مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں حصہ ہشتم
ترجمہ : حضرت علقمہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نےفرمایا : کیا میں تمہیں اس بات کی خبر نہ دوں کہ رسول صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ کیسے نماز پڑھتے تھے ؟ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی اور تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع یدین نہیں کیا ۔ اس باب میں براء بن عازب رضی ﷲ عنہ سے بھی روایت ہے ۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ حسن صحیح ہے اور یہی قول ہے صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم میں اہل علم کا سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ اور اہل کوفہ کا بھی یہی قول ہے ۔ (جامع ترمذی: ج ۱،ص ۱۸۵)(سنن النسائی: ج۱، ص۱۵۸)(سنن ابی داؤد:ج۱، ص۱۱۶)(مشکاۃالمصابیح علامہ ناصرالدین البانی: ج۱، باب صفة الصلاة ، الأصل، رقم الحدیث۸۰۹)
حدیث ابن مسعود رضی ﷲ عنہ کو صحیح قرار دىنے والے حضرات مجتہدین ومحدثىن
تنبیہ : اصول فقہ و حدیث کا ضابطہ ہے کہ ’’اذا استدل المجتہد بحدیث الخ‘‘۔ ’’جس حدیث سے کوئی فقىہ و مجتہد ومحدث استدلال کرے وہ اس کے نزدىک صحیح ہے‘‘۔ (تدریب الراوی :ج ۱، ص ۴۸؛ تلخىص الحبیر : ج۲، ص۱۴۳؛ قواعد فی علوم الحدیث:ص۵۷)
حضرت ابر اہیم النخعی رحمۃ ﷲ علیہ ۹۶ھ ۔ (مسند ابی حنیفہ بروایت حسن: ص ۱۳؛مسند ابی حنیفہ بروایت ابی یوسف: ص۲۱؛ موطا امام محمد: ص۹۳؛ کتاب الحجہ لامام محمد: ج۱،ص۹۶؛ مسند ابن الجعد: ص۲۹۲؛ سنن الطحاوی : ج۱،ص۱۶۱ ،۱۶۳؛ مشکل الآثار للطحاوی: ج۲،ص۱۱؛ جامع المسدنید: ج۱،ص۳۵۲؛ معجم الکبیر للطبرانی: ج۲۲،ص۲۲؛ سنن دار قطنی : ج۱،ص۳۹۴؛ سنن الکبری للبیہقی: ج۲، ص۸۱،چشتی)
امام اعظم ابو حنیفہ التابعی رحمۃ ﷲ علیہ ۱۵۰ھ ۔ (مسند ابی حنیفہ بروایت حسن : ص۱۳؛ مسند ابی حنیفہ بروایت ابی یوسف: ص ۲۱؛ موطا امام محمد: ص۹۳؛ کتاب الحجہ: ج ۱،ص۹۶؛ سنن الطحاوی: ج۱،ص۱۶۲؛ جامع المسانید:ج۱،ص۳۵۳؛ الاوسط لا بن المنذر : ج۳،ص۱۴۸؛ التجريد للقدروی؛ ج۵،ص۲۷۲؛ حلیة العماءللشاشی: ج۱،ص۱۸۹؛ المحلی ابن حزم: ج۴،ص۱۱۹ ،ج۱ص۳۰۱؛ التمیہد: ج۹،ص۲۱۳؛ الاتذکار لا بن البر : ج۴،ص ۹۹؛ مناقب المکی :ج۱،ص۱۳۰؛ مغنی لابن قدامہ: ج۲،ص۱۷۲؛ دلائل الاحکام: ج۱،ص۲۶۳؛ شرح سنن ابن ماجہ المغلطائی: ج۵،ص۱۴۶۶۔۱۴۶۷؛ عمدة القاری:ج۵،ص۲۷۲،چشتی)
امام سفیان ثوری رحمۃ ﷲ علیہ ۱۶۱ھ ۔ (جز رفع الیدین :ص۴۶؛ ترمذی :ج ۱ص۵۹؛ الاوسط لابن منذر :ج۳،ص۱۴۸؛ حلیة العماء للشاشی : ج۱،ص۱۸۹؛ التجرید للقدوری :ج۱،ص۲۷۲؛ شرح البخاری لابن بطال :ج۲،ص۴۲۳؛ التمہید :ج ۹،ص۲۱۳؛الاستذکار :ج۴،ص۹۹؛ شرح النہ للبغوی :ج۲، ص۲۴؛مغنی لابن قدامہ :ج۲،ص۱۷۲؛ دلائل الاحکام لابن شداد :ج۱،ص۲۶۳؛ شر ح سنن ابن ماجہ للمغلطائی :ج۵،ص۱۴۶۶؛عمدة القاری :ج۵،ص۲۷۲،چشتی)
امام ابن القاسم المصری رحمۃ ﷲ علیہ ۱۹۱ھ ۔ (المدونة الکبریٰ ا لامام مالک: ج۱، ص۷۱)
امام وکیع بن الجراح الکوفی رحمۃ ﷲ علیہ ۱۹۷ھ ۔ (جزءرفع الیدىن للبخاری :ص۴۶؛ عمدة القاری ج۵،ص۲۷۲)
امام اسحاق بن ابی اسرائیل المروزی رحمۃ ﷲ علیہ ۲۴۶ھ (سنن دار قطنی: ج۱، ص۳۹۹،۴۰۰؛ سندصحیح)
امام محمد بن اسماعیل البخاری رحمۃ ﷲ علیہ ۲۵۶ھ ۔ (جزءرفع الیدین للبخاری: ص۲۵، للزئی: ص۱۱۲)
امام ابو داؤد السجستانی رحمۃ ﷲ علیہ ۲۷۵ھ ۔ (تاریخ بغداد الخطیب: ج۹،ص۵۹؛ تذکرة الحفاظ: ج۲ص۱۲۷؛ النکت لابن حجرص:ص۱۴۱)
۹۔امام ابو عیسی ترمذی رحمۃ ﷲ علیہ ۲۷۹ھ (سنن ترمذی: ج۱،ص۵۹؛ شرح الھدایہ للعینی: ج۲،ص۲۹۴)
۱امام احمد بن شعیب نسائی رحمۃ ﷲ علیہ ۳۰۳ھ ۔ (النکت لابن حجر: ص۱۶۵؛ زہر الربی للسیوطی: ص۳)
امام ابو علی الطوسی رحمۃ ﷲ علیہ ۳۱۲ھ ۔ (مختصر الاحکام مستخرج الطوسی علی جامع الترمذی: ج۲، ص۱۰۳؛ شرح ابن ماجہ للحافظ للمغلطائی: ج ۵، ص۱۴۶۷)
امام ابو جعفر الطحاوی رحمۃ ﷲ علیہ ۳۲۱ ھ ۔ (الطحاوی: ج۱،ص۱۶۲؛ الرد علی الکرانی بحوالہ جوہر النقی: ص۷۷،۷۸)
امام ابو محمد الحارثی البخاری رحمۃ ﷲ علیہ ۳۴۰ھ ۔ (جامع المسانید: ج ۱، ص۳۵۳، مکة المکرمة،چشتی)
امام ابو علی النسابوری رحمۃ ﷲ علیہ ۳۴۹ھ ۔ (النکت لابن حجر ؒ: ص۱۶۵؛ زہر الربی علی النسائی للسیوطی: ص۳)
امام ابو علی ابن السکن المصری رحمۃ ﷲ علیہ ۳۵۳ھ ۔ (النکت لا بن حجرؒ: ص۱۶۴؛ زہر الربی للسیوطی: ص۳)
امام محمد بن معاویہ االاحمر رحمۃ ﷲ علیہ ۳۵۸ھ ۔ (النکت لا بن حجرؒ: ص۱۶۴؛ زہر الربی للسیوطی: ص۳)
امام ابو بکر ابن السنی رحمۃ ﷲ علیہ ۳۶۴ھ ۔ (الارشاد لامام الخلىلی: ص ۱۳۱؛ زہر الربی للسیوطی: ص ۳)
امام ابن عدی رحمۃ ﷲ علیہ ۳۶۵ھ ۔ (النکت لا بن حجرؒ: ص۱۶۴؛ زہر الربی ص۳)
امام ابو الحسن الدار قطنی رحمۃ ﷲ علیہ ۳۸۵ھ ۔ (کتاب العلل: ج ۵، ص۱۷۲؛ النکت: ص۱۶۴؛ زہر الربی: ص۳)
امام ابن مندة رحمۃ ﷲ علیہ ۳۹۰ھ ۔ (النکت لا بن حجرؒ: ص ۱۶۴؛ زہر الربی للسیوطی: ص۳)
امام ابو عبد ﷲ الحاکم رحمۃ ﷲ علیہ ۴۰۵ھ ۔ (النکت لا بن حجرؒ: ص ۱۶۴؛ زہر الربی للسیوطی: ص۳)
امام عبد الغنی بن سعید رحمۃ ﷲ علیہ ۴۰۹ھ ۔ (النکت لا بن حجرؒ: ص ۱۶۴؛ زہر الربی للسیوطی : ص۳)
امام ابو الحسین القدوری رحمۃ ﷲ علیہ ۴۲۸ھ ۔ (التجرید للقدوری ؒ: ج۲، ص۵۱۸)
امام ابو یعلی الخلیلی رحمۃ ﷲ علیہ ۴۴۶ھ ۔ (الارشاد للخلیلی: ص ۱۱۲؛ النکت: ص۱۶۴؛ زہر الربی للسیوطی: ص۳)
۲۵۔ امام ابو محمد ابن حزم رحمۃ ﷲ علیہ ۴۵۶ھ ۔ (المحلی لا بن حزم: ج ۴، ص۱۲۱، مصر)
امام ابوبکر الخطیب للبغدادی رحمۃ ﷲ علیہ ۴۶۳ھ ۔ (النکت لا بن حجرؒ: ص ۱۶۳؛ زہر الربی للسیوطی: ص۳)
امام ابوبکر السرخسی رحمۃ ﷲ علیہ ۴۹۰ھ ۔ (المبسوط للسرخسی: ج ۱، ص۱۴)
امام موفق المکی رحمۃ ﷲ علیہ ۵۶۸ ھ ۔ (مناقب موفق المکی: ج۱، ص۱۳۰، ۱۳۱،چشتی)
ابو طاہر السلفی ۵۷۶ھ ۔ (النکت لا بن حجر: ص ۱۶۳؛ زہر الربی للسیوطی: ص۳)
امام ابوبکر کاسانی رحمۃ ﷲ علیہ ۵۸۷ھ ۔ (بدائع الصنائع للکاسانیؒ: ج۱، ص۴۰)
امام ابن القطان الفاسی رحمہ ﷲ ۶۲۸ھ ۔ (بیان الوھم والا ےھام لابن القطان الفاسی: ج۳، ص۳۶۷)
امام محمد الخوارزمی رحمۃ ﷲ علیہ ۶۵۵ ھ ۔ (جامع المسانید)
امام ابو محمد علی بن زکریا المنجی رحمۃ ﷲ علیہ ۶۸۶ھ ۔ (اللباب فیا الجمع بین السنة والکتاب: ج۱، ص۲۵۶)
امام ابن الترکمانی رحمۃ ﷲ علیہ ۷۴۵ ھ ۔ (الجوہر النقی علی البیہقی لا بن الترکمانی: ج۲، ص۷۷، ۷۸)
امام حافظ مغلطائی رحمۃ ﷲ علیہ ۷۶۲ ھ ۔ (شرح ابن ماجہ الحفاظ المغلطائی: ج ۵، ص۱۴۶۷)
امام حافظ زیلعی رحمۃ ﷲ علیہ ۶۷۲ھ ۔ (نصب الرایہ للزیلعی: ج۱، ص۳۹۶؛ وفی نسخة: ج۱، ص۴۷۴)
امام حافظ عبد القادر القرشی رحمۃ ﷲ علیہ ۷۷۵ ھ ۔ (الحاوی علی الطحاوی: ج ۱، ص۵۳۰)
امام فقیہ محمد البابرقی رحمۃ ﷲ علیہ ۷۸۶ ھ ۔ (العنایہ شرح الھدایہ: ج۱، ص۲۶۹)
امام فقیہ محمد الکردری رحمۃ ﷲ علیہ ۸۲۶ ھ ۔ (مناقب کردری: ج۱، ص۱۷۴)
محدث احمد بن ابی بکر البوصیری رحمۃ ﷲ علیہ ۸۴۰ ھ ۔ (اتحاف الخیرة المھرہ للبوصیری: ج۱۰، ص۳۵۵، ۳۵۶)
محدث محمود العینی رحمۃ ﷲ علیہ ۸۵۵ھ ۔ (شرح سنن ابی داؤد للحافظ العینی ؒ : ج ۳، ص۳۴۱، ۳۴۲؛)(شرح الھدایہ عینی: ج۲، ص۲۹۴)
امام ابن الھمام رحمۃ ﷲ علیہ ۸۶۱ھ ۔ (فتح القدیر شرح الھدایہ لابن الھمام: ج۱، ص۲۶۹، ۲۷۰)
ملا علی قاری رحمۃ ﷲ علیہ ۱۰۱۴ھ ۔ (مرقات: ج۲،ص۲۶۹،چشتی)(شرح الفقایہ: ج۱، ص۲۵۷، ۲۵۸؛ شرح مسند ابی حنیفہ للعلی قاری: ص۳۸)
امام محمد ھاشم السندھی رحمۃ ﷲ علیہ ۱۱۵۴ھ ۔ (کشف الدین مترجم لمصمدہاشم السندھی: ص۱۵، ۱۶)
امام حافظ محدث محمد الزبیدی رحمۃ ﷲ علیہ ۱۲۰۵ھ ۔ (عقود الجواھر المنفىہ للزبیدی)
امام محمد بن علی النیموی رحمۃ ﷲ علیہ ۱۳۴۴ھ ۔ (آثار السنن مع التعلیق للنمیوی : ص۱۳۲)
غیرمقلد عالم محمد زہیر الشاویش ۔ (تعلیق علی شرح السنة للبغوی: ج۳، ص۲۴، بیروت)
غیر مقلد عالم احمد محمد الشاکر المصری ۔ (الشرح علی الترمذی لا حمد شاکر المصری: ج۲، ص۴۱، دارالعمران بیروت)
غیرمقلد عالم شعیب الارناؤط ۔ (تعلیق علی شرح السنہ للبغوی: ج۳، ص۲۴، بیروت)
غیرمقلدعالم عطاء ﷲ حنیف ۔ (تعلقات سلفیہ علی سنن النسائی: ص۱۲۳)
غیرمقلد حسین سلیم اسد ۔ (تعلیق علی مسند ابی یعلی شیخ حسین سلیم اسد: ج۸،ص۴۵۴۔ ج۹، ص۲۰۹، دمشق بیروت،چشتی)
غیر مقلد عالم ابراہیم سیالکوٹی ۔ (واضح البیان، ص۳۹۹)
غیرمقلدوں کا امام و محدث شیخ ناصر الدین البانی ۔ (مشکوة بتحقیق الالبانی :ج۱، ص۲۵۴، بیروت؛ سنن الترمذی: ج ۱، ص۷۱)
حدیث حضرت عبد ﷲ بن مسعود رضی ﷲ عنہ کے تمام راوی ثقہ ہیں اور سند بالکل صحیح ہے جیسا کہ محدثین علیہم الرّحمہ اور غیرمقلدین کے علما کی تصحیح اوپر پیش کی جاچکی ہے ۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ترک رفع یدین کی حدیثِ مبارکہ کا تحقیقی جائزہ
نبی کریم صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ کی ترکِ رفع یدین کی سنت ادا کرتے ہوئے جلیل القدر صحابی امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع یدین نہ کرتے تھے ۔ اس پر حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیے بعدہ اس کے رجال کی توثیق اور ائمہ محدثین علیہم الرّحمہ کا حدیث مذکور پر لگایا گیا حکم پیش کیا جائے گا ۔
حدثنا یحی بن آدم ، عن حسن بن عیاش ، عن عبد الملک بن ابجر ، عن الزبیر بن عدی ، عن ابراہیم ، عن الاسود قال صلیت مع عمر فلم یرفع یدیہ فی شیئ من صلاتہ الا حین افتتح الصلاۃ ۔
ترجمہ : خضرت سیدنا اسود تابعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز ادا کی آپ نے نماز میں کسی جگہ رفع یدین نہ کیا مگر نماز کو شروع کرتے وقت (رفع یدین کیا) ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ الرقم 2469)(شرح معانی الآثار الرقم 1262،چشتی)(الاوسط ابن المنذر الرقم 1345)(شرح مشکل الآثار الرقم 5104)(مسند الفاروق 1/164)(جامع الاحادیث الرقم 30051)(الصواب ابن المبرد 3/982)
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ کے راویوں کی توثیق ملاحظہ کیجیے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلا راوی : یحی بن آدم
امام عجلی نے ثقہ کہا ہے ۔ (معرفۃ الثقات الرقم 1960)
ابو حاتم نے ثقہ کہا ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 545)
یعقوب بن شیبہ نے ثقہ کہا ہے ۔ (تذکرۃ الحفاظ 1/263)
نووی نے ثقہ کہا ہے ۔ (تہذیب الاسماء الرقم 677)
یحیی بن معین نے ثقہ کہا ہے ۔ (تہذیب التہذیب الرقم 330)
ابن حجر نے ثقہ حافظ کہا ہے ۔ (تقریب التہذیب الرقم 7696،چشتی)
ابن شاہین نے ثقہ صدوق کہا ہے ۔ (تاریخ اسماء الثقات الرقم 1617)
ابن حبان نے متقنا کہا ہے ۔ (الثقات الرقم 16275)
ذہبی نے احد اعلام کہا ہے ۔ (الکاشف الرقم 6142)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا راوی : حسن بن عیاش
ابن شاہین نے ثقہ کہا ہے ۔ (تاریخ اسماء الثقات الرقم 198)
امام عجلی نے ثقہ کہا ہے ۔ (معرفۃ الثقات الرقم 299)
یحیی بن معین نے ثقہ کہا ہے ۔ (تاریخ یحی بن معین الرقم 1255)
ذہبی نے ثقہ کہا ہے ۔ (الکاشف الرقم 1057)
ابن حبان نے الثقات میں لکھا ہے ۔ (الثقات الرقم 7197)
ابن حجر نے صدوق کہا ہے ۔ (تقریب التہذیب الرقم 1274،چشتی)
ابن منجویہ نے رجال مسلم میں شمار کیا ہے ۔ (رجال مسلم الرقم 246)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیسرا راوی : عبد الملک بن سعید بن حیان بن ابجر
امام احمد نے ثقہ کہا ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 1661)
یحیی بن معین نے ثقہ کہا ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 1661)
ابن حجر نے ثقہ کہا ہے ۔ (تقریب التہذیب الرقم 4181)
ابن حبان نے الثقات میں درج کیا ہے ۔ (الثقات الرقم 9166)
امام عجلی نے کوفی ثقہ کہا ہے ۔ (معرفۃ الثقات الرقم 1131)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوتھا راوی : الزبیر بن عدی
امام احمد نے ثقہ کہا ہے۔ (الجرح و التعدیل الرقم 2632)
یحی بن معین نے ثقہ کہا ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 2632)
ابو حاتم نے ثقہ کہا ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 2632)
ذہبی نے ثقہ کہا ہے ۔ (الکاشف الرقم 1624)
ابن حجر نے ثقہ کہا ہے ۔ (تقریب التہذیب الرقم 2001)
امام عجلی نے ثقہ ثبت کہا ہے ۔ (معرفۃ الثقات الرقم 494،چشتی)
ابن شاہین نے ثقہ رواۃ میں شمار کیا ہے ۔ (تاریخ اسماء الثقات الرقم 419)
ابن حبان نے المتقننین لکھا ہے ۔ (مشاہیر علماء الامصار الرقم 992)
کلابازی نے رجال البخاری میں شمار کیا ہے ۔ (رجال البخاری الرقم 368)
ابن منجویہ نے رجال مسلم میں شمار کیا ہے ۔ (رجال مسلم الرقم 453)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پانچواں راوی : ابراہیم النخعی
امام عجلی نے ثقہ کہا ہے ۔ (معرفۃ الثقات الرقم 45)
ابن حجر نے ثقہ کہا ہے ۔ (تقریب التہذیب الرقم 270)
ابن حبان نے ثقات میں شمار کیا ہے ۔ (الثقات)
المدینی نے اعلم الناس کہا ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 473)
ابوزرعہ نے اعلام اھل الاسلام کہا ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 473))
ذہبی نے راسا فی العلم قرار دیا ہے ۔ (الکاشف الرقم 221)
امام نووی نے اجمعوا علی توثیقہ کہا ہے ۔ (تہذیب الاسماء الرقم 36)
علامہ عینی نے صیر فی الحدیث قرار دیا ہے ۔ (مغانی الاخیار الرقم 32)
کلابازی نے رجال بخاری میں شمار کیا ہے ۔ (رجال بخاری الرقم 51)
ابن منجویہ نے رجال مسلم میں شمار کیا ہے ۔ (رجال مسلم الرقم 49)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھٹا راوی : الاسود بن یزید
ابوحاتم نے ثقہ کہا ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 1067)
امام احمد نے ثقہ کہا ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 1067)
یحیی بن معین نے ثقہ کہا ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 1067)
ابن حجر نے ثقہ کہا ہے ۔ (تقریب التہذیب الرقم 509)
امام عجلی نے تابعی ثقہ کہا ہے ۔ (معرفۃ الثقات الرقم 104)
نووی نے واتفقوا علی کہا ہے ۔ (تہذیب الاسماء الرقم 36)
کلابازی نے رجال بخاری میں شمار کیا ہے ۔ (رجال بخاری الرقم 89)
ابن منجویہ نے رجال مسلم میں شمار کیا ہے ۔ (رجال مسلم الرقم 121)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساتواں راوی : سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ
امیر المؤمنین ، خلیفہ ثانی ، جلیل القدر صحابی ، زینت اسلام ، فخر اسلام ، مراد رسول، فاروق اعظم ، الصحابی کلھم عدول و الصحابی کالنجوم کے مصداق سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ ۔
مذکورہ بالا تحقیق سے معلوم ہوا کہ حضرت سیدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے ترک رفع یدین بسند صحیح ثابت ہے اور اس پر کسی قسم کا بھی اعتراض باطل و مردود ہے ۔
حدیث مذکورہ بالا پر محدثین سے مہر تصحیح بھی پیش خدمت ہے
امام طحاوی نے کہا ہے حدیث صحیح ۔ (شرح معانی الآثار الرقم 1364)
علامہ ترکمانی نے لکھا ہے صحیح علی شرط مسلم ۔ (الجواہر النقی علی سنن البیہقی الرقم 1752)
حافظ مغلطائی نے کہا ہے صحیح علی شرط مسلم ۔ (شرح ابن ماجہ 1/1472)
محقق احناف زیلعی اور محدث حنفیہ علامہ عینی بھی مائل بہ تصحیح ہیں ۔ (نصب الرایہ 1/405 اور شرح ابی داؤد للعینی 3/298)
محدث شافعیہ ابن حجر نے لکھا ہے رجالہ ثقات ۔ (الدرایہ 1/152)
امام ابن الھمام نے کہا ہے صحیح ۔ (فتح القدیر 1/311)
حافظ احناف محدث قطلوبغا نے لکھا ہے رجالہ ثقات ۔ (التعریف و الاخبار 310)
مفتی حرم و عظیم محدث ملا علی قاری نے لکھا ھے سندہ صحیح ۔ (مرقاۃ المفاتیح 3/298)(رضی اللہ عنہم و رحمہم اللہ علیہم اجمعین)
امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیثِ مبارکہ ترک رفع یدین کا تحقیقی جائزہ : ⬇
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے حضرت سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی نماز میں ابتداءً رفع یدین کرتے پھر پوری نماز میں کسی مقام پر رفع یدین نہ فرماتے ۔ محدث ابن ابی شیبہ رحمة اللہ علیہ روایت نقل فرماتے ہیں : حدثنا وکیع ، عن ابی بکر بن عبد اللہ بن قطاف النہشلی ، عن عاصم بن کلیب ، عن ابیہ ان علیاً کان یرفع یدیہ اذا افتتح الصلاۃ ثم لا یعود ۔
ترجمہ : سیدنا عاصم بن کلیب اپنے والد کلیب بن شہاب سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نماز میں پہلی تکبیر کے ساتھ رفع یدین کیا کرتے تھے پھر اس کے بعد رفع یدین نہیں کرتے تھے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ حدیث 2457 )(الاوسط لابن المنذر حدیث 1343 ، سند الگ ہے)(شرح معانی الآثار حدیث 1252 ، دو سندوں سے نقل کی ہے)(مؤطا امام محمد حدیث 105)(النفع الشذی شرح الترمذی 4/398،چشتی)(البدر المنیر 3/484)(تخریج احادیث الاحیاء للعراقی 1/349)(فتح الباری لابن رجب 6/331)(اتحاف المہرہ 11/599)
اس حدیثِ مبارکہ کے راوی
امام ابن ابی شیبہ رحمة اللہ علیہ نے جس سند سے اس روایت کو نقل کیا ہے اس کی سند میں موجود راویوں کا حال ملاحظہ کیجیے :
پہلا راوی : وکیع بن الجراح
امام عجلی نے کہا ثقہ عابد ہے ۔ (معرفۃ الثقات رقم 1938)
امام احمد نے کہا مطبوع الحفظ ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 168)
یحیی بن معین نے ثقہ کہا ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 168)
علامہ ذھبی نے حافظ الثبت محدث کہا ہے ۔ (تذکرۃ الحفاظ 1/223)
ابن حجر نے ثقہ حافظ کہا ہے ۔ (تقریب التہذیب الرقم 7414)
الخزرمی نے الحافظ کہا ہے ۔ (خلاصہ تذھیب تہذیب الکمال 1/415)
الکلاباذی نے فی رجال البخاری میں شمار کیا ہے ۔ (رجال البخاری الرقم 1288،چشتی)
ابن منجویہ نے رجال مسلم میں شمار کیا ہے ۔ (رجال مسلم الرقم 1767)
ابن حبان نے من الحفاظ المتقین کہا ہے ۔ (مشاھیر علماء الامصار 1/272)
ابراہیم بن شماس نے احفظ الناس کہا ہے ۔ (شرح علل الترمذی 1/170)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا راوی : ابی بکر بن عبد اللہ بن قطاف النہشلی
یحیی بن معین نے ثقہ کہا ہے ۔ (تاریخ ابن معین 1/47)
امام احمد نے ثقہ کہا ہے ۔ (العلل و المعرفۃ الرقم 4371)
امام ذہبی نے ثقہ کہا ہے ۔ (الکاشف الرقم 6548)
امام ابوداؤد نے ثقہ کہا ہے ۔ (تہذیب التہذیب الرقم 8329)
امام عجلی نے ثقہ کہا ہے ۔ (معرفۃ الثقات الرقم 2102)
ابن حجر نے صدوق کہا ہے ۔ (تقریب التہذیب الرقم 8001)
ابن العماد نے صدوق کہا ہے ۔ (شذرات الذھب 1/252)
ابن منجویہ نے رجال مسلم میں شمار کیا ہے ۔ (رجال مسلم الرقم 1961)
ابن مھدی نے ثقات مشیخۃ الکوفۃ کہا ہے ۔ (تہذیب التہذیب الرقم 8329)
امام ابوحاتم نے شیخ صالح کہا ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 1536،چشتی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیسرا راوی : عاصم بن کلیب
امام عجلی نے ثقہ کہا ہے ۔ (معرفۃ الثقات الرقم 815)
ابن شاہین نے ثقہ کہا ہے ۔ (تاریخ اسماء الثقات الرقم 833)
حافظ ذہبی نے ثقہ کہا ہے ۔ (ذکر من تکلم الرقم 170)
ابن معین نے ثقہ کہا ہے ۔ (من کلام ابی زکریا الرقم 63)
ابوحاتم نے صالح کہا ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 1929)
احمد بن حجر نے صدوق کہا ہے ۔ (تقریب التہذیب الرقم 3705)
احمد بن صالح نے من الثقات لکھا ہے ۔ (تاریخ اسماء الثقات الرقم 833)
ابن منجویہ نے رجال مسلم میں شمار کیا ہے ۔ (رجال مسلم الرقم 170)
ابن حبان نے متقنی الکوفیین کہا ہے ۔ (مشاہیر علماء الامصار الرقم 1305)
امام احمد نے لا باس بہ کہا ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 1929)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوتھا راوی : کلیب بن شہاب
امام ابوزرعہ نے ثقہ کہا ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 946)
ابن سعد نے ثقہ کہا ہے ۔ (الطبقات الکبری 6/123)
امام عجلی نے تابعی ثقہ کہا ہے ۔ (معرفۃ الثقات الرقم 1555،چشتی)
ابن حجر نے صدوق لکھا ہے ۔ ( تقریب التہذیب الرقم 5660)
ابن حبان نے کتاب الثقات میں رکھا ہے ۔ (الثقات الرقم 5111)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پانچویں راوی : خلیفۃ الراشد حضرت سیدنا و مولانا علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ تعالی عنہ جلیل القدر صحابی رسول امیر المؤمنین ہیں ۔
درج بالا تحقیق سے معلوم ہوا کہ اس سند کے تمام راوی ثقہ ہیں لہٰذا اس کی سند بالکل صحیح اور بے غبار ہے اور اس پر کسی قسم کا اعتراض باطل و مردود ہے اس حدیث کی دیگر اسناد بھی کتب احادیث میں موجود ہیں جن کے حوالہ جات ابتداء پیش کیے جا چکے ہیں ۔
ائمہ محدثین علیہم الرّحمہ سے بھی حدیث مذکورہ کی تصحیح پیش خدمت ہے:
امام ابوجعفر الطحاوی فرماتے ہیں فحدیث علی اذا صح ۔ (شرح معانی الآثار 1/155)
امام ابن ترکمانی نے کہا رجالہ ثقات ۔ (الجواہر الننقی علی سنن البیہقی 2/78،چشتی)
امام ابن دقیق العید الشافعی مائل بہ تصحیح ہیں ۔ (نصب الرایہ 1/413)
حافظ الحدیث علامہ عینی نے کہا صحیح علی شرط مسلم ۔ (عمدۃ القاری فی شرح البخاری 5/273،چشتی)
دوسری کتاب میں فرمایا ھو اثر صحیح و صحیح علی شرط مسلم ۔ (شرح سنن ابی داؤد 3/301)
محدث مغلطائی مائل بہ تصحیح ہیں ۔ (شرح ابن ماجہ 1/1473)
محقق الحدیث علامہ زیلعی نے کہا وھو اثر صحیح ۔ (نصب الرایہ 1/406)
محدث شافعیہ حافظ الحدیث ابن حجر عسقلانی نے بھی کہا ھے رجالہ ثقات ۔ (الدرایہ 1/152،چشتی)
حافظ الحدیث امام دارقطنی محدث شافعیہ نے بھی کہا ہے موقوفا صواب ۔ (العلل الدارقطنی 4/106)
مفتی حرم محدث حنفیہ ملا علی قاری مائل بہ تصحیح ۔ (الاسرار المرفوعہ 1/494)
محدث قاسم بن قطلوبغا نے کہا سندہ ثقات ۔ (التعریف و الاخبار 309)
محدث نیموی نے کہا اسنادہ صحیح ۔ (آثار السنن)
ترکِ رفع پر غیر مقلدین کے گھر کی گواہیاں مدعی لاکھ پہ بھاری گواہی تیری
غیرمقلدین جو ہر وقت یہ شور مچاتے ہیں کہ جو رفع یدین نہ کرے اس کی نماز نہیں ہوتی آیے دیکھتے ہیں کہ ان کے بڑے اس بارے میں کیا کہتے ہیں ۔
شیخ الکل غیرمقلدین جناب نذیر حسین صاحب دہلوی اپنے فتاویٰ نذیریہ میں لکھتے ہیں : رفع یدین میں جھگڑاکرنا تعصب اور جہالت کی بات ہے ، کیونکہ آنحضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے دونوں ثابت ہیں ، دلایل دونوں طرف ہیں ۔ (فتاویٰ نذیریہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 441)
شیخ الاسلام غیرمقلدین جناب ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں : ہمارا مذہب ہے کہ رفع یدین کرنا مستحب امر ہے جس کے کرنے سے ثواب ملتا ہے اور نہ کرنے سے نماز میں کوئی خلل نہیں ہوتا ۔ (فتاوی ثنائیہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 579) ۔ اسی کتاب میں نزید لکھتے ہیں کہ ترک رفع ترک ثواب ہے ترک فعل سنت نہیں ۔ (فتاوی ثنائیہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 608)
مجدد غیرمقلدین جناب نواب صدیق حسن خان صاحب بھوپالی ، ان کی کتاب روضۃ الندیۃ غیرمقلدین کے یہاں بڑی معتبر کتاب ہے ، نواب صاحب اس کتاب میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کرتے ہوے لکھتے ہیں : رفع یدین و عدم رفع یدین نماز کے ان افعال میں سے ہے جن کو آنحضور صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کبھی کیا ہے اور کبھی نہیں کیا ہے ، اور سب سنت ہے ، دونوں بات کی دلیل ہے ، حق میرے نزدیک یہ ہے کہ دونوں سنت ہیں ۔ (روضۃ الندیۃ صفحہ نمبر148،چشتی)
اور اسی کتاب میں اسماعیل دہلوی کا یہ قول بھی نقل کرتے ہیں : ولا یلام تارکہ و ان ترکہ مد عمرہ ۔ (صفحہ نمبر 150) ۔ یعنی رفع یدین کے چھوڑنے والے کو ملامت نہیں کی جاے گی اگرچہ پوری زندگی وہ رفع یدین نہ کرے ۔
غیر مقلدین کے بڑے اکابر بزرگوں کی ان باتوں سے پتا چلا کہ ان لوگوں کے نزدیک رفع یدین کرنا وار نہ کرنا دونوں نبی کریم کریم صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ثابت ہیں اور دونوں سنت ہیں ، اب سچے اہلحدیث ہونے کا تقاضا یہ تھا کہ یہ حضرات دونوں سنتوں پر عامل ہوتے مگر ان کا عمل یہ ہے کہ ایک سنت پر تو اصرار ہے اور دوسری سنت سے انکار ہے ، بلکہ دوسری سنت پر جو عمل کرتا ہے اس کو برا بھلا کہا جاتا ہے ، سنت پر عمل کرنے والوں کو برا بھلا کہنا کتنی بڑی گمراہی ہے ، آپ نے کبھی نہیں سنا ہو گا کسی حنفی نے رفع یدین کرنے والوں کو اس کے رفع یدین کرنے پر برا بھلا کہا ہو ۔
دعاء قنوت میں رفع یدین کرنا
دعاء قنوت میں رفع یدین کرنا صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے چنانچہ اسود سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ دعائے قنوت میں سینہ تک اپنے دونوں ہاتھ اُٹھاتے تھے اور ابوعثمان نہدی سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ صبح کی نماز میں ہمارے ساتھ دعاء قنوت پڑھتے اور اپنے دونوں ہاتھ اُٹھاتے یہاں تک کہ آپ کے دونوں بازو ظاہر ہو جاتے اور خلاص سے روایت ہے کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ نماز فجر کی دعاء قنوت میں اپنے بازو آسمان کی طرف لمبے کرتے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ماہِ رمضان میںدعاء قنوت کے وقت اپنے دونوں ہاتھ اُٹھاتے اور ابو قلابہ اور مکحول بھی رمضان شریف کے قنوت میں اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے اورابراہیم سے قنوت وتر سے مروی ہے کہ وہ قرأۃ سے فارغ ہو کر تکبیر کہتے اور ہاتھ اٹھاتے پھر دعائے قنوت پڑھتے پھر تکبیر کہہ کر رکوع کرتے اور روایت ہے وکیع سے وہ روایت کرتا ہے محل سے وہ ابراہیم سے کہ ابراہیم نے محل کو کہا کہ قنوت وتر میں یوں کہا کرو اور وکیع نے اپنے دونوں ہاتھ کانوں کے قریب تک اٹھا کربتلایا اور کہا کہ پھر چھوڑ دیوے ہاتھ اپنے عمر بن عبدالعزیز نے نماز صبح میں دعاء قنوت کے لیے اپنے دونوں ہاتھ اتھائے اور سفیان سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس بات کو دوست رکھتے تھے کہ وتر کی تیسری رکعت میں قل ھو اللہ احد پڑھ کر پھر تکبیر کہے اور دونوں ہاتھ اٹھائے پھر دعائے قنوت پڑھے امام احمد رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ قنوت میں اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے کہا ہاں مجھے یہ پسند آتا ہے ۔ ابوداؤد نے کہا کہ میں نے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا اسی طرح شیخ احمد بن علی المقریزی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب مختصر قیام اللیل میں ہے اور حضرت ابو مسعود ، ابوہریرہ اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی ان قاریوں کے بارے میں جو معونہ کے کنوئیں میں شہید ہوئے قنوتِ وتر میں دونوں ہاتھوں کا اٹھانا مروی ہے ۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تحقیق میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ان لوگوں پر جنہوں نے قاریوں کو شہید کیا تھا ہاتھ اٹھا کر بد دعاء کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔ ایسے ہی بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب مسمیٰ معرفت میں ہے ۔ حررہ عبدالجبار العزنوی عفی عنہ ۔ (فتاویٰ غزنویہ ص 51)۔(فتاویٰ علمائے حدیث : جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 283)۔(مزید حصّہ نہم میں ان شاء اللہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment