دو قومی نظریہ اور موجودہ پاکستان حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام : دو قومی نظریہ دراصل قیام پاکستان کی بنیاد ہے اور یہ نظریہ سو فیصد درست ہے ، قیام پاکستان کے پسِ منظر میں جھانکیں تو ہمیں دو قومی نظریے کی تفصیل، تعریف ، صحیح معنوں میں افادیت جھلکتی نظر آتی ہے ، دو قومی نظریے ہی دراصل نظریہ پاکستان ہے ۔
نظریہ پاکستان وہ مطمح نظر ہے جس کی بنیاد ایک مخصوص نظریے یعنی اسلام پر رکھی گئی ہے جو اپنی تہذیب و ثقافت ، اقدار و روایات اور اپنا سیاسی و معاشی نظام فکر رکھتاہے برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کو اپنی شناخت اور پھر دو قومی نظریے کی بنیاد پر جداگانہ ریاست کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ ان کے ساتھ موجود ایک دوسرے نظریے کے حامل افرادجومسلمانوں کے توحید اور انسانی مساوات کے نظریہ حیات کے برعکس بت پرستی اور ذات پات کے قائل تھے ، انہیں اپنے اندر جذب کر کیاپنے نظامِ فکر و عمل کا حصہ بنانا چاہتے تھے ، لیکن اس کے برعکس اس خطے میں بسنے والی ملتِ اسلامیہ اپنے قومی تشخص اور علیحدہ شناخت کو چھوڑنے کیلئے کسی صورت تیار نہ تھی ، یہ ملت اسلامیہ اپنے نظام فکر کو قائم رکھنا چاہتی تھی بلکہ عملی طور پر اس کے ظہور کی قائل تھی دونوں قوموں کے درمیان یہی امتیازی خصوصیات دو قومی نظریے کی بنیاد ہیں جو محض نظریہ ہی نہیں بلکہ روز مرہ پیش آنے والی حقیقت ہے ، یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں نے ایسے علاقوں پر مشتمل علیحدہ ریاست کا مطالبہ کیا ، جن میں مسلمان اکثریت میں تھے ۔
ظاہر ہے کہ جب مسلمان اپنی جداگانہ تہذیب و اقدار اور مذہب و روایات کے لحاظ سے ایک مختلف تشخص کے حامل تھے تو انہیں اپنا تشخص برقرار رکھنے کے لئے ضروری تھا کہ آئے دن کے نظریاتی ، مذہبی، معاشرتی اور اقتصادی تصادم سے نجات حاصل کریں ، یہی علیحدہ تشخص کی خواہش دو قومی نظریے کی اصل ہے ۔ (چشتی)
یعنی برصغیر جنوبی ایشیاء میں مسلمان ہر لحاظ سے ایک علیحدہ شناخت اور پہچان کی حامل قوم ہے جس کا کوئی انگ، رنگ، ڈھنگ ہندووں سے مشابہت نہیں رکھتا ، اسی دو قومی نظریے کی بنیاد پر مسلمانوں نے ایک الگ وطن کا مطالبہ کیا،
افراد کا ایسا گروہ جس کا کوئی مقصد ہو ، قوم کہلاتا ہے اور مسلمان ایک ایسی قوم تھے اور ہیں جن کا ایک واضح مقصد ہے یعنی اللہ کے نظام کی برتری ،اور اسی نظام کے تحت اپنی زندگیاں گزارنا، اور یہ تبھی ممکن تھا جب مسلمانوں کے پاس اپنا ایک الگ وطن ہو، پس دو قومی نظریہ کی بنیاد ہی یہ ہے ۔ (چشتی)
سیدنا آدم علیہ السّلام سے لے کر اب تک دنیا میں دو قسم کے انسانوں کے گروہ ہمیشہ سے موجود رہے ، ایک وہ جو دنیا میں امن و سلامتی اور استحکام کا خواہاں رہا اور دوسرا وہ جو شر اورتباہی چاہتا رہا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ’’ الکفر ملۃ واحدہ‘‘ یعنی کافر ایک ملت ہیں ، وہ جہاں بھی ہوں گے اسلام کے نظام اور نظریات کی مخالفت کریں گے ، اسی طرح مسلمان اپنے مشترکہ نظریات کی وجہ سے ملت واحد ہیں گویا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بھی روئے زمین پہ بسنے والوں کو دو گروں اور قوموں میں تقسیم کر دیا ، (1) ملت اسلام (2) ملت کفر ۔
اسلام کی عظمت، آفاقیت اور حیران کن جاذبیت سے ملت کفر ہمیشہ خائف رہی ، اسلام سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لئے تحریکیں چلیں ، کتابیں ، قصے، اور فلمیں بنائی جاتی رہیں ، لیکن اسلام کی جس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ نے لے رکھا ہے ، کافروں کے پنجہ استبداد سے محفوظ رہا ۔ (چشتی)
ہندوستان کے مسلمانوں کی زندگی میں 1761میں ایک اہممور آیا جس سے ان کی بقا اور سلامتی کو شدید خطرلاحق ہوگیا ،اسلامی حکومتوں کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مرہٹے، جاٹ اور سکھوں نے مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کردیا، بر صغیر کے مسلمانوں میں مرکزیت ختم ہونے کے سبب ان کی سیاسی حالت نا گفتہ بہ ہو گئی تھی، روہیل کھنڈ ، جنوبی ہند، حیدر آباد، بنگال ، اڑیسہ اور پنجاب میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں تھیں ، مرکزی حکومت کا دائرہ عمل صرف دہلی کے لال قلعے تک محدود تھا ۔
ان حالات میں ایک مردِ خدا حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے مسلمانوں کی راہنمائی کا بیڑا اٹھایا ، آپ نے ملکی حالات کا جائزہ لیا اور یہاں کا حکمرانون میں جہاد کی صلاحیت نہ پا کر احمد شاہ ابدالی کو مسلمانوں کی مدد پر آمادہ کیا، احمد شاہ ابدالی ہر قسم کے مالی فوائد سے بے نیاز ہو کر صرف جذبہ جہاد کے تحت 1761میں پانی پت کے میدان میں مرہٹوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے، پانی پت کی تیسری جنگ میں اگرچہ مسلمانوں کو عظیم فتح حاصل ہوئی لیکن برصغیر کے مسلم حکمرانوں نے اس سے کوئی سیاسی فائدہ نہ اٹھایا اوت نہ ہی باہمی یگانگت اور اتحاد و سلامتی کی کوئی مربوط کوشش کی گئی ، مسلمانوں کے اس دور زوال میں بہت سے مجاہدین نے مسلمانوں کی حالت کو سنبھالا دینے کی کوشش کی ۔ (چشتی)
دوسری طرف نواب سراج الدولہ 1757اور سلطان ٹیپو شہید نے1799 میں غیر ملکی و غیر مسلم سامراج کے خلاف داد شجاعت دی ۔اس عزم جہاد نے ثابت کیا کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں اور اپنا قومی تشخص ان کو جان سے پیارا ہے ۔
مغلوں کے زوال کے بعد اصلاحی تحریکوں اور مسلم ریاستوں کے نوابوں نے مشرکین سے جہاد کیا اس سے ملت اسلامیہ کے تصور قومیت اور اتحاد کو بہت فروغ حاصل ہوا۔ یہی وہ محرکات تھے جو جداگانہ اسلامی تشخص سے ارتقائی سفر کرتے ہوئے جداگانہ اسلامی ریاست کے لئے مشعل راہ بنے ۔ (چشتی)
تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ہندوستان کی تقسیم کا تصور بہت پرانا ہے ،، دو قومی نظریہ کی روشنی میں برصغیر کی تقسیم کے مبلغین میں نہ صرف مسلمان بلکہ خود ہندو اور انگریز بھی پیش پیش رہے ۔
سلطان شہاب الدین محمد غوری نے مسلم ہندو اختلافات کوہمیشہ کے لئے طے کرنے کا ایک حل نکالا اور ہندو راجہ پرتھوی راج کو تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ : برصغیر میں مسلمانوں اور ہندووں کی باہمی معرکہ آرائی کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کا واحد حل یہی ہے کہ برصغیر کو دریائے جمنا کو حدِ فاصل بنا کر اس طرح تقسیم کر دیا جائے کہ مشرقی ہندوستان پر ہندووں اور مغربی ہندوستان پر مسلمانوں کو تصرف ہوجائے تاکہ دونوں قومیں امن و امان سے زندگی گزار سکیں ۔
مسٹر جان برائٹ 1817-1898 مسٹر جان برائٹ نے 1858میں حکومت برطانیہ کو تجویز پیش کی کہ ہندوستان کو متعدد خود مختار صوبوں میں تقسیم کر دیا جائے جو بظاہر علیحدہ ہوں لیکن تاجِ برطانیہ کی زیر نگرانی ہوں اوریہ برطانوی اقتدار ختم ہونے پر آزاد اور خود مختار ہوسکیں ۔
یاد رہے کہ جان برائٹ کی اس تجویز کی اہمیت کے پیش نظر قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے بھی 31مارچ1944کو فارمین کرسچئین کالج کے طلبہ کے استقبالیے سے خطاب کرتے ہوئے اس کا حوالہ دیاتھا۔
عقیدے اور مذہب کی حیثیت سے ہندو مذہب مبہم اور غیرمعین پہلو رکھتا ہے ،ہندو ، دنیا کی پست ہمت اور عسکری روایات سے محروم واحد قوم ہے جس میں شجاعت و بہادری کی بجائے تعصب ، کینہ پروری اور تنگ نظری کے جذبات پائے جاتے ہیں اگرچہ اہلِ ہند کو حکمرانی کے بہت سے مواقع ملے مگر سازگار ماحول کے باوجود وہ کوئی اچگا تاثر قائم نہ کر سکے ،صدیوں کی غلامی نے ان کا قومی کردار ہی تباہ کر دیا تھا، گائے کے تقدس اور دوسرے جانوروں کی حرمت کے غیر فطری جذبات نے ان کی ترقی کی راہیں مسدود کر دی تھیں ، برصغیر میں مسلمانوں نے اپنی آمد کے بعد گروہی اور طبقاتی تقسیم ختم کرکے برصغیر کو ایک وحدت میں بدلنے کا فریضہ انجام دیا ۔
ہندوستان میں دو قومی نظریہ کے تحت پاکستان بنا کہ ہندو معاشرے کی گندی رسومات ، رواجات اور ثقافت اسلام سے متصادم تھی اور ہے ۔ جس معاشرے میں انسان کے درجات قبائل کی بنیاد پر ہوں ، جہاں کا نظام طبقاتی ہو، جہاں شوہر کے مر جانے کی صورت میں اس کے بھائی کے ساتھ شادی کو مذہبی حیثیت حاصل ہو، سائنسی ترقی اور علمی عروج کے دور میں بھی اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں کی پوجا کی جاتی ہو، گائے کا پیشاب برکت کا باعث ہو، مرتے وقت گاؤ موتر بطور شفأ و آسانیِ نزع کے لئیے استعمال ہو، گنگا جمنا میں مرد و زن کے مخلوط اجتماع میں نہایا جائے، جو اپنے مُردوں کو اس لئیے جلا دے کہ اسے بعدِ مرگ حساب نہ چکانا پڑے ، جہاں درخت مقدسات میں شامل ہوں ، جنم کنڈلیوں پر زندگی ترتیب دی جائے، کسی مخصوص جگہ رشتہ کرنا مقصود ہو تو اس کی نحوست زائل کرنے کے لئیے بندر، کتا اور درخت سے حفاظتی شادیا ں کی جائیں ، جہاں مذہبی رسوم کے رہنما ننگے بیٹھے ہوئے پنڈت خوبرو خواتین پر جنسی غلاظت نکالیں اور جہاں زندگی کا ہر ہر کام وہم اور خیالات پر مبنی ہو وہاں اسلام اور مسلمان نہیں رہ سکتا ۔ (چشتی)
اسلام اپنے قوانین ، شریعت اور ثقافت کے ساتھ دنیا میں موجود ہے ۔ دو قومی نظریہ ایک آفاقی نظریہ ہے ۔ اسلام دنیا کے ہر کونے میں پہنچ چکا ہے ۔ اہل کتاب مشرکین ضرور ہیں مگر ان پر شریعتیں آئیں اور انبیأ بھی تشریف لائے ، انہوں نے انبیأ کا انکار کیا ، کتب میں ترمین کی مگر وہ اہلِ شریعت ضرور ٹھہرے ۔ پوری دنیا میں ایک ہندوستان ایسا ملک ہے جہاں آج تک بتوّں کی پوجا ہو رہی ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب اس خطے میں موجود ہر بت پاش پاش ہو جائے گا اور پھر کلہاڑی بڑے بت کے کندھے پر رکھ دی جائے گا ۔۔۔۔ وہی دن دو قومی نظریہ کی تکمیل کا دن ہو گا ۔۔۔ ان شاء اللہ ۔۔۔۔ دو قومی نظریہ ہر مسلمان کے دل و دماغ میں موجود ہے ، کفر و شرک اور اور ان کی ثقافت سے بیزاری و نفرت اس نظریہ پر عمل کا بہترین ثبوت ہے ۔ دو قومی نظریہ ہر اس جگہ موجود ہے جہاں مسلمان موجود ہے ۔ آفاقی نظریہ پورے آفاق میں سفر کر ہا ہے ۔۔۔ مسلمان بد عمل ہو سکتا ہے ۔۔۔ سست، غافل ہو سکتا ہے ۔۔۔ مگر بے غیرت نہیں ہو سکتا ہے ۔۔۔۔ کیونکہ اس نظریہ کی خاطر ہم نے مدینہِ اور حبشہ کی ہجرت کی ۔۔۔ اس نظریہ کی خاطر تاریخِ انسانیت کی سب سے بڑی ہجرت ہندوستان سے پاکستان کی طرف ہوئی ۔۔۔ اس نظریہ کی بقا کے لئیے آج تک لاکھوں ماؤں کی گود خالی ہوئی ، سہاگ اجڑے ، بچے یتیم ہوئے ، املاک لٹ گئیں ، پورے پورے خاندان اجڑ گئے ۔۔۔ اور ۔۔۔۔ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے جگر پارے حسین ابن علی رضی اللہ عنہم نے کربلا پر ڈیرے ڈالے اور ۔۔۔ آخر میں یہ بھی یاد رکھئیے کہ اسی نظریہ کو بچانے کے لئیے 1947 میں ہماری ماؤں اور بہنوں کی چھاتیاں کاٹی گئیں ، انہیں زبردستی حاملہ کیا گیا اور آج ان عصمت و عزت والی ماؤں کے بطن سے پیدا ہونے والے سینکڑوں ہزاروں بچوں کے نام ہندو اور سکھ ولدیت کے ساتھ شنکر ، رام ، دیپک ، کلونت، پرکاش، ونود، اتم اور سنگھ سے موسوم ہیں ۔ اس دو قومی نظریہ پر مہر حق اس وقت ثبت ہو جاتی ہے جب ہم دنیا میں آنے والے اپنے ہر بچے کے کان میں محبت سے سرگوشی کرتے ہوئے اسے اشہد الا الٰہ الا اللہ و اشہد انّ محمد الرسول اللہ کا کلمہ حق سنا کر باطل کے سینے میں خنجر گھونپ دیتے ہیں ۔ یہ نظریہ صبحِ قیامت تک زندہ رہے گا اور ہم اس نظریہ کی حفاظت کے لئیے سر بکفن ہیں ۔ ان شاء اللہ ۔
دو قومی نظریہ تحریک پاکستان کی روح اور قیام پاکستان کی بنیاد ہے ۔ دو قومی نظریہ جس کے نتیجے میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا ، اگر ہم تحقیقی جائزہ لیں تو کشمیر، فلسطین اور افریقی ممالک کا حل صرف اسی دو قومی نظریے کی روح کو سمجھنے سے ہو سکتا ہے ، اور دو قومی نظریہ ہی مسلمانو ں کی ترقی کا ضامن ہے ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment