Tuesday 15 August 2023

پاکستان و آزادِی اللہ عزوجل کی نعمت ہے اِس نعت کا شُکر ادا کریں

0 comments
پاکستان و آزادِی اللہ عزوجل کی نعمت ہے اِس نعت کا شُکر ادا کریں
محترم قارئینِ کرام : پاکستان اور آزادِی اللہ عزوجل کی بہت بڑی نعمت ہے ، کوئی قوم آزاد ہو یہ اُس کی بڑی خوش قسمتی ہے ۔ اس لیے کہ اللہ عزوجل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان سے بنی اسرائیل کو یہ نعمت یاد دلائی کہ تم اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب فرعون اور فرعون والے تم پر ظلم کیا کرتے تھے ، تم غلام تھے ، تمہارے بیٹوں کو ذبح کر دیتے تھے اور بیٹیوں کو زِندہ چھوڑ دیتے تھے ۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ اُن کی عورتوں سے وہ خدمت لیتے تھے اور بڑوں سے بیگار لیتے تھے ۔ مصر میں فرعون کے بہت بڑے بڑے اہرام مصر بنے ہوئے ہیں ، بڑے بڑے پتھروں کے مصنوعی پہاڑ ہیں ، جو اُن کی قبریں تھیں ، یہ بڑے بڑے پتھر بنی اسرائیل کے ذریعہ لائے جاتے تھے ، فرعونیوں کے ہاتھ میں بڑے بڑے کوڑے ہوتے تھے ، اُن سے اُنہیں مارتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو آزادی دی اور فرعون کو غرق کیا اور یہ بنی اسرائیل اس کنارے پر تماشہ دیکھ رہے تھے ۔ اللہ تعالیٰ اُن کو یہ نعمت یاد دِلاتا ہے اور ایسا ہی ہمارا حال ہے ۔ ہم غلام تھے ، استعمار ہم پر غالب تھا اور فرعون نے تو بچوں کو ذبح کیا ، لیکن استعمار نے ہمارے ہزاروں علماء کو ذبح کیا ، وہ سب جرم کیے جو آپ کتابوں میں پڑھ سکتے ہیں ۔ ہمارے بزرگوں نے محنت کی ، آزادی کےلیے قربانیاں دیں اور آخر کار اس کو یہاں سے بھاگنا پڑا اور ہمیں آزادی مل گئی اور اس آزادی کا عنوان بھی ” اسلام“ تھا ۔ ہمارے قائدین ، ہمارے عوام سب کی زبان پر یہی تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا : ”لا الہ الا اللہ“ اس پر ہمیں اللہ نے وطن عزیز پاکستان آزاد مملکت کی صورت میں یہ نعمت عطا فرمائی ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم نے جو وعدے کیے تھے ، اُن پر عمل کرتے اور واقعی ملک کو مثالی اسلامی مملکت بنا کر دُنیا کے سامنے پیش کرتے ، لیکن نعمت ملنے کے بعد ہمارے حکمرانوں نے بھی اور عوام نے بھی سرکشی اختیار کی ، ناشکری کی ، الا ماشاء اللہ ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج تک ہمیں اسلامی نظام نہ مل سکا ۔ یہ اس کی سزا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب کبھی ملک کے دو ٹکڑوں کی صورت میں ، کبھی زلزلہ کی شکل میں آتا ہے ، کبھی سیلاب کی شکل میں آتا ہے ۔ سیاسی جماعتیں آپس میں لڑ رہی ہیں ، ہر ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ رہا ہے اور پاکستان کا رہنے والا اپنی جان و مال اور عزت پر مطمئن نہیں کہ ہر وقت اس پر خوف مسلط رہتا ہے ۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے ، کیوں کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ ۔ (سورہ ابراہیم آیت نمبر 7)
ترجمہ : اور یاد کرو جب تمہارے رب نے سنادیا کہ اگر احسان مانو گے تو میں تمہیں اور دوں گا اور اگر ناشکری کرو تو میرا عذاب سخت ہے ۔

شکر کا معنی ہے نعمت کا تصور اور اس کا اظہار کرنا ، اور اس کی ضد کفران نعمت ہے یعنی نعمت کو بھول جانا اور اس کو چھپا لینا ، شکر کی تین قسمیں ہیں نزول سے شکر کرنا اور یہ نعمت کا تصور ہے ، زبان سے شکر کرنا اور یہ منعم کی تعریف و تو ضیف کرنا ہے اور اعضاء سے شکر کرنا ، اور یہ بقدر استحقاق نعمت کا بدلہ دینا ہے ، اللہ نے فرمایا ہے : اعْمَلُوا آلَ دَاوُدَ شُكْرًا ۔ (سورہ سبا آیت نمبر 13) ، اے آلِ داؤد شکر کرو ۔
یعنی نیک عمل کرو تاکہ اللہ کا شکر ادا ہو ، نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ ۔ (سورہ سبا آیت نمبر 13) ، میرے بہت شکر کرنے والے بندے تھوڑے ہیں ۔

اس آیت میں تنبیہہ ہے کہ اللہ کا پورا شکر ادا کرنا بہت مشکل ہے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں میں سے صرف حضرت نوح اور حضرت ابراہیم علیہما السلام کو اپنا شکر گزار فرمایا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو بھی شکر فرمایا ہے اس کا معنی ہے وہ بندوں پر انعامات فرمانے والا ہے اور ان کی عبادت کی جزا عطا فرمانے والا ہے ۔ (المفردات جلد 1 صفحہ 350، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ، 1418 ھ،چشتی) 

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا : اے بنی اسرائیل ! یاد کرو جب تمہارے رب نے اعلان فرمادیا کہ اگر تم اپنی نجات اور دشمن کی ہلاکت کی نعمت پر میرا شکر ادا کرو گے اور ایمان و عملِ صالح پر ثابت قدم رہو گے تو میں  تمہیں  اور زیادہ نعمتیں  عطا کروں  گا اور اگر تم کفر و معصیت کے ذریعے میری نعمت کی ناشکری کرو گے تو میں  تمہیں  سخت عذاب دوں  گا ۔ (تفسیر روح البیان سورہ ابراہیم جلد ۴ صفحہ ۳۹۹-۴۰۰)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ شکر سے نعمت زیادہ ہوتی ہے ۔ شکر کی حقیقت یہ ہے کہ نعمت دینے والے کی نعمت کا اس کی تعظیم کے ساتھ اعتراف کرے اور نفس کو اِس چیز کا عادی بنائے ۔ یہاں ایک باریک نکتہ یہ ہے کہ بندہ جب اللہ تعالیٰ کی نعمتوں  اور اس کے طرح طرح کے فضل و کرم اور احسان کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے شکر میں مشغول ہوتا ہے ، اس سے نعمتیں  زیادہ ہوتی ہیں اور بندے کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت بڑھتی چلی جاتی ہے یہ مقام بہت برتر ہے اور اس سے اعلیٰ مقام یہ ہے کہ نعمت دینے والے کی محبت یہاں تک غالب ہو جائے کہ دل کا نعمتوں کی طرف میلان باقی نہ رہے ، یہ مقام صدیقوں  کا ہے ۔ (تفسیر خازن جلد ۳ صفحہ ۷۵-۷۶)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جسے شکر کرنے کی توفیق ملی وہ نعمت کی زیادتی سے محروم نہ ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے ’’ لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ‘‘ یعنی اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں  تمہیں  اور زیادہ عطا کروں  گا ۔ جسے توبہ کرنے کی توفیق عطا ہوئی وہ توبہ کی قبولیت سے محروم نہ ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے ’’وَ هُوَ الَّذِیْ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ‘‘ یعنی اور وہی ہے جو اپنے بندوں  سے توبہ قبول فرماتا ہے ۔ (تفسیر در منثور جلد ۵ صفحہ ۹)

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے  ارشاد فرمایا : جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں  کرتا وہ اللّٰہ تعالیٰ کابھی شکر ادا نہیں  کرتا اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں  کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے ۔ (شعب الایمان الثانی والستون من شعب الایمان ۔۔۔ الخ ، فصل فی المکافأۃ بالصنائع جلد ۶ صفحہ ۵۱۶ الحدیث: ۹۱۱۹،چشتی)

حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے ، جب وہ شکر کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے اور جب وہ نا شکری کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے ۔ (رسائل ابن ابی دنیا کتاب الشکر للّٰہ جلد ۱ صفحہ ۴۸۴ الحدیث : ۶۰)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے  حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو ہر نماز کے بعد یہ دعا مانگنے کی وصیت فرمائی ’’اَللّٰہُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ‘‘ یعنی اے اللّٰہ ، تو اپنے ذکر ، اپنے شکر اور اچھے طریقے سے اپنی عبادت کرنے پر میری مدد فرما ۔ (ابو داؤد، کتاب الوتر، باب فی الاستغفار، ۲ / ۱۲۳، الحدیث: ۱۵۲۲)

دوسرے مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْیَةً كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَىٕنَّةً یَّاْتِیْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْ عِ وَ الْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ ۔ (سورہ النحل آیت نمبر 112)
ترجمہ : اور اللہ نے کہاوت بیان فرمائی ایک بستی کہ امان و اطمینان سے تھی ہر طرف سے اس کی روزی کثرت سے آتی تو وہ اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرنے لگی تو اللہ نے اسے یہ سزا چکھائی کہ اسے بھوک اور ڈر کا پہناوا پہنایا بدلہ ان کے کیے کا ۔

اس آیت میں  جس بستی کی مثال بیان فرمائی گئی ، ممکن ہے کہ اس سے مراد مکہ مکرمہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد مکہ مکرمہ کے علاوہ کوئی اور بستی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے سابقہ امتوں  کی کوئی بستی مراد ہو جس کا حال اس آیت میں  بیان کیا گیا ہو ، اکثر مفسرین کے نزدیک اس بستی سے مراد مکہ مکرمہ ہے ۔ علامہ علی بن محمد خازن علیہ الرحمہ یہ کلام ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ مقاتل اور بعض مفسرین کے قول کے مطابق یہ آیت مدنی ہے اور یہی صحیح ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس بستی کی چھ (6) صفات بیان فرمائی ہیں  اور یہ تمام صفات اہلِ مکہ میں  موجود تھیں  تو اللہ تعالیٰ نے ان کی مثال اہلِ مدینہ کے سامنے بیان فرمائی تاکہ وہ انہیں  ڈرائے کہ اگر انہوں  نے مکہ والوں  جیسے کام کئے تو جو بھوک اور خوف اُنہیں  پہنچا وہ اِنہیں  بھی پہنچ سکتا ہے ۔ (تفسیر خازن، النحل جلد ۳ صفحہ ۱۴۷)

اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے کفار کو آخرت کی وعید شدید سے ڈرایا تھا اور اس آیت میں ان کو دنیا کی شدید آفتوں اور مصیبتوں سے ڈرایا ہے اور وہ یہ ہے کہ ان پر قحط مسلط کردیا جائے گا۔ جس بستی کی اس آیت میں مثال دی گئی ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے زمانہ ماضی کی کوئی بستی مراد ہو۔ جیسے حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت لوط یا حضرت شعیب علیہم السلام کے زمانوں میں بستیاں تھیں جو بہت آرام اور خوشحالی سے رہتی تھیں پھر جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر پر اصرار کیا تو ان کو دنیا میں آفتوں اور مصیبتوں نے آگھیرا اور ان پر قحط کی صورت میں بھوک اور پیاس کو مسلط کردیا گیا ، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد کفار مکہ کی بستیاں ہوں ۔ حضرت ابن عباس ، مجاہد ، قتادہ اور ابن زید رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ اس بستی سے مراد مکہ ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ کو بھوک کا لباس پہنا دیا ، اس بھوک کی اذیت ان کے اجسام کو پہنچی اور ان کے اجسام کا اس طرح احاطہ کرلیا جس طرح لباس اجسام کا احاطہ کرتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے خلاف دعا ضرر کی تھی جس کی وجہ سے ان پر کئی سال قحط طاری رہا ، حتی کہ وہ مردار ، چمڑہ اور اس کے بال بھی کھا جاتے تھے اور یہ ان کی بداعمالیوں کی سزا تھی ۔

مسروق بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ، انہوں نے کہا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لوگوں کی شقاوت دیکھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعا کی اے اللہ ! ان پر ایسے سات قحط کے سال مسلط فرما جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں قحط کے سات سال تھے ۔ پھر ایسا قحط آیا جس سے سب چیزیں ختم ہو گئیں حتی کہ انہوں نے چمڑے ، مردے، اور مردار بھی کھائے ، ان میں سے کوئی شخص آسمان کی طرف دیکھتا تو اس کو آسمان دھوئیں کی طرح نظر آتا ۔ ان دنوں میں حضرت سفیان رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آکر کہا اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ اللہ کا حکم ماننے اور رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کا حکم دیتے ہیں اور آپ کی قوم ہلاک ہو رہی ہے ، آپ اس کےلیے اللہ سے دعا کیجیے ، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :
فارتقب یوم تاتی السماء بدخان مبین ۔ (سورہ الدخان آیت نمبر ١٠) ، اس دن کا انتظار کرو جب آسمان کھلا ہوا دھواں لائے گا ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٠٠٧،چشتی)(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٢٥٤)

یہ بھوک کا لباس ہے ، اور خوف کا لباس یہ ہے کہ کفار مکہ کو ہر وقت یہ خوف رہتا تھا کہ مسلمان ان پر حملہ کردیں گے ۔ اس آیت میں مکہ کے کافروں کی مثال دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نعمتیں عطا کی تھیں لیکن جب انہوں نے ان نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بھوک اور خوف کا عذاب مسلط کر دیا ۔ اسی طرح جس جگہ کے لوگ بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کریں گے ، ان پر بھوک اور خوف کا عذاب طاری رکدیا جائے گا ۔ آج مسلمان جو معاشی ناہمواری اور دشمنوں کے خوف میں مبتلا ہیں اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ اجتماعی طور پر اللہ تعالیٰ کی ناشکری کر رہے ہیں ۔

اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک بستی جیسے کہ مکہ کے رہنے والے جوامن و اطمینان سے تھے، ان پر لٹیرے اور ڈاکو چڑھائی کرتے نہ وہ قتل اور قید کی مصیبت میں  گرفتار کیے جاتے ، ہر طرف سے ان کے پاس ان کا رزق کثرت سے آتا تھا تو وہ لوگ نافرمانیاں  کرکے اللہ عزوجل کی نعمتوں  کی ناشکری کرنے لگے اور ا نہوں  نے اللہ عزوجل کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تکذیب کی تو اللہ عزوجل نے ان کے اعمال کے بدلے میں  انہیں  بھوک اور خوف کے لباس کا مزہ چکھایا کہ سات برس تک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعائے ضَرَر کی وجہ سے قحط اور خشک سالی کی مصیبت میں گرفتار رہے یہاں  تک کہ مردار کھاتے تھے پھر امن واِ طمینان کی بجائے خوف و ہراس ان پر مُسَلَّط ہوا اور ہر وقت مسلمانوں کے حملے اور لشکر کشی کا اندیشہ رہنے لگا ، یہ ان کے اعمال کا بدلا تھا ۔ (تفسیر ابوسعود جلد ۳ صفحہ ۲۹۷،چشتی)(تفسیر خازن جلد ۳ صفحہ ۱۴۶-۱۴۷)

اگر ہم چاہتے ہیں کہ اللہ عزوجل کا عذاب ہم سے دور ہو جائے ، اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ ملک اسلامی ملک بن جائے ، اس کے اندر اسلام کا بول بالا ہو تو پھر ہمارے حکمرانوں سے لے کر عوام تک ، ہم سب مِن حیثُ القوم کو توبہ کرنی چاہیے ، ہمیں اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا ہے ۔

ہمارے حکمران بھی صدقِ دل سے توبہ کریں ، عوام بھی صدق دل سے توبہ کریں اور اس کا وعدہ کریں کہ اے اللہ ہم اپنی اجتماعی زندگی میں بھی اور انفرادی زندگی میں بھی تیرے دین پر چلیں گے اور تیری تعلیمات پر عمل کریں گے اور اگر ہم نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے احکامات کی پیروی کی تو ان شاء اللہ یہ عذاب بھی ٹلے گا اور اللہ عزوجل کی نعمتیں بھی آئیں گی ۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نیک حکمرانوں میں سے تھے او ران کو خلیفہ راشد بھی کہا جاتا ہے ، ان کے عدل و انصاف اور دین داری کی وجہ سے ان کے دور میں اللہ عزوجل نے ایسی برکت دی تھی کہ ایک انسان پیسے لے کر باہر نکلتا تو اس کو کوئی فقیر نہیں ملتا تھا ، جس کو وہ پیسے دے اور زمین میں جو غلہ و پھل عام طور پر اگتے تھے اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ کئی گنا زیادہ پھل اور کثرت کے ساتھ غلہ دیا کرتے تھے جو پورے پورے خاندانوں کو کفایت کر جاتے تھے ۔ ایک ہی راستہ ہے کہ ، ہم توبہ کرکے وعدہ کریں کہ یا اللہ آئندہ ہم اپنی زندگی کو تیرے احکام ، تیری کتاب اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت کے مطابق گزاریں گے اور حکمران بھی دعا کریں ، توبہ کریں ، فقیر کی گذارش وہاں تک نہیں پہنچ سکتی ، مگر میڈیا والوں ، اہلِ علم سے فقیر گزارش کرتا ہے کہ فقیر کی آواز وہاں تک بھی پہنچائیں اور اُن سے کہیں کہ اللہ عزوجل کا عذاب جب آئے گا نہ تم بچو گے ، نہ ہم بچیں گے ، توبہ کرو ، تمہاری کرسی کی حفاظت بھی دین اسلام نے کرنی ہے ۔ اللہ عزوجل ہم سب کو اسلام پر زندہ رکھے اور اسلام کےلیے سارے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔