Wednesday 8 September 2021

خاتم النبین کا معنی و مفہوم حصہ دوم

0 comments

خاتم النبین کا معنی و مفہوم حصہ دوم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : امام ابن حماد الجوہری رحمۃ اللہ علیہ (م 393ھ) الصحاح میں لفظِ خاتم اور اس کے مترادفات کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : والخاتَمُ وَالخاتِمُ بکسر التّاء وفتحھا والخَیتام والخَاتَام کلّهُ بمعنی والجمع اَلخَوَاتِيْمُ وَخاتِمَۃ الشّیء آخرہ ومحمَّد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خاتم الأنبیاء علیھم الصلاۃ والسلام ۔ (الصحاح فی اللغۃ، 1: 330)
ترجمہ : خاتم تاء کی زیر اور زبر کے ساتھ اور خیتام اور خاتام ان سب (الفاظ) کے ایک ہی معنیٰ ہیں اور ان کی جمع خواتیم ہے اور کسی شے کے خاتمہ سے مراد اس کا آخر ہے۔ اس معنی میں حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خاتم الانبیاء (آخری نبی) ہیں ۔

امام احمد بن فارس بن زکریا رحمۃ اللہ علیہ (م 395ھ) نے ’مقاییسں اللّغۃ (ص: 324)‘ میں ختم اور خاتم کے درج ذیل معانی بیان کیے ہیں : ختم : وھو بلوغ آخرِ الشیئ: یقال ختمت العمل و ختم القاری السورۃ۔ فاما الختم، وھو الطبع علی الشیٔ فذلک من الباب أیضاً، لأن الطبع علی الشیٔ لا یکون إلا بعد بلوغ آخرہ … والخاتم مشتق منہ۔ والنبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خاتم الأنبیاء لأنہ آخرھم ۔
ترجمہ : ختم کا معنی کسی چیز کے آخر پر پہنچنا ہے۔ کہا جاتا ہے میںنے کام ختم کر لیا اور قاری نے سورت ختم کر لی۔ پھر ختم کامعنی کسی شے پر مہر کرنا بھی ہے اور یہ بھی اسی باب سے ہے کیونکہ کسی شے پر مہر اسکے آخرپر پہنچنے کے بعد ہی لگائی جاتی ہے۔ اور خاتم اسی سے مشتق (derived) ہے اور حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خاتم الانبیاء ہیں کیونکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان سب سے آخر پر (مبعوث ہوئے) ہیں ۔

امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ (م 502ھ) کتاب المفردات في غریب القرآن میں خاتم النبیین کے ذیل میں لکھتے ہیں : وَخَاتَم النّبيِّین لأنّهٗ ختم النّبُوّةَ أي: تمّمّھا بمجیِئهٖ ۔ (المفردات في غریب القرآن، کتاب الخاء،چشتی)
ترجمہ : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو خاتم النبیین اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے (سلسلہ) نبوت ختم فرما دیا یعنی اپنی بعثت سے اسے مکمل فرما دیا ۔

امام محمد بن اثیر جزری رحمۃ اللہ علیہ (م 606ھ) لفظ خاتم کے حوالے سے لکھتے ہیں : فیہ (آمین خاتم رب العالمین علی عبادہ المومنین)، قیل: معناہ طابعہ وعلامتہ التي تدفع عنھم الأعراض والعاھات، لأن خاتم الکتاب یصونہ ویمنع الناظرین عما في باطنہ وتفتح تاؤہ وتکسر، لغتان ۔ (النہایۃ، 2: 10)
ترجمہ : حدیث میں ہے کہ آمین اللہ تعالیٰ کی اپنے مومن بندوں پر خاتم ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس کا معنی اللہ تعالیٰ کی مہر اور ایسی علامت ہے جو ان سے بیماریوں اور آفتوں کو دور کرتی ہے، کیونکہ جب مکتوب پر مہر لگا دی جاتی ہے تو وہ مکتوب کو کسی اور چیز کے دخول سے محفوظ رکھتی ہے اور لوگوں کو اس مکتوب کے دیکھنے سے منع کرتی ہے۔ خاتَم اور خاتِم اس لفظ میں دو لغت ہیں ۔

علامہ ابو الفضل محمد بن عمر بن خالد القرشی  رحمۃ اللہ علیہ (أتمہ 681ھ) صراح اللغۃ میں اس لغوی بحث کے حوالے سے یہ درج ہے : خاتمۃ الشیء آخرہ و محمدٌ خاتَم الأنبیاء بالفتحِ صلوات الله علیہ وعلیھم أجمعین ۔ (صراح اللغۃ، باب المیم، فصل الخائ: 288)
ترجمہ : خاتمہ کے معنی کسی شے کے آخر کے ہیں اور اسی معنی میں حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خاتم الانبیاء یعنی سب سے آخری نبی ہیں ۔

لغت عرب کی انتہائی مستند اور مقبولِ عرب و عجم کتاب لسان العرب میں امام ابن منظور الافریقی رحمۃ اللہ علیہ (م 711ھ) ’’ابن سیدہ‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں : وخاتِمُ کلِّ شيْئٍ وخاتِمتہ: عَاقِبَتہ وَآخِرہ ۔ (لسان العرب، 12: 164،چشتی)
ترجمہ : خاتم اور خاتمہ ہر چیز کے آخر اور انجام کو کہا جاتا ہے ۔

صاحبِ لسان العرب اس کی مثال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ختام الوادی أقصاہ وخِتام القوم وخاتِمُھم وخاتَمھم آخرُھم عن اللّحیاني ومحمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خاتم الأنبیاء علیہ وعلیھم الصّلوۃ والسّلام ۔
ترجمہ : ختام الوادی، وادی کے آخری کنارے کوکہتے ہیں اور ختام القوم، خاتم القوم (بکسر التاء) اور خاتم القوم (بفتح التاء)، ان سب کا معنی ہے: ’’قوم کا آخری فرد۔ ‘‘ اسی معنی میں لحیانی سے نقل کیا جاتا ہے کہ حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خاتم الانبیاء ہیں (کیونکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم باعتبارِ بعثت گروهِ انبیاء کے آخری فرد ہیں) ۔

علامہ ابن منظور رحمۃ اللہ علیہ التھذیب للأزھری کے حوالے سے اس لفظ کی مزید تصریح درج ذیل الفاظ میں کرتے ہیں : والخاتِم والخاتَم (بکسر التاء و بفتحھا) من أسماء النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم وفی التنزیل العزیز: {مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُولَ اللهِ وَ خَاتِمَ النَّبِيِّيْنَ} أي آخرھم قال وقد قریء وخَاتَمَ، وقول العَجَّاج: مبارَک للأنبیاء خاتِمِ إنّما حملہ علی القراء ۃ المشہورۃ فکسر، ومن أسمائہ العاقب أیضاً ومعناہ آخر الأنبیاء ۔ (لسان العرب، باب حرف المیم، فصل الخائ، 12: 164)
ترجمہ : خاتم اور خاتم (تاء کی زیر اور زبر کے ساتھ یہ دونوں) حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اسماء میں سے ہیں اور قرآن مجید میں ہے: {محمد ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں} یعنی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام انبیاء کے آخر پرہیں۔ اور اسے خاتَم (بفتح التاء) بھی پڑھا گیا ہے اور عجاج کاقول ’’مبارَک للأنبیاء خاتِمِ‘‘ قراءتِ مشہورہ پر کسرہ کے ساتھ ہے۔ اسی طرح حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اسماء مبارکہ میں سے ’’عاقب‘‘ ہے جس کا معنی بھی ’’انبیاء کا آخر ‘‘ ہے ۔

امام محمد بن ابی بکر الرازی رحمۃ اللہ علیہ (م 721ھ) کتاب مختار الصحاح میں لفظ خاتم کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : والخاتَمُ بفتح التاء وکسرھا والخَیتام والخَاتَام کلّهُ بمعنی والجمع الخَوَاتِيْمُ وَخاتِمَۃ الشّیء آخرهُ ومحمَّد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خاتم الأنبیاء علیھم الصّلاۃ والسّلام ۔ (مختارالصحاح: 71،چشتی)
ترجمہ : خاتم تاء کی زبر اورزیر کے ساتھ اور خیتام اور خاتام ان سب (الفاظ) کے ایک ہی معنیٰ ہیں اور ان کی جمع خواتیم ہے اور کسی شے کے خاتمے سے مراد اس کا آخر ہے۔ اس معنی میں حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خاتم الانبیاء (آخری نبی) ہیں ۔

علامہ محمد بن یعقوب فیروز آبادی (م 817ھ) کتاب القاموس المحیط میں لفظ ختم کامعنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ختمہ یختمہ ختماً وختاماً، طبعہ وعلی قلبہ جعلہ لایفھم شیئا ولا یخرج منہ شیء والشیء ختماً بلغ آخرہ ۔
ترجمہ : ختمہ یختمہ ختماً وختاماً کے معنی ہیں کہ اس نے اس پر مہر کر دی اور اس کے دل پر مہر کر دی سے مراد ہے کہ اسے ایسا بنا دیا کہ وہ نہ توکچھ سمجھتا ہے اور نہ اس سے کوئی خیر کی بات ہی نکلتی ہے (یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کے سوچنے سمجھنے اور نیکی کی طرف راغب ہونے کے تمام راستے مسدود کر دیے ہیں) اور کسی شے کو ختم کرنے کا مفہوم ہے اس کے آخر پر پہنچنا ۔
اور لفظ خاتَم کے حوالے سے لکھتے ہیں : والخاتَم … من کل شیء عاقبتہ وآخرتہ کخاتمتہ وآخر القوم کالخاتِم ۔ (القاموس المحیط، فصل الخائ، باب المیم، 4: 104،چشتی)
ترجمہ : اور خاتَم (تاء پر زبر) کے معنی ہیں: کسی شے کے اخیر میں آنے والا اور کسی شے کا آخر، خاتمہ کی طرح اورآخرِ قوم، خاتِم (تاء پر زیر) کی طرح ۔

علامہ طاہر پٹنی رحمۃ اللہ علیہ (م 986 ھ)  مجمع البحار میں لفظ خاتم کا معنی لکھتے ہیں : خاتِم النّبوّۃ بکسرِ التّاء أي فاعل الختم وھو الإتمام وبفتحہا بمعنی الطابعِ أي شیئٍ یدل علی أنہ لا نبیّ بعدہ ۔ (مجمع البحار، 1: 329)
ترجمہ : خاتم النبوۃ میں تاء کی زیر کے ساتھ خاتِم ہو یعنی ختم کا فاعل ہو تو اس کا معنی ہوگا نبوت کو تمام کرنے والا ۔ اور تاء کی زبر کے ساتھ خاتَم ہو تو اس کا معنی مہر ہوگا، یعنی وہ شے جو اس پر دلالت کرے کہ اب اس کے بعد کوئی نبی نہیں ۔
اسی کتاب میں اس لفظ کی مزید وضاحت یوں لکھی ہے : الخاتَم والخاتِم من أسمائہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بالفتح اسم أي آخرھم وبالکسر اسم فاعل ۔ (مجمع البحار، 1: 330)
ترجمہ : (تاء کی زیر اور زبر کے ساتھ) خاتِم اور خاتَم حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اسمائے مبارکہ میں سے ہے۔ تاء پر زبر کے ساتھ اسم ہے جس کے معنی آخر کے ہیں، اور زیر کے ساتھ اسم فاعل ہے جس کے معنی ختم یا تمام کرنے والے کے ہیں ۔

ابو البقاء الحسینی الکفوی رحمۃ اللہ علیہ (م 1095ھ) کی کتاب کلیات میں جسے لغات عرب میں انتہائی معتمد کتاب کا درجہ حاصل ہے اس لغوی تحقیق کو یوں واضح کیا گیا ہے : وتسمیۃ نبيِّنا خاتِمُ الأنبیاء لأنّ الخَاتِمَ اٰخِرُ الْقوم۔ قال الله تعالٰی : (مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أبَا أحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ) ۔ ( الکلیات: 319،چشتی)
تجمہ : اور ہمارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نام خاتم الانبیاء اس لیے رکھا گیا کہ خاتم آخرِ قوم کو کہتے ہیں اور اسی معنی میں ارشاد باری تعالی {محمد ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں} ہے کہ آپ سب نبیوں کے آخر میں ہیں ۔

علامہ مرتضیٰ الزبیدی رحمۃ اللہ علیہ (م 1306ھ) اپنی کتاب تاج العروس میں لفظِ خاتم کے ذیل میں لکھتے ہیں : والخاتِم من کل شیء عاقبتہ وآخرتہ کخاتمتہ والخاتَِم: آخر القوم کالخاتم ومنہ قولہ تعالٰی: {وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ} أيْ آخرھم ۔ (تاج العروس، فصل الخاء من باب المیم، 16: 190)
ترجمہ : اور ہر شے کے خاتم کے معنی اس کے اخیر اور آخر کے ہیں، کسی شے کے خاتمہ کی طرح اور خاتَِم (تاء کی کسرہ اور فتح کے ساتھ) کے معنی خاتم کی طرح آخرِ قوم کے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ {اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں} اسی معنی میں ہے یعنی تمام انبیاء کے فردِ آخر ۔
اس حوالے سے مزید لکھتے ہیں : وختام الوادي أقصاہ وختام القوم: آخرھم، عن اللحیانی ومن اسمائہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم الخاتِم والخاتَم وھوالذی ختم النبوۃ بمجیئہ ۔ (تاج العروس فصل الخاء من باب المیم، 16: 191،چشتی)
ترجمہ : اور وادی کے ختام سے مراد اس کا آخری کنارا ہے اور قوم کے ختام سے مراد اس کا آخری فرد ہے ۔ لحیانی سے منقول ہے کہ ختم اور خاتم (تا کی زیر کے ساتھ اور زبر کے ساتھ یہ دونوں) حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اسمائے مبارکہ میں سے ہیں ۔ اور خاتم وہ ذات ہے جس نے اپنی تشریف آوری سے (سلسلہ) نبوت ختم فرما دیا ۔

معلم بطرس البستانی (م 1883ء) کے نزدیک لفظ ختم اور خاتم کے معنی کی وضاحت درج ذیل ہے : ختم الشیء ختماً بلغ آخرہ والقرآن والکتاب قرأہ کلہ وأتمہ ۔ ’’اس نے (فلاں) شے کو ختم کیا (کا معنی ہے کہ) وہ اس کے آخر پر پہنچا۔ اور قرآن اور (کسی کتاب) کو ختم کیا (یعنی) اسے پورے کا پورا پڑھا اور مکمل کیا۔‘‘
الخاتِم والخاتَم الخاتام وآخرالقوم۔’’خاتِم (تاء پر زیر) اور خاتَم (تاء پر زبر) اور خاتام کے معنی آخر قو م کے ہیں۔‘‘الخاتمۃ مؤنث الخاتم ومن کل شیء أقصاہ وتمامہ وعاقبتہ وآخرتہ کخاتمۃ الکتاب وغیرہ۔(بستانی، محیط المحیط: 217)
’’خاتمہ خاتم کا مؤنث ہے اور کسی شے کے خاتمہ سے مراد اس کا انتہائی کنارا، اخیر اور آخر ہے، جیسے کتاب کا خاتمہ وغیرہ۔‘‘

اہلِ لغت نے لفظِ خاتم کے مذکورہ معنی کی تائید میں آیت کریمہ خِتٰـمُهٗ مِسْکٌ (المطففین، 83: 26) سے بھی استدلال کیا ہے ، علامہ جوہری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : {خِتٰـمُهٗ مِسْکٌ} أي آخرہ لأنّ آخر ما یجدونہ رائحةُ المسک ۔ (الصحاح فی اللغۃ، 1: 379)
ترجمہ : {اس کا ختام کستوری ہوگا} یعنی اس کا آخر کیونکہ اہلِ جنت کو اس مشروب کے آخر پر کستوری کی خوشبو حاصل ہوگی ۔

امام ابن زکریا المطففین، 83: 26 اس حوالے سے لکھتے ہیں : {خِتٰـمُهٗ مِسْکٌ} أي إنّ آخر ما یجدونہ منہ عند شربھم إیّاہ رائحۃ المسک ۔ (معجم مقاییس اللغۃ، 1: 324)
ترجمہ : اس کا ختام کستوری ہو گا یعنی اہلِ جنت اس مشروبِ خاص کو نوش کرنے کے بعد آخر پر کستوری کی خوشبو پائیں گے ۔

لسان العرب اور تاج العروس میں مرقوم ہے : و ختام کل مشروب: آخرہ۔ وفی التنزیل العزیز {خِتٰـمُهٗ مِسْکٌ} أي آخرہ لأن آخر مایجدونہ رائحۃ المسک ۔ (ابن منظور، لسان العرب، 12: 164)(زبیدی، تاج العروس، 16: 191)
ترجمہ : اور ہر مشروب کے ختام سے مراد اس کا آخر ہے۔ قرآن عزیز میں ہے {اس کا ختام کستوری ہوگا} یعنی اس کا آخر ، کیونکہ اہل جنت کو اس مشروب کے آخر پر کستوری کی خوشبو آئے گی ۔

فراء کے نزدیک ختام اور خاتم قریب المعنی الفاظ ہیں : قال الفراء: والخاتِم والخِتام متقاربان فی المعنی، إلا أن الخاتِم الاسم والخِتام المصدر ۔ (لسان العرب، فصل الخائ، 12: 164،چشتی)
تجمہ : فراء کہتے ہیں : خاتِم اور ختام دونوں قریب المعنی الفاظ ہیں سوائے اس کے کہ خاتِم اسم ہے اور ختام مصدر ہے ۔

ختامہ کے معنی مذکور سے بھی ثابت ہوا کہ خاتم النبیین کے معنی نبیوں کا آخر ہی ہیں کیونکہ خاتم اور ختام ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔

ائمہ لغت کی مذکورہ بالا تصریحات سے یہ بات پایۂ تحقیق کو پہنچ جاتی ہے کہ سورۂ احزاب کی مذکورہ آیت کریمہ میں خاتم کی تاء پر زیر ہو یا زبر ، اس کے معنی آخری کے ہیں۔ ماہرین لغت نے مختلف مثالیں دے کر اس معنی کو واضح کیا ہے ، جیسے امام اسماعیل بن عباد نے المُحیط فی اللّغۃ میں کہا ہے کہ کسی وادی کے ختام سے مراد اس کاآخری کناراہے اور کسی سورت کے خاتمہ سے مراد اس کا آخر ہے اور کسی بھی شے کے خاتم سے مراد اس کا آخر ہے۔ امام ابن حماد جوہری نے الصحاح میں کہا ہے کہ لفظ خاتم تاء کی زیر اور زبر کے ساتھ اور اس کے مترادف الفاظ ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ ان کے نزدیک بھی کسی شے کے خاتمہ سے مراد اس کا آخر ہے ۔ وہ واضح الفاظ میں لکھتے ہیں کہ حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اسی معنی میں خاتم الانبیاء علیہم الصّلوۃ والسّلام ہیں یعنی آخری نبی ہیں۔ امام احمد بن فارس بن زکریا نے مقاییسں اللّغۃ میں کہا ہے کہ خاتم لفظِ ختم سے مشتق ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے آخر پر پہنچنا کے ہیں ، جیسے کہا جاتا ہے کہ میںنے کام ختم کر لیا اور قاری نے سورت ختم کرلی ۔ انسان کسی کام کو اس کے آخر پر پہنچ کر ہی ختم کرتا ہے اور قاری سورت کے آخر پر پہنچتا ہے ۔

امام ابن زکریا رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اگر ختم کے معنی کسی شے پر مہر کرنا بھی کیے جائیں تو پھر بھی یہ لفظ اپنے معنی سابق پر برقرار رہتا ہے کیونکہ کسی شے پر مہر اس کے آخر پر پہنچنے کے بعد ہی لگائی جاتی ہے ۔ امام موصوف رحمۃ اللہ علیہ نے لفظ خاتم النبیین پر اس معنی کا اطلاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خاتم الانبیاء ہیں کیونکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان سب کے آخر پر (مبعوث ہوئے) ہیں ۔ امام راغب اصفہانی نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب المفردات في غریب القرآن میں لکھا ہے کہ حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو خاتم النبیین اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سلسلہ نبوت ختم فرما دیا یعنی اپنی بعثت سے اسے مکمل فرما دیا۔ علامہ ازہری رحمۃ اللہ علیہ التھذیب فی اللّغۃ میں ابو اسحاق نحوی اور زجاج کے حوالے سے لفظِ ختم کے معنی کی وضاحت میں لکھتے ہیں کہ طبع اور ختم کے معنی ایک ہیں اور وہ ہیں: کسی شے کو ڈھانپ دینا اور مضبوطی سے باندھ دینا تاکہ اس میں کوئی شے داخل نہ ہو سکے ۔ امام موصوف رحمۃ اللہ علیہ نے خاتم کا معنی کسی شے کا آخر کیا ہے اور آیت مذکورہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں خاتم النبیین سے مراد ’’تمام نبیوں کا فرد آخر‘‘ ہے۔ اس معنی کی وضاحت میں مزید کہاکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اسمائے گرامی میں سے ایک ’’عاقب‘‘ ہے جس کے معنی بھی ’’سب انبیاء کے آخری فرد‘‘ کے ہیں ۔

لغت عرب کی انتہائی مستند اور مقبولِ عرب و عجم کتاب لسان العرب میں علامہ ابن منظور افریقی ’’ابن سیدہ‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ خاتم اور خاتمہ ہر چیز کے آخر اور انجام کو کہا جاتا ہے، جیسے ختام الوادی، وادی کے آخری کنارے کوکہتے ہیں اور ختام القوم، خاتِم القوم (بکسر التاء) اور خاتَم القوم (بفتح التاء)، ان سب کا معنی ہے ’’قوم کا آخری فرد۔ ‘‘ اسی معنی میں لحیانی سے نقل کیا جاتا ہے کہ حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خاتم الانبیاء ہیں ۔ صاحبِ لسان العرب نے علامہ اَزہری کے حوالے سے بھی اس معنی کو بیان کیا ہے ۔ اس کے علاوہ امام محمد بن اثیر جزری (م 606ھ،چشتی)، علامہ محمد بن ابو بکر رازی (م 721) ، علامہ محمدبن یعقوب فیروزآبادی (م 817ھ)، علامہ مرتضی زبیدی (م 1306ھ) علیہم الرحمہ اور دیگر معتبر ائمہ لغت نے بھی لفظ ختم اور خاتم کے معانی مذکورہ بالا ہی دیے ہیں اور خاتم النبیین سے تمام نبیوں کا فرد آخر مراد لیا ہے ۔

اگر خاتم کے معنی مہر کے لیے جائیں تو اس سے مراد یہ ہوگا کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم انبیاء پر مہر لگانے والے ہیں یعنی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آکر سلسلۂ انبیاء پر مہرکردی اور جس چیز پر مہر کر دی جائے اس میں کوئی اور چیز داخل نہیں کی جاسکتی ۔ قرآن کریم کی درج ذیل آیت کریمہ سے یہ مفہوم واضح ہو گا : خَتَمَ اللهَ عَلَی قُلُوْبِھِمْ ۔ (البقرۃ، 2: 7) ’’اللہ نے (ان کے اپنے اِنتخاب کے نتیجے میں) ان کے دلوں پر مُہر لگا دی ہے ۔ ‘‘

لفظ خاتم کے اس معنی کے حوالے سے یہ امر قابل غور ہے کہ جب نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سلسلۂ انبیاء علیہم السلام کو ختم فرما کر اسے سر بمہر کر دیا تو اس کے بعد نبوت کا ہر دعویٰ باطل اور ہر مدعی نبوت کذّاب ہوگا ۔

ائمہ لغت کی مذکورہ بالا تصریحات سے یہ بات پایۂ تحقیق کو پہنچ جاتی ہے کہ سورۂ احزاب کی مذکورہ آیت کریمہ میں خاتم کی تاء پرزیر ہو یا زبر اس کے معنی آخری کے ہیں ، اور یہ بھی واضح ہوا کہ ماہرین لغت کے نزدیک محاورۂ عرب میں خاتم النبیین کے معنی ’’نبیوں کا آخر اور ’’نبیوں کا ختم کرنے والا‘‘ کے ہیں لهٰذا س امر میں کوئی شک اور ابہام نہیں رہ جاتا کہ حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نبوت کا ختم ہونا خود قرآن مجید کی نصِ قطعی سے ثابت ہے ۔ بیسویں صدی کے آغاز میں انگریز کے کہنے پر اُس صدی کے سب سے بڑے کذّاب مرزا غلام قادیانی کذّابِ اعظم (1839۔ 1908ء) نے جب بتدریج نبوت کا دعویٰ کیا تواس نے کتاب وسنت اور اجماعِ امت کا انکار کرتے ہوئے خاتم النبیین کا من گھڑت معنیٰ محض اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے ’’نبیوں کی مہر‘‘ تراشا اور اس کی تفسیر یہ کی کہ حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم انبیاء کی مہر ہیں ۔ جس شخص پر آپ کی مہر لگ جاتی ہے وہ نبی بن جاتا ہے ۔ مرزا غلام قادیانی (معاذ اللہ!) اسی مہرکی تصدیق سے نبی بنا ہے ۔ بطور حوالہ چند مرزے قادیانی کی چند عبارات پیشِ خدمت ہیں : ⬇

(1) ’’اور وہ خاتم الانبیاء بنے مگر ان معنوں سے نہیں کہ آئندہ اس سے کوئی روحانی فیض نہیں ملے گا بلکہ ان معنوں سے کہ وہ صاحب خاتم ہے، بجز اس کی مہر کے کوئی فیض کسی کو نہیں پہنچ سکتا … اور بجز اس کے کوئی نبی صاحب خاتم نہیں۔ ایک وہی ہے جس کی مہر سے ایسی نبوت بھی مل سکتی ہے جس کے لیے امتی ہونا لازمی ہے اور اس کی ہمت اور ہمدردی نے امت کو ناقص حالت پر چھوڑنا نہیں چاہا۔ ‘‘ ( غلام قادیانی، حقیقۃ الوحی: 27، مندرجہ روحانی خزائن، 22: 29، 30)

(2) ’’اور خدا کی مہر نے یہ کام کیا کہ آنحضرت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیروی کرنے والا اس درجہ کو پہنچا کہ ایک پہلوسے وہ امتی ہے اور ایک پہلو سے نبی۔ کیونکہ اللہ جل شانہ نے آنحضرت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو صاحب خاتم بنایا۔ یعنی آپ کو افاضہ کمال کے لیے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہر گز نہیں دی گئی۔ اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبیین ٹھہرا۔ یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی۔‘‘ (غلام قادیانی، حقیقۃ الوحی: 96، مندرجہ روحانی خزائن، 22: 99، 100)

(3) ’’خاتم النبیین کے معنی ہیں کہ آپ کی مہر کے بغیر کسی کی نبوت کی تصدیق نہیں ہو سکتی۔ جب مہر لگ جاتی ہے تو وہ کاغذ سند ہو جاتا ہے اور مصدقہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح آنحضرت کی مہر اور تصدیق جس نبوت پر نہ ہو وہ صحیح نہیں ہے۔‘‘ (ملفوظاتِ احمدیہ، مرتبہ منظور الٰہی قادیانی، 5: 290)

(4) ’’طریق کلام کے مطابق دوسرے الفاظ میں خاتم النبیین کے الفاظ رسول اللہ کے الفاظ کی نسبت بڑے درجے پر دلالت کرنے والے ہونے چاہئیں اور وہ یہی معنے ہیں کہ آپ نبیوں کی مہر ہیں۔ یعنی آپ کے بعد ایسے انبیاء پیدا ہوں گے جن کی نبوت کا معیار صرف آپ کے نقش قدم پر چلنا ہوگا اور آپ کی شریعت کو قائم کرنا ہوگا۔‘‘ (مکتوب مرزا محمود احمد قادیانی، مندرجہ اخبار ’’الفضل‘‘ قادیان، مورخہ 29 اپریل 1927ئ، نمبر 85، جلد 14)

(5) ’’پس یقینًا ہمارے مخالف مولوی صاحبان نے خاتم النبیین کے معنے سمجھنے میں سخت غلطی کی ہے۔ آپ خاتم النبیین ہیں مگر ان معنوں میں کہ آپ کا وجود باجود مہر نبیوں کی ہے جو شخص آپ کے قولی اور فعلی نمونے کو کامل طور پر اپنے اندر پیدا کرلے گا اور اتباع اور اطاعت میں ایسا صراط مستقیم پر چلے گا ایک قدم بھی ادھر ادھر نہ ہوگا۔ ایسے شخص کی نبوت پر آپ کا وجود باجود ایک مہر ہے کیوں سرکاری مہروں کے لیے ضروری ہے کہ کاغذات بھی ہوں ورنہ مہروں کو بنانا ہی لغو ٹھہرے گا، پس جس صورت میں خدائے تعالیٰ نے آنحضرت کو نبیوں کی مہر قرار دیا ہے تو ضرور ہے کہ اس رتبہ میں نبی بھی ہوں جو آپ کی اتباع اور آپ کی تصدیق سے نبوت کا درجہ حاصل کریں جیسا کہ محاورے میں ہم بولتے ہیں کہ فلاں شخص نے یہ بات کہہ کر اپنے اس قول پر مہر لگادی ہے یعنی اپنے منہ سے اس کی تصدیق کر دی ہے۔ یہی مطلب اس آیہ کریمہ کے ہیں۔‘‘ (اخبار ’’الفضل‘‘ قادیان، مورخہ 8 دسمبر 1915ء، جلد3، نمبر 68)

(6) ’’ہمیں اس سے انکار نہیں کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خاتم النبیین ہیں مگر ’’ختم‘‘ کے معنی وہ نہیں جو ’’احسان‘‘ کا سواد اعظم سمجھتا ہے اور جو رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شان اعلیٰ و ارفع کے سراسر خلاف ہے کہ آپ نے نبوت کی نعمت عظمیٰ سے اپنی امت کو محروم کر دیا بلکہ یہ ہیں کہ آپ نبیوں کی مہر ہیں۔ اب وہی نبی ہوگا جس کی آپ تصدیق کریں گے کیونکہ آپ نبیوں کے مصدِّق ہیں۔ گویا کسی نبی کی اس وقت تک نبوت ثابت نہیں ہوسکتی جب تک آپ کی تصدیق اس کے ساتھ نہ ہو۔ انہی معنوں میں ہم رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو خاتم النبیین سمجھتے ہیں۔‘‘ (اخبار ’’الفضل‘‘ قادیان، ص: 1، 2، مورخہ 22 سمتبر 1939ئ، ج 27، نمبر 218)

(7) ’’کہا گیا ہے کہ مبایعین (قادیانی صاحبان) آنحضرت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو خاتم النبیین نہیں مانتے لیکن مجھے افسوس آتا ہے ان لوگوں پر جو یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا اور باوجود اس کے آنحضرت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو خاتم النبیین بھی کہتے ہیں۔ وہ خاتم یعنی مہر ہی کیا ہوئی جو کسی کاغذ پر نہ لگی اور اس نے کسی کاغذ کی تصدیق نہ کی۔ اسی طرح نبی کریم خاتم النبیین کیا ہوئے جب کسی انسان پر آپ کی نبوت کی مہر نہ لگی اور آپ کے بعد کوئی نبی نہ ہوا۔ اگر آپ کی امت میں کوئی نبی نہیں ہے تو آپ خاتم النبیین بھی نہیں ہیں۔‘‘ (خطبہ جمعہ، مرزا محمود احمد، خلیفہ قادیان، مندرجہ اخبار ’’الفضل‘‘ قادیان، ص: 7، مورخہ 10 جون 1915ئ، جلد 2، نمبر 151)

(8) ’’الحکم‘‘ مورخہ 17 فروری 1905ء میں حضرت خلیفہ اول (حکیم نور الدین) کے قلم مبارک سے ایک سائل کے جوابات شائع ہوئے ہیں ۔ ان میں حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کی نبوت کا صریح ثبوت موجود ہے ۔ وہ سوال اور جواب یہ ہے : ⬇

سوال : خاتم النبیین رسول تھے تو پھر نبی ہونے کا دعویٰ کس طرح درست ہوسکتا ہے؟
جواب: خاتم مہر کو کہتے ہیں۔ جب نبی کریم مہر ہوئے، اگر ان کی امت میں کسی قسم کا نبی نہیں ہوگا تو وہ مہر کس طرح ہوئے یا مہر کس پر لگے گی ۔‘‘ (اخبار ’’الفضل‘‘ قادیان، ص: 9، مورخہ 22 مئی 1922ئ، نمبر 91، جلد 9)

’’وہ نبوت چل سکے گی جس پر آپ کی مہر ہو گی ورنہ اگر نبوت کا دروازہ بالکل بند سمجھا جائے تو نعوذ باللہ اس سے تو انقطاع فیض لازم آتا ہے اور اس میں تو نحوست ہے اور نبی کی ہتک شان ہوتی ہے ۔ قول مرزا غلام احمد قادیانی، بہ جواب سوال مندرجہ اخبار ’’الحکم‘‘ قادیان، مورخہ 17 اپریل 1903ء، ’’ملفوظات‘‘ جلد 5، ص 344، طبع ربوہ) ۔ (لعنة اللہ علی الکاذبین) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔