Sunday 19 September 2021

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اذیت پہنچانے اور توہین کرنے والے قریشی ہاشمی

0 comments

 نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اذیت پہنچانے اور توہین کرنے والے قریشی ہاشمی

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : طارق بن عبد اللہ المحاربی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بازار” ذی المجاز” میں دیکھا جب کہ میں خرید وفروخت میں مشغول تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سرخ جبہ زیب تن کیے ہوۓ تھے اور بلند آواز سے یہ فرماتے جاتے تھے : اے لوگو لا الہ اللہ کہو فلاح پاؤگے ۔ ایک شخص آپ کے پیچھے پیچھے پتھر مارتا جاتا تھا ، جس سے آپ کی پنڈلی اور ایڑی خون آلود ہوگئے ۔ وہ شخص ساتھ ساتھ یہ بھی کہتا جاتا تھا : اے لوگو اس کی بات نہ سننا یہ جھوٹا ہے ۔ محاربی فرماتے ہیں کہ میں سے پوچھا کہ یہ شخص (نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کون ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا کہ یہ لڑکا بنی عبد المطلب سے ہے ۔ (پھر) میں پوچھا : وہ شخص کون ہے جو اس کا پیچھا کر رہا ہے اور پتھر مار رہا ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا چچا عبد العزی یعنی ابو لہب (ہاشمی) ہے ۔ (مصنف ابن أبی شيبہ حدیث نمبر 36565،چشتی)


بنو مالک بن کنانہ کے ایک شیخ کہتے ہیں کہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بازار “ذی المجاز” میں دیکھاکہ یہ فرماتے تھے : “اے لوگو! لا الہ اللہ کہو، فلاح پاؤگے”۔ راوی فرماتے ہیں کہ ابوجہل آپؐ پر مٹی پھیکتا تھا اور یہ کہتا تھا : اے لوگو ! خیال رکھنا یہ شخص تم کو تمھارے دین کے حوالے سے دھوکہ نہ دیدے ؛ کیوں کا اس کا ارادہ ہے کہ تم لات وعزی کو چھوڑ دو! جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف ذرہ برابر بھی التفات نہیں فرماتے تھے ۔ (مسند احمد، حدیث: 16603)


ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کعبہ شریف کے پاس نماز ادا کررہے تھے ۔ ابو جہل اور اس کے ساتھی (وہاں) بیٹھے تھے۔ان میں سے بعض نے بعض سے کہا: تم میں سے کون ہے جو فلاں قبیلے کی اونٹنی کی اوجھڑی لائے اور جب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سجدے میں جائیں؛ تو وہ اسے اس کی پشت پر رکھ دے ؟ عقبہ بن ابی معیط جو نہایت ہی بدبخت، شقی القلب اور ملعون تھا، وہاں سے اٹھا اور اوجھڑی لے کر آیا۔ پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سجدہ کرنے کا انتظار کرنے لگا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سجدہ کےلیے اپنے چہرہ مبارک کو زمین بوس کیا؛ تو اس نالائق نے اس اوجھڑی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیٹھ پر کندھوں کے درمیان رکھ دیا۔ آپؐ اس کے بوجھ کی وجہ سے اٹھ نہیں پارہے تھے۔ سجدہ کی ہی حالت میں پریشان تھے۔ دوسری طرف ابو جہل اور اس کے بے غیرت ساتھی سب کے سب ہنسنے اور ٹھٹھا مارنے لگے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود –رضی اللہ عنہ– یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے، مگر اپنی کمزوری وضعف اور ان ظالموں کے خوف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دفاع کرنے سے عاجز تھے ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آئی اور اوجھڑی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پشت مبارک سے ہٹایا ۔ (صحیح بخاری ، حدیث : 240/ 3185/3854)


قریشِ مکہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو قتل کرنے کےلیے سودے بازی کی بھی کوشش کی ۔ کفار نے چاہا کہ عمارہ بن ولید کو ابوطالب کے سپرد کر دیں اور اس کے عوض ، ابوطالب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ان کے حوالے کر دیں ، تاکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو قتل کر دیں ؛ چناں چہ کفار قریش نے ابوطالب کی خدمت میں عرض کیا : اے ابو طالب یہ (عمارہ) قریش کا سب سے بانکا اور خوب صورت نوجوان ہے۔ آپ اسے لے لیں۔ اس کی دیت اور نصرت کے آپ حق دار ہوں گے۔ آپ اسے اپنا لڑکا بنالیں۔ یہ آپ کا ہوگا اور اپنے اس بھتیجے کو ہمارے حوالے کردیں، جس نے آپ کے آباء و اجداد کے دین کی مخالفت کی ہے ، آپ کی قوم کا شیرازہ منتشر کررکھا ہے اور ان کی عقلوں کو حماقت سے دوچار بتلاتا ہے۔ ہم اسے قتل کریں گے ۔ بس یہ ایک آدمی کے بدلے ایک آدمی کا حساب ہے”۔ ابو طالب نے کہا: “خدا کی قسم! کتنا برا سودا ہے جو تم لوگ مجھ سے کررہے ہو! تم اپنا بیٹا مجھے دیتے ہو کہ میں اسے کھلاؤں پلاؤں، پالوں پوسوں اور میرا بیٹا مجھ سے طلب کرتے ہو کہ اسے قتل کردو۔ خداکی قسم! یہ نہیں ہوسکتا ۔ (مدارج النبوت و دیگر کتب سیر)


ایک دن ابوجہل نے قریشیوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ محمدؐ ہمارے دین میں عیب نکالتا ہے۔ہمارے آباء واجداد اور معبودوں کی توہین کرتا ہے؛ ا س لیے میں اللہ سے عہد کرتا ہوں کہ کل ایک بھاری پتھر لے کر بیٹھوں گااور جب وہ سجدہ کرے گا تو اسی پتھر سے اس کا سر کچل دوں گا …. جب صبح ہوئی تو وہ ویسا ہی پتھر جیسا کہ اس نے بیان کیا تھا، لے کر انتظار میں بیٹھ گیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آئے جیسا کہ آیا کرتے تھے ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز میں مشغول ہوگئے ۔ جیسے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سجدے میں گئے، ابو جہل نے پتھر اٹھاکر، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف بڑھا۔ جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قریب ہوا؛ تو شکشت خوردہ حالت میں لوٹا، اس کا رنگ فق تھا اور وہ ایسا مرعوب تھا کہ اس کے دونوں ہاتھ، اس کے پتھر سے چپک گئے تھے کہ وہ بمشکل اپنے ہاتھ سے پتھر پھیک سکا ۔ قریش کے کچھ لوگ اس کے پاس آئے اور پوچھنے لگے:”اے ابوجہل! تمھیں کیا ہوا؟ ” اس نے کہا: “میں نے گزشتہ رات جو بات کہی تھی، وہی کرنے کے لیے کھڑا ہوا تھا؛ جب میں ان کے قریب پہنچا؛ تو ایک اونٹ آڑے آگیا۔ خدا کی قسم! میں کبھی بھی کسی اونٹ کی کھوپڑی، گردن اور دانت اس اونٹ کے طرح نہیں دیکھا۔ وہ مجھے کھانا چاہ رہا تھا ۔ (سیرت ابن ہشام 1/ 298-299)


حضرت عروہ بن زبیر رحمہ اللہ نے (عبد اللہ) ابن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم سے پوچھا : مجھے اس سخت ترین تکلیف سے باخبر کیجیے جس سے مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دوچار کیا ۔ انھوں نے فرمایا : ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حطیم میں نماز ادا کر رہے تھے ، اچانک عقبہ بن ابی معیط آیا اور آپؐ کی گردن میں اپنا کپڑا ڈال دیا ۔ پھر اس نے سخت طریقے سے آپؐ کا گلا گھونٹا ۔ پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے عقبہ کا مونڈھا پکڑا اور اس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہٹایا اور فرمایا : کیا تم مار ڈالوگے ایک شخص کو اس وجہ سے کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے ؟ ۔ (صحیح بخاری، حدیث: 3856)


قرشِ مکہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سر اور ڈاڑھی کے بال پکڑ کےاتنے زور سے کھینچے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اکثر بال اکھڑ گئے ۔ (سیرت حلبیہ اردو، ج: اول نصف آخر: 276)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دو صاحبزادیاں حضرت امّ کلثوم اور رقیّہ رضی اللہ عنہما کا نکاح دشمنِ اسلام ابو لہب ہاشمی کے دو لڑکوں عتیبہ اور عتبہ سے ہو چکا تھا ۔ لیکن یہ نکاح صرف نکاح ہی تھا ۔ ابھی رخصتی باقی تھی ”سورۃ لہب” کے نزول کے بعد ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بے عزت کرنے کی نیت سے ، ابو لہب ہاشمی اور اس کی بیوی نے اپنے لڑکوں کو یہ حکم دیا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صاحبزادیوں کو طلاق دیدے تو انہوں نے ان کو طلاق دے دی ۔


امام طبرانی حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صاحبزادی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح عتیبہ بن ابی لہب کے ساتھ ہوا تھا ۔ حضرت رقیّہ رضی اللہ عنہا کا نکاح اس کے بھائی عتبہ بن ابی لہب کے ساتھ طۓ ہوا تھا ۔ جب اللہ تعالی نے تبت يدا أبي لَهب (سورہ لہب) نازل فرمائی تو ابو لہب ہاشمی نے اپنے دونوں بیٹوں : عتیبہ اور عتبہ ہاشمیوں کو کہا : اگر تم نے محمدؐ کی بیٹیوں کو طلاق نہ دی تو تم دونوں کے سر کےلیے میرا سر حرام ہے ۔ ان دونوں کی ماں بنت حرب بن امیّہ نے کہا یہی ایندھن اٹھانے والی ہے کہ تم دونوں انہیں طلاق دے دو کیوں کہ وہ دونوں صابی (اپنا دین بدلے ہوئے) ہیں چناں چہ ان دونوں نے انہیں طلاق دے دی۔(تفسیر درّ منثور 8/667)


طلاق کا عمل شریف گھرانوں میں بڑی بے عزتی کی بات سمجھا جاتا ہے ، اسی طرح اس وقت بھی عرب سماج کے شریف گھرانوں میں ، طلاق کو بے عزتی سمجھا جاتا تھا۔ پھر ایک ایسے باپ کے لیے جو شرافت کا اعلی نمونہ ہو اور اس کی دو لڑکیوں کو بیک وقت طلاق ہوجانا اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں؛ جب کہ وہ باپ ہر طرف سے مصائب وآلام جھیل رہا ہو تو کتنے تکلیف کا باعث ہو سکتا ہے،اسے بیان کرنا مشکل ہے ۔


قریشِ مکہ نے مل جل کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قتل کرنے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ : “اس نے ہماری اولاد اور ہماری عورتوں تک کو ہم سے برگشتہ کردیا ہے”۔ پھر ان لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خاندان والے سے کہا: “تم ہم سے دوگنا خون بہا لے لو اور اس کی اجازت دے دو کہ قریش کا کوئی شخص اس کوقتل کردے؛ تاکہ ہمیں سکون مل جائے اور تمھیں فائدہ پہنچ جائے”۔ جب کفار قریش کی یہ تجویز منظور نہیں ہوئی؛ اس پر انھوں نے غصہ میں آ کر یہ طے کیا کہ بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب ، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مددگار تھے ، کا معاشرتی بائیکاٹ کیا جائے اور انہیں مکے سے نکال کر، شعب ابوطالب نامی گھاٹی میں محصور اور مقید کردیا جائے ۔

ایک روایت کے مطابق یہ بھی طے پایا کہ: “نہ بنی ہاشم کی لڑکیوں کو بیاہ کر لاؤ اور نہ اپنی لڑکیوں کی ان کے یہاں شادی کرو، نہ ان کو کوئی چیز فروخت کرو اور نہ ان سے کوئی چیز خریدو اور نہ ان کی طرف سے کوئی صلح قبول کرو”۔ چناں چہ جب بھی مکے میں باہر سے کوئی قافلہ آتا؛ تو یہ مجبور اور بے کس لوگ فورا ان کے پاس پہنچتے؛ تاکہ ان سے کھانے پینے کا کچھ سامان خرید لیں۔ مگر جب بھی ایسا ہوتا تو فورا وہاں ابولہب پہنچ جاتا اور کہتا کہ “دام اتنے بڑھادو کہ وہ تم سے کچھ نہ خرید سکیں۔ پھر تاجر کی طرف سے ایسا ہی ہوتا؛ لہذا لوگ مایوس ہوکر، اپنے بچوں کے پاس واپس آجاتے، جو بھوک سے بیتاب تڑپتے اور بلکتے ہوتے تھے اور ان کو خالی ہاتھ دیکھ کر، وہ بچے سسک سسک کر رونے لگتے تھے۔

اس گھاٹی میں مسلمانوں نے بڑا سخت وقت گزارا۔ قریش کے بائیکاٹ کی وجہ سے ان کو کھانے پینے کی کوئی چیز نہیں ملتی تھی، لوگ بھوک سے بے حال ہوگئے؛ یہاں تک کہ گھاس پھونس اور درختوں کے پتے اور چمرے کھا کھا کر گزارہ کرنے لگے۔ یہ سلسلہ مستقل تین سالوں تک جاری رہا ۔ (سیرت حلبیہ اردو، ج: 1 نصف آخر، ص: 393-394)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو مکہ میں ظلم و جور کی چکی میں اس طرح پستے دیکھ رہے تھے جو ناقابل برداشت تھا؛ لہذا ان کو مدینہ منورہ ہجرت کی اجازت دیدی، سوائے رفیق غار ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ۔ ابوطالب جیسے حامی بھی وفات پاچکے تھے ۔ اب قریش شدید غصے میں تھے کہ کب تک ہم اس شخص (نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو برداشت کریں اور وہ ہمارے معبودوں اور آباء واجداد کی توہین کرتا رہے؛ چناں چہ ہمیں ان کو قید کر دینا چاہیے، یا جلا وطن کردینا چاہیے یا پھر قتل کردینا چاہیے؛ تاکہ ہم ان سے چھٹکارا حاصل کرلیں۔ پھر قریش کےسرداران اپنے مشورہ گاہ: دار الندوہ میں خفیہ طور پر نبیؐ کے خلاف فیصلہ لینے کو جمع ہوئے۔ کسی نے کہا کہ اسے لوہے کی زنجیر میں باندھ کر، دروازہ بند کردو۔ کسی نے کہا کہ انھیں جلا وطن کردو۔ مگر نجدی شیخ کے روپ میں، دار الندوہ میں بیٹھا مردود ابلیس نے ان رایوں کے نقص کو اجاگر کیا اور کہا کہ یہ کوئی رائے نہیں ہے۔ پھر ابوجہل بن ہشام نے یہ رائے دی کہ “ہم ہر قبیلے سے ایک قوی جوان کو منتخب کریں۔ ہم ان میں سے ہر ایک جوان کو ایک تیز تلوار دیں۔ وہ سب کے سب بیک ضرب، ان کو قتل کردیں۔ جب وہ اسے اس طرح قتل کریں گے؛ تو ان کا خون مختلف قبائل میں بنٹ جائے گا؛ پھر میں نہیں سمجھتا کہ بنو ہاشم سارے قریش سے جنگ کریں گے۔ جب اس صورت حال کا بنو ہاشم مشاہدہ کریں گے؛ تو دیت لینے پر راضی ہوجائیں گے۔ پھر ہم ان کو دیت دیدیں گے”۔ نجدی شیخ کی صورت میں بیٹھا ابلیس نے کہا کہ بات تو یہ ہے جو اس آدمی نے کہی اور اس رائے کے بعد کوئی رائے نہیں ہے؛ لہذا پوری قوم اس پر تیار ہوگئی ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس جبرئیل علیہ السلا ہوۓ اور عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے جس بستر پر رات گزارتے ہیں اس پر رات نہ گزاریں ۔ جب رات تاریک ہوئی ؛ تو سب کے سب (قتل کے ارادے سے) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کب سوتے ہیں ؛ تاکہ وہ سب آپ پر ٹوٹ پڑیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا میرے بستر پرلیٹ کر ، میری اس حضرمی ہری چادر کو اوڑھ کر سوجاؤ۔ کوئی ناپسندیدہ عمل ان کی طرف سے تمھیں پیش نہیں آئے گا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سوتے تھے؛ تو اسی چادر میں سوتے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے ہاتھ میں، لپ بھر مٹی لے کر ان کے سامنے سے نکلے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وہ مٹی ان تمام کے سر پر ڈالتے ہوئے سورہ یٰسین کی آیات 1-5کی تلاوت کررہے تھے۔ پھر اللہ تعالی نے ان کی قوت بینائی لےلی وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھ نہیں سکتے تھے۔ جب آپؐ ان آیات کی تلاوت سے فارغ ہوئے؛ تو کوئی ایسا نہیں بچا تھا جس کے سر پر مٹی نہ پڑی ہو ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وہاں سے رخصت ہوئے، جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رخصت ہونا تھا ۔ (سیرت ابن ہشام1/482-483)


خلاصہ یہ ہے کہ تیرہ سالہ مکی دور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مکہ کے کفار قریشیوں ، ہاشمیوں ، امویوں کی طرف سے مختلف قسم کے ذہنی و جسمانی مصائب وآلام سے دوچار ہونا پڑا ۔ کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قتل کا ارادہ کیا گیا ، کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر پتھر پھیکا گیا ، کبھی مٹی پھیکی گئی ، کبھی گرد وغبار پھیکا گیا ، کبھی راستے میں کانٹے ڈالے گئے ، کبھی ڈاڑھی اور سر کے بال نوچے گئے اور کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چہرہ مبارک پر تھوکنے کی بدبختانہ کوشش اور گالیاں دی گئیں ؛ مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسلام کی اشاعت کی خاطر ، سب کچھ برداشت کرتے ہوئے دین کی دعوت میں ، ہمہ تن مشغول رہ کر ، اپنی امت کو بہترین نمونہ عطا فرمایا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔