Thursday 17 August 2023

خارجی دنیا کی بدترین مخلوق ہیں

0 comments

خارجی دنیا کی بدترین مخلوق ہیں بتوں کی مذمت میں نازل ہونے والی آیات اہلِ ایمان پر چسپاں کرتے ہیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : کچھ نادان لوگ جہاں کہیں ’’مِن دُونِ اللّهِ‘‘ کے الفاظ دیکھتے ہیں قطع نظر اس سے کہ وہاں کیا بیان کیا گیا ہے اس کا اطلاق بلا استثناء انبیاء و رسل عظام علیھم السلام اور اولیاء و صلحاء علیہم الرّحمہ پر بھی کر دیتے ہیں ۔ ان کی اس جاہلانہ روش سے قرآنی احکام کے بیان کی طرف سے اصل توجہ نہ صرف ہٹ جاتی ہے بلکہ خدا کے محبوب اور مقرب بندوں کی تنقیصِ شان بھی واقع ہوتی ہے جو نہ شارعِ اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام کا منشا ہے اور نہ خود ذاتِ باری تعالیٰ کا منشا و مقصود ۔ قرآنی الفاظ کا عموم ہو یا خصوص ، ضروری ہے کہ ان کے استعمال کا اصول اور اسلوب ہمیشہ پیشِ نظر رکھا جائے ۔ اگر یہ بنیادی پہلو ہی نظر انداز ہو گیا تو اس غلط تفسیرِ قرآن سے گمراہی کے دروازے کھل جائیں گے ۔ خوارج کا طریق بھی یہی تھا کہ اصل مدعا کو سمجھے بغیر الفاظ کے ظاہری عموم کی بناء پر قرآنی حکم کا ہر جگہ اطلاق کرتے تھے خواہ وہ اطلاق قطعاً غیر موزوں اور غلط ہی کیوں نہ ہوتا ۔

وہابیوں کے محقق ڈاکٹر علی محمد صلابی و وہابی مترجم ابو عبد اللہ لکھتے ہیں : آج کل جوشیلے (وہابیوں) نے خارجیوں کا راستہ اختیار کر لیا ہے بتوں کی مذمّت میں نازل ہونے والی آیات کو اہلِ ایمان و صالحین پر چسپاں کرتے ہیں جن میں تفقہ فی الدین نہیں ہے ۔ (فکرِ خوارج خطرناک فتنوں کی حقیقت مترجم صفحہ نمبر 186)

خوارج کے بارے میں منقول ہے : کَانَ ابْنُ عُمَرَ يرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ ﷲِ، وَ قَالَ : اِنَّهُمُ انْطَلَقُوْا إِلٰی آيَاتٍ نَزَلَتْ فِی الْکُفَّارِ فَجَعَلُوْهَا عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی ﷲ عنہما انہیں بدترین مخلوق سمجھتے تھے اور فرماتے تھے : یہ وہ لوگ ہیں جو کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق اہلِ ایمان پر کرتے ہیں ۔ (صحیح البخاری صفحہ 1714 کتاب استتابۃ المرتدین مطبوعہ دار ابن کثیر بیروت،چشتی)( بخاري، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين و المعاندين و قتالهم، باب قتل الخوارج والملحدين، 6 : 2539)،(صحیح بخاری مترجم جلد سوم صفحہ نمبر 1033،چشتی)،(ابن عبد البر، التمهيد، 23 : 335)،(ابن حجر عسقلاني، تغليق التعليق، باب قتل الخوارج والملحدين، 5 : 259)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خوارج کو اس لئے اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے کہ وہ ان آیات کو جو کفار و مشرکین کے حق میں نازل ہوئی تھیں ، اہلِ ایمان پر منطبق و چسپاں کرکے انہیں کافر و مشرک ٹھہراتے تھے ۔ اس لئے آیات اور الفاظِ قرآنی کا اصل مورد و محل جانے بغیر انہیں اس طرح بے باکی کے ساتھ ہر جگہ استعمال کرنا بذاتِ خود ایک بہت بڑی گمراہی ہے۔ قرآن کے ہر طالب علم کا اس گمراہی سے بچنا ضروری ہے ۔

سوال پیدا ہوتا ہے کیا آج بھی اوثان اور اصنام والی آیاتِ قرآنیہ کو مقبولانِ الٰہی اور اُن کے محبین اور اُن کا احترام بجا لانے والوں پر چسپاں کرنا اسی طرح قابلِ مذمت نہیں ؟ قابلِ مذمت ہے ، خوارج نے تو حضرت سیدنا علی المرتضی کرم ﷲ وجہہ الکریم جیسی شخصیت کو بھی مشرک کہا جو سرچشمۂ ولایت و روحانیت ہیں ۔ انہوں نے آپ رضی اللہ عنہ کی صداقت کا بھی انکار کر دیا تھا اور بغاوت اختیار کرتے ہوئے وہ تاریخِ اسلام کے پہلے بڑے اعتقادی فتنے کا سبب بنے تھے ۔ خوارج نے باقاعدہ طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شرک کا مرتکب ٹھہرایا اور بزعمِ خویش اِس شرک کو قرآن حکیم کی آیت : إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ. (یوسف، 12 : 40) ’’حکم کا اختیار صرف ﷲ کو ہے۔) سے ثابت کرکے تحکیم کا انکار کیا ۔ اور ہر جگہ یہ نعرہ لگانا شروع کر دیا : لَا حُکْمَ إِلَّاِ ﷲ. ’’حکم کا اختیار صرف ﷲ کو ہے۔‘‘ ان کا اپنے خلاف پراپیگنڈہ دیکھ کر سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے واضح فرمایا تھا :کَلِمَةُ حَقٍّ أُرِيْدَ بِهَا بَاطِلٌ.ترجمہ:کلمہ تو برحق ہے مگر اِس سے مراد لیا جانے والا معنی باطل ہے ۔ (مسلم، الصحيح ، کتاب الزکاة، باب التحريض علي قتل الخوارج، 2 : 749، رقم : 1066)(ابن حبان، الصحيح، 15 : 387، رقم : 6939،چشتی)(بيهقی، السنن الکبری، 8 : 171) ۔ اِسی طرح اہلِ ایمان کو آیات کی غلط تعبیر اور اطلاق کے ذریعے مشرک قرار دینے والا موجودہ طبقۂ فکر بھی خوارج ہی کی روش اختیار کئے ہوئے ہے ۔

خارجیوں کے عقائد نظریات اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں خوارج کی نشانیاں

خارجیت دراصل منتشرالخیالی اور منتشرالعملی کا ابلیسی فتنہ ہے جس کی کوکھ سے جہالت ، درندگی ، وحشت و دہشتگردی جنم لیتی ہے ۔ یہ تاریخ اسلام میں یہ فتنہ ابتدائی زمانے میں ہی پیدا ہوگیا تھا جس نے پہلا منظم حملہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم کی مقدس جماعت پر کیا اور (نعوذباللہ) امیر المومنین سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو کافر و مشرک قرار دیتے ہوئے ان کے قتل کا فتویٰ جاری کردیا ۔ یہ ایک انتہا تھی ۔ قانونِ فطرت کے تحت اس کا رد عمل دوسرے بڑے فتنہ روافض کی صورت میں سامنے آیا جو کہ ایک دوسری انتہا تھی ۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں اعتقادی ، فکری ، کلامی فسادات رونما ہونے میں یہی دو فتنے (خوارج و روافض) کارفرما رہے ۔ البتہ فتنہ خوارج سے آگہی و پہچان قرآن و سنت میں واضح کروا دی گئی ہے ۔ آئمہ تاریخ کی تحقیقات کے مطابق خوارج کے تقریبا بیس مختلف فرقے ہیں لیکن احادیث مبارکہ کی روشنی میں انکے دو گروہ نمایاں ہیں ۔ پہلا نجدیہ دوسرا حروریہ ۔

البتہ تاریخ اسلام میں اہل حق طبقہ ہمیشہ اعتدال، سنت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، صبر ، قربانی ، باہمی رواداری اور جمعیت کا دامن تھامے نظر آتا ہے ۔ جسے عام اصطلاح یں ’’اہلسنت و جماعت‘‘کہا جاتا ہے ۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خارجی لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے ، کیونکہ انہوں نے یہ کام کیا کہ جو آیات کافروں کے باب میں اتری تھیں ، ان کو مسلمانوں پر چسپاں کر دیا ۔ (صحيح بخاري ، كتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم ، باب : قتل الخوارج والملحدين بعد اقامة الحجة عليهم)

صحیح بخاری کی کتاب ’استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم (باغیوں اور مرتدوں سے توبہ کرانے اور ان کے قتل کا بیان)‘ کے باب ’قتل الخوارج والملحدين بعد اقامة الحجة عليهم (خارجیوں اور بےدینوں سے ان پر دلیل قائم کر کے لڑنا)‘ کے تحت امام بخاری سب سے پہلے سورہ التوبہ (9) کی آیت نمبر 115 تحریر کرتے ہیں ، وقول الله تعالى ‏: ‏وما كان الله ليضل قوما بعد إذ هداهم حتى يبين لهم ما يتقون‏ ۔ ترجمہ : اور اللہ کی شان نہیں کہ وہ کسی قوم کو گمراہ کر دے اس کے بعد کہ اس نے انہیں ہدایت سے نواز دیا ہو، یہاں تک کہ وہ ان کےلیے وہ چیزیں واضح فرما دے جن سے انہیں پرہیزکرنا چاہیے ، بیشک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے ۔ (سُورة الْتوبہ 9 ، آیت : 115)

پھر اس آیت کے فوراََ بعد امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کوئی حدیث بیان کرنے کے بجائے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا وہ قول درج کرتے ہیں جو یوں ہے : وكان ابن عمر يراهم شرار خلق الله وقال إنهم انطلقوا إلى آيات نزلت في الكفار فجعلوها على المؤمنين‏ ۔ شارحینِ حدیث کے مطابق اس قول میں گمراہ گروہ خوارج کا ذکر ہے ۔

خوارج ہی وہ طبقہ ہے جو کافروں کے بارے میں نازل ہونے والی آیات کو مسلمانوں پر چسپاں کرتا ہے ۔

خوارج کون ہیں اور ان کے عقائد کیا ہیں ؟ اس کے بارے میں امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ‫: نافع بن الازرق خارجی اور اس کے ساتھی یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ جب تک ہم شرک کے ملک میں ہیں تب تک مشرک ہیں اور جب ملک شرک سے نکل جائیں گے تو مومن ہوں گے ان کا کہنا تھا کہ جس کسی سے گناہ کبیرہ سرزد ہوا وہ مشرک ہے اور جو ہمارے اس عقیدے کا مخالف ہوا وہ بھی مشرک ہے جو لڑائی میں ہمارے ساتھ نہ ہو وہ کافر ہے ‫۔ ابراہیم الخارجی کا عقیدہ تھا کہ دیگر تمام مسلمان قوم کفار ہیں اور ہم کو اُن کے ساتھ سلام و دُعا کرنا اور نکاح ورشتہ داری جائز نہیں اور نہ ہی میراث میں اُن کا حصہ بانٹ کر دینا درست ہے ۔ ان کے نزدیک مسلمانوں کے بچے اور عورتوں کا قتل بھی جائز تھا کیونکہ اللہ تعالٰی نے یتیم کا مال کھانے پر آتش جہنم کی وعید سنائی ہے لیکن اگر کوئی شخص یتیم کو قتل کر دے یا اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے یا اس کا پیٹ پھاڑ ڈالے تو جہنم واجب نہیں ۔ (تلبس ابلیس علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ صفحہ 126 ، 127،چشتی)

احادیث مبارکہ کی روشنی میں خارجیوں کی نشانیاں : ⬇

(1) أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ. ’’وہ کم سن لڑکے ہوں گے ۔
(بخاری، الصحيح، کتاب ، 6 : 2539، رقم : 6531۔۔مسلم، الصحيح، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 746، رقم : 1066)

(2) سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ. ’’دماغی طور پر ناپختہ ہوں گے ۔

(3) کَثُّ اللِّحْيَةِ. ’’ گھنی ڈاڑھی رکھیں گے ۔

(4) مُشَمَّرُ الْإِزَارِ. ’’بہت اونچا تہ بند باندھنے والے ہوں گے ۔

(5) يَخْرُجُ نَاسٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ. ’’یہ خارجی لوگ (حرمین شریفین سے) مشرق کی جانب سے نکلیں گے ۔

(6) لَا يَزَالُوْنَ يَخْرُجُوْنَ حَتّٰی يَخْرُجَ آخِرُهُمْ مَعَ الْمَسِيْحِ الدَّجَّالِ.۔۔ ’’یہ ہمیشہ نکلتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ دجال کے ساتھ نکلے گا ۔

(7) لَا يُجَاوِزُ إِيْمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ. ’’ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ۔

(8) يَتَعَمَّقُوْنَ وَيَتَشَدَّدُوْنَ فِی الْعِبَادَةِ. ’’وہ عبادت اور دین میں بہت متشدد اور انتہاء پسند ہوں گے ۔ (عبد الرزاق، المصنف، 10 : 155، رقم : 18673،چشتی)

(9) يَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ، وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ. (بخاری) تم میں سے ہر ایک ان کی نمازوں کے مقابلے میں اپنی نمازوں کو حقیر جانے گا اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں اپنے روزوں کو حقیر جانے گا ۔

(10) لَا تُجَاوِزُ صَلَاتُهُمْ تَرَاقِيَهُمْ. ’’نماز ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی۔‘‘ (مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 748، رقم : 1066)

(11) يَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ لَيْسَ قِرائَتُکُمْ إِلَی قِرَاءَ تِهِمْ بِشَيءٍ . وہ قرآن مجید کی ایسے تلاوت کریں گے کہ ان کی تلاوتِ قرآن کے سامنے تمہیں اپنی تلاوت کی کوئی حیثیت دکھائی نہ دے گی ۔

(12) يَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حُلُوْقَهُمْ. ’’ان کی تلاوت ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی ۔

(13) يَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ يَحْسِبُوْنَ أَنَّهُ لَهُمْ، وَهُوَ عَلَيْهِمْ. ’’وہ یہ سمجھ کر قرآن پڑھیں گے کہ اس کے احکام ان کے حق میں ہیں لیکن درحقیقت وہ قرآن ان کے خلاف حجت ہوگا ۔

(14) يَدْعُونَ إِلَی کِتَابِ اﷲِ وَلَيْسُوا مِنْهُ فِي شَيْئٍ. (ابوداود باب فی قتل الخوارج) وہ لوگوں کو کتاب اﷲ کی طرف بلائیں گے لیکن قرآن کے ساتھ ان کا تعلق کوئی نہیں ہوگا ۔

(15) يَقُوْلُوْنَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ. ’’وہ (بظاہر) بڑی اچھی باتیں کریں گے ۔ (بخاری)

(16) يَقُوْلُوْنَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ قَوْلًا. ’’ان کے نعرے (slogans) اور ظاہری باتیں دوسرے لوگوں سے اچھی ہوں گی اور متاثر کرنے والی ہوں گی ۔ (طبرانی)

(17) يُسِيْئُوْنَ الْفِعْلَ. ’’مگر وہ کردار کے لحاظ سے بڑے ظالم، خونخوار اور گھناؤنے لوگ ہوں گے۔‘‘ (أبوداود، السنن، کتاب السنة، باب في قتال الخوارج، 4 : 243، رقم : 4765،چشتی)

(18) هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ. ’’وہ تمام مخلوق سے بدترین لوگ ہوں گے ۔ (مسلم)

(19) يَطْعَنُوْنَ عَلٰی أُمَرَائِهِمْ وَيَشْهَدُوْنَ عَلَيْهِمْ بِالضَّلَالَةِ. ’’وہ حکومت وقت یا حکمرانوں کے خلاف خوب طعنہ زنی کریں گے اور ان پر گمراہی و ضلالت کا فتويٰ لگائیں گے ۔
هيثمي، مجمع الزوائد، 6 : 228، وقال : رجاله رجال الصحيح.

(20) يَخْرُجُوْنَ عَلٰی حِيْنِ فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ . وہ اس وقت منظرِ عام پر آئیں گے جب لوگوں میں تفرقہ اور اختلاف پیدا ہو جائے گا ۔ (متفق علیہ)

(21) يَقْتُلُوْنَ أَهْلَ الإِسْلَامِ وَيَدْعُوْنَ أَهْلَ الْأَوْثَانِ . وہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے ۔ (متفق علیہ)

(22) يَسْفِکُوْنَ الدَّمَ الْحَرَامَ. ’’وہ ناحق خون بہائیں گے ۔ (مسلم)

(23) يَقْطَعُوْنَ السَّبِيْلَ وَيَسْفِکُوْنَ الدِّمَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ مِنَ اﷲِ وَيَسْتَحِلُّوْنَ أَهْلَ الذِّمَّةِ . (من کلام عائشة رضي اﷲ عنها) ۔ وہ راہزن ہوں گے، ناحق خون بہائیں گے جس کا اﷲ تعاليٰ نے حکم نہیں دیا اور غیر مسلم اقلیتوں کے قتل کو حلال سمجھیں گے۔‘‘ (یہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے۔) (حاکم، المستدرک، 2 : 166، رقم : 2657)

(24) يُؤْمِنُونَ بِمُحْکَمِهِ وَيَهْلِکُونَ عِنْد مُتَشَابِهه. (قول ابن عباس رضی الله عنه) . وہ قرآن کی محکم آیات پر ایمان لائیں گے جبکہ اس کی متشابہات کے سبب سے ہلاک ہوں گے ۔ (قولِ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما) (امام طبری۔عسقلانی)

(25) يَقُوْلُوْنَ الْحَقَّ بِأَلْسِنَتِهِمْ لَا يُجَاوِزُ حُلُوْقَهُمْ. (قول علي رضی الله عنه) ’’وہ زبانی کلامی حق بات کہیں گے، مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی ۔ (قولِ علی رضی اللہ عنہ) (مسلم)

(26) ينْطَلِقُوْنَ إِلَی آيَاتٍ نَزَلَتْ فِي الْکُفَّارِ فَيَجْعَلُوْهَا عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ . (من قول ابن عمر رضی الله عنهما) (بخاری) ۔ وہ کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق مسلمانوں پر کریں گے۔ اس طرح وہ دوسرے مسلمانوں کو گمراہ، کافر اور مشرک قرار دیں گے تاکہ ان کا ناجائز قتل کر سکیں ۔ (قولِ ابنِ عمر رضی اللہ عنہ سے مستفاد)

(27) يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ . وہ دین سے یوں خارج ہو چکے ہوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے ۔

(28) اَلْأَجْرُ الْعَظِيْمُ لِمَنْ قَتَلَهُمْ. ’’ان کے قتل کرنے والے کو اجرِ عظیم ملے گا ۔ مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 748، رقم : 1066،چشتی)

(29) وہ شخص بہترین مقتول (شہید) ہوگا جسے وہ قتل کر دیں گے ۔ (ترمذی)

(30) کلاب النار ۔۔ خوارج جہنم کے کتے ہیں ۔ (السنن ابن ماجہ۔ باب فی الذکر الخوارج ۔ ۱: ۶۲، رقم۔۱۷۶

متعدد احادیث مبارکہ میں فرامین رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں کہ خوارج دہشت گردوں کے گروہ امت مسلمہ کے اندر یکے بعد دیگرے نکلتے رہیں گے۔ حتی کہ ان کا آخری گروہ دجال کے ساتھ جا کر ملے گا ۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : یخرج قوم من قبل المشر یقروون القرآن ، لایجاوز تراقیم کلما قطع قرن نشا قرن، حتی یخرج فی بقیتھم الدجال ۔

ترجمہ : مشرق کی طرف سے کئی لوگ نکلیں گے ۔ وہ قرآن پڑھیں گے مگر قرآن انکے حلق سے نیچے نہ اترے گا، جب ایک شیطانی سینگ یعنی دہشت گرد گروہ کو کاٹ دیا جائے گا تو دوسرا نکلے گا ، یعنی گروہ در گروہ پیدا ہوتے رہیں گے ۔ حتی کہ ان کے آخری گروہ دجال کے ساتھ نکلے گا ۔ (احمد بن حنبل المسند۔ ۲، ۲۰۹، رقم ۶۹۵۲)(طبرانی المعجم الاوسط۔ ۷: ۴۱، رقم ۶۷۹۱،چشتی)(امام حاکم المستدرک ۔ ۴: ۵۵۶، رقم ۸۵۵۸)

خارجیوں کے مسلمانوں پر شرک کے فتوے :⬇

بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کی یہ روایت پڑھیں ۔ میں نےاس کے دیگرحوالہ جات بھی دے دیئے ہیں ۔ اسکے بعد قرآن مجید کھولیں وہ آیات پڑھیں اپنے عقیدے و عمل پر غور کریں اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے لے کر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے بعد آنیوالے اس کی شرح کرنیوالوں تمام پر اپنے احکامات لاگو کریں ۔ روایت یہ ہے ۔ أخرج البخاري في صحيحه في ترجمة الباب : قَوْلُ ﷲِ تَعَالَي : (وَمَا کَانَ ﷲُ لِيُضِلَّ قَوْمًا بَعْدَ إِذْ هَدَاهُمْ حَتَّي يُبَيِنَ لَهُمْ مَا يَتَّقُوْنَ) (التوبة، 9 : 115) وَ کَانَ ابْنُ عُمَرَ رضي ﷲ عنهما يَرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ ﷲِ، وَقَالَ : إِنَّهُمُ انْطَلَقُوْا إِلَي آيَاتٍ نَزَلَتْ فِي الْکُفَّارِ فَجَعَلُوْهَا عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ . وقال العسقلاني في الفتح : وصله الطبري في مسند علي من تهذيب الآثار من طريق بکير بن عبد ﷲ بن الأشج : أَنَّهُ سَأَلَ نَافِعًا کَيْفَ کَانَ رَأَي ابْنُ عُمَرَ فِي الْحَرُوْرِيَةِ ؟ قَالَ : کَانَ يَرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ ﷲِ، انْطَلَقُوْا إِلَي آيَاتِ الْکُفَّارِ فَجَعَلُوْهَا فِي الْمُؤْمِنِيْنَ.
قلت : وسنده صحيح، وقد ثبت في الحديث الصحيح المرفوع عند مسلم من حديث أبي ذر رضي الله عنه في وصف الخوارج : هُمْ شِرَارُ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ. وعند أحمد بسند جيد عن أنس مرفوعًا مثله.وعند البزار من طريق الشعبي عَنْ عَاءِشَةَ رضي ﷲ عنها قَالَتْ : ذَکَرَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم الْخَوَارِجَ فَقَالَ : هُمْ شِرَارُ أُمَّتِي يَقْتُلُهُمْ خِيَارُ أُمَّتِي. وسنده حسن.وعند الطبراني من هذا الوجه مرفوعا : هُمْ شِرَارُ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ يَقْتُلُهُمْ خَيْرُ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ. وفي حديث أبي سعيد رضي الله عنه عند أحمد : هُمْ شَرُّ الْبَرِيَةِ.وفي رواية عبيد ﷲ بن أبي رافع عن علي رضي الله عنه عند مسلم : مِنْ أَبْغَضِ خَلْقِ ﷲِ إِلَيْهِ.وفي حديث عبد ﷲ بن خباب رضي الله عنه يعني عن أبيه عند الطبراني : شَرُّ قَتْلَي أَظَلَّتْهُمُ السَّمَاءُ وَأَقَلَّتْهُمُ الْأَرْضُ. وفي حديث أبي أمامة رضي الله عنه نحوه.وعند أحمد وابن أبي شيبة من حديث أبي برزة مرفوعًا في ذکر الخوارج : شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ يَقُولُهَا ثَلَاثًا . وعند ابن أبي شيبة من طريق عمير بن إسحاق عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه : هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ . و هذا مما يؤيد قول من قال بکفرهم ۔
ترجمہ : امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں باب کے عنوان (ترجمۃ الباب) کے طور پر یہ حدیث روایت کی ہے : ﷲ تعالیٰ کا فرمان : ’’اور ﷲ کی شان نہیں کہ وہ کسی قوم کو گمراہ کر دے ۔ اس کے بعد کہ اس نے انہیں ہدایت سے نواز دیا ہو، یہاں تک کہ وہ ان کے لئے وہ چیزیں واضح فرما دے جن سے انہیں پرہیز کرنا چاہئے۔‘‘ اور عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما ان (خوارج) کو ﷲ تعالیٰ کی بد ترین مخلوق سمجھتے تھے ۔ (کیونکہ) انہوں نے ﷲ تعالیٰ کی ان آیات کو لیا جو کفار کے حق میں نازل ہوئی تھیں اور ان کا اطلاق مومنین پر کرنا شروع کر دیا ۔
اور امام عسقلانی ’’فتح الباری‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ امام طبری نے اس حدیث کو تہذیب الآثار سے بکیر بن عبد ﷲ بن اشج کے طریق سے مسند علی رضی اللہ عنہ میں شامل کیا ہے کہ ’’انہوں نے نافع سے پوچھا کہ عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما کی حروریہ (خوارج) کے بارے میں کیا رائے تھی؟ تو انہوں نے فرمایا : وہ انہیں ﷲ تعالیٰ کی بدترین مخلوق خیال کیا کرتے تھے جنہوں نے ﷲ تعالیٰ کی ان آیات کو لیا جو کفار کے حق میں نازل ہوئیں تھیں اور ان کا اطلاق مومنین پر کیا ۔ میں ’’امام عسقلانی‘‘ کہتا ہوں کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے اور تحقیق یہ سند حدیث صحیح مرفوع میں امام مسلم کے ہاں ابو ذر غفاری کی خوارج کے وصف والی حدیث میں ثابت ہے اور وہ حدیث یہ ہے کہ ’’وہ خَلق اور خُلق میں بدترین لوگ ہیں‘‘ اور امام احمد بن حنبل کے ہاں بھی اسی کی مثل حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی مرفوع حدیث ہے ۔
اور امام بزار کے ہاں شعبی کے طریق سے وہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوارج کا ذکر کیا اور فرمایا : ’’وہ میری امت کے بد ترین لوگ ہیں اور انہیں میری امت کے بہترین لوگ قتل کریں گے ۔‘‘ اور اس حدیث کی سند حسن ہے۔ اور امام طبرانی کے ہاں اسی طریق سے مرفوع حدیث میں مروی ہے کہ ’’وہ (خوارج) بد ترین خَلق اور خُلق والے ہیں اور ان کو بہترین خَلق اور خُلق والے لوگ قتل کریں گے ۔

اور امام احمد بن حنبل کے ہاں حضرت ابو سعید والی حدیث میں ہے کہ ’’وہ (خوارج) مخلوق میں سے سب سے بدترین لوگ ہیں۔

اور امام مسلم نے عبیدﷲ بن ابی رافع کی روایت میں بیان کیا جو انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ’’یہ (خوارج) ﷲ تعالیٰ کی مخلوق میں سے اس کے نزدیک سب سے بدترین لوگ ہیں ۔

اور امام طبرانی کے ہاں عبدﷲ بن خباب والی حدیث میں ہے جو کہ وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ’’یہ (خوارج) بدترین مقتول ہیں جن پر آسمان نے سایہ کیا اور زمین نے ان کو اٹھایا۔‘‘ اور ابو امامہ والی حدیث میں بھی یہی الفاظ ہیں۔

اور امام احمد بن حنبل اور ابن ابی شیبہ ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو مرفوعا خوارج کے ذکر میں بیان کرتے کہ ’’وہ (خوارج) بد ترین خَلق اورخُلق والے ہیں۔‘‘ ایسا تین دفعہ فرمایا۔

اور ابن ابی شیبہ کے ہاں عمر بن اسحاق کے طریق سے وہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ’’وہ (خوارج) بد ترین مخلوق ہیں۔ ’’اور یہ وہ چیز ہے جو اس شخص کے قول کی تائید کرتی ہے جو ان کو کافر قرار دیتا ہے ۔

ہر بات پر بلاوجہ ، بلا تحقیق داد و تحسین دینے والو اپنےطریق کار پر غور کرو اپنےحسد ، تعصب،جہالت،کم علمی اور لادینیت سے قرآن مجید کی تعلیمات کو مسخ کرنیکی سزا کا بھی کبھی تصور کر لیا کرو ۔ ہر واعظ بدبخت کی بات مان کر اپنے عقیدے گھڑتے ہو ۔
دوسروں پر شرک کے فتوے لگاتے ہو اپنے کو سب سے بڑا مومن گردانتے ہو ۔ ذرا ان احادیث کو بھی غور سے پڑھو ۔ پھر دیکھو کہاں کھڑے ہو ۔(أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب : قتل الخوارج والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 / 2539،چشی)(مسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب : الخوارج شر الخلق والخليقة، 2 / 750، الرقم : 1067، وفي کتاب : الزکاة، باب : التحريض علي قتل الخوارج، 2 / 749، الرقم : 1066، وأبوداود في السنن، کتاب : السنة، باب : في قتال الخوارج، 4 / 243، الرقم : 4765)(والنسائي في السنن، کتاب : تحريم الدم، باب : من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 119. 120، الرقم : 4103، وابن ماجه في السنة، المقدمة، باب : في ذکر الخوارج، 1 / 60، الرقم : 170، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 15، 224، الرقم : 11133، 13362، 4 / 421، 424)

عَنْ حُذَيْفَةَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ مَا أَتَخَوَّفُ عَلَيْکُمْ رَجُلٌ قَرَأَ الْقُرْآنَ حَتَّي إِذَا رُئِيَتْ بَهْجَتُهُ عَلَيْهِ وَکَانَ رِدْئًا لِلْإِسْلَامِ غَيْرَهُ إِلَي مَاشَاءَ ﷲُ فَانْسَلَخَ مِنْهُ وَ نَبَذَهُ وَرَاءَ ظُهْرِهِ وَ سَعَي عَلَي جَارِهِ بِالسَّيْفِ وَرَمَاهُ بِالشِّرْکِ قَالَ : قُلْتُ : يَا نَبِيَّ ﷲِ، أَيُّهُمَا أَوْلَي بِالشِّرْکِ الْمَرْمِيُّ أَمِ الرَّامِي قَالَ : بَلِ الرَّامِي.رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالْبَزَّارُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ، إِسْنَادُهُ حَسَنٌ ۔
ترجمہ : حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک مجھے جس چیز کا تم پر خدشہ ہے وہ ایک ایسا آدمی ہے جس نے قرآن پڑھا یہاں تک کہ جب اس پر اس قرآن کا جمال دیکھا گیا اور وہ اس وقت تک جب تک ﷲ نے چاہا اسلام کی خاطر دوسروں کی پشت پناہی بھی کرتا تھا۔ پس وہ اس قرآن سے دور ہو گیا اور اس کو اپنی پشت پیچھے پھینک دیا اور اپنے پڑوسی پر تلوار لے کر چڑھ دوڑا اور اس پر شرک کا الزام لگایا، راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اے ﷲ کے نبی! ان دونوں میں سے کون زیادہ شرک کے قریب تھا شرک کا الزام لگانے والا یا جس پر شرک کا الزام لگایا گیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : شرک کا الزام لگانے والا۔(أخرجه ابن حبان في الصحيح، 1 / 282، الرقم : 81، والبزار في المسند، 7 / 220، الرقم : 2793، والبخاري في التاريخ الکبير، 4 / 301، الرقم : 2907، والطبراني عن معاذ بن جبل رضي الله عنه في المعجم الکبير، 20 / 88، الرقم : 169، وفي مسند الشاميين، 2 / 254، الرقم : 1291، وابن أبي عاصم في السنة، 1 / 24، الرقم : 43، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 188، وقال : إسناده حسن، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 2 / 266۔چشتی)

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : سَيَخْرُجُ أَقْوَامٌ مِنْ أُمَّتِي يَشْرَبُوْنَ الْقُرْآنَ کَشُرْبِهِمُ اللَّبَنَ.رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ کَمَا قَالَ الْهَيْثَمِيُّ وَالْمَنَاوِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عنقریب میری امت میں سے ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن کو یوں (غٹ غٹ) پڑھیں گے گویا وہ دودھ پی رہے ہیں ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 17 / 297، الرقم : 821، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 229، والمناوي في فيض القدير، 4 / 118)

ذکر ابن الأثير في الکامل : خَرَجَ الْأَشْعَثُ بِالْکِتَابِ يَقْرَؤُهُ عَلَي النَّاسِ حَتَّي مَرَّ عَلَي طَائِفَةٍ مِنْ بَنِي تَمِيْمٍ فِيْهِمْ عُرْوَةُ بْنِ أُدَيَةِ أَخُوْ أَبِي بِلَالٍ فَقَرَأَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ عُرْوَةُ : تَحَکَّمُوْنَ فِي أَمْرِ ﷲِ الرِّجَالُ؟ لَا حُکْمَ إِلَّاِﷲِ ۔
ترجمہ : امام ابن اثیر نے ’’الکامل‘‘ میں بیان کیا : ’’اشعث بن قیس نے اس عہدنامہ کو (جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان ہوا تھا) لے کر ہر ہر قبیلہ میں لوگوں کو سنانا شروع کیا۔ جب قبیلہ بنی تمیم میں پہنچے تو عروہ بن اُدیہ (خارجی) جو ابوبلال کا بھائی تھا بھی ان میں تھا جب اس نے وہ معاہدہ انہیں سنایا تو عروہ (خارجی) کہنے لگا : اللہ تعالیٰ کے امر میں آدمیوں کو حَکم بناتے ہو؟ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی حُکم نہیں کر سکتا ۔ (أخرجه ابن الأثير في الکامل، 3 / 196، وابن الجوزي في المنتظم في تاريخ الملوک والأمم، 5 / 123۔چشتی)

عَنْ عَلِيٍّ رضي الله عنه أَنَّهُ کَتَبَ إِلَي الْخَوَارِجِ بِالنَّهْرِ : بِسْمِ ﷲِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ، مِنْ عَبْدِ ﷲِ عَلِيٍّ أَمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ إِلَي زَيْدِ بْنِ حُصَينٍ وَ عَبْدِ ﷲِ بْنِ وَهَبٍ وَ مَنْ مَعَهُمَا مِنَ النَّاسِ. أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ اللَّذَيْنِ ارْتَضَيْنَا حَکَمَينِ قَدْ خَالَفَا کِتَابَ ﷲِ وَاتَّبَعَا هَوَاهُمَا بِغَيْرِ هُدًي مِنَ ﷲِ فَلَمْ يَعْمَلَا بِالسُّنَّةِ وَلَمْ يُنْفَذَا الْقُرْآنَ حُکْمًا فَبَرِيءَ ﷲُ مِنْهُمَا وَرَسُوْلُهُ وَالْمُؤْمِنُوْنَ، فَإِذَا بَلَغَکُمْ کِتَابِي هَذَا فَأَقْبِلُوْا إِلَيْنَا فَإِنَّا سَائِرُوْنَ إِلَي عَدُوِّنَا وَ عَدُوِّکُمْ وَ نَحْنُ عَلَي الْأَمْرِ الْأَوَّلِ الَّذِي کُنَّا عَلَيْهِ.فَکَتَبُوْا (الخوارج) إِلَيْهِ : أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّکَ لَمْ تَغْضَبْ لِرَبِّکَ وَ إِنَّمَا غَضِبْتَ لِنَفْسِکَ فَإِنْ شَهِدْتَ عَلَي نَفْسِکَ بِالْکُفْرِ وَاسْتَقْبَلْتَ التَّوْبَةَ نَظَرْنَا فِيْمَا بِيْنَنَا وَ بَيْنَکَ وَ إِلَّا فَقَدْ نَبَذْنَاکَ عَلَي سَوَاءٍ، إِنَّ ﷲَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِيْنَ.فَلَمَّا قَرَأَ کِتَابَهُمْ أَيِسَ مِنْهُمْ وَرَأَي أَنْ يَدَعَهُمْ وَيَمْضِيَ بِالنَّاسِ حَتَّي يَلْقَي أَهْلَ الشَّامِ حَتَّي يَلْقَاهُمْ.رَوَاهُ ابْنُ جَرِيْرٍ وَابْنُ الْأَثِيْرِ وَابْنُ کَثِيْرٍ ۔
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے خوارج کو نہروان سے خط لکھا : ’’اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے : اللہ تعالیٰ کے بندے امیر المؤمنین علی کی طرف سے زید بن حصین اور عبداللہ بن وھب اور ان کے پیروکاروں کے لئے۔ واضح ہو کہ یہ دو شخص جن کے فیصلہ پر ہم راضی ہوئے تھے انہوں نے کتاب اللہ کے خلاف کیا اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے بغیر اپنی خواہشات کی پیروی کی۔ جب انہوں نے قرآن و سنت پر عمل نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سب اہل ایمان ان سے بری ہو گئے۔ تم لوگ اس خط کو دیکھتے ہی ہماری طرف چلے آؤ تاکہ ہم اپنے اور تمہارے دشمن کی طرف نکلیں اور ہم اب بھی اپنی اسی پہلی بات پر ہیں ۔ اس خط کے جواب میں انہوں نے (یعنی خوارج نے) حضرت علی رضی اللہ عنہ کو لکھا : ’’واضح ہو کہ اب تمہارا غضب اللہ کے لئے نہیں ہے اس میں نفسانیت شریک ہے اب اگر تم اپنے کفر پر گواہ ہو جاؤ (یعنی کافر ہونے کا اقرار کر لو) اور نئے سرے سے توبہ کرتے ہو تو دیکھا جائے گا ورنہ ہم نے تمہیں دور کر دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔ سو جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کا جوابی خط پڑھا تو ان کے (ہدایت کی طرف لوٹنے سے) مایوس ہوگئے لہٰذا انہیں ان کے حال پر چھوڑنے کا فیصلہ کرکے اپنے لشکر کے ساتھ اہلِ شام سے جا ملے ۔ (أخرجه ابن جرير الطبري في تاريخ الأمم والملوک، 3 / 117،چشتی)(ابن الأثير في الکامل، 3 / 216)(ابن کثير في البداية والنهاية، 7 / 287)(ابن الجوزي في المنتظم، 5 / 132)

عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِيْهِ أَنَّ عُرْوَةً بْنَ حُدَيْرٍ (الخارجي) نَجَا بَعْدَ ذَلِکَ مِنْ حَرْبِ النَّهَرْوَانِ وَبَقِيَ إِلَي أَيَامِ مُعَاوِيَةَ رضي الله عنه. ثُمَّ أَتَي إِلَي زِيَادِ بْنِ أَبِيْهِ وَمَعَهُ مَولَي لَهُ، فَسَأَلَهُ زِيَادُ عَنْ عُثْمَانَ رضي اﷲ عنه، فَقَالَ : کُنْتُ أَوَالِيَ عُثْمَانَ عَلَي أَحْوَالِهِ فِي خِلَافَتِهِ سِتَّ سِنِيْنَ. ثُمَّ تَبَرَأْتُ مِنْهُ بِعْدَ ذَلِکَ لِلْأَحْدَاثِ الَّتِي أَحْدَثَهَا، وَشَهِدَ عَلَيْهِ بِالْکُفْرِ. وَسَأَلَهُ عَنْ أَمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلِيٍّ رضي الله عنه فَقَالَ : کُنْتُ أَتَوَلَّاهُ إِلَي أَنْ حَکَمَ الْحَاکِمِيْنَ، ثُمَّ تَبَرَأْتُ مِنْهُ بَعْدَ ذَلِکَ، وَشَهِدَ عَلَيْهِ بِالْکُفْرِ وَسَأَلَهُ عَنْ مُعَاوِيَةَ رضي الله عنه فَسَبَّهُ سَبًّا قَبِيْحًا... فَأَمَرَ زِيَادُ بِضَرْبِ عُنُقِهِ. رَوَاهُ الشَّهَرَسْتَانِيُّ ۔
ترجمہ : زیاد بن امیہ سے مروی ہے کہ عروہ بن حدیر (خارجی) نہروان کی جنگ سے بچ گیا اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور تک زندہ رہا پھر وہ زیاد بن ابیہ کے پاس لایا گیا اس کے ساتھ اس کا غلام بھی تھا تو زیاد نے اس سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا حال دریافت کیا؟ اس نے کہا : ابتدا میں چھ سال تک انہیں میں بہت دوست رکھتا تھا پھر جب انہوں نے بدعتیں شروع کیں تو ان سے علیحدہ ہو گیا اس لئے کہ وہ آخر میں (نعوذ باﷲ) کافر ہوگئے تھے۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حال پوچھا؟ کہا : وہ بھی اوائل میں اچھے تھے جب حکم بنایا (نعوذ باﷲ) کافر ہوگئے۔ اس لئے ان سے بھی علیحدہ ہوگیا۔ پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا حال دریافت کیا؟ تو وہ انہیں سخت گالیاں دینے لگا۔۔ ۔ پھر زیاد نے اسکی گردن مارنے کا حکم دے دیا ۔ (أخرجه عبدالکريم الشهرستاني في الملل والنحل، 1 / 137)

عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ أَنَّ رَجُلًا وُلِدَ لَهُ غُلَامٌ عَلَي عَهْدِ رَسُوْلِ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَأَتَي النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم فَأَخَذَ بِبَشَرَةِ وَجْهِهِ وَدَعَا لَهُ بِالْبَرَکَةِ قَالَ : فَنَبتَتْ شَعَرَةٌ فِي جَبْهَتِهِ کَهَيْئَةِ الْقَوْسِ وَشَبَّ الْغُلَامُ فَلَمَّا کَانَ زَمَنَ الْخَوَارِجِ أَحَبَّهُمْ فَسَقَطَتِ الشَّعَرَةُ عَنْ جَبْهَتِهِ فَأَخَذَهُ أَبُوْهُ فَقَيَدَهُ وَ حَسَبَهُ مَخَافَةَ أَنْ يَلْحَقَ بِهِمْ قَالَ : فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ فَوَعَظْنَاهُ وَقُلْنَا لَهُ فِيْمَا نَقُولُ : أَلَمْ تَرَ أَنَّ بَرَکَةَ دَعْوَةِ رَسُوْلِ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَدْ وَقَعَتْ عَنْ جَبْهَتِکَ فَمَا زِلْنَا بِهِ حَتَّي رَجَعَ عَنْ رَأْيِهِمْ فَرَدَّ ﷲُ عَلَيْهِ الشَّعَرَةَ بَعْدُ فِي جَبْهَتِهِ وَتَابَ.رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ ۔
ترجمہ : ابو طفیل سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ایک لڑکا پیدا ہوا وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں لایا گیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اس کے چہرے سے پکڑا اور اسے دعا دی اور اس کا یہ اثر ہوا کہ اس کی پیشانی پر خاص طور پر بال اگے جو تمام بالوں سے ممتاز تھے وہ لڑکا جوان ہوا اور خوارج کا زمانہ آیا تو اسے ان سے محبت ہو گئی (یعنی خوارج کا گرویدہ ہو گیا) اسی وقت وہ بال جو دستِ مبارک کا اثر تھے جھڑ گئے اس کے باپ نے جو یہ حال دیکھا اسے قید کر دیا کہ کہیں ان میں مل نہ جائے۔ ابو طفیل کہتے ہیں کہ ہم لوگ اس کے پاس گئے اور اسے وعظ و نصیحت کی اور کہا دیکھو تم جب ان لوگوں کی طرف مائل ہوئے ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کی برکت تمہاری پیشانی سے جاتی رہی غرض جب تک اس شخص نے ان کی رائے سے رجوع نہ کیا ہم اس کے پاس سے ہٹے نہیں۔ پھر جب خوارج کی محبت اس کے دل سے نکل گئی تو اللہ تعالیٰ نے دوبارہ اس کی پیشانی میں وہ مبارک بال لوٹا دیئے پھر تو اس نے ان کے عقائد سے سچی توبہ کر لی ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 456، الرقم : 23856،چشتی)(ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 556، الرقم : 37904)(الأصبهاني في دلائل النبوة، 1 / 174، الرقم : 220)(الهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 243، 10 / 275، وقال : رواه أحمد والطبراني ورجاله رجال علي ابن زيد وقد وثق)(عسقلاني في الإصابة، 5 / 359، الرقم : 6972)

عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ : سَأَلَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي يَرْبُوعٍ ، أَوْ مِنْ بَنِي تَمِيْمٍ ۔ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضي الله عنه عَنِ (الذَّارِيَاتِ وَالْمُرْسَلَاتِ وَالنَّازِعَاتِ) ۔ أَوْ عَنْ بَعْضِهِنَّ، فَقَالَ عُمَرُ : ضَعْ عَنْ رَأْسِکَ ، فَإِذَا لَهُ وَفْرَةٌ ، فَقَالَ عُمَرُ رضي الله عنه : أَمَا وَﷲِ لَوْ رَأَيْتُکَ مَحْلُوقًا لَضَرَبْتُ الَّذِي فِيْهِ عَيْنَاکَ ، ثُمَّ قَالَ : ثُمَّ کَتَبَ إِلَي أَهْلِ الْبَصْرَةِ أَوْ قَالَ إِلَيْنَا. أَنْ لَا تُجَالِسُوْهُ ، قَالَ : فَلَوْ جَاءَ وَ نَحْنُ مِائَةٌ تَفَرَّقْنَا.رَوَاهُ سَعِيْدُ بْنُ يَحْيَي الْأُمْوِيُّ وَغَيْرُهُ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ کَمَا قَالَ ابْنُ تَيْمِيَةَ ۔
ترجمہ : حضرت ابوعثمان نہدی بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ بنی یربوع یا بنی تمیم کے ایک آدمی نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ’’ الزَّارِيَاتِ وَالْمُرْسَلَاتِ وَالنَّازِعَاتِ ‘‘ کے کیا معنی ہیں ؟ یا ان میں سے کسی ایک کے بارے میں پوچھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اپنے سر سے کپڑا اتارو ، جب دیکھا تو اس کے بال کانوں تک لمبے تھے ۔ انہوں نے فرمایا : بخدا! اگر میں تمہیں سر منڈا ہوا پاتا تو تمہارا یہ سر اڑا دیتا جس میں تمہاری آنکھیں دھنسی ہوئی ہیں ۔ شعبی کہتے ہیں پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اہلِ بصرہ کے نام خط لکھا یا کہا کہ ہمیں خط لکھا جس میں تحریر کیا کہ ایسے شخص کے پاس نہ بیٹھا کرو۔ راوی کہتا ہے کہ جب وہ آتا، ہماری تعداد ایک سو بھی ہوتی تو بھی ہم الگ الگ ہو جاتے تھے ۔ (ابنِ تيمية في الصارم المسلول جلد 1 صفحہ 195) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)






0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔