصرھا کدويّ النحل من قرا ء ۃ القرآن ۔ (وفیات الأعیان، ۳؍۳)
ترجمہ : اس کی سو سے زیادہ باندیاں تھیں ، جو زیادہ تر وقت قرآنِ کریم کی تلاوت اور حفظ میں مشغول رہتی تھیں ۔ ان میں سے ہر ایک قرآن کے دسویں حصہ کی تلاوت کرتی تھی۔ محل میں ان کی آواز شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کے مثل سنائی دیتی تھی ۔

زمرّد خاتون(۵۵۷ھ)، جو دمشق کے حکم راں الملک دقّاق کی بہن تھیں ، انھوں نے ایک مدرسہ قائم کیا تھا، جو المدرسۃ الخاتونیۃ البرانیۃ کے نام سے معروف تھا ۔ [الزرکلی، الاعلام،۳؍۴۹]

عائشہ ہانم ( بارہویں صدی ہجری) نے ۱۱۵۴ھ میں ایک مسافر خانہ تعمیر کرایا تھا جس کو ’ سبیل عائشہ ہانم ‘ کہا جاتا تھا۔ اس کے اوپر انھوں نے قرآن کی تعلیم کےلیے ایک مکتب قائم کیا تھا اور ان دونوں کے مصارف کے لیے بہت سی جائیدادیں وقف کر دی تھیں اور اپنے ورثاء کو ان کا متولّی بنا دیا تھا ۔ [عمر رضا کحالۃ،اعلام النساء،۳؍۱۹۴ ]

یمن کے سلطان الملک المظفر کی بیوی مریم نے زبید میں المدرسۃ المجاھدیۃ قایم کیا، اس میں یتیم اور غریب بچوں اور دیگر طالب علموں کو داخل کیا، اس میں امام، مؤذن اور معلّم کو رکھا اوراس کے مصارف کے لیے وقف کا معقول نظم کیا ۔ [عمر رضا کحالۃ،اعلام النساء،۵؍۴۰]

السیدۃ ملکۃ بنت ابراہیم البعلیۃ الدمشقیۃ نے خواتین کے لیے مخصوص ایک رباط قائم کیا، جس میں قرآن مجید کے حفظ اور حدیث نبوی کی تعلیم کا نظم کیا ۔ [ عمر رضا کحالۃ،اعلام النساء،۲؍۳]

علومِ اسلامیہ کی اشاعت و ترویج کا کام عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم ہی سے شروع ہو گیا تھا اور خواتین نے اس میں سرگرمی سے حصہ لیا تھا ۔ امہات المومنین میں خاص طور پر حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہن نے بڑے پیمانے پر امت کو علمی فیض پہنچایا ہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نہایت ذہین اور غیر معمولی حافظہ کی مالک تھیں ۔ چنانچہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنی ہوئی ہر بات کو اس کی صحیح ترین اور کامل ترین شکل میں یادرکھا اور آپ کے جن اعمال کا مشاہدہ کیا ان کو بھی پوری طرح سمجھ کر اپنے ذہن میں محفوظ رکھا ۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد پچاس(۵۰) برس تک زندہ رہیں اور مسلمانوں کی دونسلوں تک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات کو پہنچانے کا ذریعہ بنیں ۔ وہ ایک قسم کا’ زندہ ٹیپ ریکارڈ‘ بن کر تقریباًنصف صدی تک امت کے حق میں فیض رسانی کا ذریعہ بنی رہیں ۔(امہات المومنین، الرسالہ بک سینٹر، نئی دہلی ۲۰۰۱ء، صفحہ ۹۔۱۰،چشتی)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دوہزار دوسودس(۲۲۱۰) احادیث مروی ہیں ۔ ان سے دو سو ننانوے (۲۹۹) صحابہ وتابعین نے روایت کی ہے ، جن میں سڑسٹھ( ۶۷) خواتین تھیں ۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا شمار فقہائے صحابیات میں ہوتاہے ۔ علامہ ابن قیم جوزی نے لکھاہے کہ اگر ان کے فتاویٰ جمع کیے جائیں تو ایک رسالہ تیار ہو سکتا  ہے ۔ [اعلام الموقعین، ابن قیم، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، ۱۹۹۶ء،۱؍۱۰۔۱۲]
ان سے ایک سو ایک (۱۰۱) صحابہ و تابعین نے روایت کی ہے ، جن میں تیئس (۲۳) خواتین ہیں ۔ احادیث کی روایت میں صحابیات، تابعیات اور بعد کی خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے ۔ یہاں صرف چند مشہور خواتین کا تذکرہ کیا جا رہا ہے : ⬇

سید التابعین حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ عنہ (م۹۴ھ)بڑے علم و فضل کے مالک تھے ۔ ان کے حلقۂ درس سے بے شمار لوگوں نے فائدہ اٹھایا اور ان سے احادیث روایت کیں ۔ ان کی صاحب زادی ’درّۃ‘ نے ان سے مروی تمام احادیث حفظ کرلی تھیں ۔خلیفۂ وقت عبد الملک بن مروان(م۸۶ھ) نے اپنے بیٹے اور ولی عہد ولید کےلیے ان کا رشتہ مانگا ، لیکن ابن المسیب رضی اللہ عنہ نے انکار کردیا اور ان کا نکاح اپنے ایک شاگرد ابن ابی وداعہ سے کر دیا ۔ نکاح کے کچھ روز کے بعد جب شوہر حضرت ابن المسیب کی علمی مجلس میں جانے لگے تو بیوی نے کہا : اجلس أعلّمک علم سعید ۔ یہیں رہیے ۔ (میرے والد )حضرت سعید کے پاس جو علم ہے وہ میں ہی آپ کو دے دوں گی ۔ (ابن الحاج، المدخل، ۱؍۲۱۵،چشتی)(ابن سعد،الطبقات، ۵؍۱۳۸)(ابو نعیم، حلیۃ الاولیاء، ۲؍۱۶۷)

امام مالک بن انسؒ (م۱۷۹ھ)کی صاحب زادی کو پوری مؤطا یاد تھی۔ان کے بارے میں بیان کیاگیاہے کہ وہ اپنے والد کے حلقۂ درس میں دروازے کی اوٹ سے شریک رہتی تھیں ۔ احادیث پڑھنے میں کوئی شخص غلطی کرتا تو وہ دروازہ کھٹکھٹادیاکرتی تھیں ۔ امام مالک سمجھ جاتے اور پڑھنے والے کی اصلاح کردیتے تھے۔[ابن فرحون، الدیباج المذھّب فی أعیان علماء المذھب، ۱؍۸۶]

فاطمہ بنت منذر بن زبیر بن العوام عظیم محدثہ اور فقیہہ تھیں ۔انہوں نے بہت سی احادیث کی روایت کی ہے،خاص طور پر اپنی دادی حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ سے۔ان کی بیش تر روایات ان کے شوہر حضرت ہشام بن عروہ ؒ (م۱۴۶ھ)کے واسطے سے مروی ہیں ۔

نفیسہ بنت الحسن بن زید بن الحسن بن علی بن ابی طالب(م ۲۰۸ھ)،جو امام جعفر صادقؒ کی بہو تھیں ، بڑی صاحبِ علم و فضل خاتون تھیں ۔ وہ ا پنے شوہر اسحاق مؤتمن کے ساتھ مدینہ سے مصر چلی گئیں تو وہاں ان کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ چنانچہ لوگ علم کی پیاس بجھانے کے لیے جوق درجوق ان کے گھر کا رخ کرتے تھے۔ان کے شاگردوں میں سب سے مشہورنام امام شافعیؒ کا ہے، جو ان سے علمی استفادہ کے لیے برابر ان کے گھر تشریف لے جایا کرتے تھے۔ سیدہ نفیسہ حدیث اور تفسیرِ قرآن دونوں کی بڑی عالمہ تھیں ۔ انہیں پورا قرآن حفظ تھا۔ وہ احادیث بھی روایت کرتی تھیں ۔ مورخین نے دونوں میدانوں میں ان کی عظمت ومہارت کا تذکرہ کیاہے۔زرکلی نے لکھاہے: عالمۃ بالتفسیر والحدیث[الزرکلی، الاعلام، ۸؍ ۴۴ ]

’’وہ تفسیر اور حدیث کی عالمہ تھیں ۔‘‘سیدہ نفیسہ کی علمی عظمت کا اعتراف ہی ہے کہ تاریخ میں ان کی شہرت ’نفیسۃ العلم‘ کے نام سے ہے۔

مساجد میں خواتین کے حلقے

آج ہمارے درمیان اس موضوع پر مباحثے جاری ہیں کہ مساجد میں خواتین کا داخلہ جائز ہے یا نہیں ؟جب کہ ابتدائی صدیوں میں خواتین کے علمی دروس کی مجلسیں منعقد ہونا ایک عام بات تھی۔ وہ اپنے گھروں میں ، دوسروں کے گھروں میں ،مسجدوں میں ، مدارس اور رباطات میں ،باغات میں اور دیگر مقامات میں مسندِتدریس پر بیٹھتی تھیں اور ان سے استفادہ کرنے والوں میں مرد اور خواتین دونوں ہوتے تھے۔ اسلام میں تین مسجدوں (مسجدِ حرام، مسجدِ نبوی اور مسجد اقصیٰ) کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ مؤرخین نے صراحت کی ہے کہ ان سب میں خواتین کی علمی مجلسیں منعقد ہوتی تھیں اور وہ باقاعدہ درس دیتی تھیں۔

مسجد حرام میں درس دینے والوں میں ام محمد سارہ بنت عبدالرحمن المقدسیۃ،مسجد نبوی میں درس دینے والی خواتین میں ام الخیر وام محمد فاطمہ بن ابراہیم بن محمود بن جوھر البعلبکی المعروف بالبطائحی،قاضی القضاۃ شیخ تقی الدین سلیمان بن حمزہ کی بیوی زینب بنت نجم الدین اسماعیل المقدسیۃ، ام محمد زینب بنت احمد بن عمر المقدسیۃاورمسجد اقصیٰ میں درس دینے والی خواتین میں ام الدرداء التابعیۃاورام محمد ھدیۃ بنت علی بن عسکر البغدادی (۸ ؍ ویں صدی ہجری) شہرت رکھتی ہیں۔

اسلامی تاریخ میں دمشق کی مسجد اموی کی بھی غیر معمولی اہمیت ہے۔ اس میں بھی خواتین کی درس وتدریس کی مجلسیں قائم ہوتی تھیں ۔ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامے میں لکھاہے کہ اس نے مسجدِ اموی کی زیارت کی اور وہاں متعدد خواتین، مثلاً زینب بنت احمد بن ابراہیم اور عائشہ بنت محمد بن مسلم الحرّانیۃ سے حدیث کی سماعت کی۔

خواتین اکابرِ امت کی معلّمات

اسلام کے دورِ عروج میں خواتین کے افادہ کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ان سے دیگر خواتین بھی استفادہ کرتی تھیں اور مرد بھی فیض اٹھانے میں پیچھے نہیں رہتے تھے۔ اس پر نہ صحابہ اور تابعین نے نکیر کی اور نہ بعد کی صدیوں میں محدثین اور فقہاء نے کبھی اس پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کی۔ خواتین کے فخر کے لیے یہ بات کافی ہے کہ ان کی مجلسوں میں بڑے بڑے علماء و فقہاء و محدثین حاضر ہوتے تھے اور ان سے استفادہ کرتے تھے۔ یہاں تاریخِ اسلام کی چند اہم شخصیات اور ان کی معلّمات کا تذکرہ کیا جاتا ہے :

امام ذہبی علیہ الرحمہ (م۷۴۸ھ) نے اپنی کتاب’ معجم شیوخ الذھبی‘ میں ،اسی طرح علامہ ابن حجرؒ (م۸۵۲ھ) نے اپنی کتاب’ المعجم المؤسس للمعجم المفہرس‘ میں اپنی بہت سے معلّمات اور شیخات کا ذکر کیاہے۔انہوں نے الدرر الکامنۃ في أعیان الماءۃ الثامنۃاور انباء الغمر فی أنباء العمر میں بہت سی خواتین کا تذکرہ کیاہے۔ان کے شاگرد علامہ سخاویؒ (م۹۰۲ھ)نے اپنی کتاب الضوء اللامع لأھل القرن التاسع کی ایک جلد خواتین کے لیے خاص کی ہے۔ انہوں نے ایک ہزار ستّر(۱۰۷۰)خواتین کا تذکرہ کیاہے، جن میں سے زیادہ تر محدثات و فقیہات تھیں ۔ علامہ جلال الدین سیوطیؒ (م ۹۱۱ھ)نے متعدد خواتین سے علم حاصل کیا۔ مثلاً ام ہانی بنت الھووینی، ام الفضل بنت محمد المقدسی، خدیجہ بنت ابی الحسن المقن،نشوان بنت عبداللہ الکنانی،ھاجر بنت محمد المصریۃ، امۃ الخالق بنت عبداللطیف العقبی وغیرہ۔ انہوں نے اپنی معجم اور دیگر مؤلفات میں ان کا تذکرہ کیا ہے اور ان کی روایات بیان کی ہیں ۔علامہ ابن حزمؒ (م۴۵۶ھ) کی تعلیم وتربیت میں متعدد خواتین کا اہم کردار ہے، جنہوں نے انہیں قرآن کریم کی تعلیم دی،لکھنا پڑھنا سکھایا اور ان میں شعری ذوق پیداکیا۔ اس کا ابن حزمؒ نے برملا اعتراف کیاہے۔خطیب بغدادیؒ (م۴۶۳)نے طاہرہ بنت احمد بن یوسف التنوخیہ سے سماعت کی، جو بڑی محدثہ اور فقیہہ تھیں ۔ جلیلۃ بنت علی بن الحسن الشجری نے عراق اور شام کا سفر کیا توعلامہ سمعانیؒ (م۵۶۲ھ)اور دیگر علمائے کبار نے ان سے فیض اٹھایا۔ابوعمر ومسلم بن ابراہیم الازدی الفراھیدیؒ (م ۲۲۲ھ) نے ستّر(۷۰) خواتین سے روایت کی ہے۔اس طرح ابوالولیدہشام بن عبدالملک الطیالسیؒ (م۲۲۷ھ) کے شیوخ میں بھی ستّر(۷۰) خواتین کا نام ملتاہے۔ حافظ ابن عساکرؒ (م۵۷۱ھ) نے جن خواتین سے استفادہ کیا اور ان سے احادیث روایت کیں ان کی تعداد اسّی(۸۰)سے متجاوز ہے۔ ابوعبداللہ محمد بن محمود بن النجارؒ (م ۶۴۳ھ)کے اساتذہ اور شیوخ میں تین ہزار (۳۰۰۰) مرد اور چار سو(۴۰۰) خواتین تھیں ۔ حافظ ابن حجر ؒ نے تقریب التہذیب میں تیسری صدی ہجری کے اوائل تک آٹھ سو چوبیس(۸۲۴) خواتین کے نام ذکر کیے ہیں ، جنھیں روایتِ حدیث میں شہرت حاصل تھی۔ علم حدیث کی اشاعت و ترویج کے میدان میں زمانہ کے اعتبار سے بھی کتابیں لکھی گئی ہیں ، مقام کے اعتبار سے بھی اور عمومی انداز میں بھی۔[ مثلاً ملاحظہ کیجیے: آمال قرداش بنت الحسین، دور المرأۃ فی خدمۃ الحدیث فی القرون الثلاثہ الاولیٰ، وزارۃ الاوقاف، الدوحۃ ،۱۴۲۰ھ، صالح یوسف معتوق، جہود المرأۃ فی روایۃ الحدیث ( القرن الثامن الھجری)، دار البشائر الاسلامیۃ، بیروت، الدکتور محمد بن عزوز،جھود المرأۃ الدمشقیۃ فی روایۃ الحدیث الشریف،الشیخ مسھور حسن سلمان، عنایۃ النساء بالحدیث النبوی، عالیۃ عبد اللہ محمد بالطو، الاستاذۃ المساعدۃ بکلیۃ اعداد المعلّمات بمکۃ المکرمۃ، تراجم المحدثات من التابعیات و مرویاتھن فی الکتب الستۃ: جمع و دراسۃ و تعلیق،(رسالۃ ماجستیر) ۔

علمِ حدیث کے علاوہ اسلامیات کے دیگر میدانوں ، مثلاً تفسیرِ قرآن، علم قراء ت اور فقہ میں بھی خواتین کی عظمت مسلّم تھی۔ مشہور تابعیہ حضرت ام الدرداء الصغریٰ، جن کا نام ھجیمۃ بنت حیی الاوصابیۃ تھا، انہیں علم قراء ت میں مہارت حاصل تھی۔[ ابن الجزری المقری، غایۃ النہایۃ فی طبقات القرّاء )فاطمہ نیشاپوریہ(چوتھی صدی ہجری) حافظۂ قرآن، عالمہ، مفسّرہ، اور فقیہہ کی حیثیت سے مشہور ہوئیں ۔ انھیں علمِ قراء ت میں بھی کمال حاصل تھا۔ حج کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لے گئیں تو وہاں درس دینا شروع کیا۔ رفتہ رفتہ ان کا حلقۂ درس وسیع ہوتا گیا اور ان کی شہرت دور دراز علاقوں تک پہنچ گئی۔ اسی وجہ سے انھیں ’ مفسّرہ فاطمہ نیشاپوریہ ‘ کہا جاتا تھا۔[عمر رضا کحالۃ،أعلام النساء،۴؍۱۴۷۔۱۴۸ ]ام العز بنت محمد بن علی بن ابی غالب العبدری الدانی(۶۱۰ھ) کو قراء اتِ سبعہ میں مہارت حاصل تھی۔ [عمر رضا کحالۃ،أعلام النساء،۳؍۲۶۹ ]خدیجۃ بنت ہارون (م۶۹۵ھ) عمدہ قاریہ تھیں ۔ ان کو قراء اتِ سبعہ میں مہارت حاصل تھی۔ فنِ قراء ت کی کتاب ’الشاطبیۃ‘ انہیں پوری ازبر تھی۔ [عمر رضا کحالۃ،أعلام النساء،۱؍۳۴۵ ] خدیجۃ بنت قیم البغدادیۃ(م۶۹۹ھ) قرآن مجید کی بہت عمدہ قاریہ تھیں۔ بہت سے لوگوں نے ان سے تجوید اور قراء ت کا علم حاصل کیا تھا۔ وعظ و ارشاد کی مجلسیں منعقد کرتی تھیں، جن میں لوگ بڑی تعداد میں سریک ہوتے تھے۔ [عمر رضا کحالۃ،أعلام النساء،۱؍۳۳۹ ]سلمیٰ بنت محمد الجزری( نویں صدی ہجری) اپنے وقت کی مشہور قاریہ تھیں ۔ دس(۱۰) قراء توں کے ساتھ قرآن پڑھتی تھیں ۔[ بدوی خلیل، شھیرات النساء،ص۱۴۵ ] فاطمہ بنت محمد بن یوسف بن احمد بن محمد الدیروطی (نویں صدی ہجری) بڑی عالمہ و فاضلہ خاتون تھیں۔ انھیں علمِ قراء ت میں مہارت حاصل تھی۔ ان سے عورتوں اورمردوں کی ایک بڑی جماعت نے استفادہ کیا۔[عمر رضا کحالۃ،أعلام النساء،۴؍۱۴۱،چشتی]امۃ الواحد بنت الحسین بن اسماعیل(م ۳۷۷ھ)فقہ شافعی میں غیر معمولی درک رکھتی تھیں۔ اس کے علاوہ علم الفرائض، حساب اور نحو کی بھی ماہر تھیں ۔ حدیث کی بھی روایت کرتی تھیں ۔ فاطمہ البغدادیۃ کو فقہ حنبلی کے تمام اصول و فروع میں خوب مہارت حاصل تھی۔ انہیں علامہ ابن قدامہؒ المقدسی کی کتاب المغنيپوری ازبر تھی۔ ان سے فقہ حنبلی کے بارے میں کوئی سوال کیاجاتاتو اس کا نصوص کی روشنی میں جواب دیتی تھیں۔ انہوں نے فقہ کی تعلیم علامہ ابن تیمیہؒ (م۷۲۸ھ) سے حاصل کی تھی۔[ابن رجب، الذیل علی طبقات الحنابلۃ، ۴؍۴۶۷]ست الوزراء (م۶۳۷ھ) کو فقہ حنفی میں مہارت حاصل تھی۔ انھوں نے امام ابو حنیفہ ؒ (م ۱۵۰ھ)کی فقہ کا زیادہ تر حصہ یاد کر رکھا تھا ۔ [عمر رضا کحالۃ،أعلام النساء،۲؍۱۷۴]

علمِ حدیث کے میدان میں خواتین کے شرف اور فخر کے لیے یہ بات کافی ہے کہ جہاں احادیث کی روایت کرنے والے مردوں کی بڑی تعداد کو متّہم کیاگیا ہے، ان پر وضعِ حدیث کا الزام لگایا گیا ہے اور ضعف کی وجہ سے ان کی روایات قبول نہیں کی گئی ہیں ، وہاں ایک عورت بھی ایسی نہیں پائی گئی جو اس ’عیب‘ سے داغ دار ہو۔ امام الجرح والتعدیل علامہ شمس الدین ذہبیؒ (م۷۴۸ھ) نے صاف الفاظ میں اس کی شہادت دی ہے ۔ انہوں نے لکھا ہے : وما علمت فی النساء من اتّھمت، ولامن ترکوھا ۔ (ذہبی،میزان الاعتدال، ۴؍۶۰۴،چشتی) ’’ مجھے نہیں معلوم کہ روایتِ حدیث میں ایک بھی عورت متّہم ہوئی ہو اور نہ محدثین نے ضعف کی وجہ سے کسی ایک عورت کو ترک کیاہے ۔

تاریخِ اسلام میں ایسی بھی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ کتاب و سنت کے فہم اور علوم اسلامیہ کی نشر و اشاعت میں خواتین کا کردار مردوں سے بڑھ کررہا ہے۔ اس طرح انھوں نے عملی طور پر ثابت کردیا ہے کہ عورتوں کے ’ناقص العقل‘ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے اندفہم و استنباط اور ابلاغ و ترسیل کی صلاحیتیں مردوں سے کم تر ہوتی ہیں ۔ یہاں چند ایسی ممتاز خواتین کا تذکرہ دل چسپی سے خالی نہ ہوگا : ⬇

مشہور تابعیہ حضرت حفصہ بنت سیرینؒ (۱۰۱ھ)بلند پایہ کی محدثہ تھیں ۔ فہمِ قرآن میں بھی ان کا مقام بہت اعلیٰ تھا۔ علم قرا ء ت میں ان کو اس قدر مہارت حاصل تھی کہ جب ان کے بھائی محمد بن سیرینؒ کو کوئی مشکل پیش آتی تو فرماتے:’’حفصہ سے پوچھو کہ وہ کیسے پڑھتی ہیں ؟‘‘

شیخہ صالحہ(چھٹی صدی ہجری)، عبدالواحد بن محمد بن علی بن احمد الشیرازی(جو ابوالفرج کے لقب سے مشہورتھے)کی صاحب زادی اور زین الدین علی بن ابراہیم بن نجا(جو ابن النجیّہ کے نام سے معروف تھے)کی والدہ تھیں ۔شیخ ابوالفرج اپنے وقت میں شام کے مشہور شیخ اور فقہ حنبلی کے امام تھے۔ فقہ میں ان کی متعدد تصانیف ہیں ۔انہوں نے کتاب الجواھر کے نام سے تیس(۳۰)جلدوں میں ایک تفسیر لکھی تھی۔ ان کی صاحب زادی نے وہ پوری تفسیر یادکرلی تھی۔ زین الدین بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے ماموں سے تفسیر پڑھتاتھا۔ جب میں اپنی والدہ کے پاس آتا تو وہ مجھ سے دریافت کرتیں کہ آج تمہارے ماموں نے کس سورہ کی تفسیر بیان کی؟اور انہوں نے کیا کیا باتیں بتائیں ؟جب میں ان سے بتاتا تو وہ پوچھتیں کہ فلاں سورہ کی تفسیر میں انہوں نے فلاں بات بتائی کہ نہیں ؟میں جواب دیتا : نہیں ، تو وہ فرماتیں :تمہارے ماموں نے فلاں آیت کی تفسیر میں فلاں فلاں باتیں چھوڑ دی ہیں ۔ [زین الدین ابوالفرج البغدادی ، کتاب الذیل علی طبقات الحنابلۃ لابن رجب، مطبعۃ السنۃ المحمدیۃ القاہرۃ، ۱۹۵۳، ۱؍۴۴۰،چشتی]

فاطمہ بنت محمد بن احمد السمرقندی (م ۵۸۱ھ) فقہ حنفی میں بہت شہرت رکھتی تھیں ۔ ان کے والد مشہور محدث اور فقیہ تھے۔ فاطمہ نے ان سے فقہ کی تعلیم حاصل کی اور اس میں کمال پیداکیا۔ انہیں اپنے والد کی کتاب تحفۃ الفقہاء پوری ازبر تھی۔ فقہ میں ا ن کی مہارت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ ان کے والد کے پاس کوئی استفتا آتا تو وہ اپنی صاحب زادی سے مشورہ کرتے تھے،پھر وہ جواب تیار کرتیں اور اس پر باپ اور بیٹی دونوں کے دستخط ہوتے۔ فاطمہ کا نکاح ان کے والد نے اپنے عزیز شاگرد علاؤ الدین ابوبکر بن مسعود الکاسانی سے کردیا تھا۔ کاسانی کو ان کی تصنیف بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع کی وجہ سے علمی دنیا میں بہت شہرت حاصل ہوئی۔ فاطمہ کا علمی فیض نکاح کے بعد بھی جاری رہا۔وہ اپنے گھر میں درس کے حلقے لگاتی تھیں ۔ان سے بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے استفادہ کیا۔شیخ کا سانی بہت بڑے فقیہ تھے۔ ان کا لقب’ملک العلماء‘ تھا، لیکن ان کی بیوی فاطمہ ان سے بڑھ کر تھیں ۔ سوانح نگاروں نے لکھاہے : انھا کانت تنقل المذھب نقلا جیداً، وکان زوجھا الکاسانی ربّما یھم في الفتویٰ فتردّہ الی الصواب، وتعرّفہ وجہ الخطأ، فیرجع الی قولھا۔
’’وہ (حنفی)مسلک کی بہت اچھی طرح ترجمانی کرتی تھیں ۔ان کے شوہر کا سانی کو بسااوقات کوئی مسئلہ بیان کرتے ہوئے وہم ہوجاتاتو فاطمہ اس کی تصحیح کردیتی تھیں اور انہوں نے کیا غلطی کی ہے؟ یہ بھی بتادیتی تھیں ۔ چنانچہ کاسانی ان کی تصحیح کوقبول کرلیتے تھے ۔ [فاطمہ السمرقندیہ کے حالات کے لیے ملاحظہ کیجئے: ابن ابی الوفاء القرشی، الجواھر المضیءۃ فی طبقات الحنفیۃ،۴؍۱۲۲۔۱۲۴،زینب بنت علی العاملی،الدرّ المنثور فی طبقات ربّات الحذور، ص ۳۶۷، ابن قطلوبغا،تاج التراجم، ص ۲۵۲، ۳۲۷۔ ۳۲۸، عمر رضاکحالۃ،اعلام النساء، ۴؍۹۴۔۹۵، طاش کبری زادہ، مفتاح السعادۃ،، ۲؍۲۴۷۔ ۲۴۸،محمد خیررمضان یوسف، المؤلفات من النساء،ص۸۴۔۸۶]

علمِ حدیث کے میدان میں شیخ ابوالحجاج جمال الدین یوسف المزّی (م ۷۴۲ھ)کی خدمات سے اسلامیات سے دل چسپی رکھنے والا ہر طالب علم اچھی طرح واقف ہے۔ خاص طور سے فن اسماء الرجال میں انہیں یدِطولیٰ حاصل تھا۔ ان کی تصانیف : تہذیب الکمال في أسماء الرجال، تحفۃ الأشراف بمعرفۃ الأطراف اور المنتقی من الفوائد الحسان فی الحدیث اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں ۔شیخ مزی کو جتنی مہارت اور شہرت علم حدیث اور رجال کے میدان میں تھی، اتنی ہی، بلکہ اس سے زیادہ مہارت اور شہرت سے ان کی زوجہ عائشہ بنت ابراہیم بن صدیق (جو ام فاطمہ کے لقب سے مشہور تھیں )علم تجوید و قراء تِ قرآن کے میدان میں بہرہ ور تھیں ۔ وہ بہترین قاریہ تھیں ۔۷۴۱ھ میں اسّی(۸۰)برس کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔ نصف صدی سے زائد عرصہ انہوں نے قرآن کی تعلیم و تدریس میں گزارا اور ہزاروں مردوں اور عورتوں نے ان سے استفادہ کیا۔ ان سے یہ فن سیکھنے والوں میں ان کی صاحب زادی امۃ الرحیم زینب بھی تھیں ،جو مشہور مفسر، محدث اور مؤرخ علامہ ابن کثیر الدمشقی (م۷۷۴ھ) کی زوجہ تھیں ۔ ابن کثیرؒ جہاں شیخ مزّی کے مشہور تلامذہ میں سے ہیں ، وہیں انہوں نے اپنی خوش دامن صاحبہ سے بھی علمی استفادہ کیاتھا۔ ابن کثیرؒ نے ان کا تذکرہ بڑے اچھے انداز میں کیاہے : اپنے زمانے کی عورتوں میں کثرتِ عبادت، تلاوتِ قرآن اور فصاحت و بلاغت اور صحیح ادا کے ساتھ قرآن پڑھانے کے معاملے میں کوئی دوسرا ان کا ہم سر نہ تھا۔ انہوں نے بہت سی عورتوں کا قرآن ختم کروایا اور بے شمار عورتوں نے ان سے قرآن پڑھا ۔
ان کے بارے میں ابن کثیرؒ کے اس جملے نے تو چونکا دیا : ان کی طرح کی قراء ت کرنے سے بہت سے مرد حضرات عاجز تھے ۔ (ابن کثیر، البدایۃ والنھایۃ،دا ر احیاء التراث العربی، ۱۹۸۸ء،۲۱؍۱۱۳،چشتی)

البتہ جہاں تک علومِ اسلامیہ میں تصنیف و تالیف کا معاملہ ہے ، اس سلسلے میں خواتین بہت پیچھے رہی ہیں ۔ شیخ محمد خیر رمضان یوسف نے تذکرہ و تراجم کی کتابوں میں بہت غائرانہ انداز سے تفتیش و تفحّص کے بعد اپنی کتاب المؤلِّفات من النساء ومؤلَّفاتھن في التاریخ الاسلاميمیں ۱۲۰۰ھ تک چھتیس (۳۶) مؤلِّفات کا تذکرہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ ان کی کتابوں کی تعداد عربی زبان میں سو (۱۰۰) سے زیادہ نہ ہوگی ۔ [محمد خیر رمضان یوسف، المؤلفات من النساء ومؤلفاتھن فی التاریخ الاسلامی،دارابن حزم بیروت، ۲۰۰۲ء، ص ۵۔۶]
انہوں نے اس موضوع پر بھی اظہارِ خیال کیاہے کہ خواتین کی جانب سے تصنیف و تالیف میں کمی کے اسباب کیاہیں ؟ انہوں نے تین اسباب بیان کیے ہیں : ⬇

۱۔ تصنیف وتالیف ذہنی سکون واطمینان اور کسی حدتک فرصت وفراغت کا تقاضا کرتی ہے،جب کہ خواتین اپنی فطری مصروفیات، مثلاً حمل، ولادت، رضاعت، بچوں کی پرورش اور گھریلو کاموں میں مصروفیت وغیرہ کی وجہ سے بیش تر اوقات اس سے عموماً محروم رہتی ہیں۔

۲۔ خواتین کی رغبت عموماً تحریر وتصنیف کے مقابلے میں کہنے سننے کی طرف زیادہ رہتی ہے۔اسی لیے ان کی صلاحیتوں کا اظہار شاعری، ادب، لغت اور انسانی و وجدانی علوم میں دیگر میدانوں کے مقابلے میں زیادہ ہواہے۔ علم حدیث کی بنیاد سماع وروایت پر ہے، اس کے لیے تحریر شرط نہیں ہے، اسی لیے اس میں خواتین کی صلاحیتوں کا غیر معمولی اظہار ہواہے اور ہزاروں کی تعداد میں محدّثات پیداہوئی ہیں۔

۳۔ خواتین کی بہت سی تصنیفات، جو ایک عرصہ تک امت کے درمیان متداول تھیں ، حوادثِ زمانہ کی نذر ہوگئیں اور مورخین اور تذکرہ وتراجم کی کتابیں تالیف کرنے و الوں نے ان صاحبِ تصنیف خواتین کے حالات لکھنے سے تغافل برتا۔اس لیے کہ عموماً پردہ نشیں خواتین کے حالات جمع کرنے میں بہت دشواریاں تھیں ۔[محمد خیر رمضان یوسف، المؤلفات من النساء ص۱۳۔۱۵)

یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ گزشتہ دو صدیوں میں تعلیمِ نسواں کو فروغ ملا ہے اور خواتین کے لیے تحصیلِ علم کے مواقع بڑھے ہیں۔ دینی و عصری تعلیم کے مراکز، مدارس اور جامعات قائم ہوئے ہیں ، جن میں طالبات کو داخلہ ملا ہے اور ان کےلیے مخصوص درس گاہیں بھی قائم کی گئی ہیں ۔اس طرح خواتین کو اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور اپنے جوہر دکھانے کے لیے وسیع میدان ہاتھ آیا ہے، زیورِ علم سے آراستہ ہوکر انھوں نے درس و تدریس کا کام بھی سنبھالا ہے، اس طرح ان کا علمی فیض عام ہوا ہے اور امت کو ان سے فائدہ پہنچا ہے ۔

قرآنیات اور سیرت نگاری کے میدان میں بیسویں صدی کی خواتین میں ڈاکٹر عائشہ عبدالرحمن بنت الشاطی (۱۹۱۳۔۱۹۹۸ء)کا نام بہت نمایاں ہے۔انہوں نے عربی زبان وادب کی اعلیٰ تعلیم قاہرہ یونی ورسٹی سے حاصل کی، پھر مختلف ممالک میں تدریسی خدمت انجام دیں ، لیکن پھر ان کا رجحان قرآنیات کی طرف ہوا۔ وہ جامعۃ القرویین مراکش میں شعبۂ تفسیر میں پرفیسر رہی ہیں ۔ وہ پہلی خاتون ہیں جس کے جامع ازہر میں لیکچر ہوئے۔ انہیں بہت سے ایوارڈز سے نوازا گیا، جن میں سے ایک عالم اسلام کا اعلیٰ اعزاز کا شاہ فیصل ایوارڈ ہے، جو انہیں ۱۹۹۴ء میں اسلامیات اور خاص طور پر قرآنیات کے میدان میں اعلیٰ خدمات انجام دینے پر دیاگیا۔ بنت الشاطی کی تصانیف کی تعداد چالیس (۴۰) سے زائد ہے ۔ خاندانِ نبوت کی خواتین پر ان کی تیار کردہ سیریز میں أمّ النبي، نساء النبي،بنات النبي اور زینب بطلۃ کربلا شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ قرآنیات پر ان کی تصانیف میں التفسیر البیاني للقرآن الکریم، الاعجاز البیاني للقرآن الکریم، القرآن والتفسیر العصري اور مقال في الانسان اہمیت رکھتی ہیں ۔تفسیرِ قرآن میں ان کا ایک خاص منہج ہے، وہ یہ کہ جس موضوع پر مطالعہ مقصود ہو اس سے متعلق قرآن کی تمام آیات جمع کرلی جائیں ،پھر ان پر غور وفکر کیاجائے تو اس سے نئے نئے معانی مستنبط ہوتے ہیں ۔علومِ قرآن اور اصولِ تفسیر سے متعلق ان کی اور بھی آراء ہیں ، جو ان کی کتابوں میں مذکور ہیں ۔ انہوں نے اعتراف کیاہے کہ یہ منہجِ تفسیر انہوں نے اپنے استاذ شیخ امین الخولی (۱۸۹۵۔۱۹۶۶ء) جو ان کے شوہر بھی تھے ، سے حاصل کیا ہے ۔

برِّ صغیر ہند میں بھی علومِ اسلامیہ کے فروغ میں خواتین کی زرّیں خدمات ہیں ۔ انھوں نے اشاعتِ علم کی سرپرستی کی ہے اور اعلیٰ معیار کے علمی کام انجام دیے ہیں ۔

مغل حکمران اورنگ زیب ( م ۱۱۱۸ھ )کی صاحب زادی زیب النساء نے شیخ صفی الدین ولی قزوینی سے قرآن مجید کا فارسی زبان میں ترجمہ کروایا تھا۔ ساتھ ہی امام رازی (م ۶۰۶ھ) کی تفسیر کبیر کا بھی فارسی ترجمہ کروایا تھا ۔ [ڈاکٹر علاؤ الدین خاں ، عہد اورنگ زیب میں علماء کی خدمات،ص۱۷۳۔۱۷۴،ڈاکٹر ظفر الاسلام، مقالہ: عہد وسطیٰ کے ہندوستان کی فارسی تفسیریں ۔ ایک تعارفی مطالعہ، سہ ماہی علوم القرآن، علی گڑھ، جولائی۔ دسمبر ۱۹۸۵ء،ص۱۳۳]

گزشتہ صدی کے اوائل سے لڑکیوں کی تعلیم کا رجحان بڑھا، ان کے لیے مخصوص تعلیمی ادارے قائم ہوئے اور عصری جامعات میں بھی انھیں داخلہ کے مواقع ملے تو ان کی علمی صلاحیتوں کو جلا ملی اور انھوں نے اسلامیات کے مختلف میدانوں میں ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات تحریر کیے۔ یہ مقالات علوم اسلامیہ کے تمام موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں ۔ ان سے خواتین کے تخلیقی کمالات کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان میں قدیم و جدید مفسرین کے مناہجِ تفسیر کا تعارف کرایا گیا اور ان کا تجزیاتی و تنقیدی مطالعہ کیا ہے، سماجی، معاشی اور سیاسی موضوعات پر قرآن و حدیث کی روشنی میں بحث کی گئی ہے،سیرتِ نبوی کے مختلف پہلوؤں پر عصر حاضر کے تناظر میں تحقیق کی گئی ہے، نئے پیش آمدہ سماجی اور فقہی مسائل کا جائزہ لیا گیا ہے اور مقاصدِ شریعت کی روشنی میں ان کا حل پیش کیا گیا ہے۔

عصری جامعات کا قیام عرب اور مسلم ممالک میں بڑے پیمانے پر ہوا ہے۔ ان میں سے بعض مخلوط تعلیم فراہم کرتی ہیں۔ ان میں طلبہ کے ساتھ طالبات داخلہ لے کر تعلیم حاصل کرتی ہیں اور بعض تعلیمِ نسواں کے لیے خاص ہیں ۔ ان اداروں میں طالبات کے ذریعے اسلامیات پر خاصا کام ہوا ہے اور بڑی تعداد میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کے مقالے تیار ہوئے ہیں ۔ بر صغیر ہند وپاک میں بھی طالبات میں اعلیٰ تعلیم کے تحصیل کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور وہ عصری جامعات میں داخلہ لے کر ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کر رہی ہیں ۔ پاکستان اور ہندوستان دونوں جگہوں پر عصری جامعات میں دینیات (Theology) اور اسلامیات (Islamic Studies) کی فیکلٹیز قائم ہوئی ہیں اور ان کے تحت قرآن، حدیث، سیرت، اسلامی تاریخ اور دیگر مضامین کے الگ الگ شعبے قائم ہوئے ہیں اور ان کے تحت طالبات نے تحقیقی مقالات لکھے ہیں ۔ خاص طور سے پاکستان کی عصری جامعات میں طالبات کے ذریعہ علوم اسلامیہ پر خاصا کام ہوا ہے ۔جناب محمد عاصم شہباز نے پاکستان کی بیس (۲۰) جامعات میں اسلامیات میں کی گئی پی ایچ ڈیز کی فہرست تیار کی ہے ۔ اس کے مطابق کل آٹھ سو سڑسٹھ (۸۶۷) میں سے ایک سو تیرہ (۱۱۳)مقالات خواتین کے ہیں ۔] کسی قدر کام ہندوستان میں بھی ہو رہا ہے۔ لیکن افسوس کہ ان تحقیقی مقالات میں سے صرف چند ہی زیورِ طبع سے آراستہ ہو سکے ہیں ۔ اس بنا پر عصری جامعات میں خواتین کے ذریعہ انجام پانے والے علمی کاموں کا نہ کما حقّہ تعارف ہو سکا ہے اور نہ ان سے استفادہ کی کوئی سبیل نکل سکی ہے ۔

آج اسلام پر چہار جانب سے فکری یلغار ہے ۔ پہلے شمشیر و سناں اور توپ و تفنگ سے حملے کیے جاتے تھے اور طاقت کے زور سے علاقوں پر قبضہ کیا جاتا اور انسانوں کو غلام بنا لیا جاتا تھا ۔ آج باطل افکار کے ذریعہ عقلوں پر قبضہ کیا جا تا اور ذہنوں کو غلام بنایا جاتا ہے ۔ آج اسلام پر طرح طرح کے اعتراضات کیے جا رہے ہیں ۔ اس پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اس کا نظامِ خاندان زد پر ہے اور اس میں عورتوں کے حقوق کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ اس کے نظامِ سیاست کو موردِ الزام ٹھہرایا جا رہا ہے ۔ غرض مختلف پہلوؤں سے اسلام کو مطعون کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ باطل کا مقابلہ اسی کے ہتھیاروں سے کیا جائے اور اس کے اعتراضات کا جواب اسی کے اسلوب و انداز اور معیار کے مطابق دیا جائے ۔ صدرِ اسلام میں خواتین نے اسلام اور پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دفاع میں اہم خدمات انجام دی ہیں اور غیر معمولی قربانیاں پیش کی ہیں ۔ آج بھی وہ علم و تحقیق کے میدان میں اپنی خدمات پیش کر سکتی ہیں اور دفاعِ اسلام کا فریضہ بہ حسن و خوبی انجام دے سکتی ہیں ۔

آج عالمی سطح پر خود نام نہاد مسلم خواتین کا ایک ایسا گروپ تیار ہو گیا ہے جو اسلامی مسلّمات و اقدار پر حملے کرنے میں پیش پیش ہے ۔ وہ مردوں اور عورتوں کے درمیان ہر سطح پر ہر اعتبار سے مساوات چاہتا ہے ۔ یہ خواتین کہتی ہیں کہ قرآن معاشرے میں ،،رجالی تسلّط،، کا علم بردار ہے ۔ اسلام کے نظامِ خاندان پر ان کا اعتراض یہ ہے کہ اس میں خواتین کو دبا کر رکھا گیا ہے اور انہیں بہت سے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے ۔ اس صورتِ حال میں ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ علم و تحقیق سے لیس ایسی مسلم خواتین سامنے آئیں جو نسائی مباحث و مسائل کی درست تشریح کریں ۔ وہ واضح کریں کہ عمل اور اس کے اجر میں اسلام نے مردوں اور عورتوں کے درمیان مساوات رکھی ہے، لیکن نظامِ خاندان میں اس نے دونوں کا دائرہ کار الگ الگ رکھا ہے ۔ اسلام میں حقوقِ نسواں کی درست تعبیر و تشریح وقت کی ضرورت ہے ۔ اس ضرورت کو مسلم خواتین بہ حسن و خوبی پورا کر سکتی ہیں ۔

تحقیق کی دو صورتیں عام طور پر رائج ہیں : ⬇

ایک یہ کہ کسی مخطوطے کے چند نسخے حاصل کر لیے جائیں اور ان کا موازنہ کرتے ہوئے اس مخطوطے کو ایڈٹ کر دیا جائے۔ کسی نسخے میں کون سا لفظ چھوٹ گیا ہے؟ کس نسخے کی عبارت میں تھوڑا سا فرق ہے ؟ اور داخلی شہادتوں کی روشنی میں کون سا نسخہ سب سے زیادہ معبتر ہے ؟ ان چیزوں کی وضاحت کر دی جائے ۔ عالمِ عرب میں اس طرز کا کام بڑے پیمانے پر ہوا ہے ۔ اس طرح قدیم مصادر و مراجع کے نئے تحقیقی اڈیشن منظرِ عام پر آئے ہیں ۔

تحقیق کی دوسری صورت یہ ہے کہ کسی شخصیت کو لے کر اس کے حالاتِ زندگی بیان کر دیے جائیں اور اس کی علمی ، دینی یا رفاہی خدمات کا تعارف کرا دیا جائے ، یا کسی مصنف کی کتابوں کا تعارف کراتے ہوئے اس کے منہجِ تالیف سے بحث کی جائے ، یا کسی دور کو متعین کر کے اس میں ہونے والے کاموں کا تجزیہ کیا جائے اور اس دور کی اہم شخصیات کا تذکرہ کر دیا جائے ۔ تحقیق کی یہ دونوں صورتیں افادیت رکھتی ہیں اور ان کے مطابق بڑے پیمانے پر کام ہوا ہے اور ہو رہا ہے ، فقیر چشتی کے خیال میں تحقیق کی اعلیٰ صورت یہ ہے کہ فکری موضوعات پر کام کیا جائے اور ایسے مباحث اٹھائے جائیں جن میں معاشرے کو درپیش نت نئے مسائل کا حل پیش کیا گیا ہو ۔

واقعہ یہ ہے کہ اسلامی علوم میں خواتین کی خدمات کا کما حقہ تعارف اب تک نہیں کرایا جا سکا ہے اور نہ ان کے بارے میں عموماً لوگوں کو کچھ معلومات ہیں ۔ تذکرہ و تراجم کی کتابیں بھی ان کے ذکر سے تقریباً خاموش ہیں ۔ مثال کے طور پر ابن الجزری المقری (م ۸۳۳ھ)نے اپنی کتب غایۃ النھایۃ في طبقات القرّاء میں تین ہزار نوسو پچپن (۳۹۵۵) قاریوں کا تذکرہ جمع کیا ہے ، جن میں سے قاریات صرف تین (۳) ہیں ۔ اسماعیل بغدادی نے اپنی کتاب ھدیۃ العارفین في أسماء المؤلّفین وآثار المصنّفین میں صرف دو (۲) صاحبِ تصنیف خواتین کا ذکر کیا ہے ۔ اسی طرح زرکلی کی الأعلام میں تیرہ (۱۳) اور عمر رضا کحالہ کی أعلام النساء میں صرف دس (۱۰) ایسی خواتین کا تذکرہ ہے جنہوں نے کسی موضوع پر تصنیف و تالیف کا کام کیا ہے ۔

حاصل کلام یہ ہے کہ باشعور اور دینی تعلیم و تربیت سے بہرہ مند خواتین گھر ، خاندان اور معاشرہ میں بہت عمدگی سے اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں شوہروں کےلیے جسمانی و روحانی سکون و تسکین اپنے قول و عمل سے اولاد کو دین داری کا درس اولین گھروں میں توکل قناعت اور سکون و آرام کی فضا کی فراہمی اور دیگر فراٸض سے وہ کماحقہ نمٹ سکتی ہیں ۔
اپنے تعاون ، رفافقت اور ہمت افزائی سے مردوں کو دینی و دنیاوی ترقی کے دروازے تک پہونچا سکتی ہیں ، ہمسایوں و دیگر عزیز و اقارب کے حقوق کی پاسداری کرتے ہوۓ اپنے نیک سلوک سے آس پاس ایک ہمدرد مہذب دیندار اور معاون ماحول پیدا کر سکتی ہیں اس طرح عورت کے گوناگوں اوصاف و کردار سے جب مرد کو ایک پُرسکون گھر اور مخالف حالات کی تپتی دھوپ میں عورت کے ذریعہ ٹھنڈی چھاٶں ملے گی تو اس کی راہیں خود بخود سازگار ہوتی چلی جاٸیں گی بصورتِ دیگر ایسا شخص جس کے گھر میں الجھن مساٸل بے چینی بے دینی ہو تو نہ تو وہ معاشرے میں امن قاٸم کر سکتا ہے اور نہ عالمی سطح پر امن کا علمبردار بن سکتا ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔