دو قومی نظریہ اور موجودہ پاکستان حصّہ چہارم
نظریہ پاکستان حقیقت میں وہی نظامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے جس میں سب سے زیادہ انسانیت کے حقوق پر توجہ دی جاتی ہے ۔ جو انسان ساز ، انسان دوست اور انسان نواز ہے ۔ جس کی اساس ’’لا اله الا اللّٰه محمد رسول اللّٰه‘‘ ہے ۔ یہی وہ کلمہ طیبہ ہے جس کے اقرار و اعلان سے انسان کے ظاہرو باطن میں انقلاب برپا ہوجاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے اقرار کے ساتھ ساتھ تمام معبودانِ باطلہ اور ظالمانہ قوانین اور انسانیت سوز نظام کا انکار بھی ہوتا ہے ۔
برصغیر پاک و ہند میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے دن بہ دن طاقت پکڑنے کے سبب مسلمان اخلاقی اور معاشی طور پر کمزور ہوتے گئے ۔ ٹیپو سلطان اور نواب سراج الدولہ جیسے سلاطین نے دکن اور بنگال میں اسلامی تشخص کو سنبھالا دینے کی کوششیں جاری رکھیں لیکن ان کی زندگیوں کے چراغ گل ہوتے ہی مسلمان غلامی کی زنجیروں میں جکڑے گئے ۔
انگریزوں نے اورنگزیب عالمگیر کے زمانے سے ہی برعظیم پاک و ہند میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی صورت میں جو قدم جمانا شروع کیے تھے، وہ بالآخر کامیاب ہوئے اور مسلمانوں کے داخلی خلفشار اور معاشی بدحالی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں کی دولت سمیٹنے کے ساتھ ساتھ یہاں کی سیاست اور حکومت پر بھی قبضہ کرلیا ۔
مسلمانوں کی سیاسی موت تو ہوگئی لیکن وہ اسلامی تشخص جو مسلمانوں کی ثقافت سے ظاہر ہوتا تھا وہ کبھی ختم نہ ہوا۔ اس اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے میں ان صوفیاء کرام کا کردار ہے جو سیاست و حکومت سے ماوراء ہوکر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے رہے اور قریہ قریہ، نگر نگر لوگوں کے دلوں کی دنیا تبدیل کرتے رہے اور ان کو ملتِ اسلامیہ کی عظیم برادری میں شامل کرتے رہے ۔ اہلِ طریقت صوفیاء کرام نے اپنے حسنِ اخلاق ، محبت، شفقت، عجز و نیاز، تواضع و انکساری اور جذبہ ایثار سے رنگ و نسل کے امتیاز اور غرور کو توڑا اور جذبۂ اخوت و محبت کو فروغ دیا اور لوگوں کو دینِ اسلام کی لڑی میں پروتے رہے ۔ اسی جذبہ جاوداں نے نظریہ پاکستان کو تقویت دی ۔
مرشدِ کامل حضرت ابوالحسن علی بن عثمان ہجویری ایسے عظیم صوفیاء کرام رحمہم اللہ کے ہر اول دستہ سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے مملکتِ پاکستان کی بنیاد رکھنے کا اہم فریضہ انجام دیا۔ علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے نزدیک آپ نے سرزمین ہند میں شجرِ اسلام کا بیج بویا : ⬇
سید ہجویر مخدومِ امم
مرقدِ او پیر سنجر را حرم
بندھاہے کوہسار آساں گسیخت
در زمینِ ہند تخم سجدہ ریخت
خاکِ پنجاب از دمِ او زندہ گشت
صبحِ ماز مہرِ او تابندہ گشت
(علامه محمد اقبال کلیات اقبال فارسی صفحہ 51،چشتی)
سید ہجویر نے تبلیغِ اسلام کے راستہ میں اسوۂ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی سے کامیابیاں حاصل کیں۔ لاہور اور پنجاب میں تبلیغِ دین کے ساتھ ساتھ نظریہ پاکستان کی بھی راہنمائی فرمائی ۔
سید ہجویر کے ساتھ دیگر صوفیاء کرام رحمہم اللہ بھی یہی فریضہ سرانجام دیتے رہے۔ پھر حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری برصغیر پاک و ہند میں تشریف لائے اور اجمیر کی سرزمین پر بیٹھ کر لاکھوں لوگوں کو مشرف بہ اسلام کیا۔ پھر پنجاب میں اہل چشت کے امام حضرت بابا فریدالدین گنج شکر پاکپتن شریف جو کبھی ’’اجودہن‘‘ کہلاتا تھا، میں تشریف لائے اور دین حق کا پیغام پہنچایا ۔
اس طرح صوفیاء کرام کے اسماء کی ایک طویل فہرست ہے جو اس خطے میں آکر اسلام کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے رہے۔ بالآخر جب برصغیر پاک و ہند کے لوگ انگریزی غلامی میں گھر گئے تو پھر بھی یہی نظریہ کام آیا جو رفتہ رفتہ ایک تحریک کی صورت اختیار کرگیا اور پھر پاکستان کے خدوخال واضح ہونا شروع ہوئے ۔
غلامی کے دور میں مختلف مسلم قائدین مسلمانوں کے خاص اسلامی تشخص کو اجاگر کرتے رہے اور اس طرف توجہ دلاتے رہے کہ مسلمان ایک خاص قوم ہیں، جن کا سیاسی، معاشی،معاشرتی اور اخلاقی و سماجی نظام کسی انسان کا وضع کردہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان کردہ ہے۔ جب مسلمانوں میں ایک الگ وطن کا نظریہ پروان چڑھنے لگا تو متحدہ قومیت کے نام پر ’’ہندو مسلم بھائی بھائی‘‘ کا نعرہ لگایا گیا۔ ہندوئوں نے جس وقت یہ جال پھینکا تو کئی مسلمان قائدین بھی اس سازش کا شکار ہوگئے اور ہندو مسلم اتحاد کی بنیاد جغرافیہ کو قرار دیا اور کہا گیا کہ چونکہ ہماری زمین ایک ہے، زبان ایک ہے، رنگ ایک ہے، لہٰذا ہم ہندو مسلم ایک ہیں۔
نیشنلزم کے اس نعرہ کو حضرت علامہ اقبال نے بڑے مضبوط دلائل سے مسترد کردیا تھا اور وہ صرف اسلامی قومیت کا پرچار کرتے رہے۔ مسلم ہندوستان کا جو تصور علامہ اقبالؒ نے دیا، بعد میں اسے تصورِ پاکستان یا نظریہ پاکستان کہا جانے لگا ۔ (چشتی)
مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اپنی رحلت سے کچھ عرصہ قبل حضرت علامہ محمد اقبال نے ارشاد فرمایا : ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں، ان میں کوئی چیز بھی مشترک نہیں، میں واضح الفاظ میں کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ہندوستان کی سیاسی کشمکش کا حل اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہر جماعت کو اپنی اپنی مخصوص قومی اور تہذیبی بنیادوں پر آزادانہ شوریٰ کا حق حاصل ہونا چاہئے ۔
علامہ اقبال نے اپنے خطبہ الٰہ آباد 1930ء اور دیگر خطبات میں اس بات کو بڑی شدو مد سے واضح کیا کہ ’’مسلمان‘‘ ایک قوم کا نام ہے، ان کو علیحدہ ایک وطن کی ضرورت ہے اور پھر ان علاقوں کی بھی نشاندہی فرمائی، جہاں مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک آزاد اسلامی ریاست بن سکتی ہے۔
علامہ اقبال نے اپنے خطبہ الٰہ آباد 1930ء میں ارشاد فرمایا : مجھے ایسا لگتا ہے کہ اور نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بالآخر ایک اسلامی ریاست قائم کرنی پڑے گی۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسلام بحیثیت تمدنی قوت کے زندہ رہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرے۔ میں صرف ہندوستان میں اسلام کی فلاح و بہبود کے خیال سے ایک منظم اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ کرتا ہوں ۔
نظریۂ پاکستان اور قائداعظم
قائداعظم کے ارشادات کی روشنی میں بھی ایک جداگانہ قومیت کے تصور اور دو قومی نظریے کی بنیاد پر ایک آزاد اسلامی ریاست کا جو خاکہ سامنے آتا ہے ، وہ بھی واضح ہے ۔ (چشتی)
23 مارچ 1940ء کو لاہور میں مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس جس میں قرار داد لاہور منظور کی گئی تھی، قائداعظم نے فرمایا:
’’اسلام اور ہندو دھرم محض مذاہب نہیں بلکہ درحقیقت دو مختلف معاشرتی نظام ہیں۔ چنانچہ اس خواہش کو خواب و خیال ہی کہنا چاہئے کہ ہندو مسلم مل کر ایک مشترکہ قومیت کی تخلیق کرسکیں گے۔ یہ لوگ آپس میں شادی بیاہ نہیں کرتے، نہ ایک دستر خوان پر کھانا کھاتے ہیں۔ میں واشگاف الفاظ میں کہتا ہوں کہ یہ دو مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان تہذیبوں کی بنیاد ایسے تصورات اور حقائق پر رکھی گئی ہے جو کہ ایک دوسرے کی ضد اور ایک دوسرے کے متصادم ہیں ۔
اس طرح 19 مارچ 1944ء کو طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے قائدِ اعظم نے فرمایا : اسلام ہمارا راہنما ہے اور ہماری زندگی کا مکمل ضابطہ ہے جس میں کسی سرخ یا پیلے پرچم کی ضرورت نہیں اور نہ ہمیں سوشلزم ، کمیونزم ، نیشنلزم یا کسی دوسرے ازم کی ضرورت ہے ۔
قائداعظم نے برصغیر پاک و ہند کے علماء کرام، مشائخ عظام اور مسلمانوں کے جذبات اور نظریات کی تصویر کشی کرتے ہوئے جس پاکستان کا خواب دیکھا اور جس اسلامی ریاست کے قیام میں کامیاب ہوئے، اس کے خدوخال اور نظام کے بارے میں بابائے قوم، بانی پاکستان کے ارشادات تاریخ کا حصہ ہیں ۔
ایک بار پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنے خطاب میں قائداعظم پر طنز کرتے ہوئے کہا : آج کے سائنسی دور میں جبکہ مذہب، انسانی مسائل کے حل میں ناکام ہوچکا ہے، ہندوستان کا ایک سیاسی دانشور، مذہب کے نام پر ایک الگ ریاست بنانے کا مطالبہ کررہا ہے ۔
قائداعظم نے فوراً اس کا جواب دیا : پنڈت نہرو نے درست کہا کیونکہ ہر شخص اپنے بارے میں صحیح جانتا ہے ، ممکن ہے ان کا مذہب ناکام ہو چکا ہو لیکن ہمارے معاملے میں ایسا نہیں ، بلکہ اسلام تمام عصری تقاضوں کو پورا کرتا ہے اور ہر دور میں زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔
قائدِ اعظم محمد علی جناح جنہوں نے مسلم قوم کی قیادت کرتے ہوئے شبانہ روز فکری، جسمانی اور ذہنی مشقت برداشت کرتے ہوئے دنیا کی دو منظم ترین اقوام سے چومکھی لڑائی لڑکر اپنی غلام قوم کےلیے جس ایک آزاد وطن کو حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی، اس کے قیام سے بہت ہی پہلے قائداعظم نے اس کے دستور کے بارے میں دو ٹوک الفاظ میں یہ اعلان فرمایا : جب آپ جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو مجھے شبہ ہوتا ہے کہ آپ نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا ۔ ہم نے تو جمہوریت تیرہ سو سال پہلے ہی سیکھ لی تھی ۔
اس طرح 25 جنوری 1948ء کو عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر اپنے پیغام میں انہوں نے فرمایا : کون کہتا ہے کہ پاکستان کے آئین کی اساس شریعت پر نہیں ہوگی۔ جو لوگ ایسا کہتے ہیں وہ مفسد ہیں۔ ہماری زندگی میں بھی اسلامی اصولوں پر اسی طرح عمل ہوتا ہے جس طرح تیرہ سو سال پہلے ہوتا تھا۔ اسلام نے جمہوریت کی راہ دکھائی ہے، مساوات اور انصاف کا سبق دیا ہے۔ لہٰذا اسلامی اصول پر عمل کرنے پر ہم ہر ایک کے ساتھ انصاف کرسکیں گے ۔
قائداعظم نے پشاور میں جنوری 1948ء میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ہم نے پاکستان کا مطالبہ محض زمین کا الگ ٹکڑا حاصل کرنے کےلیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے کہ جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں ۔ اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت و وفا کشی کا مرجع خدا تعالیٰ کی ذات ہے، جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ قرآن کریم کے احکام ہی ریاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کر سکتے ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں اسلامی حکومت قرآنی اصول و احکام کی حکومت ہے ۔
پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں قائداعظم نے یہ خطاب کیا جس میں حلف برداری اور سبکدوش ہونے والے انگریز وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن سے انتقالِ اقتدار کی کارروائی بھی شامل تھی۔ قائداعظم نے واضح اور دو ٹوک الفاظ میں ارشاد فرمایا:حکومت کا پہلا فرض نظم و ضبط قائم رکھنا ہے تاکہ لوگوں کے جان و مال، عزت اور مذہبی عقائد کا تحفظ ہوسکے ۔ اس وقت جو بڑی لعنتیں مسلط ہیں ان میں رشوت خوری اور بے ایمانی بھی شامل ہیں، ہمیں ان کے فولادی پنجے کو توڑنا ہوگا۔ چور بازاری اور نفع خوری ایسی لعنتیں ہیں جو عوام کےلیے سخت مصیبت کا باعث ہیں ۔ آپ کو اس عفریت سے بھی جنگ کرنا ہے۔ یہ معاشرتی جرم ہے ، چور بازاری کرنے والوں کو سخت ترین سزائیں ملنی چاہئیں ۔ جو چیز میری روح کو سخت تکلیف دیتی ہے وہ ہے بدعنوانی، بددیانتی اور رشوت خوری۔ میں کسی قسم کی رشوت اور بدعنوانی کو برداشت نہیں کر سکتا ۔ (چشتی)
مارچ 1948ء کو قائداعظم مشرقی پاکستان کے دورے پر پہنچے تو وہاں بھی انہوں نے فوجی اور سول افسران کے کئی اجتماعات سے خطاب کیا اور ہر موقع پر مملکت کے ملازمین سے ان کا خطاب امانت و دیانت اور اپنے عوام کی خدمت کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے ہی ہوتا کیونکہ ان کی بصیرت انہیں یہ بتا رہی تھی کہ مملکت کے ملازمین کو کنٹرول کرنا اور راہِ راست پہ لانا بے حد ضروری کام ہے تاکہ انتظامیہ بدعنوانی اور نااہلی کے جراثیم سے پاک رہے اور عہد غلامی کی قباحتیں ، افسرانہ کرّوفر اور مملکت کے حقیقی مالکوں، یعنی عوام پر ان کے رعب وغیرہ کی ناروا روایات ختم ہوں ۔
قائدِ اعظم سیاست میں شمولیت سے لے کر اپنی زندگی کی آخری سانس تک اتفاق و اتحاد کی بات کرتے رہے۔ پاکستان بننے کے بعد بھی آپ ہمیشہ اتحاد کی ہی تلقین کرتے رہے ۔
12 اپریل 1948ء کو اسلامیہ کالج کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : یہ نہ بھولیے کہ ہم ایک ایسی مملکت کی تعمیر کررہے ہیں، جسے پوری دنیائے اسلام کی قسمت بننا ہے، لہٰذا ہماری نظر وسیع ہونی چاہیے ۔ ایسی وسیع کہ وہ صوبائی حد بندیوں، محدود قوم پرستی اور نسلی تعصبات سے بالا تر ہو اور اتحاد اس کا مرکزی نقطہ ہو ۔
17 اگست 1948ء کو قوم کے نام عید کے پیغام میں انہوں نے فرمایا : مجھے امید ہے کہ سات کروڑ انسانوں کی یہ متحد قوم جس عزم و استقلال کی حامل ہے اور جس کی تاریخ تہذیب عالم میں شاندار حیثیت رکھتی ہے، اپنا کام جاری رکھے گی اور کامیابی سے ہمکنار ہوگی۔ ہمیں اپنا یہ قول یاد رکھنا چاہئے۔۔۔ اتحاد، ایمان اور تنظیم ۔
قائدِ اعظم اپنی فوج کو مضبوط اور مستحکم دیکھنا چاہتے تھے۔ دسمبر 1947ء کو کراچی میں پاکستان کی بری ، بحری اور فضائی افواج کے افسران سے خطاب فرمایا : خدا نے ہمیں یہ سنہری موقع عطا فرمایا کہ ہم یہ ثابت کر دکھائیں کہ ہم واقعی ایک نئی مملکت کے معمار ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ خدارا! کہیں لوگ ہمارے متعلق یہ نہ کہیں کہ ہم یہ بار اٹھانے کے قابل ہی نہ تھے۔ آیئے! ہم پاکستان کی تعمیر و ترقی کا عزمِ مصمم کریں، اسے ایک ایسی عظیم مملکت بنائیں جو ہمارے آنے والی نسلوں کے رہنے کے قابل ہو۔ اس شاندار نصب العین کا تقاضا ہے۔۔۔ کام، کام اور بس کام ۔
قائدِ اعظم کے ان ارشادات کی روشنی میں نظریہ پاکستان کی وضاحت کچھ یوں ہوتی ہے کہ نظریہ پاکستان مندرجہ ذیل نکات پر مشتمل ہے : ⬇
اسلامی تشخص و قومیت کی اساس
جداگانہ تہذیبوں کا تصور
دو قومی نظریہ
قرآنی اصول و احکام کی حکومت
غیر اسلامی نظاموں سے بیزاری
جمہوریت
مساوات اور معاشی انصاف
قومی اتحاد ویکجہتی
مسلمانوں کی ایک طویل جدوجہد اور کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانانِ برعظیم پاک و ہند کو 14 اگست 1947ء کو پاکستان کی صورت میں ایک نعمتِ عظیم عطا فرمائی۔ جس کے لیے مسلمانوں نے ہر قسم کی قربانیاں دی تھیں۔ تحریک پاکستان کی خون آشام داستان کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ایک آزاد وطن کے حصول کے لیے جب ’’لے کے رہیں گے پاکستان، بن کے رہے گا پاکستان‘‘ کا نعرہ بلند کیا گیا تو پھر عوام نے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ ہمارے عظیم آبائو اجداد نے ہمت نہ ہاری۔ ان کے عزمِ مصمم اور جہدِ مسلسل کا نتیجہ تھا کہ بالآخر قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں ایک آزاد مسلم جمہوری ریاست کا قیام عمل میں آیا ۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قائداعظم کے ارشادات کی روشنی میں نظریہ پاکستان کا تحفظ کرتے ہوئے اس کی بقاء اور ترقی کےلیے اپنا ہر ممکن کردار ادا کریں ۔ اللہ تعالیٰ اس کرۂ ارضی کو تاقیامِ قیامت آباد و شاد رکھے آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment