Friday, 25 August 2023

حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ حصّہ نمبر 5

حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ حصّہ نمبر 5

لفظ داتا پر اعتراض آخر کیوں ؟ : حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادتِ با سعادت کم و بیش ۴۰۰ ہجری میں غزنی شہر (مشرقی افغانستان) کے محلہ جلّاب میں ہوئی ۔ کچھ عرصے بعد آپ کا خاندان محلہ ہجویر میں منتقل ہوگیا ۔ آپ کی کُنیت ابوالحسن ، نام علی اور لقب داتا گنج بخش ہے ، آپ رحمۃ اللہ علیہ کا شجرہ نسب اس طرح ہے : حضرت سیِّد علی بن عثمان بن سیّد علی بن عبدالرحمن بن شاہ شُجاع بن ابوالحسن علی بن حسین اصغر بن سیِّدزید شہید بن حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہم ۔ (مقدمہ کشف المحجوب مترجم صفحہ نمبر 8 تا 11 ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور)

لفظ داتا : داتا آسماء الحسنیٰ میں نہیں ہے ، نہ قرآن میں نہیں ہے ، حدیث میں بھی تلاش کیا مگر نہ اردو نہ عربی میں ملا ۔ لغت میں اردو ۔ عربی ، داتا کے معنی اور تراجم : فلان أخْضَرُ (عام) (اسم ) ۔ فلاں شخص بہت داد و دہش کرنے والا ہے ، سخی اور داتا ہے ۔ لفظ اللہ اور رحمن کے علاوہ اللہ کے باقی صفاتی نام مجازی طور پر غیر اللہ پر بول سکتے ہیں کچھ الفاظ اللہ نے قرآن مجید میں خود بھی استعمال فرمائے ۔ اسی طرح آج کل شور ہے کہ داتا صرف اللہ ہے گنج بخش کو داتا کہنا شرک ہے ۔ داتا ہندی کا لفظ ہے معنی ہے دینے والا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے پہلے مرید رائے راجو جن کا نام شیخ ہندی رحمۃ اللہ علیہ رکھا انہیں آپ رحمۃ اللہ علیہ کے صدقے ایمان کی دولت نصیب ہوئی تو انہوں نے داتا کہا سورہ یوسف آپ پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ جب یوسف علیہ السلام قید خانہ میں گئے تو دو قیدی بھی ساتھ داخل ہوئے ۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ شراب نچوڑ رہا ہوں آپ نے فرمایا یسقی ربہ خمرا وہ اپنے رب کو شراب پلائے گا ۔ لفظ رب نبی علیہ السلام استعمال فرما رہے ہیں بادشاہ مصر کےلیے تو مجھے کہنے دیجیے اگر کافر شرابی بادشاہ کےلیے یوسف علیہ السلام لفظ رب مجازی طور پر استعمال کریں تو شرک نہیں اگر ہم ولی کامل عالم دین آلِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلیے مجازی طور پر داتا کا لفظ استعمال کر دیں تو بھی شرک نہیں ہے ۔ کیا داتا لفظ بڑا ہے یا رب ؟

داتا کا مطلب دینے والا ہے ۔ دینا خدا کی صفت ہے اور اللہ جس کو چاہے اپنی صفات ، شجاعت ، سخاوت ودیعت کر دے ۔ یہ عطائی صفات ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی ہوئی یہی صفت یعنی سخاوت حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ میں بدرجہ اتم موجود تھی ، وہ پوری زندگی ایسا کرتے رہے ، دیکھنے والے صاحبِ ثروت لوگوں نے بھی اس راہ پر چلنے کی کوشش کی ۔ داتا دربار سے گنج بخشی کا سلسلہ ظاہری ، باطنی اور روحانی طور پر جاری ہے ۔ سرچشمۂِ نور و ہدایت تو ذاتِ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں ، آفتاب تو رسالت مآب ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے غلام آفتاب رسالت کے نور سے مستیز ہو کر رشد و ہدایت کی کرنیں بکھیرتے ہیں ۔

نبی کریم کرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو کوئی شخص ان کو یاد کرے گا وہ جنت میں داخل ہو گا ۔ جامع ترمذی عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ : اَللّٰہُ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ الْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُھَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُ الْخَالِقُ الْبَارِیُٔ الْمُصَوِّرُ الْغَفَّارُ الْقَھَّارُ الْوَھَّابُ الرَّزَّاقُ الْفَتَّاحُ الْعَلِیْمُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الْخَافِضُ الرَّافِعُ الْمُعِزُّ الْمُذِلُّ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ الْحَکَمُ الْعَدْلُ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ الْحَلِیْمُ الْعَظِیْمُ الْغَفُوْرُ الشَّکُوْرُ الْعَلِیُّ الْکَبِیْرُ الْحَفِیْظُ الْمُقِیْتُ الْحَسِیْبُ الْجَلِیْلُ الْکَرِیْمُ الرَّقِیْبُ الْمُجِیْبُ الْوَاسِعُ الْحَکِیْمُ الْوَدُوْدُ الْمَجِیْدُ الْبَاعِثُ الشَّھِیْدُ الْحَقُّ الْوَکِیْلُ الْقَوِیُّ الْمَتِیْنُ الْوَلِیُّ الْحَمِیْدُ الْمُحْصِی الْمُبْدِیُٔ الْمُعِیْدُ الْمُحْییِ الْمُمِیْتُ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ الْوَاجِدُ الْمَاجِدُ الْوَاحِدُ الصَّمَدُ الْقَادِرُ الْمُقْتَدِرُ الْمُقَدِّمُ الْمُؤَخِّرُ الْاَوَّلُ الْاٰخِرُ الظَّاھِرُ الْبَاطِنُ الْوَالِیُ الْمُتَعَالُ الْبَرُّ التَّوَّابُ الْمُنْتَقِمُ الْعَفُوُّ الرَّئُوْفُ مَالِکُ الْمُلْکِ ، ذُوالْجَلَالِوَالْاِکْرَامِ الْمُقْسِطُ الْجَامِعُ الْغَنِیُّ الْمُغْنِی الْمَانِعُ الضَّآرُّ النَّافِعُ النُّوْرُ الْھَادِیُ الْبَدِیْعُ الْبَاقِی الْوَارِثُ الرَّشِیْدُ الصَّبُوْرُ ۔

“العلی” اسماء الحسنیٰ میں شامل ہے اور یہ نام “علی” استعمال میں عام مقبول ہے ۔ اسی طرح اکثر آسماء الحسنیٰ پر نام رکھے جاتے ہیں ۔ یہ اللہ کے صفاتی نام ہیں جب “ال” لگایا جاتا ہے تو اللہ سے مخصوص ہو جاتا ہے ، لامحدود معنی میں ، ورنہ سادہ محدود عربی نام رہ جاتا ہے ۔ کسی انسان کا نام مجازی معنی میں ہوتا ہے ۔

اللہ ، ذاتی نام ہے اللہ کا ، اس کا کوئی مجازی مطلب نہی ۔ صرف اللہ کےلیے مخصوص ہے ، اللہ ، نام کوئی مسلمان نہیں رکھتا جب تک کوئی اور نام ساتھ نہ ہو ۔ جیسے عبد اللہ ، اللہ کا غلام ۔ اگر کوئی اللہ پکارا جائے تو شرک بن جاتا ہے ۔ مگر علی ، کہیں تو شرک نہیں سمجھا جاتا ۔ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ کے صفاتی ناموں پر (محدود) نام رکھنا “ال” کے بغیر جائز سمجھا جاتا ہے ۔

الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ۔ (سورہ فاتحہ)
ترجمہ : تعریف اللہ ہی کےلیے ہے جو تمام کائنات کا رب ہے ۔

قرآن مجید میں رب کا لفظ اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کچھ افراد کےلیے بھی استعمال ہوا ہے ۔

حضرت یوسف علیہ السلام قید خانے میں ایک شخص سے بادشاہِ مصر کے بارے میں کہا : وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ ۔
ترجمہ : اور یوسف (علیہ السلام) نے اس شخص سے کہا جسے ان دونوں میں سے رہائی پانے والا سمجھا کہ اپنے بادشاہ کے پاس میرا ذکر کر دینا (شاید اسے یاد آجائے کہ ایک اور بے گناہ بھی قید میں ہے) مگر شیطان نے اسے اپنے بادشاہ کے پاس (وہ) ذکر کرنا بھلا دیا نتیجۃً یوسف (علیہ السلام) کئی سال تک قید خانہ میں ٹھہرے رہے ۔ (سورہ يُوْسُف، 12: 42)

دوسرے مقام پر فرمایا : وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ فَلَمَّا جَاءَهُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللاَّتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ إِنَّ رَبِّي بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌ ۔
ترجمہ : اور (یہ تعبیر سنتے ہی) بادشاہ نے کہا : یوسف (علیہ السلام) کو (فورًا) میرے پاس لے آؤ، پس جب یوسف (علیہ السلام) کے پاس قاصد آیا تو انہوں نے کہا : اپنے بادشاہ کے پاس لوٹ جا اور اس سے (یہ) پوچھ (کہ) ان عورتوں کا (اب) کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے ؟ بیشک میرا رب ان کے مکرو فریب کو خوب جاننے والا ہے ۔ (سورہ يُوْسُف، 12: 50)

مذکورہ بالا آیات میں ’رب‘ کا لفظ بادشاہ کےلیے استعمال ہوا ہے ۔ درج ذیل آیت میں رب کا لفظ بیک وقت اللہ تعالیٰ اور والدین کے لیے آیا ہے ۔

وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا ۔
ترجمہ : اور ان دونوں کے لئے نرم دلی سے عجز و انکساری کے بازو جھکائے رکھو اور (ﷲ کے حضور) عرض کرتے رہو : اے میرے رب ! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا ۔ (سورہ بَنِيْ إِسْرَآئِيْل، 17: 24)

مطلقاً رب کا لفظ صرف اللہ تعالیٰ کےلیے ہی مستعمل ہے کیونکہ وہی ذات حقیقی مربی و مالک ہے اور اسی کی ملکیت و پرورش ساری کائنات پر علیٰ الاطلاق ہے ۔ مگر مجازاً رب کا لفظ تربیت دینے والے ، پرورش کرنے والے اور بادشاہ کےلیے بھی استعمال کیا جاتا ہے .

داتا تو اسماء الحسنیٰ میں سے نہیں ہے ۔ اس کے کئی مطلب ہیں ، دینے والا ، سخی ، فیاض ، رازق ، درویش ، فقیر ، سائیں ۔ اب اس کا استعمال ، نیت اور سیاق و سباق سے ہی معلوم ہو سکتا ہے کہ کس معنی میں استعمال ہو رہا ہے ۔ نیت تو صرف اللہ کو معلوم ہے ۔ مگر استعمال کرنے والا اگر واضح ہے کہ وہ اللہ کے لیے نہیں بلکہ عام دوسرے معنی میں استعمال کر رہا ہے تو اس پر شرک کا فتوی لگانا کیا درست ہوگا ؟

یہ تکفیری ، خوارج دہشت گردوں شرک کے ٹھیکیداروں کا طریقہ ہے کہ وہ اپنی تاویل ، و تفسیر دوسروں پر تھوپ کر کفر ، مرتد ، مشرک واجب القتل قرار دے کر خود کش حملے کرتے ہیں ۔ قتل کرتے ہیں ۔

مسلمان ہر نماز میں اقرار کرتے ہیں کہ : إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ۔ (سورہ فاتحہ)
ترجمہ : ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں ۔

ایسے شخص کو مشرک کیسے کہ سکتے ہیں ؟

شرک خفی میں کوئی بھی مبتلا ہو سکتا ہے مگر مسلسل استغفار اور ذکر اس کا علاج موجود ہے ۔

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو ان دونوں میں سے ایک پر کفر لوٹ گیا یعنی یا تو کہنے والا خود کافر ہو گیا یا وہ شخص جس کو اس نے کافر کہا ہے ۔ (بخاری و مسلم)

دوسری روایت میں ہے : حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے جانتے بوجھتے کسی دوسرے کو باپ بنایا تو یہ بھی کفر کی بات ہے اور جس شخص نے ایسی بات کو اپنی طرف منسوب کیا جو اس میں نہیں ہے تو ایسا شخص ہم میں سے نہیں ہے اور اس کو اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنانا چاہیے اور جس نے کسی کو کافر کہا یا اللہ کا دشمن کہہ کر پکارا حالانکہ وہ ایسا نہیں ہے تو یہ کلمہ اسی پر لوٹ آئے گا ۔ (صحیح مسلم جلد اول حدیث نمبر 219 ،چشتی)

دارالافتاء دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ : ⬇

”داتا گنج“ کے معنی خزانوں کا لٹانے والا ، مراد اس سے اللہ تعالیٰ ہے ، اس کے آگے بخش لگانے کے بعد حاصل یہ نکلا ”اللہ بخش“ غالباً حضرت شیخ علی ہجویری اسی لقب کے ساتھ مشہور تھے ، اس لیے اس نام میں کوئی حرج نہیں ، اور غوث کا لفظ عرف میں قطب اور بہت بڑے ولی کےلیے بولا جاتا ہے ، اس لیے اونچے مقام والے ولی کو غوث بھی کہہ سکتے ہیں ۔ (آن لاٸن فتویٰ دارالعلوم دیوبند)

اکثر شرک کے ٹھیکیداروں کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ اللہ داتا ہے اس لیے داتا سیّد علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کہنا شرک ہے ، کبھی کہتے ہیں اللہ غوث الاعظم ہے اس لیے غوث الاعظم عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کہنا شرک ہے ۔ کبھی کہتے ہیں اللہ غریب نواز ہے اس لیے غریب نواز سیّد معین الدین چشیے اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کہنا شرک ہے ۔

یہ القاب ، عزت افزائی کےلیے ان ناموں کے ساتھ استعمال کیے جاتے ہیں ۔ اللہ تعالےٰ حاکم ہے اور احکم الحاکمین بھی ہے ، اللہ تعالیٰ مالک ہے اور مالک الملک بھی ہے ۔ جو اللہ کو احکم الحاکمین تو مانے لیکن اس کے تابع کسی حاکم کو نہ مانے ، جو اللہ کو مالک الملک تو مانے لیکن اس کے تابع کسی مالک نہ مانے تو اس کا ذہنی توازن درست نہیں ہے ۔

اللہ اکبر کا مطلب ہے ، اللہ سب سے بڑا ہے ۔ باقی سب حاکم ، سب مالک ، سب غوث ، سب قطب ، اس کے بندے ہیں اور ان بندوں کو یہ اعزازات اس اللہ اکبر نے ہی عطا فرمائے ہیں : ⬇

(1) رحیم اللہ عزوجل کا اسم ہے ۔

ان ربک لھو العزیز الرحیم ۔
ترجمہ : تمھارا رب عزیز اور رحیم ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی رحیم ہیں ۔

لقد جآءکم رسول من انفسکم عزیز علیہ ماعنتم حریص علیکم بالمو منین رو ءف رحیم ۔
ترجمہ : تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول آئے تمہاری تکلیف ان کو گراں گزرتی ہے اور تمہاری بھلائی کے بہت خواہش مند ہیں اور مومنوں کےلیے روف اور رحیم ہیں ۔

(2) اللہ عزوجل کا نام بھی روف ہے ۔

ان ربک لروف الرحیم ۔ (سورہ نحل ۔7)
ترجمہ : تمہارا رب روف اور رحیم ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام بھی روف ہے ۔

وبالمو منین رٶف رحیم ۔ (سورہ توبہ۔128)
ترجمہ : اور مو منوں کےلیے وہ رؤف (تکلیف دہ امور ہٹانے والے ) اور رحیم (راحت رساں امور پہنچانے والے ہیں) ۔

(3) اللہ عزوجل کا نام مومن ہے ۔

لا الہ الا ھو ۔ المک القدوس السلام المومن ۔ (سورہ حشر ۔ 23)
ترجمہ : اللہ کے سواکوئی معبود نہیں ۔ وہ بادشاہ قدوس ہے سلام ہے اور مومن ہے ۔

بندے بھی مومن ہیں ۔

الذین یقیمون الصلوۃ ومما رزقنھم ینفقون اولئک ھم المو منون حقا ۔
ترجمہ : وہ نماز قائم کرتے ہیں اللہ کے دیے ہوئے میں سے خرچ کرتے ہیں وہی سچے مومن ہیں ۔

(4) اللہ کا نام ولی ہے ۔

ام اتخذوا من دونہ اولیآء فااللہ ھو الولہ ۔ (سورہ شوریٰ۔9)
ترجمہ : کیا انہوں نے اس کے سوا کار ساز بنالیے ہیں ؟ ولی تو خدا ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی ولی ہیں ۔

انما ولیکم اللہ ورسولہ ۔ (سورہ مائدہ)
ترجمہ : تمہارا ولی اللہ ہے ۔ اس کا رسول ۔

(5) علیم اللہ عزوجل ہے ۔

نرفع درجت من نشاء ان ربک حکیم علیم ۔ (سورہ انعام ۔83)
ترجمہ : ہم جسے چاہتے ہیں درجے بلند کر دیتے ہیں بے شک تمہارا رب حکیم اور علیم ہے ۔

یوسف علیہ السلام کا نام بھی علیم ہے ۔

قال اجعلنی علی خزائن الارض انی حفیظ علیم ۔ (شورہ یوسف ۔ 58 )
ترجمہ : یوسف علیہ السلام نے کہا مجھے اس ملک کے خزانوں پر مقرر کر دیجیے کیونکہ میں حفاظت کرنے والا علیم ہوں ۔

ان حوالہ جات کاخلاصہ ملاحظہ ہو
رب بھی رحیم ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی رحیم

اللہ عزوجل بھی رؤف ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی رؤف

اللہ عزوجل مومن ۔ بندہ بھی مومن

اللہ عزوجل ولی ۔ بندہ بھی ولی

اللہ تعالیٰ علیم ۔ بندہ بھی علیم

اللہ تعلیٰ حفیظ ۔ بندہ بھی حفیظ

اللہ تعالیٰ سمیع ۔ بندہ بھی سمیع

دو آدمی آپس میں جھگڑ رہے تھے میں نے پوچھا : بون آف کنٹنشن کیا ہے ؟ کہنے لگا یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مشکل کشاء کہتا ہے مشکل کشاء صرف اللہ ہے ، حاجت روا صرف اللہ ہے میں نے پوچھا جناب کیا مشکل صرف اللہ دور کرتا ہے ؟ بولے ہاں میں نے کہاں بھوک لگی تھی آپ گھر گئے ۔ فوراً بیوی نے روٹی پکا کردی ۔ آپ نے کھائی ۔ جان میں جان آئی ۔ ایک مشکل تو آپ کی بیوی نے بھی حل کر دی آپ دیوالیہ ہونے لگے ، آپ کی کروڑوں کی جائیداد بکنے لگی ۔ مگر ایک دوست نے آپ کو مطلوبہ رقم پہنچادی اتنی بڑے مشکل کشاء پکار اٹھے تو کیا قیامت ہے ؟ وہ مجھے کہنے لگے مشکل کشاء صرف اللہ کو کہیں گے میں نے کہا ٹھیک ہے اب اپنے بیان پر قائم رہنا ۔ جو اللہ عزوجل ہے وہ بندہ نہیں ہو سکتا یہی ہے نا تمہارا مطلب ؟ وہ بولا ہاں ۔

اللہ رحیم ہے تو بندہ رحیم

اللہ مومن ہے بندہ بھی مومن

اللہ کو ولی کہتے ہی بندہ کو بھی ولی کہتے ہیں

بولو کہنے والا مشرک ہو گا ؟

رحیم اللہ کا نام ہے اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کہہ دیا تو کہنے والا مشرک ہوگا ؟ میں نے آیات بھی پڑھیں وہ خاموش ہو گیا میں نے کہا سن تجھے بتاؤں : ⬇

اللہ رحیم ہے ذاتی طور ہر ۔ بندہ رحیم عطائی طور پر

اللہ ولی ہے ذاتی طور پر ۔ بندہ ولی ہے عطائی طور پر

اللہ علیم ہے ذاتی طور پر ۔ بندہ علیم ہے عطائی طور پر

اللہ حفیظ ہے ذاتی طور پر ۔ بندہ حفیظ ہے عطائی طور پر

فرق ہو گیا نا ؟ اگر کوئی آدمی بندے کو مجازی طور پر مشکل کشاء کہنے سے کافر ہو جاتا ہے کیونکہ مشکل کشاء اللہ ہے تو پھر رحیم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کہا تو بھی کافر ہونا چاہیے ۔ علیم کہو تو کافر ، ولی کہنے سے بھی کافر ، اگر کافر ہو گا تو پھر اللہ نے رحیم ، علیم ، حفیظ ، سمیع ، ولی ، مومن باوجودیکہ اس کے نام ہیں بندوں کو ان ناموں سے کیوں مخاطب کیا ہے ؟ اگر غیر اللہ کو علیم ، حکیم ، حلیم ، کریم ، حفیظ ، سمیع ولی ، مومن کے اسماء سے پکارنے والا کافر نہیں ہوتا تو اسی طرح مجازی طور پر کسی کو مشکل کشاء کہنے سے بھی آدمی کافر نہیں ہوتا ۔

اسی طرح عدد ایک بھی ہے ۔ کوئی پوچھے اللہ کتنے ہیں ؟ آپ فوراً کہتے ہیں اللہ ایک ہے اور یہی ایک آپ باپ کے ساتھ بھی استعمال کرتے ہیں جب کوئی پوچھے کہ تمہارے باپ کتنے ہیں تو آپ کہتے ہی ایک ہے باپ ایک ہے کیا آپ کے نزدیک مشرک نہ ہوگا ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ کو فرمایا : لاتجالس قدریا ولا مرجیا ولا خارجیا انھم یکفون الدین کما یکفاء الاناء و یغلون کما غلت الیھود والنصاریٰ ۔
ترجمہ : اے ابو امامہ تو کسی قدری ، کسی مرجی ، کسی خارجی کے پاس مت بیٹھ (یہ تینوں اسلام کا دعویٰ کرنے والے کلمہ پڑھنے والے گمراہ فرقوں کے نام ہیں) اور فرمایا یہ مسلمان کہلانے والے گمراہ لوگ یہ دین کو یوں الٹ دیتے ہیں جیسے کہ برتن کو الٹ دیا جاتا ہے اور یہ بد مذہب لوگ دین میں ایسا غلو کرتے ہیں جیسے یہود و نصاریٰ نے اپنے دین میں غلو کیا ہے ۔

یہودیوں نے جو دین میں غلو کیا اس کی ایک مثال جیسے قرآن مجید میں ہے : وقالت الیھود ید اللہ مغلولۃ غلت ایدیھم ولعنوا بما قالوا بل یداہ مبسوطتان ینفق کیف یشاء ۔ (سورۃ مائدہ)
ترجمہ : یہودی کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے پاس سب کچھ ہے لیکن وہ کسی کو دیتا کچھ نہیں ان یہودیوں کے ہاتھ بند ہو جائیں اور ان پر ایسا کہنے کی بنا پر لعنت ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کے دونوں دست کرم کھلے ہیں وہ جس کو چاہے جتنا چاہے عطا کرے ۔

یونہی ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس سب کچھ ہے مگر وہ کسی کو دیتا کچھ نہیں نہ وہ کسی کو غوث بنا سکتا ہے نہ داتا گنج بخش بنا سکتا ہے نہ کسی کو گنج شکر بنا سکتا ہے نہ کسی کو غریب نواز بنا سکتا ہے اللہ تعالٰٰی مسلمانوں کو ایسا دین میں غلو کرنے والوں سے بچائے رکھے آمین ۔

خارجی دنیا کی بدترین مخلوق ہیں بتوں کی مذمت میں نازل ہونے والی آیات اہل ایمان پر چسپاں کرتے ہیں : کچھ نادان لوگ جہاں کہیں ’’مِن دُونِ اللّهِ‘‘ کے الفاظ دیکھتے ہیں قطع نظر اس سے کہ وہاں کیا بیان کیا گیا ہے اس کا اطلاق بلا استثناء انبیاء و رسل عظام علیہم السلام اور اولیاء و صلحاء علیہم الرّحمہ پر بھی کر دیتے ہیں ۔ ان کی اس جاہلانہ روش سے قرآنی احکام کے بیان کی طرف سے اصل توجہ نہ صرف ہٹ جاتی ہے بلکہ خدا کے محبوب اور مقرب بندوں کی تنقیصِ شان بھی واقع ہوتی ہے جو نہ شارعِ اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا منشا ہے اور نہ خود ذاتِ باری تعالیٰ کا منشا و مقصود ۔ قرآنی الفاظ کا عموم ہو یا خصوص ، ضروری ہے کہ ان کے استعمال کا اصول اور اسلوب ہمیشہ پیشِ نظر رکھا جائے ۔ اگر یہ بنیادی پہلو ہی نظر انداز ہو گیا تو اس غلط تفسیرِ قرآن سے گمراہی کے دروازے کھل جائیں گے ۔ خوارج کا طریق بھی یہی تھا کہ اصل مدعا کو سمجھے بغیر الفاظ کے ظاہری عموم کی بناء پر قرآنی حکم کا ہر جگہ اطلاق کرتے تھے خواہ وہ اطلاق قطعاً غیر موزوں اور غلط ہی کیوں نہ ہوتا ۔

خوارج کے بارے میں منقول ہے : کَانَ ابْنُ عُمَرَ يرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ ﷲِ، وَ قَالَ : اِنَّهُمُ انْطَلَقُوْا إِلٰی آيَاتٍ نَزَلَتْ فِی الْکُفَّارِ فَجَعَلُوْهَا عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی ﷲ عنہما انہیں بدترین مخلوق سمجھتے تھے اور فرماتے تھے : یہ وہ لوگ ہیں جو کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق اہلِ ایمان پر کرتے ہیں ۔ (صحیح البخاری صفحہ 1714 کتاب استتابۃ المرتدین مطبوعہ دار ابن کثیر بیروت)( بخاري، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين و المعاندين و قتالهم، باب قتل الخوارج والملحدين، 6 : 2539،چشتی)(ابن عبد البر، التمهيد، 23 : 335)(ابن حجر عسقلاني، تغليق التعليق، باب قتل الخوارج والملحدين، 5 : 259)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خوارج کو اس لیے اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے کہ وہ ان آیات کو جو کفار و مشرکین کے حق میں نازل ہوئی تھیں ، اہلِ ایمان پر منطبق و چسپاں کرکے انہیں کافر و مشرک ٹھہراتے تھے ۔ اس لیے آیات اور الفاظِ قرآنی کا اصل مورد و محل جانے بغیر انہیں اس طرح بے باکی کے ساتھ ہر جگہ استعمال کرنا بذاتِ خود ایک بہت بڑی گمراہی ہے۔ قرآن کے ہر طالب علم کا اس گمراہی سے بچنا ضروری ہے ۔ یعنی جیسے کافروں بت پرستوں کے معبود بت نکمے ناکارے کچھ نہیں کر سکتے یوں ہی ولی نبی کچھ نہیں کر سکتے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں بچائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق محترم قارئین کرام : علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تج...