Sunday 5 September 2021

کفار نے جو کوئی ظاہری اچھے عمل کیے

0 comments

 کفار نے جو کوئی ظاہری اچھے عمل کیے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : اللہ تعالیٰ نے واضح طور قرآن پاک میں کئی جگہ فرمادیا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ دین صرف اسلام ہے اور اسلام کے علاوہ کوئی دین اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اِ س زمانے میں معتبر نہیں ۔ اسلام کے علاوہ کوئی کسی دین کی اخلاقی باتوں پر جتنا چاہے عمل کرلے جب تک مکمل طور پر بطورِ عقیدہ اسلام کو اختیار نہیں کرے گا اس کا کوئی عمل بارگاہِ الٰہی میں مقبول نہیں اور اب اسلام سے مراد وہ دین ہے جسے حضرت محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ لے کر آئے ۔ ⬇


مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُۚ-وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ۔ (سورہ اٰل عمران 85)

 ترجمہ :  اور جو کوئی اسلام کے علاوہ کوئی اوردین چاہے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا ۔


ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے اپنے ایک رشتہ دار سے متعلق جن کی موت کفر پر ہوئی تھی ، حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے کیا تھا کہ یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ زمانہٴ جاہلیت میں (یعنی بحالت کفر) انہوں نے بہت سارے نیک کام کئے تھے کہ وہ فقراء کو کھانا کھلاتے تھے اور صلہ رحمی کرتے تھے وغیرہ تو کیا ان کے یہ نیک اعمال کل قیامت کے دن انہیں فائدہ دیں گے ۔ تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ نہیں ان کے نیک اعمال قیامت کے دن انہیں کچھ نفع نہ دیں گے ، کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کبھی دعا نہیں کی تھی کہ اے پروردگار قیامت کے دن میری مغفرت فرما یعنی وہ بعث بعد الموت (آخرت) پر ایمان نہیں رکھتے تھے ، اور قرآن باک میں ہے کہ جو کوئی اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کو طلب کرے گا تو ہرگز اس سے قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں تباہ کاروں میں ہوگا ” مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُۚ-وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ۔ (سورہ اٰل عمران 85)

 ترجمہ :  اور جو کوئی اسلام کے علاوہ کوئی اوردین چاہے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا ۔ عن عائشة قالت : قلت یا رسول اللہ ابن جوعان کان فی الجاہلیة یصل الرحم ویطعم المساکین فہل ذلک نافعة ؟ قال لا ینفعہ إنہ لم یقل یوما رب اغفر خطیئتي یوم الدین․ قال الشارح: أي لم یکن مصدقا بالبعث ومن لم یصدق بہ کافر ولا ینفعہ عمل (فتح الملہم شرح مسلم- تتمة کتاب الإیمان- باب الدلیل علی أن من مات علی الکفر لا ینفعہ عمل ۲/۲۵۷/) مذکورہ آیت کریمہ اور حدیث مبارکہ سے صاف پتہ چلتا ہے کہ کسی بھی نیک عمل کی مقبولیت کےلیے ”ایمان“ کا ہونا اولین شرط ہے، اللہ تعالیٰ پر، پیغمبروں پر ، کتاب اللہ پر اور قیامت کے دن وغیرہ پر ایمان لائے بغیر انسان خواہ کتنے ہی نیک اعمال کرلے اور کتنی بھی عبادت کرلے آخرت میں ان کا کوئی فائدہ حاصل ہوگا اور نہ ہی کوئی صلہ ملے گا بلکہ وہ خسارہ میں ہوگا، کیونکہ اعمالِ صالحہ کی مثال جسم کی طرح ہے اور ایمان کی مثال روح کی طرح ہے جس طرح روح کے بغیر جسم بے کار ہے، اسی طرح ایمان کے بغیر اعمالِ صالحہ بے سود ہے، آخرت میں کچھ کام نہ دیں گے عن أبي ہریرة قال : قال رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ : تجیء الأعمال یوم القیامة ، -إلی أن قال- ثم یجیء الإسلام، فیقول: یا رب، أنت السلام، وأنا الإسلام، فیقول اللہ تعالی: إنک علی خیر، بک الیوم آخذ، وبک أعطی، قال اللہ تعالی: وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِینًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِینَ ۔ (تفسیر ابن کثیر، سورة آل عمران: ۲/۲۶/،چشتی)


عظیم مفسرِ قرآن فخرِ سادات علامہ سید محمود آلوسی رحمة علیہ لکھتے ہیں کہ : جنابِ ابو طالب نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد اور نصرت کی تو وہ دین اسلام کی محبت میں نہیں کی ‘ بلکہ نسب اور قرابت کی وجہ سے کی ‘ اور اعتبار دینی محبت کا ہے ‘ نسبی محبت کا نہیں ہے ۔ علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شدید اصرار کے بعد بھی ابو طالب نے ایمان نہ لا کر آپ کو سخت اذیت بھی تو پہنچائی ہے ‘ تاہم ابو طالب کے کفر کے باوجود اس کی اس طرح مذمت نہ کی جائے جس طرح ابو جہل اور دیگر کفار کی مذمت کی جاتی ہے ۔ (روح المعانی ‘ جز ١١‘ ص ٣٣۔ ٣٢‘ مطبوعہ بیروت) 


امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری علیہ الرحمہ متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : عکرمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو یہود نے کہا ہم مسلمان ہیں ‘ تب اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر حج کرنے کا حکم نازل کیا ‘ مسلمانوں نے حج کرلیا اور کفار بیٹھے رہے ۔ 

نیز اس آیت نے درج ذیل آیت کے مفہوم کو منسوخ کردیا : ان الذین امنوا والذین ھادوا والنصاری والصابئین من امن باللہ والیوم الاخر وعمل صالحا فلھم اجرھم عند ربھم ولا خوف علیہم ولا ھم یحزنون ۔ (سورہ البقرہ : ٦٢) 

ترجمہ : بیشک جو لوگ ایمان لائے اور جو بھی اللہ اور روز قیامت پر ایمان لایا اور اس نے نیک عمل کیے تو ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے نہ ان پر کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۔ 

اس آیت سے بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں ‘ عیسائیوں اور صابئین کا دین بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا کہ اسلام کے سوا اور کوئی دین کے نزدیک ہرگز قبول نہیں ہوگا ‘ اور سورة بقرہ کی ظاہر آیت سے جو مفہوم نکل رہا تھا اس کو اس آیت سے منسوخ فرما دیا ۔ (جامع البیان ج ٣ ص ‘ ٣٤١ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)


اسلام کے لغوی اور شرعی معنی


علامہ ابوالحیان اندلسی اور بعض دیگر مفسرین علیہم الرحمہ نے لکھا ہے کہ اسلام سے مراد یہاں اسلام کا لغوی معنی ہے یعنی ظاہری اطاعت اور فرمانبرداری ‘ لیکن صحیح یہ ہے کہ یہاں اسلام سے مراد اسلام کا شرعی اور اصطلاحی معنی ہے یعنی وہ عقائد اور احکام جن کے ساتھ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث کیا گیا اور جس دین کی آپ نے تبلیغ کی ۔ 

امام رازی نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ ایمان اور اسلام مترادف ہیں کیونکہ اگر ایمان اسلام کا غیر ہو تو لازم آئے گا کہ پھر ایمان غیر مقبول ہو ۔ لیکن یہ استدلال صحیح نہیں ہے کیونکہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اسلام کے علاوہ کوئی اور دین مقبول نہیں ہے ‘ اس لیے یہ جائز ہے کہ ایمان سے مراد عقائد اور احکام کی تصدیق ہو اور اسلام سے مراد ان عقائد اور احکام کی تصدیق ہے جن کے ساتھ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو مبعوث کیا گیا ‘ البتہ درج ذیل آیت میں اسلام کا لغوی معنی یعنی اطاعت کرنا مراد ہے ۔ (تفسیر کبیر ج ٢ ص ٤٨٩ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ) 


قالت الاعراب امنا قل لم تؤمنوا ولکن قولوا اسلمنا ۔ (سورہ الحجرات : ١٤) 

ترجمہ : دیہاتیوں نے کہا ہم ایمان لائے ‘ آپ کہئے تم ایمان نہیں لائے لیکن کہو ہم نے اطاعت کی ۔ 

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا ۔ 

نقصان کا معنی ہے اصل مال کا ضائع ہوجانا ‘ اور یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ اس نے اس فطرت سلیمہ کو ضائع کردیا جس پر وہ پیدا کیا گیا تھا ۔ 

امام محمد بن اسماعیل بخاری علیہ الرحمہ متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا ہر مولود فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے ‘ پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی ‘ نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں جیسے جانور سے مکمل جانور پیدا ہوتا ہے کیا تم اس میں کوئی نقص دیکھتے ہو ۔ اس حدیث کو امام احمد نے بھی روایت کیا ہے ۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ١٨٥‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطالع کراچی ‘ ١٣٨١ ھ ‘ مسند احمد ج ٢ ص ٣٤٦‘ ٣١٥‘ مطبوعہ بیروت،چشتی)


خلاصہ یہ ہے کہ ہر انسان کی فطرت میں اللہ تعالیٰ قبول اسلام کی صلاحیت رکھتا ہے اور آخرت کی فوز و فلاح حاصل کرنے کے لیے اس کے پاس یہی اصل سرمایہ ہے اور جب اس نے اسلام کے سوا کسی اور دین کو قبول کر لای تو اس نے اپنے اصل سرمایہ کو ضائع کردیا اور اب اس نے پاس اخروی کامیابی حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں رہا ‘ اب وہ آخرت میں ثواب سے محروم ہوگا اور عذاب میں مبتلا ہوگا ‘ اسے اسلام قبول نہ کرنے کا افسوس ہوگا اور دوسرے ادیان کے احکام پر عمل کرنے کی مشقت اٹھانے کی وجہ سے پشیمانی ہوگی ۔


وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا (سورہ الفرقان آیت نمبر 24)

 ترجمہ : اور انہوں نے جو کوئی عمل کیا ہوگا ہم اس کی طرف قصد کرکے باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذروں کی طرح بنادیں گے جو روشندان کی دھوپ میں نظر آتے ہیں ۔


ھباء منثوراً کا معنی


الازہری نے کہا سورج کی شعا میں جو کھڑکی یا روشن دان سے کمرے میں داخل ہوتی ہیں وہ شعاعیں غبار کے منتشر ذرات کے مشابہ ہوتی ہیں ان کو الھباء کہتے ہیں اور منثوراً کے معنی ہیں بکھری ہوئی اور منتشر چیز اور اس آیت کا معنی یہ ہے کہ کفار نے اپنے زعم میں جو نیک اعمال کئے تھے وہ آخرت میں ریزہ ریزہ کر کے ضائع کردیئے جائیں گے اور وہ فضا میں بکھرے ہوئے سورج کی شعاعوں کے باریک ذرات کی طرح ہو اجئیں گے کیونکہ ایمان کے بغیر کوئی صالح عمل مقبول نہیں ہوتا ۔


ھباء منثورا کی تفسیر میں ایک وہ قول ہے جس کو ہم نے الازہری کے حالے سے نقل کیا ہے یعنی روشن دان سے دخل ہونے وال شاعوں میں غبار کی مانند باریک ذرات، اس کے عالوہ دیگر اقوال حسب ذیل ہیں :


ضحاک نے کہا اس کا معنی ہے گرد و غبار، قتادہ نے کہا آندھیاں جو درخت کے پتے اور کوڑا کرکٹ اڑاتی ہیں۔ معلی بن عبیدہ نے کہا اس کا معنی ہے یراکھ ۔


حضرت ابو حذیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے آزاد کردہ غلام سالم نے کہا کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا قیامت کے دن کچھ لوگ آئیں گے جن کے پاس تہامہ کے پہاڑوں جتنی نیکیاں ہوں گی حتیٰ کہ جب ان کو لایا جائے گا تو اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں کو ھباء منثورا کر دے گا، پھر ان کو دوزخ میں ڈال دے گا۔ سالم نے کہا یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں ! یہ بتائیں کہ وہ کیسے لوگ ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا وہ لوگ نماز پڑھتے ہوں گے، روزے رکھتے ہوں گے، نیند سے بیدار ہو کر رات کو قیام کرتے ہوں گے، لیکن جب ان کے اوپر کوئی حرام چیز کی جائے گی تو وہ اس پر اچھل پڑیں گے (گرم جوشی سے اس کو قبول کریں گے) اللہ تعالیٰ ان کے ان نیک اعمال کو ضائع فرما دے گا ۔ (الدرا المنثور ج ٥ ص 224, 225 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤٢١ ھ،چشتی)


نیکیاں صرف کفر اور ارتداد سے ضائع کی جاتی ہیں اس لیے اس حدیث کا محمل یہ ہے کہ وہ حرام چیزوں اور حرام کاموں کو جائز اور حلال سمجھیں گے اور حرام کو حلال سمجھنا کفر ہے ۔


آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار نے کفر کی حالت میں  جو کوئی ظاہری اچھے عمل کیے ہوں  گے جیسے صدقہ، صلہ رحمی، مہمان نوازی اور یتیموں  کی پرورش وغیرہ، اللہ تعالٰی ان کی طرف قصد کرکے روشندان کی دھوپ میں  نظر آنے والے باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذروں  کی طرح انہیں  بے وقعت بنادے گا۔ مراد یہ ہے کہ وہ اعمال باطل کردیئے جائیں  گے، ان کا کچھ ثمرہ اور کوئی فائدہ نہ ہو گاکیونکہ اعمال کی مقبولیت کےلیے ایمان شرط ہے اور وہ انہیں  مُیَسَّر نہ تھا ۔ (تفسیر جلالین، الفرقان : ۲۳، ص۳۰۴-۳۰۵)


اللہ عَزَّوَجَلَّ کا بڑا فضل وکرم ہے کہ مؤمن کو اس کی نیکیوں کا صلہ دنیا میں بھی ملتا ہے اور آخرت میں بھی اُسے نیکیوں کا اجر ملے گا ۔  چنانچہ حکیم الامت مُفتِی احمد یار خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : یعنی مؤمن کو اس کی نیکیوں کا فائدہ دنیا میں بھی ملتا ہے ، ربّ تعالیٰ فرماتا ہے : وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاۙ(۲) وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُؕ ۔ پ۲۸ ، الطلاق : ۳ ، ۲  ۔ ترجمہ : اورجو اللہ سے ڈرے اللہ اس کے لیے نجات کی راہ نکال دے گا اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں اس کا گمان نہ ہو ۔ تقویٰ کی برکت سے ہر آفت سے نجات ، رزق میں فراخی ، عزت و عظمت سب ملتی ہے مگر یہاں کی چیزوں سے اس کی آخرت کی جزاکم نہیں ہوتی جیسے سرکاری ملازم کا بھتہ تنخواہ میں نہیں کٹتا اور کافر کی دنیاوی تکالیف آخرت کے عذاب کو کم نہیں کرتیں جیسے ملزم کی حوالات کا زمانہ جیل کی مدت میں نہیں کٹتا ۔  (آخرت میں کافر کے پاس کوئی ایسی نیکی نہ ہوگی جس کا اجر اسے دیا جائے) یعنی کافر جو دنیا میں ہو ا ، دھوپ ، غذا پانی وغیرہ کھاپی لیتا ہے وہ اس کی نیکیوں کے حساب میں آجاتا ہے ۔ جب آخرت میں پہنچے گا تو اس کا حساب صاف ہوچکا ہوگا وہاں کچھ نہ پائے گا ۔ مؤمن دنیا میں قانون سے کھاتا پیتا ہے ، آخرت میں محبت سے اجر پائے گا ۔ قانون میں حساب ہے ، محبت میں بے حسابی ۔ ہوٹل میں کھانا حساب سے ملتا ہے ، دعوت میں بغیر حساب کے کہ ہوٹل قانون کی جگہ ، دعوت محبت کا ظہور : (یُرْزَقُوْنَ فِیْهَا بِغَیْرِ حِسَابٍ) مؤمن کی دنیاوی تکالیف اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں حتی کہ بیماریاں ، فکریں ، رِزق کی تنگی سب کفارات ہیں : مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا یُّجْزَ بِهٖۙ  ۔ کا یہ ہی مطلب ہے ۔ (مرآۃ المناجیح ، ۷ / ۴،چشتی)


اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل وکرم ہے کہ مؤمن کو اس کی نیکیوں کا صلہ دنیا میں بھی ملتا ہے اور آخرت میں بھی اُسے اجر ملے گا ۔ مگر ہمیشہ بندے کو ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے منہ سے کوئی ایسی بات نکل جائے جس سے میرے اعمال تباہ وبرباد ہوجائیں کہ بسا اوقات ایک جملہ بھی دنیا وآخرت کی تباہی وبربادی کا سبب بن جاتا ہے ۔  چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے  روایت ہے حضور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : ” بنی اسرائیل کے دو شخصوں کے مابین دوستی تھی ، ان میں سے ایک گناہوں میں مبتلا رہتا تھا اور دوسرا عبادت گزار تھا ۔ عبادت گزار جب بھی گناہگار کو دیکھتا تو اسے گناہوں سے باز رہنے کا کہتا ۔ ایک روز اُس نے اسے کوئی گناہ کرتے دیکھا تو باز رہنے کا کہا  ۔ گناہگار نے کہا : مجھے میرے رب پر چھوڑ دو ، کیا تم مجھ پر نگران ہو؟عبادت گزار نے کہا : خدا کی قسم ! اللہ عَزَّ  وَجَلَّتیری مغفرت نہیں فرمائے گایا تجھے جنت میں داخل نہیں کرے گا ۔  مرنے کے بعد دونوں جب بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہوئے تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے عبادت گزار  سے فرمایا : کیا تجھے میرے متعلق سب کچھ علم ہے یا میرے اختیارات تیرے قبضے میں ہیں ؟ گناہگار سے ارشاد فرمایا : جا میری رحمت سے جنت میں دخل ہوجا ۔ اور عبادت گزار کے متعلق فرمایا : اسے جہنم میں لے جاؤ ۔   ‘‘ اس کے بعد حضرت سَیِّدُنَا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ارشاد فرمایا : ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ ٔقدرت میں میری جان ہے  !  اس عبادت گزار نے ایسی بات کہی جس نے اس کی دنیا وآخرت تباہ کردی ۔ (سنن ابوداود ، کتاب الادب ، باب النھی عن البغی ، ۴ / ۳۶۰ ، حدیث : ۴۹۰۱)


(1)   کافر اگر کوئی نیکی کرتا ہے تو  اس نیکی کا بدلہ اُسے دنیا میں ہی دے دیا جاتا ہے ۔


(2)   کافر جب خدا کی بار گاہ میں جائے گا تو اس کے پا س کوئی نیکی نہ ہو گی  ۔


(3)   مسلمان کی نیکیاں آخرت میں جمع ہوتی رہتی ہیں  ۔


(4)   مسلمان کی کوئی بھی نیکی ضائع نہیں ہوتی ۔


(5)   بندہ مؤمن کو جو دنیامیں رزق ملتا ہے وہ اللہ تعالٰ کی اطاعت اور فرما برداری کرنے کے صلہ میں ملتا ہے  جبکہ آخرت میں جو اسے جزا دی جائے گی وہ فضل خداوندی کے سبب ہوگی ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔