حقوق العباد کی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں
محترم قارئینِ کرام : حقوق سے مراد : حقوق جمع ہے حق کی جس کا مطلب ہے لازمی اور ضروری ۔ حقوق دو قسموں کے ہوتے ہیں : (1) حقوق اللہ (2) حقوق العباد ۔
حقوق اللہ : اللہ عزوجل نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور قرآن مجید کے ذریعے اپنے سرے حقوق بندوں کو بتا دیے ہیں کہ اللہ عزوجل کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور تمام وہ کام کرو جس کا اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حکم دیا ۔
حقوق العباد : عباد جمع ہے عبد کی جس سے مراد ہے انسان یا بندہ ۔ اس طرح حقوق العباد کا مطلب ہے بندوں کےلیے ضروری یعنی حقوق ۔ حقوق العباد میں دنیا کے ہر مذہب ، ہر ذات و نسل ، ہر درجے اور ہر حیثیت کے انسانوں کے حقوق آجاتے ہیں ۔ اگر ہم عزیزوں کے حقوق ادا کریں تو اس کے ساتھ غیروں کے حقوق بھی ادا کریں ۔ غلام اگر مالک کی خدمت کرے تو مالک بھی غلام کا پورا پورا خیال رکھے ۔ والدین اگر اولاد کےلیے اپنی زندگی کی ہر آسائش ترک کردیں تو اولاد بھی ان کی خدمت اور عزت میں کمی نہ کرے یہی اسلام کی تعلیم ہے پوری انسانیت کےلیے ۔ حقوق العباد میں مختلف حیثیت اور درجات کے لوگوں کے حقوق آجاتے ہیں ۔
امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں دراز گوش پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا آپ نے فرمایا : اے معاذ کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کا اپنے بندوں پر کیا حق ہے ؟ میں نے عرض کیا : اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں ‘ آپ نے فرمایا : اللہ کا بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں ‘ اور بندوں کا اللہ پر یہ حق ہے کہ جو اس کے ساتھ بالکل شرک نہ کرے وہ اس کو عذاب نہ دے ‘ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا میں لوگوں کو اس کی خوشخبری نہ دوں ؟ آپ نے فرمایا ان کو خوش خبری نہ دو ورنہ وہ اسی پر توکل کرکے بیٹھ جائیں گے (عمل نہیں کریں گے) ۔ (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث : ٢٨٥٦‘ صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ٣٠‘ سنن ترمذی : ٢٦٥٢‘ مسند احمد ج ٥ ص ٢٣٤‘ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث : ٤٢٩٦‘ صحیح ابن حبان ‘ رقم الحدیث : ٢١٠‘ مسند ابوعوانہ : ج ١ ص ١٧)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو اللہ پر بندوں کے حق کا ذکر فرمایا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے اپنے فضل اور کرم سے شرک نہ کرنے والوں کےلیے مغفرت کا وعدہ فرمایا ہے ورنہ عمل کی وجہ سے کسی بندہ کا اللہ پر کوئی حق نہیں ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ کو یہ حدیث بیان کرنے سے منع فرمایا تھا لیکن بعد میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بشارت دے دی تو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے موت سے پہلے اس حدیث کو بیان فرمادیا تاکہ علم کو چھپانے پر جو وعید ہے اس میں داخل نہ ہوں ۔
امام ابو عبد اللہ محمد بن یزید ابن ماجہ متوفی ٢٧٣ ھ علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک اعرابی آیا اس نے کہا اے اللہ کے نبی مجھ کو وصیت کیجیے آپ نے فرمایا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو خواہ تمہیں کاٹ دیا جائے یا جلا دیا جائے اور کسی وقت کی نماز ترک نہ کرو اور شراب نہ پیو کیونکہ وہ برائی کی کنجی ہے۔ (سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث : ٤٠٣٤‘ الترغیب والترہیب ج ١ ص ١٩٥‘ مجمع الزوائد : ج ٤ ص ٢١٧۔ ٢١٦)
(آیت) ” ووصیناالانسان بوالدیہ، حملتہ امہ وھنا علی وھن وفصالہ فی عامین ان ش کرلی ولوالدیک الی المصیر “۔ (لقمان : ١٤)
ترجمہ : ہم نے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ‘ اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری برداشت کرتے ہوئے اس کو پیٹ میں اٹھایا اور اس کا دودھ چھوٹنا دو برس میں ہے (اور ہم نے یہ حکم دیا کہ) میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کرو میری طرف لوٹنا ہے ۔
امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ کون لوگ میرے اچھے سلوک کے مستحق ہیں ؟ آپ نے فرمایا تمہاری ماں ‘ کہا پھر کون ہے ؟ فرمایا تمہاری ماں ‘ کہا پھر کون ہے ؟ فرمایا پھر تمہاری ماں ‘ کہا پھر فرمایا تمہارا باپ ۔ (صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ٢٥٤٨‘ سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٥١٣٩‘ سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٩٠٤‘ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث : ٢٧٠٦‘ مصنف ابن ابی شیبہ ج ٨ ص ٥٤١‘ الادب المفرد ‘ رقم الحدیث : ٥٩٧١‘ سنن کبری للبیہقی ج ٨ ص ٢ شرح السنۃ ‘ رقم الحدیث : ٣٤١٦،چشتی)
قرآن مجید کی بہت سی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے بعد ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک اور اپنے شکر کے بعد ماں باپ کا شکر ادا کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ انسان کے حق میں سب سے بڑی نعمت اس کا وجود اور اس کی تربیتت اور پرورش ہے اور اس کے وجود کا سبب حقیقی اللہ تعالیٰ ہے اور ظاہری سبب اس کے والدین ہیں ‘ اسی طرح اس کی تربیت اور پرورش میں حقیقی سبب اللہ تعالیٰ ہے اور ظاہری سبب اس کے والدین ہیں۔ نیز جس طرح اللہ بندے کو نعمتیں دے کر اس سے اس کا عوض نہیں چاہتا اسی طرح ماں باپ بھی اولاد کو بلاعوض نعمتیں دے دیتے ہیں ‘ اور جس طرح اللہ بندہ کو نعمتیں دینے سے تھکتا اور اکتاتا نہیں والدین بھی اولاد کو نعمتیں دینے سے تھکتے اور اکتاتے نہیں ‘ اور جس طرح بندے گنہ گار ہوں پھر بھی اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمت کا دروازہ بند نہیں کرتا ‘ اسی طرح اگر اولاد نالائق ہو پھر بھی ماں باپ اس کو اپنی شفقت سے محروم نہیں کرتے ‘ اور جس طرح اللہ اپنے بندوں کو دائمی ضرر اور عذاب سے بچانے کے لئے ہدایت فراہم کرتا ہے ماں باپ بھی اپنی اولاد کو ضرر سے بچانے کے لئے نصیحت کرتے رہتے ہیں۔
ماں باپ کے ساتھ اہم نیکیاں یہ ہیں کہ انسان ان کی خدمت کے لئے کمر بستہ رہے ‘ ان کی آواز پر اپنی آواز بلند نہ کرے ‘ ان کے ساتھ سختی سے بات نہ کرے ‘ ان کے مطالبات پورے کرنے کی کوشش کرے ‘ اپنی حیثیت اور وسعت کے مطابق ان پر اپنا مال خرچ کرے ‘ ان کے ساتھ عاجزی اور تواضع کے ساتھ رہے ‘ ان کی اطاعت کرے اور ان کو راضی رکھنے کی کوشش کرے خواہ اس کے خیال میں وہ اس پر ظلم کر رہے ہوں ان کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر ترجیح دے ‘ ماں کے بلانے پر نفل نماز توڑ دے البتہ فرض نماز کسی کے بلانے پر نہ توڑے اگر اس کا باپ یہ کہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو تو اس کو طلاق دے دے ۔
امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث متوفی ٢٧٥ ھ علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے نکاح میں ایک عورت تھی جس سے میں محبت کرتا تھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کو ناپسند کرتے تھے انہوں نے مجھ سے کہا اس کو طلاق دے دو ۔ میں نے انکار کیا پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا ذکر کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس کو طلاق دے دو ۔ (سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٥١٣٨‘ امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١١٩٣، سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث : ٢٠٨٨‘ مسند احمد ج ٢ ص ٥٣‘ ٤٢‘ ٢٠)
امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان سے ایک شخص نے کہ میری ایک بیوی ہے اور میری ماں اس کو طلاق دینے کا حکم دیتی ہے ۔ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سنا ہے کہ والد جنت کے دروازوں میں سے درمیانی دروازہ ہے ‘ تم چاہو تو اس کو ضائع کردو اور تم چاہو تو اس کی حفاظت کرو ‘ سفیان کی ایک روایت میں ماں کا ذکر ہے اور دوسری روایت میں باپ کا ذکر ہے ‘ یہ حدیث صحیح ہے ۔ (سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٩٠٦)
حافظ عبدالعظیم بن عبد القوی لکھتے ہیں : سب سے پہلے سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو طلاق دینے کا حکم دیا تھا اور بیٹے کی باپ کے ساتھ نیکی یہی ہے کہ جس کو باپ ناپسند کرے اس کو بیٹا بھی ناپسند کرے اور جس سے اس کا باپ محبت کرتا ہو اس سے محبت کرے خواہ اس کو وہ ناپسند ہو ‘ یہ اس وقت واجب ہے جب اس کا باپ مسلمان ہو ‘ ورنہ مستحب ہے ۔ (مختصر سنن ابو داؤد جلد ٨ صفحہ ٣٥)
نیز باپ کے ساتھ یہ بھی نیکی ہے کہ باپ کے دوستوں کے ساتھ نیکی کرے ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی سہیلیوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے تھے اور ان کو تحائف بھیجتے تھے ‘ جب بیویوں کی سہیلیوں کا یہ درجہ ہے تو باپ کے دوستوں کا مقام اس سے زیادہ بلند ہے ‘ نیز ماں باپ کی وفات کے بعد ان کےلیے استغفار کرنا بھی ان کے ساتھ نیکی ہے ‘ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور پوچھا ماں باپ کے فوت ہونیکے بعد میں ان کے ساتھ کس طرح نیکی کروں ؟ آپ نے فرمایا ان کی نماز جنازہ پڑھو ‘ ان کےلیے مغفرت کی دعا کرو ‘ انہوں نے لوگوں سے جو وعدے کیے تھے ان کو پورا کرو ‘ ان کے دوستوں کی عزت کرو اور جن کے ساتھ وہ صلہ رحم کرتے تھے ان کے ساتھ صلہ رحم کرو ۔ (عارضۃ الاحوذی جلد ٨ صفحہ ٩٤‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ١٤١٥ ھ)
پڑوسیوں کے حقوق اور ان کے ساتھ نیکی کرنے کا بیان : جو پڑوسی رشتہ دار ہو اس کا ایک حق اسلام ہے اور ایک رشتہ داری کا حق ہے اور ایک پڑوسی کا حق ہے ‘ اور جو پڑوسی اجنبی ہو اس کے ساتھ اسلام اور پڑوسی کا حق ہے ۔
امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : مجاہد علیہ الرحمہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے گھر ایک بکری ذبح کی گئی تو انہوں نے دوبارہ پوچھا تم نے ہمارے یہودی پڑوسی کےلیے ہدیہ بھیجا یا نہیں ‘ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ جبرائیل مجھ کو ہمیشہ پڑوسی کے متعلق وصیت کرتے رہے حتی کہ میں نے یہ گمان کیا کہ وہ پڑوسی کو میرا وارث کر دے گا ۔ (سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٩٤٩‘ صحیح بخاری ‘ رقم الحدیث : ٦٠١٤‘ صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ٢٦٢٤‘ سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٥١٥١‘ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث : ٣٦٧٣،چشتی)
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے دوستوں کے نزدیک اچھا ہو وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے ‘ اور جو شخص اپنے پڑوسیوں کے نزدیک اچھا ہو وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے ۔ (سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٩٥١‘ الادب المفرد ‘ رقم الحدیث : ١١٥‘ سنن دارمی ‘ جلد ٢ صفحہ ٢١٥)
امام ابوالحسن علی بن احمد واحدی نیشا پوری متوفی ٤٥٨ ھ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے دو پڑوسی ہیں ‘ میں ان میں سے کس کے ساتھ ابتداء کروں ‘ فرمایا جس کا دروازہ تمہارے دروازہ کے زیادہ قریب ہو۔ اس حدیث کو امام بخاری نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ۔ (الوسیط ج ٤ ص ٥٠‘ صحیح بخاری ‘ رقم الحدیث : ٦٠٢٠)
امام ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی متوفی ٣٦٠ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پڑوسی کا مجھ پر کیا حق ہے ؟ آپ نے فرمایا اگر وہ بیمار ہو تو تم اس کی عیادت کرو ‘ اگر وہ مر جائے تو اس کے جنازے میں شریک ہو ‘ اگر وہ تم سے قرض مانگے تو اس کو قرض دو ‘ اگر وہ بدحال ہو تو اس پر ستر کرو ‘ اگر اس کو کوئی اچھائی پہنچے تو اس کو مبارک باد دو ‘ اگر اس کو کوئی مصیبت پہنچے تو اس کی تعزیت کرو ‘ اپنے گھر کی عمارت اس کی عمارت سے بلند نہ کرو کہ اس کی ہوا رک جائے ۔ (المعجم الکبیر : ج ١٩ ص ٤١٩،چشتی)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص سالن پکائے تو اس میں شوربا زیادہ کرے۔ پھر اپنے پڑوسی کو بھی اس میں سے دے ۔ (المعجم الاوسط ‘ رقم الحدیث : ٣٦١٥‘ کشف الاستار عن زوائد ‘ رقم الحدیث : ١٩٠١‘ مسند احمد ‘ رقم الحدیث : ١٣٦٨)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص پیٹ بھر کر رات گذارے اور اس کو علم ہو کہ اس کا پڑوسی بھوکا ہے اس کا مجھ پر ایمان نہیں ہے ۔ (المعجم الکبیر ‘ رقم الحدیث : ٧٥١‘ کشف الاستار عن زوائد البزار ‘ رقم الحدیث : ١١٩،چشتی)
علامہ ابی مالکی متوفی ٨٢٨ ھ علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ جس شخص کا گھر یا دکان تمہارے گھر یا دکان سے متصل ہو وہ تمہارا پڑوسی ہے ‘ بعض علماء نے چالیس گھروں تک اتصال کا اندازہ کیا ہے ۔ (اکمال اکمال المعلم)
غلاموں اور خادموں کے ساتھ نیکی کرنے کا بیان : امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (یہ) تمہارے بھائی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارا ماتحت کردیا ہے ۔ سو جو تم کھاتے ہو وہ ان کو کھلاؤ اور جو تم پہنتے ہو وہ ان کو پہناؤ اور ان کے ذمہ ایسا کام نہ لگاؤ جو ان پر بھاری ہو اور اگر تم ان کے ذمہ ایسا کام لگاؤ تو تم ان کی مدد کرو ۔ (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث : ٣٠‘ صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ٤٣٨٩‘ سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٥١٥٧‘ سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٩٥٢‘ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث : ٣٦٩٠)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابوالقاسم نبی التوبہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے اپنے غلام کو تہمت لگائی حالانکہ وہ اس تہمت سے بری تھا ‘ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس پر حد قائم کرے گا ‘ سوا اس کے کہ وہ بات صحیح ہو ‘ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ (سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٩٥٤‘ صحیح بخاری ‘ رقم الحدیث : ٦٨٥٨‘ صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ١٦٦٠‘ سنن ابو داؤد ‘ رقم الحدیث : ٥١٦٥،چشتی)
حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے غلام کو مار رہا تھا میں نے سنا کوئی شخص میرے پیچھے کھڑا یہ کہہ رہا تھا ابو مسعود تحمل کرو ‘ ابو مسعود تحمل کرو ‘ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے ‘ آپ نے فرمایا جتنا تم اس پر قادر ہو اللہ تم پر اس سے زیادہ قادر ہے ۔ سنن ابوداؤد میں یہ اضافہ ہے میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ اللہ کےلیے آزاد ہے ‘ آپ نے فرمایا اگر تم ایسا نہ کرتے تو دوزخ میں جاتے ۔ (سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٩٥٥‘ صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ١٦٥٩‘ سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٥١٥٩)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا ‘ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اپنے خادم کو دن میں کتنی بار معاف کروں ‘ آپ نے فرمایا ہر دن میں ستر بار ۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٩٥٦)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص اپنے خادم کو مارے اور اس کو خدا یاد آجائے تو اس کو مارنا چھوڑ دے ۔ (سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٩٥٧،چشتی)
امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث متوفی ٢٧٥ ھ علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک غلام کو آزاد کردیا وہ ایک تنکے سے زمین کرید رہے تھے انہوں نے کہا اس عمل میں ایک تنکے کے برابر بھی اجر نہیں ہے ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے اپنے غلام کو طمانچہ مارا یا پیٹا اس کا کفارہ یہ ہے کہ وہ اس کو آزاد کردے ۔ (سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٥١٦٨)
امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے غلام آزاد کیا اللہ اس غلام کے ہر عضو کے بدلہ میں اس کو عضو دوزخ سے آزاد کر دے گا حتی کہ اس کی فرج کے بدلہ میں اس کی فرج آزاد کردے گا ۔
اسلام میں غلامی کو ختم کرنے کےلیے بہت سے طریقے مقرر کیے گئے قتل خطا کا کفارہ غلام آزاد کرنا ہے ‘ قسم توڑنے کا کفارہ غلام آزاد کرنا ہے ظہار کا کفارہ بھی غلام آزاد کرنا ہے ‘ عمدا روزہ توڑنے کا کفارہ بھی غلام آزاد کرنا ہے اور جس کے پاس غلام نہ ہوں تو وہ کفارہ قسم میں تین دن روزے رکھے گا ‘ اور باقی صورتوں میں دو ماہ کے روزے رکھے گا ۔
تمام انسانوں کےلیے حقوق
جب ہم انسانی حقوق کا ذکر کرتے ہےں تو اس میں مخصوص قسم کے لوگوں کے حقوق نہیں آتے بلکہ پوری انسانیت ہماری نظر کرم اور توجہ کی منتظر ہوتی ہے ۔ اسلام نے پوری انسانیت کے حقوق ادا کرنے پر اس قدر زور دیا ہے کہ کسی بھی مذہب میں کچھ نہیں کہا گیا اور یہی وجہ ہے کہ مسلمان قوم کو بہترین امت کہا گیا ہے ۔
مسلمان اس لیے سب سے بہترین امت ہیں کیونکہ وہ لوگوں کو نیکی کی ہدایت دیتے ہیں اور برائی سے روکتی ہیں ۔ میں اپنے حقوق کو معاف کردوں گا مگر بندوں کے حقوق کی معافی نہیں دے سکتا ۔
والدین کے حقوق
قرآن پاک نے والدین کے حقوق پر سب سے زیادہ زور دیا ہے ۔ ارشادِ باری تعالی ہے کہ : ماں باپ کی خدمت گزاری اچھی طرح کرو ۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کہہ دیجئے کہ جوکچھ اپنے مال سے خرچ کروگے اس میں والدین کا بھی حق ہے ۔
حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے : ماں باپ کا نافرمان جنت کی خوشبو سے محروم رہے گا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی والدین نے ساتھ عزت و احترام محبت اور خدمت کی سخت تاکید کی تھی ۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے : تمہاری جنت تمہارے والدین ہیں اگر وہ خوش ہیں تو تم جنت میں جاو گے ۔
اولاد کے حقوق
ماں باپ جس طرح اولاد کی پرورش ، خدمت اور تعلیم و تربیت کرتے ہیں وہ اولاد کا حق ہے ۔ اولاد کی بہترین پرورش اور تعلیم و تربیت ماں باپ کا فرض بن جاتا ہے ۔ ایک حدیث اس بات کو اس طرح ثابت کرتی ہے ۔
باپ جو کچھ اپنی اولاد کو دیتا ہے ان میں سب سے بہتر عطیہ اچھی تعلیم و تربیت ہے ۔
عزیزوں اور قرابت داروں کے حقوق
ہر انسان کے عزیز و اقارب ضرور ہوتے ہیں اور زندگی بھر ان سے تعلق قائم رہتا ہے ۔ اللہ نے ان کے بہت سے حقوق مقرر فرمادیے ہیں : جوکچھ اپنے مال میں سے خرچ کروگے اس میں والدین کا بھی حق ہے اور قرابت داروں کا بھی ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی عزیزوں اور رشتہ دارون کے حقوق مقرر کردیے اور فرمایا : رشتہ داروں سے تعلق توڑنے والا جنت میں نہیں جائے گا ۔
اس طرح یہ بات ظاہر ہوگئی کہ قرآن مجید اور احادیث نے عزیزوں اور رشتہ داروں کے بہت سے حقوق مقرر فرمادیے ہیں ۔ یعنی ان کی خوشی اور غم میں شریک ہونا ، غریب رشتہ داروں کی مدد کرنا اور اسی طرح کے بہت سے ایسے کام کرنا جن سے رشتہ داروں سے تعلقات خوشگوار قائم رہیں ہمارے فرائض میں شامل ہیں ۔
ہمسایوں کے حقوق
ہمسائے کئی قسم کے ہوتے ہیں ۔ ایک وہ جو ہمارے گھر کے بالکل نزدیک ہوتے ہیں اور عزیز نہیں ہیں ۔ دوسرے وہ جو عزیز بھی ہوں اور تیسرے وہ جو ہمارے گھر سے ذرا دور رہتے ہوں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سب سے زیادہ زور ان ہمسایوں پر دیا ہے جو گھر سے بالکل نزدیک رہتے ہیں ۔ ان کا ہم پر حق سب سے زیادہ ہے اور وہ ہماری توجہ کے سب سے زیادہ مستحق ہیں ۔ ہمیں کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جو ہمارے ہمسایوں کو تکلیف پہنچائے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمسایوں کے بارے میں ارشاد فرمایا : اپنے گھر کی دیواریں اتنی اونچی نہ کرو کہ ہمسایوں کی دھوپ اور روشنی رک جائے ۔
اللہ عزوجل اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہمسایوں کے حقوق کے بارے میں بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے ۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تو بار بار ہمسایوں کے حقوق اس انداز میں مقرر فرمائے کہ یہ ڈر ہوا کہ کہیں وراثت میں ان کا حق نہ مل جائے ۔ لہٰذا ہمیں ہمسایوں سے حسنِ سلوک سے پیش آنا چاہیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے جس سے ہمسایوں کے حقوق کی مکمل وضاحت ہو جاتی ہے : کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ خود پیٹ بھر کے کھالے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہ جائے ۔
استادوں کے حقوق
حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے : مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے ۔
اسلام نے تعلیم حاصل کرنے پر بہت زور دیا کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جو پہلا پیغام ملاتھا وہ لفظ پڑھو سے ملا تھا ۔ علم انسان کے لئے اس قدر اہم چیز ہے کہ ماں کی گود سے لے کر قبر تک جاری رہتا ہے اور ہر شخص یعنی مرد و عورت ، جوان و بوڑھے پر ایک فرض کی طرح عائد کیا گیا ہے ۔
جب علم کی اس قدر اہمیت ہے تو معلم کی اہمیت بھی کچھ کم نہیں ہو سکتی ۔ مختصراً یہ کہ والدین جو ہماری پیدائش اور تعلیم و تربیت کے ذمہ دار ہوتے ہیں ۔ اور معلم جو ہماری نشونما کے ذمہ دار ہوتے ہیں تو والدین کی طرح سے ہی معلم بھی عزت و احترام کے مستحق ہیں ۔ معلم کی حیثیت بارش جیسی ہوتی ہے اور طالبعلم کی حیثیت زمین جیسی جو بارش کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ جو زمین بارش کی فیض و برکات سے سرسبزو شاداب ہو جاتی ہے اس کا مطلب ہوا کہ زمین نے پانی کو اپنے اندر جذب کرلیا اور جو زمین بارش کے پانی کو ضائع کر دیتی ہے وہ بنجر ہو جاتی ہے ۔ اسی طرح طالبعلم علم کی بارش کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے وہ خوب سیراب ہو جاتا ہے ۔ اور اس کا استاد اس کو آگے جاتا ہوا دیکھ کر حسد نہیں کرتا بلکہ خوش ہوتا ہے ۔ مسلمانوں میں اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پہلے زمانے میں شاگرد استاد کے نام کو اپنے نام کا حصہ بنالیتے تھے ۔
غلاموں ، ناداروں ، مسکینوں اور مفلسوں کے حقوق
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس مظلوم طبقے کے حقوق اچھی طرح سمجھائے ، مقرر کیے اور ادا کیے ۔ یہ طبقہ اسلام سے قبل بڑی ذلت آمیز زندگی گزارتا تھا ۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مختلف احادیث میں ان سے کے حقوق مقرر فرمائے ۔
بیماروں کی عبادت کرنا ان کا حق ہے ، یتیموں کی کفالت کرنا ان کا حق ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تمام انسانوں کی بہتری اور بقاء کےلیے اپنے اعمال، کردار اور اخلاق و اقوال سے ایسا نمونہ پیش کیا جو قیامت تک کےلیے سب کی رہبری کرتا رہے گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رحمتِ عالم ہیں ۔ یہی وجہ ہے کوئی بھی طبقہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توجہ اور حسنِ سلوک سے محروم نہ ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سب سے پہلے خود حقوق ادا کرتے اور پھر دوسروں کو تاکید فرماتے تھے ۔
اسلام میں ہمسایوں کے حقوق
اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے احادیث مبارکہ میں ہمسایوں کے حقوق کی اتنی زیادہ اہمیت بیان فرمائی ہے کہ وہ اپنے حقوق کی ادائیگی کے لحاظ سے قرابت داروں تک پہنچ گئے جن کو ادا کرنا ہر مرد و عورت کےلیے لازم اور ضروری قرار پایا ۔
قرآن حکیم میں ہمسائے کے حقوق کی ادائیگی پر زور دیا گیا : وَاعْبُدُواْ اللّهَ وَلاَ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالاً فَخُورًا ۔
ترجمہ : اور اللہ کی بندگی کرو اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے بے شک اللہ کو خوش نہیں آتا کوئی اترانے والا بڑائی مارنے والا ۔ (سورہ النساء آیت نمبر 36)
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ اور بندوں دونوں کے حقوق کی تعلیم دی گئی ہے ، اللہ تعالیٰ کا بندوں پر حق یہ ہے کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرایا جائے اور بندوں کے آپس میں حقوق یہ ہیں : ⬇
بندوں کے باہمی حقوق
والدین کے ساتھ احسان کرنا
ان کے ساتھ احسان یہ ہے کہ والدین کا ادب اور اطاعت کرے ، نافرمانی سے بچے ، ہر وقت ان کی خدمت کےلیے تیار رہے اور ان پر خرچ کرنے میں بقدرِ توفیق و استطاعت کمی نہ کرے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا : اُس کی ناک خاک آلود ہو ۔ کسی نے پوچھا : یارسولَ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کون ؟ ارشاد فرمایا : جس نے ماں باپ دونوں کو یا ان میں سے ایک کو بڑھاپے میں پایا اور جنت میں داخل نہ ہوا ۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ والاداب، باب رغم من ادرک ابویہ او احدہما عند الکبر ۔ الخ ، صفحہ ۱۳۸۱، الحدیث: ۹(۲۵۵۱)،چشتی)
رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کرنا
ان سے حسنِ سلوک یہ ہے کہ رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کرے اور قطع تعلقی سے بچے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جسے یہ پسند ہو کہ اس کے رزق میں وسعت ہو اور اس کی عمر لمبی ہو تو اسے چاہیے کہ اپنے رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے ۔ (صحیح بخاری کتاب البیوع، باب من احبّ البسط فی الرزق، ۲ / ۱۰، الحدیث: ۲۰۶۷)
حضرت جُبَیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’رشتہ کاٹنے والا جنت میں نہیں جائے گا ۔ (صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والاداب، باب صلۃ الرحم وتحریم قطیعتہا، صفحہ ۱۳۸۳، الحدیث: ۱۸(۲۵۵۶))
صلۂ رحمی کا مطلب بیان کرتے ہوئے صدرُالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : صلۂ رحم کے معنی رشتہ کو جوڑنا ہے ، یعنی رشتہ والوں کے ساتھ نیکی اور سلوک کرنا ، ساری امت کا اس پر اتفاق ہے کہ صلۂ رحم واجب ہے اور قطع رحم (یعنی رشتہ کاٹنا) حرام ہے ۔ (بہارِ شریعت، حصہ شانزدہم، سلوک کرنے کا بیان، ۳ / ۵۵۸،چشتی)
ہمسایہ کے حقوق
قریب کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہوا ور دور کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے اور وہ جو صرف پڑوسی ہو ، رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ یا جو پڑوسی بھی ہو اور مسلمان بھی وہ قریب کا ہمسایہ اور وہ جو صر ف پڑوسی ہو مسلمان نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ ہے ۔ (تفسیرات احمدیہ سورہ النساء الآیۃ: ۳۶، ص۲۷۵)
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام مجھے پڑوسی کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے ، یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے ۔(صحیح بخاری، کتاب الآدب، باب الوصاۃ بالجار، ۴ / ۱۰۴، الحدیث: ۶۰۱۴)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمسائے کے حقوق کی ادائیگی کو ایمان کا حصہ قرار دیا ۔ حضرت ابو شریح رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : خدا کی قسم وہ ایمان والا نہیں خدا کی قسم وہ ایمان والا نہیں ، خدا کی قسم وہ ایمان والا نہیں عرض کیا گیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کون ؟ فرمایا کہ جس کا ہمسایہ اس کی ایذا رسانی سے محفوظ نہیں ۔ (بخاری، الصحيح، کتاب : الأدب، باب : من لا يؤمن جاه بَوَايِقَه، 5 : 2240، رقم : 5670)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جبرائیل ہمیشہ مجھے ہمسائے کے متعلق حکم پہنچاتے رہے یہاں تک کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ شاید اسے وارث بنا دیا جائے گا ۔ (بخاری، الصحيح، کتاب : الأدب، باب : الوصاة بالجار، 5 : 2239، رقم : 5669،چشتی)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمسائے کی عزت نفس اور اس کے گھر کے تقدس کا احترام کرنے کا حکم فرمایا ۔ ہمسائے کے حقوق بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس امر کی وضاحت بھی فرما دی کہ ہمسایہ کون ہے اور کس ہمسائے کے حقوق کو دوسروں کے حقوق پر فوقیت حاصل ہے ۔
صحیح بخاری میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں عرض گزار ہوئی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے دو ہمسائے ہیں ۔ پس میں ان میں سے کس کےلیے تحفہ بھیجا کروں ؟ فرمایا کہ ان میں سے جو دروازے کے لحاظ سے تمہارے زیادہ قریب ہے ۔ (بخاری الصحيح کتاب : الأدب، باب : حق الجوار فی قرب الأبواب، 5 : 2241، رقم : 5674،چشتی)
یتیموں اور محتاجوں سے حسنِ سلوک کرنا
یتیم کے ساتھ حسنِ سلوک یہ ہے کہ ان کی پرورش کرے ، ان کے ساتھ نرمی سے پیش آئے اور ان کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرے ۔ حضرت سہل بن سعد رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے مروی ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص یتیم کی کفالت کرے میں اور وہ جنت میں اس طرح ہوں گے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کلمہ کی انگلی اور بیچ کی انگلی سے اشارہ کیا اور دونوں انگلیوں کے درمیان تھوڑا سافاصلہ کیا ۔ (بخاری کتاب الطلاق، باب اللعان، ۳ / ۴۹۷، الحدیث: ۵۳۰۴)
اور مسکین سے حسنِ سلوک یہ ہے کہ ان کی امداد کرے اور انہیں خالی ہاتھ نہ لوٹائے ۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بیوہ اور مسکین کی امداد و خبر گیری کرنے والا راہِ خدا میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے ۔ (بخاری، کتاب النفقات، باب فضل النفقۃ علی الاہل، ۳ / ۵۱۱، الحدیث: ۵۳۵۳)
پاس بیٹھنے والوں سے حسنِ سلوک کرنا
اس سے مراد بیوی ہے یا وہ جو صحبت میں رہے جیسے رفیق ِسفر ، ساتھ پڑھنے والایا مجلس و مسجد میں برابر بیٹھے حتّٰی کہ لمحہ بھر کےلیے بھی جو پاس بیٹھے اس کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کا حکم ہے ۔
مسافر کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا
اس میں مہمان بھی داخل ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص اللہ تعالیٰ اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کا اِکرام کرے ۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان والنذور، باب الحث علی اکرام الجار۔۔۔ الخ، ص۴۳، الحدیث: ۷۴(۴۷)،چشتی)
لونڈی غلام کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا
ان سے حسنِ سلوک یہ ہے کہ انہیں اُن کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دے ، سخت کلامی نہ کرے اور کھانا کپڑا وغیرہ بقدرِ ضرورت دے ۔ حدیث میں ہے ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : غلام تمہارے بھائی ہیں ، اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارے ماتحت کیا ہے ، تو جو تم کھاتے ہو اس میں سے انہیں کھلاؤ ، جو لباس تم پہنتے ہو ، ویسا ہی انہیں پہناؤ ، اور ان کی طاقت سے زیادہ ان پر بوجھ نہ ڈالو اور اگر ایسا ہو تو تم بھی ساتھ میں ان کی مدد کرو ۔ (صحیح مسلم کتاب، باب اطعام المملوک مما یاکل۔۔۔ الخ، صفحہ ۹۰۶، الحدیث: ۳۸(۱۶۶۱))
کسی کو خود سے حقیر سمجھنا اور حق بات قبول نہ کرنا تکبر ہے ، یہ انتہائی مذموم وصف اور کبیرہ گناہ ہے ، حدیث میں ہے : قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند ا ٹھایا جائے گا ، ہرجانب سے ان پر ذلت طاری ہو گی ، انہیں جہنم کے ’’بُولَس‘‘ نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غالب آجائے گی ، انہیں ’’طِیْنَۃُ الْخَبَالْ‘‘ یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی ۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۴۷-باب، ۴ / ۲۲۱، الحدیث: ۲۵۰۰) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment