Friday 24 September 2021

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بول و براز پاک ہیں خارجیوں کو جواب حصہ سوم

0 comments

 نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بول و براز پاک ہیں خارجیوں کو جواب حصہ سوم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : حديث أم أيمن : "أنها كانت تخدمه وأنه كان له قدح من عيدان يوضع تحت سريره ۔ (أخرجه أبو داود في الطهارة 1/ 28، والنسائي في البول في الِإناء 1/ 31، وابن حبان 2/ 348، والحاكم في الطهارة 1/ 167.)

اختلف في هذين الحديثين هل هما قضيتان أو قضية واحدة، فروى الدارقطني، والحاكم عن أم أيمن قالت: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم من الليل إلى فخارة في جانب البيت فبال فيها فقمت من الليل وأنا عطشانة فشربت ما فيها وأنا لا أشعر، فلما أصبح قال يا أم أيمن قومي فاهريقي ما في تلك الفخارة، قلت: قد والله شربت ما فيها. فضحك ثم قال: أما والله إنه لا يجعك بطنك أبداً". ورواه أبو يعلى بلفظ: "لن تشتكي بطنك". وأخرج عبد الرزاق عن ابن جريج قال: "أخبرنا أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يبول في قدح من عيدان ثم يوضع تحت سريره فجاء فإذا القدح ليس فيه شيء.فقال لامرأة يقال لها بركة كانت تخدم أم حبيبة جاءت معها من أرض الحبشة: أين البول الذي كان في القدح؟ قالت: شربته قال: صححت يا أم يوسف وكانت تكنى أم يوسف فما مرضت قط حتى كان مرضها الذي ماتت فيه". وأخرج أبو داود وابن حبان والحاكم عن أميمة بنت رقيقة قالت: "كان لرسول الله - صلى الله عليه وسلم - قدح من عيدان تحت سريره يبول فيه بالليل" قال ابن دحية: الأصح أنهما قضيتان وقعتا لامرأتين، وبركة أم يوسف غير أم أيمن.

(مناھل الصفا في تخریج أحادیث الشفاء للإمام جلال الدین السیوطي جلد 1 ص 43)

محدثین کرام ملا علی قاری ، علامہ شہاب الدین خفاجی نے فرمایا کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے اور اسی لئے دارقطنی محدّث نے امام بخاری اور امام مسلم پر الزام عائد کیا کہ جب یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط کے موافق صحیح تھی تو انہوں نے اس کو اپنی صحیحین میں کیوں درج نہ کیا، اگرچہ یہ الزام صحیح نہیں اس لئے کہ شیخین نے کبھی اس بات کا التزام نہیں کیا کہ جو حدیث ہماری مقرر کی ہوئی شرط پر صحیح ہوگی ہم ضرور اس کو اپنی صحیحین میں لائیں گے، لیکن دارقطنی کے اس الزام سے یہ بات ضرور ثابت ہوگئی کہ یہ حدیث علی شرط الشیخین صحیح ہے ۔ (نسیم الریاض، جلد2، ص31 اور شرح شفاء ملا علی قاری، جلد1، صفحہ 163)


ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن میں نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ بیت الخلاء تشریف لے جاتے ہیں آپ کے واپس آنے پر جب کبھی میں اندر جاتی ہوں ۔ فلا اری شیئا الا انی کنت اشم رائحۃ الطیب ۔تو وہاں کچھ بھی نظر نہیں آتا مگر کستوری سے بڑھ کر خوشبو پاتی ہوں

اس پر آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا

انا معاشر الانبیاء نبتت اجادنا علی ارواح اھل الجنۃ فما خرج منھا ابتلعہ الارض ۔ ہم انبیاء ہیں ہمارے اجسام اہل جنت کی ارواح کی مانند بنائے گئے ہیں ان سے جو کچھ بھی خارج ہوتا ہے زمین اسے نگل لیتی ہے ۔ (زرقانی علی المواہب جلد ۴ صفحہ ۲۲۹،چشتی)


بعض علماء نے مذکورہ روایت کو موضوع قرار دیا ہے کیونکہ اس کے رواۃ میں حسن بن علوان ہے جس کا کذب مسلم ہے ۔ امام قسطلانی اور امام زرقانی اس رائے کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں : لکن للحدیث طرق غیر طریق ابن علوان فلا ینبغی دعوی وضعہ مع وجودھا ۔ جب یہ روایت ابن علوان کے علاوہ دیگر طرق سے مروی ہے تو اس پر موضوع کا حکم لگانا کسی طرح درست نہیں ۔ زرقانی علی المواہب جلد ۴ صفحہ نمبر ۲۲۹)


حضرت ملا علی قاری نے یہی تصریح فرمائی ہے ان الحکم علیہ بالوضع خاص بتلک الطریق دون بقیۃ الطرق ۔ ابن علوان کے لحاظ سے اسے موضوع قرار دیا گیا ہے دوسرے طرق کے لحاظ سے یہ موضوع نہیں ہے ۔ (جمع الوسائل جلد ۲ صفحہ نمبر ۲)


امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے الخصائص الکبری میں اس کے دیگر سات طرق کا بھی بیان کیا ہے ۔

امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے انہی الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے ۔

قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں اذا اراد یتغوط انشقت الارض فابتلعت غائطہ و بولہ و فاحت لذلک رائحۃ طیبۃ ۔ جب آپ رفع حاجت کا ارادہ فرماتے تو زمین پھٹ جاتی اور آپ کے بول و براز کو نگل جاتی وہاں سے خوشبوؤں کے حلے آتے ۔ (کتاب الشفاء جلد ۱ ص ۸۸)


شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اس خصوصیت کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں : چوں آنحضرت می خواست تغوط کند یعنی قضائے حاجت نماید شگافیہ تیشد زمین و فرومی برد بول او را و فائح میشد ازاں بوئے خوش مطلع نمیشد برانچہ بیروں می آمد از وے ہیچ بشرے ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بول و براز کا ارادہ فرماتے تو زمین میں شگاف واقع ہو جاتا اور بول و براز کو نگل جاتی وہاں سے خوشبو کے حلے آتے اور کوئی بھی انسان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر سے خارج ہونے والی شے کو نہ دیکھ پاتا تھا ۔ (مدارج النبوۃ جلد ۱ صفحہ ۲۵)


مشہور صحابیہ حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ایک رات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک برتن میں پیشاب فرمایا ۔ مجھے پیاس محسوس ہوئی ، میں اٹھی ۔ فشربت ما فیھا وانا لا اشعر انہ بول لطیب رائحۃ ۔ میں نے اس پیشاب کو پانی سمجھ کر پی لیا وہ اپنی پیاری پیاری مہک کی وجہ سے مجھے پیشاب محسوس تک نہ ہوا ۔ (المواہب مع الزرقانی جلد ۱ ص ۲۳۱)

صبح حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھے بلا کر حکم دیا کہ فلاں برتن میں پیشاب ہے اسے باہر پھینک دو ۔ میں نے عرض کیا یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے میں نے پانی سمجھ کر پی لیا ہے ۔ فضحک رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم حتی بدت نواجذہ ثم قال واللہ لا یبجعن بطنک ابدا ۔ یہ سن کر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتنے مسکرائے کہ آپ کی مبارک داڑھیں نظر آنے لگیں اور پھر فرمایا اے ام ایمن آج کے بعد تیرے پیٹ کو بیماری لاحق نہ ہو گی ۔ (اشرف الوسائل الی فہم الشمائل ص ۷۷،چشتی)


ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی خادمہ ام یوسف برکت نامی خاتون نے بھی اسی طرح آپ کا مبارک پیشاب پی لیا ۔ جس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا  یا ام یوسف فما مرضت قط حتی کان مرضھا الذی ماتت فیہ ۔ اے ام یوسف تجھے کوئی مرض لاحق نہ ہو گی سوائے اس مرض کے کہ جس سے تیری موت واقع ہو جائے ۔ (الخصائص الکبری) ۔ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ روایت کے بارے میں فرماتے ہیں ۔ و حدیث ھذہ المراۃ التی شربت بولہ صحیح ۔ یہ حدیث جس میں اس خاتون کے پیشاب مبارک پینے کا ذکر ہے صحیح ہے ۔ (کتاب الشفا ء جلد ۱ صفحہ ۹۰)


اما م قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں

حدیث شرب البول صحیح رواہ الدارقطنی و قال ھو حدیث حسن صحیح ۔ یہ حدیث صحیح ہے امام دارقطنی نے روایت کر کے اسے صحیح قرار دیا ہے ۔ (المواہب اللدنیہ جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۲۸۵)


امام دارقطنی نے امام مسلم اور امام بخاری پر اعتراض کیا ہے کہ انھوں نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں درج کیوں نہیں کیا جب کہ یہ حدیث ان کی شرط کے مطابق ہے ۔ (شرح صحیح مسلم جلد ۴ ص ۷۸۲)


البرہان فی خصائص حبیب الرحمان ص ۳۹۸ میں طبرانی اور بیہقی کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے کہ برہ نامی خاتون نے بھی آپ کا بول مبارک پیا تھا جس پر رحمت دوجہان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ خاتون آتش جہنم سے چاروں طرف سے محفوظ ہو گی۔


امام قسطلانی مذکورہ روایات ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بول مبارک بطور تبرک بھی صحابہ نے استعمال کیا ۔ و روی انہ کان یتبرک ببولہ و دمہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ۔ مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بول اور خون مبارک کو بطور تبرک استعمال کیا جاتا تھا ۔ (المواہب اللدنیہ جلد ۱ ص ۲۸۴)


عظیم محدث شارح مسلم امام نووی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائص مبارکہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔ و کان بولہ و دمہ یتبرک بھما ۔ آپ کے مبارک بول اور خون کو متبرک سمجھا جاتا تھا ۔ (تہذیب الاسماء واللغات جلد ۱ ص ۴۲،چشتی)


شیخ الاسلام والمسلمین امام ابو یحیی زکریا الانصاری الشافعی روض الطالب میں رقمطراز ہیں ۔ و کان یتبرک و لیستشفی ببولہ و دمہ

آپ کے مبارک خون اور بول کو بطور تبرک استعمال کیا جاتا اور اس کی برکت سے بیماروں کو شفاء نصیب ہو ئی ۔ (شرح روض الطالب من السنی المطالب جلد ۳ ص ۱۰۶)


حافظ ابن حجر عسقلانی بول شریف کی طہارت کو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خصوصیت قرار دیتے ہوئے بیان کرتے ہیں

و قد تکاثرت الادلۃ علی طہارۃ فضلاتہ وعدہ الائمۃ ذلک فی خصائصہ  آپ کے فضلات مبارکہ کے پاک ہونے پر کثیر دلائل ہیں ۔ ائمہ نے اسے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خصوصیت قرار دیا ہے ۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری جلد ۱ ص ۲۱۸)

شرح شمائل میں روایات شرب بول ذکر کرنے کے بعد رقم طراز ہیں ۔ و بھذا استدل جمع من ائمتنا المتقدمین وغیرھم علی طھارۃ فضلاتہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم و ھو المختار و فاقا بجمع من المتاخرین فقد تکاثرت الادلۃ علیہ وعدہ الائمۃ من خصائصہ ۔ انہی روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارے ائمہ متقدمین علیہم الرحمہ کی ایک جماعت نے یہ قول کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بول و براز پاک ہے اور یہی قول مختار ہے اور تمام متاخرین کا اسی قول پر اتفاق ہے اس پر کثیر دلائل شاہد ہیں اور ائمہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصوصی شمائل میں شمار کیا ہے ۔ (اشرف الوسائل الی فہم الشمائل ص ۷۷)


امام شامی فتاوی شامی میں تحریر کرتے ہیں

صح بعض ائمۃ الشافعیۃ طھارۃ بولہ علیہ السلام و سائر فضلاتہ و بہ قال ابوحنیفہ

بعض شوافع اس بات کے قائل ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک بول بلکہ تمام فضلات پاک ہیں اور امام ابوحنیفہ کی رائے بھی یہی ہے ۔ (فتاوی شامی جلد ۱ ص ۲۱۲)


قاضی عیاض بول و براز کی طہارت پر دلیل قائم کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔ ولم یامر واحدا منھم غسل فم و لا نھاہ من عودہ ۔ آپ نے نہ تو ان کو یعنی بول استعمال کرنے والے صحابہ کو منہ دھونے کا حکم دیا اور نہ ہی ایسا عمل دوبارہ کرنے سے منع فرمایا ۔ (کتاب الشفاء)


اشرف علی تھانوی دیوبندی لکھتا ہے ۔ علماء آپ کے بول و براز کے پاک ہونے کے قائل ہیں ۔ ابو بکر بن سابق مالکی اور ابو نصر نے اس کو نقل کیا ہے ۔ (نشر الطیب ص ۱۹۳)


انور شاہ کشمیری دیوبندی لکھتا ہے . ان العلماء ذھبوا الی طھارۃ فضلاتہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ۔ علماء اسلام کا مذہب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام فضلات پاک ہیں ۔ (فیض الباری شرح البخاری جلد ۱ ص ۲۸۹)


امام عشق و محبت اما م اہل سنت عاشقانہ انداز میں امام عینی رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل فرماتے ہیں کہ یہ سب کچھ ابحاث ہیں جو شخص طہارت کا قائل ہو اس کو میں مانتا ہوں اور جو اس کے خلاف کہے اس کے لئے میرے کان بہرے ہیں میں سنتا ہی نہیں ۔ (سیرت مصطفی جان رحمت جلد ۲ ص ۵۴۶)


اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ان کی یہ بات ان کے کمال عشق کی دلیل ہے اور میرے دل میں ان کا یہ قول ایسا اثر کر گیا کہ ان کی وقعت بہت زیادہ دل میں پیدا ہو گئی ۔


کیا مہکتے ہیں مہکنے والے

بو پہ چلتے ہیں بھٹکنے والے


عقل والوں کی قسمت میں کہاں ذوق جنوں

عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ


عشق کی ایک جست نے طے کردیا قصہ تمام

اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں


امت کے عظیم محدث حافظ ابن حجر کے استاد شیخ الاسلام سراج البلقینی کے بارے میں امام عبدالوہاب شعرانی بیان کرتے ہیں کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت و عقیدت کا اظہار ان کلمات سے کرتے ۔ واللہ لو وجدت شیئا من بول النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم و غائطہ لا کلمتہ و شربتہ ۔ اللہ کی قسم کاش مجھے آپ کا بول و براز نصیب ہو جائے تو میں اسے محبت سے کھاؤں اور پیوں ۔ {الیواقیت والجواھر فی بیان عقائد الاکابر جلد ۲ صفحہ ۶۱) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔