Thursday, 10 August 2023

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں حصہ ہفتم

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں حصہ ہفتم
اکثر اوقات رفع الیدین کے قائل غیرمقلدین کہتے ہیں کہ ترکِ رفع الیدین پر کوئی صحیح روایت نہیں ہے ۔ اگرچہ یہ فروعی مسئلہ ہے جیسا کہ ہم پہلے حصوں میں عرض کر چکے ہیں ہیں ہیں ، اس سے عقیدے پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ کسی کی نماز کا قبول ہونا رفع الیدین کرنے یا نہ کرنے پر مشروط نہیں ہے ۔ لیکن اس فروعی مسئلے کی بنیاد پر کسی دوسرے پر فتوی بازی کرنا غلط ضرور ہے ۔ ہمارا مقصد فقط اتنا ہے کہ احباب کو معلوم ہو جائے کہ ترکِ رفع الیدین پر صحیح روایات بھی موجود ہیں ۔ لہٰذا اگر کوئی رفع الیدین نہيں کر رہا تو وہ بھی صحیح حدیث پر ہی عمل کر رہا ہے : (أبو حنيفة) (عن) حماد (عن) إبراهيم (عن) الأسود أن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه كان يرفع يديه في أول التكبير ثم لا يعود إلى شيء من ذلك ويأثر ذلك عن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم ۔
ترجمہ : حضرت سیدنا امام ابو حنیفہ حماد سے ، وہ ابراہیم سے وہ اسود سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم صرف پہلی تکبیر میں رفع یدین کرتے تھے پھر اس کو لوٹاتے نہیں تھے اور وہ (حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) اس عمل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عمل سے ثابت کرتے تھے ۔

اس روایت کی سند امام بخاری و مسلم علیہما الرّحمہ کے اصول پر صحیح ہے ۔ سند میں موجود تمام راوی بخاری و مسلم سمیت دیگر محدثین کے رواۃ میں شامل ہيں ، اگر ان کو ضعیف تسلیم کر لیا جائے تو پھر اس ضعف کا حکم اس راوی کی تمام روایات پر لاگو ہو گا ، نتیجہ نکلے گا کہ ان راویوں کی تمام احادیث ضعیف ہیں ۔ ایک اور اصول ، اور یہ متفقہ اصول ہے کہ جس راوی کی تعدیل بیان کی جائے تو اس پر بحث نہیں ہو گی کہ تعدیل کیوں ہے ، اگر جرح ہو ، راوی کو ضعیف کہا جائے تو پھر بحث ہو گی کہ ضعف کیا ہے اور جرح کی وجہ کیا ہے ۔ راوی کے صحیح ہونے کے لئےفقط اتنا کافی ہے کہ آئمہ اس کی تعدیل بیان کر دیں ۔ یہ متفقہ اصول ہے، کسی کے ہاں اختلاف نہیں ۔

امام ابو حنیفہ نے حماد رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ، حماد کون ہیں ، ملاحظہ فرمائيں : حَمَّادُ بنُ أَبِي سُلَيْمَانَ مُسْلِمٍ الكُوْفِيُّ العَلاَّمَةُ ، الإِمَامُ، فَقِيْهُ العِرَاقِ، أَبُو إِسْمَاعِيْلَ بنُ مُسْلِمٍ الكُوْفِيُّ، أَصْلُهُ مِنْ أَصْبَهَانَ ۔

رَوَى عَنْ : أَنَسِ بنِ مَالِكٍ ۔

وَحَدَّثَ أَيْضاً عَنْ : أَبِي وَائِلٍ، وَزَيْدِ بنِ وَهْبٍ، وَسَعِيْدِ بنِ المُسَيِّبِ، وَعَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، وَجَمَاعَةٍ.

وَأَكْبَرُ شَيْخٍ لَهُ: أَنَسُ بنُ مَالِكٍ

حماد بن ابو سلیمان مسلم الکوفی ۔

العلامہ، الامام، فقیہ العراق، ابو اسماعیل بن مسلم الکوفی، یہ اصل میں اصبہان سے تھے ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کرتے ہیں ۔ (یعنی تابعین میں سے ہیں اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں) ۔ اسی طرح ابو وائل ، زید بن وھب ، سعید بن المسیب، عامر الشعبی اور ایک بڑی جماعت (کبائر تابعین ) سے حدیث روایت کرتے ہیں ۔ ان کے سب سے بڑے شیخ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (الكتاب : سير أعلام النبلاء ، المؤلف : شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى : 748هـ)۔(المحقق : مجموعة من المحققين بإشراف الشيخ شعيب الأرناؤوط، الناشر : مؤسسة الرسالة، الطبعة : الثالثة ، 1405 هـ / 1985 م جلد: 5، صفحہ: 231)

یہ وہ امام ہیں جن سے امام سفیان ثوری جیسے محدثین نے حدیث روایت کی ہے ۔

سعودی عرب کے تیار کردہ اسماء الرجال کے انسائیکلوپیڈیا (رواۃ التھذبین) کے مطابق :

(البخاري في الأدب المفرد – مسلم – أبو داود – الترمذي – النسائي – ابن ماجه)

رتبته عند ابن حجر : فقيه صدوق

رتبته عند الذهبي : ثقة إمام مجتهد

ان سے امام بخاری نے ادب المفرد میں ، امام مسلم نے، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ علیہمالرّحمہ نے روایات لی ہیں ۔ (باقی آئمہ کی لسٹ آگے درج ہے)

امام ابن حجر عسقلانی نے ان کو فقیہ ، صدوق (سچا ترین) لکھا ۔ امام ذہبی نے ان کو ثقہ اور امام مجتھد لکھا ۔

خود امام بخاری نے اسماء الرجال لکھتے وقت اپنی کتاب التاریخ الکبیر میں تابعین میں 75 نمبر پر ان کو رکھا، اور ان کی تعدیل فرمائي۔ ملاحظہ فرمائيں : حَماد بن أَبي سُليمان، وهو حَماد بْن مُسْلِم.سَمِعَ أَنسًا، وإبراهيم، سَمِعَ منه الثَّوريّ، وشُعبة.قَالَ أَبو نُعَيم: مات سنة عشرين ومئة.هو مَولَى آل أَبِي مُوسَى.أَبُو إِسْمَاعِيل، كَنّاهُ مُوسَى بْن إِسْمَاعِيل.وقَالَ سُليمان بْن حَرب: حدَّثنا حَماد بْن زَيْد، عَنْ شُعَيب بْن الحبحاب، قال: سَمِعتُ إِبْرَاهِيم يَقُولُ: لقد سألني هذا، يَعني حَمادًا، مثل ما سألني جميعُ الناس.وقال عَمرو بْن مُحَمد: سَمعت عَمرو بْن عثمان يَقُولُ: سَمعت عُبَيد اللهِ بْن عَمرو: مات حَماد بن أَبي سُليمان سنة تسع عشرة ومئة.(التاریخ الکبیر، مصنف: امام بخاری، جلد 3، صفحہ 18)

امام ابن سعد نے الطبقات الکبری جلد 3، صفحہ 324 پر ان کی تعدیل فرمائي اور ان کو فقیہ، محدث لکھا، حلال و حرام کے علم کا ماہر لکھا ۔

امام ابن حبان جو بخاری و مسلم کے شیوخ میں سے ہیں، انہوں نے حماد بن ابی سلیمان کو مشاهير علماء الأمصار وأعلام فقهاء الأقطار میں تعدیل کے ساتھ لکھا ۔

امام ذہبی نے لکھا کہ : حماد بن أبى سليمان الكوفي، أحد أئمة الفقهاء.سمع أنس بن مالك، وتفقه بإبراهيم النخعي.روى عنه سفيان، وشعبة، وأبو حنيفة، وخلق.

حماد بن ابی سلیمان الکوفی آئمہ فقہاء میں سے ہیں، انس بن مالک سے سماع کیا یعنی حدیث پڑھی اور ابراہیم نخعی سے فقہ پڑھی، سفیان ثوری، شعبہ اور ابو حنیفہ کے علاوہ بڑے طبقے نے ان سے روایت کیا۔ اور یہ شعبہ وہ ہیں جو امام بخاری و مسلم کے مشترکہ استاد ہیں، اور دونوں شعبہ سے روایت کرتے ہیں ۔ (ميزان الاعتدال في نقد الرجال، المؤلف: شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي المتوفى: 748هـ)(تحقيق : علي محمد البجاوي، الناشر: دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت – لبنان الطبعة: الأولى، 1382 هـ – 1963 م، جلد: 1، صفحہ: 595،چشتی)

آج کل غیرمقلدین کے نزدیک سب سے اہم حوالہ شیخ ناصر الدین البانی کا ہے ۔ امام بخاری کی الادب المفرد کی تخریج کرتے ہوئے شیخ البانی نے بھی حماد کی اسناد والی حدیث کو صحیح قرار دیا ۔ اگر ان میں کوئی ضعف ہوتا تو سند کو صحیح قرار نہيں دیا جا سکتا تھا ۔ (الادب المفردحدیث نمبر 1206، 1104)

لہٰذا یہ تو ثابت ہوا کہ حماد بن ابی سلیمان ثقہ، صادق، عادل، حافظ راوی ہیں، محدث ہیں، امام ہیں، فقیہ ہیں۔ دنیا کے کسی محدث نے ان پر جرح نہيں کی بلکہ آئمہ نے ان کے نام کے ساتھ لا یحتج لکھا یعنی ان پر کبھی احتجاج (یعنی جرح) نہیں ہوئی، سب آئمہ ان کی ثقاہت پر گواہ ہیں۔

رہی اس حدیث میں باقی سند (عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ) کی بات تو وہ سند بعینہ بخاری ومسلم میں موجود ہے۔ اگر باقی سند میں سے ایک پر بھی ضعیف تو دور ہلکا سا بھی شبہ ہوتا تو حسن درجے کی سند ہوتی۔ اور بخاری ومسلم کی اسناد پر علماء کا اجماع ہے۔ بخاری ومسلم کے رجال پر بھی پر اتفاق ہے۔ باقی سند بعینہ بخاری ومسلم میں 82 جگہ پر موجود ہے۔ 42 روایات امام بخاری کی ہیں اور 40 روایات امام مسلم کی ہیں۔

نتیجہ یہ نکلا کہ حماد عن ابراہیم عن الاسود یہ ایسی سند ہے جو بخاری و مسلم کی شرائط اور تمام آئمہ کرام کے اتفاق کے ساتھ صحیح ہے۔ اس سے اوپر عبد اللہ بن مسعود ہیں۔ اور وہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں۔ ان پر جرح ممکن نہیں۔

لہٰذا ابو حنیفہ عن حماد عن ابراہیم عن الاسود (ان) عبد اللہ بن مسعود کی سند صحیح ترین سند ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عبد اللہ بن مسعود کی روایت امام ابوداؤد تک پہنچتے پہنچتے کسی اور راوی کی وجہ سے حسن درجے میں آگئی ۔

اب محدثین کے ہاں اصول ہے کہ جب کوئی حدیث کسی صحابی سے صحیح ثابت ہو جائے اور اسی صحابی سے آگے روایت کرنے والے کسی دوسرے محدث تک اس کی سند صحیح نہ ہو، حسن یا ضعیف ہو تو اس حسن یا ضعیف سند کی وجہ سے ترک نہیں کریں گے بلکہ پہلی ثابت شدہ صحیح حدیث کی بنیاد پر اسی کو صحیح تسلیم کیا جائے گا۔ اور اس پر بھی اصول حدیث کا اتفاق ہے۔ جہاں تک ایک سند صحیح ثابت ہو جائے تو اس کی بنیاد پر اسی متن کی دوسری اسناد کو صحیح تسلیم کیا جائے گا اگرچہ باقی راویوں کا ضعف موجود ہو۔ تو ممکن ہے کہ ایک روایت کسی کتاب میں ضعیف ہو، حسن ہو، لیکن وہ ہی روایت کسی دوسری سند سے صحیح ہو، یا کسی دوسرے محدث کے ہاں سند کے تھوڑے سے اختلاف سے اوپر جا کر صحیح ہو جائے۔

لہٰذا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی تمام روایات محدثین کے اس اصول پر صحیح ثابت ہوں گی۔ اور خاص طور پر امام اعظم کے پاس تو جو سند ہے وہ تو مکمل طور پر صحیح ہے ۔ اسی طرح امام مالک کی اسناد صحیح ہیں ۔ رفع یدین کی باقی بحث : (شرح صحیح مسلم شریف۔ جلد : اول۔ صفحہ: 1104،چشتی)(فتاوی رضویہ شریف۔ جلد: دوم۔ صفحہ: 153) میں دیکھیں ۔

دیگر روایات : قال البخاري، اخبرنا محمود بن غيلان المروزي قال: حدثنا وكيع قال: حدثنا سفيان، عن عاصم بن كليب، عن عبد الرحمن بن الاسود، عن علقمة، عن عبد الله انه قال:” الا اصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى فلم يرفع يديه إلا مرة واحدة”.

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ پڑھاؤں؟ چنانچہ انہوں نے ہمیں نماز پڑھائی، تو انہوں نے صرف ایک بار رفع یدین کیا۔قال الشيخ الألباني : صحيح (سنن نسائی، كتاب التطبيق، باب: الرُّخْصَةِ فِي تَرْكِ ذَلِكَ)

حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا وكيع، عن سفيان، عن عاصم يعني ابن كليب، عن عبد الرحمن بن الاسود، عن علقمة، قال عبد الله بن مسعود:” الا اصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: فصلى، فلم يرفع يديه إلا مرة”، قال ابو داود: هذا حديث مختصر من حديث طويل وليس هو بصحيح على هذا اللفظ.

علقمہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ پڑھاؤں؟ علقمہ کہتے ہیں: پھر ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی، تو رفع یدین صرف ایک بار (نماز شروع کرتے وقت) کیا ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ ایک طویل حدیث سے ماخوذ ایک مختصر ٹکڑا ہے، اور یہ حدیث اس لفظ کے ساتھ صحیح نہیں۔(سنن الترمذی/الصلاة 79 (257)، سنن النسائی/الافتتاح 87 (1027)، التطبیق 20 (1059)، (تحفة الأشراف: 9468)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/388، 441)، وقد أخرجہ البخاري في رفع الیدین،چشتی).(قال الشيخ الألباني: صحيح.سنن ابی داؤد، أبواب تفريع استفتاح الصلاة، باب مَنْ لَمْ يَذْكُرِ الرَّفْعَ عِنْدَ الرُّكُوعِ)

اخبرنا سويد بن نصر، قال: انبانا عبد الله بن المبارك، عن سفيان، عن عاصم بن كليب، عن عبد الرحمن بن الاسود، عن علقمة، عن عبد الله، قال:” الا اخبركم بصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: فقام فرفع يديه اول مرة، ثم لم يعد”.

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ بتاؤں؟ چنانچہ وہ کھڑے ہوئے اور پہلی بار اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا، پھر انہوں نے دوبارہ ایسا نہیں کیا۔(سنن ابی داود/الصلاة 119 (748، 751)، سنن الترمذی/الصلاة 76 (257)، (تحفة الأشراف: 9468)، مسند احمد 1/388، 441، 442، ویأتی عند المؤلف برقم: 1059 (صحیح) . (قال الشيخ الألباني: صحيح سنن نسائی، باب سجود القرآن، بَابُ : تَرْكِ ذَلِكَ)

حدثنا عبد الله بن محمد الزهري، حدثنا سفيان، عن يزيد، نحو حديث شريك، لم يقل: ثم لا يعود، قال سفيان، قال لنا بالكوفة بعد: ثم لا يعود، قال ابو داود، وروى هذا الحديث هشيم، وخالد، وابن إدريس، عن يزيد لم يذكروا: ثم لا يعود.

اس طریق سے بھی سفیان سے یہی حدیث گذشتہ سند سے مروی ہے، اس میں ہے کہ ”آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو پہلی دفعہ اٹھایا“، اور بعض لوگوں کی روایت میں ہے کہ ”ایک بار اٹھایا“۔(انظر حدیث رقم: (748)، (تحفة الأشراف: 9468) (صحیح)(قال الشيخ الألباني: صحيح سنن ابی داؤد، أبواب تفريع استفتاح الصلاة، باب: باب مَنْ لَمْ يَذْكُرِ الرَّفْعَ عِنْدَ الرُّكُوعِ)

حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَكٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، «أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ التَّكْبِيرِ، ثُمَّ لَا يَرْفَعُهُمَا . (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الصلوۃ، باب: من کان یرفع یدیہ فی اول تکبیرۃ ثم لا یعود، حدیث نمبر: 2444)

امام ابن ابی شیبہ نے پورا باب باندھا ہے جس کا عنوان ہے: مَنْ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ ثُمَّ لَا يَعُودُ، اور یہ وہ امام ابن ابی شیبہ ہیں جو امام بخاری کے استاد ہیں، امام بخاری نے صحیح بخاری ميں ان سے اخذ روایت کیا ہے۔

امام ابن ابی شیبہ رحمة اللہ علیہ نے اس باب میں 16 روایات لکھی ہیں ۔ مذکورہ بالا روایت میں تین راوی ہیں ، تینوں بخاری کے رجال میں سے ہیں ۔

کوفہ کے جمہور فقھاء و محدثین علیہم الرحمہ کا رفع الیدین نہ کرنا   امام ابو نعیم اپنی کتاب الحلیہ میں یک روایت بیان کرتےہیں : حدثنا أبو بكر بن مالك، ثنا عبد الله بن أحمد، حدثني الأشج قال : سمعت أبا بكر بن عياش، يقول: «رأيت منصور بن المعتمر إذا قام في الصلاة وقد عقد لحيته في صدره»

امام ابو بکر ابن عیاش فرماتے ہیں : امام منصور بن معتمر نماز میں جب قیام کرتے تو سر جھکا کر داڑھی کو سینے پر جما لیتے ۔ [حلیہ الاولیاء جلد 5 صفحہ 40 سند صحیح]

اس کے بعد ایک روایت امام سفیان الثوری سے بیان کرتے ہیں : حدثنا أحمد بن جعفر بن حمدان ، ثنا عبد الله بن أحمد بن حنبل، حدثني أبي، ثنا أبو معاوية الغلابي، ثنا يحيى بن سعيد، عن الثوري قال: لو رأيت منصورا يصلي لقلت: يموت الساعة “

امام سفیان الثوریؒ امام یحییٰ بن سعید سے فرماتے ہیں : اگر امام منصور بن معتمر کو نماز پڑھتا دیکھ لیتے تو کہتے بس یہ ابھی انتقال کر جائیں گے ۔ [حلیہ الاولیاء جلد5 ، ص 40و سند صحیح]

امام منصور بن معتبر کوفہ کے جید محدثین اور فقھاء میں سے ایک تھے

جیسا کہ امام ذھبی سیر اعلام میں فرماتے ہیں : منصور بن المعتمر أبو عتاب السلمي

الحافظ، الثبت، القدوة، أبو عتاب السلمي، الكوفي، أحد الأعلام.

ان کے شیوخ کے بارے ذکر کرتے ہوئے امام ذھبی فرماتے ہیں : قلت: يروي عن: أبي وائل، وربعي بن حراش، وإبراهيم النخعي، وخيثمة بن عبد الرحمن، وهلال بن يساف، وزيد بن وهب، وذر بن عبد الله، وكريب، وأبي الضحى، وأبي صالح باذام، وأبي حازم الأشجعي، وسعيد بن جبير، وعامر الشعبي، ومجاهد، وعبد الله بن مرة، وطبقتهم.

میں کہتا ہوں انہوں نے

حضرت ابی وائل ، ربیع بن خراش

حضرت ابراہیم النعی

حضرت امام خثیمہ

حضرت ابی حازم

حضرت سعید بن جبیر

امام شعبی

امام مجاہد وغیرہم سے بیان کیا ہے

یعنی کبیر تابعین ان کے شیوخ تھے اور حضرت امام معتمر کی نماز کے بارے میں ذکر کرنے والے امام ابو بکر بن عیاش فرماتے ہیں :

حدثني ابن أبي داود قال: ثنا أحمد بن يونس , قال: ثنا أبو بكر بن عياش قال: ما رأيت فقيها قط يفعله , يرفع يديه في غير التكبيرة الأولى

امام ابو بکر بن عیاش فرماتے ہیں : میں نے کسی عالم فقیہ کو کبھی بھی تکبیر افتتاح کے علاوہ رفع الیدین کرتے نہیں پایا ۔ [شرح معانی الاثار برقم : 1367 وسند صحیح،چشتی]

اور یہی امام حضرت ابن عمر کی روایت بیان کرتے تھے : حدثنا ابن أبي داود، قال: ثنا أحمد بن يونس، قال: ثنا أبو بكر بن عياش، عن حصين، عن مجاهد، قال: «صليت خلف ابن عمر رضي الله عنهما فلم يكن يرفع يديه إلا في التكبيرة الأولى من الصلاة»

امام ابو بکر بن عیاش فرماتے ہیں حصین کے طریق سے امام مجاہد سے : وہ کہتے ہیں میں نے حضرت ابن عمر کے پیچھے نماز پڑھی وہ رفع الیدین نہیں کرتے تھے سوائے تکبیر افتتاح کے نماز میں ۔ [شرح معانی الاثار ، برقم : 1357]

ان دلائل سے ان محدثین کا رد ہوتا ہے جنہوں نے ابو بکر بن عیاش پر جرح کی ہے کہ ابن عمر سے بیان کرنے میں ابو بکر بن عیاش کو خطاء ہوئی ہے انکو اختلاط ہو گیا تھا ۔ جبکہ دلائل سے ثابت ہے کہ ابو بکر بن عیاش کا مذہب اور تدبر تھا اس مسلے پر کہ انہوں نے کسی کو رفع الیدین کرتے نہیں پایا اور وہ ابن عمر سے ترک رفع الیدین کی روایت میں کیسے وھم کھا سکتے ہیں جبکہ انکا عمل اپنی بیان کردہ روایت پر تھا اور خود امام بخاری نے اپنی صحیح میں ابن ابی داود سے ابو بکر بن عیاش کی روایات کو بطور احتجاج نقل کیا ہے روزہ کے باب میں ۔ نہ کہ متابعت میں ۔ اور حضرت ابن عمر سے ترک رفع الیدین بیان کرنے میں امام ابو بکر بن عیاش منفرد بھی نہیں ہیں

جیسا کہ ابن عمر سے ایک روایت امام محمد نے بیان کی ہے اپنی سند سے موطا میں :

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ حَكِيمٍ، قَالَ: «رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حِذَاءَ أُذُنَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةِ افْتِتَاحِ الصَّلاةِ، وَلَمْ يَرْفَعْهُمَا فِيمَا سِوَى ذَلِكَ ۔

امام محمد فرماتے ہیں : مجھے خبر دی محمد بن ابان بن صالح انہوں نے عبدالعزیز بن حکیم سے کہ میں نے ابن عمر کو دیکھا وہ نماز میں سوائے شروع کے رفع الیدین کرنے کے بعد اسکی طرف نہ لوٹتے ۔ [موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني برقم : 108]

اب اس روایت میں مجاہد کا متابع عبدالعزیز بن حکیم ہے

اور ان سے بیان کرنے والا محمد بن ابان صالح ہے

جو ضعیف راوی ہے لیکن متابعت و شواہد میں اسکی روایت قبول ہوتی ہے

جیسا کہ متشدد امام ابی حاتم فرماتے ہیں : نا عبد الرحمن قال سألت ابى عن محمد بن أبان بن صالح فقال ليس هو بقوى الحديث يكتب حديثه على المجاز ولا يحتج به بابة حماد بن شعيب الحمانى ۔

امام ابن ابی حاتم فرماتے ہیں میں نے اپنے والد سے محمد بن ابان بن صالح کے بارے پوچھا تو فرمایا کہ یہ قوی ضبط والا نہ تھا لیکن اسکی روایت لکھی جائے (متابعت و شواہد میں ) لیکن اس سے (منفرد ہونے میں ) احتجاج نہیں کیا جائے گا ۔ [الجرح والتعدیل ]

امام بخاری کہتے ہیں کہ یہ قوی نہیں تھا

محمد بن أبان بن صالح بن عمير الجعفي: عن أبي إسحاق، وحماد بن أبي سليمان، وليس بالقوي.[الضعفاء، بخاری برقم : 326]

امام ابن عدی الکامل میں اسکے بارے فرماتے ہیں کہ : محمد بن أبان بن صالح كوفي قال الشيخ : ومحمد بن أبان له غير ما ذكرت من الحديث وفي بعض ما يرويه نكره، لا يتابع عليه ومع ضعفه يكتب حديثه.

محمد بن صالح کی میں نے روایت ذکر کی ہے اور بعض روایات میں اسکی نکارت ہے اسکے علاوہ کوئی اسکی متابعت نہیں کرتا لیکن یہ ضعیف ہے اس کی روایت لکھی جائے گی (شواہد و متابعت میں) ۔ [الکامل فی الضعفاء1631]

تو اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ امام محمد بن الحسن کا شیخ محمد بن صالح کی روایت شواہد و متابعت میں قبول ہوتی ہے

حضرت بن عمر ؓ سے ترک رفع الیدین کا عمل بیان کرنے میں نہ ہی

امام مجاہد منفرد ہیں

اور نہ ہی ہی ابو بکر بن عیا ش منفرد ہے بلکہ ایک معمولی ضعیف روایت سے ابو بکر بن عیاش کی روایت کو تقویت حاصل ہے جس سے ابو بکر بن عیاش کا تفرد ختم ہو گیا اثر ابن عمر کو بیان کرنے میں اور یہ بات اصولا اب ثابت ہو گئی کہ ابو بکر بن عیاش کو نہ وہم ہو ا اور نہ ہی خطاء ہوئی ہے اس روایت کو بیان کرنے میں

اور موطا امام محمد امام محمد کی مشہور و معرروف کتاب ہے اس پر وہابیہ کا اعتراض باطل ہے

اور امام محمد بن الشیبانی ثقہ ہیں جیسا کہ امام شافعی نے ان سے مسلسل احتجاج کیا ہے

اور وہابیہ یہ بات کبھی تسلیم نہیں کرنے والے لیکن

متشدد ناقد دارقطنی کہتا ہے کہ میرے نزدیک محمد بن الحسن الشیبانی لائق ترک نہیں یعنی اس کی روایت سے احتجاج کیا جائے گا

اب وہابی اس قول کو احتجاج پر محمول کریں یا شواہد و متابعت میں دونوں صورتوں میں ان کے ہاتھ کچھ نہں لگے گا

حضرت ابن عمر سے صرف شروع میں رفع الیدین کا تیسرا اثر سند حسن و صحیح سے : حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِيُّ، ثنا ابْنُ أَبِي لَيْلَى، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مُقِيمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : تُرْفَعُ الأَيْدِي فِي سَبْعِ مَوَاطِنَ : افْتِتَاحِ الصَّلاةِ، وَاسْتِقْبَالِ الْبَيْتِ، وَالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، وَالْمَوْقِفَيْنِ، وَعِنْدَ الْحَجَرِ ۔ [كشف الأستار عن زوائد البزار برقم: 519، امام ہیثمی]

وَقَالَ الْبَزَّارُ فِي مُسْنَدِهِ: حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٌ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِيُّ ثَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى عَنْ الْحَكَمِ عَنْ مِقْسَمٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: “تُرْفَعُ الْأَيْدِي فِي سَبْعَةِ مَوَاطِنَ: افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ. وَاسْتِقْبَالِ الْبَيْتِ. وَالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ. وَالْمَوْقِفَيْنِ. وَعِنْدَ الْحَجَرِ” ۔ [مسند البزار بحوالہ نصب الرائیہ] ۔ (سند حسن )

حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے : کہ نبی کریم نے فرمایا ۔ رفع الیدین سات مقامات پر کیا جائے گا نماز کے شروع میں بیت اللہ کی زیارت کے وقت صفاءو مروہ پر ، عرفات اور مزدلفہ میں وقوف کے وقت اور رمی جمار کے وقت بھی

حَدَّثَنَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تُرْفَعُ الْأَيْدِي فِي سَبْعَةِ مَوَاطِنٍ، وَفِي الْخَبَرِ وَعِنْدَ اسْتِقْبَالِ الْبَيْتِ ۔

ابن خزیمہ متن میں اضافہ بھی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر و ابن عباس سے مروی ہے رفع الیدین سات مقامات پر ہے اورایک روایت میں یہ بھی ہے کہ بیت اللہ کے وقت بھی ۔ [صحيح ابن خزيمة برقم : 2703وسند حسن کل رجال ثقات،چشتی]

اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بخاری میں جو حضرت ابن عمر سے ترک رفع الیدین کی روایت ہے ایک تو وہ موقوف ہے اور دوسری بات کہ ابن عمر جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ترک رفع الیدین کی روایات پر مطلع ہوئے تو وہ بھی رفع الیدین ترک فرماگئے تھے ۔ جیسا کہ امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فَهَذَا ابْنُ عُمَرَ قَدْ رَأَى النَّبِيَّ يَرْفَعُ، ثُمَّ قَدْ تَرَكَ هُوَ الرَّفْعَ بَعْدَ النَّبِيِّ فَلاَ يَكُونُ ذَلِكَ إلَّا وَقَدْ ثَبَتَ عِنْدَهُ نَسْخُ مَا قَدْ رَأَى النَّبِيُّ فِعْلَهُ وَقَامَتْ الْحُجَّةُ عَلَيْهِ بِذَلِكَ۔ فَإِنْ قَالَ: قَائِلٌ هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ” قِيلَ لَهُ “وَمَا دَلَّك عَلَى ذَلِكَ؟ فَلَنْ تَجِدَ إلَى ذَلِكَ سَبِيلًا”۔ فَإِنْ قَالَ: فَإِنْ طَاوُسًا قَدْ ذَكَرَ أَنَّهُ رَأَى ابْنَ عُمَرَ يَفْعَلُ مَا يُوَافِقُ مَا رُوِيَ عَنْهُ، عَنْ النَّبِيِّ، مِنْ ذَلِكَ۔ قِيلَ لَهُمْ: فَقَدْ ذَكَرَ ذَلِكَ طَاوُسٌ، وَقَدْ خَالَفَهُ مُجَاهِدٌ۔ فَقَدْ يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ ابْنُ عُمَرَ فَعَلَ مَا رَآهُ طَاوُسٌ مَا يَفْعَلُهُ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ عِنْدَهُ الْحُجَّةُ بِنَسْخِهِ، ثُمَّ قَامَتْ عِنْدَهُ الْحُجَّةُ بِنَسْخِهِ فَتَرَكَهُ وَفَعَلَ مَا ذَكَرَهُ عَنْهُ مُجَاهِدٌ۔ هَكَذَا يَنْبَغِي أَنْ يُحْمَلَ مَا رُوِيَ عَنْهُمْ، وَيُنْفَى عَنْهُ الْوَهْم، حَتَّى يَتَحَقَّقَ ذَلِكَ، وَإِلَّا سَقَطَ أَكْثَرُ الرِّوَايَاتِ ۔
حضرت ابن عمر رضی ﷲ عنہما جنہوں نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رفع الیدین کرتے دیکھا پھر انہوں نے ہاتھوں کااٹھانا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد چھوڑ دیا ۔ اور اس کے خلاف عمل کیایہ اس صورت میں درست ہے جبکہ ان کے ہاں اس کا نسخ ثابت ہوچکاہو، جس کو انہوں نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے دیکھا تھا ۔ اور ان کے ہاں اس کےنسخ کی دلیل ثابت نہ ہوگئی ہے۔ اگرکوئی یہ اعتراض کرے کہ یہ روایت سرے سے منکرہے تو اس کے جواب میں کہاجائے گا ، آپ کوکس نے بتلایا؟ آپ کے لئے اس کے منکرقرار دینے کی کوئی صورت نہیں ۔ اگر کوئی یہ کہےکہ طاؤس نےابن عمررضی ﷲعنہ کووہ فعل کرتے دیکھا جو اس روایت کے موافق ہے جو انہوں نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کی ، تو جواب میں یہ کہا جائے گا کہ طاؤس نے یہ بات ذکر کی ہے مگر مجاہد نے ان کی مخالفت کی ہے ۔ تو اب یہ کہنا درست ہوا کہ طاؤس نے ابن عمر رضی ﷲ عنہما کے اس وقت کے عمل کو دیکھا جب ان کے سامنے نسخ کے دلائل نہ آئےتھے ، پھر جب ان کے ہاں نسخ کے دلائل قائم ہو گئے تو انہوں نے رفع الیدین کو ترک کر دیا اور وہی کیا جو ان سے مجاہد نے دیکھا ۔ اسی طرح مناسب یہ ہے کہ جو اُن سے مروی ہے وہ اس پر محمول کیا جائے اور وہم کی نفی کی جائے تاکہ یہ بات ثابت ہو جائے ورنہ اکثر روایات کو ساقط الاعتبار قرار دینا پڑےگا ۔ (معانی الاثار برقم : 1323) ۔ (مزید حصّہ ہشتم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...