مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں حصہ پنجم
نماز میں رفع یدین سنت ہے یا نہیں ؟ اس بارے میں ائمہ کرام کا اختلاف ہے ۔ ہر ایک کے پاس ان کی موید احادیث موجود ہیں ۔ لیکن یہ مسئلہ سب کے نزدیک متفق علیہ ہے کہ کوئی نماز میں رفع یدین کرے یا نہ کرے نماز بہر حال ہوجائے گی ۔یعنی یہ ضروریات میں سے نہیں ۔ مگر کچھ لوگ اس غیر ضروری مسئلے کو لے کر جگہ جگہ مسلمانوں کے درمیان فتنہ وفساد کی آگ بھڑ کانے میں مصروف رہتے ہیں اس لیئے ہم مستند دلائل کے ساتھ اس مضمون کو پیش کر رہے ہیں اہلِ ایمان خود پڑھیں اور خود ہی فیصلہ کریں کہ اصل معاملہ کیا ہے ؟
کتب احادیث میں ایسی روایتیں موجود ہیں کہ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نماز میں رفع یدین نہیں کرتے تھے ۔ چنانچہ حضرت برا ء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جب نماز شروع کر تے تو اپنے دونوں ہا تھوں کو کانوں تک اٹھاتے پھر دوبارہ ایسا نہ کرتے ۔ (ابوداود،کتاب الصلاۃ،باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع ،حدیث:۷۵۰)(مصنف عبد الر زاق،حدیث:۲۵۳۰)(مصنف ابن ابی شیبہ،حدیث:۲۴۴)
حضرت علقمہ بیان کرتے ہیں کہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فر مایا :کیا میں تم لو گوں کو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نماز پڑھنے کی طرح نماز نہ پڑ ھا دوں ؟ راوی کہتے ہیں : پھر انہوں نے نماز پڑھائی،تو صرف ایک مر تبہ (یعنی شروع میں) ہاتھ اٹھا یا پھر دوبارہ ایسا نہ کیا ۔ (ترمذی ، کتاب الصلاۃ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، باب ما جاء ان النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم لم یرفع الا فی اول مرّۃ ، حدیث: ۲۵۷ ۔ نسائی،حدیث:۱۰۵۸،چشتی)(ابوداود حدیث :۷۴۸)(مصنف ابن ابی شیبہ،حدیث:۲۴۴۱)
یہ حدیث تمام محدثین کے نزدیک صحیح ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے نماز میں رفع یدین نہ کیا ۔ لہٰذا اس میں بھی شک کی کوئی گنجائش نہیں ۔
اس صورت میں تمام مسلک کے علماء کے نزدیک قاعدہ ہے کہ پہلے یہ دیکھاجائے کہ اس میں سے کون پہلے کی ہے اور کون بعد کی ؟ (یعنی کون منسوخ ہے اور کون ناسخ) ۔ پھر جو منسوخ ہو اس پر عمل نہ کیا جائے کیو نکہ بہت ساری ایسی باتیں ہیں جو شروع شروع میں جائز تھیں ، خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بھی کیا مگر بعد میں اس سے منع فر مادیا ۔ جیسے شروع میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز ادا کی مگر بعد میں منع فر مادیا گیا اور خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑ ھنے کا حکم دیا گیا۔اس لئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کے ثابت ہونے کے باوجود کسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھے ۔
آپ احادیث کی تمام کتا بوں کا مطالعہ کر لیجیے ۔ ایک حدیث بھی ایسی نہیں ملتی جس سے یہ ثابت ہو کہ رفع یدین نہ کرنے کی حدیث منسوخ ہے یہاں تک کہ کوئی ضعیف سے ضعیف حدیث بھی ایسی نہیں ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ کسی موضوع حدیث سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا ۔ جب کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ رفع یدین کی حدیث منسوخ ہے اور خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بعد میں اس سے منع فر مادیا ۔ چنانچہ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہماری طرف تشریف لائے اور فر مایا کہ : کیا وجہ ہے کہ میں تم کو سر کش گھوڑے کی دم کی طرح ’رفع یدین‘ کر تے ہوئے دیکھتا ہوں ؟ نماز سکون کے ساتھ پڑھا کرو ۔ (صحیح مسلم ،کتاب الصلاۃ باب الامر بالسکون فی الصلٰوۃ حدیث :۴۳۰)
کچھ لوگ اس حدیث سے یہ سمجھتے ہیں کہ : نماز سے فارغ ہونے کے بعد صحابہ کرام جو دائیں اور بائیں طرف ہاتھ اٹھاتے تھے اس سے حضور نے منع فر مایا ۔ یہ کسی بھی طرح درست نہیں ہے کیو نکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جب ان کو رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا تو فر مایا:اسکنوا فی الصلوۃ۔نما زمیں سکون سے رہو ۔ ’’نماز میں‘‘ کا لفظ خود بتا رہاہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے نماز میں رفع یدین سے منع فر مایا ۔ اگر ’’ نماز میں ‘‘ کے لفظ سے’’ نماز سے باہر ‘‘ مراد لینا درست ہو جائے تب تو زمین بول کر آسمان مراد لینا بھی صحیح ہو جائے گا جب کہ یہ کوئی نہیں مانتا ۔ لہٰذا اس سے نماز سے باہر رفع یدین بھی مراد لینا درست نہیں ہو سکتا ۔ نیز فقیہ امت سیدنا عبد اللہ بن مسعو د رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے رفع یدین کیا تو ہم نے رفع یدین کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے رفع یدین چھوڑ دیا تو ہم نے بھی چھوڑ دیا ۔ (فتح القدیر جلد :۱،صفحہ،۲۷۰،۲۷۱)
ان دونوں روایتوں سے معلوم ہو گیا کہ رفع یدین کرنے سے خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے منع فر مادیا ۔ لہٰذا اب وہ سنت نہیں رہا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وصالِ مبارک کے بعد اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کس پر عمل کیا ۔ پھر اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جس پر عمل کیا اسی پر عمل کیا جائے گا کیو نکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے آخری عمل کے مطابق ہی عمل کیا کرتے تھے ۔ (صحیح مسلم،کتاب الصیام ، باب جواز الصوم والفطر فی شھر رمضان للمسافر الخ ،حدیث: ۱۱۱۳)
کتب احادیث کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ اکابر صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم نے رفع یدین نہ کرنے والی حدیث پر عمل کیا ۔اس لئے اب جائز نہیں کہ کوئی رفع یدین کرنے والی حدیث پر عمل کرے ۔ رہی بات وہ روایتیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم نے رفع یدین نہ کیا ۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کر تے ہیں کہ : میں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ نماز پڑھی ، یہ سب حضرات صرف نماز کے شروع ہی میں ہاتھ اٹھاتے تھے ۔ (سنن دار قطنی،باب ماجاء فی رفع الیدین عند التکبیر ، جلد:۲؍ص:۵۲،حدیث:۱۱۳۳،چشتی)(مسندِابو یعلی ، ۸ / ۴۵۳ ، حدیث : ۵۰۳۹)(سنن الکبریٰ للبیہقی،۲/۷۹)
جلیل القدر تابعی حضرت اسود کہتے ہیں کہ : میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز ادا کیا تو آپ نے صرف نماز کے شروع میں ہاتھ اٹھایا اور پھر دوبارہ نہ اٹھا یا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ،باب من کان یرفع یدیہ فی اول تکبیرۃ ثم لایعود ، حدیث : ۲۴۶۹)
حضرت عاصم بن کلیب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ : بے شک حضرت علی رضی اللہ عنہ نماز میں اپنے دونوں ہاتھوں کو پہلی تکبیر کے وقت اٹھاتے تھے ۔پھر اس کے بعد نہیں اٹھاتے تھے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلاۃ،باب من کان یرفع یدیہ فی اول تکبیرۃ ثم لایعود،حدیث : ۲۴۵۷،شرح معانی الاثار،حدیث:۱۳۵۳،موطا امام محمد،حدیث:۱۰۵،۱۰۹)
حضرت ابراہیم نخعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے پھر کبھی نہیں اٹھاتے تھے ۔ اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طر ح مروی ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلاۃ،باب من کان یرفع یدیہ فی اول تکبیرۃ ثم لایعود،حدیث:۲۴۵۸)(شرح معانی الاثار،حدیث: ۱۳۶۳،چشتی)(مصنف عبد الرزاق،حدیث:۲۵۳۳)
حضرت ابو اسحاق بیان کرتے ہیں کہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود اور حضرت علی رضی اللہ عنھما کے ساتھ رہنے والے تمام حضرات اپنے ہاتھوں کو نہیں اٹھا تے تھے مگر صرف نماز کے شروع میں،اورمشہور زمانہ محدث وکیع ابن الجراح کے الفاظ یہ ہیں کہ:وہ حضرات پھر دوبارہ ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلاۃ،باب من کان یرفع یدیہ فی اول تکبیرۃ ثم لایعود،حدیث:۲۴۶۱)
ان تمام روایتوں سے ثابت ہوگیا کہ حضرت ابو بکر ژدیق ، حضرت عمر فاروق ، حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنھم نماز میں رفع یدین نہیں کیا کرتے تھے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امت میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سنتوں کو سب سے زیادہ جاننے والے یہی حضرات ہیں ۔ تو رفع یدین کی حدیث ہوتے ہوئے جب ان لوگوں نے اس پر عمل نہ کیا تو پھر دوسرا کیسے کر سکتا ہے ۔
اس کے علاوہ مزے کی بات یہ ہے کہ جس صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے رفع یدین کرنے کی حدیث مشہور اور مروی ہے انہوں نے خود اس پر عمل نہ کیا ۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے رفع یدین کیا ۔ مگر وہ خود اس پر عمل نہ کرتے تھے چنانچہ حضرت مجاہد کہتے ہیں کہ : میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے اپنے ہاتھوں کونہ اٹھایا مگر صرف نماز کی پہلی تکبیر ہی کے وقت ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلاۃ، باب من کان یرفع یدیہ فی اول تکبیرۃ ثم لایعود،حدیث:۲۴۶۷،چشتی)۔(شرح معانی الاثار ، حدیث : ۱۳۵۷)
اب آپ خود سوچیں ! کہ جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بارے میں بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے رفع یدین کیا ، وہ خود کیوں نہیں کرتے تھے ؟ کیا اس لئے کہ وہ جان بوجھ کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی مخالفت کرتے تھے ؟ ایک صحابی کے بارے میں کوئی مسلمان ایسا گمان کیسے کر سکتا ہے ؟ تو ظاہر ہے کہ یہی وجہ ہوگی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کیا مگر بعد میں منع فرما دیا ۔ یا پھر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کبھی رفع یدین بھی کیا مگر زیادہ تر آپ نے نہ کیا ۔ اس لئے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اسی عمل کے مطابق عمل کیا۔جو آپ کے نزدیک زیادہ صحیح تھا ۔
آج ایک طبقہ غیرمقلدین کا ہے جو رفع یدین نہ کرنے والوں پر طعن و تشنیع کرتا ہے کہ یہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے طر یقے کے مطابق نماز نہیں پڑ ھتے ہیں یہاں تک کہ انہیں گالیاں بھی دیتے ہیں ۔ جبکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور اکابر صحابہ کا بھی یہی طر یقہ تھا جیسا کہ اوپر گذرا ۔ نیز حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے خاص اسی چیز کو دکھانے کے لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کیسے نماز پڑ ھتے تھے ۔ جب نماز پڑ ھی تو آپ نے رفع یدین نہ کیا جیسا کہ یہ بھی اوپر مکمل حوالہ جات کے ساتھ ہم لکھ چکے ہیں ۔ اور اس حدیث کے صحیح ہونے پر تمام محدثین کا اتفاق بھی ہے ۔
اب آپ خود فیصلہ کریں کہ یہ حقیقت میں کن کو گا لیاں دیتے ہیں ؟ اور احادیثِ طیبہ سے مذکورہ حقائق سامنے آنے کے بعد کیا یہ لوگ اس لائق ہیں کہ ان کی باتوں پر کان دھرا جائے ؟
اس سلسلے کا مشہور منا ظرہ جو سید نا امام اعظم ابو حنیفہ اور مشہور فقیہ سیدنا امام اوزاعی علیہما الرحمہ کے درمیا ن مکہ شریف میں ’’دارالحناطین‘‘ کے اندرہو ا تھا ۔ اس کی روداد باذوق قارئینِ محترم کی ضیافت طبع کے لئے پیشِ خدمت ہے ۔
حضرت سفیان بن عیینہ بیان رحمة اللہ علیہ کرتے ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ اور امام اوزاعی علیہما الرّحمہ مکۃ المکر مہ میں دار الحناطین کے اندر ملے ، تو امام اوزاعی نے امام اعظم ابو حنیفہ سے کہا : کیا بات ہے کہ آپ لوگ رکوع کرتے وقت اور رکوع سے اٹھنے کے بعد رفع یدین نہیں کر تے ہیں ؟ امام اعظم نے کہا : کیو نکہ اس بارے میں کو ئی صحیح حدیث نہیں ۔
امام اوزاعی : آپ نے یہ کیسے کہہ دیا کہ اس بارے میں کو ئی صحیح حدیث نہیں ۔ یہ لیجئے میں آپ کے سامنے صحیح حدیث پیش کر تا ہوں ’’مجھ سے بیا ن کیا زہری نے انہوں نے سالم سے اور سالم نے اپنے والد حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے وہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جب نماز شروع کرتے تو ہاتھ اٹھا تے اور رکوع کے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت ۔
امام اعظم : مجھ سے حدیث بیان کیا حماد نے انہوں نے ابراہیم نخعی سے انہوں نے علقمہ اور اسود سے انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم صرف نماز کے شروع میں ہاتھ اٹھاتے تھے اس کے بعد کبھی ہا تھ نہ اٹھاتے ۔
امام اوزاعی : آپ نے جو حدیث پیش کی اسے میری حدیث پر کیا فوقیت ہے ؟ جس کی وجہ سے آپ نے اِس حدیث پر عمل کیا اور میری حدیث کو چھوڑ دیا ؟
امام اعظم : کیونکہ حماد ، زہری سے زیادہ بڑے عالم و فقیہ ہیں ۔ اور ابرا ھیم نخعی سالم سے بڑے فقیہ ہیں ، رہی بات علقمہ کی تو وہ سالم کے والد حضرت عبد اللہ بن عمر سے علم میں کم نہیں ۔ اور اسود تو وہ بڑے متقی اور فقیہ ہیں اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تو کئی اعتبار سے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے بڑھ چڑ ھ کے ہیں ، قرأت میں ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ رہنے میں ۔ کہ یہ بچپن سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ رہے ۔ حاصل یہ کہ ہماری حدیث کے راوی آپ کے حدیث کے راویوں سے علم و فضل میں زیادہ ہیں اس لئے میں نے اس پر عمل کیا اور اس کو چھوڑ دیا ۔ امام اوزاعی : خاموش ہو گئے ۔ (الجامع الرضوی ،صفحہ :۳۹۸،چشتی)
مسئلہ خوب واضح ہو گیا کہ رفع یدین کرنا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ثابت تو ہے مگر یہ منسو خ ہو چکا تھا ، یا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا آخری عمل یہ نہ تھا اس لئے اب یہ سنت نہ رہا ۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بھی رفع یدین کے قائل ہیں ۔ تو یاد رکھیں کہ ان کے پاس بھی دلائل یقینا ہیں مگر امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی طرح نہیں ۔ جیسا کہ تفصیل سے اوپر بیان ہوا ۔ لیکن غیرمقلدین کا امام شافعی سے کوئی تعلق نہیں کیو نکہ اُن کا عقیدہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے عقائد کے بالکل خلاف ہیں ۔نیز امام شافعی مجتہد ہونے کی وجہ سے مختلف احادیث کے پیشِ نظر فیصلہ کرنے کا حق رکھتے ہیں ۔ اور بالفرض اگر ان سے خطا بھی ہو جائے تو انہیں گناہ نہیں بلکہ اجتہاد کا ثواب ملے گا جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فر مایا ہے کہ : جب مجتہد اجتہاد کرتا ہے تو صحیح فیصلہ پر دوثواب اور غلط پر ایک ثواب دیا جاتا ہے ۔(صحیح بخاری ،کتاب التوحید،باب اجر الحاکم اذااجتھد فأصاب أو أخطاء ، حدیث :۷۳۵۲)
اِس کے علاوہ احادیث سے مسائل کے استنباط واستخراج کے لئے ان کے پاس کچھ مقررہ اصول ہیں جن کی روشنی میں وہ کوئی شرعی موقف اختیار کرتے ہیں ۔ اس سلسلے میں وہ نام نہاد ’’ تجدد‘‘ اور ’’نفسانیت‘‘ کو نہیں بلکہ مسلمہ اصول کو مدِّ نظر رکھتے ہیں اور اجتھاد کرتے ہیں اسی لئے ہم ان کا احترام دل و جان سے کرتے ہیں اورانہیں حق مانتے ہیں ۔ مگر وہابی غیر مقلد جو حقیقت میں نو عمر ، کمزور عقل اور جاہل لوگوں کی ایک ٹولی ہے اور جن کا شعار صحابہ رضی اللہ عنہم ، اولیاء اللہ اور بز رگانِ امت علیہم الرّحمہ کی گستاخی کرنا اور مسلمانوں میں فتنہ وفساد پھیلانا ہے ۔ ان کی مذمت بسیار کرتے ہیں ۔ کیو نکہ الفتنۃ اشد من القتل ۔ (مزید تفصیل حصّہ ششم میں ان شاء اللہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment