Friday, 25 August 2023

حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ حصّہ نمبر 1

حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ حصّہ نمبر 1
محترم قارئینِ کرام : اولیاء اللہ کی جماعت کا ذکر خیر اللہ تعالیٰ نے اپنی لاریب کتاب میں فرمایا ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَۚ-وَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًاؕ ۔ (سورہ النسا آیت نمبر ٦٩)
ترجمہ : اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اُسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں ۔

اس آیت کریمہ میں لفظ صالحین سے مراد اولیاءاللہ ہیں ۔ ان محبان خدا میں سے حضور شہنشاہ اولیاء ، زبدة العارفین ، شمس الکاملین حضرت سید علی بن عثمان ہجویری المعروف بہ حضرت داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ کا نام مبارک خاص اہمیت کا حامل ہے ۔ حضرت داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ کی ہستی ان اولیائے کرام اور صوفیائے کرام میں سے ایک ہے ۔ جنہوں نے بر صغیر پاک و ہند کے ظلمت کدوں کو نورِ اسلام سے منور کیا اور اپنے قول و فعل سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اسوہ حسنہ لوگوں کے سامنے پیش کیا ۔ یہ بزرگان دین کی بے لوث مخلصانہ کوششوں کا نتیجہ تھا کہ بر صغیر میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ ان بزرگان دین میں سے حضرت سیدنا علی بن عثمان ہجویری رحمة اللہ علیہ کی بھی ایک ذات ہے جن کو ہدیہ تبرک پیش کرنے کےلیے کتب تواریخ کی روشنی میں چند گذارشات پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں کیونکہ فرمانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے کہ : ذکر الصالحین کفارة السیاٰت ۔ یعنی نیک لوگوں کے ذکر خیر سے گناہ معاف ہوتے ہیں ۔ ایک دوسری جگہ فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے کہ : عند ذکر الصالحین تنزل الرحمة ۔ یعنی اولیاء کاملین کا ذکر خیر کرتے وقت اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے ۔ حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں حصولِ برکت کےلیے ہم اُن کا ذکرِ خیر پیش کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ قبول فرمائے آمین ۔

حضرت داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ کی ذات تو وہ ہے کہ نماز پڑھاتے ہیں اور حالتِ نماز میں لوگوں کے اعتراض کے جواب پر کعبة اللہ دکھا دیتے ہیں ۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمة اللہ علیہ جیسے عظیم المرتبت بزرگ بھی سیدنا حضرت داتا علی ہجویری رحمة اللہ علیہ کے روحانی فیض سے مالا مال ہو کر نوے لاکھ افراد جو کہ کفر و شرک کی ضلالت میں ڈوبے ہوئے تھے ۔ اُن تمام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا غلام بنا دیا ۔

نام و نسب اور سلسلہ نسب:آپ کا اسم گرامی علی ، کنیت ابو الحسن ، لقب داتا گنج بخش ، والد ماجد کا اسم گرامی عثمان بن علی ، وطنی نسبت الجلابی الغزنوی ثم الہجویری ہے ۔ جلاب اور ہجویر افغانستان کے غزنی شہر کے مضافات میں دوبستیاں ہیں ۔ (سفینة الاولیاء صفحہ 146)(کشف المحجوب مقدمہ 1،خزینة الاصفیاء صفحہ 233،چشتی)

سلسلہ نسب : آپ حسنی سید ہیں ۔ آپ کا سلسلہ نسب آٹھ واسطوں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے ۔ (از علامہ غلام سرور لاہور،(خزینة الاصفیاء233)

ولادت داتا گنج بخش : حضرت سیدنا علی ہجویری المعروف بہ داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ کی ولادت مبارک کے بارے میں تذکرہ نگاروں کی روایات درج ذیل ہیں : ⬇

1 ۔ آپ کی ولادت پانچویں صدی ہجری کے شروع میں ہوئی ۔ 2 آپ کی ولادت 400ھ بمطابق 1010ء میں ہوئی۔3۔آپ 400 ہجری میں پیدا ہوئے ۔ (مقالات دینی و علمی ، 223/1،چشتی)(بزم صوفیا 101/1،صباح الدین عبد الرحمن)

جائے ولادت ووطن : آپ کے والد ماجد جلاب کے اور والدہ ماجدہ ہجویر کی رہنے والی تھیں والد صاحب کی وفات کے بعد آپ مستقل طورپر ننھیال منتقل ہو گئے اس لیے اپنے آپ کو جلابی ثم الہجویری لکھتے ہیں ۔ آپ کی والدہ ماجدہ کی قبر غزنی میں آپ کے ماموں تاج الاولیاء کے مزارشریف کے ساتھ ہے ۔ (سفینة الاولیا صفحہ 209 تا 210)

حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کی ولادتِ با سعادت کم وبیش ۴۰۰ ھ میں غزنی شہر (مشرقی افغانستان) کے محلہ جلّاب میں ہوئی ۔ کچھ عرصے بعد آپ کا خاندان محلہ ہجویر میں منتقل ہوگیا ۔ آپ کی کُنیت ابوالحسن، نام علی اور لقب داتا گنج بخش ہے ، آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کا شجرہ نسب اس طرح ہے : حضرت سیِّد علی بن عثمان بن سیّد علی بن عبدالرحمن بن شاہ شُجاع بن ابوالحسن علی بن حسین اصغر بن سیِّدزید شہید بن حضرت امام حسن بن علی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہما ۔ (مقدمہ کشف المحجوب مترجم صفحہ ۸ تا ۱۱ ضیاء القرآن پبلیکیشنز لاہور)

جس دور مىں حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ پىدا ہوئے اُس وقت کئی عالم ، فاضل اور اہلِ دانش غزنى مىں رہتے تھے،گویا غزنى کى فضا مىں ہر طرف علم و فکر اور معرفت کا چرچاتھا ، چارسال سے زائد عمر مىں آپ نے حروف شناسى کے بعد قرآنِ مجید پڑھنا شروع کىا اورتھوڑے ہی عرصے مىں قرآنى تعلىم مکمل کرلى، اس کے بعدرفتہ رفتہ وقت کے مشہور علماء سے عربى، فارسى ، حدىث ، فقہ،تفسىر ، منطق ، فلسفہ اور دیگر علوم و فنون حاصل کیے ۔

جن اساتذہ سے آپ نے ظاہرى وباطنی علوم حاصل کئے ان مىں حضرت ابوالعباس احمد بن محمد اشقانى،حضرت ابوالقاسم علی بن عبد الله گرگانى ، حضرت ابوالعباس احمد بن محمد قصاب آملی ، حضرت ابو عبد الله محمد بن علی داستانی بسطامی ، حضرت ابوسعىد فضل اللہ بن محمد مہینی ، حضرت ابو احمد مظفر بن احمد اور حضرت ابو القاسم عبدالکرىم بن ہوازن قشىرى رَحِمَہُمُ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کے نام قابلِ ذکر ہىں ۔ (کشف المحجوب مترجم صفحہ ۱۲،چشتی)

آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ جواں عمری ہی میں علوم ظاہری کی تکمیل کرچکے تھے ، آپ کے علمی مقام کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جاسکتا ہےکہ ایک مرتبہ سلطان محمود غزنوی (متوفی ۴۲۱ ھ) کی موجودگی میں حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کا ایک ہندی فلسفی سے مناظرہ ہوا تو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ نے اپنی علمی قابلیت سے اس کو ساکت و صامت اور لاجواب کردیا ، حالانکہ اس وقت آپ کی عمر زیادہ نہ تھی کیونکہ اس مناظرے کو سلطان محمود غزنوی کی زندگی کے آخری سال میں بھی فرض کیا جائے تو اس وقت آپ کی عمر مبارک تقریباً 20 سال بنتی ہے ۔ (مقدمہ کشف المحجوب مترجم صفحہ ۱۲)

آپ کى تصنیفات : یوں تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کو علومِ ظاہرى اور باطنى سے بے حد نوازا تھا اور دىنِ اسلام کے بہت سے اسرار و رموز عطا فرمائے تھے مگر اس کے علاوہ حصولِ علم کیلئے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے جو سفر اختیار کئے اس سے بھی آپ کوبےحد مشاہدات حاصل ہوئےچنانچہ آپ نے مخلوقِ خدا کی خیر خواہی اور طالبانِ معرفت کى رہنمائى کے لىے چند گراں قدر (قیمتی) کتابیں تصنىف فرمائیں۔ سب سے پہلی کتاب جو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے 12 سال کی عمر میں لکھی اس کا نام ’’دیوانِ شعر‘‘ ہے ۔ یہ دیوان صوفیانہ و عارفانہ اشعار پرمشتمل تھامگر افسوس ! کسی شخص نے ان سے امانۃً لیا اور خیانت کرتے ہوئے آپ کے نام کی جگہ اپنا نام لکھ کر وہ کتاب اپنی بنالی ۔

اس کے علاوہ بھی آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ علیہ نے کئی کتابیں لکھیں مثلاً منہاج الدىن ، بحر القلوب ، کتاب فنا و بقا ، کشف الاسرار ، اور کشف المحجوب وغیرہ مگر افسوس ! آپ کی کتابوں میں سےصرف کشف المحجوب ہی کو شہرت حاصل ہوئی ، کیونکہ یہی ایک کتاب بآسانی دستیاب ہے ۔ تصوف کے موضوع پر فارسی زبان میں لکھی گئی یہ کتاب ایک نادرخزانے کے حیثیت رکھتی ہے اور اپنی مثال آپ ہےیہی وجہ ہے کہ اب تک اُردو کے علاوہ کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ کیا جا چکا ہے ۔ اس کتاب کی ایک ایک بات اپنے اندر تصوف کے حقائق سموئے ہوئے ہے اور سالکینِ طریقت و طالبانِ راہِ ہدایت کےلیے بہترین رہنما ہے ۔ حضرت سیدنا نظام الدین اولیاء رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ اس کتاب کی عظمت کے بارے میں فرماتے ہیں : اگر کسی کا پیر نہ ہو تو وہ اس کتاب کا مطالعہ کرے! اسے پیر مل جائے گا ۔ (مقدمہ کشف المحجوب مترجم صفحہ نمبر ۲۰،چشتی)

سلسلۂ طریقت : حضرت داتا گنج بخش رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ سلسلہ جنیدیہ میں بیعت ہوئے ، یہ وہی سلسلہ ہے جس میں حضور غوث الاعظم محی الدین سیّد ابو محمد عبد القادر جیلانی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ بیعت ہوئے تھے ۔ حضرت داتا گنج بخش رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کے مرشد گرامی حضرت سیدنا ابوالفضل محمد بن حسن خُتُلى رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ تھے جو حضرت شىخ ابو الحسن على حُصرى کے مرىد ، وہ حضرت سیدنا شىخ ابوبکر شبلى کے ، وہ حضرت سیدنا جنىد بغدادى کے ، وہ حضرت سیدنا سرى سقطى کے ، وہ حضرت سیدنا معروف کرخی کے ، وہ حضرت سیدنا داؤد طائی کے ، وہ حضرت سیدنا حبىب عجمى کے ، وہ حضرت سیدنا ابوسعید حسن بصرى کےمریدتھے ۔ (رَحمَہمُ اللّٰہ علیہم اجمعین)

حضرت سیدنا حسن بصری رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ وہ جلیل القدر ہستی ہیں جو براہِ راست امیرالمؤمنین حضرت سیدنا على رضی اللہ عنہ سے شرف بیعت اورخلافت کی دولت سے مالامال تھے ۔ (مقدمہ کشف المحجوب مترجم صفحہ ۱۳)

حنفی المذہب : حضرت داتا صاحب رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نہ صرف حنفی المذہب تھے بلکہ حضرتِ سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ سے خاص عقیدت بھی رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب کشف المحجوب میں امام موصوف کا نام نامی اسمِ گرامی نہایت تعظیم کے ساتھ اس طرح تحریر فرمایا : امام اما ماں و مقتدائی سنیاں ، شرفِ فقہاء ، عزّ علماء ابو حنیفہ نعمان بن ثابت الخراز رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ ۔ (مقدمہ کشف المحجوب مترجم صفحہ ۱۶،چشتی)

ایک خواب کا ذکر : حضرت داتا گنج بخش رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کی امام اعظم رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ سے محبت و عقیدت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : میں اىک روز سفر کرتا ہوا ملک شام مىں مؤذن رسول حضرت سیدنا بلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ کے روضے پر حاضر ہوا ، وہاں میری آنکھ لگ گئی اور میں نے اپنے آپ کو مکہ معظمہ پایا ۔ کیا دیکھتا ہوں کہ سرکارِ دوعالم صَلَّی اللّٰہ علیہ واٰلہ وسلَّم قبیلہ بنى شىبہ کے دروازے پر موجود ہیں اور ایک عمر رسیدہ شخص کو کسی چھوٹے بچے کی طرح اُٹھائے ہوئے ہیں ، میں فرطِ محبت سے بے قرار ہو کر آپ صَلَّی اللّٰہ علیہ واٰلہ وسلَّم کى طرف لپکا اور آپ کے مبارک قدموں کو بوسہ دیا ، دل ہی دل میں اس بات پر بڑا حیران بھی تھا کہ یہ ضعیف شخص کون ہے ؟ اتنے میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے مَحبوب ، دانائے غُیوب صَلَّی اللّٰہ علیہ واٰلہ وسلَّم قوتِ باطنى اور علمِ غیب کے ذریعے میری حیرت و استعجاب کی کیفیت جان گئے اور مجھے مخاطب کر کے فرمایا : یہ ابوحنیفہ ہیں اور تمہارے امام ہیں ۔ (مقدمہ کشف المحجوب مترجم صفحہ ۱۷،چشتی)

حضرت داتا گنج بخش رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ اپنا یہ خواب بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اس سے مجھے معلوم ہو گیا کہ حضرت سیِّدُنا امام اعظم ابوحنیفہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ کا شمار ان لوگوں مىں سے ہے جن کے اوصاف شریعت کے قائم رہنے والے احکام کى طرح قائم و دائم ہیں ، یہى وجہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہ علیہ واٰلہ وسلَّم ان سے اس قدر محبت فرماتے ہىں اور آپ صَلَّی اللّٰہ علیہ واٰلہ وسلَّم کو جو ان سے محبت ہے اس سے یہ نتپجہ بھی نکلتا ہے کہ جس طرح آپ صَلَّی اللّٰہ علیہ واٰلہ وسلَّم سے خطا ممکن نہیں اسى طرح حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ سے بھى خطا کا صدور نہیں ہو سکتا یہ ایک لطیف نکتہ ہے جسے صرف وہى لوگ سمجھ سکتے ہىں جو اللہ عَزَّوَجَلَّ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ (کشف المحجوب مترجم صفحہ ۲۱۶)

حکم مرشد کی حکمت : حضر تِ داتا گنج بخش رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے حصولِ معرفت کى خاطر بے حد ریاضت و عبادت کى حُصولِ علم کی خاطر سفر کی صعوبتیں برداشت کیں ، رضائے الٰہى کےلیے اُونی لباس پہنا ، محبتِ الٰہى میں فقر و فاقہ اختیار کیا اور عشقِ حقیقى میں ثابت قدمی کی خاطر مصائب و مشکلات میں صبر و ضبط سے کام لیا آخرکار اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل سے آپ کی معرفت کی تکمیل ہوئی ۔ جب آپ کے پیر و مرشد حضرت ابوالفضل محمد بن حسن خُتُلی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کی نظرِ ولایت نے دیکھا کہ میرے مریدِ خاص کے علمِ ظاہری و باطنی سے مخلوق خدا کے فائدہ اٹھانے اور ان کی صحبت سے فیض پانے کا وقت آگیا ہے تو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے حکم دیا کہ تم (مرکز الاولیا) لاہور روانہ ہو جاؤ اور وہاں جا کر رُشد و ہداىت کا فریضہ انجام دو ۔ (مقدمہ کشف المحجوب مترجم صفحہ ۵۰)

اس زمانہ میں غزنى سے لاہور تک کا راستہ کافى دشوار گزار تھا ، لہٰذا آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ مرشدِ کریم سے رخصت ہو کر پہلے اپنے وطن غزنى آئے اور وہاں سے حضرت احمد حمادی کرخی اور حضرت ابو سعید ہجویری رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہِمَا کو ساتھ لے کر تین افراد کے قافلہ کى صورت میں مرکزالاولیا لاہور کى طرف چل دیے اوربڑی مشقتوں سے پہاڑى راستے طے کرتے ہوئے پہلے پشاور اور پھر غالباً ۴۳۱ ھ بمطابق 1041ء کو مرکزالاولیا لاہور میں آپ کی آمد ہوئی ۔ (تذکرہ اولیائے لاہور صفحہ ۵۷،ادارہ پیغام القرآن)

حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نہ صرف علم و فضل کے اعلیٰ مرتبے پر فائز تھے بلکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے بہت مقرب ولی اور صاحبِ کثیرُالکرامات بھی تھے ۔

رائے راجو ایک بہت بڑا ہندو جادو گر تھالوگ اسے اپنے جانوروں کا دودھ دیا کرتے تھے اور اگر کوئی اسے دودھ کا نذرانہ نہ دیتا تو وہ اس کے جانوروں پر ایسا جادو کرتا کہ جانوروں کےتھنوں سے دودھ کے بجائے خون نکلنے لگتا ۔ ایک دن ایک بوڑھی عورت رائے راجو کے پاس دودھ لے جارہی تھی کہ حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے بلاکر فرمایا کہ یہ دودھ مجھے دے دو اور جو اس کی قیمت بنتی ہے وہ لے لو ۔ اس بوڑھی عورت نے کہا کہ ہمیں بہر صورت یہ دودھ رائے راجو کو دینا ہی پڑتا ہے ورنہ ہمارے جانوروں کے تھنوں سے دودھ کے بجائے خون آنے لگتا ہے اس پر حضرت داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مسکرا کر فرمایا اگر تم یہ دودھ مجھے دے دو تو تمہارے جانوروں کا دودھ پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ جائےگا ۔ یہ سنتے ہی اس عورت نے آپ کو دودھ پیش کردیا ۔ جب وہ اپنے گھر گئی تویہ دیکھ کر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اس کے جانوروں میں اس قدر دودھ تھا کہ تمام برتن بھرجانے کے بعد بھی تھنوں سے دودھ ختم نہیں ہورہا تھا ۔ جب آپ رحمۃ اللہ علیہ کی یہ زندہ کرامت لوگوں میں عام ہوئی تو گرد ونواح سے لوگ دودھ کا نذرانہ لے کر آپ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہونے لگے ۔ ایک طرف تو لوگوں کی عقیدت کا یہ حال تھا اور دوسری طرف رائے راجویہ ماجرا دیکھ کرآگ بگولا ہو رہا تھا ۔ آخر کار آپ رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور انہیں مقابلے کےلیے للکارتے ہوئے کہنے لگا کہ اگر آپ کے پاس کوئی کمال ہے تو دکھائیں ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا میں کوئی جادوگر نہیں ، میں تواللہ تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ ہوں ، ہاں ! اگر تمہارے پاس کوئی کمال ہے تو تم دکھاؤ ۔ یہ سنتے ہی وہ اپنے جادو کے زور پر ہوا میں اڑنے لگا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ یہ دیکھ کر مسکرائے اور اپنے جوتے ہوا میں اچھال دیے ، جوتے رائے راجو کے ساتھ ساتھ ہوا میں اڑنے لگے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی یہ کرامت دیکھ کر رائے راجو بہت متأثر ہوا اور نہ صرف توبہ کر کے دائرۂ اسلام میں داخل ہو گیا بلکہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر بیعت بھی کی اور آپ کی صحبتِ بابرکت سے فیضیاب ہوا ۔ حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا نام احمد رکھا اور شیخ ہندی کا خطاب عطا فرمایا ۔ شیخ ہندی کی اولاد اس وقت سے آج تک خانقاہ کی خدمت کے فرائض انجام دیتی آرہی ہے ۔ ( تذکرہ اولیائے لاہور صفحہ ۵۹،چشتی)

حضرت داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے لاہو ر تشریف لاتے ہی اپنی قیام گاہ کے ساتھ ایک چھوٹی سی مسجد تعمیر کرائی ، اس مسجد کی محراب دیگر مساجد کی بہ نسبت جنوب کی طرف کچھ زیادہ مائل تھی ، لہٰذا مرکزالاولیا لاہور میں رہنے والے اس وقت کے علماء کو اس مسجدکی سمت کے معاملے میں تشویش لاحق ہوئی ۔ چنانچہ ایک روز داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تمام علماء کو اس مسجد میں جمع کیا اور خود امامت کے فرائض انجام دیے ، نماز کی ادائیگی کے بعد حاضرین سے فرمایا : دیکھیے کہ کعبہ شریف کس سمت میں ہے ؟ یہ کہنا تھا کہ مسجد و کعبہ شریف کے درمیان جتنے حجابات تھے سب کے سب اُٹھ گئے اور دیکھنے والوں نے دیکھا کہ کعبہ شریف محرابِ مسجد کے عین سامنے نظر آرہا ہے ۔ (مقدمہ کشف المحجوب مترجم صفحہ ۵۶،چشتی)

حضرت داتاعلی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ تصوُّف کے اعلیٰ مرتبے پر فائز عشقِ حقیقی سے سرشار فنافی اللہ بُزرگ تھے لہٰذا آپ کی گفتگو کے ہر پہلو میں رضائے الٰہی ، مسلمانوں کی خیرخواہی اور عقائد و اعمال کی اصلاح سے متعلق مہکتے پھول نظر آتے ہیں آئیے ان میں سے چند اقوال ملاحظہ کیجیے : ⬇

1 ۔ کرامت ولی کی صداقت کی علامت ہوتی ہے اور اس کا ظہور جھوٹے انسان سے نہیں ہو سکتا ۔

2 ۔ ایمان ومعرفت کی انتہا عشق ومحبت ہے اور محبت کی علامت بندگی (عبادت) ہے ۔

3 ۔ کھانے کے آداب میں سےہےکہ تنہا نہ کھائے اور جو لوگ مل کرکھائیں وہ ایک دوسرے پر ایثار کریں ۔

4 ۔ مسلسل عبادت سے مقامِ کشف ومشاہدہ ملتا ہے ۔

5 ۔ غافل امراء ، کاہل (سُست) فقیر اور جاہل درویشوں کی صحبت سے پرہیز کرنا عبادت ہے ۔

6 ۔ سارے ملک کا بگاڑ ان تین گروہوں کے بگڑنے پر ہے ۔ حکمران جب بے علم ہوں ، علماء جب بے عمل ہوں اور فقیر جب بے توکل ہوں ۔

7 ۔ رضاکی دوقسمیں ہیں : (1) خداکا بندے سے راضی ہونا ۔ (2) بندے کا خدا سے راضی ہونا ۔ (اقوال زرین کا انسائیکلوپیڈیا صفحہ ۷۶،چشتی)

8 ۔ دنیا سرائے فساق وفجار (گنہگاروں کا مقام) ہے اور صوفی کا سرمایہ زندگی محبتِ الٰہی ہے ۔ (کشف المحجوب مترجم،ص۱۰۴)

9 ۔ بھوک کو بڑا شرف حاصل ہے اور تمام امتوں اور مذہبوں میں پسندیدہ ہےاس لیےکہ بھوکے کادل ذکی (ذہین) ہوتاہے ، طبیعت مہذب ہوتی ہے اور تندرستی میں اضافہ ہوتا ہےاور اگر کوئی شخص کھانے کے ساتھ ساتھ پانی پینے میں بھی کمی کر دے تو وہ ریاضت میں اپنے آپ کو بہت زیادہ آراستہ کرلیتا ہے ۔ (کشف المحجوب مترجم صفحہ ۵۱۹،چشتی)

آپ رحمۃ اللہ علیہ کاوصالِ پُرملال اکثر تذکرہ نگاروں کے نزدیک ۲۰ صفرالمظفر ۴۶۵ ہجری کو ہوا ۔ آپ کامزار منبعِ انوار و تجلیات مرکزالاولیا لاہور (پاکستان) میں ہے اسی مناسبت سے لاہور کو مرکز الالیاء اورداتا نگر بھی کہا جاتا ہے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کو تقریباً 900 سال کا طویل عرصہ بیت گیا مگر صدیوں پہلے کی طرح آج بھی آپ کا فیضان جاری ہے اور آپ کا مزار مرجعِ خاص و عام ہے جہاں سخی و گدا ، فقیر و بادشاہ ، اصفیا و اولیاء اور حالات کے ستائے ہوئے ہزاروں پریشان حال اپنے دکھوں کا مداوا کرنے صبح و شام حاضر ہوتے ہیں ۔ داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے فیض کا اندازہ اس بات سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ معین الاسلام حضرت خواجہ غریب نواز سید معین الدین حسن چشتی سنجری اجمیری رحمۃ اللہ علیہ بھی ایک عرصے تک آپ کے دربار پر مقیم رہے اور منبعِ فیض سے گوہرِمراد حاصل کرتے رہے اور جب دربار سے رخصت ہونے لگے تو اپنے جذبات کا اظہار کچھ یوں فرمایا : ⬇

گنج بخش فیضِ عالم مظہرِ نورِ خدا
ناقصاں را پیرِ کامل کاملاں را راہنما
(مقدمہ کشف المحجوب مترجم صفحہ ۵۹) ۔ (مزید حصّہ نمبر 2 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...