Sunday 13 August 2023

جشن آزادی مگر میں کس زباں سے کہوں جشنِ آزادی مبارک ہو

0 comments
جشن آزادی مگر میں کس زباں سے کہوں جشنِ آزادی مبارک ہو
محترم قارئینِ کرام : ہمارا پیارا وطن اِسلامی جمہوریہ پاکستان 14 اگست 1947 عیسوی بمطابق 27 رمضان المبارک 1366ہجری کو مَعْرضِ وُجود میں آیا ۔ اللہ تَعالٰی اِس کی حفاظت فرمائے ، دشمنوں کی میلی نظر سے محفوظ رکھے اور ہمیں اِس عظیم نعمت کی حقیقی قدْر کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔

قیامِ پاکستان کا مقصد

پاکستان کا قیام صرف زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کےلیے نہیں کیا گیا بلکہ اس کا مقصد ایک ایسی آزاد رِیاست تھا جہاں مسلمان اپنے رب عزوجل اور اس کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہ وسلَّم کی تعلیمات کی روشنی میں پُراَمْن زندگی گزار سکیں ۔ قیامِ پاکستان کے وقت ہر طرف ایک ہی نعرہ تھا کہ ”پاکستان کا مطلب کیا ؟ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّااللہ“ لیکن افسوس ! کہ آج مسلمان اپنے پیارے وطن پاکستان کے قیام کا مقصد نظر اَنْدَاز کیے بیٹھے ہیں ، جس وطن کو آزادی سے عِبادَت کرنے کےلیے حاصل کیا گیا تھا ۔ مگر اسی ملک کے رہنے والے اللہ عزوجل اور رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہ وسلَّم کے احکامات کی نافرمانی کرتے نہیں گھبراتے ، وہ لوگ جنہوں نے اس وطن کے لیئے لاکھوں جانوں کا نذرانہ دیا ، وہ مائیں جنہوں نے اس وطن پر اپنے دودھ پیتے بچے قربان کیے ، آج انہی کی اولاد کسی بھی ناخوشگوار موقع پر اسی وطن کی اَملاک تباہ کرنے ، جلاؤ گھیراؤ کرنے ، اپنے ہی مسلمان بھائیوں کی گاڑیاں ، دکانیں جلانے اور توڑ پھوڑ کرنے سے بالکل نہیں گھبراتی ۔

جشنِ آزادی کیوں مَناتے ہیں ؟

جس دن کوئی نعمت ملے ، اُس کی یاد مَنانا شرعاً جائز ہے۔ یاد رہے کہ جشنِ آزادی منانے کا مقصد اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی دی ہوئی نعمت ”آزادی“ کا شکرادا کرنا ہوتا ہے ، اور”شکر“ کا تقاضا یہ ہے کہ جس کی جانِب سے نعمت ملی ہے اس کی اطاعت و فرمانبرداری کی جائے ، لیکن افسوس کہ کچھ لوگ یومِ آزادی کا جشن منانے کے نام پر اونچی آواز سے موسیقی بجاتے ہیں ، ہوائی فائرنگ ، وَن وِیلنگ کرتے ہیں ، بعض تو شرابیں پی کر اُودَھم مچاتے ہیں ۔ اِس انداز کی نہ تو شریعت اِجازَت دیتی ہے اور نہ ہی مُلکی قانون ۔

میں کس زباں سے کہوں جشنِ آزادی مبارک ہو

کراچی سے لے اسکرددو تک ملک کے طول و عرض میں جشنِ آزادی کی رونقیں اپنے عروج پر ہیں اور پاکستان کے بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں کبھی ملک دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والےسازشی عناصر نے پاکستان کے پرچم جلائے تھے لیکن اب وہاں بھی سبز ہلالی پرچم اپنی بہاردکھا رہا ہے ۔

آزادی کس قدر عظیم نعمت ہے اس کااندازہ صرف وہی کرسکتے ہیں جو کہ آزادی کی نعمت سے محروم ہوں دنیا میں کئی خطے ایسے ہیں جہاں کے عوام  آج کے اس جدید دور میں بھی کسی غاصب کے تسلط سے آزادی کے حصول کےلیے جدوجہد کررہے ہیں جن میں پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود متنازعہ علاقہ کشمیر بھی ہے ۔

بہرحال آج کا موضوع کشمہیر نہیں بلکہ جشنِ آزادی ہے یہ دن پاکستان کی تاریخ کا سب سے اہم دن ہے اسی دن برصغیر کے مسلمانوں نے برطانوی راج اور ہندوسامراج کے تسلط سے آزادی حاصل کی تھی اور نہ صرف برصغیر بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کےلیے امید کا ایک سورج طلوع ہوا تھا پاکستان کو اسلام کا قلعہ کہا اور سمجھا جانے لگا اور پاکستان نے مستقبل کی راہ پر اپنے سفر کا آغاز کیا ۔

پاکستان اپنے محلِ وقوع کے اعتبار سے انتہائی حسین ملک ہے یہاں بلندو بالا پہاڑ ہیں تو بل کھاتے دریا بھی ، سرسبز زرخیز میدان ہیں تو ٹھاٹھیں مارتے سمندر بھی ہیں ۔ پاکستان میں بسنے والے عوام دنیا کی نظروں میں انتہائی قابل ٹہھرے اور افواج پاکستان کے وہ جانباز سپوت بھی اسی دھرتی کے ہیں جو کہ سیاچن جیسے بلند ترین میدانِ جنگ میں  دنیا کی سب سے مشکل جنگ لڑنے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں ۔

پھر یوں ہوا کہ یہ حسن بے مثال کہ جس کا ثانی ہی کوئی نہ تھا  دنیا کی نظرِ بد کا شکار ہوگیا اور پھر پاکستان کی تنزلی کا سفر شروع ہوا جس کا آغاز ہی اس قدر عظیم تھا کہ ہم آج تک اس زخم کی ٹیس اپنے سینوں میں محسوس کرتے ہیں یعنی بنگلہ دیش کی علیحدگی ، آج دنیا بھر کے سامنے یہ بات آشکارہوچکی ہے کہ بنگال کی علیحدگی کے پیچھے کون تھا ۔ پھر اس کے بعد ملک کی پہلی عوامی حکومت کو برطرف کر کے آمریت نے ملک پر اپنے پنجے گاڑ دیے ۔ ضیا دور نے ہمیں کچھ تحائف دیے پہلا اسلحہ اور منشیات کا کلچر ، افغان مہاجرین اور سب سے مہلک مذہبی انتہا پسندی جس کے ثمرات ہم آج بھی بھگت رہے ہیں ۔

گزشتہ چند سالوں میں پاکستان نے اپنی 75 سالہ تاریخ کا بدترین دور دیکھا کہ اس دور میں ملک کے ہر اک گلی کوچے کو انتہا پسند دہشت گردوں نے لہو سے نہلا دیا اور لگ بھگ 50 ہزار پاکستانی شہری  اپنے ارضِ وطن کی نظریاتی سرحدوں کے دفاع میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر بیٹھے ۔ یہی وہ دور تھا کہ جب پاکستان کی معیشت دیوالیہ ہونے کے نزدیک پہنچ گئی تھی بیروزگاری انتہا پر تھی اور ملک کے عوام شدید اذیت میں مبتلا ہوچکے تھے ۔ بالآخر پاکستان کے مقتدر حلقے گہری نیند سے جاگے اور پاکستان کے سب اہم مسئلے یعنی دہشت گردی پر توجہ مبذول کی گئی اور ضربِ عضب کے نام سے آپریشن شروع کیا جس کے مثبت اثرات کراچی سے لے کر اسکردو تک محسوس کئے جاسکتے ہیں ۔ ضربِ عضب کے نتیجے میں ملک بھر میں امن وامان کی صورتِ حال بہتر ہونا شروع ہوگئی ہے اور پاک چائنہ اکانومک کاریڈور اور اس جیسے کئی دیگر منصوبوں کے سبب تباہ حال ملکی معیشت نے بھی مثبت اشارے دینا شروع کردیے ہیں ۔ یہاں تک تو سب ہو گیا جو ہونا تھا لیکن کیا عوام جو کہ میں اور آپ ہیں بتانا پسند کریں گے کہ ہم کیا کر رہے ہیں ؟

ملک بھر میں جشن آزادی کا سما ہے یوم ، آزادی اس مملکت ، خدا دداد سے ایفائے عہد کا دن ہے لیکن ہم میں سے بیشتر اس دن اپنی نیند پوری کریں گے یا جو افراد جاگ رہے ہوں گے وہ سارا دن ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر بے مقصد فلمیں دیکھنے میں گزاریں گے ۔ جن میں جوشِ جوانی زیادہ ہے وہ اپنے اپنے موٹر سائیکل لے کر سڑکوں پر نکل آئیں گے اور سڑکوں کو ایک پہیے پر موٹر سائیکل چلا کر’صراطِ جہنم‘ میں تبدیل کردیں گے ۔ کہیں آتش بازی ہوگی تو کہیں آتشیں اسلحے کا استعمال ، کہیں خواتین کو ستایا جائے گا تو کہیں بزرگوں کو رلایا جائے گا  الغرض اک ہجوم ہوگا جو کہ سڑکوں پر امڈا ہوا ہوگا جس کی نہ کوئی منزل ہوگی نہ کوئی راستہ بس سب ہی شتر ِ بے مہار کی مانند بلا مقصد گھوم رہے ہوں گے اور وقت اور توانائیوں کا ضیاع ہو رہا ہو گا ۔ اگلے دن سب اٹھیں گے ٹی وی دیکھیں گے اخبار پڑھیں گے اور بڑھک مار دیں گے کہ اس ملک کا کچھ نہیں ہو سکتا ، یہاں کا تو نظام ہی خراب ہے وغیرہ وغیرہ ۔

جی نہیں جناب ! قومیں ایسے نہیں بنا کرتیں  قوم بننے کےلیے قربانی کا جذبہ اور اپنائیت کا احساس لازمی ہے ۔ پاکستان ہمارا ضرور ہے لیکن ہمارے باپ کی جاگیر نہیں کہ ہم جو اور جیسا دل چاہے اس کے ساتھ سلوک روا رکھیں ۔ ہمیں اس عظیم وطن کا احساس کرنا ہوگا اس تعمیر میں حصہ لینا ہوگا یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم خود تو اس ملک کہ یوم ِ آزادی پر ایک پودا نہ لگائیں اور امید رکھیں کہ حکومت ماحولیات کی بہتری کےلیے کام کرے گی ، ہم اپنی موٹر سائیکل بے ضابطگی سے چلائیں اور حکومت ضابطے میں رہ کر کام کرے ، ہم یومِ آزادی پر طوفانِ بدتمیزی بپا کر دیں اور عوامی نمائندوں سے امید رکھیں کہ وہ  پارلیمنٹ میں مہذب انداز میں بیٹھا کریں ۔ یاد رکھیے کہ جب کسی قوم کو اعمال بگڑ جاتے ہیں تو ان پر نااہل ، چور اور لوٹیرے حکمران مسلط کیے جاتے ہیں لہٰذا اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں مستقبل میں ناہل حکمرانوں سے چھٹکارا ملا رہے تو ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنا ’ْقبلہ‘ درست کریں اور آزادی کا جشن ویسے ہی منائیں جیسا کہ مہذب اقوام میں جشن منانے کا طریقہ رائج ہے۔ آج پاکستان کے مقدس اداروں کی توہین کی جا رہی ، افواج پاکستان ، سپریم کورٹ کے خلاف زبانیں دراز کی جا رہی ہیں ، یوں لگتا ہے دشمنان وطن ایک بار پھر ہمارے وطن کو توڑنا چاہتے ہیں اے اہل وطن پاکستانی بن کر سوچیے ۔

میں کس زباں سے کہوں جشنِ آزادی مبارک ہو

کراچی سے لے اسکرددو تک ملک کے طول و عرض میں جشنِ آزادی کی رونقیں اپنے عروج پر ہیں اور پاکستان کے بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں کبھی ملک دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والےسازشی عناصر نے پاکستان کے پرچم جلائے تھے لیکن اب وہاں بھی سبز ہلالی پرچم اپنی بہاردکھا رہا ہے۔

آزادی کس قدر عظیم نعمت ہے اس کااندازہ صرف وہی کرسکتے ہیں جو کہ آزادی کی نعمت سے محروم ہوں دنیا میں کئی خطے ایسے ہیں جہاں کے عوام  آج کے اس جدید دور میں بھی کسی غاصب کے تسلط سے آزادی کے حصول کے لئے جدوجہد کررہے ہیں جن میں پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود متنازعہ علاقہ کشمیر بھی ہے ۔

بہرحال آج کا موضوع کشمہیر نہیں بلکہ جشنِ آزادی ہے یہ دن پاکستان کی تاریخ کا سب سے اہم دن ہے اسی دن برصغیر کے مسلمانوں نے برطانوی راج اور ہندوسامراج کے تسلط سے آزادی حاصل کی تھی اور نہ صرف برِصغیر بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کےلیے امید کا ایک سورج طلوع ہوا تھا پاکستان کو اسلام کا قلعہ کہا اور سمجھا جانے لگا اور پاکستان نے مستقبل کی راہ پر اپنے سفر کا آغاز کیا ۔

پاکستان اپنے محلِ وقوع کے اعتبار سے انتہائی حسین ملک ہے یہاں بلندو بالا پہاڑ ہیں تو بل کھاتے دریا بھی ، سرسبز زرخیز میدان ہیں تو ٹھاٹھیں مارتے سمندر بھی ہیں ۔ پاکستان میں بسنے والے عوام دنیا کی نظروں میں انتہائی قابل ٹہھرے اور افواج پاکستان کے وہ جانباز سپوت بھی اسی دھرتی کے ہیں جو کہ سیاچن جیسے بلند ترین میدانِ جنگ میں  دنیا کی سب سے مشکل جنگ لڑنے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں ۔

پھر یوں ہوا کہ یہ حسن بے مثال کہ جس کا ثانی ہی کوئی نہ تھا  دنیا کی نظرِ بد کا شکار ہوگیا اور پھر پاکستان کی تنزلی کا سفر شروع ہوا جس کا آغاز ہی اس قدر عظیم تھا کہ ہم آج تک اس زخم کی ٹیس اپنے سینوں میں محسوس کرتے ہیں یعنی بنگلہ دیش کی علیحدگی ، آج دنیا بھر کے سامنے یہ بات آشکار ہو چکی ہے کہ بنگال کی علیحدگی کے پیچھے کون تھا ۔ پھر اسکے بعد ملک کی پہلی عوامی حکومت کو برطرف کرکے آمریت نے ملک پر اپنے پنجے گاڑ دیے ۔ ضیا دور نے ہمیں کچھ تحائف دیے پہلا اسلحہ اور منشیات کا کلچر ، افغان مہاجرین اور سب سے مہلک مذہبی انتہا پسندی جس کے ثمرات ہم آج بھی بھگت رہے ہیں ۔

گزشتہ دہائی میں پاکستان نے اپنی 70 سالہ تاریخ کا بدترین دور دیکھا کہ اس دور میں ملک کے ہر اک گلی کوچے کو انتہا پسند دہشت گردوں نے لہو سے نہلا دیا اور لگ بھگ 50 ہزار پاکستانی شہری  اپنے ارضِ وطن کی نظریاتی سرحدوں کے دفاع میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر بیٹھے ۔

یہی وہ دور تھا کہ جب پاکستان کی معیشت دیوالیہ ہونے کے نزدیک پہنچ گئی تھی بیروزگاری انتہا پر تھی اور ملک کے عوام شدید اذیت میں مبتلا ہوچکے تھے ۔

بالآخر پاکستان کے مقتدر حلقے گہری نیند سے جاگے اور پاکستان کے سب اہم مسئلے یعنی دہشت گردی پر توجہ مبذول کی گئی اور ضربِ عضب کے نام سے آپریشن شروع کیا جس کے مثبت اثرات کراچی سے لے کر اسکردو تک محسوس کیے جاسکتے ہیں ۔ ضربِ عضب کے نتیجے میں ملک بھر میں امن وامان کی صورتحال بہتر ہونا شروع ہوگئی ہے اور پاک چائنہ اکانومک کاریڈور اور اس جیسے کئی دیگر منصوبوں کے سبب تباہ حال ملکی معیشت نے بھی مثبت اشارے دینا شروع کر دیے ہیں ۔

یہ تک تو سب ہوگیا جو ہونا تھا لیکن کیا عوام جو کہ میں اور آپ ہیں بتانا پسند کریں گے کہ ہم کیا کررہے ہیں ؟

ملک بھر میں جشنِ آزادی کا سما ہے یوم ، آزادی اس مملکت ، خدادداد سے ایفائے عہد کا دن ہے لیکن ہم میں سےبیشتر اس دن اپنی نیند پوری کریں گے یا جو افراد جاگ رہے ہوں گے وہ سارا دن ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر بے مقصد فلمیں دیکھنے میں گزاریں گے۔ جن میں جوشِ جوانی زیادہ ہے وہ اپنے اپنے موٹر سائیکل لے کر سڑکوں پر نکل آئیں گے اور سڑکوں کو ایک پہیے پر موٹر سائیکل چلا کر’صراطِ جہنم‘ میں تبدیل کردیں گے ۔  کہیں آتش بازی ہوگی تو کہیں آتشیں اسلحے کا استعمال ، کہیں خواتین کو ستایا جائے گا توکہیں بزرگوں کو رلایا جائے گا  الغرض اک ہجوم ہوگا جو کہ سڑکوں پر امڈا ہوا ہوگا جس کی نہ کوئی منزل ہوگی نہ کوئی راستہ بس سب ہی شُترِ بے مہار کی مانند بلا مقصد گھوم رہے ہوں گے اور وقت اور توانائیوں کا ضیاع ہو رہا ہوگا ۔

اگلے دن سب اٹھیں گے ٹی وی دیکھیں گے اخبار پڑھیں گے اور بڑھک مار دیں گے کہ اس ملک کا کچھ نہیں ہوسکتا، یہاں کا تو نظام ہی خراب ہے وغیرہ وغیرہ ۔

جی نہیں جناب ! قومیں ایسے نہیں بنا کرتیں  قوم بننے کےلیے قربانی کا جذبہ اور اپنائیت کا احساس لازمی ہے ۔ پاکستان ہمارا ضرور ہے لیکن ہمارے باپ کی جاگیر نہیں کہ ہم جو اور جیسا دل چاہے اس کے ساتھ سلوک روا رکھیں ۔ ہمیں اس عظیم وطن کا احساس کرنا ہوگا اس تعمیر میں حصہ لینا ہوگا یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم خود تو اس ملک کہ یومِ آزادی پر ایک پودا نہ لگائیں اور امید رکھیں کہ حکومت ماحولیات کی بہتری کےلیے کام کرے گی ، ہم اپنی موٹر سائیکل بے ضابطگی سے چلائیں اور حکومت ضابطے میں رہ کر کام کرے ، ہم یومِ آزادی پر طوفانِ بدتمیزی بپا کردیں اور عوامی نمائندوں سے امید رکھیں کہ وہ  پارلیمنٹ میں مہذب انداز میں بیٹھا کریں۔ یاد رکھیے کہ جب کسی قوم کے اعمال بگڑ جاتے ہیں تو ان پر نااہل حکمران مسلط کیے جاتے ہیں لہٰذا اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں مستقبل میں اناہل حکمرانوں سے چھٹکارا ملا رہے تو ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنا ’ْقبلہ‘ درست کریں اور آزادی کا جشن ویسے ہی منائیں جیسا کہ مہذب اقوام میں جشن منانے کا طریقہ رائج ہے ۔ آج پاکستان کے عوام کے حقوق ختم ہو چُکے ہیں ، اداروں کی توہین ، افواج پاکستان کے اندر سازشیں ہو رہی ہیں ، سپریم کورٹ کے خلاف زبانیں دراز کی جا رہی ہیں ، یوں لگتا ہے دشمنانِ وطن ایک بار پھر ہمارے وطن کو توڑنا چاہتے ہیں اے اہلِ وطن پاکستانی بن کر سوچیے ۔

وطن کی محبت کا تقاضا

الحَمْدُ ِلله ہمیں اپنے وطن سے محبت ہے اور وطن سے محبت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ہم اِس کی تعمیر وترقّی میں اپنا کردار ادا کریں ۔ جھوٹ ، رشوت ، سُود ، دھوکا بازی ، مِلاوٹ ، ذخیرہ اَنْدوزی ، چوری ، ڈکیتی ، کرپشن وغیرہ سے پرہیز کرکے جہاں ہم گناہوں سے بچیں گے وہاں اِنْ شَآءَ اللہ ہمارے وطنِ عزیز کو بھی فائدہ ہوگا اور اگر ہم اُلٹا چلیں گے تو ہمیں اور ہمارے وطن کو نقصان پہنچے گا ۔ یہ آزاد وطن اللہ عزوجل کی نعمت ہے ، اس کی قدر کیجیے ۔ اللہ ہمیں جس مقصد کےلیے پاکستان حاصل کیا گیا تھا اس مقصد کو پورا کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔ اللہ رب العزّت کی بارگاہ میں دعا ہے وہ ہمارے وطن کو تا قیامت سلامتی عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔