ایمانِ ابو طالب اکابرینِ امت کی نظر میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : آج کل مسلہ ایمانِ جنابِ ابو طالب پر بہت بحث ہو رہی ہے ۔ ہمیں اس موضوع پر نا چاہتے ہوۓ بھی بار بار لکھنا پڑا وجہ جہلا پیر ، اجہل نقیب ، جاہل شعرا و نوٹ خوان اور کیسٹی مختی خطیب بنے جو بنا تحقیق کیے عدمِ ایمان کے اٸلین کے خلاف اس قسم کی غلیظ و جاہلانہ زبان استعمال کر رہے ہیں کہ بازاری رنڈیاں بھی شرما جاٸیں اور اِن جہلا کو اتنا بھی احساس نہیں کہ اِن کی جہالت و غلاظت کی زَد میں کون کون آ رہا ہے ۔ ہم اخلاق و تہذیب کا دامن تھامے ہم اکابرینِ امت علیہم الرحمہ کے فرامین اور فرامینِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ پیش کر رہے ہیں اور یہ امید رکھتے ہیں کہ احباب اس پر غور فرمائیں گے کہ اکابرینِ امت علیہم الرحمہ اور حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کوئی عالم و محقق ہو سکتا اگر بزعم خویش کوٸی ہے تو اسے مبارک ہو ۔ آئیے اِن فرامین کو پڑھتے ہیں اور فیصلہ آپ کے ایمان و ضمیر پہ چھوڑتے ہیں :
حضرت سیّدنا علی بن طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : لَمَّا تُوُفِّيَ أَبِي أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ : إِنَّ عَمَّكَ قَدْ تُوُفِّيَ قَالَ : اذْهَبْ فَوَارِهِ ، قُلْتُ : إِنَّهُ مَاتَ مُشْرِكًا ، قَالَ : اذْهَبْ فَوَارِهِ وَلَا تُحْدِثَنَّ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي ، فَفَعَلْتُ ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَأَمَرَنِي أَنْ أَغْتَسِلَ ۔
ترجمہ : حضرت سیّدنا علی بن طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جب میرے والد فوت ہوئے تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خد مت میں حا ضر ہوا اور عرض کی : آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چچا فوت ہو گئے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جا کر انہیں دفنا دیں ۔ میں نے عرض کی : یقیناً وہ تو مشرک ہونے کی حالت میں فوت ہوئے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جائیں اور انہیں دفنا دیں ، لیکن جب تک میرے پاس واپس نہ آئیں کوئی نیا کام نہ کریں ۔ میں نے ایسا ہی کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھے غسل کرنے کا حکم فرمایا ۔ (مسند الطيالسي صفحہ نمبر 19 حدیث نمبر 120 ،وسنده ‘حسن متصل،چشتی)
ایک روایت کے الفاظ ہیں : إِنَّ عَمَّكَ الشَّيْخَ الضَّالَّ قَدْ مَاتَ، قَالَ : اذْهَبْ فَوَارِ أَبَاكَ، ثُمَّ لَا تُحْدِثَنَّ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي، فَذَهَبْتُ فَوَارَيْتُهُ، وَجِئْتُهُ، فَأَمَرَنِي، فَاغْتَسَلْتُ وَدَعَا لِي ۔
ترجمہ : حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے گمراہ چچا فوت ہو گئے ہیں ان کو کون دفنائے گا ؟ ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جائیں اور اپنے والد کو دفنا دیں ۔ (مسند الامام احمد : 97/1،چشتی)(سنن ابي داؤد : 3214) (سنن النسائي : 190، 2008 ، واللفظ لهٗ ، وسندهٗ حسن)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے الاصابته في تميز الصحابته لابن حجر : 114/7) اور امام ابنِ جارود رحمۃ اللہ علیہ (550ھ) نے ”صحیح“ قرار دیا ہے ۔ یہ حدیث نصِ قطعی ہے کہ ابوطالب مسلمان نہیں ہوئے تھے ۔
مسئلہ ایمانِ ابوطالب کے بارے میں بعض لوگ قدر غلو سے کام لے رہے ہیں کہ اللہ کی پناہ ۔ سنی کہلانے والے بڑے بڑے پیر بھی اس مسئلے میں متبع روافض نظر آرہے ہیں ۔ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی وجہ سے ابو طالب کے متعلق خاموشی کو احوط سمجھتے ہیں ۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اجلہ صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہم اور ائمہ و فقہا علیہم الرّحمہ کے خلافِ عمل ، ابوطالب کے قصیدے پڑھے جائیں اور ابوطالب کو مسلمان نہ سمجھنے والوں کے متعلق گندی زبان استعمال کی جائے ۔ قائلین ایمانِ ابوطالب ہوش کے ناخن لیں ، شاید انہیں معلوم نہیں کہ صحیح حدیث کے مطابق حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ فداہ ابی وامی بھی ابوطالب کو ” ضال “ سمجھتے تھے ۔ تو کیا ان رافضی ذہنیت والے پیرانِ فرتوت کی زد میں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ بھی نہیں آجاتے ۔ ان باطنی رافضیوں اور ظاہری خارجیوں کی زد میں صرف حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ ہی نہیں دیگر اہل بیت واصحاب رسول رضی اللہ عنہم بھی آجاتے ہیں جو ایمانِ ابوطالب کے قائل نہیں تھے ۔
حضرت سیّدنا غوثُ الاعظم شیخ سیّد عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جب ابوطالب پر موت کا وقت آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا ! اے میر چچا ! لا الٰہ الا اللہ پڑھیے میں اس کلمہ کی وجہ سے اللہ کے پاس آپ کی شفاعت کروں گا ‘ تو ابوطالب نے کہا مجھے علم ہے کہ آپ سچے ہیں لیکن میں اس کو ناپسند کرتا ہوں کہ یہ کہا جائے کہ ابوطالب موت سے گھبرا گیا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ابو طالب کی مغفرت طلب کرنے سے کرنے سے منع فرما دیا ۔ (تفسیر الجیلانی جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 457 مطبوعہ المکتبۃ المعروفیہ کانسی روڈ کوئٹہ پاکستان بحوالہ مسند احمد بن حنبل،چشتی)
رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ابو طالب کی ہدایت کی دعا کی مگر اللہ نے اس دعا کو قبول نہ فرمایا اور ابو طالب کو ہدایت نہ کی ۔ حضرت حمزہ کے قاتل وحشی (رضی اللہ عنہما) کو ہدایت عطاء کی گئی ۔(غُنیۃ الطالبین مترجم اردو بدایونی صفحہ 263)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے چچا ابو طالب کی ہدایت کا سوال کیا تو ہدایت نہ دی گئی ، حضرت حمزہ کے قاتل وحشی (رضی اللہ عنہما) کو ہدایت عطاء کی گئی ۔ (غُنیۃ الطالبین مترجم اردو مبشر صفحہ نمبر 415)
محترم قارئینِ کرام : آج کل بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ : سیدنا ابوطالب علیہ السلام پہلا مسلمان اور پہلا صحابی اور کفیل رسول اللہ ہے ہمارے لیے ایمان آزمانے کے لیے ایمان کی کسوٹی ہے ، جو ابوطالب کو "علیہ السلام" کہے گا وہ ہمارا ہے جو ان کے بارے میں گندی زبان ہلائے ، وہ ہمارا نہیں ہے ۔۔۔۔ اس سے دور رہنا چاہیے ۔۔۔۔ جو علی کے باپ کو کافر کہے وہ مومن نہیں ۔۔۔ کبھی بھی نہیں ۔۔۔۔ وغیرہ ۔
ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہی ہے جیسا کہ آپ لو کہہ رہے ہیں ، تو پھر ائمہ محدثین مفسرین علیہم الرّحمہ سے اتنی بڑی بات کیسے چُھپی رہ گئی اور انہیں علم کیوں نہ ہوسکا ؟
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سوانح و تعارف پہ بڑی بڑی کتابیں محدثین علیہم الرّحمہ نے لکھیں ہیں ، تو جنابِ ابوطالب کا نام کیوں چھوڑ گئے ؟
حضرت سیّدنا غوثُ الاعظم شیخ سیّد عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ جو امام الاولیاء ہیں ، جن کے نام پر آپ کے آستانے چل رہے ہیں ، کیا وہ بھی اس حقیقت سے ناآشنا رہے ؟ ، آخر وہ کون سی وجوہات تھیں ، کہ سلف صالحین علیہم الرّحمہ جناب ابوطالب کے نام کی کانفرنسیں منعقد کرنے کی سعادت سے محروم رہے ؟ ، آخر وہ کیا وجہ تھی کہ اسلاف علیہم الرّحہ آپ کے خود ساختہ معیار پر "علیہ السلام" لکھ کر پورا نہ اتر سکے ؟ ، اس وقت جتنے لوگ ایمان ابی طالب کے مسئلہ کو لے کر انتشار پھیلا رہے ہیں ، ان سب سے گزارش ہے کہ آخر آج وہ کون سی آفت آن پڑی ہے کہ اہل سنت کو روافض کی جھولیوں میں ڈالنے کی بھرپور کوششیں کی جارہی ہیں ، اور ایمان ابی طالب کے مسئلہ پر خاموشی توڑ کر اسے عوام میں یوں بیان کیا جارہا ہے ، جسے سُن کر بڑے بڑے اکابرینِ اہلسنّت پر لوگ انگلیاں اٹھانے لگ پڑے ہیں ؟ ، کیا آپ لوگ خود کو حضرت سیّدنا غوثُ الاعظم شیخ سیّد عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی بڑے سید اور محب اہل بیت سجھتے ؟ اگر سجھتے تو بھی بتادیں اور اگر نہیں سمجھتے تو پھر کم از کم یہ سمجھنے کی کوشش کریں ، کہ انہوں نے جناب ابوطالب کے بارے میں آپ جیسا عقیدہ و نظریہ کیوں نہ رکھا ۔
شرح مقاصد و شرح تحریر اور ردالمحتار حاشیہ درمختار باب المرتدین میں ہے : المصر علی عدم الاقرار مع المطالبۃ بہ کافر وفاقا لکون ذلك من امارات عدم التصدیق ولہذا اطبقوا علٰی کفر ابی طالب ۔
ترجمہ : جس سے اقرارِ اسلام کا مطالبہ کیا جائے اور وہ اقرار نہ کرنے پر اصرار رکھے بالاتفاق کافر ہے کہ یہ دل میں تصدیق نہ ہونے کی علامت ہے ۔ اسی واسطے تمام علماء نے کفرِ ابی طالب پر اجماع کیا ہے ۔ (ردالمحتار کتاب السیر باب المرتد دار احیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۲۸۳ و ۲۸۴)
امام عبدالرؤف مناوی تییسر میں علامہ علی بن احمد عزیزی علیہما الرحمہ سراج المنیر شروح جامع صغیر میں زیر حدیث ہشتم فرماتے ہیں : ھٰذا یؤذن بموتہ علٰی کفرہ وھو الحق ووھم البعض ۔
ترجمہ : یہ حدیث بتاتی ہے کہ ابو طالب کی موت کفر پر ہوئی اور یہی حق ہے اور اس کا خلاف وہم ہے ۔ (التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت الحدیث اھون اھل النار عذابا الخ مکتبۃ الامام الشافعی ریاض ۱ /۳۸۴،چشتی)
امام بدر الدین عینی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ھذا کلہ ظاھر انہ مات علی غیر الاسلام فان قلت ذکر السہیلی انہ رای فی بعض کتب المسعودی ا نہ اسلم قلت مثل ھذا لایعارض ما فی الصحیح ۔
ترجمہ : ان سب حدیثوں سے ظاہر ہے کہ ابوطالب کی موت غیرِ اسلام پر ہوئی ، اگر تُو کہے کہ سہیلی نے ذکر کیا کہ انہوں نے مسعودی کی کسی کتاب میں دیکھا کہ ابو طالب اسلام لے آئے میں کہوں گا ایسی بے سروپا حکایت احادیث صحیح بخاری کی معارض نہیں ہوسکتی ۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب مناقب الانصار تحت حدیث ۳۸۸۴ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱۷ /۲۴)
امام سہیلی علیہ الرحمہ (ھ581-508) فرماتے ہیں : وظاھر الحديث يقتضي أن عبدالمطلب مات علي الشرك ۔
ترجمہ : اس حدیث کے ظاہری الفاظ اس بات کے متقاضى ہیں کہ عبدالمطلب شرک پر فوت ہوئے تھے ۔ (الروض الانف : 19/4)
امام ابنِ حجر علیہ الرحمہ (733-853ھ) اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں : فھذا شان من مات علي الكفر، فلو كان مات علي التوحيد لنجا من النار أصلا والاحاديث الصححة والاخبار المتكاثرة طاقحة بذلك ۔
تجمہ : یہ صورتحال تو اس شخص کی ہوتی ہےجو کفر پر فوت ہوا ہو۔ اگر ابوطالب توحید پر فوت ہوتے تو آگ سے مکمل طور پر نجات پا جاتے ۔ لیکن بہت سی احادیث و اخبار اس (کفر ابو طالب) سے لبریز ہیں ۔ (الاصابته في تميز الصحابته لابن حجر : 241/7،چشتی)
علامہ صبان محمد بن علی مصری علیہ الرحمہ کتاب اسعاف الراغبین میں فرماتے ہیں : اما اعمامہ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم فاثنا عشرۃ حمزۃ العباس وھما المسلمان وابوطالب والصحیح انہ مات کافرا ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے بارہ چچا تھے ، حمزہ و عباس رضی ﷲ تعالٰی عنہما اور یہی دو مشرف با سلام ہوئے اور ابو طالب اور صحیح یہی ہے کہ یہ کافر مرے ۔ (اسعاف الراغبین فی سیرۃ المصطفٰی علٰی ھامش نور الابصار دارالفکر بیروت ص ۹۴)
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ شرح سفر السعادۃ میں فرماتے ہیں : مشائخ حدیث وعلمائے سنت بریں اند کہ ایمان ابو طالب ثبوت نہ پذیر فتہ و در صحاح احادیث ست کہ آنحضرت صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم در وقتِ وفات وے برسردے آمد و عرض اسلام کرد وے قبول نہ کرد ۔
ترجمہ : مشائخ حدیث اور علماءِ اہلسنت کا مؤقف یہ ہے کہ ابو طالب کا ایمان ثابت نہیں ہے ، صحیح حدیثوں میں آیا ہے کہ ابو طالب کی وفات کے وقت رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور سلام پیش فرمایا مگر اس نے قبول نہیں کیا ۔ (شرح سفر السعادۃ فصل دربیان عیادت بیماراں و نماز جنازہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ص ۲۴۹)
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چچاؤں میں سے بجز حضرت امیر حمزہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما کے کوئی مسلمان نہ ہوا ۔ ابو طالب اور ابو لہب نے زمانہ اسلام کا پایا لیکن اس کی توفیق نہ پائی جمہور علماء کا یہی مذہب ہے ۔ (مدارج النبوت مترجم اردو جلد دوم صفحہ نمبر 576 مطبوعہ ضیاء القرآن پبلیکیشنز لاہور پاکستان،چشتی)
الاصابہ میں ہے : ذکر جمع من الرفضۃ انہ مات مسلما ۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ حرف الطاءالقسم الرابع ابوطالب دار صادربیروت ۴ /۱۱۶) ۔ قال ابن عساکر فی صدر ترجمتہ قیل انہ اسلم ولایصح اسلامہ مختصر ۔ (تاریخ دمشق الکبیر ترجمہ ۸۹۴۰ ابوطالب داراحیاء التراث العربی ۷۰ /۲۲۸،چشتی)
ترجمہ : رافضیوں کا ایک گروہ کہتا ہے کہ ابو طالب مسلمان مرے ۔ امام ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں شروع تذکرہ ابوطالب میں فرمایا بعض اسلامِ ابو طالب کے قائل ہوئے اور یہ صحیح نہیں مختصر ۔
امام زرقانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : الصحیح ان ابا طالب لم یسلم،و ذکر جمع من الرفضۃ انہ مات مسلما وتمسکوا باشعار و اخبار واھیۃ تکفل بردھافی الاصابۃ ۔
ترجمہ : صحیح یہ ہے کہ ابوطالب مسلمان نہ ہوئے ، رافضیوں کی ایك جماعت نے اُن کا اسلام پر مرنا مانا اور کچھ شعروں اور واہیات خبروں سے تمسك کیا جن کے رَد کا امام حافظ الشان نے اصابہ میں ذمہ لیا ۔ (شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ المقصد الثانی الفصل الرابع دارالمعرفتہ بیروت ۳ /۲۷۴)
امام شہاب الدین خفاجی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ابو طالب توفی کافرا و ادعاء بعض الشیعۃ انہ اسلم لا اصل لہ ۔
ترجمہ : ابوطالب کی موت کفر پر ہوئی اور بعض رافضیوں کا دعوٰی باطلہ کہ وہ اسلام لائے محض بے اصل ہے ۔ (نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات الہند ۳ /۴۸۴)
شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ شرح صراط مستقیم میں فرماتے ہیں : شیخ ابن حجر در فتح الباری میگوید معرفت ابوطالب بہ نبوت رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلم د ربسیاری از اخبار آمدہ و تمسك کردہ بدان شیعہ بر اسلام وے و استدلال کردہ اند بردعوی خود بچیزے کہ دلالت ندارد برآں ۔
ترجمہ : شیخ ابن حجر علیہ الرحمہ فتح الباری میں فرماتے ہیں ابو طالب کو رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کی معرفت حاصل تھی ۔ اس بارے میں متعدد احادیث وارد ہیں جن کو شیعہ اسلامِ ابو طالب کی دلیل بتاتے ہیں اور اپنے دعوٰی پر جس چیز اسے استدلال کرتے ہیں وہ اُن کے دعوٰی پر دلالت نہیں کرتی ۔ (سفر السعادت فصل دربیان عیادت بیماراں الخ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر صفحہ ۲۴۹،چشتی)
الاصابہ میں ہے : استدل الرافضی بقول ﷲ تعالٰی "فالذین اٰمنوا بہ و عزروہ و نصروہ واتبعواالنور الذی معہ اولئك ھم المفلحون" قال وقد عزرہ ابوطالب بما اشتھرو علم ونابذقریشا وعاداھم بسبلبہ مما لایدفعہ احد من نقلۃ الاخبار فیکون من المفلحین انتھی وھذا مبلغھم من العلم وانانسلم انہ نصرہ وبالغ فی ذلك لکنہ لم یتبع النور الذی معہ وھو الکتاب العزیز الداعی الی التوحید ولا یحصل الفلاح الا بحصول مارتب علیہ من الصفات کلہا ۔
تجمہ : اسلامِ ابی طالب پر رافضی اس آیت سے دلیل لایا کہ ﷲ عزوجل فرماتا ہے "جو لوگ اس نبی پر ایمان لائے اور اس کی نصرت و مدد کی اور جو نورِ اس نبی کے ساتھ اتارا گیا اس کے پیرو ہوئے وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں"۔رافضی نے کہا : ابوطالب کی مدد و نصرت مشہور و معروف ہے نبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے پیچھے قریش سے مخالفت کی عداوت باندھ لی جس کا کوئی راوی اخبار انکار نہ کرے گا تو وہ فلاح پانے والوں میں ٹھہرے ۔رافضیوں کے علم کی رسائی یہاں تک ہے اور ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ابوطالب نے ضرور نصرت کی اور بدرجہ غایت کی مگر اس نور کا اتباع نہ کیا جو نبی کریم صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ اترا یعنی قرآن مجید داعی توحید اور فلاح تو جب ملے کہ جتنی صفات پر اسے مرتب فرمایا ہے سب حاصل ہوں ۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ حرف الطاء ترجمہ ۶۸۵ ابوطالب دارصادر بیروت ۴ /۱۱۸،چشتی)
امام ملا علی قاری حنفی شرح شفا شریف میں فرماتے ہیں : اذا امربھا وامتنع وابٰی عنہا کابی طالب فھو کافر بالاجماع ۔ (شرح شفا)
ترجمہ : جسے شہادت کلمہ اسلام کا حکم دیا جائے اور وہ باز رہے اور ادائے شہادت سے انکار کرے جیسے ابو طالب،تو وہ بالا جماع کافر ہے ۔
مرقاۃ شرح مشکوۃ میں اُس شخص کے بارے میں جو قلب سے اعتقاد رکھتا تھا اور بغیر کسی عذر و مانع کے زبان سے اقرار کی نوبت نہ آئی ، علماء کا اختلاف کہ یہ اعتقاد بے اقرار اُسے آخرت میں نافع ہوگا یا نہیں ، نقل کرکے فرماتے ہیں : قلت لکن بشرط عدم طلب الاقرار منہ فان ابی بعد ذٰلك فکافراجماعا لقضیۃ ابی طالب ۔ ([مرقاۃ شرح مشکوۃ)
ترجمہ : یہ اختلاف اس صورت میں ہے کہ اس سے اقرار طلب نہ کیا گیا ہو اور اگر بعد طلب باز رہے جب تو بالا جماع کافر ہے۔ابو طالب کا واقعہ اس پر دلیل ہے ۔
اسی مرقاۃ شرح مشکوۃ فصل ثانی باب اشراط الساعۃ میں ہے : ابوطالب لم یؤمن عند اھل السنۃ ۔
ترجمہ : اہل سنت کے نزدیک ابوطالب مسلمان نہیں ۔ (مرقات المفاتیح شرح مشکٰوۃ المصابیح کتاب الفتن حدیث ۵۴۵۸ المکتبۃ الحبیبیۃ کوئٹہ ۹/ ۳۶۰)
تاجدار گولڑہ حضرت سیّد پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں : آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چچے اور پھوپھیاں حارث ، قثم ، حمزہ ، عباس ، ابوطالب ، عبدالکعبہ ، جحل ، ضرّار ، غیداق ، ابولہب ، صفیہ ، عاتکہ ، اروی ، اُمّ حکیم ، بّرہ ، امیمہ اس جماعت میں سے حضرت حمزہ و عباس و حضرت صفیہ رضوان اللّٰہ علیھم اجمعین وعلیھن ایمان لائے ۔ اور حاشیہ میں لکھا ہے کہ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں تین حضرات کے مشرف با اسلام ہونے کو جمہور علماء کا مذہب قرار دیا ہے ۔ (تحقیق الحق فی کلمة الحق صفحہ نمبر 153 مطبوعہ گولڑہ شریف،چشتی)۔(یعنی ابو طالب ایمان نہیں لائے تھے)
سبع سنابل کے حوالے سے رافضیوں نے یہ دھوکا دینے کی کوشش کی ہے کہ حضرت سیّد میر عبد الواحد بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ ابو طالب کو مسلمان سمجھتے تھے ۔ جب یہ اتنا بڑا جھوٹ ہے کہ رافضیوں کو بولنے سے پہلے لکھنے سے پہلے یہ سوچنا چاہئے تھا کہ سبع سنابل شریف اب بھی چھپ رہی ہے جو چاہے وہ پڑھ کر خود ہی اندازہ لگا سکتا ہے کہ حضرت سیّد میر عبد الواحد بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ کا وہی موقف ہے جو جمیع اہل سنت و جماعت کے اکابرین کا موقف ہے یعنی ابو طالب کا خاتمہ کفر پر ہوا ۔ اب آئیے سبع سنابل شریف کی عبارت آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں آپ خود فیصلہ کر لیجئے گا ۔
حضرت سیّد میر عبد الواحد بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ سبع سنابل شریف میں فرماتے ہیں : میرے بھائی اگر چہ مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے فضائل و شرف کے کمالات اہل معرفت کے دلوں میں نہیں سماں سکتے اور ان کے سچے دوستوں کے نہاں خانوں میں منزل نہیں بنا سکتے اس کے با وجود ان کے ان نسب عالوں میں اپنا کامل اثر نہیں دکھا سکتے خواہ وہ آباؤ اجداد ہوں یا اولاد در اولاد چنانچہ ابو طالب میں اس نسب نے کوئی اثر نہیں کیا حالانکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان کے بارے میں بلیغ کوشش فرماتے رہے لیکن چونکہ خدائے قدوس جل و علا نے ان کے دل پر روز اول ہی سے مہر لگا دی تھی لہذا جواب دیا اخرت النار على العار میں عار پر نار کو ترجیح دیتا ہوں جیسا کہ مشہور ہے منقول ہے کہ جب ابو طالب کا انتقال ہوا مولی علی کرم اللہ وجہہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ خبر پہنچائی کہ مات عمك الضال حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے گمراہ چچا کا انتقال ہوگیا بیت کبھی ایسے گوہر پیدا کرنے والے گھرانہ میں ابو طالب جیسے کو (خالق بے نیاز) پتھر پھینکنے والا بنا دیتا ہے ۔ (سبع سنابل صفحہ نمبر 90 مطبوعہ حامد اینڈ کمپنی اردو بزار لاہور،چشتی)
شیخ المشائخ والاولیاء حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و لہ وسلّم کے سمجھانے کا حضرت ابو طالب پر کچھ اثر نہ ہوا اور حالت کفر میں انتقال ہوا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و لہ وسلّم آپ کے گمراہ چچا کا انتقال ہو گیا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و لہ وسلّم نے فرمایا جاؤ انہیں دفن کر دو ۔ (فوائد الفواد مترجم اردو صفحہ نمبر 364 پندرہویں مجلس،چشتی) ۔
شیخ المشائخ والاولیاء حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ابو طالب کی قسمت میں ایمان نہیں تھا اس لیئے اس نعمت سے محروم رہے ۔ (افضل الفوائد ، ہشت بہشت مترجم صفحہ نمبر 73 مطبوعہ شبیر برادرز اردو بازار لاہور)
خود کو چشتی ، پیر اور سنیوں کا خطیب کہلانے والوں کے نام چشتیوں کے سردار شیخ المشائخ والاولیاء حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کا پیغام ۔
حضرت سیّد علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : دلائل لانے والوں میں سے ابو طالب سے بڑھ کر کوئی نہ تھا اور حقانیت کی دلیل حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بزرگ تر کچھ نہیں ہو سکتی تھی مگر جبکہ جریانِ حکمِ شقاوت ابو طالب پر ہو چکا تھا ۔ لا محالہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذاتِ اقدس بھی اُسے فائدہ نہ پہنچا سکی ۔ (یعنی ابو طالب ایمان کی دولت سے محروم رہے) ۔ (کشف المحجوب مترجم صفحہ نمبر 448 مطبوعہ مکتبہ شمس و قمر جامعہ حنفیہ غوثیہ بھاٹی چوک لاہور،چشتی)
استدلال میں سے ابو طالب سے بڑھ کر کوئی نہ تھا اور حقانیت کی دلیل حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بزرگ تر کچھ نہیں ہو سکتی تھی ، ابو طالب کےلیئے چونکہ بد بختی کا حکم جاری ہو چکا تھا ۔ (توفیق الٰہی اُن کے مقدر میں نہ تھی) ۔ لا محالہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذاتِ اقدس بھی اُسے فائدہ نہ پہنچا سکی ۔ (توفیق الٰہی اُن کے مقدر میں نہ تھی) ۔ (یعنی ابو طالب ایمان کی دولت سے محروم رہے) ۔ (کشف المحجوب مترجم قدیم صفحہ نمبر 432 مطبوعہ ناشرانِ قرآن لمیٹڈ اردو بازار لاہور)
امامُ العارفین ، محبوبِ یزدانی حضرت سلطان سیّد مخدوم اشرف سمنانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چچاؤں میں سے ابو طالب تھے جن کا انتقال حالتِ کفر میں ہوا ۔ (لطائفِ اشرفی فارسی حصّہ دوم صفحہ نمبر 315 مطبوعہ مکتبہ سمنانی فردوس کالونی کراچی،چشتی)،(لطائفِ اشرفی اردو حصّہ سوئم صفحہ نمبر 499)
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چچاؤں میں سے بجز حضرت امیر حمزہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما کے کوئی مسلمان نہ ہوا ۔ ابو طالب اور ابو لہب نے زمانہ اسلام کا پایا لیکن اس کی توفیق نہ پائی جمہور علماء کا یہی مذہب ہے ۔ (مدارج النبوت مترجم اردو جلد دوم صفحہ نمبر 576 مطبوعہ ضیاء القرآن پبلیکیشنز لاہور پاکستان،چشتی)
سلطان التارکین بُرھانُ العاشقین حضرت خواجہ سلیمان تونسوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مختار ہیں جو کام کیا اللہ عز و جل کی اجازت سے کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بہت کوشش کی میرا چچا ابو طالب ایمان لے آئے مگر ابو طالب نے کہا مجھے شرم آتی ہے لوگ کیا کہیں گے بھتیجے کی اطاعت کر لی میں نے اس عار کی وجہ سے دوزخ کو اختیار کر لیا ہے ۔ اخترت النار علی العار ۔ (نافع السالکین مترجم اردو صفحہ نمبر 357، چشتی)،(نافع السالکین مترجم اردو صفحہ نمبر 365 مطبوعہ شعاع ادب مسلم مسجد چوک انار کلی لاہور)
امام احمد رضا قادری محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اس میں شک نہیں کہ ابوطالب تمام عمر حضور سیّد المرسلین سیّدالاولین و الاخرین سیدالابرار صلی اﷲ تعالٰی علیہ وعلی آل وسلم الٰی یوم القرار کی حفظ و حمایت و کفایت و نصرت میں مصروف رہے ۔ اپنی اولاد سے زیادہ حضور کو عزیز رکھا، اور اس وقت میں ساتھ دیا کہ ایک عالم حضور کا دشمنِ جاں ہوگیا تھا ، اور حضور کی محبت میں اپنے تمام عزیزون قریبیوں سے مخالفت گوارا کی ، سب کو چھوڑ دینا قبول کیا ، کوئی دقیقہ غمگساری و جاں نثاری کا نامرعی نہ رکھا ، اور یقیناً جانتے تھے کہ حضور افضل المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اﷲ کے سچے رسول ہیں ، ان پر ایمان لانے میں جنت ابدی اور تکذیب میں جہنم دائمی ہے ، بنوہاشم کو مرتے وقت وصیت کی کہ محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تصدیق کرو فلاح پاؤ گے ، نعت شریف میں قصائدان سے منقول ، اور اُن میں براہ فراست وہ امور ذکر کیے کہ اس وقت تک واقع نہ ہوئے تھے ۔ بعد بعثت شریف ان کا ظہور ہوا، یہ سب احوال مطالعہ احادیث و مراجعتِ کُتب سیر سے ظاہر ، ایک شعر ان کے قصیدے کا صحیح بخاری شریف میں بھی مروی :
وابیض یستسقی الغمام بوجھہ مال الیتامٰی عصمۃ للارامل
ترجمہ : وہ گورے رنگ والے جن کے رُوئے روشن کے توسّل سے مینہ برستا ہے ، یتیموں کے جائے پناہ بیواؤں کے نگہبان صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔ ت)
(صحیح البخاری ابواب الاستسقاء باب سوال الناس الامام الاستسقاء قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۳۷)
محمد بن اسحٰق تابعی صاحبِ سیر و مغازی نے یہ قصیدہ بتما مہما نقل کیا جس میں ایک سو ۱۱۰ دس بیتیں مدحِ جلیل و نعتِ منیع پر مشتمل ہیں ۔ شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ ، شرح سفر السعادۃ میں اس قیصدہ کی نسبت فرماتے ہیں : دلالت صریح داروبرکمال محبت ونہایت نبوت او ، انتہی ۔
ترجمہ : یہ قصیدہ ابوطالب کی رسول ا ﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ کمال محبت اور آپ کی نبوت کی انتہائی معرفت پر دلالت کرتا ہے ۔ (ت) ۔ (شرح سفر السعادۃ فصل دربیان عیادت بیماراں مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ص ۲۴۹)
مگر مجردان امور سے ایمان ثابت نہیں ہوتا ۔ کاش یہ افعال واقوال اُن سے حالتِ اسلام میں صادر ہوتے تو سیّدنا عباس بلکہ ظاہراً سیّدنا حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے بھی افضل قرار پاتے اور افضل الاعمام حضور افضل الانام علیہ وعلٰی آلہ وافضل الصلوۃ والسلام کہلائے جاتے ۔ تقدیر الہٰی نے بربنا اُس حکمت کے جسے وہ جانے یا اُس کا رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم انہیں گروہِ مسلمین و غلامانِ شفیع المذنبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں شمار کیا جانا منظور نہ فرمایا فاعتبروایا اولی الابصار ۔ ( القرآن الکریم ۵۹/ ۲ ) (تو عبر ت لو اے نگاہ والو! ت) ۔ (شرح المطالب فی مبحث ابی طالب(۱۳۱۶ھ)،(مطالب کی وضاحت ابُوطالب کی بحث میں)
محترم قارئینِ کرام : ان تمام دلائل کے باوجود بعض ناہنجاروں کی طرف سے صرف اکابرین اہلسنت میں سے بعض کو تنقید کا نشانہ بنانا ، سوقیانہ جملے کسنا اُن کے بغض باطن کی دلیل نہیں تو کیا ہے ؟ کبھی ان لوگوں نے سوچا کہ اِن کی نفرت و غلاظت کی زد میں کون کون آرہا ہے ؟ اللہ تعالیٰ جملہ اہلسنّت کو اِن فتنہ پروروں اور فتنوں سے محفوظ فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment