Tuesday, 14 September 2021

اسلام قبول کرنا اور عمر کی حد جاگ مسلم

 اسلام قبول کرنا اور عمر کی حد جاگ مسلم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : امریکہ و یورپ اور دیگر مغربی و غیر مسلم ممالک میں کم عمر لڑکے ولڑکیاں اور نوجوان اسلام کی حقانیت سے متأثر ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں لیکن ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ ہمارے پاک وطن پاکستان میں یہودی لابی اور اُن کے پیروکاروں کی طرف سے 18 سال سے کم عمری میں اسلام قبول کرنے پر پابندی عائد کی جا رہی ہے ۔ خُدارا اس قسم کے نامعقول ، غیر متوازن ، خلافِ فطرت اور خلافِ شرع قوانین بناکر عذابِ خداوندی کو دعوت نہ دیں ۔ دین اسلام کو قبول کرنے کےلیے عمر کی کوئی حد مقرر نہیں ہے ، غیرمسلم لڑکے یا لڑکیوں نے اگر دینی تعلیمات سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا ہو تو اسلامی ریاست کی ذمے داری ہے کہ انیں تحفظ فراہم کرے ۔ دین حنیف میں جبر نام کی کوئی گنجائش نہیں ۔ اگر ریاستِ پاکستان اسلام قبول کرنے والوں کو تحفظ کا کوئی قانون بنا دے تو قبول اسلام کرنے والوں کی تعداد کم نہ ہو ۔ مگر : ⬇


سندھ اسمبلی نے ایک بل منظور کیا ہے اور اب پی ٹی آٸی کی وفاقی حکومت بھی بل منظر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ سندھ اسمبلی کا بل ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم مسلمان ہونا چاہے تو اسے 18سال کی عمر سے قبل مسلمان نہیں کیا جاسکتا ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی 18سال کی عمر سے قبل اسلام قبول کرنا چاہے تو اسے اس کی اجازت نہیں ہے ۔  سندھ اسمبلی نے اقلیتوں کے حقوق کے عنوان سے ایک بل منظور کیا ہے جس کی رو سے غیر مسلم کے 18سال کی عمر سے پہلے اسلام لانے پر پابندی عائد کردی گئی ہے اور اسے قابل تعزیر جرم قرار دے دیا گیا ہے ۔ 18سال کی عمر سے قبل اسلام قبول کرنے والا بھی مجرم اور جو اسے اسلام لانے پر آمادہ کرے وہ بھی مجرم ۔ اسلام لانے پر پابندی قانون شریعت اسلامیہ اور عدل و انصاف کے تمام تقاضوں کو پامال کرنے کے مترادف ہے ۔ یہ درست ہے کہ قرآن کریم کی رو سے کسی کو زبر دستی مسلمان بنانا جائز نہیں اور اس پر پابندی حق بجانب ہے لیکن دوسری طرف کسی کے برضا و رغبت اسلام لانے پر پابندی لگا کر کسی کو دوسرے مذہب پر باقی رہنے پر مجبور کرنا بدترین زبردستی ہے جس کا نہ شریعت میں کوئی جواز ہے اور نہ عدل و انصاف کی رو سے اس کی کوئی گنجائش ہے ۔ اسلام کی رو سے اگر کوئی سمجھدار بچہ جو مذہب کو سمجھتا ہو ، اسلام لے آئے تو اس کے ساتھ مسلمانوں جیسا سلوک کیا جائے گا ۔ نیز اسلامی شریعت کی رو سے بچہ 15سال کی عمر میں بلکہ بعض اوقات اس سے بھی پہلے بالغ ہوسکتا ہے۔ایسی صورت میں جبکہ و ہ بالغ ہوکر شرعی احکام کا مکلف ہوچکا ہے ، اسے اسلام قبول کرنے سے تین سال تک روکنا سراسر ظلم اور بدترین زبردستی ہے ۔ اس قسم کی زبردستی کا قانون غالباً کسی سیکولر ملک میں بھی موجود نہیں ہوگا چہ جائے کہ ایک اسلامی جمہوریہ میں اس کو روا رکھا جائے ۔ نیز 18سال کے بعد اسلام قبول کرنے کےلیے 21 دن کی مہلت دینا بھی ناقابل فہم ہے ۔ کیا ا س کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس مدت میں اس کے اہل خاندان اسے دھمکا کر اسلام لانے سے روکنے میں کامیاب ہوجائیں۔پھر سوال یہ ہے دو میاں بیوی قانون کے مطابق اسلام لے آئیں ۔ تو کیا اس قانون کا یہ مطلب نہیں ہوگا کہ ان کے بچے 18سال کی عمر تک غیر مسلم ہی تصور کئے جائیں گے ۔کیونکہ اس عمر سے پہلے انہیں اسلام لانے کی اجازت ہی نہیں ہے ۔ اس قانون کی رو سے اپنے چھوٹے بچوں کو بھی وہ اسلام نہیں سکھا سکتے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس قانون کے تمام مضمرات پر غور کئے بغیر محض اقلیتوں کو خوش کرنے کےلیے نافذ کیا گیا ہے۔مفتی تقی عثمانی صاحب نے آخر میں تمام مسلمانوں اور دینی جماعتوں سے اپیل کی ہے کہ اس شرمناک قانون کو ختم کروانے کے لئے اپنا دینی فریضہ ادا کریں۔انہوں نے وفاقی شرعی عدالت سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ اس کا از خود نوٹس لے کر اس قانون کا قرآن وسنت کی روشنی میں جائزہ لینے کےلیے جو اختیار انہیں حاصل ہے اسے استعمال کرتے ہوئے اسے غیر موثر قرار دیں ۔ اب میں اس پر کچھ اضافہ کرنا چاہتا ہوں ۔ غیر مسلموں کےلیے تو یہ پابندی لگادی گئی کہ وہ 18سال کی عمر تک اپنا مذہب تبدیل نہیں کرسکتا ، مسلمان کےلیے ایسی کوئی شرط نہیں لگائی گئی ۔ ہمارے معاشرے میں عیسائی اور قادیانی بھی بہت سرگرم ہیں اور وہ بہت بڑے پیمانے پر مسلمانوں کو اپنی پٹری سے اتار رہے ہیں ۔ ایسی کوئی گنتی بھی سامنے نہیں آتی کہ سال میں کتنے لوگ عیسائی اور قادیانی بنے ہیں ۔ یہ کام ان کی تبلیغی مشنری مسلسل کررہی ہے۔انہیں کھلی چھٹی ہے اور کوئی قانون اس سے انہیں باز رکھنے کےلیے نہیں بنایا گیا ۔ 


پی ٹی آٸی حکومتی ذرائع سے پتہ چلا یہ سچ ہے کہ : مذہبی اقلیتوں کی جبری مذہب کی تبدیلی کے نام پر ایک بل بنایا گیا ہے جو اس وقت اسلامی نظریاتی کونسل اور وزارت مذہبی امور کے زیر غور ہے اور جسے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اگر اس بل کو قانون بنا دیا گیا تو اسلام قبول کرنے پر پاکستان میں پابندی لگ جائے گی اور اسلام کی تبلیغ کرنے والے مجرم ٹھہریں گے ۔


اس بل مجوزہ قانون کو اگر لاگو کیا جاتا ہے تو ایک تو کوئی بھی اٹھارہ سال سے کم عمر اسلام قبول نہیں کر سکے گا اور دوسرا اٹھارہ سال سے بڑا کوئی شخص بھی آسانی سے اسلام قبول نہیں کر سکے گا کہ اس کے لیے کچھ ایسی سخت شرائط لگا دی گئی ہیں کہ اسلام قبول کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جائے گا ۔ بل کے کچھ نکات درج ذیل ہیں :


بل کے مطابق کوئی بھی غیر مسلم، جو بچہ نہیں ہے (18 سال سے زیادہ عمر والا شخص)، اور دوسرے مذہب میں تبدیل ہونے کے قابل اور آمادہ ہے، اس علاقہ کے ایڈیشنل سیشن جج سے تبدیلیٔ مذہب کے سرٹفیکیٹ کے لیے درخواست دے گا جہاں عام طور پر غیر مسلم فرد رہتا ہے یا اپنا کاروبار کرتا ہے۔


ایڈیشنل سیشن جج مذہب کی تبدیلی کے لیے درخواست موصول ہونے کے سات دن کے اندر انٹرویو کی تاریخ مقرر کرے گا۔ فراہم کردہ تاریخ پر، فرد ایڈیشنل سیشن جج کے سامنے پیش ہو گا جو اس بات کو یقینی بنائے گا کہ مذہب کی تبدیلی کسی دباؤ کے تحت نہیں اور نہ ہی کسی دھوکہ دہی یا غلط بیانی کی وجہ سے ہے۔


ایڈیشنل سیشن جج غیر مسلم کی درخواست پر اس شخص کے مذہبی اسکالرز سے ملاقات کا انتظام کرے کا جو مذہب وہ تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرنے اور ایڈیشنل سیشن جج کے دفتر واپس آنے کے لیے غیر مسلم کو نوے دن کا وقت دے سکتا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج، اس بات کو یقینی بنانے کے بعد کہ یہ شرائط پوری ہو جائیں، مذہب کی تبدیلی کا سرٹیفکیٹ جاری کرے گا۔


جبری مذہب کی تبدیلی میں ملوث فرد کو کم از کم پانچ سال اور زیادہ سے زیادہ دس سال تک قید کی سزا اور جرمانہ ہو گا۔ مذہب کی تبدیلی کے لیے مجرمانہ قوت کا استعمال اس شخص کے خاندان، عزیز، برداری یا جائیداد کے خلاف ہو سکتا ہے بشمول شادی۔ جو شخص (شادی) انجام دیتا ہے، کرتا ہے، ہدایت دیتا ہے یا کسی بھی طرح سے شادی میں سہولت فراہم کرتا ہے‘ اس بات کا علم رکھتے ہوئے کہ یا تو دونوں فریق جبری تبدیلی کے شکار ہیں وہ کم از کم تین سال قید یا تفصیل کے مجرم ہوں گے۔اس میں کوئی بھی شخص شامل ہوگا جس نے شادی کی تقریب کے لیے لاجسٹک سپورٹ اور کوئی دوسری ضروری خدمات وغیرہ فراہم کی ہوں۔


مذہب کی تبدیلی کی عمر : کسی شخص کے بارے میں یہ نہیں سمجھا جائے گا کہ اس نے اپنا مذہب تبدیل کیا ہے جب تک کہ وہ شخص بالغ (18 سال یا اس سے بڑا) نہ ہو جائے۔ جو بچہ بلوغت کی عمر کو پہنچنے سے پہلے اپنے مذہب کو تبدیل کرنے کا دعویٰ کرتا ہے اس کا مذہب تبدیل نہیں سمجھا جائے گا اور نہ ہی اس کے خلاف اس قسم کے دعویٰ کرنے پر کوئی کارروائی کی جائے گی۔ اگرچہ کچھ بھی ان حالات پر قابل اطلاق نہ ہو گا جہاں بچے کے والدین یا سرپرست خاندان کا مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ کریں۔


عدالت کے سامنے جبری تبدیلی کا معاملہ نوے دن کی مدت کے اندر نمٹا دیا جائے گا اور عدالت کسی مقدمے کی سماعت کے دوران دو (02) سے زائد التواء نہیں دے گی، جن میں سے ایک (01) التوا،التوا کے خواہاں شخص کے اخراجات کی ادائیگی پر ہو گا۔ اس بل کے تحت کسی جرم کی سزا یا بریت کے خلاف اپیل متعلقہ ہائی کورٹ کے سامنے اس تاریخ سے دس دن کے اندر پیش کی جائے گی جس دن کورٹ آف سیشن کے منظور کردہ حکم کی کاپی اپیل کنندہ کو فراہم کی جائے گی۔


جبری تبدیلی کے حوالے سے تحقیقات: پولیس سپرنٹنڈنٹ کے درجے سے نیچے کا کوئی بھی پولیس افسر نہیں کرے گا ۔


یہ اللہ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔اگرچہ ہم نے پہلے بھی کسر نہیں چھوڑی ۔ اللہ کے دین کے ساتھ جو مذاق روا رکھا جارہا ہے اس کا ایک مظہر سودی نظام کا جاری رہنا ہے جو اللہ اور اس کے رسول سے کھلی جنگ ہے ۔ ہم اللہ کو اپنا رب اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنا رسول مانتے ہیں لیکن ان کے خلاف بغاوت کےلیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔ اللہ سے اپنی سرکشی کو ترک کرنے کےلیے تیار نہیں ۔ سودی معیشت ، ابلیسی نظام ، بے حیا تہذیب کا فروغ جو شیطان معاشرے میں پھیلانے میں مصروف ہے ، یہ سب یہاں جاری ہے یہاں اللہ کا دین تو پہلے ہی قائم نہیں ہے ۔ شیطانی دجالی نظام ہم نے قائم رکھا ہوا ہے ۔ اس پر اس بل کی صورت میں اضافہ کیا گیا ہے جو غیر مسلموں کو اسلام میں داخل ہونے سے روکتا ہے ۔ پتہ نہیں اللہ ہمیں کب تک مہلت دیئے رکھتا ہے ۔ دعا یہی ہے کہ اللہ ہمیں توبہ کرنے اور صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...