امیر معاویہ مولا علی رضی اللہ عنہما کو گالیاں دیتے اور دلواتے کا جواب حصہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : امید ہے آپ نے حصہ اول پڑھ لیا ہوگا اب حصہ دوم پڑھتے ہی :
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے ایسی کوئی بات مروی نہیں ہے بس چند روایات ہیں جن کا مقصد توڑ موڑ کر بیان کیاجاتا ہے جن کو ہم یہاں نقل کریں گے ۔ اس سے پہلے ہم عربی کے لفظ سب کی مختلف معنی اور استعما ل پر ایک نظر ڈالتے ہیں :
عربی لفظ سب کے معنی
عربی لفظ سب کی بہت دی معنی ہی٘ں جس کو مختلف شکلوں میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس لٖفظ معنی گالی دینا بھی ہے ، کسی کو غلط کہنا بھی ہے ، کسی کو کسی بات پر ٹوکنا بھی ہے ۔ کسی کو آڑے ہاتھوں لینا اور تنقید کرنے کو بھی سب ہی کہتے ہیں ۔
چناچہ یہ لفظ صرف گالی دینے یا برا بھلا کہنے کے لئے استعمال نہیں ہوتا اس کی اور بھی بہت معنی ہیں ہم یہاں ثبوت کے طور پر کچھ روایات پیش کر رہیں ہیں :
فسبهما النبي صلى الله عليه وسلم وقال لهما ما شاء الله أن يقول قال ثم غرفوا بأيديهم ۔ صحیح مسلم (کتاب الفضائل ، باب معجزات النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
یہ واقعہ تبوک کے متعلق ہے ، یہا ں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کچھ غلطی کردی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کی سرزنش کی اور زیادہ سے زیادہ سخت سست کہا ہوگا ۔ پر گالیاں نہیں دیں ہونگی اور نہ ہی معاذ اللہ برا بھلا کہا ہوگا کیوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات اس سے پاک ہے ۔
سب معنی تنقید حافظ ابن جریر طبری علیہ الرحمہ اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں : قریش نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ” لتنتھین عن سبک او لنھجون ربک ” یعنی آپ ہمارے معبودوں کو سَبّ (یہاں قریش کا مطلب یہ تھا کہ آپ ہمارے معبودوں کا تزکرہ ایسے انداز میں نہ کریں کہ ان کی شان میں کمی ہو) کرنے سے باز رہیں ، نہیں تو ہم تھمارے رب کی ہجو شروع کردیں گے ۔ (تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 164،چشتی)
اور جناب ابو طالب نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے کہ آپ کیا کہتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ : ان کو کہیں کہ میں انہیں ایسی دعوت دیتا ہوں جو ان کی بت پرستی سے بہتر ہے ۔ یعنی لا اللہ الا للہ ۔ اب کوئی عقلمند یہ نہیں کہے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے گالیاں دیں ہونگی ۔ حقیقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یہ فرماتے تھے کہ یہ بے زبان ہیں نہ کوئی نفع پہنچاتے ہیں نہ نقصان ، کتنے بے عقل ہو کہ خود ہی انہیں بناتے ہو اور خود ہی پوجتے ہو۔ یعنی دوسرے الفاظ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جھوٹے معبودوں پر تنقید کرتے تھے اسے وہ ” سَبّ ” کہتے تھے ۔
ان سب روایات سے اور خاص کر طبری کی روایت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تنقید کرنے کو بھی عربی میں سب ہی کہتے ہیں کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان سب واقعات میں تنقید ہی کی تھی ۔ اب اگر شیعوں اور ان کے ہمنوا تفضیلی نیم رافضوں کی یہ بات ماں لیں کہ سب کی معنی صرف گالی اور برا بھلا کہنا ہے تو پھر معاذ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تو گالیو ں سے پاک ہیں ۔
اسی طرح یہ دیگر معانی میں بھی استمعال ہوتا ہے ، جیسے نکتہ چینی کرنا ، دوسرے کی رائے کو بلا کسی سبب غلط کہنا ۔ چنانچہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے پہلے تو کبھی حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو ” سَبّ ” کیا ہی نہیں ، آپ کو یہ بھی کہیں نہیں ملے گا کہ انہوں نے خود کبھی ” سَبّ ” کیا ہو ۔
لفظ ” سَبّ ” کی معنی برائی
اب اگر اس لفظ سے مراد برائی کرنا ہی لیا جائے تو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، صحابہ یا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ، فحش الفاظ استعمال نہیں کرتے ہونگے (معاذ اللہ جیسے شیعہ تفضیلی نیم شیعہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ برائی کرنا مطلب گندے الفاظ استمعال کرنا اور پھر جب ہمارے کچھ بھلے بھالے سنی بھائی حدیث کی معنی دیکھتے ہیں تو وہ اس پروپگینڈا میں آجاتے ہیں اور وہ برائی کرنا کا مطلب محض فحش الفاظ ہی سمجھتے ہیں ، کم سے کم امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ۔
چونکہ نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور نہ ہی آپ کے اصحاب بشمول حضرت معاویہ رضوان اللہ عنہم ، معاذ اللہ فحش گو تھے اور نہ ہی برے الفاظ استمعال کرتے تھے ۔ مثال کے طور پر کسی بھائی کو میں یہ کہہ دوں کہ تہمارے بال صحیح نہیں ، یا یہ کہ میں کسی کو ٹوک دوں ، یا کسی کے کسی کے کئے ہوئے کام کو بنا سبب غلط کہہ دوں ، تو یہ بھی برائی کے دائرے میں آتا ہے ۔ ہمیں صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہ کبھی بھی گمان نہیں کرنا چاہئے کہ وہ معاذ اللہ فحش گو تھے ۔
کیا حضرت معاویہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہما کی برائی کرتے تھے ؟
کہیں پر بھی کوئی بھی ایسی روایت نہیں ملتی جہاں پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے کسی بیان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی برائی پائی جاتی ہو یا پھر ایسے الفاظ جو کہ حضرت علی کے شان میں سخت ہوں ۔ کہیں پر بھی حضرت معاویہ کے کسی بھی خطبہ میں ایسے الفاظ نہیں ہیں بس صرف ایسی روایت ملتی ہیں جس میں یہ لکہا ہوتا ہے کہ انہوں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ علی رضی اللہ عنہ کو سب کیوں نہیں کرتے (یعنی قتل عثمان کے مسئلے میں ان پر تنقید کیوں نہین کرتے) یا پھر ان کے سامنے سب کیا وغیرہ ارے بھائی جنہوں نے سب کی روایات کی ہے انہوں نے پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے گالیوں یا پھر برائی کے الفاظ کیوں بیان نہیں کئے جبکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا چھوٹہ بڑے کام کو توڑ موڑ کر پھلانہ کچھ محدیثین خاص طور پر شیعوں کا تو مشغلہ رہا ہے پھر کیوں وہ اسیے گستاخانہ الفاظ روایت نہیں کر پائے ۔ اصل میں بات یہ ہے کہ سیدنا معاویہ حضرت علی رضی اللہ عنہما کو قصاص عثمان رضی اللہ عنہ کے مسئلے پر غلط سمجھتے تھے پھر جب ان کی خلافت میں اس کا تزکرہ چلتا تھا تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اجتہاد کو غلط کہتے تھے اور ان پر تنقید کرتے تھے اسی کو روایت میں سب کہا گیا ہے ۔ یہ نا سمجھ میں آنے والی بات ہے نہ کہ حضرت معاویہ رضہ کی ہر بات ، ہرفعل غالی راویوں نے مرچ مصالعہ ملا کہ لکھ دیے ہیں آخر وہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی گالیاں اور لعنتیں (نعوذ بااللہ) وہ بھی حضرت علی رضہ کو ، کیسے رہ گئیں تاریخ میں ۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے سب و شتم کی روایات
یہ سب و شتم کی روایت اکثر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے کی جاتی ہے جو کہ مختلف کتب میں پائی جاتی ہے ہم یہاں صحیح مسلم کتاب فضائل باب فضائل امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ سے حوالہ پیش کریں گے ۔
عن عامر بن سعد بن أبي وقاص ، عن أبيه ، قال أمر معاوية بن أبي سفيان سعدا فقال ما منعك أن تسب أبا التراب فقال أما ما ذكرت ثلاثا قالهن له رسول الله صلى الله عليه وسلم فلن أسبه لأن تكون لي واحدة منهن ۔
ترجمہ : حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ کو کون سی چیز مانع کرتی ہے کہ آپ ابو تراب (حضرت علی رضی اللہ عنہ) پر سَبّ کریں ؟ حضرت سعد نے اس کا سبب بتایا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق تین باتوں کا ذکر کیا جو بطور فضائل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمائے تھے ۔
یہاں فقیر نے حدیث کا وہ حصہ نقل کیا ہے جس پر اعتراض کیا جاتا ہے ۔
(1) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا مقصد تھا کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تنقید کیوں نہیں کرتے (یاد رہے ہم اوپر ہم نے طبری کی روایت سے ثابت کیا تھا کہ سب کی معنی تنقید بھی ہے اور یقینن حضرت معاویہ حضرت علی پر تنقید ہی کرتے تھے) قصاص عثمان رضی اللہ عنہ کے سلسلے میں ، یعنی اُن کا اجتہاد ٹھیک نہیں ۔ تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جو فضائل بتائے ان میں یہ بھی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں ہارون علیہ السلام کی جگہ دی ، جس کا مطلب ہے وہ بلند پائے کے عالم تھے ، وہ اجتہاد میں غلط نہیں ہو سکتے ۔
(2) اہلِ شام قصاص نہ لینے کی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے خائف تھے ، یہ ہو سکتا ہے ان کے سامنے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل سنانا مقصود تھے ، تبھی ایسا سوال کیا کیوں کہ سیدھا کہتے تو اھل شام کے شور کا اندیشہ تھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کبھی بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تنقید نہیں کریں گے ، تبھی ایسا سوال کیا ۔
حدیث میں اُن پر تنقید کرنے کو نہیں کہا گیا بلکہ سبب دریافت کیا گیا ہے ۔
علامہ ابن کثیر نے اس سے ملتا جلتا واقعہ نقل کیا ہے : عبد اللہ بن بدیل نے بیان کیا ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ ، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو انہوں نے آپ کو کہا کہ آپ ہمارے ساتھ مل کر نہیں لڑے ۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تاریک آندھی میرے پاس سے گزرے اور میں اخ اخ کروں تو میں اونٹنی بٹھا دیتا ہوں ۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا : کتاب اللہ میں اخ اخ نہیں بلکہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ” اگر مومنین کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیاں صلح کرا دو اور اگر ایک جماعت دوسری پر زیادتی کرے تو اس کے ساتھ جنگ کرو حتی کہ امر اللہ ہی کی طرف واپس آجائے ” خدا کی قسم آپ نہ عادل جماعت کے مقابلہ میں باغی جماعت کے ساتھ ہیں نہ ہی باغی کے مقابلہ میں عادل کے ساتھ ہیں ۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے اس شخص سے لڑنے کا نہیں جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہا تھا کہ تو میرے لئے ایسے ہے جیسے ہارون علیہ السلام موسی علیہ السلام کےلیے تھے لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا آپ کے علاوہ اور کس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا ہے ؟ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا فلاں فلاں اورام سلمہ رضی اللہ عنہ نے ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں نے آپ سے یہ بات پہلے سنی ہوتی تو میں ان سے جنگ نہیں کرتا۔ (تاریخ ابن کثیر جلد ۸ زکر وفات سعد رضی اللہ عنہ،چشتی)
اس میں کہیں بھی سَبّ کا لفظ نہیں بلکہ بہت جگہوں پر یہ واقعہ مختلف لفظوں کے ساتھ مذکور ہے ۔ بعض روایات میں ” فزکرو علیا فنال منہ معاویہ ” تو کہیں ” فذکرو علیا فقال سعد لہ ثلاث خصال ” جس سے اس واقعہ کی صداقت میں شبہ ہوتا ہے اور کہیں پر جگہ مکہ ہے تو کہیں پر شام ہے ۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہاں سبب دریافت کر ریے ہیں کہ کیا چیز مانع ہے یا یہ کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رائے اجتہادی کو غلط کیوں نہیں کہہ رہے ۔ یعنی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے اجتہاد کے متعلق ایک بزرگ صحابی سے رائے لے رہے ہیں ۔
سنن ابن ماجہ کی روایت
حدثنا علي بن محمد حدثنا أبو معاوية حدثنا موسى بن مسلم عن ابن سابط وهو عبد الرحمن عن سعد بن أبي وقاص قال قدم معاوية في بعض حجاته فدخل عليه سعد فذكروا عليا فنال منه فغضب سعد وقال تقول هذا لرجل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول من كنت مولاه فعلي مولاه وسمعته يقول أنت مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي وسمعته يقول لأعطين الراية اليوم رجلا يحب الله ورسوله ۔
ترجمہ : حضرت معاویہ سعد رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور ان سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شکایت کرنے لگے جس پر حضرت سعد غصہ ہوگئے اور فرمایا کہ اس آدمی کی بات کرتے ہو جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا تھا انہوں نے کہا کہ جس میں دوست ہوں علی بھی اس کا دوست ہے اور یہ بھی سنا تھا کہ تمہاری نسبت مجھ سے وہی ہے جو ہارون کو موسی علیہ االسلام سے تھی لیکن میری بعد کوئی نبی نہیں آئے گا یہ بھی سنا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہا کہ کل میں جھنڈا اسے عطا کرون گا جو اللہ اور اس کے رسول کو محبوب ہے ۔
اگر اس کو صحیح مان بھی لیا جائے تبھی بھی یہاں گالیاں مراد نہیں لے سکتے ، کیوں کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا غضبناک ہونے کی وجہ یہ تھی کہ حضرت معاویہ حضرت امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہما کی شکایت کرنے لگے (یہاں نال کی معنی شکایت کرنا ہے ناکہ گالیاں دینا) اس بات پر حضرت سعد غصہ ہوئے اور حضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ کے فضائل بیان کئے ۔ حضرت سعد غصہ ہونا اسی وجہ سے تھا کیوں کہ حضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ ، حضرت ابی بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی جماعت سے بلکہ ان کے فضائل سب سے زیادہ ہیں بہت سے علماۓ اہل سنت ان کو افضل مانتے تھے ۔ ایسے شخص کی اگر حضرت معاویہ خود سے موازنہ کرںن اور تو اور ان کے اجتہاد کو غلط کہیں تو حضرت سعد کا غصہ میں آنا فطری بات ہے کیوں کہ ہوسکتا ہے حضرت معاویہ بار بار یہ کہتے رہے ہوں جس سے سعد رضی اللہ عنہم غصہ ہوئے ہوں ۔
اور پھر یہ روایت منقتع ہے ابن سابط نے سعد رضی اللہ عنہ سے حدیث نہیں سنی اور ابو معاویہ پر بھی کلام ہے ۔
ابن ماجہ کی اس روایت کے دو راویوں کے بارے میں کلام ہے ۔
عبدالرحمن بن سابط
تہذیب الکمال میں المزی لکھتے ہیں : عبد الرحمان (2) بن سابط، ويقال:عبد الرحمان بن عبد الله بن سابط، ويقال: عبد الرحمان بن عبد الله بن عبد الرحمان بن سابط بن أبي حميضة بن عمرو ن أهيب بن حذافة بن جمح القرشي الجمحي المكي.تابعي، أرسل عن النبي صلى الله عليه وسلم (ت).روى عن: أنس بن مالك من وجه ضعيف،وسعد بن أبي وقاص وقيل: لم يسمع منه،(تہذیببالکمال جلد ۱۷ فحہ127)
یعنی انہوں نے سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے لیکن ان سے سماع نہیں کیا ۔
تاریخ کبیر میں امام بخاری نے انہیں مرسل کہا ہے (جلد 5 ص 294)
دارلقطنی نے حدیث سعد کے اسانید میں ان جناب کا زکر نہیں کیا ملاحضہ ہو علل دارالقطنی ۔
ابن حجر نے جو لکہا ہے وہ یہ ہے تہذیب التہذیب جلد 6 ص 164 : عبد الرحمن بن سابط ويقال عبد الرحمن بن عبد الله بن سابط ويقال عبد الرحمن بن عبد الله بن عبد الرحمن بن سابط بن أبي حميضة ابن عمروابن أهيب بن حذافة بن جمح الجمحي المكي.تابعي أرسل عن النبي صلى الله عليه وسلم. وروى عن عمر وسعد بن أبي وقاص والعباس بن عبد المطلب وعباس بن أبي ربيعة ومعاذ بن جبل وأبي ثعلبة الخشني وقيل لم يدرك واحدامنهم . قيل ليحيى بن معين سمع عبد الرحمن بن سعد ابن أبي وقاص قال لا ۔
یعنی یہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مرسل روایت کرتے ہیں حضرت عمر ، سعد ، عباس رضی اللہ عنہم ، عباس بن ابی ربیعہ اور معاذ بن جبل سے روایت کرتے ہیں لیکن ان میں کسی کو بھی انہوں نے نہیں دیکھا ۔ یحی بن معین سے پوچھا گیا کہ عبدالرحمن نے سعد رضی اللہ عنہ سماع کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ نہیں ۔
اسی طرح ابن حجر نے ال اصابہ جلد ۵ ص 176 پہ ان کا زکر کیا ہے ۔
یہ نہ صرف صحابہ رضی اللہ عنہم بلکہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بھی روایت کرتے ہیں ، اس کے علاوہ انہوں نے حضرت ابی بکر و عمر رضی اللہ عنہما اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایات کی ہیں لیکن علماء نے ان روایات کو مراسیل کہا ہے اور ابن حجر نے لکہا ہے ان میں کسی کو بھی نہیں ملے ۔ بھر حال یہ بات تو طئے ہے کہ یہ مرسل ہیں اور بہت علماء نے اس بات میں ابن معین کی بات کو ہی صحیح مانا ہے ۔
اس لیے علماء انہیں کثیر الارسال کہتے ہیں ۔اسی بنا پر ابن معین نے انہیں سعد رضی اللہ عنہ کی روایات میں مرسل قرار دیا اور ان کی صحابہ سے حدیث کو مر سل کہا ہے ۔ یہ بات صحیح کہ ابن معین ان کی بارے میں منفرد ہیں لیکن علماء اہل سنت میں سے کسی نے ابن معین کی بات سے اختلاف نہیں کیا ابن حاتم کو اگر اختلاف تھا تو انہوں جابر رضی اللہ عنہ کے مسئلے میں لکہ دیا کہ یہ متصل ہے لیکن سعد رضی اللہ عنہ کے بارے میں انہوں نے بھی نہیں لکہا ، گو کہ وہ بھی ابن معین کی بات صحیح جانتے تھے ۔ اس لئے یہ کہنا درست ہوگا کہ یہاں تمام علماء رجال ابن معین کا ساتھ دے رہے ہیں ۔
راوی ابو معاویہ
علماء نے انہیں اعمش کے طریق سے تو پسندیدہ کہا ہے لیکن ان کی دوسری احادیث کو مضطرب کہا ہے مدلس بھی تھے اور وہ مرجئی مذہب کے تھے جن کا ماننا ہے کہ انسان ایک بار کلمہ پڑہ کر مسلمان ہو جائے تو پھر اسے جہنم سے نجات مل جاتی ہے دنیا مین پھر جو چاہے کرے ۔
ان کا ترجمہ اس طرح ہے ان کا نام محمد بن خازم الاعمی تھا ۔
ابن حجر طبقات مدلسین صفحہ 46 میں ان کا نام بھی زکر کیا ہے ۔
ابن حبان نے اثقات میں ان کا ذکر اس طرح کیا ہے : كان حافظا متقنا ولكنه كان مرجئا خبيثا ، یہ حافظ تھے لیکن ساتھ میں مرجئی خبیث بھی تھے ۔
امام ابی داود السجستانی کہتے ہیں کہ كان مرجئا ، ومرة : كان رئيس المرجئة بالكوفة
امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : أبو معاوية الضرير في غير حديث الأعمش مضطرب , لا يحفظها حفظا جيدا ۔ (تھذیب الکمال،چشتی) ، یعنی ابو معاویہ اعمش کے علاوہ دوسری احادیث میں مضطرب ہے اور ان کا حافظہ بھی کم تھا ۔
الذهبي : الحافظ، ثبت في الأعمش، وكان مرجئا ۔ (تہذیب الکمال) ، یعنی اعمش کے طریق سے صحیح ہیں اور مرجئے تھے ۔
يحيى بن معين : أبو معاوية أثبت من جرير في الأعمش وروى أبو معاوية , عن عبيد الله بن عمر أحاديث مناكير ۔ (تہذیب الکمال)
وقال عبدارحمن ابن خراش صدوق، وهو في الأعمش ثقة، وفي غيره فيه اضطراب ۔ (اتھذیب الکمال)
قال ابن سعد كان ثقة كثير الحديث يدلس، وكان مرجئا ۔ (طبقات ابن سعد: ٦ / ٣٩٢
قال عبد الرحمان بن أبي حاتم:سمعت أبي يقول: أثبت الناس في الأعمش: الثوري، ثم أبو معاوية الضرير، ثم حفص بن غياث، وعبد الواحد بن زياد، وعبدة بن سليمان أحب إلى من أبي معاوية يعنى في غير حديث الأعمش ۔ (الجرح والتعديل: ٧ / الترجمة 1360،چشتی)
وقال ابن حجر في التهذيب قال النسائي: ثقة في الأعمش وقال أبو داود: قلت لأحمد كيف حديث أبي معاوية عن هشام بن عروة؟ قال: فيها أحاديث مضطربة يرفع منها أحاديث إلى النبي صلى الله عليه و آلہ وسلم ۔ (اتہذیب 9 / 139،چشتی)
ان دونوں راویون پر جرح کے بعد یہ روایت خود بخود ہی ضعیف ہوجاتی ہے پھر اس حدیث (یعنی ابن ماجہ کی حدیث) میں سب کا لفظ موجود نہیں ہے ۔
باقی جو بھی روایات ہیں وہ تقریباً اسی ہی مضمون کی ہیں اور فقیر نے جیسا کہ اوپر لکھا کہ اس میں مقام کا بھی تعین نہیں ہے کہیں پر شام لکھا ہے کہیں پر مکہ تو کہیں پر مدینہ بھرحال ہمنے ان روایات کی مناسب تاویل پیش کی ہے اور پھر سنن ابن ماجہ کی روایت تو صحیح نہیں ہونی چاہئے اگر صحیح ہے بھی تو اس میں صرف شکایت کرنے کا لکھا جس کا مطلب ہے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قصاص کے مسئلہ میں جو اجتہا د تھا یا انہوں نے قصاص نہیں لیا تھا تو ہو سکتا ہے وہ اس کی ہی شکایت کرنے لگے ہوں ۔ اس میں سب کا لفظ تک نہیں ہے باقی جن بھی کتب میں یہ روایات پائیں جاتی ہیں وہ ایسی ہی ہیں ۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تعریف
شیعہ اور ان کے ہمنوا تفضیلی نیم شیعہ تو حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ایسے الفاظ پیش کر نے سے قاصر ہیں جس میں انہوں نے حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں دیں ہوں لیکن ہم یہاں ان کے ایسے الفاظ پیش کرتے ہیں جن میں علی رضی اللہ عنہ کی تعریف کی گئی ہے ۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تعریف سنتے تھے اور لوگوں کو فرمائش کرتے کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تعریف سنائیں اگر برائی کرتے تو لوگوں سے ان کی برائی کرنے کو کہتے لیکن ایسی کوئی روایت نہیں جس میں انہوں نے کسی کو کہا کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی برائی کریں ، بلکہ تعریف روایات ہیں اور بھت ہیں میں ایک شیعہ کی روایت نقل کر دیتا ہوں :
ابن کثیر البدایہ و النہایہ جلد ۷ ص 129 پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا قول نقل کرتے ہیں : علی رضی اللہ عنہ مجھ بہت بہتر تھے میں صرف ان مخالفت قصاص عثمان کے مسئلہ پر کرتا ہوں اگر وہ حضرت عثمان کا قصاص لیں تو شامیوں میں سے سب سے پہلے میں ان کی بیعت کرلوں گا ۔
ضرار بن ضمرہ ایک دفعہ حضرت معاویہ کے پاس گیا تو آپ نے اس کہا حضرت علی کی خوبیاں بیاں کرو اس نے کہا جب آپ تبسم فرماتے تو گویا موتی جھڑتے تھے امیر معاویہ نے کہا کچھ اور بیان کرو ضرار بولا علی رضی اللہ عنہم پر اللہ رحم فرمائے وہ کم سونے والے زیادہ شب بیدار اور رات دن قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے تھے یہ سن کر امیر معاویہ رو پڑے اور فرمانے لگے بس کرو ضرار خدا کی قسم علی رضی اللہ عنہ ایسے ہی تھے خدا ابوالحسن پر رحم فرمائے ۔ (شیعہ کتاب ۔ املی شیخ صدوق ص 371)(حلیۃ الابرار جلد 1 صفحہ 338،چشتی)
حافظ ابن کثیر اپنی تاریخ میں لکتے ہیں کہ : ابن جریر بیان کیا ہے کہ جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قتل کی خبر پہنچی تو آپ رونے لگے آپ کی بیوی نے کہا آپ اس پر روتے ہیں حالانکہ آپ نے ان سے جنگ کی ہے آپ نے فرمایا تو ہلاک ہو جائے تجھے معلوم نہیں کہ ہم نے کس قدر علم ، فقہ و فضل کو کھو دیا ہے ۔
ان روایات سے حضرت معاویہ کی طرف سے حضرت علی کی مدح ثابت ہوتی ہے ۔ (رضی اللہ عنہما)
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے گورنر
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ
حدیث امام احمد
سند أحمد .. أول مسند الكوفيين .. حديث زيد بن أرقم رضي الله تعالى عنه
حدثنا محمد بن بشر حدثنا مسعر عن الحجاج مولى بني ثعلبة عن قطبة بن مالك عم زياد بن علاقة قال :نال المغيرة بن شعبة من علي فقال زيد بن أرقم قد علمت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان ينهى عن سب الموتى فلم تسب عليا وقد مات
تخریج حدیث امام احمد
اس روایت میں حجاج بن ایوب مولی بنی ثعلبہ ایک مجہوں حال راوی ہے لہذا یہ روایت کسی صحابی پر الزام بازی کے لئے ہر گز استمعال نہیں ہوسکتی۔پھر اس روای سے جو روایت ابن مبارک نے کی ہے وہی سند ہے لیکن وہاں مغیرہ رضی اللہ عنہ کا نام نہیں ہے اس کے علاوہ امام احمد کی حدیث میں نال کے الفاظ ہیں (جس کی معنی شکایت کرنے کی ہیں ) اور اسی سند سے حدیث ابن مبارک میں پھر سب امیر کا الفاظ ہیں چناچہ اسی ہی سند سے روایت کی گئی حدیث میں الفاظ بھی ایک جیسے نہیں ہین اس لئے یہ حدیث خود ہی اختلاف کا شکار ہے اور یہ اس کی ضعف پر دلالت ہے ۔
حدیث مستدرک ، طبرانی وغیرہ
حدثنا أبو بكر محمد بن داود بن سليمان ثنا عبد الله بن محمد بن ناجية ثنا رجاء بن محمد العذري ثنا عمرو بن محمد بن أبي رزين ثنا شعبة عن مسعر عن زياد بن علاقة عن عمه أَنَّ المغيرة بن شعبة نَالَ : مِن عَلِيٌّ فَقَامَ إليه زيد بن أرقم فقال : يا مغيرةُ أَلمْ تَعلم أَن رسولَ اللَّه e : نهى عن سَبِّ الأَمْوَاتِ ؛ فَلِمَ تَسُبَّ عَلِيًّا وقد مَاتَ؟!”.
تخریج حدیث مستدرک وغیرہ
اس حدیث کی سند جو کہ شعبہ عن مسعر ہے اس میں اسی طرح اختلاف ہے ۔
طبرانی حاکم وغیرہ نے اس حدیث تین مختلف سندوں سے بیاں کیا ہے جو یہ ہیں :
فَرَوَاهُ عمرو بن محمد بن أَبي رَزِينٍ ، عن شعبة ، عن مِسعر ، عن زياد بن عِلاَقَة ، عن عَمِّهِ ،[أن] المغيرة بن شعبة ۔
وَرَوَاهُ عمرو بن محمد بن أَبي رَزِينٍ مرةً ، عن شعبة ، عن مِسعر ، عن زيادٍ ، عن المغيرة
وَرَوَاهُ جَمْعٌ ، عن مِسعر ، عن مَولَى بني ثعلبة ، عن عَمِّ زياد بن عِلاقة (یعنی قطبہ بن مالک)
اس حدیث کے بارے میں دارالقطنی علل 7/126 #1249 میں فرماتے ہیں : حديث شعبة عن مسعر وهم ، والآخران محفوظان ، یعنی حدیث شعبہ عن مسعر مین عیب پایا جاتا ہے ۔
اس کے علاوہ سفیان ثوری سے روایت کی گئی حدیث میں سب کے الفاظ نہیں ہین جو کہ صحیح ہے اور اس تین سندوں میں بقول دارقطنی عیب ہے ۔
اس کے علاوہ راوی عمرو بن محمد بن أَبي رَزِينٍ کے بارے میں تقریب 8/8مین حافظ ابن حجر لکہتے ہیں ذكره ابن حبان فى كتاب ” الثقات ” ، و قال : ربما أخط یعنی ابن حبان نے ان کو ثقہ کہا ہے لیکن یہ بہت غلطیان کرنے والا ہے ۔
زیاد بن علاقہ کے بارے میں حافظ تقریب 3/381 میں لکھتے ہیں : سىء المذهب ، كان منحرفا عن أهل بيت النبى صلى الله عليه وآله وسلم ۔ یعنی یہ بدمذہب تھے اور اہل بیت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منحرف تھے ۔
اس حدیث کی جتنی سندیں مختلف اتنے ہی الفاظ بھی مختلف ہین چناچہ کہا جا سکتا ہے کہ اس میں روایوں کی خطا شامل ہے ۔
حدیث ابن المبارك اپنی المسند میں نقل کرتے ہیں ان سے پھر طبرانی معجم کبیر 5/168 (4975 حاکم ابو نعیم وغیرہ نے ابن مبارک سے یہ روایت کی ہے 1/156(253،چشتی) مستدرک میں : ابن المبارك، ووكيع، عن محمد بن بشرٍ، عن مِسعر عن الحجَّاج مولى بني ثعلبة ،عن قُطْبة بن مالكٍ،قال: سَبَّ أَمِيرٌ مِنَ الأُمَرَاءِ عَلِيًّا ، فَقَامَ إليه زيد بن أرقم فقال : أَمَا لقد عَلِمْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ e نهى عن سَبِّ الْمَوْتَى فَلِمَ تَسُبُّ عَلِيًّا وقد مَاتَ ۔
تخریج حدیث ابن مبارک
یہاں روایت شعبہ کے بغیر عن مسعر عن مولی بنی ثعلبہ (حجاج بن ایوب) ہے اس میں پھر مغیرہ رضہ کا نام نہیں ہے بلکہ امیر کا لفظ ہے جس یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ امیر مغیرہ تھے ۔
اور پھر حدیث ابن مبارک کے اسناد بھی ضعیف ہیں کیوں کہ اس میں ایک مجھول راوی ہے یعنی مولی بنی ثعلبہ حجاج بن ایوب ۔
اس سب یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ روایت راویوں کی خطا ہے اس لئے جتنی اسانید ہیں اتنے اختلاف ہیں پھر بالفرض اس حدیث کو صحیح مان بھی لیں تو امام احمد کی حدیث کے الفاظ ہیں نال مغیرہ یعنی مغیرہ نے شکایت کی یا پھر دوسری حدیث کے الفاظ ہیں سب مغیرہ یعنی مغیرہ نے تنقید کی ۔ ہو سکتا ہے حضرت مغیرہ نے حضرت علی کی طرف سے عثمان رضی اللہ عنہما کا قصاص نہ لینے یا پھر فتنہ میں شامل ہونے پر ان پر تنقید کی ہو اور زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے انہیں یہ کہ کر منع کیا کہ وہ وفات پا چکے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مرنے کے بعد کسی پر تنقید نہ کی جائے اس میں کوئی اسیی بات نہیں ہے کیوں کہ نہ تو اس سے سیدنا علی گستاخی ہوتی اور نہ ان مغیرہ رضی اللہ عنہ ان کو گالیاں دے رہے ہیں وہ ان سے اختلاف کر رہے ہیں اس سے وہ گنہگار نہین ہوتے اور پھر حضرت مغیرہ فتنہ کے دوران الگ رہے تھے انہوں نے نہ تو علی رضی اللہ عنہ کو سپورٹ کیا تھا نہ ہی معاویہ رضی اللہ عنہ کو سپورٹ کیا تھا اس لئے غالب گمان یہی ہے کہ وہ حضرت علی کے بارے میں خاموش ہی رہتے تھے جیسا کہ تاریخ کی کتب میں آتا ہے کہ کوفیوں کی شرارتیں وہ برداشت کر لیتے تھے اور ان پر سختی نہیں کرتے تھے ۔
حدیث سنن ابوداود ۔کتاب السنہ باب خلفاء
حدثنا أبو كامل حدثنا عبد الواحد بن زياد حدثنا صدقة بن المثنى النخعي حدثني جدي رياح بن الحارث قال كنت قاعدا عند فلان في مسجد الكوفة وعنده أهل الكوفة فجاء سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل فرحب به وحياه وأقعده عند رجله على السرير فجاء رجل من أهل الكوفة يقال له قيس بن علقمة فاستقبله فسب وسب فقال سعيد من يسب هذا الرجل قال يسب عليا قال ألا أرى أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يسبون عندك ثم لا تنكر ولا تغير ۔
تجمہ : ریاح بن حارث کھتے ہیں کہ ہم ایک شخص کے ساتھ کوفہ کی جامع مسجد میں بیٹھے تھے اتنے میں سعید بن زید رضی اللہ عنہ آئے ان کا استقبال کرنے کے بعد ان کو بٹھایا گیا اس دوران اہل کوفہ میں سے ایک شخص جس کو قیس بن علقمہ کہتے ہیں برا بھلا کہنے لگا۔سعید بن زید رضی اللہ عنہ کے معلوم کرنے پر بتایا گیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہ رہا ہے راوی کہتا ہے کہ جس شخص کے ساتھ ہم بیٹھے تھے اس پر سعید بن زید نے ان کو زجروتوبیخ کی اور فرمایا کہ یہ سب آپ کے سامنے ہو رہا اور ان کو روکتے نہیں ۔
یہ ابی داود کی روایت ہے اس میں میزبان کا نام نہیں لیکن مسند امام احمد کے مطابق یہ حضرت مغیرہ ہیں۔
اس روایت میں حضرت معاویہ کا دور تک زکر نہیں تو ان پر اس روایت کی وجہ سے الزام لگانا جہالت ہے ۔
ابی داود میں زکر نہیں کہ میزبا کون تھے تو حضرت مغیرہ پر بہی الزام نہیں لگتا وہ کو ئی اور بہی ہوسکتا ہے۔بلکہ گمان یہی ہے کیوں کہ حضرت مغیرہ گورنر تھے انہیں راوی جانتا ہوگا ۔
مسند امام احمد میں حضرت مغیرہ کا نام آیا ہے ۔ پر حضرت مغیرہ کے بارے میں یہ واضع لکھا ہے کہ وہ کوفہ میں لوگوں سے نرمی برتتے تھے ۔ یہ شخص جس نے برا بھلا کہا قیس بن علقمہ تھا اور یہ خوارج میں سے تھا ۔ جس طرح حضرت مغیرہ شیعان علی سے نرمی برتتے تھے بلکل ویسے دوسروں کے ساتھ بھی نرمی کرتے تھے ۔ (روایت تاریخ طبری کے ص ۱۸۷ سے ۱۸۸ تک جلد ۴)
ابو مخنف کی روایت
حضرت معاویہ نے جب حضرت مغیرہ کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا تو دوسری باتوں کے ساتھ ان کو اس بات کی وصیت کی کہ حضرت علی اور ان کے اصحاب کو برا بھلا کہنا نہیں چھوڑنا اور حضرت عثمان اور ان کے اصحاب کی تعریٖف کرنا ۔ آگے راوی کہتا ہے حضرت مغیرہ بہیت اچھے آدمی تھے (کیوں کہ شیعوں سے نرمی برتتے تھے اس لئی راوی نے کہا آدمی اچھے تھے) لیکن وہ حضرت علی کو برا بھلا کہنا نہیں چھوڑتے تھے ۔ اسی صفحہ پر اسی روایت کے آگے لکہا ہے کہ وہ کیا کہتے تھے ۔ حضرت مغیرہ کھڑے ہوئے حضرت علی اور حضرت عثمان کے بارے میں جو کہنا تھا کہا ان کے الفاظ یہ تھے ۔ یا اللہ عثمان بن عفان پر رحم فرما اور ان سے درگزر فرما اور ان کے بہتر عمل کی انہیں جزا دے کیونکہ انہوں نے تیرے کتاب پر عمل کیا تیرے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اتباع کی اور ہماری بات ایک کی ہمارے خون کو بچایا اور مظلوم ہو کر قتل ہو گئے ۔ یا اللہ ان کےدوستوں ان کے قصاص کا مطالبہ کرنے والوں پر رحم فرما اور ان کے قاتلوں کےلیے بد عا کرتے تھے ۔
اس میں نہ تو حضرت علی کو برا کہنے کی بات ہے اور نہی ان کے ساتھیوں کو ۔ قاتلوں کو بد دعا کرتے تھے ۔ حضرت علی نعوذ باللہ حضرت عثمان کے قاتل تو نہیں تھے کہ یہ بد دعا ان کے لئے ہو لیکن ان لوگوں کے لئے تھی جو خود کو شیعہ علی کھتے تھے کیوں کی یہی لوگ حضرت عثمان کے قتل میں ملوث تھے اس لئے جب حضرت مغیرہ یہ الفاظ کہتے تو یہ لوگ بھڑک جاتے اور کہتے ” تم مجرموں کے لئے دعا کرتے ہو اور نیکوں کو بد دعا کرتے ہو۔ ” حضرت مغیرہ کے استمال کئے گئے الفاظ کا مطلب آپ خود جائزہ لیں کیا ان سے یہ تاثر ملتا ہے جو شیعہ راویوں نے لیا ہے ۔ (رضی اللہ عنہم)
وضاحت : حضرت مغیرہ کھڑے ہوئے حضرت علی اور حضرت عثمان کے بارے میں جو کہنا تھا کہا” اس سے الفاظ آگے راوی نے خود بتا دیئے یہ روی کا کہنا ہے کیوں کہ اکثر لوگ پھلے جملے کو پڑہ کر الزام تراشی کردیتے ہیں حالانکہ راوی نے خود ہی آگے الفاظ نقل کئے ہیں ، مطلب یہ کہ حضرت مغیرہ جب حضرت عثمان کی تعریف کرتے اور قاتلوں کے لئے بد دعا کرتے ، اسے راوی نے ” حضرت علی اور حضرت عثمان کے بارے میں جو کہنا تھا کہا” ان الفاظ سے تعبیر کیا ہے ۔ (رضی اللہ عنہم)
اس روایت میں راوی شیعہ ہیں
ابو مخنف شیعہ خبیث ہے
دوسرا ھشام کلبی ہے جس کے بارے میں تمام علماء رجال کہتے ہیں یہ امامی شیعہ اور جہوٹا تھا ۔
فضیل بن خدیج
یہ اشتر کے غلام سے روایت کرتا ہے اور ابن حجر نے اسے مجہول کہا ہے ۔
مروان بن الحکم : یہ حضرت عثمان کے عمزاد تھا ان کے والد الحکم حضرت عثمان کے حقیقی چچا تھے ۔ یہ حضرت عثمان کے کاتب تھے اور انہی کے قتل کے لئے باغیوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے سے مطالبہ کیا تھا ۔
ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جب حضرت معاویہ کے مدینہ میں گورنر تھے تو حضرت علی کو برا بھلا کہتے تھے اور آپ کو ابو تراب کہ کر پکارتے تھے حالانکہ بیچارے کو معلوم نہیں تھا کہ یہ لقب حضرت علی کو حضو علیہ السلام نے خود دیا ہے پھر راویون نے تو یہاں تک غلو کیا ہے کہ یہ اگر حسنین کو مسجد میں نہ دیکھتے تو ان کے گھر جا کر حضرت علی کو برا بھلا کہ آتے لیکن یہ سب صرف غلو ہے ۔
صحیح بخاری میں باب مناقب علی میں ہے کہ
” ان رجل جاء الی سھل بن سعد فقال ھذا فلان لامیر المدینہ یدعو علیا عندالمنبر قال فیقول ماذا قال یقول لہ ابا تراب فضحک وقال واللہ مااسماء الانبی صلی اللہ علیہ وسلم وما کان لہ اسم احب الیہ منہ ۔
ایک شخص حضرت سہل بن سعد کے پاس آیا اور کہا کہ امیر مدینہ حضرت علی کی منبر پر برائی کرتا ہے سہل رضہ نے پوچھا کہ کیا کہتا ہے اس نے کہا کہ انہیں ابو تراب کہتا ہے سہل رضہ ہنس پڑے کہا کہ یہ نام تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پکارا تھا ان کے لئے انہیں یہ سب سے پیارہ تھا ۔ (رضی اللہ عنہم)
یہ حدیث مختلف جگہوں پر مختلف طریق سے حضرت سہل سے روایت ہے لیکن مفہوم بلکل یہی ہے ۔
اس میں کہیں بھی حضرت علی کو گالیاں دینے کا زکر نہیں ہاں حضرت سہل سے پو چھنے والے نے لفظ ابو تراب (یعنی مٹی کا باپ) کو بھی برا ہی سمجھا (یعنی سب سے تعبیر کیا) تبھی آپ کو اکہ شکایت کی کیوں کہ اس کو پتا نہیں تھا کہ یہ حضرت علی کا پیارہ نام جو رسول اللہ نے خود رکہا تھا یعنی یہ ان کی مناقبت میں سے ہے تبھی امام بخاری نے اس کو مناقب علی میں ذکر کیا ۔ (رضی اللہ عنہم)
اور سہل بن سعد رضی اللہ عنہ ۸۸ یا ۹۰ ھجری میں وفات کر گئے ۔ (تاریخ ابن کثیر جلد ۸ زکر وفات سہل بن سعد ، التہزیب الکمال میں لکہا ہے کہ صحابہ میں یہ آخری وفات کرنے والے ہیں ) مطلب حضرت سہل بن سعد سے جو احادیث سب علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہیں وہ حضرت معاویہ نہیں بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بنی مروان کے دور کی ہوںوہ بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ابا تراب کہتے تھے جسی ناواقف لوگ برائی (سب) سے تعبیر کرتے تھے ۔ اس سے ایک بات واضع ہوتی ہے کہ راویوں نے جو اکثر بھر مار کی ہے حضرت علی کو برا بھلا کہنے کی وہ لفظ ابو تراب کی وجہ سے ہے ۔ جس بعد کے لوگوں نے گالی سمجھ لیا۔
شیعوں اور ان کے ہمنوا تفضیلی نیم شیعوں کو چیلینج :
ہم یہاں شیعوں اور ان کے ہمنوا تفضیلی نیم شیعوں کو چلینج کرتے ہیں کہ سیدنا معاویہ کے حضرت علی رضی اللہ عنہما کے بارے میں کوئی بھی ایسے الفاظ یا خطبہ صحیح روایات سے پیش کریں جس میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں ہو یا پھر آپ کی بیعزتی کی گئی ہو یا پھر آپ پر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے معاذاللہ لعنت کی ہو آپ کے کسی گورنر کا ایسا خطبہ جس میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو جی بھر کر برا بھلا کہا گیا ہو ۔
اعتراض : چلو ہم مان لیتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تنقید کرتے تھے لیکن حضو ر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تو فرمایا ہے کہ جس نے علی رضی اللہ عنہ پر تنقید کی اس نے مجھ پر تنقید کی ۔
ایک روایت مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ 122 میں ہے : احمد بن كامل القاضى ثنا محمد بن سعد العوفي ثنا يحيى بن ابى بكير ثنا اسرائيل عن ابي اسحاق عن ابي عبد الله الجدلي قال دخلت على ام سلمة رضى الله عنها فقالت لى ايسب رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فيكم فقلت معاذ الله أو سبحان الله أو كلمة نحوها فقالت سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله يقول من سب عليا فقد سبني ۔
ترجمہ : ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ تمہارے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سب کیا جاتا ہے میں نے کہا معاذاللہ سبحان اللہ کیا کہتی ہیں آپ انہوں کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کہتے سنا تھا کہ جس نے علی رضی اللہ عنہ کو سب کیا اس نے مجھ کو سب کیا ۔
اس روایت میں محمد بن سعد بن محمد بن الحسن بن عطية بن سعد بن جنادة العوفی جس کے بارے میں خطیب کہتے ہین کہ یہ ضعیف ہیں حدیث میں ۔
دوسرے راوی ابی اسحاق عمرو بن عبد الله بن عبيد ہیں جس کے ابن عینیہ کہتے ہیں یہ تشیع کی طرف ہیں اور مدلس ہیں ابن صلاح کہتے ہیں کہ یہ غلطیاں کرتے ہیں ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ مدلس ہیں اور یہ یہاں پر ابی عبداللہ سے عن سے روایت کر رہے ہیں اس لئے تدلیس ممکن ہے یہاں پر ۔
تیسرے راوی ابی عبداللہ الجدلی ہیں جس کے بارے مین ابن سعد کہتے ہیں کہ حدیث میں ضعیف ہیں اور ان میں شدید شیعت پائی جاتی ہے امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ حاسد شیعہ ہے حافظ ابن حجر تہذیب میں کہتے ہیں کہ حدیث میں ضعیف ہیں اور شیعت میں سخت ہیں مختار کی پولیس کے رکن تھے ۔
دوسری روایت : أبو جعفر احمد بن عبيد الحافظ بهمدان ثنا احمد بن موسى بن اسحاق التميمي ثنا جندل بن والق ثنا بكير بن عثمان البجلى قال سمعت ابا اسحاق التميمي يقول سمعت ابا عبد الله الجدلي يقول حججت وانا غلام فمررت بالمدينة وإذا الناس عنق واحد فاتبعتهم فدخلوا على ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وآله فسمعتها تقول يا شبيب بن ربعى فأجابها رجل جلف جاف لبيك يا امتاه قالت يسب رسول الله صلى الله عليه وآله في ناديكم قال وانى ذلك قالت فعلي بن ابي طالب قال انالنقول اشياء نريد عرض الدنيا قالت فاني سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله يقول من سب عليا فقد سبنى ومن سبنى فقد سب الله تعال ۔
جندل بن والق
البذار کہتے ہیں کہ یہ قوی نہیں ہیں ، ابو زرعہ الرازی کہتے ہیں کہ حدیث کو بگاڑ دیتے ہیں ابن حجر کہتے ہیں کہ غلطیاں کرتے ہیں اور حدیث کو بگاڑ دیتے ہیں امام مسلم کہتے ہیں کہ متروک الحدیث (ترک کرنے کے لائق ہیں)
بکیر بن عثمان یہ راوی مجہوں الحال ہیں
ابو عبداللہ الجدلی کی بارے میں آپ پہلی روایت میں پڑھ آئے ہیں کہ اس کی حدیث حجت کیسے ہوسکتی ہے جو کہ شیعت میں شدید بھی ہو اور بغض رکہنے والا بھی ہو ۔
پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف ایسی کوئی روایت ثابت نہیں جس میں انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کو سب کیا ہو ۔ یہ روایت تقریبن ہر جگہ پر ابو عبداللہ الجدلی سے ہی روایت ہے جس کا حاسد شیعہ ہو نا سورج کی طرح صاف ہے ۔ اللہ عز و جل جملہ مسلمانانِ اہلسنت کو رافضی ، خارجی ، ناصبی ، تفضیلی نیم رافضی اور جملہ فتنوں سے محفوظ فرماۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر مفتی فیض احمد چشتی) ۔ ⬇
No comments:
Post a Comment