Saturday, 18 September 2021

عورت اور مرد کی نماز میں فرق حصہ اول

 عورت اور مرد کی نماز میں فرق حصہ اول

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : مرد اور عورت کی جسمانی ساخت میں جو فرق پایا جاتا ہے ، شریعت کی رُو سے شرعی اَحکام و مسائل میں بھی ان کا پاس و لحاظ رکھا گیا ہے۔ طہارت کے مسائل ہوں یا حج کے ، روزہ کے مسائل ہوں یا زکوٰۃ کے ، عورت کے عورت ہونے کا کسی نہ کسی حکم سے اِظہار ہو جاتا ہے جس طرح نمازِ جمعہ و عیدین مردوں پر فرض ہے عورتوں پر نہیں ۔ اِسی طرح نماز جیسی افضل عبادت میں بھی بعض مخصوص مواقع پر عورت کا طریقہ نماز مرد سے مختلف رکھا گیا تاکہ عورت کے پردہ کا لحاظ رکھا جائے ۔ اس کے اعضائے نسوانی کا اعلان و اظہار نہ ہو مثلاً عورت نماز میں تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ کندھے تک اٹھاتی ہے جبکہ مرد کانوں کی لو تک، مردوں کو سجدہ میں پیٹ رانوں سے اور بازو بغل سے جدا رکھنے کا حکم ہے ۔ جبکہ عورت کو سمٹ کر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ کہ وہ سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو اپنی دونوں رانوں سے چپکائے ۔ امام بیہقی علیہ الرحمہ نے لکھی ہے : اجماع مایفارق المرأۃ فیه للرجل من احکام الصلاۃ راجع الستروهی انما مامورۃ بکل ما هو استر لها ۔ (بیہقی:۲؍۲۲۲)

ترجمہ : جامع بات یہ ہے کہ نماز کے ان احکام کی بنیادجن میں مردوعورت میں فرق ہے ،پردہ پوشی اور ستر ہے ،عورت کو ہر اس کام کا حکم دیا گیا ہے جو اس کے لئے زیادہ پردہ کا باعث ہے ۔


حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِکٌ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ: أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہٖ لَقَدْ ہَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ، فَیُحْطَبَ، ثُمَّ آمُرَ بِالصَّلاَۃِ، فَیُؤَذَّنَ لَہَا، ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَیَؤُمَّ النَّاسَ، ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَی رِجَالٍ، فَأُحَرِّقَ عَلَیْہِمْ بُیُوتَہُمْ، ۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ : ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اس ذات پاک کی قسم جس کی قبضے میں میری جان ہے میں نے ارادہ کیا کہ کچھ لوگوں کو لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں پھر نماز کے لئے اذان کہنے کا حکم دوں پھر کسی کو حکم دوں کہ وہ اقامت کرے اس کے بعد انہیں چھوڑ کر ان لوگوں کی طرف جاؤں جو جماعت میں حاضر نہیں اور ان کے گھروں کو جلا ڈالوں ۔ (صحیح بخاری،ج 1، کِتَابُ الْاذَان، باب وُجُوْبِ الصَّلوٰۃِ الْجَمَاعَۃِ، ص300، حدیث613،چشتی)


حَدَّثَنَا خَلَفٌ، قَالَ:حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ، عَنْ سَعِیدٍ الْمَقْبُرِیِّ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ :لَوْلَا مَا فِی الْبُیُوتِ مِنَ النِّسَاء وَالذُّرِّیَّۃِ، لَأَقَمْتُ الصَّلَاۃَ، صَلَاۃَ الْعِشَاء، وَأَمَرْتُ فِتْیَانِی یُحْرِقُونَ مَا فِی الْبُیُوتِ بِالنَّارِ” ۔

ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اگر گھروں میں عورتیں اور بچے نہ ہوتے تو میں نماز عشا کا حکم دے کر خادموں کو حکم دیتا کہ وہ ان کے گھروں کو آگ سے جلا ڈالیں ۔ (مسند امام احمد، مُسْنَدِ اَبِی ہُرَیْرَہ، حدیث8796)

نوٹ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتوں اور بچوں پر جماعت نہیں ہے ۔


حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّی، أَنَّ عَمْرَو بْنَ عَاصِمٍ، حَدَّثَہُمْ قَالَ: حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ مُوَرِّقٍ، عَنْ أَبِی الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللَّہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: صَلَاۃُ الْمَرْأَۃِ فِی بَیْتِہَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِہَا فِی حُجْرَتِہَا، وَصَلَاتُہَا فِی مَخْدَعِہَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِہَا فِی بَیْتِہَا۔

ترجمہ : حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ عورت کی نماز گھر میں پڑھنا اس کے صحن میں پڑھنے سے بہتر ہے اور گھر کی کوٹھری میں پڑھنا اس کے گھر میں پڑھنے سے بہتر ہے ۔ (سنن ابو داؤد، ج1کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب مَا جَاء فِی خُرُوجِ النِّسَاء إِلَی الْمَسْجِدِ، ص253، حدیث567) ، شیخ ناصر البانی نے اس حدیث کو صحیح کہا ۔


بعض لوگ بخاری شریف کی اس حدیث : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے روایت کی ہے کہ تمہاری عورتیں جب رات کے وقت تم سے مسجد کی طرف جانے کی اجازت مانگیں تو انہیں اجازت دے دیا کرو ۔ (بخاری، کتاب الاذان، حدیث 820) ، کو دلیل بناتے ہیں کہ عورتوں کو مسجدوں سے روکنا غلط ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بارگاہ میں نہایت گستاخی اور بے ادبی کا مظاہرہ اس انداز میں کرتے ہیں گویا بے ادبی اور گستاخی ان کو وراثت میں ملی ہے ۔ دیکھئے ان کی گستاخی ، کہتے ہیں : جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اجازت دی ہے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کون ہوتے ہیں منع کرنے والے ، معاذ اللہ ایسے جملے اپنی زبان سے ادا کرنے سے پہلے ذرا یہ سوچ لیا ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لئے ہی فرمایا کہ ’’جس راستے پر حضرت عمر چلتے ہیں تو شیطان اپنا راستہ بدل لیتا ہے ۔‘‘ اور فرمایا کہ ’’میرے بعد کوئی نبی ہوتے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہوتے ۔‘‘ تو شاید ایسی گستاخی کرنے سے رک جاتے ۔ مگر صحیح کہا کسی نے کہ ’’ خدا جب دین لیتا ہے تو عقلیں چھین لیتا ہے ۔‘‘بہر حال یہ ان کی گستاخانہ ذہنیت کی دلیل ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل و کرم ہے کہ اس نے ہم سنیوں کو گستاخ نہیں بنایا ۔ اور عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور عشق صحابہ رضی اللہ عنہم و اولیاءاللہ علیہم الرّحمہ ہمارے دلوں میں موجزن فرمایا ۔

رہی بات حدیث بخاری شریف کی تو اس حدیث میں مسجد حرام اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں عورتوں کی حاضری کو روکنے سے منع کیا گیا تھا پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں مذکورہ مسجدوں سے بھی روک دیا گیا ۔ آنے والی حدیث کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ مسجد حرام اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے علاوہ دیگر مسجدوں میں عورتوں کے لئے نماز مناسب نہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ، ثنا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ، ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ، عَنْ أَبِی عَمْرٍو الشَّیْبَانِیِّ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: مَا صَلَّتِ الْمَرْأَۃُ فِی مَکَانٍ خَیْرٌ لَہَا مِنْ بَیْتِہَا إِلَّا أَنْ یَکُونَ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ، أَوْ مَسْجِدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَّا امْرَأَۃً تَخْرُجُ فِی مَنْقَلَیْہَا یَعْنِی خُفَّیْہَا ۔

ترجمہ : حضرت عبد اللہ مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عورت کی نماز مکان کے اندرونی حصہ سے زیادہ بہتر کہیں نہیں سوائے مسجد حرام اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے مگر یہ کہ وہ اپنے موزے پہن کر نکلے ۔ (اَلمُعْجَمُ الْکَبِیْر لِلْطِبْرَانِی، باب عین 1، 9472،چشتی)


حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِکٌ، عَنْ یَحْییٰ بْنِ سَعِیدٍ، عَنْ عَمْرَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، قَالَتْ: لَوْ أَدْرَکَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا أَحْدَثَ النِّسَاء لَمَنَعَہُنَّ کَمَا مُنِعَتْ نِسَاء بَنِی إِسْرَائِیلَ قُلْتُ لِعَمْرَۃَ: أَوَمُنِعْنَ؟ قَالَتْ: نَعَمْ ۔

ترجمہ : ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا : اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دیکھ لیتے جو بعد میں عورتوں نے کیا تو انہیں مسجدوں سے روک دیتے جیسے بنی اسرائیل کی عورتیں روکی گئی تھیں ۔ میں (یحییٰ) نے عمرہ سے کہا : کیا وہ منع کی گئی تھیں فرمایا ، ہاں ۔ (صحیح بخاری،ج 1، کِتَابُ الْاذَان، باب خُرُوجِ النِّسَاء إِلَی المَسَاجِدِ، ص369-370، حدیث824)


عورتوں کا سجدہ


حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِیٍّ، قَالَ: إِذَا سَجَدَتِ الْمَرْأَۃُ فَلْتَحْتَفِرْ وَلْتَضُمَّ فَخِذَیْہَا ۔

ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عورت جب سجدہ کرے تو بہت سمٹ کر سجدہ کرے اور رانوں کو آپس میں ملا لے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، ج1,کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب الْمَرْأَۃُ کَیْفَ تَکُونُ فِی سُجُودِہَا؟، حدیث2777)


حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ قَالَ: نا جَرِیرٌ، عَنْ لَیْثٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَضَعَ الرَّجُلُ بَطْنَہُ عَلَی فَخِذَیْہِ إِذَا سَجَدَ کَمَا تَضَعُ الْمَرْأَۃُ ۔

ترجمہ : حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مرد کے لئے یہ مکروہ ہے کہ سجدہ میں اپنے پیٹ کو اپنی رانوں پر رکھے جیسا کہ عورت رکھتی ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، ج1,کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب الْمَرْأَۃُ کَیْفَ تَکُونُ فِی سُجُودِہَا؟، حدیث2780)


حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ قَالَ: نا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ، قَالَ: إِذَا سَجَدَتِ الْمَرْأَۃُ فَلْتَلْزَقْ بَطْنَہَا بِفَخِذَیْہَا، وَلَا تَرْفَعْ عَجِیزَتَہَا، وَلَا تُجَافِی کَمَا یُجَافِی الرَّجُلُ ۔

ترجمہ : حضرت ابراہیم نخعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عورت جب سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو رانوں سے ملا لے اور اپنی سرین کو زیادہ نہ اٹھائے، اعضاء کو ایک دوسرے سے دور نہ رکھے جیسے مرد دور رکھتے ہیں ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، ج1,کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب الْمَرْأَۃُ کَیْفَ تَکُونُ فِی سُجُودِہَا؟، حدیث2782)


عورت نماز میں کس طرح بیٹھیں ؟


حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ قَالَ: نا إِسْمَاعِیلُ بْنُ عُلَیَّۃَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ زُرْعَۃَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلَاجِ، قَالَ: کُنَّ النِّسَاء یُؤْمَرْنَ أَنْ یَتَرَبَّعْنَ إِذَا جَلَسْنَ فِی الصَّلَاۃِ، وَلَا یَجْلِسْنَ جُلُوسَ الرِّجَالِ عَلَی أَوْرَاکِہِنَّ، یُتَّقیٰ ذَلِکَ عَلَی الْمَرْأَۃِ مَخَافَۃَ أَنْ یَکُونَ مِنْہَا الشَّیْئُ۔

ترجمہ : خالد بن لجلاج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عورتوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ وہ چوکڑی مار کر بیٹھیں، مردوں کی طرح اپنی سرین کو پاؤں پر رکھ کر نہ بیٹھیں ، ۔۔۔۔۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، ج1,کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب فِی الْمَرْأَۃِ کَیْفَ تَجْلِسُ فِی الصَّلَاۃِ؟، حدیث نمبر 2783،چشتی)


حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ قَالَ: نا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَطَاء ٍ: تَجْلِسُ الْمَرْأَۃُ فِی مَثْنًی عَلَی شِقِّہَا الْأَیْسَرِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: ہُوَ أَحَبُّ إِلَیْکَ مِنَ الْأَیْمَنِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: تَجْتَمِعُ جَالِسَۃً مَا اسْتَطَاعَتْ، قُلْتُ: تَجْلِسُ جُلُوسَ الرَّجُلِ فِی مَثْنًی، أَوْ تُخْرِجُ رِجْلَہَا الْیُسْرَی مِنْ تَحْتِ أَلْیَتِہَا؟ قَالَ: لَا یَضُرُّہَا أَیُّ ذَلِکَ جَلَسَتْ إِذَا اجْتَمَعَتْ ۔

ترجمہ : حضرت ابن جریج رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عطا رضی اللہ عنہ سے عرض کی کہ عورت ہماری طرح بائیں طرف بیٹھیں گی ؟ انہوں نے فرمایا ہاں ۔ میں نے کہا بائیں طرف بیٹھنا مجھے دائیں طرف بیٹھنے سے زیادہ پسند ہے ۔ انہوں نے کہا : ہاں بیٹھے مگر جتنی طاقت رکھے اتنی ہی سمٹ کر مجتمع (سمٹ) ہو کر بیٹھے ۔ میں نے عرض کی مردوں کی طرح بیٹھے جیسے ہم بیٹھتے ہیں یا اپنا بایاں پاؤں سرین کے نیچے سے باہر نکال کر بیٹھے ؟ انہوں نے فرمایا کوئی ضرر نہیں البتہ بیٹھے مجتمع ہو کر یعنی سمٹ کر ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، ج1,کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب فِی الْمَرْأَۃِ کَیْفَ تَجْلِسُ فِی الصَّلَاۃِ؟، حدیث2791،چشتی)


عَنْ وَاِئلِ بْنِ حُجْرٍقَالَ قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَا وَائِلَ بْنَ حُجْرٍ! اِذَا صَلَّیْتَ فَاجْعَلْ یَدَیْکَ حِذَائَ اُذُنَیْکَ وَالْمَرْاَۃُ تَجْعَلُ یَدَیْھَا حِذَائَ ثَدْیَیْھَا ۔

ترجمہ : حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے وائل بن حجر!جب تو نماز پڑھے تو اپنے ہاتھ اپنے کانوں کے برابر اٹھا اور عورت کے لیے فرمایا کہ وہ اپنی چھاتیوں کے برابر ہاتھ اٹھائے ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی ج 9ص 144حدیث نمبر17497)


عَنْ سَالِمِ الْبَرَّادِ قَالَ: اَتیْنَا عُقْبَۃَ بْنَ عَمْروٍ الْاَنْصَارِی اَبَا مَسْعُوْدٍ فَقُلْنَا لَہٗ حَدِّثْناَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَامَ بَیْنَ اَیْدِیْنَا فِی الْمَسْجِدِ فَکَبَّرَ فَلَمَّارَکَعَ وَضَعَ یَدَیْہِ عَلٰی رُکْبَتَیْہِ وَجَعَلَ اَصَابِعَہٗ اَسْفَلَ مِنْ ذٰلِکَ وَ جَافٰی بَیْنَ مِرْفَقَیْہِ ۔

ترجمہ : حضرت سالم البراد رحمہ اللہ (تابعی) کہتے ہیں کہ ہم ابو مسعود عقبۃ بن عمرو الانصاری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ ہم نے کہا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں بتائیں؟ تو وہ مسجد میں ہمارے سامنے کھڑے ہو گئے، پس تکبیر کہی۔ پھر جب رکوع کیا تو اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھااور اپنی انگلیوں کو اس سے نیچے کیااور اپنی کہنیوں کو اپنے پہلو سے دور رکھا ۔ (سنن ابی داود ج1 ص 133باب صلوۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع والسجود)


غیر مقلد عالم ابو محمد عبد الحق ہاشمی نے رکوع‘ سجود‘ قعود میں مرد و عورت کے فرق پر ایک رسالہ بنام : ’’نصب العمود فی مسئلۃ تجافی المرأۃ فی الرکوع و السجود و القعود.‘‘ تصنیف کیا۔ اس میں ابن حزم ظاہری اور جمہور علماء کے موقف کو نقل کر کے لکھتے ہیں : عِنْدِیْ بِالْاِخْتِیَارِ قَوْلُ مَنْ قَالَ:اِنَّ الْمَرْأۃَ لَاَ تُجَافِیْ فِی الرُّکُوْعِ… لِاَنَّ ذٰلِکَ اَسْتَرُ لَھَا ‘‘ ۔ (نصب العمود فی مسئلۃ تجافی المرأۃ فی الرکوع و السجود و القعود صفحہ نمبر52)

ترجمہ : میرے نزدیک ان لوگوں کا مذہب راجح ہے جو یہ کہتے ہیں کہ عورت رکوع میں اعضاء کو کشادہ نہ کرے…… کیونکہ یہ کیفیت اس کے جسم کو زیادہ چھپانے والی ہے ۔


عَنْ اَبِیْ حُمَیْدٍ فِیْ صِفَۃِ صَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:وَاِذَ ا سَجَدَ فَرَّجَ بَیْنَ فَخِذَیْہِ غَیْرَ حَامِلٍ بَطَنَہٗ عَلٰی شَیْ ئٍ مِّنْ فَخِذَیْہِ ۔

ترجمہ : حضرت ابو حمید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تھے تو پیٹ کو رانوں سے بالکل نہیں ملاتے تھے ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی ج 2ص115)


وَعَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاِذَا سَجَدَتْ اَلْصَقَتْ بَطْنَھَا فِیْ فَخْذِھَاکَاَسْتَرِ مَا یَکُوْنُ لَھَافَاِنَّ اللّٰہَ یَنْظُرُ اِلَیْھَا وَ یَقُوْلُ: یَا مَلَائِکَتِیْ! اُشْھِدُکُمْ اَنِّیْ قَدْ غَفَرْتُ لَھَا ۔

ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب عورت سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو رانوں کے ساتھ ملا دے کیونکہ یہ کیفیت اس کے جسم کو زیادہ چھپانے والی ہے اور اللہ تعالی عورت کی اس حالت کو دیکھ کر فرماتے ہیں اے میرے فرشتو! میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اس کو بخش دیا ہے ۔ (الکامل لابن عدی ج 2ص631)


عَنْ مُجَاھِدٍ کَانَ یَکْرَہُ اَنْ یَضَعَ الرَّجُلُ بَطَنَہٗ عَلٰی فَخِذَیْہِ اِذَا سَجَدَ کَمَا تَضَعُ الْمَرْاَۃُ ۔

ترجمہ : حضرت مجاہد (تابعی) رحمہ اللہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ مرد جب سجدہ کرے تو عورت کی طرح پیٹ کو اپنی رانوں پر رکھے ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ ج1 ص302 باب المراۃ کیف تکون فی سجودھا)


عَنْ اَبِیْ اِسْحَاقَ قَالَ وَصَفَ لَنَا الْبَرَائُ بْنِ عَازِبٍ فَوَضَعَ یَدَیْہِ عَلٰی رُکْبَتَیْہِ وَ رَفَعَ عَجِیْزَتَہٗ وَ قَالَ ھٰکَذَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْجُدُ ۔

ترجمہ : حضرت ابو اسحاق(تابعی) رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سجدہ کا طریقہ بتایا۔چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر رکھااور اپنی سرین کو اونچا کیااور فرمایا کی بنی علیہ السلام اسی طرح سجدہ کرتے تھے ۔ (سنن ابی داود ج 1ص137 باب صفۃ السجود، سنن النسائی ج 1ص166 باب صفۃ السجود،چشتی)


عَنِ الْحَسَنِ وَ قَتَادَۃَ قَالاَ: اِذَا سَجَدَتِ الْمَرْاَۃُ فَاِنَّھَا تَنْضَمُّ مَا اسْتَطَاعَتْ وَ لَا تُجَافِیْ لِکَیْ لَا تَرْتَفِعُ عَجِیْزَتُھَا ۔

ترجمہ : حضرت حسن بصری(تابعی) اور حضرت قتادہ (تابعی) رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جب عورت سجدہ کرے تو جس حد تک سمٹ سکتی ہے‘ سمٹنے کی کوشش کرے اور اعضاء کو کشادہ نہ کرے تاکہ اس کی سرین اونچی نہ ہو ۔ (مصنف عبد الرزاق ج 3ص137)


عَنْ مَیْمُوْنَۃَ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا سَجَدَ جَافٰی یَدَیْہِ حَتّٰی لَوْ اَنَّ بَھْمَۃً اَرَادَتْ اَنَّ تَمَرَّ تَحْتَ یَدَیْہِ مَرَّتْ ۔

ترجمہ : حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو اپنے بازؤں کو زمین اور پہلو سے اتنا دور رکھتے کہ اگر بکری کا بچہ بازؤں کے نیچے سے گزرنا چاہتا تو گزر سکتا ۔ (سنن النسائی ج1 ص167 باب التجافی فی السجود)


عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ ۔ وَ قَالَ : اِنَّمَا سُنَّۃُ الصَّلَاۃِاَنْ تَنْصَبَ رِجْلَکَ الْیُمْنٰی وَ تَثْنِی الْیُسْریٰ ۔

ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’نماز میں بیٹھنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ آپ دائیں پاؤں کو کھڑا رکھیں اوربائیں پاؤں کو بچھا دیں ۔ (الصحیح للبخاری ج 1ص 114باب سنۃ الجلوس فی التشھد)


عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْرِشُ رِجْلَہٗ الْیُسْریٰ وَ یَنْصِبُ رِجْلَہٗ الْیُمْنٰی ۔

ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بائیں پاؤں کو بچھاتے اور اپنے دائیں پاؤں کو کھڑا رکھتے تھے ۔ (الصحیح لمسلم ج1 ص195 باب صفۃ الجلوس بین السجدتین و فی التشھد الاول)


عَنِ ابْنِ عُمَرَ اَنَّہٗ سُئِلَ کَیْفَ کَانَ النِّسَائُ یُصَلِّیْنَ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: کُنَّ یَتَرَبَّعْنَ ثُمَّ اُمِرْنَ اَنْ یَّحْتَفِزْنَ ۔

ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عورتیں کیسے نماز پڑھتی تھیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیاکہ وہ پہلے قعدہ میں آلتی پالتی مار کر بیٹھتی تھیں‘ پھر ان کو حکم دیا گیا کہ اپنی سرینوں پر بیٹھا کریں ۔ (جامع المسانید ج 1ص400،چشتی)


عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَقَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:صَلٰوۃٌ مَعَ الْاِمَامِ اَفْضَلُ مِنْ خَمْسٍ وَّ عِشْرِیْنَ صَلٰوۃً یُصَلِّیْھَا وَاحِدٌ ۔

ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’امام کے ساتھ نماز پڑھنا تنہا پچیس نمازیں پڑھنے سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے ۔ (الصحیح لمسلم ج 1ص 231)


عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: صَلٰوۃُ الْمَرْاَۃِ وَحْدَھَا اَفْضَلُ عَلٰی صَلٰوتِھَا فِی الْجَمْعِ بِخَمْسٍ وَّ عِشْرِیْنَ دَرَجَۃً ۔

ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عورت کا اکیلے نماز پڑھنا اس کی نماز با جماعت پر پچیس گنا فضیلت رکھتی ہے ۔ (التیسیر الشرح لجامع الصغیر للمناوی ج2 ص195‘ جامع الاحادیث للسیوطی ج 13ص497 حدیث نمبر13628)


عَنْ اُمِّ حُمَیْدٍ اِمْرَأۃِ اَبِیْ حُمَیْدِ السَّاعِدِیِّ اَنَّھَا جَائَتْ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!اِنِّیْ اُحِبُّ الصَّلٰوۃَ مَعَکَ۔ قَالَ قَدْ عَلِمْتُ اَنَّکِ تُحِبِّیْنَ الصَّلٰوۃَ مَعِیْ وَ صَلٰوتُکِ فِیْ بَیْتِکِ خَیْرٌ مِّنْ صَلاَ تِکِ فِیْ حُجْرَتِکِ وَ صَلٰوتُکِ فِیْ حُجْرَتِکِ خَیْرٌ مِّنْ صَلٰوتِکِ فِیْ دَاِرکِ وَ صَلٰوتُکِ فِیْ دَارِکِ خَیْرٌ مِنْ صَلٰوتِکِ فِیْ مَسْجِدِ قَوْمِکِ وَ صَلٰوتُکِ فِیْ مَسْجِدِ قَوْمِکِ خَیْرٌ مِّنْ صَلٰوتِکِ فِیْ مَسْجِدِیْ۔قَالَ فَاَمَرَتْ فَبُنِیَ لَھَا مَسْجِدٌ فِیْ اَقْصٰی شَیْئٍ مِنْ بَیْتِھَا وَ اَظْلَمِہٖ وَ کَانَتْ تُصَلِّیْ فِیْہِ حَتّٰی لَقِیَتِ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ ۔

ترجمہ : حضرت ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ کی بیوی ام حمید رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اورعرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے کو پسند کرتی ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں جانتا ہوں کہ تو میرے ساتھ نماز پڑھنے کو پسند کرتی ہے۔(لیکن) تیرا اپنے گھر میں نماز پڑھنا تیرے حجرے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے‘ اور تیرا حجرے میں نماز پڑھنا چار دیواری میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے‘چاردیواری میں نماز پڑھنا تیری قوم کی مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور قوم کی مسجد میں نماز پڑھنا میری مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ حضرت ام حمید رضی اللہ عنہا نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منشا سمجھ کر) اپنے گھر والوں کو حکم دیا تو ان کے لیے گھر کے دور اور تاریک ترین گوشہ میں نماز کی جگہ بنا دی گئی۔ وہ اپنی وفات تک اسی میں نماز پڑھتی رہیں ۔ (الترغیب والترھیب للمنذری ج1 ص225 باب ترغیب النساء فی الصلاۃ فی بیوتھن و لزومھا و ترھیبھن من الخروج منھا،چشتی)


مرد و عورت کی نماز کا فرق اور فقہاء اربعہ


(1) : قَالَ الْاِمَامُ الْاَعْظَمُ فِی الْفُقَھَائِ اَبُوْحَنِیْفَۃَ:وَالْمَرْاَۃُ تَرْفَعُ یَدَیْھَاحِذَائَ مَنْکَبَیْھَا ھُوَ الصَّحِیْحُ لِاَنَّہٗ اَسْتَرُ لَھَا ۔ (الھدایۃ فی الفقہ الحنفی ج1 ص84 باب صفۃ الصلوۃ) وَقَالَ اَیْضاً:وَالْمَرْاَۃُ تَنْخَفِضُ فِیْ سُجُوْدِھَاوَتَلْزَقُ بَطْنَھَا بِفَخْذَیْھَا لِاَنَّ ذٰلِکَ اَسْتَرُ لَھَا۔ (الھدایۃ فی الفقہ الحنفی ج1 ص92)

ترجمہ : امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عورت اپنے ہاتھوں کو اپنے کندھوں تک اٹھائے کیونکہ اس میں پردہ زیادہ ہے ۔

مزید فرمایا : عورت سجدوں میں اپنے جسم کو پست کرے اور اپنے پیٹ کو اپنی رانوں کے ساتھ ملائے کیونکہ اس کے جسم کو زیادہ چھپانے والا ہے ۔

(2) : قَالَ الْاِمَامُ مَالِکُ بْنُ اَنَسٍ:وَالْمَرْاَۃُ دُوْنَ الرَّجُلِ فِی الْجَھْرِ وَھِیَ فِیْ ھَیْاَۃِ الصَّلاَۃِ مِثْلَہٗ غَیْرَ اَنَّھَا تَنْضَمُّ وَ لاَ تُفَرِّجُ فَخْذَیْھَا وَلاَ عَضُدَیْھَاوَتَکُوْنُ مُنْضَمَّۃً مُتَرَوِّیَۃً فِیْ جُلُوْسِھَا وَسُجُوْدِھَا وَاَمْرِھَا کُلِّہٖ۔ (رسالۃ ابن ابی زید القیروانی المالکی ص34)

ترجمہ : اما م مالک بن انس رحمہ اللہ نے فرمایا:عورت کی نماز کی کیفیت مرد کی نماز کی طرح ہے مگر یہ کہ عورت سمٹ کر نماز پڑھے ‘ اپنی رانوں اور بازؤں کے درمیان کشادگی نہ کرے اپنے قعود‘ سجود اور نماز کے تمام احوال میں ۔

(3) : قَالَ الْاِمَامُ مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ الشَّافَعِیّ:وَقَدْ اَدَّبَ اللّٰہُ النِّسَائَ بِالْاِسْتِتَارِ وَاَدَّبَھُنَّ بِذَالِکَ رَسُوْلُہٗ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاُحِبُّ لِلْمَرْاَۃِ فِی السُّجُوْدِ اَنْ تَنْضَمَّ بَعْضَھَااِلٰی بَعْضٍ وَتَلْصَقُ بَطَنَھَا بِفَخِذَیْھَا وَتَسْجُدُ کَاَسْتَرِمَایَکُوْنُ لَھَاوَھٰکَذَا اُحِبُّ لَھَا فِی الرُّکُوْعِ وَ الْجُلُوْسِ وَجَمِیْعِ الصَّلَاۃِ اَنْ تَکُوْنَ فِیْھَا کَاَسْتَرِ َمایَکُوْنُ لَھَا ۔ (کتاب الام للشافعی ج 1ص 286ص 287باب التجافی فی السجود)

ترجمہ : امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:اللہ تعالی نے عورت کو پردہ پوشی کا ادب سکھایا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی ادب سکھایا ہے۔ اس ادب کی بنیاد پر میں عورت کے لیے یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ سجدہ میں اپنے بعض اعضاء کو بعض کے ساتھ ملائے اور اپنے پیٹ کو رانوں کے ساتھ ملا کر سجدہ کرے‘ اس میں اس کے لیے زیادہ ستر پوشی ہے۔ اسی طرح میں عورت کے لیے رکوع ،قعدہ اور تمام نماز میں یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ نماز میں ایسی کیفیات اختیار کرے جس میں اس کے لیے پردہ پوشی زیادہ ہو ۔

(4) : قَالَ الْاِمَامَ اَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ:وَالْمَرْاَۃُ کَالرَّجُلِ فِیْ ذٰلِکَ کُلِّہٖ اَنَّھَا تَجْمَعُ نَفْسَھَا فِی الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ وَتَجْلِسُ مُتَرَبِّعَۃً اَوْتَسْدُلُ رِجْلَیْھَافَتَجْعَلُھُمَا فِیْ جَانِبِ یَمِیْنِھَا۔۔۔۔۔ قَالَ اَحْمَدُ:اَلسَّدْلُ اَعْجَبُ اِلَیَّ ۔ (الشرح الکبیر لابن قدامۃ ج1 ص599 ‘ المغنی لابن قدامۃ ج1 ص635،چشتی)

ترجمہ : امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا: سب احکام میں مرد کی طرح ہے مگر رکوع و سجود میں اپنے جسم کو سکیڑ کر رکھے اور آلتی پالتی مار کر بیٹھے یا اپنے دونوں پاؤں اپنی دائیں جانب نکال کر بیٹھے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا:’’عورت کا اپنے دونوں پاؤں اپنی دائیں جانب نکال کر بیٹھنا میرے ہاں پسندیدہ عمل ہے ۔


چند محدثین کرام علیہم الرّحمہ کے نام جنہوں نے مرد و عورت کی نماز میں فرق بیان کیا :

امام ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ م96ھ۔ آپ محدث و مفتی کوفہ ہیں ۔

امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ م102ھ۔ محدث و مفتی مکہ ہیں ۔

امام عامر الشعبی رحمۃ اللہ علیہ م104ھ۔ آپ کی 500صحابہ رضی اللہ عنہم سے ملاقات ثابت ہے ۔ کوفہ کے بہت بڑے محدث‘ فقیہ‘ مفتی اور مغازی کے امام تھے ۔

امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ م 110ھ۔ بصرہ کے محدث اور مفتی تھے ۔

امام عطاء رحمۃ اللہ علیہ م114ھ۔ آپ محدث و مفتی مکہ ہیں ۔


مولانا عبد الحئی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ کا فیصلہ فرماتے ہیں : قَالَ الْاِمَامُ عَبْدُ الْحَئْیِ اللَّکْنَوِیِّ: وَاَمَّا فِیْ حَقِّ النِّسَائِ فَاتَّفَقُوْاعَلٰی اَنَّ السُّنَّۃَ لَھُنَّ رَفْعُ الْیَدَیْنِ عَلَی الصَّدْرِ لِاَنَّھَامَا اَسْتَرُ لَھَا ۔

ترجمہ : عورتوں کے حق میں علماء نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ اس کے لیے سینہ تک ہاتھ اٹھانا سنت ہے کیونکہ اس میں پردہ زیادہ ہے ۔ (السعایۃ جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 156)


نتیجہ واضح ہو گیا کہ مقصد عورت کے پردے کا ہے ، وہ اپنی طاقت کے مطابق جتنا بھی ہو سکے اپنے بدن کے حصے کو دوسرے بدن کے حصے سے ملا کر، زمین سے سمٹ کر بیٹھے، خواہ یہ مقصد چوکڑی مار کر بیٹھنے سے حاصل ہو یا سرین کو زمین پر رکھنے اور پاؤں کو باہر نکالنے سے حاصل ہو ۔ عورت تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ کانوں تک نہ اٹھائے کیونکہ اس کے بازو زیادہ کھل جانے اور سینے کے ابھار کا ظاہر ہونے کا خدشہ رہے گا جوا س کی بے پردگی پر دلالت کریں گے، لیکن عورت جب اپنے ہاتھ کندھے تک بمشکل اٹھائے گی۔ توا س کا پردہ برقرار رہے گا۔اسی طرح عورت جب ہاتھ باندھتے وقت اپنے ہاتھ اپنے پستانوں پر رکھ کر باندھے گی تو اس کا زیادہ پردہ ہو گا ۔ (مزید حصہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...