Sunday 19 September 2021

کل اور آج کے منافقین کی پہچان

0 comments

 کل اور آج کے منافقین کی پہچان

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمۡ اٰمِنُوۡا كَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوۡاۤ اَنُؤۡمِنُ كَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَهَآءُ‌ ؕ اَلَاۤ اِنَّهُمۡ هُمُ السُّفَهَآءُ وَلٰـكِنۡ لَّا يَعۡلَمُوۡنَ ۔ (سورۃ البقرة آیت نمبر 13)

ترجمہ : اور جب ان سے کہا گیا : اس طرح ایمان لاؤ جس طرح اور لوگ لائے ہیں ‘ تو انہوں نے کہا : کیا ہم اس طرح ایمان لائیں جس طرح بیوقوف ایمان لائے ہیں ؟ سنو یہی لوگ بیوقوف ہیں لیکن ان کو علم نہیں ہے ۔


یہاں ’’اَلنَّاسُ‘‘ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  اور   ان کے بعد ان کی کامل اتباع کرنے والے مراد ہیں ۔


منافقین نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اصحاب رضی اللہ عنہم کو جاہل کہا تو اللہ تعالیٰ نے ان کا رد کیا اور ان کی زیادہ جہالت بیان کی کہ وہ نہ صرف جاہل ہیں بلکہ ان کو اپنی جہالت کا علم بھی نہیں اور اس آیت میں قصر قلب ہے اور کئی وجہ سے تاکید ہے ‘ قصر قلب کا تقاضا یہ ہے کہ اصحاب رسول جاہل نہیں ہیں بلکہ یہی جاہل ہیں اور اپنی جہالت سے بھی جاہل ہیں اور خود کو عالم سمجھ رہے ہیں اور اس جملہ کو اللہ تعالیٰ نے ” الا ‘ ان “ اور اسمیت جملہ سے موکد فرمایا جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ ہمیشہ ہمیشہ جہالت میں رہیں گے اور ان کو اپنی جہالت کا علم نہیں ہوگا اور ایسی جہالت زیادہ لائق مذمت ہے کیونکہ جس شخص کو کسی چیز کا پتا نہ ہو اس میں صرف ایک جہالت ہے ‘ اور وہ بسا اوقات معذور ہوتا ہے اور جب اس کو اس چیز کا پتا چل جائے یا اس کو مسئلہ بتادیا جائے تو اس کی جہالت زائل ہوجاتی ہے اور اس کو ہدایت سے نفع پہنچتا ہے اور جو شخص جاہل ہو اور وہ اپنی جہالت سے بھی جاہل ہو اس میں دو جہالتیں ہیں : ایک مسئلہ سے جہالت دوسری اپنی جہالت سے جہالت اس کو جہل مرکب کہتے ہیں ۔


اس آیت سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سب وشتم کرنا اللہ کو بہت ناگوار ہے ‘ منافقین نے ایک بار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جاہل کہا تو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یہ آیت نازل کردی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم جاہل نہیں بلکہ ان کو جاہل کہنے والے خود جاہل ہیں اور اپنی جہالت سے بھی جاہل ہیں اور ان کا جہل دائمی ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جہل سے براءت کی اور ان کو جاہل کہنے والوں کی مذمت کی ‘ منافقوں نے تو ایک بار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جاہل کہا تھا لیکن جب تک قرآن مجید پڑھا جاتا رہے گا یہ کہا جاتا رہے گا کہ منافق جاہل ہیں اور دائمی جہل میں گرفتار ہیں ۔ آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر سب وشتم کرنے والوں کا رد کرنا چاہیے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا دفاع کرنا چاہیے کہ یہ سنت الٰہیہ ہے ۔


حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں دیکھ رہا تھا کہ وہ شخص (جس نے یہ بات کہی تھی) نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اونٹنی کے کجاوے کی رسی پکڑ کر دوڑ رہا تھا ، پتھر اس کے پاوں کو زخمی کر رہے تھے اور وہ معذرت کرتے ہوئے کہہ رہا تھا : اے اللہ کے رسول : ہم تو صرف مذاق کی باتیں کررہے تھے ، اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کے جواب میں صرف یہ فرماتے تھے : قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ (65) لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ (66) (سورہ التوبۃ) کیا اللہ ، اس کی آیتیں اور اس کے رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں ، اب بہانے نہ بناو تم لوگ ایمان لانے کے بعد اب کافر ہوگئے ہو ۔ (تفسیر الطبری : 6/409،چشتی)


اب بہانے نہ بناو ، یقینا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ہے ” وہ لوگ یک گونہ مومن تھے اور یہ ساری باتیں انہوں نے بطور مذاق ، ہنسی اور صرف دلچسپی کے لئے کی تھی لیکن اس کے باوجود ان کا عذر قبول نہ ہوا ، بلکہ ان کے اس موقف پر نبی رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ناراضگی دیکھئے کہ یہ بات کہنے والا شخص معذرت بھی کررہا ہے ، نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اونٹنی کے کجاوہ کا پٹہ پکڑے ہوئے دوڑ رہا ہے ، ننگے پیر ہونے کی وجہ سے اس کے پیر پتھروں سے زخمی ہو رہے ہیں اور قسمیں کھا کھا کر یہ کہہ رہا ہے کہ اے اللہ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمارا مقصد صرف اور صرف ہنسی مذاق تھا ، لیکن نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ناراضگی اس حدتک ہے کہ آپ صرف یہ جواب دے رہے ہیں ” کیا اللہ ، اس کے احکام اور اس کا رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی مذاق کےلیے رہ گئے ہیں ۔


علاّمہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں : کہ یہ آیت اس بارے میں نص ہے کہ اللہ تعالی اور اس کی آیتوں اور حکموں اور اس کے رسول کا مذاق اڑانا کفر ہے ۔ (مجموع الفتاوی : 15/48)


امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : دین کا مذاق خواہ جس نیت سے ہو اللہ تعالی کے ساتھ کفر ہے ۔ (التفسیر الکبیر : 6/126)


امام سیّد محمود آلوسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : اس بارے میں اماموں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ (تفسیر روح المعانی تحت الآیہ مذکورہ)


ایک بار امیر تیمور کچھ ذہنی پریشانی اور الجھن کا شکار تھے اور کسی کی بات کا جواب نہیں دے رہے تھے ، اتنے میں ان کے مصاحبین میں سے وہ شخص جو انہیں خوش رکھنے کا کام کررہا تھا ، اس نے امیر کو ہنسانے کے لئے کہا : ابھی ابھی میرے پاس شہر کے قاضی تشریف لائے اور ماہ رمضان کے بارے مین بیان کرنے لگے ، اس پر ایک شخص نے کہا : قاضی صاحب : میرے پاس اس کی شہادت موجود ہے کہ فلاں شخص رمضان کے روزے کھا گیا ، یہ سن کر قاضی صاحب نے کہا کہ کاشکہ کوئی ایسا بھی ہوتا جو نما ز کو کھا جاتا کہ نماز و روزے سے ہمیں فرصت مل جاتی ، یہ سن کہ امیر مذکور سخت ناراض ہوئے اور کہنے لگے کہ ہنسی مذاق کے لئے صرف دینی باتیں ہی رہ گئی ہیں ، پھر اس شخص کو سخت سزا دینے کا حکم دیا ۔ (شر فقہ اکبر :264،چشتی)


مذاق اُڑانے کا شرعی حکم بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اہانت اور تحقیر کیلئے زبان یا اشارات ، یا کسی اور طریقے سے مسلمان کا مذاق اڑانا حرام و گناہ ہے کیونکہ اس سے ایک مسلمان کی تحقیر اور اس کی ایذاء رسانی ہوتی ہے اور کسی مسلمان کی تحقیر کرنا اوردکھ دینا سخت حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے ۔ (جہنم کے خطرات صفحہ نمبر173)


کثیر اَحادیث میں اس فعل سے ممانعت اور اس کی شدید مذمت اور شناعت بیان کی گئی ہے ، جیسا کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : اپنے بھائی سے نہ جھگڑا کرو ، نہ اس کا مذاق اڑاؤ ، نہ اس سے کوئی ایسا وعدہ کرو جس کی خلاف ورزی کرو ۔ (ترمذی کتاب البرّ والصّلة، باب ما جاء فی المراء، ۳ / ۴۰۰، الحدیث : ۲۰۰۲)


اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا : میں کسی کی نقل اتارنا پسند نہیں کرتا اگرچہ اس کے بدلے میں مجھے بہت مال ملے ۔ (ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الغیبة، ۴ / ۳۵۳، الحدیث : ۴۸۷۵،چشتی)


اس آیت میں  بزرگانِ دین کی طرح ایمان لانے کے حکم سے معلوم ہوا کہ ان کی پیروی کرنے والے نجات والے ہیں اوران کے راستے سے ہٹنے والے منافقین کے راستے پر ہیں اوریہ بھی معلوم ہوا کہ ان بزرگوں پر طعن و تشنیع کرنے والے بہت پہلے سے چلتے آرہے ہیں ۔ اس آیت کی روشنی میں صحابہ رضی اللہ عنہم و ائمہ اور بزرگانِ دین رحمۃ اللہ علیہم کے متعلق اپنا طرزِ عمل دیکھ کر ہر کوئی اپنا راستہ سمجھ سکتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے راستے پر ہے یا منافقوں کے راستے پر ؟ نیز علماء و صلحاء اور دیندارلوگوں کوچاہئے کہ وہ لوگوں کی بدزبانیوں سے بہت رنجیدہ نہ ہوں بلکہ سمجھ لیں کہ یہ اہلِ باطل کا قدیم دستور ہے ۔ نیز دینداروں کو بیوقوف یا دقیانوسی خیالات والا کہنے والے خود بے وقوف ہیں ۔


اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی کرجم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے ایسے مقبول بندے ہیں کہ ان کی گستاخی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے خود جواب دیا ہے ۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے  بارے میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کو گالی گلوچ نہ کرو ، (ان کا مقام یہ ہے کہ) اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا (اللہ تعالیٰ کی راہ میں) خرچ کرے تو اس کا ثواب میرے کسی صحابی رضی اللہ عنہ کے ایک مُد (ایک چھوٹی سی مقدار) بلکہ آدھا مُد خرچ کرنے کے برابر بھی نہیں ہو سکتا ۔ (صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لو کنت متخذا خلیلاً جلد ۲ صفحہ ۵۲۲ الحدیث ۳۶۷۳،چشتی)


اور اللہ تعالیٰ کے اولیاء کے بارے میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں کہ اللہ  تعالیٰ نے فرمایا : جو میرے کسی ولی سے دشمنی کرے ، اسے میں نے لڑائی کا اعلان دے دیا ۔ (صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب التواضع، ۴ / ۲۴۸، الحدیث: ۶۵۰۲)


اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بے ادبی اور گستاخی کرتے ہیں اور اللہ  تعالیٰ کے اولیاء کے بارے میں غلط عقائد و نظریات رکھتے ہیں ۔


وَاِذَا لَقُوۡا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا قَالُوۡاۤ اٰمَنَّا ۖۚ وَاِذَا خَلَوۡا اِلٰى شَيٰطِيۡنِهِمۡۙ قَالُوۡاۤ اِنَّا مَعَكُمۡۙ اِنَّمَا نَحۡنُ مُسۡتَهۡزِءُوۡنَ ۔

ترجمہ : اور جب یہ ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں : ہم ایمان لے آئے اور جب یہ اپنے شیطانوں کے ساتھ تنہائی میں ہوتے ہیں تو کہتے ہیں : یقیناً ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو ان کے ساتھ مذاق کرتے ہیں ۔


ان شیاطین کا بیان جن سے منافق خلوت میں ملتے تھے


امام ابن جریر علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ بیان کرتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ بعض یہودی (یعنی منافق) جب نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اصحاب سے ملاقات کرتے تو کہتے : ہم تمہارے دین پر ہیں ‘ اور جب اپنے اصحاب سے ملتے جو کافروں کے سردار تھے ‘ تو کہتے یقیناً ہم تمہارے ساتھ ہیں ‘ ہم تو صرف مذاق کرتے ہیں ۔ (تفسیر جامع البیان ج ١ ص ١٠١ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ،چشتی)


امام خازن علیہ الرحمہ اس آیت کے شان نزول میں لکھتے ہیں : روایت ہے کہ عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں نے دیکھا کہ سامنے سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کی طرف آرہے ہیں ‘ اس نے اپنی قوم سے کہا : دیکھو میں ان بیوقوفوں کو کس طرح تم سے واپس کرتا ہوں ‘ اس نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا : مرحبا ! اے بنو تیم کے سردار ! شیخ الاسلام ‘ غار میں رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے رفیق ‘ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کےلیے اپنی جان اور مال کو خرچ کرنے والے ‘ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا : مرحبا ! اے بنو عدی کے سردار ! فاروق ‘ دین میں قومی ‘ اپنی جان اور مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے ‘ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا : مرحبا ! اے رسول اللہ کے عم زاد ! آپ کے داماد ‘ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سوا تمام بنو ہاشم کے سردار حضرت علی رضی اللہ عنہم نے فرمایا : اے ابی ! اللہ سے ڈر ‘ نفاق نہ کر ‘ منافق اللہ کی بدترین مخلوق ہیں ‘ عبداللہ بن ابی نے کہا : اے ابوالحسن ! ذرا ٹھہرئیے ‘ خدا کی قسم ! میں نے یہ باتیں از راہ نفاق نہیں کہیں ‘ ہمارا ایمان آپ ہی کی طرح ہے ‘ پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جانے کے بعد عبداللہ بن ابی نے اپنے ساتھیوں سے کہا : تم نے دیکھا میں نے ان کو کیسے بیوقوف بنایا ! (معاذ اللہ) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے واپس آکر یہ واقعہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سنایا تو یہ آیت نازل ہوئی ۔(تفسیر خازن جلد ١ صفحہ ٣٠۔ ٢٩‘ مطبوعہ دارالکتب العربیہ ‘ پشاور،چشتی)


علامہ خفاجی علیہ الرحمہ نے اس روایت پر حسب ذیل تبصرہ کیا ہے : اس حدیث کو واحدی نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے ‘ حافظ ابن حجر نے اس حدیث کی سند بیان کر کے کہا کہ یہ حدیث منکر ہے اور کہا : یہ سلسلۃ الذھب نہیں ہے بلکہ سلسلۃ الکذب ہے (یعنی جھوٹی سند ہے) اور اس حدیث کے موضوع ہونے آثار ظاہر ہیں ‘ کیونکہ محدثین کی تصحیح کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدینہ آتے ہی شروع میں سورة بقرہ نازل ہوئی تھی اور ہجرت کے دوسرے سال میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی ہوئی تھی ‘ اور اس حدیث میں ہے کہ عبداللہ بن ابی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ کا داماد کہا : (عنایۃ القاضی ج ١ ص ٣٣٩‘ مطبوعہ دار صادر ‘’ بیروت ‘ ١٣٨٣ ھ)


علامہ ابو اللیث سمرقندی  علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ شیاطین سے مراد یہود کے پانچ قبیلے ہیں : کعب بن اشرف مدینہ میں ‘ ابوبردہ اسلمی بنو اسلم میں ‘ ابوالسوداء شام میں ‘ عبد الدار جہینہ میں سے اور عوف بن مالک بنواسد سے ‘ ابوعبیدہ نے کہا : ہر وہ شخص جو گمراہ اور سرکش ہو وہ شیطان ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اللہ ان کے ساتھ استہزاء فرماتا ہے ۔ (سورہ البقرہ : 15)


امام راغب اصفہانی علیہ الرحمہ نے کہا ہے کہ قصدا مذاق کرنے کو استہزاء کہتے ہیں اور استہزاء کی اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت ہو تو اس کا معنی استہزاء کی جزا دینا ہے ‘ یعنی اللہ تعالیٰ ان کو ایک مدت تک مہلت دیتا ہے ‘ پھر اچانک ان کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے ‘ اس کو استہزاء اس لیے فرمایا ہے کہ منافقین اس دھوکے میں تھے کہ وہ مسلمانوں کو بیوقوف بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں کیونکہ ان کے نفاق اور سرکشی کے باوجود ان پر مسلمانوں کو بیوقوف بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں کیونکہ ان کے نفاق اور سرکشی کے باوجود ان پر مسلمانوں کے احکام جاری کئے گئے اور ان سے مواخذہ نہیں کیا گیا لیکن حقیقت میں اللہ اور اس کے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ان کے نفاق کا علم تھا اور آخرت میں ان کے ساتھ استہزاء کیا جائے گا ۔


حافظ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : امام ابن المنذر علیہ الرحمہ نے ابو صالح علیہ الرحمہ سے روایت کیا ہے کہ دوزخ میں دوزخیوں سے کہا جائے گا کہ دوزخ سے نکلو اور دوزخ کے دروازے کھول دیئے جائیں گے ‘ جب وہ درزخ کے کھلے ہوئے دروازے دیکھیں گے تو وہ دوزخ سے نکلنے کے لیے بھاگیں گے اور مومن جنت میں اپنے تختوں پر بیٹھے ہوئے یہ منظر دیکھ رہے ہوں گے اور جب کفار دروازوں کے قریب پہنچیں گے تو وہ دروازے بند ہوجائیں گے اور مومن ان پر ہنسیں گے ۔ (امام حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ ‘ درمنثور ج ١ ص ٣١‘ مطبوعہ مکتبہ آیۃ اللہ العظمی ایران)


جیسا کہ قرآن مجید میں ہے : فالیوم الذین امنوا من الکفار یضحکون علی الارآئک ینظرون ھل ثوب الکفار ما کانوا یفعلون ۔ (سورہ المطففین : ٣٦۔ ٣٤) 

ترجمہ : تو آج (قیامت کے دن) ایمان والے کافروں پر ہنستے ہیں وہ (عالی شان) تختوں پر بیٹھے ہوئے دیکھتے ہیں کہ کافروں کو ان کے کیے ہوئے کاموں کا کیا بدلہ ملا ہے ۔


اللہ تعالیٰ نے منافقین کے استہزاء کی جزاء (سزا) کو استہزاء صورۃً فرمایا ہے حقیقت میں یہ استہزاء نہیں ہے ‘ اس کی نظیر یہ آیت ہے :

(آیت) ” وجزؤا سیءۃ مثلھا “ (سوری الشوری : ٤٠) ۔ ترجمہ : اور برائی کا بدلہ اسی کی مثل برائی ہے ۔ حالانکہ برائی کا بدلہ حقیقت میں عدل و انصاف ہوتا ہے برائی نہیں ہوتی لیکن کسی چیز کا بدلہ صورۃ اسی کی مثل ہوتا ہے اس لیے اس کو برائی فرمایا ‘ اسی طرح منافقین کے استہزاء کا بدلہ حقیقۃً استہزاء نہیں صورۃً مماثل ہونے کی وجہ سے اس کو استہزاء فرمایا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔