Saturday 4 September 2021

کفیلِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کون ؟

0 comments

 کفیلِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کون ؟

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : اہلِ علم سے گذارش ہے کہ فقیر نے وقت کی شدید کمی اور کچھ دیگر معاملات و معاشی پریشانیوں کی وجہ سے اس موضوع پر مختصر مضمون لکھا ہے ۔ ایک سمت کا تعین کیا ہے ۔ آپ حضرات اس موضوع کی طرف توجہ فرماٸیں اور تاریخی روایات کی تحقیق فرماٸیں ۔ خدا را اے اہلِ علم جاگیں اور قوم کو اصل حقاٸق سے آگاہ فرماٸیں یہ آپ پر فرض بھی ہے اور قرض بھی اٹھیے اور تمام مصلحتیں چھوڑ کر حق بیان کیجیے جزاکم اللہ خیراً کثیرا آمین ۔


دو سال نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے دادا عبد المطلب کی تربیت میں رہے ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر آٹھ سال کو پہنچی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دادا عبد المطلب نے بھی مکہ میں انتقال کیا اور حجون میں مدفون ہوئے ۔ عبد المطلب کے دس بیٹوں میں سے زبیر ، ابو طالب اور عبد ﷲ حقیقی بھائی تھے ۔ ان تینوں کی والدہ فاطمہ مخزومیہ تھیں ۔


علامہ ابن قتیبہ ایک نامور اور مستند مصنف مانے جاتے ہیں ۔ محدثین بھی ان کے اعتماد کے قائل ہیں ۔ یہی قتیبہ لکھتے ہیں کہ فاطمہ بنت عمرو بن عائذ بن عمران بن مخزوم کے بطن سے عبد المطلب کے تین بیٹے تھے ؛ زبیر ، ابو طالب اور عبد ﷲ ۔ (یہی بات علامہ ابن حزم نے بھی جمہرۃ الانساب میں لکھی ہے) طبقاتِ ابن سعد میں زبیر کے متعلق لکھا ہوا ہے : وَ الزُّبَیْرُ کَانَ شَاعِرًا شَرِیْفًا وَ اِلَیْہِ اَوْصَی عَبْدُ الْمُطَّلِبِ ۔ اور زبیر شاعر اور باعزّت شخص تھے اور انہی کو عبد المطلب نے اپنا وصی کیا تھا۔ اور شرح ابن ابی الحدید نے یہ لکھا ہے : فَاَمَّا الزُّبَیْرُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَکَانَ اَشْرَافَ قُرَیْشٍ وَ وُجُوْھَھَا ۔ لیکن زبیر بن عبد المطلب تو وہ قریش کے معزّز اور باوقار سرداروں میں سے تھے ۔


مؤلف کتاب المجر ابو جعفر محمد بن حبیب (المتوفی ۲۴۵ھ) نے الحکام من قریش ثم من بنی ہاشم کے عنوان کے تحت لکھا ہے کہ بنی ہاشم میں سے عبد المطلب کے بعد زبیر اور ان کے بعد ابوطالب سردار ہوئے ۔ (کتاب المجر صفحہ نمبر ۱۳۲)


وفات سے قبل عبد المطلب نے اپنے بڑے بیٹے زبیر کو جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حقیقی چچا تھے ، ان کی پرورش کی وصیت کردی تھی ۔ زبیر کو اپنے درّ یتیم بھتیجے سے بے پناہ محبت اور غیر معمولی اُنس تھا ۔ بچپن میں آپ کو گود میں اُٹھائے پھرتے ، ہاتھوں پر جھلاتے اور لوریاں گنگناتے ۔ چنانچہ ’الاصابہ‘ میں ہے کہ زبیر بن عبد المطلب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جب وہ چھوٹے تھے جھلایا کرتے اور کہتے جاتے تھے کہ یہ محمد میرے بھائی عبد ﷲ کی نشانی ہیں ۔ بڑے عیش و آرام سے جیے اور بڑی اعلیٰ عزت و توقیر پائے ۔ (الاصابہ جلد نمبر ۲ صفحہ ۳۰۸،چشتی)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بچپن اور آغازِ شباب زبیر کے ساتھ گزرا ۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کی بڑی عزت فرمایا کرتے تھے ۔


زبیر بن عبد المطلب اپنی نیک خصلتوں اور اعلیٰ صفتوں کی وجہ سے تمام خاندان میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے اور تمام خاندان میں نہایت عزیز اور محبوب تھے ۔ زبیر کے مرنے پر ان کی بہن حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے بڑا زوردار مرثیہ کہا تھا جس کے آخری بند کا ترجمہ یہ ہے : اگر میں اپنی زبان سے اس کا مرثیہ نہ کہتی تو آنسو بہہ بہہ کر میری پسلیوں کو چور چور کردیتے ۔


سوائے زبیر کے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے کسی اور بھائی کے مرنے پر مرثیہ نہیں کہا ۔ حضرت حمزہ رضی ﷲ عنہ کی شہادت کا آپ کو بہت صدمہ ہوا مگر اس پر بھی مرثیہ نہیں کہا اور ابوطالب کا تو ذکر ہی نہیں ۔


حضرت عبد المطلب کی وفات کے بعد آلِ ہاشم کی سرداری کا تاج زبیر کے سر پر رکھا گیا ۔ حرب الفجار کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر 15 سال تھی ۔ قریش کی کنانہ اور قیس کے قبیلوں کے ساتھ لڑائی ہوئی اور حرم اور حرام مہینے دونوں کی حرمت چاک کی گئی ۔ اس لیے اسے حربِ فجار کہتے ہیں ۔ قریش کے سپہ سالارِ اعظم حرب بن اُمیہ تھے اور بنی عبد المطلب کے سردار زبیر تھے ۔ اس لڑائی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی شریک تھے ۔ دشمنوں کے تیر چن کر اپنے چچاؤں کو دیتے تھے ۔


حلف الفضول کی تجدید کا سہرا بھی زبیر کے سر بندھتا ہے ۔ زبیر بن عبد المطلب نے اپنے بعض اشعار میں اس معاہدے کا ذکر کیا ہے ۔


 نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی معاہدے کے وقت عبد ﷲ بن جدعان کے گھر میں موجود تھے ۔ چچا زبیر کے مرنے کے بعد اپنی متاہل (شادی شدہ) زندگی کا خیال آیا ۔ حضرت ابنِ عبّاس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ابوطالب کو اُمِّ ہانی رضی اللہ عنہا سے نکاح کا پیغام دیا تھا ، جس پر ابوطالب نے کہا’’ بھتیجے ! مَیں بنو مخزوم کو زبان دے چُکا ہوں ۔ قریبی قرابت داری کی بنا پر اب اُنہیں منع کرنا مناسب نہ ہوگا ۔ (طبقات ابنِ سعد 343/8)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا جنابِ ابو طالب (عبدِ مناف) کے پاس اُمِّ ہانی کےلیے شادی کا پیغام بھیجا مگر جنابِ ابو طالب نے اپنے ماموں کے بیٹے ہبیرۃ بن ابی وہب سے نکاح کردیا اور بھتیجے کو جواب دے دیا ۔ (طبقاتِ ابن سعد، ج:۲، ص:۱۵۲)(تاریخِ طبری،  الاصابہ،کتاب المجر،چشتی)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب اپنے جنابِ ابو طالب سے شکوہ کیا تو جنابِ ابو طالب نے جو جواب دیا وہ تاریخ کے صفحات پر مرقوم ہے ۔ بھتیجے ! ان لوگوں سے ہماری قرابتیں پہلے سے ہوتی آئی ہیں اور اشراف کا میل اشراف سے ہی ہوتا ہے مگر تو تو ایک محتاج آدمی ہے ۔ (طبقاتِ ابن سعد، تاریخِ طبری، الاصابہ) ۔ (أَسْتَغْفِرُ اللّٰه)


پتہ نہیں ہمارے مؤرّخین و اہلِ سیر نے کفالت کی ذمہ داری کا راگ جنابِ ابو طالب کو کیسے الاپا ہے ؟ جبکہ جنابِ ابوطالب کی کفالت کے ثبوت میں تاریخی شہادت کی کمی ہے ۔ جس نے اپنے کسی بیٹے کی پرورش خود نہ کی ہو اور جنابِ ابو طالب کا یہی اشرافِ خاندانی داماد (ہبیرہ بن ابی وہب) اعلانِ نبوت کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں ہجو بکتا رہا اور ہر غزوے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مقابل آتا رہا ۔ آخر فتحِ مکہ کے روز نجران کی طرف بھاگ گیا اور بحالتِ کفر کہیں مر گیا ۔


صحیح بخاری کتاب الاجارۃ حدیث:۴۶۳ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ’’ ﷲ نے کوئی پیغمبر ایسا نہیں بھیجا کہ جس نے بکریاں نہ َ چرائی ہوں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا آپ نے بھی ؟ آپ نے فرمایا : نَعَمْ ! کُنْتُ اَرْعَاھَا عَلٰی قَرَارِیْطَ لِاَھْلِ مَکَّۃَ‘‘ ہاں ! میں اہلِ مکہ کی چند قیراط تنخواہ پر بکریاں َ چراتا تھا ۔


جن حضرات کے ذہنوں پر جنابِ ابوطالب کی کفالت والی فرضی روایات چھائی ہوئی ہیں ، اس حدیث کا جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ قراریط سے مراد سکّے نہیں بلکہ قراریط ایک جگہ کا نام ہے مگر امام بخاری علیہ الرحمہ نے اسے اُجرت کے باب میں نقل کیا ہے ۔ دوم اہلِ مکہ کی بکریاں چرانے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے جبکہ کفالت چچا ابوطالب کی تسلیم کرتے ہیں؟ …… پھر بھی اگر کوئی مصر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کفالت ابوطالب نے کی تو فقیر کا جواب ادباً یہ ہوگا کہ جنابِ ابوطالب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اہلِ مکہ کی بکریاں چروا کر اپنا اور اپنے اہل کا گزارہ کر رہے تھے ۔ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ابوطالب پر احسان ہے نہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ابوطالب کا ۔


قابلِ غور بات یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پیدائش کے معدودے چند روز بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا چچا ! آپ تو جانتے ہیں کہ میرا چچا ابوطالب تنگدست ہے ۔ کیوں نہ ہم اس سے ایک بیٹا لے کر اس بیٹے کی ذمہ داری اپنے سر لے لیں ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے جعفر رضی اللہ عنہ کو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے  حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی کفالت میں لے لیا ۔ طالب اور عقیل اس وقت جوان تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شادی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ سے ہوچکی تھی ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت سے دس سال پہلے پیدا ہوئے ۔ جنابِ ابو طالب چوں کہ کثیرالعیال اور مالی و معاشی تنگی سے نہایت پریشان تھے ، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے محبوب چچا کی تنگ دستی اور مفلسی سے متاثر ہوکر حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ہمیں اس مصیبت و پریشاں حالی میں چچا کا ہاتھ بٹانا چاہیے ۔ چناں چہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حسب ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی کفالت کی ذمے داری لی اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نگاہِ انتخاب نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پسند فرمایا ۔ پھر سوچیۓ کفیل کس کا کون ہے ؟ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔