Saturday 4 September 2021

ایمانِ ابو طالب کتبِ شعیہ کی روشنی میں

0 comments

 ایمانِ ابو طالب کتبِ شعیہ کی روشنی میں

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : تعجب کی بات ہے کہ ایمان ابو طالب پر شیعہ کتب میں ایک ضعیف ترین روایت بھی موجود نہیں ہے ۔ تاریخ اسلام ، اہلسنت کتب حتی کہ شیعہ کتب کی کسی بھی روایت میں وہ اہم واقعہ بیان ہی نہیں ہوا کہ : جنابِ ابوطالب نے فلاں موقعہ پر توحید و رسالت کی گواہی دی ۔ جنابِ ابوطالب دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ۔ جنابِ ابوطالب نے اسلامی شریعت پر عمل کیا ۔ جنابِ ابوطالب نے اپنے ایمان کا اعلان کیا ۔


جن آیات قرآنی سے شیعہ استدلال کرتے ہیں ان سے جنابِ ابو طالب کا ایمان ثابت ہی نہیں ہوتا اور کچھ احکامات تو جنابِ ابوطالب کی وفات کے بعد نازل ہوئے ۔


شیعوں کے ہاں کھینچ کھانچ کے اقوال معصومین پر ایمان ابوطالب تسلیم کیا جاتا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شیعہ کی اصول اربعہ کی اوّل نمبر کتاب اصول کافی میں ایک صحیح السند قول حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کا موجود ہے جو ان تمام اقوال معصومین کی نفی بیان کرتا ہے ، جو شیعہ حضرت ابوطالب کے ایمان کی تائید میں پیش کرتے ہیں :


شیخ الکینی نے اپنی کتاب الکافی میں ایک روایت نقل کی ہے جو اس طرح ہے : علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن ابن أبي عمير، عن هشام بن سالم، عن ابي عبدالله (عليه السلام) قال: إن مثل أبي طالب مثل أصحاب الكهف أسروا الايمان وأظهروا الشرك فآتاهم الله أجرهم مرتين ۔

ترجمہ : حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ابو طالب علیہ السلام کی مثال اصحاب کہف کی سی ہے ، انہوں نے ایمان کو چھپایا اور شرک کو ظاھر کیا ، پس خدا نے انکو دو اجر دئے ۔ (الاصول الكافي – شیخ یعقوب الکینی ( اردو ترجمہ ) / جلد٣ / کتاب الحجت / باب :مولد النبي (صلى الله عليه وآله) ووفاته/ صفحہ: ٢٢ / رقم ٢٨ / طبع الھند،چشتی)


تحقیق السند : علي بن إبراهيم : یہ بالاتفاق ثقہ ہے ۔ شیخ نجاشی نے فرمایا : ” علي بن إبراهيم بن هاشم أبو الحسن القمي، ثقة ۔


ابراهيم بن هاشم : سيد الخوئی انکے بارے میں کہتے ہے : إبراهيم بن هاشم أبو إسحاق القمّى، أصله كوفي انتقل إلى قم، قال أبو عمرو الكشّى: تلميذ يونس بن عبدالرحمان، من أصحاب الرضا عليه السلام، وهذا قول الكشّى، وفيه نظر، …۔۔ تنظّر النجاشي في محلّه، بل لايبعد دعوى الجزم بعدم صحّة ماذكره الكشّي والشيخ۔ والوجه في ذلك إن إبراهيم بن هاشم مع كثرة رواياته،أقول: لاينبغي الشكّ في وثاقة إبراهيم بن هاشم، ويدلّ على ذلك عدّة أمور: : أنّ السيّد ابن طاووس إدّعى الاتفاق على وثاقته، حيث قال عند ذكره رواية عن أمالي الصدوق في سندها إبراهيم بن هاشم: (ورواة الحديث ثقات بالاتفاق)


ابن أبي عمیر : یہ بھی ثقہ الامامی ہے ۔


هشام بن سالم : یہ بھی ثقہ الامامی ہی ہے ۔


لہذا یہ روایت بلکل صحیح ہے ، اس میں کسی باشعور اہل علم شخص کو شک نہیں ہونا چاھیے ۔ اس روایت کو ان علماء نے بھی صحیح یا حسن قرار دیا ہے : الشيخ هادي النجفي نے اپنی کتاب موسوعته ج٥ ص٣٢١ میں اس کے بارے میں فرمایا : الرواية صحيحة الإسناد ۔ (اس روایت کی سند صحیح ہے )


السيد محمد علي الابطحي نے تهذيب المقال ج٥- ص٤٥٢ میں کہا : صحيح ۔


العلامة المجلسي نے الکافی کی شرح مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول، جلد 5، ص: 253 میں اس روایت کے بارے میں فرمایا : الحديث حسن ۔ ( یہ حسن حدیث ہے )


کم و بیش یہی روایت کئی اور شیعہ کتب میں بھی موجود ہے۔ مثال کے طور پر ۔ (البرهان في تفسير القرآن الجزء الثاني تأليف السيد هاشم بن سليمان البحراني)(وسائل الشیعہ جلد 16 صفحہ نمبر 225)


حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے منسوب یہ روایت اہل تشیع کے اصولوں کے مطابق ایک صحیح السند روایت ہے ۔ اس روایت میں دو نکات غور طلب ہیں ۔ جنابِ ابوطالب کی مثال اصحاب کہف جیسی ہے۔

جنابِ ابوطالب نے ایمان کو چھپایا اور شرک کو ظاہر کیا ۔


قرآن کریم میں اصحاب کہف کا قصہ سورت الکھف میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے : نَحۡنُ نَقُصُّ عَلَیۡکَ نَبَاَہُمۡ بِالۡحَقِّ ؕ اِنَّہُمۡ فِتۡیَۃٌ اٰمَنُوۡا بِرَبِّہِمۡ وَ زِدۡنٰہُمۡ ہُدًی (13) وَّ رَبَطۡنَا عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ اِذۡ قَامُوۡا فَقَالُوۡا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ لَنۡ نَّدۡعُوَا۠ مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اِلٰـہًا لَّقَدۡ قُلۡنَاۤ اِذًا شَطَطًا (14) ہٰۤؤُلَآءِ قَوۡمُنَا اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اٰلِہَۃً ؕ لَوۡ لَا یَاۡتُوۡنَ عَلَیۡہِمۡ بِسُلۡطٰنٍۭ بَیِّنٍ ؕ فَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا ؕ(15) ۔

ترجمہ : ہم اُن کے حالات تم سے صحیح صحیح بیان کرتے ہیں۔ وہ کئی جوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کو اور زیادہ ہدایت دی تھی ۔ (13) ۔ اور ان کے دلوں کو مربوط (یعنی مضبوط) کردیا۔ جب وہ (اُٹھ) کھڑے ہوئے تو کہنے لگے کہ ہمارا پروردگار آسمانوں اور زمین کا مالک ہے۔ ہم اس کے سوا کسی کو معبود (سمجھ کر) نہ پکاریں گے (اگر ایسا کیا) تو اس وقت ہم نے بعید از عقل بات کہی ۔ (14) ۔ ان ہماری قوم کے لوگوں نے اس کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں ۔ بھلا یہ ان (کے خدا ہونے) پر کوئی کھلی دلیل کیوں نہیں لاتے ۔ تو اس سے زیادہ کون ظالم ہے جو خدا پر جھوٹ افتراء کرے ۔


ان آیات کے مطابق اصحاب کہف نے اپنے ایمان کو ہرگز نہیں چھپایا تھا بلکہ اللہ عزوجل پر ایمان کا برملا اظہار کرتے ہوئے بتوں سے بیزاری ظاہر کی تھی ۔ اسی لیے تو بادشاہ دقیانوس کے خوف سے غار میں چھپ گئے تھے ۔ اگر اصحاب کھف اپنا ایمان ظاہر نہ کرتے تو پھر انہیں غار میں چھپنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ؟


جنابِ ابوطالب نے بھی اگر اصحاب کہف کی طرح ایمان کا اظہار کیا ہوتا اور بتوں سے بیزاری ظاہر کی ہوتی تو اس روایت میں ان کے ایمان کو ظاہر کرنا ضرور بیان کیا گیا ہوتا ، لیکن اس کے بجائے روایت میں واضح الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ جنابِ ابوطالب نے ایمان کو چھپایا اور شرک کو ظاہر کیا ۔


یعنی روایت کے دونوں حصے نہ صرف ایک دوسرے سے متعارض ہیں بلکہ شیعہ کے عقیدے ایمان ابو طالب کو بھی جڑ سے اکھاڑ دیتے ہیں ۔ اہلسنت کے نزدیک یہ جھوٹی روایت ہے اور اس سے شان حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ بھی بری طرح مجروح ہوتی ہے۔کیا حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کو اتنا علم بھی نہ تھا کہ اصحاب کہف نے اپنا ایمان ظاہر کیا تھا اور اسی وجہ سے غار میں چھپ گئے تھے ، اور یہ مثال جنابِ ابو طالب کی زندگی سے مطابقت نہیں رکھتی ۔


روایت کے دوسرے حصے کے مطابق اہل تشیع کے ہاں جنابِ ابو طالب پوری زندگی شرک کرتے رہے یعنی بت پرستی کرتے رہے جبکہ اہلسنت کے ہاں جنابِ ابو طالب کو مشرک نہیں بیان کیا گیا بلکہ ان کا آخری گھڑی تک دین ابراہیمی پر قائم رہنا بیان ہوا ہے ۔


ایک طرف شیعہ اہلسنت پر جنابِ ابو طالب کی توہین کا الزام لگاتے ہیں تو دوسری طرف خود ان کی اوّل درجہ کی کتاب میں امام کے نام سے ایسی روایت موجود ہے جو جنابِ ابوطالب کو پوری زندگی شرک اور بت پرستی کرتے رہنا بیان کر رہی ہے ۔ حد تو یہ بھی ہے کہ شیعہ جیّد علماء امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب اس جھوٹی روایت کو صحیح تسلیم کرتے ہیں اور اس کی توثیق کر کے نہ صرف حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ بلکہ حضرت ابو طالب کی بھی توہین کرتے آ رہے ہیں ۔


آخری اہم بات : اہل تشیع کی صحیح السند روایت سے اہل سنت کا مؤقف ثابت ہوتا ہے کہ

جنابِ ابو طالب کا اسلام قبول کرنا ، اعلان کرنا ، اسلامی شریعت پر عمل کرنا وغیرہ کسی صحیح السند روایت سے ثابت نہیں ہے ۔ اس روایت میں اصحاب کہف کی مثال غلط دی گئی ہے ، کیونکہ قرآن سے متعارض ہے ۔


اب اہل تشیع کے پاس دو راستے ہیں ۔ اصحاب کہف کی طرح جنابِ ابوطالب کا ایمان قبول کرنا اور بتوں سے بیزاری ظاہر کرنا ثابت کریں ۔

یا روایت کے دوسرے حصہ کو تسلیم کریں کہ جنابِ ابوطالب نے پوری زندگی اسلام قبول نہیں کیا تھا جوکہ اہلسنت کا مؤقف ہے ۔


شیعہ عالم ابو جعفر محمد بن الحسن الطوسی متوفی ٠٦٤ ھ القصص : ٦٥ کی تفسیر میں لکھتے ہیں : حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہما) ‘ مجاہد ‘ حسن اور قتادہ وغیر ہم سے مروی ہے کہ یہ آیت ( القصص : ٦٥) ابو طالب کے متعلق نازل ہوئی ہے ‘ اور ابو عبداللہ اور ابو جعفر سے مروی ہے کہ ابو طالب مسلمان تھے اور اسی پر امامیہ کا اجماع ہے اور ان کا اس میں اختلاف نہیں ہے اور ان کے اس پر دلائل قاطعہ ہیں ‘ یہاں ان کو ذکر کا موقی نہیں ہے ۔ (البتیان ج ٨ ص ٤٦١‘ داراحیاء التراث العربی بیروت،چشتی)


شیعہ عالم ابو علی الفضل بن الحسن الطبرسی (من علماء القرن السادس) الانعم : ٦٢ کی تفسیر ہیں لکھتے ہیں : ابو طالب کے ایمان پر اہل بیت کا اجماع ہے اور ان کا اجماع حجت ہے کیونکہ وہ اس ثقلین میں سے ایک ہیں جن کے ساتھ تمسک کرنے کا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا ہے ‘ آپ نے فرمایا اگر تم ان کے ساتھ تمسک کرو گے تو گمراہ نہیں ہو گے ‘ اور اس پر یہ بھی دلیل ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) فتح مکہ کے دن اپنے والد ابو قحافہ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے کر گئے ‘ وہ اسلام لے آئے ‘ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم اس بوڑھے کو کیوں لے کر آئے ‘ وہ نابینا تھے ‘ میں خود ان کے پاس آجاتا ‘ حضرت ابوبکر نے کہا میرا ارادہ تھا اللہ تعالیٰ ان کو اجر عطا فرمائے گا ‘ اور اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے مجھے اپنے باپ کے اسلام لانے سے زیادہ خوشی ابوطالب کے اسلام لانے سے ہوئی تھی جس کے اسلام لانے سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوئی تھیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم نے سچ کہا۔ ابوطالب کے وہ اقوال اور اشعار جن سے ان کے اسلام کا پتا چلتا ہے بہت زیادہ ہیں ‘ بعض اشعار یہ ہیں :

الم تعلموا اناوجد نا محمدا نبیا کموسی خط فی اول الکتب ۔

کیا تم کو معلوم نہیں کہ ہم نے محمد کو موسیٰ کی طرح نبی پایا ان کا ذکر پہلی کتابوں میں لکھا ہوا ہے ۔

الاان احمد قد جاء ھم بحق ولم یاتھم بالکذب ۔

سنو بیشک احمد ان کے پاس حق لے کر آئے ہیں اور وہ جھوٹ نہیں لائے ۔ (مجمع البیان جز ٤ ص ٥٤٤۔ ٤٤٤‘ مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت)


شیعہ عالم محمد حسین الطباطبائی القصص : ٦٥ کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ابوطالب کے ایمان کے متعلق ائمہ اہل بیت کی روایات مشہور ہیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق اور آپ کے دین کے برحق ہونے کے متعلق ان کے اشعار بہت زیادہ ہیں ‘ اور جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کمسن تھے توا نہوں نے ہی آپ کو پناہ دی تھی ‘ اور بعثت کے بعد ہجرت سے پہلے انہوں نے ہی آپ کی حفاظت کی تھی اور مہاجرین اور انصار نے ہجرت کے بعد دس سال تک جو آپ کی نصرت اور حفاظت کی ہے اس کے برابر ہجرت سے پہلے دس سال تک ابوطالب نے آپ کی حفاظت کی ۔ (المیزان ج ٦١ ص ٧٥‘ مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ ا ایران ‘ ٢٦٣١ ھ،چشتی)


شیخ طبرسی نے جو روایت پیش کی ہے اس کا کوئی حوالہ ذکر نہیں کیا ‘ اور نہ ان اشعار کی کوئی سند ہے ۔


ایمانِ ابو طالب کے متعلق ایک حدیث کی تحقیق


حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : فلما رأی حرص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علیه قال :یا ابن أخي! والله، لو لا مخافة السبة علیك وعلی بني أبیک من بعدي، وأن تظن قریش أني إنما قلتھا جزعا من الموت لقلتھا، لا أقولھا إلا لإسرک بھا ، قال: فلما تقارب من أبي طالب الموت قال: نظر العباس إلیه یحرک شفتیه، قال: فأصغی إلیه بأذنه، قال: فقال: یا ابن أخي ! واللہ، لقد قال أخي الکلمة التي أمرته أن یقولھا، قال: فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : لم أسمع ۔

ترجمہ : جب ابو طالب نے اپنے (ایمان کے) بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرص دیکھی تو کہا : اے بھتیجے ! اللہ کی قسم ، اگر مجھے اپنے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بھائیوں پر طعن و تشنیع کا خطرہ نہ ہوتا ، نیز قریش یہ نہ سمجھتے کہ میں نے موت کے ڈر سے یہ کلمہ پڑھا ہے تو میں کلمہ پڑھ لیتا ۔ میں صرف آپ کو خوش کرنے کیلئے ایسا کروں گا ۔ پھر جب ابو طالب کی موت کا وقت آیا تو عباس نے ان کو ہونٹ ہلاتے ہوئے دیکھا ۔ انہوں نے اپنا کان لگایا اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ) کہا : اےبھتیجے ! یقیناً میرے بھائی نے وہ بات کہہ دی ہے جس کے کہنے کا آپ نے اُنہیں حکم دیا تھا ۔ (السیرۃ لابن ھشام: ۴۱۷/۱، ۴۱۸،چشتی)(المغازي لیونس بن بکیر: ص ۲۳۸)(دلائل النبوۃ للبیھقي: ۳۴۶/۲)


یہ روایت ضعیف ہے


امام ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اس حدیث کی سند کا ایک راوی نا معلوم ہے ۔ اس کے برعکس صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو طالب کفر کی حالت میں فوت ہوئے ۔ (تاریخ ابن عساکر: ۳۳/۶۶)


امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ھٰذا إسنادمنقطع ۔۔۔۔"الخ ، یہ سند منقطع ہے ۔۔۔۔۔ (تاریخ الاسلام: ۱۵۱/۲)


علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں : إن في السند مبھما لا یعرف حاله ، وھو قول عن بعض أھله، وھذا إبھام في الاسم و الحال، و مثله یتوقف فیه لو انفرد........ و الخبر عندي ما صح لضعف في سندہ" ۔

ترجمہ : اس کی سند میں ایک مبہم راوی ہے ، جس کے حالات معلوم نہیں ہوسکے ، نیز یہ اُس کے بعض اہل کی بات ہے جو کہ نام اور حالات دونوں میں ابہام ہے ۔ اس جیسے راوی کی روایت اگر منفرد ہو تو اس میں توقف کیا جاتا ہے ۔۔۔ میرے نزدیک یہ روایت سند کے ضعیف ہونے کی بنا پر صحیح نہیں ۔ (البدایة و النھایة لابن کثیر: ۱۲۳/۳ ۔ ۱۲۵)


امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : بسند فیه لم یسم ...... و ھذا الحدیث لو کان طریقه صحیحا لعارضه ھذا الحدیث الذی ھو أصح منه فضلا عن أنه لا یصح ۔

ترجمہ : یہ روایت ایسی سند کے ساتھ مروی ہے جس میں ایک راوی کا نام ہی بیان نہیں کیا گیا .... اس حدیث کی سند اگر صحیح بھی ہو تو یہ اپنے سے زیادہ صحیح حدیث کے معارض ہے ۔ اس کا صحیح نہ ہونا مستزاد ہے ۔ (فتح الباری لابن حجر: ۱۸۴/۷)


امام بدر الدین عینی حنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : في سند ھذا الحدیث مبھم لا یعرف حاله، وھذا إبھام في الاسم و الحال، و مثله یتوقف فیه لو انفرد ۔

ترجمہ : اس حدیث کی سند میں ایک مبہم راوی ہے جس کے حالات معلوم نہیں ہوسکے۔ نام اور حالات دونوں مجہول ہیں۔ اس جیسے راوی کی روایت اگر منفرد ہو تو اس میں توقف کیا جاتا ہے ۔ (شرح ابي داؤد للعیني الحنفي: ۱۷۲/۶)


محترم قارئینِ کرام : ان تمام دلائل کے باوجود بعض ناہنجاروں کی طرف سے صرف اکابرین اہلسنت میں سے بعض کو تنقید کا نشانہ بنانا ، سوقیانہ جملے کسنا اُن کے بغض باطن کی دلیل نہیں تو کیا ہے ؟ کبھی ان لوگوں نے سوچا کہ اِن کی نفرت و غلاظت کی زد میں کون کون آرہا ہے ؟ اللہ تعالیٰ جملہ اہلسنّت کو اِن فتنہ پروروں اور فتنوں سے محفوظ فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔