نورانیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قرآن کی روشنی میں حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : قَدۡ جَآءَكُمۡ مِّنَ اللّٰهِ نُوۡرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيۡنٌ - (سورہ المائدہ آیت نمبر 15)
ترجمہ : بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب ۔
جمہور مفسرین علیہم الرحمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ اس آیت میں نور سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات گرامی ہے اور کتاب مبین سے مراد قرآن مجید ہے ۔ اس آیت میں نور سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں اور روشن کتاب سے مراد قرآنِ مجید ہے ۔ (تنویر المقیاس من تفسیر ابنِ عباس صفحہ نمبر 72) (تفسیر کبیر جلد3 صفحہ 566۔)(تفسیر خازن جلد اول صفحہ 441)(تفسیر جلالین صفحہ 97)(تفسیر روح البیان جلد 2 صفحہ 32،چشتی)(تفسیر روح المعانی پارہ نمبر 6 صفحہ 87 )(تفسیر حقانی جلد 2 صفحہ21)
امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے اہل تورات اور اہل انجیل کو مخاطب کرکے فرمایا : تمہارے پاس نور اور کتاب مبین آگئی۔ نور سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جنہوں نے حق کو روشن کیا ‘ اسلام کو ظاہر کیا ‘ اور کفر کو مٹایا۔ اسی نور کی وجہ سے آپ وہ باتیں بیان فرما دیتے تھے جن کو یہودی چھپاتے تھے اور کتاب سے مراد وہ کتاب ہے جس نے ان چیزوں کو بیان فرما دیا جس میں ان کا اختلاف تھا۔ مثلا اللہ کی توحید ‘ حلال اور حرام اور شریعت کا بیان اور وہ کتاب قرآن مجید ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمایا ‘ جس میں دین سے متعلق احکام کو بیان فرمایا : (جامع البیان ‘ جز ٦ ص ٢٢٠‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)
فقیہ ابو اللیث سمرقندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وَھُوَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ وَالْقُرْآنُ ۔
ترجمہ : نور سے مراد محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور قرآن ہیں ۔(تفسیر سمرقندی سورہ المائدۃ الآیۃ: ۱۵، ۱ / ۴۲۴)
امام ابو محمد حسین بن مسعود بغوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : یَعْنِیْ مُحَمَّدًا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ وَقِیْلَ اَلْاِسْلَامُ ۔
ترجمہ : یعنی نور سے مراد محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں ، اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد اسلام ہے ۔ (تفسیر بغوی سورہ المائدۃ الآیۃ : ۱۵، ۲ / ۱۷)
علامہ خازن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یَعْنِیْ مُحَمَّدًاصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اِنَّمَا سَمَّاہُ اللہُ نُوْرًا لِاَنَّہٗ یُھْتَدٰی بِہٖ کَمَا یُھْتَدٰی بِالنُّوْرِ فِیْ الظُّلَامِ ۔
ترجمہ : نور سے مراد محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو نور اس لیے فرمایا کہ جس طرح اندھیرے میں نور کے ذریعے ہدایت حاصل ہوتی ہے اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے بھی ہدایت حاصل ہوتی ہے ۔ (تفسیر خازن سورہ المائدۃ الآیۃ: ۱۵، ۱ / ۴۷۷)
امام جلا ل الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ لفظ ’’نُورْ‘‘ کی تفسیر لکھتے ہوئے فرماتے ہیں : وَھُوَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ۔
ترجمہ : نور سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں ۔ (تفسیر جلالین سورہ المائدۃ الآیۃ : ۱۵، ص۹۷،چشتی)
امام صاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وَ سُمِّیَ نُوْرًا لِاَنَّہٗ یُنَوِّرُ الْبَصَائِرَ وَ یَھْدِیْھَا لِلرَّشَادِ وَ لِاَنَّہٗ اَصْلُ کُلِّ نُوْرٍ حِسِّیٍّ وَ مَعْنَوِیٍّ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام اس آیت میں نور رکھا گیا اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بصیرتوں کو روشن کرتے ہیں اور انہیں رُشد و ہدایت فرماتے ہیں اور اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر نور حِسّی (وہ نور جسے دیکھا جا سکے ) اور مَعْنَوِ ی (جیسے علم وہدایت )کی اصل ہیں ۔ (تفسیر صاوی سورہ المائدۃ الآیۃ : ۱۵، ۲ / ۴۸۶)
امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اَلنُّوْرُ وَالْکِتَابُ ھُوَ الْقُرْآنُ، وَھٰذَا ضَعِیْفٌ لِاَنَّ الْعَطْفَ یُوْجِبُ الْمُغَایَرَۃَ بَیْنَ الْمَعْطُوْفِ وَالْمَعْطُوْفِ عَلَیْہِ ۔
ترجمہ : یہ قول کہ نور اور کتاب دونوں سے مراد قرآن ہے یہ ضعیف ہے کیونکہ حرف عَطف مَعطوف و معطوف عَلیہ میں مُغایَرت (یعنی ایک دوسرے کاغیر ہونے ) کو مُسْتَلْزِم ہے ۔ (تفسیر کبیر سورہ المائدۃ الآیۃ: ۱۵، ۴ / ۳۲۷)
علامہ سید محمود آلوسی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وَھُوَ نُوْرُ الْاَنْوَارِ وَالنَّبِیُّ الْمُخْتَارُ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ۔
ترجمہ : اس نور سے مراد تمام نوروں کے نور ، نبی مختار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات ہے ۔ (تفسیر روح المعانی سورہ المائدۃ الآیۃ: ۱۵، ۵ / ۳۶۷)
امام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وَ اَیُّ مَانِعٍ مِنْ اَنْ یُجْعَلَ النَّعْتَانِ لِلرَّسُوْلِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فَاِنَّہٗ نُوْرٌعَظِیْمٌ لِکَمَالِ ظُھُوْرِہٖ بَیْنَ الْاَنْوَارِ وَ کِتَابٌ مُّبِیْنٌ حَیْثُ اَنَّہٗ جَامِعٌ لِجَمِیْعِ الْاَسْرَارِ وَمُظْھِرٌ لِلْاَحْکَامِ وَالْاَحْوَالِ وَالْاَخْبَارِ ۔
ترجمہ : اور کون سی رکاوٹ ہے اس بات سے کہ دونوں نعتیں یعنی نور اور کتابِ مبین نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلیے ہوں بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نورِ عظیم ہیں انوارمیں ان کے کمال ظہور کی وجہ سے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کتاب مبین ہیں اس حیثیت سے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جمیع اسرار کے جامع ہیں اور احکام و احوال و اخبار کے مُظْہِر ہیں ۔ (شرح شفا، القسم الاول، الباب الاول فی ثناء اللہ تعالی علیہ۔۔۔ الخ، الفصل الاول، ۱ / ۵۱،چشتی)
بلکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنا نور ہونا بیان فرمایا، چنانچہ امام بخاری اور امام مسلم کے استاذ کے استاذ امام عبد الرزاق علیہم الرحمہ حضرت جابر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت کرتے ہیں : قَالَ سَاَلْتُ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عَنْ اَوَّلِ شَیْئٍ خَلَقَہُ اللہُ تَعَالٰی ؟ فَقَالَ ھُوَ نُوْرُ نَبِیِّکَ یَا جَابِرُ خَلَقَہُ اللہُ ۔
ترجمہ : حضرت جابر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے کس شے کو پیدا فرمایا ؟ ارشاد فرمایا ’’ اے جابر ! وہ تیرے نبی کا نور ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ۔ (الجزء المفقود من المصنف عبد الرزاق کتاب الایمان باب فی تخلیق نور محمد ﷺ صفحہ ۶۳ حدیث نمبر ۱۸)
شیخ الاسلام وہابیہ ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں : قد جآءکم من اللہ نور و کتاب مبین ۔ تمہارے پاس اللہ کا نور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور روشن کتاب آگئی ۔ ( تفسیر ثنائی جلد اوّل صفحہ نمبر 352 ، شیخ الاسلام وہابیہ ثناء اللہ امرتسری)
گرائمر کی رُو سے مندرجہ بالاآیت میں و اوء عطفِ تفسیری ہے جو نور اور روشن کتا ب کو علیحدہ علیحدہ کرتی ہے ،اور لفظ نور مصدر ہے ،مصدر نکلے کی جگہ کو کہتے ہیں اس لحاظ سے بھی حضور سار ی کائنات کے انوار کا منبع ہیں یعنی ساری کائنات نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نور سے تخلیق ہوئی ہے ۔ جن لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ نور او رروشن کتاب دونوں سے مراد قرآن مجید ہے ان کے رد میں اما م فخر الدین رازی تفسیرِ کبیر جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 566 میں فرماتے ہیں : یہ قول کہ نور اور کتاب دونوں سے مراد قرآن ہے ھذا ضعیف ، یہ ضعیف ہے ۔
امام صاوی رحمۃ اللہ علیہ تفسیرِ صاوی جلد اول میں لکھتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام اس آیت میں نور رکھا گیا ہے اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عقلوں کو روشن کرتے ہیں اور ان کو رشد کےلیے ہدائتیں دیتے ہیں اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر حسی اور معنوی نور کی اصل ہیں ۔
علامہ فاسی رحمۃ اللہ علیہ مطالع المسرات صفحہ نمبر 220 پر لکھتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نور حسی اور معنوی ظاہر ہے ،آنکھوں اور عقلوں کے لیے چمکنے والا،بے شک اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام اس آیت میں نور رکھا ہے ۔
امام ابوالحسن علی بن احمد واحدی نیشاپوری متوفی ٤٥٨ ھ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : نور سے مراد ہے گمراہی سے روشنی اور ہدایت ‘ یعنی اسلام۔ قتادہ نے کہا اس سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد ہیں۔ یہی زجاج کا مختار ہے۔ اس نے کہا نور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ آپ بیان کرتے ہیں اور کتاب مبین سے مراد قرآن مجید ہے ‘ جس چیز میں اہل کتاب اختلاف کرتے ہیں۔ اس میں قرآن مجید قول فیصل بیان کرتا ہے ۔ (الوسیط ‘ ج ٢ ص ١٦٩۔ ١٦٨‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت،چشتی)
اِن تفاسیر میں بھی یہی تفسیر کی گئی ہے ۔ قتادہ نے کہا ہے کہ نور سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور دوسروں نے کہا اس سے مراد اسلام ہے اور کتاب مبین سے مراد قرآن مجید ہے ۔ (الجامع لاحکام القرآن ‘ ج ٣ ص ٧٨‘ مطبوعہ بیروت ‘ فتح القدیر ‘ ج ٢ ص ٢٣‘ الدرالمنثور ‘ ج ٢ ص ٢٦٨‘ نظم الدرر ‘ ج ٦‘ ص ٦٣‘ زاد المیسر ‘ ج ٢ ص ٣١٦)
علامہ ابو اللیث نصربن محمد سمرقندی متوفی ٣٧٥ ھ رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں اس آیت کی تفسیر میں کئی اقوال ہیں : ⬇
(١) نور سے مراد سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور کتاب سے مراد قرآن ہے ۔
(٢) نور سے مراد اسلام ہے اور کتاب سے مراد قرآن ہے ۔
(٣) نور اور کتاب دونوں سے مراد قرآن ہے ۔ یہ قول ضعیف ہے ‘ کیونکہ عطف تغایر کو چاہتا ہے ۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسلام اور قرآن پر نور کا اطلاق بالکل ظاہر ہے ۔ کیونکہ نور ظاہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے آنکھ اشیاء ظاہرہ کا ادراک قوت سے کرتی ہے اور نور باطن اس چیز کو کہتے ہیں جس سے بصیرت ‘ حقائق اور معقولات کا ادراک قوت سے کرتی ہے ۔ (تفسیر کبیر ‘ ج ٣ ص ٣٨٤‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ)
قاضی ابوالخیر عبداللہ بن عمر بیضاوی شافعی متوفی ٦٨٦ ھ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : نور سے مراد ہے قرآن جو شک کے اندھیروں کو دور کرتا ہے ‘ اور کتاب مبین سے مراد ہے جس کا اعجاز واضح ہو اور ایک قول یہ ہے کہ نور سے مراد سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں ۔ (علامہ بیضاوی کی پہلی تفسیر زمخشری سے مستفاد ہے ‘ کشاف ‘ ج ١ ص ٦١٧،چشتی)
علامہ شہاب الدین احمد خفاجی حنفی متوفی ١٠٦٩ ھ رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں لکھتے ہیں : اس تفسیر کے مطابق نور اور کتاب دونوں سے مراد واحد ہے۔ قرآن مجید کو نور اس لیے فرمایا ہے کہ یہ ہدایت اور یقین کے طریقوں کو ظاہر فرماتا ہے دوسروی تفسیر جس کے مطابق نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نور فرمایا ہے ‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے معجزات کے سبب سے ظاہر تھے اور آپ حق کو ظاہر کرنے والے تھے ۔ (اور نور وہ ہوتا ہے جو خود ظاہر ہو اور دوسروں کو ظاہر کر دے) ۔ (عنایۃ القاضی جلد ٣ صفحہ ٢٢٦ مطبوعہ بیروت،چشتی)
علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : نور سے مراد نور عظیم ہے جو تمام انوار کا نور ہے اور وہ نبی مختار (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ قتادہ کا یہی مذہب ہے اور یہی زجاج کا مختار ہے۔ ابو علی جبائی (معتزلی) نے کہا نور سے مراد قرآن ہے۔ کیونکہ وہ ہدایت اور یقین کے طریقوں کو منکشف کرتا ہے اور ظاہر کرتا ہے اور زمخشری نے اسی تفسیر پر اقتصار کیا ہے اور اس صورت میں نور پر کتاب مبین کے عطف پر یہ اعتراض ہوگا کہ عطف تغائر کو چاہتا ہے اور جب دونوں سے مراد قرآن ہے تو تغائر کس طرح ہوگا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں عنوان کا تغائر کافی ہے ۔
معطوف علیہ میں قرآن کو نور سے تعبیر کیا ہے اور مطعوف میں اس کو کتاب مبین سے تعبیر کیا ہے اور عنوان کے تغائر کو تغائر بالذات کے قائم مقام کیا گیا ہے۔ اور میرے نزدیک یہ بعید نہیں ہے کہ نور اور کتاب مبین دونوں سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہوں ‘ اور یہاں بھی صحت عطف کے لیے عنوان کا تغائر کافی ہوگا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نور اور کتاب مبین دونوں کے اطلاق کی صحت میں کوئی شک نہیں ہے۔ (روح المعانی ج ٦ ص ٩٧‘ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت)
ملا علی بن سلطان محمد القاری الحنفی المتوفی ١٠١٤ ھ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نور کا اطلاق کیا گیا ‘ کیونکہ آپ اندھیروں سے نور کی طرف ہدایت دیتے ہیں ۔ بعض مفسرین نے یہ کہا ہے کہ نور اور کتاب مبین دونوں سے مراد قرآن ہے۔ یہ دونوں قرآن کے وصف ہیں اور عطف کےلیے لفظی تغایر کافی ہے۔ اس کے مقابلہ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس سے کیا چیز مانع ہے کہ یہ دونوں لفظ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت اور صفت ہوں۔ آپ نور عظیم ہیں۔ کیونکہ انوار میں آپ کا کامل ظہور ہے اور آپ کتاب مبین ہیں ‘ کیونکہ آپ اسرار کے جامع ہیں اور احکام ‘ احوال اور اخبار کے ظاہر کرنے والے ہیں ۔ (شرح الشفاء علی ھامش نسیم الریاض ‘ ج ١ ص ١١٤‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت،چشتی)
صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی متوفی ١٣٦٧ ھ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نور فرمایا گیا ‘ کیونکہ آپ سے تاریکی کفر دور ہوئی اور راہ حق واض ہوئی ۔ (خزائن العرفان ‘ ص ١٧٦‘ مطبوعہ تاج کمپنی لمیٹڈ ‘ کراچی)
اکثر مفسرین کا مختار یہی ہے کہ اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نور کا اطلاق کیا گیا ہے ۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ اس سے مراد نور ہدایت اور نور معنوی ہے یا اس سے مراد نور حسی ہے ۔ جیسے چاند اور سورج کا نور ہے ۔ امام ابن جریر ‘ علامہ سمرقندی حنفی ‘ قاضی بیضاوی شافعی ‘ علامہ احمد خفاجی حنفی ‘ ملا علی قاری حنفی ‘ اور علامہ سید محمد نعیم الدین مراد آبادی کی تفسیروں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نور ہدایت ہیں اور علامہ آلوسی اور بعض دیگر علماء کی عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نور حسی ہیں ۔
علامہ ابو عبداللہ محمد بن الفاسی المالکی الشھیر بابن الحاج المتوفی ٧٣٧ ھ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : امام ابو عبدالرحمن الصقلی رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الدلالات میں نقل کیا ہے جس کی عبارت یہ ہے اللہ عزوجل نے کوئی ایسی مخلوق پیدا نہیں کی جو اس کو اس امت سے زیادہ محبوب ہو اور نہ اس امت کے نبی سے زیادہ کوئی عزت والا پیدا کیا ہے اور ان کے بعد نبیوں کا مرتبہ ہے ‘ پھر صدیقین کا اور پھر اولیاء کرام کا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے سے دو ہزار سال پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نور پیدا کیا اور وہ نور عرش کے ستون کے سامنے اللہ کی تسبیح اور تقدیس کرتا رہا ‘ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نور سے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور آدم علیہ السلام کے نور سے باقی انبیاء علیہم السلام کے نور کو پیدا کیا ۔ (یہاں علامہ صقلی کی عبارت ختم ہوئی) اس کے بعد علامہ ابن الحجاج لکھتے ہیں ‘ نقیہہ خطیب ابو الربیع نے اپنی کتاب شفاء الصدور میں چند عظیم باتیں لکھی ہیں ۔ ان میں سے یہ روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات مبارکہ کو پیدا کرنا چاہا ‘ تو اللہ سبحانہ نے جبرائیل علیہ السلام) کو یہ حکم دیا کہ وہ زمین پر جائیں اور زمین کے قلب سے مٹی لے کر آئیں۔ جبرائیل علیہ السلام اور جنت کے فرشتے اور رفیق اعلی کے فرشتے گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر مبارک کی جگہ سے سفید نورانی مٹی لائے اس کو جنت کی نہروں کے پانی سے گوندھا گیا ‘ حتی کہ وہ سفید موتی کی طرح ہو گئی ۔ اس مٹی کا نور تھا اور اس کی شعاع عظیم تھی۔ حتی کہ فرشتوں نے اس مٹی کے ساتھ عرش ‘ کرسی ‘ آسمانوں ‘ زمینوں ‘ پہاڑوں اور سمندروں کے گرد طواف کیا اور فرشتوں نے اور تمام مخلوق نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کی فضیلت کو پہچان لیا ۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو ان کی پشت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مادہ خلقت کی مٹی رکھی ۔ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی پشت میں پرندوں کی آواز کی مانند اس کی آواز سنی ۔ حضرت آدم علیہ السلام نے کہا اے میرے رب ! یہ کیسی آواز ہے ؟ فرمایا : یہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نور کی تسبیح ہے ‘وہ خاتم الانبیاء ہیں‘ اللہ ان کو تمہاری پشت سے نکالے گا ‘ تم میرے عہد اور میثاق پر قائم رہنا اور ان کو صرف پاکیزہ رحموں میں رکھنا ۔ حضرت آدم علیہ السلام نے کہا میں تیرے عہد اور میثاق پر قائم ہوں اور ان کو صرف پاکیزہ مردوں اور پاکیزہ عورتوں میں رکھوں گا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نور حضرت آدم علیہ السلام کی پشت میں چمکتا تھا ۔ اور فرشتے ان کے پیچھے کھڑے ہو کر صف باندھے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نور کو دیکھتے تھے اور سبحان اللہ کہتے تھے ۔
علامہ ابن الحاج اس کے بعد لکھتے ہیں : اس روایت میں یہ ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نور کو پیدا کیا اور یہ نور اللہ عزوجل کے سامنے سجدہ کرتا رہا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس نور کے چار حصے کیے۔ پہلے حصہ سے عرش کو پیدا کیا ‘ دوسرے حصہ سے قلم کو پیدا کیا اور تیسرے حصہ سے لوح کو پیدا کیا۔ پھر قلم سے فرمایا : چل لکھ ! اس نے کہا اے میرے رب میں کیا لکھوں ؟ فرمایا : میں قیامت تک جو کچھ پیدا کرنے والا ہوں ‘ پھر قلم لوح پر چلنے لگا اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ‘ وہ لکھ دیا۔ پھر چوتھا حصہ اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ کرتا رہا۔ اللہ تعالیٰ نے پھر اس نور کے چار حصے کیے۔ پہلے حصہ سے عقل کو پیدا کیا ‘ دوسرے حصہ سے معرفت کو پیدا کیا اور اس کو لوگوں کے دلوں میں رکھا اور تیسرے حصہ سے سورج اور چاند کے نور کو پیدا کیا اور آنکھوں کے نور کو پیدا کیا اور چوتھے حصہ کو اللہ تعالیٰ نے عرش کے گرد رکھا ‘ حتی کہ آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا تو یہ نور ان میں رکھا۔ پس عرش کا نور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نور سے ہے اور قلم کا نور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نور سے ہے اور لوح کا نور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نور سے ہے اور دن کا نور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نور سے ہے اور عقل کا نور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نور سے ہے اور معرفت کا نور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نور سے ہے اور سورج ‘ چاند اور آنکھوں کا نور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نور سے ہے ۔ (اس روایت کی عبارت ختم ہوئی) ۔
اس کے بعد علامہ ابن الحاج لکھتے ہیں : اس معنی میں بکثرت روایات ہیں ۔ جو ان پر مطلع ہونا چاہے ‘ وہ ابوالربیع کی کتاب الشفاء کا مطالعہ کرے۔ اسی وجہ سے حضرت آدم علیہ السلام نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کہا : اے وہ ! جو معنی میرے باپ ہیں اور صورۃ میرے بیٹے ہیں ‘ اور امام ترمذی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کےلیے نبوت کب ثابت ہوئی ؟ فرمایا : ابھی آدم روح اور جسد کے درمیان تھے ۔ (المدخل ‘ ج ٢ ص ٣٣۔ ٣٠‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت،چشتی)
علامہ میر سید شریف جرجانی متوفی ٨١٢ ھ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : حکماء نے کہا ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے عقل کو پیدا کیا ہے جیسا کہ صریح حدیث میں وارد ہے۔ بعض علماء نے کہا : اس حدیث اور دوسری دو حدیثوں میں مطابقت ہے۔ وہ حدیثیں یہ ہیں ۔ اللہ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا ‘ اور اللہ نے سب سے پہلے میرے نور کو پیدا کیا ‘ اور مطابقت اس طرح ہے کہ معلول اول اس لحاظ سے کہ صرف اس کی ذات کا بہ حیثیت مبداء تعقل کیا جائے تو وہ عقل ہے اور اس لحاظ سے کہ وہ باقی موجودات اور نفوس علوم کے صدور میں واسطہ ہے تو وہ قلم ہے ‘ اور اس لحاظ سے کہ وہ انوار نبوت کے اضاضہ میں واسطہ ہے وہ سیدالانبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کا نور ہے ۔ (شرح مواقف ‘ ج ٧‘ ص ٢٥٤‘ مطبوعہ ایران ‘ ١٣٢٥ ھ)
علامہ بدرالدین محمودبن احمد عینی حنفی متوفی ٨٥٥ ھ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ امام احمد اور امام ترمذی نے سند صحیح کے ساتھ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت کیا ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا ‘ پھر اس سے فرمایا : لکھ تو اس نے قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے ‘ اس کو لکھ دیا۔ حسن ‘ عطاء اور مجاہد کا یہی مختار ہے اور ابن جریر اور ابن جوزی کا بھی یہی مذہب ہے اور ابن جریر نے محمد بن اسحاق سے روایت کیا ہے کہ سب سے پہلے اللہ نے نور اور ظلمت کو پیدا کیا ‘ پھر ان کو ممتاز کیا۔ اور ایک قول یہ ہے کہ سب سے پہلے اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نور کو پیدا کیا ۔ تو ان مختلف روایات میں کس طرح موافقت ہوگی ؟ میں کہتا ہوں کہ ان میں موافقت اس طرح ہے کہ ہر چیز کی اولیت اضافی ہے اور ہر چیز اپنے بعد والوں کے اعتبار سے اول ہے ۔ (عمدۃ القاری ‘ ج ١٥‘ ص ١٠٩‘ مطبوعہ بیروت)
علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سب کے لیے اس اعتبار سے رحمت ہیں کہ آپ ممکنات پر ان کی صلاحیت کے اعتبار سے اللہ کے فیضان کا واسطہ ہیں ‘ اسی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نور اول المخلوقات ہے ‘ کیونکہ حدیث میں ہے ‘ اے جابر سب سے پہلے اللہ نے تمہارے نبی کے نور کو پیدا کیا ۔ (روح المعانی ج ١٥ ص ١٠٥‘ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی ‘ بیروت)
نیز علامہ آلوسی حنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دو حیثیتیں ہیں۔ ایک حیثیت ملکی ہے جس سے آپ فیض لیتے ہیں اور ایک حیثیت بشری ہے ‘ جس سے آپ فیض دیتے ہیں اور قرآن مجید نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روح پر نازل کیا جاتا ہے کیونکہ آپ کی روح صفات ملکیہ کے ساتھ متصف ہے جن کی وجہ سے آپ روح امین سے فیض لیتے ہیں ۔ (روح المعانی ج ١٩ ص ١٢١‘ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی ‘ بیروت،چشتی)
نواب وحید الزمان (غیر مقلدین کے مشہور عالم) متوفی ١٣٢٨ ھ لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے خلق کی ابتداء نور محمدی سے کی ‘ پھر عرش کو پیدا کیا ‘ پھر پانی کو ‘ پھر ہوا کو ‘ پھر دوات ‘ قلم اور لوح کو پیدا کیا ‘ پھر عقل کو پیدا کیا۔ پس آسمانوں ‘ زمینوں اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے ‘ ان کی پیدائش کا مادہ اولی نور محمد ہے ۔ اس کے حاشیہ میں لکھا ہے : وہ جو حدیث میں وارد ہے کہ سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا ‘ اور سب سے پہلے عقل کو پیدا کیا ‘ اس سے مراد اولیت اضافیہ ہے ۔ (ھدیۃ المہدی صفحہ ٥٦‘ مطبوعہ سیالکوٹ)
جس حدیث میں ہے کہ سب سے پہلے اللہ نے میرے نور کو پیدا کیا ‘ بعض علماء نے کہا اس حدیث میں نور سے مراد روح ہے ۔ امام ملا علی قاری متوفی ١٠١٤ ھ لکھتے ہیں : ایک روایت میں ہے کہ اللہ نے سب سے پہلے میرے نور کو پیدا کیا اور ایک روایت میں ہے سب سے پہلے میری روح کو پیدا کیا ‘ ان دونوں روایتوں سے مراد واحد ہے ‘ کیونکہ ارواح روحانی ہوتی ہیں ۔ (مرقاۃ المفاتیح ج ١ ص ١٦٧‘ مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ‘ ملتان ‘ ١٣٩٠ ھ) ۔ (مزیدحصّہ دوم میں ان شاء اللہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment