حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ حصّہ نمبر 4
کشف المحجوب پر مرزا جہلمی کے اعتراض کا مدللّ جواب : جونیٸر مرزا جہلمی اجہل (مسلکِ نا معلوم) ایک ویڈیو بیان میں کشف المحجوب پر اپنے اعتراضات اور توہین کر کے اس کا الزام سنیوں پر تھوپ کر اپنی علمیت بگھاڑ رہا تھا ۔ جبکہ کشف المحجوب میں اس نے یہ گمان نکالا کہ داؤد علیہ السلام کا اس کتاب میں ذکر کیا گیا ہے کہ وہ مدہوشی کے عالم میں تھے جب انہوں نے جالوت کو قتل کیا تھا ، اور پھر دوسری جگہ زہر اگلا کہ اس کتاب میں لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے زید کی بیوی کو دیکھا اور چونکہ وہ سُکر کی حالت میں تھے (سکر سے اس بدبخت نے مراد دنیاوی نشہ تماشہ کی حالت یعنی شراب وغیرہ جیسی لی ہے معاذ اللہ) ۔ اور چونکہ اس حالت میں تھے تو اس لیے انہوں نے زید کی بیوی سے شادی کرلی ۔ پھر چند ایسے ہی مزید بکواساتِ کفریہ بکے ہیں لہٰذا اب تحریری طور پر اس کا فرداً فرداً جواب ملاحظہ کریں : ⬇
نمبر۱؛ سب سے پہلے اس نے ولی کامل حضرت شیخ بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ کے نام مبارک پر اپنی عجیب و غریب خباثت دکھاتے ہوئے کہا کہ یزید نام سے اتنی محبت ہے انکو کہ انہوں نے کیسے نام لکھا ہے۔
جواب؛ اس کے جوابات ملاحظہ فرمائیں۔
آپ کا نام گرامی ہے ابو یزید طیفور بن عیسیٰ بن سروشان البسطامی (رح) ہے اور شمالی ایران میں پیدا ہوئے، اور ہمعصروں میں آپ کا لقب سلطان العارفین بھی ہے۔ بسطامی آپ کے نام کے ساتھ اسی نسبت سے لگایاجاتاہے۔آپ کے آباؤ اجدادمجوسی تھے جوکہ بعد میں اسلام کی طرف راغب ہوگئے۔ بسطام ایک بڑا قریہ ہے جو نیشاپور کے راستے میں واقع ہے آپ کے داداکے تین بیٹے تھے، آدم، طیفور (بایزید کے والد) اور علی یہ سارے بڑے ہی زاہد اور عبادت گزار تھے وفات 261 ہجری میں ہوئی ۔ بعد ازاں دنیا ترک کر دی اور بارہ سال تک جنگلوں میں ریاضت کی۔ تصوف میں آپ کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ آپ کو علم باطن میں امام جعفر صادق کی روحانیت سے تربیت ہے جبکہ آپ کی پیدائش امام کی وفات کے بعد کی ہے ان کے معتقدین کو طیفوریہ اور بسطامیہ کہا جاتا ہے۔ یعنی جو مرزے جاہل نے (یزید) لفظ سے متعلق اپنی بکواس کی ہے یہ بھی اسکے منہ پر ایک تھپڑ ہے کہ وہ بایزید بسطامی تو خود اہلبیت کے فرزند ارجمند امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے خوشہ چیں تھے۔ ان کو تو ان کے نام سے نفرت نہ ہوئی تجھ خودساختہ مُلا نما مداری نے نیا دھرم اور چیز نکال لی؟۔
سید الطائفۃ جنید بغدادی نے آپ کے متعلق فرمایا بایزید ہمارے درمیاں اس طرح ہیں جس طرح ملائکہ میں حضرت جبریل۔ ور مقام توحید میں تمام بزرگوں کی انتہا آپ کی ابتدا ہےکیونکہ ابتدائی مقام میں ہی لوگ سرگرداں ہو کر رہ جاتے ہیں۔ جیسا کہ بایزیدبسطامی کا قول ہے اگر لوگ دوسو سال تک بھی گلشن معرفت میں سرگشتہ رہیں جب کہیں جاکر ان کو ایک پھول مل سکتا ہے جو مجموعی طور پر ابتداء ہی میں مجھے مل گیا مام مناوی فرماتے ہیں کہ ابویزید بسطامی عارفین کے اماموں کے بھی امام تھے اور محققین صوفیہ کرام کے مشائخ کے شیخ تھے تمہارے لئے ان کے بارے میں جناب خانی کا یہ قول ہی کافی ہے کہ آپ انہیں سلطان العارفین کہا کرتے تھے اور ابن عربی انہیں ابو یزید اکبر کہا کرتے تھےاور انہوں نے ذکر کیا کہ آپ اپنے زمانہ کے قطب غوث تھے ۔ (جامع کرامات اولیاء جلد دوم صفحہ 250علامہ محمد یوسف نبہانی،چشتی)
یہ تو ہوئی حضرت شیخ کی تاریخ کہ جنکو یہ بدبخت مرزا تضحیک کا اپنی جہالت میں نشانہ بنا رہا تھا۔
اب آتے ہیں اس کے سوال کی جانب تو جناب ذرا یہ بتاؤ کہ اگر یزید کے نام سے اتنی ہی نفرت ہے تو آپ کے وہابی دیوبندیوں نے یزید کو (صحابی) کیوں قرار دے رکھا ہے؟ بحوالہ شیخ ابن بغض یا باز؟ اور آپکے ایک اور گروگھنٹال اور لال مسجد کے پرانے خطیب عبداللہ جو آپ کی برقعہ پوش مجاہدہ کے والد صاحب بھی تھے انہوں نے یزید کی شان میں کتابیں کیوں لکھیں؟ آپ کے جامعہ بنوری کے مولانا فاضل نے حیاتِ سیدنا یزید کیوں تالیف کی؟ لیکن یہ سب ایک طرف ذرا ان اشخاص کے نام پڑھو اور یہ جواب دو کہ اگر یزید نام اتنا ہی برا لگا ہے آپ کو تو پھر اِن کے بارے میں کیا کرو گے ؟
یزید العقیلی ؟
یزید ابو عبدالرحمٰن ؟
یزید ابوامر ؟
یزید ابو ھانی ؟
۲؛ پھر اس بدبخت نے جو اپنی طرف سے ویڈیو میں لوگوں کے ذہنوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہاں شراب و شباب والی مستیوں کا یا پینے پلانے والی چیزوں کا ذکر ہے۔ تو اس کا جواب یہ رہا : ⬇
جواب ؛ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جیسے ہر علم کے اپنے معنی اور الفاظ ہوتے ہیں تو اس کو اسی کے تناظر میں بولنا چاہیئے نا کہ اپنی اس بدبخت کی طرح خودساختہ فلاسفری میں کچھ سے کچھ بنا دیا جائے۔ مثال کے طور پرقانون کے طالب علم جانتے ہین کہ لاٗ میں جو انگریزی پڑھائی جاتی ہے اسکے عام بول چال والی انگریزی سے تعلق نہیں جوڑا جاتا کیونکہ یہاں پر معنی کچھ اور ہوتے ہیں اور مراد کچھ اور ہوتی ہے۔ ویسے ہی علم تصوف ہے، اس میں معنی کچھ اور ہوتے ہیں اور الفاظ کی تشریح کچھ اور۔ یہاں پر اس نے سکر سے دنیاوی مراد لے کر عوام کو گمراہ کرنے اور کتاب سے متنفر کرنے کی مذموم کاروائی تو کی ہی کی ہے لیکن ساتھ ساتھ اپنی جہالت میں ایک ایسے گناہ کا ارتکاب کیا ہے جسکے دائرے میں یہ خود آجاتا ہے جو بعد میں بیان ہوگا۔ اس نے اپنی مرضی کے جملے سلیکٹ کیے، اس کو اپنے معنی پہنائے اور متن سے بالکل ہٹا کر جہلا کی طرح بکواس کردی۔ اب ہم نیچے حرف بہ حرف لکھ رہے ہیں مکمل الفاظ، جہاں تک ممکن ہوسکے کیونکہ ان کے چیلے چانٹے نے فریاد کی ہے کہ لکھ کر دو، تو جو بھی اہم اہم پوائنٹس ہیں وہ یہاں نیچے لکھے جارہے ہیں جس سے یہ ایک طویل کام تو ہوگا مگر کیا کریں ان کے پاس جب کوئی جواب نہیں بن پڑتا تو پھر ایسے ہی فریادیں کرتے ہیں ۔
داتا سرکار لکھ رہے ہیں : فرقہ طیفوریہ ۔ یہ فرقہ ابویزید طیور بن عیسٰی بن سروشان بسطامی رحمتہ اللہ علیہ سے تعلق و تولیٰ رکھتا ہے۔ یہ رؤسا ء متصوفہ تھے اور قوم کے اندر کبرائے قوم سے مانے جاتے تھے۔ ان کا مسلک غلبہ سکر و فرط شوق الی اللہ ہے اور ان کا یہ مسلک ہے یہ سکر و محبت کسب انسان کی جنس سے نہیں ہوتا اور جو چیز دائرہ اکتساب سے خارج ہو اس پر دعویٰ کرنا باطل ہے اور اسکی تقلید محال ہے۔ تو لامحالہ صاحی کی صفت سکر نہیں ہوسکتی اور انسان جلب سکر کی اپنے اندر کوئی طاقت نہیں رکھتا (کیف صحہ اصطلاح تصوف میں ہوشداری کو کہتے ہیں اور صاحی ہوش میں رہنے والا) اور اسکا سکر خود مغلوب ہوتا ہے، اسے مخلوق ے ساتھ التفات نہیں ہوتا کہ وہ کسی صفت کے ساتھ اوصافِ انسانی میں ظاہر ہوسکے اور مشائخ تصوف کی رائے اس طرف ہے کہ اقتداء صرف اسی شخص مستقیم کی درست ہے جو گردشِ احوال سے آزاد ہو چکا ہے ۔ اور ایک گروہ مشائخ کا اس طرف ہے کہ اقتداء صاحی اور صاحبِ سکر دونوں کی روا ہے تاکہ انسان ، متکلف غلبہ اور سکر کی راہ پر چل سکے ۔ اسی وجہ سے سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : (ابکوا فان لم تبکوا فتباکوا (یہ عبداللہ بن سائب بن ابی تھیک کی روایت کردہ حدیث کا ایک حصہ ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں حضرت سعد کے پاس آیا تو انہوں نے پوچھا اے بھتیجے آپ کون ہیں؟ میں نے اپنے بارے میں بتایا تو فرمانے لگے؛ خوش آمدید، آپ تجارت پیشہ ہیں، سنائیں آپ قرآن کریم کی تلاوت کس کیفیت میں کرتے ہیں۔ میں نے عرض کیا عمدہ طریقے سے۔ فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قرآن پاک کو پڑھتے ہوئے رویا کرو اور اگر رونا نہ آئے تو رونے والی شکلیں بنا لیا کرو اور قرآن کریم کی تلاوت مترنم انداز میں کیا کرو۔۔۔۔ جو قرآن کریم کی تلاوت مترنم آواز میں نہیں کرتا یا ترنم کی کوشش نہیں کرتا وہ ہمارے طریقہ پر نہیں ہے ۔ (مسند شہاب 2/ 8۔۔2۔ حدیث نمبر 1198،چشتی) ۔ تم رویا کرو اور اگر نہ رو سکو تو رونے والوں کی مانند صورت بناؤ ۔ ۔۔۔۔ اس کی دووجہ ہیں ؛ ایک یہ کہ اپپنے آپ کو گروہ ِبا کی کی سی صورت بنا کر دکھانا جو محض ریا ہے اور صوفیاء کے یہاں یہ شرکِ صریح ہے اور دوسرے اس ارادہ پر رونی شکل بناتا ہو کہ اللہ تعالیٰ اسے بھی اس درجہ پر پہنچا دے۔ جس درجہ وہ ان کی سی صورت بنا رہا ہے۔ اگر یہ خیال ہے تو حدیثِ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی موافقت ہوجائے گی۔ اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دوسری جگہ فرمایا ۔ جو جس قوم کے ساتھ مشابہت کرے وہ انہیں میں سے ہے) تو جو کچھ انواع مجاہدات سے ہم نے بیان کیا ان پر عمل کرنا چاہیئے اور درگاہِ واہب المراد سے امید رکھے تاکہ مبداء فیاص سے اس کے لیئے درِ معانی کشادہ ہوں ۔
مشائخ کرام میں سے ایک فرماتے ہیں : مشاہدات ، مجاہدات کا ورثہ اور نتیجہ ہیں۔ میں (یعنی داتا سرکار رح فرماتے ہیں) کہتا ہوں : مجاہدات ہرحال میں اچھے ہیں لیکن سکر اور غلبہ میں کسب انسانی کا کوئی ایسا دخل نہیں کہ اس جدوجہد کے ذریعہ کیفیتِ سکر و غلبہ کا جلب ہو سکے۔
اور مجاہدات کبھی علتِ حصول ِ سکر نہیں ہوں گے اس لیے کہ مجاہدہ بحالت صحو یعنی ہوش میں انسان کرسکتا ہے اور صاحبِ صحو کو سکر کی طرف التفات نہیں ہو سکتا ۔ (اسی وجہ میں صاحکی کا سکر میں بذریعہ مجاہدہ آنا محال ہے) ۔ اب ہم حقیقتِ سکر و صحو کو باختلاف بیان مشائخ سناتے ہیں تاکہ اشکال سامع رفع ہو ان شاء اللہ ۔
نوٹ : غور فرمائیں کہ یہاں پر یہ متن چل رہا ہے سکر اور صحو کا، اور حضور داتا گنج بخش سرکار رحمة اللہ علیہ صوفیاء کے ایک گروہ اور مشائخ کا اختلاف بتا رہے ہیں ہیں اپنی رائے نہیں دی ابھی انہوں نے جبکہ مرزا خبیث نے اس سکر کا یہ معنی نکالا کہ داتا سرکار نے سکر سے شراب یا شراب نوشی یا مدہوشی مراد لی ہے۔اور یہی بکواس وہ اپنے سننے والوں کے کانوں میں بطور ازلی ابندی جہنمی زہر انڈیل رہا ہے ۔
آگے لکھتے ہیں : سکر اور صحو ۔ یاد رکھو ! اللہ تمہیں نیکی دے ، سکر و غلبہ یہ دو لفظ معانی میں استعمال ہوتے ہیں۔ غلبہ سے مراد محبتِ جل و شانہ ہوتی ہے اور صحو ایک ایسا لفظ ہے کہ (حصولِ مراد) اربابِ معانی کے معنی میں مستعمل ہے ۔ مگر اہل معانی کے اس میں سبب سے کلام نہیں ۔
نوٹ : یہاں داتا سرکار معنی بیان فرما رہے ہیں کہ تصوف میں سکر اور صحو سے کیا مراد ہے۔ وہ فرما رہے ہیں کہ سکر سے مراد (شراب یا مدہوشی نہیں بلکہ ایک کیفیت کا نام ہے) جو اللہ کی محبت میں پیدا ہوتی ہے۔ (اور جو اس جاہل مرزے کی کھوپڑی میں نہیں آسکتی) ۔ اور صحو ایک ایسا لفظ ہے جس سے حصولِ مراد ہو ، آگے فرماتے ہیں : ایک جماعت تو صحو پر سکر کو فضیلت دیتی ہے اور وہ ابویزید ہیں اور ان کی جماعت۔ وہ کہتے ہیں کہ صحو تمکین و اعتدال پر صفتِ آدمیت کی صورت پکڑ لیتا ہے اور یہ حجابِ اعظم ہے حق تعالیٰ شانہ سے ، اور سکر زوالِ آفات اور نقص صفاتِ بشریت اور تدابیر دنیا و اختیار ِ ذاتی کو دور کردیتا ہے۔ اور صاحبِ سکر کے تمام تصرفات خیارِ حق کے ساتھ فنا ہوجاتے ہیں۔ اور تمام تدابیر و اختیارات کی قوتیں زائل ہوجاتی ہیں اور وہ معنی جو اس کے وجود میں بصورت قوی اور خلافِ جنس ہیں وہ اقوی ابلغ، اتم واکمل اسکے حال میں ہوتے ہیں۔ جیسا کہ داؤد علیہ السلام جب بحالتِ صحو تھے ان کے تمام افعال ان کی طرف سے وجود میں آئے تھے اور اسوقت تک ان کے فعل کو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف ہی مضاف فرمایا تھا جیسا کہ
اختتام صفحات 339 /340
ابتداء صفحہ 341 ۔ جیسا کہ ارشاد ہے (وقتل داؤد جالوت ) (سورۃ البقرۃ 251) اور قتل کیا داؤد علیہ السلام نے جالوت کو۔ اور ہمارے آقا و مولیٰ حضور علیہ السلام حالتِ سکر میں تھے تو آپ کا ہر وہ فعل جو آپ کی طرف سے ظہور میں آیا ۔
نوٹ : غور سے داتا سرکار کے الفاظ پڑھیے یہ وہ ہے جو مرزے نے آپ کو نہیں بتایا) اللہ تعالیٰ نے اس کی اضافت اپنی طرف فرمائی اور فرمایا : (ترجمہ سورۃ الانفال آیت 17۔۔۔۔۔۔ اور وہ کنکریاں تم نے اے محبوب نہیں پھینکیں، جب تم نے پھینکیں ، وہ اللہ تعالیٰ نے پھینکی تھیں۔ فشتان مابین عبدِِ و عبد۔۔ تو جو بندہ اپنی ذات کے ساتھ قائم تھا اور اپنی صفات میں ثابت، اسے فرمایا تو نے کیا منصبِ کرامت کے ساتھ، اور جو بندہ معظم اپنے رب کے ساتھ قائم اور اپنی صفات کے ساتھ فانی تھا اسے فرمایا: ہم نے کیا، جو کچھ تو نے کِیا۔ تو اضافتِ فعل ِ بندہ ذات مستجمع الصفات کی طرف بہترین ہے، اس اضافت سے جو بندہ اپنی طرف قائم رکھے۔ تو جب فعلِ حق مضاف ہو تو بندہ بحق قائم ہوتا ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ داؤد علیہ السلام کی نظر وہاں پڑی جہاں پڑنی نہ چاہیے تھی یعنی ایک عورت پر جو اوریا کی عورت تھی جسے دیکھا، وہ ان پر حرام تھی اور جب بندہ بحق قائم ہو گیا جیسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کہ نظر تو آپ کی بھی پڑی اس طرح زید (رضی اللہ عنہ) کی بیوی پر مگر وہ بیوی زید پر حرام ہوگئی۔ اس لیے کہ وہ نظر جو داؤد علیہ السلام کی تھی وہ محل صحو میں تھی اور یہ نظر جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تھی یہ محل سکر میں تھی ۔
نوٹ : یعنی معلوم پڑا کہ حضور داتا گنج بخش سرکار رحمة اللہ علیہ واسعاً قرآن کی دو آیات اور اس سے متعلق شان نزول کے بارے میں انبیائے کرام کے مقامات کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ ایک نبی کا عمل اللہ نے انکا اپنا عمل قرار دیا تھا اور جبکہ ہمارے آقا تمام انبیاء کے سردار ہین اور بحق قائم ہیں تو وہ عمل (یعنی زید رضی اللہ عنہ کی بیوی سے نکاح ، جس کے بارے میں آگے ان کے ہی مسلک کے بڑوں کی تفاسیر پیش کی جائیں گی) کا ذکر ہے ۔ اور ان چیزوں یعنی انبیائے کرام کے مقامات کی کیفیات کا ذکر لطیف الفاظ یعنی سکر اور صحو کے ذریعے وہ بتا رہے ہیں جس کو اس ازلی ابدی جاہل منافق خوارجی جہنمی کتے نے یہ کہہ کر ویڈیو بنالی اپنے جیسے جہلاء کو بٹھا کر کہ دیکھو یہ یہ کفر ہورہا ہے، ان جیسے جاہلوں کے متعلق ہی سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہ قرآن پڑھیں گے مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا۔ کیا اس سے بڑا ثبوت اور کوئی ہو سکتا ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس میں نبی کو مدہوش کہاں قرار دیا گیا ؟ جیسا اس جاہل کی اولاد نے بکواس کی تھی ویڈیو میں ؟ اور داتا سرکار کی توہین کیوں نہ کریں گے خوارجی ، ان منافقوں کی آنکھوں دلوں اور کانوں پر پردے جو پڑے ہیں۔ ان جیسے اعتراضات سے ہی ان کے ڈھول کا پول کھل جاتا ہے ۔ یہ چلا تھا چیلنج دینے جناب علامہ خادم حسین رضوی علیہ الرحمہ کو ، جب کے الو کا پٹھا میرے جیسے ناقص العلم کا جواب دینے کی اوقات نہیں اس کی ۔ داتا سرکار آگے لکھتے ہیں : پھر جو لوگ صحو کو سکر پر فضیلت دیتے ہیں وہ حضرت جنید رضی اللہ عنہ اور ان کے متبعین ہیں وہ کہتے ہیں کہ سکر محلِ آفت ہے کیونکہ وہ احوالِ تشویش اور ذہابِ صحتِ خود ہے۔ اور اپنے سررشتہ کا گم کردینا ہے۔ اور طالب کے ہر پہلو میں یہ قاعدہ ہے کہ وہ فنا ہو یا برائے بقا رہے، محو ہو یا برائے اثبات قائم ہو، جب وہ صحیح الحال ہے، نہیں رہا توتحقیق کا فائدہ حاصل نہیں کرسکتا۔
اس لیے دلِ اہلِ حق مجرد ہونا چاہیے تمام موجودات سے، اور بینائی کی بنیاد قید اشیاء میں کبھی راحت نہیں پاتی اور آقا سے رستگاری نہیں ملتی اور مخلوق کا ماسوائے اللہ میں پھنسا رہنا اسی وجہ سے ہوتا ہے کہ وہ اشیاء کو جیسی کہ وہ نہیں دیکھ سکتے اور اشیاء کا ملاحظہ کرنا جیسی کہ وہ ہیں؛ دو طرح پر ہوتا ہے ۔ ایک یہ کہ دیکھنے والا ہرشے کو بچشم بقا دیکھے۔ اور دوسرے یہ کہ اس شے کو بچشمِ فنا دیکھے۔ اگر وہ بچشمِ بقا میں دیکھے گا تو کل اشیاء اپنی بقا میں ناقص نظر آئیں گی کیونکہ اشیاء باقی رہنے کے حال میں اپنے سے باقی نہیں پاتا اور اگر بچشم ِ فنا دیکھے گا تو کل اشیاء پہلوئے بقا واجب تعالیٰ میں فانی نظر آئیں گی۔ تو یہ دونوں نظریات موجودات کے دیکھنے والے کو اعراض پر مجبور کردیتی ہیں۔
اس لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بحالت دعا فرمایا : اے اللہ ہمیں اشیاء کو اس حال میں دکھا جیسی کہ وہ ہیں ۔ (ابتدائے صفحہ 342)
اس لیے کہ جس نے حقیقتِ اشیاء کماہی کو دیکھ لیا، وہ آسودہ ہوگیا اور یہی فرمان جل مجدہ کے ہیں جو فرمایا (فاعتبروا یاولی الابصار ) تو عبرت حاصل کرو اے آنکھ والو ۔ (چشتی)
اس لیے کہ جبتک حقیقت شے نہیں دیکھی جائے عبرت نہیں لی جاتی ۔
تو یہ تمام کیفیت صحو میں آئے بغیر درست نہیں ہوتی اور اہل سکر کو اس معنی میں کچھ آگاہی نہیں۔ جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام بحالتِ سکر تھے تو ایک تجلی کے ظہور کی تاب نہ لاسکے اور ہوش سے بے ہوش ہوگئے۔ (وخر موسیٰ صعقاً) اس امر کا مظہر ہے۔
اور ہمارے حضور علیہ السلام جب بحالِ صحو تھے تو مکہ سے قابِ قوسین تک عین تجلی میں گئے اور ہرلمحہ ہوشیار و بیدار تر رہے۔ (واللہ اعلم بالصواب)۔
اور میرے شیخ فرماتے ہیں جو مذہبِ جنیدی کے متبع تھے کہ سکر بازیگاہ کو دکان ہے اور صحو وفناگاہِ مردان۔ اور میں (یعنی حضرت علی بن عثمان جلابی رضی اللہ عنہ) کہتا ہوں کہ اپنے شیخ کی موافقت پر کمال صاحب سکر و صحو ہے اور کمترین درجہ صحو کا یہ ہے کہ صاحبِ صحو صفاتِ بشریہ کے دیکھنے سے دور ہوجاتا ہے۔ تو وہ صحو جو آفت دکھاتا ہے اس سکر سے بہتر ہے جو عینِ آفات ہے۔
اختتامِ کلام از صفحہ 342 ، پھر آگے اسی صفحے کے نیچی حضرت ابوعثمان مغربی رحمة اللہ علیہ کا واقعہ بیان کیا ہے کہ وہ جنگلوں میں کئی سال تک نکل گئے کسی انسان تک کو نہ دیکھا تو واپسی پر جب مکہ شریف کا قصد کیا سب سے پہلے تو وہاں کے علمائے کشف کو پتہ لگ گیا کہ آپ آرہے ہیں تو انہوں نے آپ سے سکر کی حال احوال جاننے چاہے۔
اختتامِ صفحات اور اب ذاتی تبصرہ : الغرض یہ پورا باب ہی کچھ اور ہے جس کو مرزا جیسے جاہل نے اپنی گستاخانہ بکواس ، بغض، جہالت اور ازلی و ابدی لعنت کے تحت (کفر شرک بدعت اور توہین) قرار دے دیا۔ یعنی اس کے نزدیک 1300 سال کے اسلام میں پائے جانے والے 700 یا 800 سال سے چلے آرہے کوئی بھی مسلمان ایک بھی ایسا نہ تھا جس نے ایسا گھٹیا بھونڈا اظہار کیا ہو اور کبھی اس کو شرک قرار دیا ہو ۔ ظاہر ہے وہ عقل اور شعور رکھتے ہیں مگر شاید اللہ نے اس خبیث کے اپریشن کی ذمہ داری میری لگائی تھی اس لیے خادم یہ کام سرانجام دے رہا ہے۔ اب میں آخر میں اختصار کے ساتھ زید رضی اللہ عنہ ان کی بیوی (جن کو وہ واقعتاً کئی سال پہلے طلاق دے چکے تھے) اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو نکاح کا پیغام بھجوایا تو چونکہ عرب معاشرہ میں رسوم و رواجات غلط بھی شامل تھیں تو اس رسم کو توڑنے کےلیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے نکاح فرمایا ۔ جس پر اس زمانے کے مکہ میں موجود منافقین نے اعتراض کیا تھا بالکل ایسے ہی جیسے مرزے نے اس کو (مدہوشی) سے نتھی کرکے داتا سرکار کی بلکہ خود اللہ رب العزت کی اس کے پاک نبی علیہ السلام کی اور صحابہ و صحابیہ اور ام المؤمنین کی شان میں ناپاک ترین جسارت کی ہے ۔ اور اپنی جہالت کو الٹا ضیاء القران پبلشرز بلکہ کشف المحجوب پر تھوپ کر نہ جانے کیا کیا بکواس کرتا رہا اپنی ویڈیو میں ۔ اور اس نے خود اپنی ویڈیو میں اقرار کیا کہ میں نے تو اپنے باپ کو بھی سمجھایا کہ وہ بھی کہتے ہیں کہ اچھی چیز جہاں سے ملے لے لو ، تو اس کتاب میں اچھا ہے کیا میں 5 گھنٹے کا لیکچر دے سکتا ہوں ۔
ہممم یہی بات ہے، بھائی لینے کو تو ہم نے تمہاری آلریڈی لے لی ہے اور اگر شرم ہو تو اپنا کاروباری دھندہ تم کبھی کا چھوڑ چکے ہوتے ، بیچنے کےلیے تم کو ایمان ہی نہ ملا ہوتا۔ لینے کو تو ہم ٓپ کی ۱۰ گھنٹے لے سکتے ہیں بلکہ کچھ استعمال کرنے کے بعد ہو سکتا ہے ۲ گھنٹے مزید ہو جائیں لیکن مسئلہ تو یہ ہے کہ تو وہ ناخلف اولاد ہے جو اپنے باپ کو سمجھانے چل پڑی ہے بھلا اس کے نزدیک اور کسی کا کیا مقام ہونا ہے اس لیے مرزے جہلمی ج مجھ سے ایسی ہی عزت افزائی کی توقع رکھو کیونکہ خوارج کلاب النار ہوتے ہیں ۔
اب فقیر ان کے گھر کےبزرگوں کا اس آیت پر کی گئی تفاسیر لکھ رہا ہوں ملاحظہ فرمائیں کہ سورۃ احزاب کی آیت 37 تفاسیرِ خوارجیت : ⬇
حضرت زینب (رضی اللہ عنہا) سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نکاح
(مبدیہ) : (اس کو ظاہر کرنے والا ۔ اس کو ایجاد کرنے والا ۔ ابداء سے اسم فاعل) ۔ (وطرا) : (حاجت ۔ ضرورت ۔ خواہش ۔ اسم ہے ۔ جمع اوطار) ۔
شان نزول : مسند احمد میں ہے کہ جب حضرت زینب کی عدت پوری ہوگئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زید بن حارثہ سے کہا کہ تم جا کر حضرت زینب کو مجھ سے نکاح کا پیغام دو ۔ جب حضرت زید وہاں پہنچے تو حضرت زینب آٹا گوندھ رہی تھیں ۔ حضرت زید نے کہا کہ اس وقت میرے دل میں ان کی اتنی عظمت پیدا ہوئی کہ میں سامنے سے ان کو دیکھنے کی تاب نہ لاسکا اور میں نے پشت پھیر کر ان کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیغام پہنچایا ، حضرت زینب نے کہا کہ جب تک میں اللہ تعالیٰ سے استخارہ نہ کرلوں کچھ نہیں کروں گی ۔ یہ تو اپنے گھر میں اس جگہ کھڑی ہو کر نماز پڑھنے لگیں جو انہوں نے اس کے لئے مقرر کر رکھی تھی ، ادھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی اتری جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، میں نے اس کا نکاح تجھ سے کردیا ۔ چناچہ اسی وقت آپ بغیر اطلاع حضرت زینب کے گھر چلے آئے ۔ (تفسیر روح المعانی 26/22)(تفسیر ابن کثیر 491/3،چشتی)
تشریح : حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ پر اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ انعام فرمایا کہ ان کو ابتدائے نبوت ہی میں اسلام کی دولت سے سرفراز فرمایا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی انعام و احسان کیا کہ ان کی پرورش کی ، ان کو غلامی سے آزاد کیا ، اپنا متنبیٰ یعنی منہ بولا بیٹا بنایا اور اپنی پھوپھی زاد بہن سے ان کا نکاح کردیا ۔ حضرت زینت ایک سال یا اس سے کچھ زیادہ عرصہ حضرت زید کے ساتھ رہیں ۔ پھر جب دونوں میں نبانہ ہوا اور رنجش زیادہ بڑھی تو حضرت زید نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں چاہتا ہوں کہ زینب کو طلاق دے دوں تو آپ نے بطور مشورہ فرمایا کہ زینب کو اپنی زوجیت میں رہنے دو ۔ اس معاملے میں اللہ سے ڈرو اور طلاق دینے میں جلدی نہ کرو ، شاید آگے چل کر منافرت موانست میں بدل جائے ۔ زوجین کی خیر خواہی اور حسن معاشرت کے اعتبار سے آپ کا مشورہ بالکل درست تھا لیکن حقیقت میں بات دوسری تھی جس کا اظہار اس وقت مناسب نہ تھا ، وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے آپ کو بتا دیا تھا کہ حضرت زید بہت جلد حضرت زینب کو طلاق دیدیں گے ، اسکے بعد بعض حکمتوں اور مصلحتوں کے تحت ہم خود حضرت زینب کو آپ کے نکاح میں دیدیں گے ۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کے ذریعے دی گئی اس خبر کو آپ نے اس خوف سے دل میں پوشیدہ رکھا اور کسی کو مطلع نہ کیا کہ لوگ ملامت کریں گے اور کہیں گے کہ اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کر لیا ۔ اس لیے آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ آپ کو لوگوں سے خوف کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہی اس لائق ہے کہ آپ اس سے ڈریں ۔
پھر جب حضرت زید نے اپنی بیوی کو طلاق دیدی اور عدت بھی پوری ہوگئی تو ہم نے آسمان پر فرشتوں کی موجودگی میں حضرت زینب سے آپ کا نکاح کردیا جس کی ہم نے بذریعہ وحی آپ کو پہلے ہی خبر دی تھی ۔ یہ نکاح ہم نے اس لیے کیا تاکہ مسلمانوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں سے نکاح کرنے میں کوئی تنگی نہ رہے اور جاہلیت کی اس رسم کا قلع قمع ہو جائے کہ متنبیٰ کی بیوی سے نکاح جائز نہیں اور لوگوں کو صاف طور پر معلوم ہوجائے کہ منہ بولا بیٹا نسبی بیٹے کے حکم میں نہیں ۔ اس لیے طلاق وعدت کے بعد متنبیٰ کی بیوی سے نکاح درست ہے ۔ اسی لیے متنبیٰ کی بیوی سے پردہ واجب ہے اور نسبی بیٹے کی بیوی سے پردہ نہیں ۔ اللہ تعالیٰ جس امر کو چاہتا ہے وہ قطعی طور پر واقع ہوتا ہے ۔ اس کو کوئی نہیں روک سکتا ۔
صحیح بخاری ، مسلم اور نسائی وغیرہ میں حضرت انس سے روایت ہے کہ حضرت زینب ازواج مطہرات سے کہا کرتی تھیں کہ تم سب کے نکاح تمہارے والی وارثوں نے کئے اور میرا نکاح خود اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان پر کرا دیا ۔
شعبی نے بیان کیا ایک مرتبہ ام المؤمنین حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ مجھ میں اللہ تعالیٰ نے تین خصوصیتیں رکھی ہیں جو آپ کی اور بیویوں میں نہیں ، ا ۔ میرا اور آپ کا دادا ایک ہے یعنی عبد المطلب ۔ 2 ۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے مجھے آپ کے نکاح میں دیا ، 3 ۔ میرے معاملے میں درمیانی شخص جبریل (علیہ السلام) ہیں ۔ (تفسیر ابن کثیر 491، 492/3)(مواہب الرحمن 37/22)
تفسیر احسن البیان ، از سید فضل الرحمٰن غیرمقلد : اور جب تم (اے پیغمبر اسلام ! ) اس شخص [ 3] سے کہہ رہے تھے جس پر اللہ نے احسان فرمایا اور تم نے بھی کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ اور اللہ سے ڈر اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں وہ بات چھپی تھی جس کے (ظاہر) ہونے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ڈر رہے تھے (کہ اگر طلاق ہوگئی تو لوگ کیا کہیں گے) لیکن اللہ اس کو ظاہر کرنا چاہتا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں (کے طعنوں) سے ڈرتے تھے اور اللہ زیادہ حق دار ہے کہ اس سے ڈرا جائے پھر جب زید (رض) نے اپنی بیوی کو بیوی بنانے کے بعد (طلاق دے دی تو) ہم نے اس عورت کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نکاح میں دے دیا (یعنی ہم نے حکم دیا کہ اس سے تم خود نکاح کرلو) تاکہ مسلمانوں پر اپنے متبنٰی بیٹوں کی بیویوں (کے ساتھ نکاح کرنے) میں کوئی حرج نہ ہو (جیسا کہ لوگ سمجھتے ہیں) جب کہ ان کے لے پالک اپنی بیویوں کو بیویاں بنا چکے ہوں (اور پھر طلاق دے دیں) اور اللہ کا حکم یعنی (فیصلہ) پورا ہو کر رہتا ہے/37 ۔
تفسیر المنار ، سعودی عرب
٣٧۔ ١ لیکن چونکہ ان کے مزاج میں فرق تھا ، بیوی کے مزاج میں خاندانی نسب و شرف رچا ہوا تھا، جب کہ زید کے دامن میں غلامی کا داغ تھا، ان کی آپس میں ان بن رہتی تھی جس کا تذکرہ حضرت زید نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کرتے رہتے تھے اور طلاق کا عندیہ بھی ظاہر کرتے۔ لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو طلاق دینے سے روکتے اور نباہ کرنے کی تلقین فرماتے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس پیش گوئی سے بھی آگاہ فرمادیا تھا کہ زید کی طرف سے طلاق واقع ہو کر رہے گی اور اس کے بعد زینب کا نکاح آپ سے کردیا جائے گا تاکہ جاہلیت کی اس رسم تبنیت پر ایک کاری ضرب لگا کر واضح کردیا جائے کہ منہ بولا بیٹا، احکام شرعیہ میں حقیقی بیٹے کی طرح نہیں ہے اور اس کی مطلقہ سے نکاح جائز ہے۔ اس آیت میں انہی باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ حضرت زید پر اللہ کا انعام یہ تھا کہ انھی قبول اسلام کی توفیق دی اور غلامی سے نجات دلائی، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا احسان ان پر یہ تھا کہ انکی دینی تربیت کی۔ ان کو آزاد کر کے اپنا بیٹا قرار دیا اور اپنی پھوپھی امیمہ بنت عبد المطلب کی لڑکی سے ان کا نکاح کرادیا۔ دل میں چھپانے والی بات یہی تھی جو آپ کو حضرت زینب سے نکاح کی بابت بذریعہ وحی بتلائی گئی تھی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ڈرتے اس بات سے تھے کہ لوگ کہیں گے کہ اپنی بہو سے نکاح کر لیا ۔ حالانکہ جب اللہ کو آپ کے ذریعے سے اس رسم کا خاتمہ کرانا تھا تو پھر لوگوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں تھی ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ خوف اگرچہ فطری تھا، اس کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تنبیہ فرمائی گئی۔ ظاہر کرنے سے مراد یہی ہے کہ یہ نکاح ہوگا، جس سے یہ بات سب کے علم کے ہی علم میں آجائے گی۔
٣٧۔ ٢ یعنی نکاح کے بعد طلاق دی اور حضرت زینب عدت سے فارغ ہوگئیں۔
٣٧۔ ٣ یعنی یہ نکاح معرفت طریقے کے برعکس اللہ کے حکم سے قرار پا گیا، نکاح خوانی، ولایت، حق مہر اور گواہوں کے بغیر ہی ۔
٣٧۔ ٤ یہ حضرت زینب سے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نکاح کی علت ہے کہ آئندہ کوئی مسلمان اس بارے میں تنگی محسوس نہ کرے اور حسب ضرورت اقتضا لے پالک کی مطلقہ بیوی سے نکاح کیا جاسکے۔
٣٧۔ ٥ یعنی پہلے سے ہی تقدیر الہٰی میں تھا بہر صورت ہو کر رہنا تھا ۔ (تفسیر مکہ ، صلاح الدین یوسف غیرمقلد شاہ فہد کمپلیکس ریاض)
ہاں تو مرزے جہلمی اتنا کافی ہے یا کچھ اور عزت افزائی کروں ؟ تم لوگوں کی جتنی کم عزت کی جائے اتنی ہی زیادہ ہے ۔ لعنت اللہ علی الکذبین ۔ (مزید حصّہ نمبر 5 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر مفتی فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment