تصویر و ویڈیو کے احکام و مسائل دلائل و حقائق کی روشنی میں
محترم قارئینِ کرام : سب سے پہلے گزارش یہ ہے کہ اس مسلہ میں علماء کے دو آراء ہیں فقیر نے احباب کے حکم پر یہ مضمون لکھا ہے اہلِ علم اختلافِ رائے کا حق رکھتے ہیں اور جہاں کہیں صریح غلطی پائیں تو فقیر کو مطلع فرما کر اصلاح فرمائیں جزاکم اللہ خیرا آمین ۔
تصویر کا استعمال اتنا عام ہو چکا ہے کہ شاید ہی کوئی گھر ، بلکہ کوئی جیب اس سے خالی ہو ۔ فقہاء کرام کے ہاں ایک اصطلاح مستعمل ہے ، جسے عموم بلوٰی کہتے ہیں ۔ اس کا معنیٰ ہے عام لوگوں کا کسی مسئلہ میں گرفتار ہونا۔ علماء و فقہا کرام دیکھتے ہیں کہ اگر اس صورت میں جواز کی گنجائش ہو ، تو وہ جواز پر فتوی دیتے ہیں ۔ بہت سارے مسائل میں فقہاء کرام نے عموم بلوٰی کی وجہ سے جواز پر فتوی دیا ہے ۔ تصویر کے بارے میں احادیث میں مذمت بھی آتی ہے اور جواز کی صورت بھی موجود ہے ۔ کرنسی نوٹ، ٹکٹیں ، لفافے ، رسالے ، دستاویزات ، ویزا ، پاسپورٹ ، شناختی کارڈ ، ملازمت ، سفر ، شادی بیاہ اور لین دین وغیرہ کا جواز عموم بلوٰی ہے ۔
صحیح بخاری شریف میں امام المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ انہوں نے اپنے دروازے پر پردہ لٹکایا جس میں تصاویر تھیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پردہ پھاڑ دیا۔ اس سے میں نے دو گدے بنا لیے ۔ آگے فرماتی ہیں : فکانتا فی البيت يجلس عليها ۔ (بخاری، الصحیح، 1: 337،چشتی)
ترجمہ : دوں گدےگھر میں تھے، ان پر سرکارِ دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھا کرتے تھے ۔
اب اگر مطلقاً ہر تصویر حرام ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان گدوں پر نہ بیٹھتے ، اور فرماتے کہ اس کو ختم کر دو ۔ مگر ایسا نہیں ہوا ، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان گدوں پر بیٹھا کرتے تھے ۔ پہلی صورت میں یعنی پردے کی صورت میں یہ اس وقت تکبر کی علامت سمجھی جاتی تھی کہ ایک طرف لوگوں کو بدن ڈھاپنے کے لیے کپڑا نہیں ملتا ، دوسری طرف پردوں کے لیے کپڑا استعمال کرنا مناسب نہیں تھا ۔
فقہاء کرام نے تصویر کی حرمت یوں بیان کی ہے ۔ فرشتے صرف اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں وہ کتا یا تصویر ہو جسے رکھنا حرام ہے ۔ رہا وہ جس کا رکھنا حرام نہیں مثلا شکاری کتا، کھیتی اور مویشیوں کی حفاظت کرنے والا کتا اور جو تصویر قالین اور تکیہ وغیرہ پر روندھی جاتی ہیں یا ڈیکوریشن پیس ہیں ، ان کی وجہ سے فرشتوں کا داخلہ ممنوع نہیں ہوتا ۔
علاّمہ صاحبزادہ ڈاکٹر ابوالخیر محمد زبیر صاحب الوری اپنی کتاب " جدید شرعی مسائل" میں تفصیل سے اس مسلہ پر لکھا ہے ہم اس کا خلاصہ پیش کر رہے ہیں : ⬇
تصویر کے بارے میں امام ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس بارے میں علماء کے چار اقوال ہیں ۔ لیکن یہاں اس میں سے صرف مطلوبہ قول کے بارے میں بات کروں گا ۔ کہ چار نظریات میں سے ایک نظریہ یہ ہے کہ تصویر مطلقاً جائز ہے خواہ وہ آدھے جسم کی ہو ۔ یا پورے جسم کی وہ کسی کپڑے پر ، کاغذ پر ، بستر پر ، یا تکیہ پر چھپی ہوئی ہو ہر قسم کی تصویر جائز ہے ۔ اور اس کی دلیل یہ حدیث مبارک ہے : حضرت زید بن خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی حضرت طلحہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بے شک جس گھر میں تصویر ہو وہاں فرشتے داخل نہیں ہوتے بسر کہتے ہیں حضرت زید بیمار ہو گئے ہم ان کی عیادت کے لیے گئے تو ان کے دروازے پر ایک پردہ ہم نے دیکھا جس میں تصویر تھی ۔ وہ کہتے ہیں میں نے عبید اللہ خولانی رضی اللہ تعالٰی جو ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بیٹے تھے ان سے پوچھا کہ پہلے زید ہم کو تصویروں سے منع کرتے تھے اس پر عبید اللہ نے کہا کیا تم نے نہیں سنا کہ وہ کپڑوں پر منقش تصویروں کا استثناء کرتے تھے ۔ اس حدیث کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جامع ترمذی میں بیان فرمایا اور فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے اور صحیح ہے ۔
علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو لوگ مطلقا تصویر کے جواز کے قائل ہیں ۔ وہ اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں ۔ علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اسی حدیث کے تحت فرماتے ہیں کہ حنبلیوں کے مذہب میں کپڑوں پر منقش تصاویر مطلقا جائز ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکا ارشاد گرامی ہے کہ میرے پاس جبریل امین علیہ السلام آئے اور انہوں نے کہا کہ میں گزشتہ رات آپ کے پاس آیا تھا ۔ مجھے آپ کے پاس آنے سے جس چیز نے روکا وہ دروازہ پر مورتیاں اور مجسمے تھے اور گھر میں سرخ اون کا تصویروں والا پردہ پڑا ہوا تھا ۔ اور گھر میں ایک کتا بھی تھا ۔ پس حکم دیجئے مورتیوں کے سر کاٹ دیے جائیں ، تاکہ وہ درختوں کی طرح ہو جائیں ۔ اور تصویر دار پردہ کےلیے حکم فرمائیں کے ان پردوں کو کاٹ کر مسندیں بنالی جائیں ۔ جو زمین پر ڈال کے پاؤں سے روندی جائیں ۔ (مسند ابوداود ، سنن ترمذی ، سنن النسائی ، ابن حبان)
ام المومنین حضرت سیددتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک سفر سے واپس تشریف لائے تو میں نے کھڑکی پر ایک تصویر والا منقش پردہ ڈال دیا ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو دیکھا تو آپ نے اس کو پھاڑ دیا اور فرمایا کے قیامت کے روز ان لوگوں پر سخت عذاب ہوگا جو اللہ کی خلق سے مشابہت پیدا کرتے ہیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نے اس پردے کے ایک یا دو تکیے بنائے ۔ ایک دوسری روایت میں آتا ہے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں میں نے اس کے دو گدے بنا لیے جس پر گھر میں بیٹھا جاتا تھا ۔ اسی طرح کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل سے ۔ آثار صحابہ کرام اور تابعین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے حضرت قاسم بن محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے گھر میں عجائب مخلوق کی تصویریں تھیں ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی انگوٹھی میں دو مکھیوں کی تصویریں تھیں ۔ حضرت عبدالرحمان بن عوف اور حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی انگوٹھیوں کے نگینوں میں دو شیرنیوں کی تصویریں تھیں ۔ امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا ایک قول ہے ، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے نقل فرمایا ہے جن کپڑوں فرش تکیوں میں تصویریں ہوں ان کے استعمال میں کوئی حرج نہیں البتہ پردوں میں ممنوع ہے ۔ اس ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہوا کہ وہ تصاویر جن کی تعظیم نہ کی جائے تو وہ جائز ہیں ۔ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پردوں کو مسندیں (بیٹھنے کے گدے) بنانے کا حکم دیا ۔ اور کھڑکی کے پردے سے جو تکیہ بنا اس کو بھی استعمال کیا ، جبکہ اس پر تصویر بنی ہوئی تھی ۔ لیکن یہ یاد رہے بلا ضرورت گھروں میں تصویریں لٹکانا درست نہیں ۔ حتی کہ مذہبی شخصیات کی بھی ، بلا ضرورت تصاویر کو رواج دینے بچنا چاہیے ۔ (جدید شرعی مسائل،چشتی)
صاحب ھدایہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ولا باس ان يصلَّیَ علی يساط فيه تصاوير لان فی استهانة بالصور ۔ (هداية، 1 : 142)
ترجمہ : جس قالین میں تصاویر بنی ہوں اس پر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اس صورت میں تصویروں کی توہین ہے (نہ کہ تعظیم) ۔
تصاویر کے اوپر سجدہ کرنا جائز نہیں ہے
صاحب ھدایہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ولا يسجُدُ التصاوير لانه يشبه عبادة الصورة ۔ (هدايه، 1 : 142)
ترجمہ : اور تصاویر پر سجدہ نہ کرے کیونکہ اس میں تصویر کی عبادت سے مشابہت ہے ۔
لہٰذا جس مکان میں نمازی کے سامنے کوئی تصویر ہو تو وہ ناجائز ہے اگر دوسری طرف ہو اور نماز میں اس کی تعظیم نہ ہو تو جائز ہے کیونکہ ممانعت تصویر میں اصل علت وہ بت پرستوں سے عبادت میں مشابہت ہے لہٰذا مشابہت کا خوف نہ ہو تو جائز ہے ۔ (فتح القدير، 1 : 362،چشتی)
ڈاکٹر احمد شرباصی لکھتے ہیں : ہم یہ بات بداہتہً سمجھتے ہیں کہ فوٹو گراف کی تصاویر ‘ تحریم کے حکم میں داخل نہیں ہیں ‘ کیونکہ یہ ہاتھ سے بنائی ہوئی تصاریر نہیں ہیں ‘ اور نہ ان کا کوئی جسم ہوتا ہے ‘ ان تصاویر میں صرف عکس اور ظل کو ایک کاغذ پر مقید کردیا جاتا ہے اور چھوٹی لڑکیوں کے لیے گڑیوں کو حرام نہیں کیا گیا اور صورتوں کے وہ مجسمے حرام نہیں ہیں جن کی علم طب یا تعلیم میں ضرورت ہوتی ہے اور وہ تصاویر جن کو تعظیم یا تکریم کے لیے نہ بنایا جائے حرام نہیں ہیں ‘ کیونکہ تصاویر کی تحریم کی بنیاد بت سازی اور بت پرستی کا راستہ بند کرنا ہے ۔ (یسٔلونک فی الدین والحیاۃ ج ١ ص ٦٣٢‘ مطبوعہ دارالجیل بیروت)
علماء ازہر نے اپنے فتاویٰ میں لکھا ہے : ہمارا مختار یہ ہے کہ جس تصویر کا کوئی جسم نہ ہو اس کے بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے ‘ اسی طرح جو تصویر کپڑے ‘ دیوار یا کاغذ پا بنائی جائے اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے اور بےجان چیزوں کی تصویر بنانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ‘ اسی طرح آج کل کیمرے سے کھینچی جانے والی مروجہ تصاویر بھی جائز ہیں خواہ وہ تصویریں جاندار کی ہوں یا بےجان کی ‘ جبکہ وہ تصویریں کسی علمی مقصد پر مبنی ہوں جس سے عام معاشرہ کو فائدہ ہو اور ان تصاویر کی تعظیم ‘ تکریم اور عبادت کا شبہ نہ ہو تو بھر وہ تصویریں بےجان چیزوں کی تصویروں کے حکم میں ہیں اور وہ شرعاً جائز ہیں ۔ (الفتاویٰ الاسلامیہ من دارالافتاء المصر یہ ‘ مطبوعہ قاہرہ مصر ‘ ١٤٠٢ ھ)
اسلام میں جاندار چیزوں کی تصاویر بنانے کی ممانعت ہے اور بےجان چیزوں کی تصویر بنانے کی اجازت ہے ۔ اس لیے انسان کی صرف سینے تک کی تصویر بنانا جائز ہے کیونکہ کوئی انسان بغیر پیٹ کے زندہ نہیں وہ سکتا ‘ اور جن تمدنی اور معاشی امور میں تصویر کی ضرورت پڑتی ہے (مثلاً شناختی کارڈ اور پاسپورٹ وغیرہ) ان میں اس قسم کی آدھی تصویر ہی کی ضرورت ہوتی ہے ‘ اس لیے قسم کی ضروریات میں بغیر پیٹ کے سینہ تک کی آدھی تصویر کھنچوانا جائز ہے ‘ البتہ بلا ضرورت شوقیہ فوٹو گرافی مکروہ ہے ‘ اور تعظیم و تکریم کےلیے فوٹو کھینچنا ناجائز اور حرام ہے ۔
امام نسائی علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : عن ابی ہریرہ قال استاذن جبریل (علیہ السلام) علی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فقال ادخل فقال کیف ادخل وفی بیتک سترفیہ تصاویر فاما ان تقطع رء و سھا اوتجعل بساطا یوطا فانا معشرالملائکتہ لا تدخل بیتا فیہ تصاویر ۔ (سنن نسائی ج ٢ ص ٢٦١‘ طبع کراچی،چشتی)
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : کہ جبریل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت طلب کی آپ نے فرمایا آجاٶ ! انہوں نے کہا میں کیسے آٶں درآں حالِ کہ آپ کے گھر میں ایک پردہ ہے جس میں تصویریں ہیں ‘ پس یا تو آپ ان تصویروں کے سر کاٹ دیے یا اس پردہ کو پیروں تلے روندی جانے والی چادر بنا دیں کیونکہ ہم گروہ ملائکہ اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصاویر ہوں ۔
علامہ ابن حجر عسقلانی شافعی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : فاما لو کانت ممتھنۃ او غیر ممتھنۃ لکھنا غیرت من ھینتھا اما قطعھا من نصفھا او بقطع راسھا فلا امتناع ۔ (فتح الباری ج ١٠ ص ٣٩٢‘ لاہور ‘ ١٤٠١ ھ)
ترجمہ : اور اگر تصویر کو ذلت کے ساتھ رکھا جائے یا بغیر ذلت کے رکھا جائے لیکن اس کی ہیئت کو متغیر کر دیا جائے یا تو وہ تصویر آدھی کاٹ دی جائے یا اس کا سر کاٹ دیا جائے تو پھر کوئی امتناع نہیں ہے ۔
نیز علامہ ابن حجر عسقلانی شافعی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : علامہ ابن عربی (مالکی) علیہ الرحمہ نے کہا ہے کہ تصویر بنانے کے حکم میں خلاصہ یہ ہے کہ جسم والی تصویر بنانا تو بالاجماع حرام ہے ‘ اور اگر تصویر مر تسم یا مر قوم ہو ( یا مطبوع ہو) تو اس میں چار قول ہیں ایک قول یہ ہے کہ وہ مطلقاً جائز ہے جیسا کہ امام بخاری نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو تصویر کپڑے پا بنی ہوئی ہو اس کا حکم مستثنیٰ ہے ۔ (صحیح بخاری جلد ٢ صفحہ ٨٨١،چشتی)
دوسرا قول یہ ہے کہ تصویر بنانا مطلقاً ممنوع ہے حتیٰ کہ قلم سے بنائی ہوئی تصویر بھی ممنوع ہے ‘ تیسرا قول یہ ہے کہ اگر تصویر میں مکمل ہیئت اور شکل ہو تو حرام ہے اور اگر اس کا سر کاٹ دیا جائے یا اس کے اجزاء متفرق ہوں تو پھر جائز ہے ‘ علامہ ابن عربی علیہ الرحمہ نے کہا یہ قول زیادہ صحیح ہے ‘ چوتھا یہ ہے کہ اگر تصویر کو نیچے بچھایا جائے اور ذلت کے ساتھ رکھا جائے تو پھر جائز ہے اور اگر تصویر کو لٹکایا جائے تو پھر ناجائز ہے ۔ (فتح الباری ج ١٠ ص ٣٩١‘ لاہور ‘ ١٤٠١ ھ)
مصر کے بعض علماء لکھتے ہیں : ہمارے علماء نے یہ تصریح کی ہے کہ جاندار کا فوٹو گراف اگر بڑا ہو اور اس میں اس کے تمام اعضاء مکمل ہوں تو اس کا بنانا مکروہ تحریمی ہے ‘ اور اگر فوٹو گراف چھوٹا ہو جس میں غور سے دیکھے بغیر اعضاء کی تفصیل معلوم نہ ہو سکے ‘ یا فوٹو تو بڑا ہو لیکن اس میں وہ اعضا نہ ہوں جن کے بغیر حیات ناگزیر ہے تو اس فوٹو گراف کا بنانا مکروہ نہیں ہے ۔ (الفتاویٰ الاسلامیہ ج ٤ ص ١٢٨٠‘ مصر ‘ ١٤٠١ ھ)
علامہ نور اللہ بصیرپوری علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : حج کےلیے عازم حج کے پورے جسم کا فوٹو ضروری نہیں بلکہ چہرے یا قعرے زائد کا فوٹو حکومت نے مصالح انتظامیہ کےلیے ضروری قرار دیا ہے ‘ چناچہ عموماً پاسپورٹوں پر ایسے ہی فوٹو چسپاں کیے جاتے ہیں جو نصف سینہ تک کے ہوتے ہیں حالانکہ انسان نصف سینہ یا سینہ کے نیچے سے کاٹ دیا جائے تو زندہ نہیں رہ سکتا ‘ لہٰذا یہ فوٹو ایسے جسم کا فوٹو ہوگا جو شجر و حجر کی طرح بےجان ہے ۔ (الی قولہ) بہر حال ان ارشادات کی روشنی میں حج فرض وغیرہ کےلیے ‘ ایسے فوٹو کی اجازت ہے جو جسم کے ایسے حصہ کا ہو جو صرف اتنا ہی زندہ نہ رہ سکتا ہو ‘ (الی قولہ) ہاں یہ بھی ضروری ہے کہ بلا ضرورت فوٹو یہ کھنچوائے جائیں ۔ (فتاویٰ نوریہ جلد ٢ صفحہ ١٧١- ١٦٩‘ لاہور ‘ ١٤٠٨ ھ،چشتی)
ویڈیو اور ٹی وی کی تصاویر کا شرعی حکم
بعض علماء اہل سنت نے یہ کہا کہ آئینے اور ٹی وی کے ناپائیدار عکوس کو حقیقی معنوں میں تصویر ‘ تمثال ‘ مجسمہ ‘ اسٹیچو وغیرہ کہنا صیحح نہیں ہے ‘ اس لیے کہ پائیدار ہونے سے پہلے عکس صرف عکس ہی رہتا ہے ‘ تصویر نہیں بنتا اور جب اسے کسی طرح سے پائیدار کر لیا جائے تو وہی عکس تصویر بن جاتا ہے ‘ موجودہ معروف اور متعارف آئینہ بالکلیہ انسانی صنعت گری ہے لہٰذا اس میں بھی عکوس کے ظہور میں قطعی طور پر جعل انسانی کا دخل ہے اس لیے اگرچہ ٹی وی کے آئینہ پر عکوس کے ظہور میں جعل انسانی دخیل ہے تب اس کا حکم آئینہ کے حکم کی طرح ہی ہونا چاہیے کیونکہ غیر قارونا پائیدار ہونے میں دونوں بالکل ایک طرح ہیں ۔ اس تحقیق کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ویڈیو اور ٹی وی کے استعمال کرنے کا معاملہ آئینوں کے استعمال کرنے کی طرح ہے ‘ جس طرح آئینہ کے اندر ہر اس چیز کو دیکھا جا سکتا ہے جس کا دیکھنا سننا اس کے بغیر بھی جائز ہو ۔ رہ گئے وہ امور جن کا دیکھنا سننا ناجائز و حرام ہو وڈیو اور ٹی ۔ وی کے ذریعہ بھی ان کا سننا اور دیکھنا ناجائزو حرام ہے ‘ غیر محرم مرد و زن کا عام میل جول شرعاً حرام ہے اور فلموں میں بھی دکھایا جاتا ہے اس لیے یہ فلمیں سینما میں دیکھی جائیں یاوی سی آر کے ذریعہ ٹی وی پر بہر حال حرام ہیں ۔
تمام مکاتبِ فکر کی ملّی مجلس شرعی کا فتویٰ : ⬇
اسلامی مقاصد کےلیے الیکٹرانک میڈیا کا استعمال جائز ہے ! سارے مسالک کے علمائے کرام کا متفقہ فیصلہ ۔
کنوینر : مولانا ڈاکٹر محمدسرفرازنعیمی (شہید رحمۃ اللہ علیہ)
ملی مجلس شرعی کے زیراہتمام ١٣/اپریل ٢٠٠٨ء کو سارے مسالک کے علمائے کرام کا ایک اجتماع جامعہ اسلامیہ نزد ٹھوکر نیاز بیگ لاہور میں مولانا ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب (شہید رحمۃ اللہ علیہ) کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں تصویر کی شرعی حیثیت کے پس منظر میں الیکٹرانک میڈیا کے اسلامی مقاصد کے لیے استعمال پر بحث ہوئی اور خصوصاً یہ مسئلہ زیرغور آیا کہ علمائے کرام کو ٹی وی کے دینی پروگراموں میں حصہ لینا چاہیے یانہیں ؟ اور ایسے ٹی وی پروگرام تیار کرنا جائز ہے یا نہیں جن میں شرعی ممنوعات سے اجتناب کیا گیا ہو ؟
اجلاس دن بھرجاری رہا ، جس میں مختلف شہروں : ملتان ، سرگودھا ، فیصل آباد ، گوجرانوالہ اور لاہور کے سرکردہ علماء نے بحث میں حصہ لیا ۔ اجلاس کے آخر میں متفقہ طور پر یہ قرارداد پاس کی گئی کہ دعوت واصلاح اور اسلامی مقاصد کے حصول خصوصاً اسلام کے دفاع اور دین مخالف پروپیگنڈے کا جواب دینے کےلیے الیکٹرانک میڈیا کا استعمال جائز ہے ، خواہ بہ اِکراہ ہی کیوں نہ ہو ۔ اس فیصلے پر جن سرکردہ علماء کرام نے دستخط کیے ، ا ن میں سے چند اہم یہ ہیں : ⬇
مولانا ڈاکٹر سرفرازنعیمی (شہید رحمۃ اللہ علیہ) ، علاّمہ حافظ عبدالرحمن مدنی ، علاّمہ حافظ فضل الرحیم جامعہ اشرفیہ ، علاّمہ عبدالمالک منصورہ ، مولانا مفتی ڈاکٹر غلام سرور قادری (رحمۃ اللہ علیہ) لاہور ، علاّمہ رشید میاں تھانوی جامعہ مدنیہ لاہور ، علاّمہ حافظ صلاح الدین یوسف ، علاّمہ عبدالعزیز علوی فیصل آباد ، مولانا مفتی شیر محمد خان بھیرہ ، مولانا مفتی محمد خان قادری ، مفتی محمد حفیظ اللہ نقشبندی ملتان ، علاّمہ غلام حسین ملتان ، علاّمہ مفتی محمد طاہر مسعود سرگودھا ، مولانا حافظ حسن مدنی لاہور ، ڈاکٹر محمد امین رابطہ سیکرٹری ۔
اس سیمینار میں تین مجالس بالترتیب ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی (شہید رحمۃ اللہ علیہ مہتمم جامعہ نعیمیہ لاہور) ، علاّمہ حافظ عبد الرحمن مدنی مہتمم جامعہ لاہور الاسلامیہ رحمانیہ اور علاّمہ حافظ فضل الرحیم مہتمم جامعہ اشرفیہ ، لاہور کے زیر صدارت منعقد ہوئیں جس میں : ⬇
اہلسنت و جماعت حنفی بریلوی مکتبِ فکر سے
(1) مفتی محمد خاں قادری مہتمم جامعہ اسلامیہ ، ٹھوکر نیاز بیگ ، لاہور
(2) ڈاکٹر مفتی غلام سرور قادری (رحمۃ اللہ علیہ) ، مہتمم جامعہ رضویہ، ماڈل ٹاؤن، لاہور
(3) مفتی شیر محمد خاں ، شیخ الحدیث دار العلوم محمدیہ غوثیہ ، بھیرہ
(4) مفتی غلام حسین ، شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ خیرالمعاد ، ملتان
دیوبندی مکتبِ فکر سے
(1) علاّمہ رشید میاں تھانوی ، مہتمم جامعہ مدنیہ ، لاہور
(2) قاری احمد میاں تھانوی ، نائب مہتمم دار العلوم اسلامیہ ، لاہور
(3) علاّمہ محمد یوسف خاں ، اُستاذِ حدیث جامعہ اشرفیہ لاہور
(4) علاّمہ عتیق الرحمن ، مہتمم جامعہ عبد اللہ بن عمر ، لاہور
(5) مفتی محمد طاہر مسعود ، مہتمم جامعہ مفتاح العلوم ، سرگودھا
غیرمقلد اہل حدیث مکتبِ فکر سے
(1) علاّمہ حافظ عبد العزیز علوی ، شیخ الحدیث جامعہ سلفیہ، فیصل آباد
(2) حافظ صلاح الدین یوسف ، مدیر ترجمہ وتحقیق ، دارالسلام ، لاہور
(3) علاّمہ محمد رمضان سلفی ، نائب شیخ الحدیث جامعہ لاہور الاسلامیہ رحمانیہ
(4) علاّمہ محمد شفیق مدنی ، اُستاذِ حدیث وفقہ ،جامعہ لاہور الاسلامیہ ، لاہور
(5) شیخ الحدیث مولانا عبد المالک مہتمم مرکز ِعلوم اسلامیہ ، منصورہ لاہور ۔
اجلاس کی ریکارڈنگ 'ملی مجلس شرعی' کے سیکرٹری ڈاکٹر محمد امین صاحب سے حاصل کی جا سکتی ہے ۔
شیخُ الاسلام حضرت سیّد مدنی میاں مدظلہ العالی فرماتے ہیں کہ : علمائے کرام کی تقاریر ، نیز مذہبی اور دینی پروگرام کی نشرو اشاعت کےلیے ویڈیو کا استعمال بالکل جائز ہے بلکہ جن علاقوں میں کوئی گھر ٹی وی سے خالی نہ ہو اور لوگ غیر شرعی پروگرام دیکھ دیکھ کر اپنے اخلاق و کردار کو خراب کر رہے ہوں نیز ان کے بچے بھی دیکھا دیکھی اسی کی روش پر چل رہے ہوں ، نہایت مناسب عمل ہو گا اگر ویڈیو کے ذریعہ خالص دینی مذہبی علمی اخلاقی پروگراموں کو گھر گھر پہنچا کر ان کے افکار و نظریات کی اصلاح اور اعمال و افعال کی درستگی کی راہ نکالی جاۓ اور اس کے ذریعے تبلیغ و ہدایت اور تعلیم و اصلاح کا کام انجام دیا جائے ۔ اسی طرح اگر لوگوں کو ایک طرف ٹی وی کے صحیح استعمال سے روشناس کرایا جا سکتا ہے تو دوسری طرف صرف عظیم تعمیری کام بھی انجام دیے جا سکتے ہیں اور بھی حدود شرع میں رہ کر ۔ ھذا ما ظھر لی ۔ (ٹی وی اور ویڈیو کا شرعی استعمال صفحہ ١٠)
شیخُ الاسلام حضرت سیّد مدنی میاں مدظلہ العالی کے موقف کی تاںٔید کرتے ہوئے حضرت علامہ مفتی ابو الحسن محمد قاسم ضیاء القادری صاحب قبلہ تحریر فرماتے ہیں کہ : ویڈیو کے مسئلے میں علمائے کرام کی آراء مختلف ہیں چنانچہ بعض علمائے کرام نے اسے تصویر قرار دیتے ہوئے ناجائز کہا اور ان کے دلائل وہ احادیث ہیں جو تصویر کشی کے وعیدوں پر مشتمل ہیں ۔ اور اکثر علمائے کرام نے ویڈیو کے تصویر ہونے کی نفی کی اور اسے آئینے کے عکس کی مثل قرار دیتے ہوئے جائز قرار دیا ۔ لہذا جاںٔز امور کی ویڈیو جائز ہوگی ۔ (فتاوی یورپ و برطانیہ صفحہ ٤١٧،چشتی)
شیخُ الاسلام حضرت سیّد مدنی میاں مدظلہ العالی کے نزدیک ویڈیوز پر نظر آنے والی صورتیں تصویر نہیں ہیں بلکہ آںٔینہ میں نظر آنے والی عکسی صورت کی مثل ایک عکس ہے اور اس کی حرمت بحکم شرع ثابت نہیں ۔ لہٰذا دین اسلام کی اشاعت و ترویج کےلیے جاںٔز امور کی ویڈیو بنانا بنوانا اور دیکھنا دکھانا جاںٔز ہے ۔ اس لیے جو علماء دلائل کی بناء پر فوٹو اور ٹی وی کی تصاویر کے جواز کے قائل ہیں ان پر لعن طعن نہیں کرنی چاہیے ۔
اسی طرح جدید آلات میں فی نفسہ کوئی خوبی ہے نہ خرابی ، ان کا استعمال انہیں اچھا یا بُرا بناتا ہے ۔ اگر خطبہ جمعہ یا مسجد میں منعقد ہونے والے کسی پروگرام کی ویڈیوگرافی کی جائے ، پھر اسے یوٹیوب پر اَپ لوڈ کردیا جائے ، تاکہ پوری دنیا میں اس سے استفادہ عام ہو ، تو اس عمل کو ناجائز نہیں کہا جاسکتا ۔ یہ بات صحیح ہے کہ اسلام میں تصویر سازی حرام ہے ، اس بنا پر مجسّمے تیار کرنا ، اسٹیچو کھڑے کرنا ، جانداروں کی تصویریں بنانا ، انہیں دیواروں یا نمایاں مقامات پر آویزاں کرنا جائز نہیں ، لیکن موبائل یا کیمرے سے ویڈیو بنانے پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا . یہ حقیقت میں کسی چیز کا عکس ہوتا ہے ، جسے مشین کے ذریعے روک لیا جاتا ہے ، اس پر جواز یا عدمِ جواز کا حکم اس کے استعمال کو دیکھ کر لگایا جائے گا ، چنانچہ فحش اور گندی چیزوں یا پروگراموں کی ویڈیو گرافی کرنا ، انہیں اَپ لوڈ کرنا اور انہیں دیکھنا سب ناجائز ہوگا ، جبکہ اچھے دینی ، سماجی اور تعلیمی پروگراموں کی ویڈیو گرافی کرنا ، انہیں اَپ لوڈ کرنا اور انہیں دیکھنا جائز ہوگا ۔ یہی بات مسجد میں ہونے والے دینی پروگراموں اور خطباتِ جمعہ کے بارے میں بھی کہی جائے گی کہ ان کی ویڈیوگرافی کرنا اور ان سے افادہ و استفادہ کے مواقع فراہم کرنا بالکل جائز ہے ۔ البتہ اس معاملے میں دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے : ⬇
(1) مسجد میں ویڈیو گرافی کے وقت مسجد کے تقدس اور احترام کا خصوصی خیال رکھا جائے ، وہاں ویڈیو گرافی اتنی خاموشی اور سکون سے کی جائے کہ مسجد کی پاکیزہ فضا مجروح نہ ہو ، وہاں شور و غل اور دوڑ بھاگ نہ ہو ، نمازی بے سکونی محسوس نہ کریں اور ان کی نمازوں میں خلل نہ ہو ۔
(2) کسی جائز کام کی زیادتی اور اس کا بلاضرورت استعمال اسے نا پسندیدہ بنا دیتا ہے ، اس لیے اس جدید ٹیکنالوجی کا استعمال صرف حسبِِ ضرورت کرنا چاہیے ، اس میں افراط سے پیسہ بھی ضائع ہوتا ہے اور وقت بھی اور یہ دونوں چیزیں اللہ عزّوجل کی امانت ہیں ، جن کے ضائع کرنے پر مؤاخذہ ہو گا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment