Friday 18 August 2023

بیک وقت یا الگ الگ تین طلاق تین دینے کا شرعی حکم حصّہ سوم

0 comments
بیک وقت یا الگ الگ تین طلاق تین دینے کا شرعی حکم حصّہ سوم
تین طلاقیں تین ہی ہیں : یہ بات واضح ہے کہ جب شوہر اپنی بیوی کو طلاق دیتاہے تو صرف پندرہ بیس منٹ بعد مولوی صاحب یاد آجاتے ہیں یعنی اُس کا چند لمحوں میں سارا غصّہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے اب مولوی اور مفتی صاحبان کو ڈھونڈھنا شروع کر دیا جاتا ہے ایسی صورت میں نام نہاد اہلحدیث مولوی چند ٹکوں کے عِوض یہ فتویٰ دیتے ہیں کہ تین طلاقیں تین نہیں وہ تو ایک طلاق ہے ۔ دراصل مسئلہ یہ ہے کہ غیر مقلدین نام نہاد اہل حدیث کا یہ مؤقف ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک وقت میں تین طلاقیں دے تو وہ ایک واقع ہو گی ۔ مطلب یہ کہ ’’مارو گھٹنا پھوٹے آنکھ‘‘ اور آپ اس بات پر ذرا غور کریں تو یہ بالکل ایسی بات ہوگی کہ جیسے کوئی آدمی کسی شخص کو تین ڈنڈے مارے اور تھانے چلے جائیں تو ایس ایچ او صاحب یہ کہیں کہ چونکہ ایک وقت میں تین ڈنڈے لگے ہیں لہٰذا ایف آئی آر تو ایک ڈنڈے کی کٹے گی ۔ یہ نہیں ہو سکتا ۔ تین طلاقوں کے ایک وقت میں تین ہونے پر پوری اُمّت کا اجماع ہے تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان اور چاروں ائمہ علیہم الرحمہ کا اس پر اجماع ہے جیسا کہ ہم سابقہ مضامین عرض کر چُکے ہیں ۔ مزید حوالہ جات پیشِ خدمت ہیں : ⬇

امام اللغت سید زبیدی علیہ الرحمہ طلاق کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ”عباب“ میں ہے کہ عورت کی طلاق کے دو معنی ہیں : (١) نکاح کی گرہ کو کھول دینا (ب) ترک کردینا ‘ چھوڑ دینا ۔ ” لسان العرب “ میں ہے کہ عثمان اور زید کی حدیث ہے : طلاق کا تعلق مردوں سے ہے اور عدت کا تعلق عورتوں سے ہے ۔ (تاج العروس جلد ٦ صفحہ ٤٢٥ مطبوعہ المطبعۃ الخیریہ ‘ مصر ‘ ١٣٠٦ ھ) 

علامہ ابن نجیحم طلاق علیہ الرحمہ کا فقہی معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : الفاظ مخصوصہ کے ساتھ فی الفور یا از روئے مآل نکاح کی قید کو اٹھا دینا ‘ طلاق ہے ۔ الفاظ مخصوصہ سے مراد وہ الفاظ ہیں جو مادہ طلاق پر صراحۃ یا کنایۃ مشتمل ہوں ‘ اس میں خلع بھی شامل ہے اور نامردی اور لعان کی وجہ سے نکاح کی قید از روئے مآل اٹھ جاتی ہے ۔ (البحرالرائق جلد ٣ صفحہ ٢٣٥ مطبوعہ مکتبہ ماجدیہ کوئٹہ) 

طلاق کی تین قسمیں ہیں : احسن ‘ حسن ‘ بدعی ۔

طلاق احسن : جن ایام ماہواری سے پاک ہو اور ان ایام میں بیوی سے مقاربت بھی نہ کی ہو ‘ ان ایام میں صرف ایک طلاق دی جائے ‘ اس میں دورانِ عدت مرد کو رجوع کا حق رہتا ہے اور عدت گزرنے کے بعد عورت بائنہ ہو جاتی ہے اور فریقین کی باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے ۔

طلاق حسن : جن ایام میں عورت پاک ہو اور مقاربت بھی نہ کی وہ ان ایام میں ایک طلاق دی جائے اور جب ایک ماہواری گزر جائے تو بغیر مقاربت کیے دوسری طلاق دی جائے اور جب دوسری ماہواری گزر جائے تو بغیر مقاربت کیے تیسری طلاق دی جائے ‘ اس کے بعد جب تیسری ماہواری گزر جائے تو عورت مغلظہ ہوجائے گی اور اب شرعی حلالہ کے بغیر اس سے دوبارہ عقد نہیں ہوسکتا ۔

طلاق بدعی : اس کی تین صورتیں ہیں : ⬇

(١) ایک مجلس میں تین طلاقیں دفعۃ دی جائیں خواہ ایک کلمہ سے مثلاً تم کو تین طلاقیں دیں یا کلمات متعددہ سے ‘ مثلا کہے : تم کو طلاق دی ‘ تم کو طلاق دی ‘ تم کو طلاق دی (ب) عورت کی ماہواری کے ایام میں اس کو ایک طلاق دی جائے اس طلاق سے رجوع کرنا واجب ہے اور یہ طلاق شمار کی جاتی ہے۔ (ج) جن ایام میں عورت سے مقاربت کی ہو ‘ ان ایام میں عورت کو ایک طلاق دی جائے طلاق بدعی کسی صورت میں ہو اس کا دینے والا گنہگار ہوتا ہے ۔ (درمختار علی ھامش رد المختار جلد ٢ صفحہ ٥٧٨ ، ٥٧٣ مطبوعہ استنبول ‘ ١٣٤٧ ھ،چشتی)

صریح لفظ طلاق کے ساتھ ایک یا دو طلاقیں دی جائیں تو یہ طلاق رجعی ہے اور اگر صریح لفظ طلاق نہ ہو ‘ کنایہ سے طلاق دی جائے تو یہ طلاق بائن ہے ‘ مثلا طلاق کی نیت سے بیوی سے کہا : تو میری ماں کی مثل ہے ’‘ طلاق رجعی میں دوبارہ رجوع کیا جاسکتا ہے ‘ لیکن پچھلی طلاقیں شمار ہوں گی ‘ اگر پہلے دو طلاقیں دی تھیں تو رجوع کے بعد صرف ایک طلاق کا مالک رہ جائے گا۔ طلاق بائن سے فی الفور نکاح منقطع ہوجاتا ہے لیکن اگر تین سے کم طلاقیں بائن ہوں تو باہمی رضا مندی سے دوبارہ عقد ہوسکتا ہے لیکن پچھلی طلاقوں کا شمار ہو گا ۔

طلاق کیوں مشروع کی گئی ؟

اسلام کا منشاء یہ ہے کہ جو لوگ رشتہ نکاح میں منسلک ہو جائیں ان کے نکاح کو قائم اور برقرار رکھنے کی حتی المقدور کوشش کی جائے اور اگر کبھی ان کے درمیان اختلاف یا نزاع پیدا ہو تو رشتہ دار اور مسلم سوسائٹی کے ارباب حل وعقد اس اختلاف کو دور کر کے ان میں صلح کرائیں اور اگر ان کی پوری کوشش کے باوجود زوجین میں صلح نہ ہو سکے تو یہ خطرہ ہو کہ اگر یہ بدستور رشتہ نکاح میں بندھے رہے تو یہ حدود اللہ کو قائم نہ رکھ سکیں گے اور نکاح کے مقاصد فوت ہو جائیں گے تو ان کو عدم موافقت اور باہمی نفرت کے باوجود ان کو نکاح میں رہنے پر مجبور نہ کیا جائے ‘ اس صورت میں ان کی ‘ ان کے رشتہ داروں اور معاشرہ کے دیگر افراد کی بہتری اور مصلحت اسی میں ہے کہ عقد نکاح کو توڑنے کے لیے شوہر کو طلاق دینے سے نہ روکا جائے۔ طلاق کے علاوہ عقد نکاح کو فسخ کرنے کے لیے دوسری صورت یہ ہے کہ عورت شوہر کو کچھ دے دلا کر خلع کرا لے اور تیسری صورت قاضی کی تفریق ہے اور چوتھی صورت یہ ہے کہ جن دو مسلمان حکموں کو نزاعی حالت میں معاملہ سپرد کیا گیا ہو اوہ نکاح کو فسخ کرنے کا فیصلہ کردیں ۔

عن سھل بن سعد فی ھذاالخبر قال:فطلقھا ثلاث تطلیقات عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فأنفذہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔ (ابو داود،حدیث:۲۲۵۰۔بخاری،حدیث:۵۳۰۹مسلم،حدیث :۱۴۹۲۔نسائی،حدیث: ۳۴۰۱،۳۴۰۲)
ترجمہ : حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیا ن کرتے ہیں کہ : حضرت عو یمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے اپنی بیوی کو تین طلا ق دیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان طلاقوں کو نا فذ کر دیا ۔

عن عامر الشعبی قال: قلت لفاطمۃ بنت قیس : حدثنی عن طلاقک ، قالت : طلقنی زوجی ثلاثا وھو خارج الی الیمن فأجاز ذلک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔ (ابن ماجہ،حدیث:۲۰۲۴۔مسلم،حدیث:۱۴۸۰)
ترجمہ : حضرت عامر شعبی کہتے ہیں :میں نے فا طمہ بنت قیس سے کہا کہ مجھے اپنی طلاق کے بارے میں بتا یئے تو انہوں نے کہا : میرے شو ہر نے یمن جاتے وقت مجھے یکدم تین طلاق دے دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کو جائز قرار دے دیا (یعنی اس کو واقع قرار دے دیا) ۔

عن سوید بن غفلۃ قال : کانت عائشۃ الخثعمیۃ عند الحسن بن علی رضی اللہ عنہ فلما قتل علی رضی اللہ عنہ قالت:لتھنئک الخلافۃ ،قال: بقتل علی تظھر الشماتۃ ،اذھبی فانت طالق یعنی ثلاثا ،فتلفعت بثیابھا و قعدت حتی قضت عدتھا فبعث الیھا ببقیۃ بقیت لھا من صداقھا وعشرۃ اٰلاف صدقۃ فلما جاء ھا الرسول قالت : امتاع قلیل من حبیب مفارق ،فلما بلغہ قولھا بکی ثم قال:لو لا انی سمعت جدی او حدثنی ابی انہ سمع جدی یقول ایما رجل طلق امرأتہ ثلاثا عند الاقراء او ثلاثا مبھمۃ لم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ،راجعتھا ۔ (سنن البیہقی الکبری،کتاب الطلاق باب ماجاء فی امضاء الطلاق و ان کن مجموعات،حدیث:۱۴۷۴۸،چشتی)
ترجمہ : سوید بن غفلہ سے روایت ہے کہ : عائشہ خثعیمہ سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں ، جب حضرت علی رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو اس نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے کہا : آپ کو خلافت مبارک ہو ، حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کہا : تم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت پر خوشی کا اظہار کر رہی ہو ، جا ! تم کو تین طلاقیں دیں ۔ اس نے اپنے کپڑے لیے اور بیٹھ گئی یہاں تک کہ اس کی عدت پوری ہو گئی ، حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے اس کی طرف اس کا بقیہ مہر اور دس ہزار کا صدقہ بھیجا ، جب اس کے پاس قاصد یہ مال لے کر آیا تو اس نے کہا : مجھے اپنے جدا ہونے والے محبوب سے یہ تھوڑا سا سامان ملا ہے ۔ جب حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ تک یہ بات پہونچی تو آپ نے آبدیدہ ہو کر فرمایا : اگر میں اپنے نانا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نہ سنا ہو تا ۔ یا یہ فر مایا کہ میں نے اپنے والد (حضرت علی رضی اللہ عنہ)سے اور انہوں نے میر ے نانا جان حضور اکر م صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نہ سنا ہو تا کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی خواہ الگ الگ طہروں میں یا بیک وقت تو وہ عورت حلال نہ ہو گی جب تک کسی اور سے نکاح نہ کر لے ۔ تو میں اس سے رجوع کر لیتا ۔

عن سالم عن ابن عمر قال : من طلق امرأتہ ثلاثا طلقت و عصی ربہ ۔ (مصنف عبد الرزاق،کتاب الطلاق،باب المطلق ثلاثا، حدیث:۱۱۳۴۴،چشتی)
ترجمہ : حضرت سالم بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا جس شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں ، وہ واقع ہو جائیں گی مگر اس شخص نے اپنے رب کی نا فر مانی کی ۔

عن علقمۃ عن عبد اللہ:انہ سُئل عن رجل طلق امرأتہ مأۃ تطلیقۃ؟قال: حر متھا ثلاث وسبعۃ وتسعون عدوان۔(مصنف ابن ابی شیبۃ،کتاب الطلاق،باب من رخص للرجل ان یطلق ثلاثا فی مجلس،حدیث:۱۸۰۹۸)
ترجمہ : حضرت علقمہ کہتے ہیں کہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو (۱۰۰) طلاقیں دے دیں ؟ آپ نے فرما یا تین طلاقوں سے اس کی بیوی حرام ہو گئی اور باقی ستانوے (۹۷) طلاقیں حد سے تجاوز ہے ۔

قال مجاہد عن ابن عباس قال : قال لہ رجل : یا ابا عباس! طلقت امرأتی ثلاثا ،فقال ابن عباس :یا ابا عباس !یطلق احدکم فیستحمق ،ثم یقول،یا ابا عباس !عصیت ربک و فارقت امرأتک ۔ (مصنف عبد الرزاق،کتاب الطلاق،باب المطلق ثلاثا، حدیث:۱۱۳۵۲)
ترجمہ : حضرت مجا ہد کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ان سے ایک شخص نے کہا : اے ابو عباس ! میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں ۔حضرت ابن عباس نے (طنزاََ) فر مایا : یا ابا عباس!پھر فر مایا تم میں سے کو ئی شخص حما قت سے طلاق دیتا ہے پھر کہتا ہے : اے ابو عباس ! تم نے اپنے رب کی نا فرمانی کی اور تمہاری بیوی تم سے علیحد ہ ہو گئی ۔

عن واقع بن سحبان قال : سئل عمران بن حصین عن رجل طلق امرأتہ ثلاثا فی مجلس ؟ قال : اثم بربہ و حرمت علیہ امرأتہ ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ کتاب الطلاق باب من رخص للرجل ان یطلق ثلاثا فی مجلس،حدیث:۱۸۰۸۷)
ترجمہ : حضرت واقع بن سحبان بیان کرتے ہیں کہ : حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دیں؟حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہا اس نے اپنے رب کی نافر مانی کی ،اور اس کی بیوی اس پر حرام ہو گئی ۔

عن انس قال : کان عمر اذا اتی برجل قد طلق امرأتہ ثلاثا فی مجلس اوجعہ ضربا وفرق بینھما ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ،کتاب الطلاق،باب من رخص للرجل ان یطلق ثلاثا فی مجلس،حدیث:۱۸۰۸۹)
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس کوئی ایسا شخص لایا جاتا جس نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دی ہوں ، تو آپ اس کو مارتے اور ان کے درمیان تفریق کر دیتے ۔

عن حبیب قال: جاء رجل الی علی رضی اللہ عنہ ، فقال : انی طلقت امرأتی الفا، قال : بانت منک بثلاث واقسم سائرھا بین نسائک ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ حدیث:۱۸۱۰۱)
ترجمہ : حضرت حبیب کہتے ہیں کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آکر ایک شخص نے کہا : میں نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاقیں دی ہیں ، آپ نے فرمایا : تمہاری بیوی تین طلاقوں سے علیحدہ ہو گئی ، باقیں طلاقیں اپنی بیویوں میں بانٹ دو ۔

عن معاویۃ بن ابی یحییٰ قال : جاء رجل الی عثمان فقال :انی طلقت امرأتی مائۃ ، فقال : ثلاث تحرمھا علیک و سبعۃ و تسعون عدوان ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ حدیث:۱۸۱۰۴،چشتی)
ترجمہ : حضرت معاویہ بن یحییٰ کہتے ہیں کہ : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص نے آکر کہا : میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دی ہیں ؟ آپ نے فرمایا : تین طلاقوں سے تمہاری بیوی تم پر حرام ہو گئی اور باقی ستانوے (۹۷) طلاقیں حد سے تجاوز ہیں ۔

عن المغیرۃ بن شعبۃ انہ سئل عن رجل طلق امرأتہ مائۃ فقال : ثلاث تحرمھا علیہ و سبعۃ وتسعون فضل ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ، حدیث:۱۸۱۰۵)
ترجمہ : حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ : ایک شخص نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دے دی ہیں ؟ آپ نے فر مایا : تین طلاقوں نے اس پر اس کی بیوی کو حرام کردیا اور ستانوے طلاقیں زائد ہیں ۔

عن جابر قال : سمعت ام سلمۃ سئلت عن رجل طلق امرأتہ ثلاثا قبل ان یدخل بھا فقالت : لا تحل لہ حتی یطأ ھا غیرہ ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ حدیث : ۱۸۱۵۶،چشتی)
ترجمہ : حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص نے مقاربت سے پہلے تین طلاقیں دے دی ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اس کی بیوی اس کےلیے اس وقت تک حلال نہیں ہے جب تک دوسرا شوہر اس سے مقاربت نہ کر لے ۔

عن ابن عباس : اذا طلقھا ثلاثا قبل ان یدخل بھا لم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ و لو قالھا تتری بانت بالاولی ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ حدیث : ۱۸۱۷۶)
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فر ماتے ہیں :جب کوئی شخص دخول سے پہلے تین طلاقیں دے تو وہ عورت اس پر اس وقت تک حلال نہیں ہے جب تک دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے ، اور اگر اس نے الگ الگ الفا ظ سے یہ طلاقیں دیں (جیسے ، تجھے طلاق ، تجھے طلاق ، تجھے طلاق) تو عورت پہلی طلاق سے بائنہ ہو جائے گی ۔

جاء رجل الی الحسن فقال : انی طلقت امرأتی الفا ،قال : بانت منک العجوز ۔(مصنف ابن ابی شیبۃ حدیث : ۱۸۱۰۸)
ترجمہ : حضرت حسن بصری سے ایک شخص نے کہا : میں نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاقیں دے دی ہیں ؟ آپ نے فرمایا : تمہاری بیوی تم سے علیحدہ ہو گئی ۔

عن سفیان فی رجل قال لامرأتہ انت طالق ثلاثا الا ثلاثا قال : قد طلقت منہ ثلاثاواذ قال انت طالق ثلاثا الا اثنتین فھی طالق واحدۃو اذا قال :انت طالق ثلاثا الا واحدۃفھی طالق اثنتین۔(مصنف عبد الرزاق،کتاب الطلاق،باب انت طالق ثلاثا،حدیث:۱۱۳۵۶)
ترجمہ : حضرت سفیان نے کہا : جس نے اپنی بیوی سے کہا : تجھے تین طلاق مگر تین طلاق،تو تین طلاقیں واقع ہو گئیں ۔ اور جب کہا : تجھے تین طلاق مگر دو (۲) تو ایک طلاق ہو گی ، اور جب کہا : تجھے تین طلاق مگر ایک،تو دو طلا ق ہوئیں ۔

عن نافع ان رجلا طلق امرأتہ وھی حائض ثلاثا،فسأل بن عمر رضی اللہ عنہما ، فقال : عصیت ربک وبانت منک لا تحل لک حتی تنکح زوجا غیرک ۔(مصنف عبد الرزاق،کتاب الطلاق،باب الرجل یطلق امرأتہ ثلاثا وھی حائض او نفسا ،حدیث: ۱۱۰۹۶۴)
ترجمہ : حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہا ایک شخص نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں تین طلاق دے دیا ، تو اس نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے حکم دریافت کیا : تو آپ نے فرمایا : تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی ، اور تجھ سے تیری بیوی جدا ہو گئی ، اب وہ تیرے لیے حلال نہیں جب تک وہ تیرے علاوہ سے نکاح نہ کر لے ۔

حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ کے طلاق دینے والی جو احادیث ہیں ، ان میں اصح احادیث وہ ہیں جن میں یہ ذکر ہے کہ انہوں نے طلاق بتّہ دی تھی ، تین طلاقیں نہیں دی تھیں ، طلاق بتّہ میں ایک طلاق کا بھی احتمال ہے اورتین طلاقوں کا بھی احتمال ہے ، احادیث کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تم نے ایک طلاق دی ہے یا تین ، تو انہوں نے عرض کی کہ میں نے ایک طلاق ہی کی نیت کی تھی ، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک طلاق شمارفرمائی تھی ، مگر بعض راویوں نے تین طلاق والے احتمال کو لے کرمعنوی طور پر یہ روایت کردی کہ انہوں نے تین طلاقیں دی تھیں ،حالانکہ معاملہ حقیقت میں ایسا نہیں تھا،نیز حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ کے واقعے میں جو تین طلاق کی روایت ہے ، اس کے راوی مجہول ہیں ، اس روایت سے استدلال ہو ہی نہیں سکتا ۔

سنن ابی داؤد میں ہے : عن عبداللہ بن علی بن یزید بن رکانۃ عن ابیہ عن جدہ : انہ طلق امرأتہ البتّۃ ، فأتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، فقال : ما أردت ؟ قال : واحدۃ ، قال اللہ ؟ قال : اللہ ، قال : ھو علی ما أردت ۔
ترجمہ : عبداللہ بن علی بن یزید بن رکانہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق بتّہ دی تھی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : تمہاری کتنی طلاق دینے کی نیت تھی ؟ عرض کی : ایک طلاق کی نیت تھی ، فرمایا : کیا تم اللہ کی قسم اٹھاتے ہو ؟ عرض کی : جی ہاں اللہ کی قسم ہے ۔ فرمایا : پھر اتنی ہی طلاقیں ہیں جتنی کی تمہاری نیت تھی ۔ (سنن ابی داؤد جلد 1 صفحہ 318 مطبوعہ لاہور)

جس حدیث میں طلاق بتّہ کے الفاظ ہیں ، وہ حدیث اصح ہے ، اس حدیث سے جس میں تین طلاق کے الفاظ ہیں ۔ چنانچہ امام ابوداؤد رحمہ اللہ مذکورہ حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں : قال ابوداؤد : وھذا اصح من حدیث ابن جریج :ان رکانة طلق امراتہ ثلاثا،لانھم اھل بیتہ وھم اعلم بہ “ یعنی امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ حدیث اصح ہے اس حدیث سے جو ابن جریج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اور جس میں یہ ذکر ہے کہ حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نے تین طلاقیں دی تھیں ۔ اصح کی وجہ یہ ہے کہ یہ حدیث حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ کی اولاد سے ہی روایت ہے اور اہل و عیال اپنے گھر کے واقعے کو زیادہ بہتر طریقے سے جانتے ہیں ۔ (سنن ابی داؤد ،جلد1،صفحہ318،مطبوعہ لاھور)

معالم السنن شرح سنن ابی داؤد میں علامہ محدث ابوسلیمان حمد بن محمد خطابی رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں جس میں حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ کے تین طلاق دینے کا ذکرہے۔”قال الشیخ :فی اسناد ھذا الحدیث مقال لان ابن جریج انما رواہ عن بعض بنی ابی رافع والمجھول لایقوم بہ الحجۃ،وقد روی ابوداؤد ھذا الحدیث باسناد اجود منہ ان رکانۃ طلق امراتہ البتۃ۔۔۔۔۔۔قال الشیخ :قد یحتمل ان یکون حدیث ابن جریج انما رواہ الراوی علی المعنی دون اللفظ ،وذلک ان الناس قد اختلفوا فی البتۃ ،فقال بعضھم ھی ثلاثۃ ،وقال بعضھم ھی واحدۃ ،وکأن الراوی لہ ممن یذھب مذھب الثلاث ،فحکی انہ قال:انی طلقتھا ثلاثا،یرید البتۃ التی حکمھا عندہ حکم الثلاث ،واللہ اعلم ۔
ترجمہ : شیخ رحمہ اللہ نے فرمایا :اس حدیث کی اسناد میں کلام ہے ،کیونکہ ابن جریج رحمہ اللہ نے اسے بنی ابی رافع کے بعض لوگوں سے روایت کیا ،(اور وہ بعض لوگ مجہول ہیں) اور مجہول سے دلیل نہیں لائی جاسکتی۔ابوداؤد رحمہ اللہ نے اسی حدیث کو بہترین اسناد کے ساتھ ان الفاظ سے ذکرکیا ہے کہ حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی زوجہ کو طلاق بتہ دی تھی۔۔۔۔۔۔شیخ رحمہ اللہ نے فرمایااس بات کا احتمال ہے کہ ابن جریج رحمہ اللہ سے جو حدیث روایت ہے وہ الفاظ میں روایت نہ ہو بلکہ معنی کے اعتبارسے روایت کی گئی ہو،کیونکہ طلاق بتّہ میں لوگوں کا اختلاف ہے ،بعض کے نزدیک یہ تین طلاقیں ہیں اوربعض کے نزدیک یہ ایک طلاق ہے،جس راوی نے اس کو تین طلاق کے الفاظ سے روایت کیااس کا موقف گویا کہ وہی تھا کہ جو طلاق بتّہ کو تین طلاقیں شمارکرتے تھے،تو اس نے الفاظ تین طلاق کے روایت کیے ،مگراس کی مراد وہی طلاق بتّہ تھی جس کا حکم اس کے نزدیک تین طلاقوں والا تھا ۔ (معالم السنن شرح سنن ابی داؤد جلد 2 صفحہ 448 مطبوعہ بیروت،چشتی)

امام محی الدین ابو زکریا یحییٰ بن شرف النووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : أما الروایۃ التی رواھا المخالفون ان رکانۃ طلق ثلاثا فجعلھا واحدۃ ،فروایۃ ضعیفۃ عن قوم مجھولین ،وانما الصحیح منھا ما قدمناہ انہ طلقھا البتۃ ،ولفظ البتۃ محتمل للواحدۃ وللثلاث ،ولعل صاحب ھذہ الروایۃ الضعیفۃ اعتقد ان لفظ البتۃ یقتضی الثلاث فرواہ بالمعنی الذی فھمہ وغلط فی ذلک ۔
ترجمہ : وہ روایت جو مخالفین نے ذکرکی ہے کہ حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نے تین طلاقیں دی تھیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے ایک شمار کیا ، یہ ضعیف روایت ہے ، مجہول لوگوں سے روایت ہے ۔ اس میں صحیح روایت وہی ہے جو ہم نے پہلے بیان کی کہ انہوں نے طلاق بتّہ دی تھی اور بتّہ کا لفظ ایک طلاق کا احتمال بھی رکھتا ہے اور تین کا بھی احتمال رکھتا ہے ، جس راوی نے تین طلاق کا لفظ ذکر کیا اس کے گمان کے مطابق لفظ بتّہ تین کا تقاضا کرتا تھا ، اس لیے اس نے معنوی طور پر تین طلاق کا ذکر کر دیا جو کہ غلط ہے ۔ (شرح صحیح مسلم جلد 10 صفحہ 64 مطبوعہ قاھرہ،چشتی)

وقارالفتاوی میں ہے  : صحیح یہی ہے کہ حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نے تین طلاقیں نہیں دی تھیں ، بلکہ طلاق بتہ دی تھی ، راوی نے اپنی روایت میں بتہ کے معنی تین سمجھ کرثلاث کا لفظ بڑھا دیا ،کیونکہ بتہ کا لفظ ایک اور تین دونوں کا تھا ، لیکن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت رکانہ سے پوچھا ، تو انہوں نے عرض کیا کہ میری نیت ایک کی ہے ، جیسا کہ اوپر صحیح روایت میں نقل کیا گیا ۔ (وقارالفتاوی جلد 3 صفحہ 170 مطبوعہ کراچی)

محدثین وفقہاء علیہم الرحمہ نے فرمایا کہ اول زمانہ میں جب طلاق دی جاتی تھی ، توالفاظ اگرچہ تین مرتبہ طلاق کے بولے جاتے تھے ، مگر پہلی مرتبہ طلاق کے الفاظ طلاق کےلیے  ہوتے تھے اور دوسری اور تیسری مرتبہ کے الفاظ طلاق کےلیے نہیں ، بلکہ تاکید کے طور پر بولے جاتے تھے ، اس لیے ایک طلاق شمار ہوتی تھی ، کیونکہ طلاق دی ہی ایک جاتی تھی ، پھر بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ  لوگوں نے تین مرتبہ طلاق کے الفاظ تین طلاقوں کےلیے  ہی بولنا شروع کر دیا ، تو انہوں نے تین طلاقیں ہی شمارکیں ۔ نیز ”تین طلاقیں ایک شمارکی جاتی تھیں“ کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا کہ اب جو نتیجہ لوگ تین طلاقوں سے حاصل کرتے ہیں (کہ نکاح ختم ہو جائے) ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ کے زمانے میں وہی نتیجہ ایک طلاق سے حاصل کیا جاتا تھا ۔

شیخ الاسلام ، امام ،محدث محی الدین ابوزکریا یحیی بن شرف النووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اما حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنھما فاختلف العلماء فی جوابہ وتاویلہ ،فالاصح ان معناہ ،انہ کان فی اول الامر اذا قال لھا انت طالق انت طالق انت طالق لم ینو تاکیداولا استئنافا یحکم بوقوع طلقۃ لقلۃ ارادتھم الاستئناف بذلک ،فحمل علی الغالب الذی ھو ارادۃ التاکید،فلما کان فی زمن عمررضی اللہ تعالٰی عنہ وکثر استعمال الناس بھذہ الصیغۃ وغلب منھم ارادۃ الاستئناف بھا حملت عند الاطلاق علی الثلاث عملا بالغالب السابق الی الفھم منھا فی ذلک العصر ۔
ترجمہ : ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کے بارے میں علماء نے مختلف جوابات ارشاد فرمائے ، صحیح یہ ہے کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اول زمانہ میں جب شوہر ، زوجہ سے کہتا کہ تجھے طلاق ، تجھے طلاق ، تجھے طلاق ، جس میں وہ تاکید یا نئی طلاق کے واقع ہونے کی نیت نہ بھی کرتا ، تب بھی ایک طلاق واقع ہوتی ، کیونکہ دوسرے اور تیسرے الفاظ سے نئی طلاق دینے کی نیت کم ہی ہوتی تھی ، غالب طور پر تاکید کا ارادہ ہوتا تھا ۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا اور لوگوں نے کثرت سے طلاق کے صیغے بولنا شروع کر دیے اور ان سے غالب طور پر نئی طلاق ہی کا ارادہ ہوتا تھا ، تو پھر ان تین صیغوں کو تین طلاقیں ہی شمار کیا جانے لگا ، کیونکہ اس زمانے میں غالب طور پر یہی سمجھا جاتا تھا کہ تین صیغوں سے تین الگ الگ طلاقیں دی گئی ہیں ۔ (شرح صحیح مسلم نووی جلد 10 صفحہ 64 مطبوعہ قاھرہ،چشتی)

فتح القدیر جلد 3 صفحہ 453 مطبوعہ کوئٹہ اور تبیین الحقائق میں ہے : واللفظ للتبیین : والجواب عن الحدیث الاول من وجھین:احدھما انہ انکار علی من یخرج عن سنۃ الطلاق بایقاع الثلاث واخبار عن تساھل الناس فی مخالفۃ السنۃ فی الزمان المتاخر عن العصرین کانہ قال :الطلاق الموقع الآن ثلاثا کان فی ذینک العصرین واحدۃ کما یقال کان الشجاع الآن جبانا فی عصر الصحابۃ اجمعین۔والثانی ان قول الزوج انت طالق انت طالق انت طلاق ،کانت طلقۃ واحدۃ فی العصرین لقصدھم التاکید والاخبار ،وصار الناس بعدھم یقصدون بہ التجدید والانشاء فالزمھم عمر ذلک لعلمہ بقصدھم ۔
ترجمہ : پہلی حدیث (یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث) کا جواب دو طریقے سے دیا گیا ہے،ایک جواب یہ ہے کہ یہاں اس شخص کو تنبیہ کی گئی ہے کہ جو طلاق کے سنت طریقے کو چھوڑکرتینوں طلاقیں ایک ساتھ واقع کرتا ہے،اورخبردی گئی ہے کہ پہلے دو زمانوں کے بعد لوگ سنت کی مخالفت کرتے ہوئے تساہل میں مبتلا ہوگئے تھے تو ان کے لیے  کہا گیا کہ آج جو تین طلاقیں دی جاتی ہیں ، پہلے دو زمانوں میں یہ ایک طلاق دی جاتی تھی۔جیسے کہاجاتا ہے کہ جو شخص آج بہادرسمجھا جاتا ہے وہ صحابہ کے زمانہ میں بزدل سمجھا جاتا تھا۔دوسرا جواب یہ ہے کہ پہلے دو زمانے میں جب شوہرتین مرتبہ تجھے طلاق ہے ،تجھے طلاق ہے،تجھے طلاق ہے،کہتا تھا تو وہ ایک طلاق ہی دیتا تھا کیونکہ باقی دومرتبہ طلاق کے الفاظ سے وہ تاکید اورخبرکا ارادہ کرتا تھا،بعد میں لوگ تینوں الفاظ سے الگ الگ طلاق دینے کا قصد کرنے لگے تو حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے ارادے کو جانتے ہوئے تین لازم کردیں ۔ (تبیین الحقائق جلد 3 صفحہ 26 مطبوعہ کراچی)

یاد رہے کہ ظاہری زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور زمانہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین کے درمیان عرف و عادت کا اختلاف صرف اسی طلاق کے مسئلے میں نہیں تھا ، بلکہ احادیث سے دیگر مسائل میں بھی ان زمانوں میں عرف و عادت کا اختلاف ثابت ہے ، جیسا کہ ظاہری زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں عورتیں مسجد میں آکر نماز پڑھتی تھیں ، بلکہ احادیث میں فرمایا گیا کہ انہیں مسجد میں آنے سے منع نہ کرو ، مگر جب عادتیں بدل گئیں ، لوگوں میں فساد کی ابتدا ہوئی ، تو فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے عورتوں کو مسجد میں آنے سے روک دیا اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ان کی تائید فرمائی کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی اگراس زمانے میں ہوتے ، تو وہ بھی منع فرما دیتے ۔

صحیح بخاری شریف میں ہے : عن عمرۃ عن  عائشۃ رضی اللہ عنھا ،قالت : لو أدرک رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ما أحدث النساء لمنعھن المسجد کما منعت نساء بنی اسرائیل قلت لعمرۃ :أو منعن ؟ قالت:نعم ۔
ترجمہ : حضرت عمرہ رضی اللہ عنہا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے فرمایا : اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس زمانے کو پاتے جس میں عورتوں نے فساد پیدا کر لیے ہیں ، تو انہیں مسجد میں آنے سے روک دیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا ، راوی کہتے ہیں میں نے حضرت عمرہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ کیا بنی اسرائیل کی عورتوں کو روکا گیا تھا ؟ تو انہوں نے فرمایا : ہاں ۔ (صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 190 مطبوعہ لاہور،چشتی)

اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے علامہ  عبدالرحمن بن احمد بن رجب بغدادی حنبلی رحمہ اللہ اپنی کتاب فتح الباری میں فرماتے ہیں : تشیر عائشۃ رضی اللہ عنہا الی ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان یرخص فی بعض ما یرخص فیہ حیث لم یکن فی زمنہ فساد ،ثم یطرء الفساد ویحدث بعدہ ،فلو أدرک ما حدث بعدہ لما استمر علی الرخصۃ ،بل نھی عنہ ،فانہ انما یأمر بالصلاح وینھی عن الفساد ۔
ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس طرف اشارہ فرما رہی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بعض چیزوں میں اس لیے رخصت عطا فرماتے تھے کہ ان کے زمانے میں فساد نہیں تھا ، پھر فساد طاری ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے کے بعد پیدا ہوا ، تو اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی اس فساد کے زمانے کو پاتے ، تو رخصت برقرار نہ رکھتے ، بلکہ اس سے منع فرما دیتے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اصلاح  والا حکم ارشاد فرماتے اور فساد سے منع فرماتےتھے ۔ (فتح الباری لابن رجب حنبلی ،جلد5،صفحہ308،مطبوعہ ریاض)

محیط برہانی میں ہے : عن عمر رضی اللہ عنہ :ا نہ نھی النساء عن الخروج الی المساجد ،فشکون الی عائشۃ رضی اللہ عنہا ، فقالت عائشۃ رضی اللہ عنہا : لو علم النبی علیہ السلام ما علم عمر ما أذن لکم فی الخروج ۔
ترجمہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عورتوں کو مسجد میں آنے سے منع فرمایا ، تو عورتوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے شکایت کی ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا : جو عمر جانتے ہیں اگر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی یہ دیکھتے ، تو تمہیں مسجد میں آنے کی اجازت نہیں دیتے ۔ (محیط برھانی جلد 2 صفحہ 102 مطبوعہ بیروت) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔