Thursday 23 September 2021

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بول و براز پاک ہیں خارجیوں کو جواب حصہ اول

0 comments

 نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بول و براز پاک ہیں خارجیوں کو جواب حصہ اول

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : صحابہ و تابعین حضور  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے موئے مبارک تبرک کے طور پر رکھتے تھے ۔ اور حضور  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تمام فضلات مبارکہ پاک تھے ۔ (تیسیرُالباری جلد 1 صفحہ 179 غیر مقلد اہلحدیث عالم علامہ نواب وحید الزّمان)


ملا علی قاری رحمۃ ﷲ تعالی علیہ شرح شفاء باب الماء الذی یغسل بہ شعر الانسان میں حسب ذیل روایت نقل فرماتے ہیں : و روی ان رجلًا قال رایت النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم أبعد فی المذھب فلما خرج نظرت فلم أر شیئاً ورایت فی ذلک الموضع ثلاثۃ الاحجار اللا تی استنجی بھن فأخذ تھن فاذا بھن یفوح منھن روائح المسک فکنت اذا جئت یوم الجمعۃ المسجد اخذ تھن فی کمی فتغلب رائحتھن روائح من تطیب وتعطر ۔

ترجمہ : (صحابہ کرام میں سے) ایک مرد سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ضرورت رفع فرمانے کے لئے بہت دُور تشریف لے گئے جب واپس تشریف لائے تو میں نے اس جگہ نظر کی کچھ نہ پایا البتہ تین ڈھیلے پڑے تھے جن سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے استنجا فرمایا تھا میں نے انہیں اُٹھا لیا ، ان ڈھیلوں سے مشک کی خوشبوئیں مہک رہی تھیں، جمعہ کے دن جب مسجد میں آتا تو وہ ڈھیلے آستین میں ڈال کر لاتا ان کی خوشبو ایسی مہکتی کہ وہ تمام عطر اور خوشبو لگانے والوں کی خوشبو پرغالب آجاتی ۔


عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ زُبَيْرٍ رضی لله عنه، أَنَّه أَتَی النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم وَهُوَ يَحْتَجِمُ، فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ : يَا عَبْدَ ﷲِ، اِذْْهَبْ بِهٰذَا الدَّمِ فَأَهْرِقْه حَيْثُ لَا يَرَاکَ أَحَدٌ، فَلَمَّا بَرَزْتُ عَنْ رَسُوْلِ ﷲِ صلی الله عليه واله وسلم عَمَدْتُ إِلَی الدَّمِ فَحَسَوْتُه، فَلَمَّا رَجَعْتُ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم قَالَ : مَا صَنَعْتَ يَا عَبْدَ ﷲِ ؟ قَالَ : جَعَلْتُه فِي مَکَانٍ ظَنَنْتُ أَنَّه خَافَ عَلَی النَّاسِ، قَالَ: فَلَعَلَّکَ شَرِبْتَه ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: وَمَنْ أَمَرَکَ أَنْ تَشْرَبَ الدَّمَ؟ وَيْلٌ لَکَ مِنَ النَّاسِ وَوَيْلٌ لِلنَّاسِ مِنْکَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَالْبَيْهَقِيُّ.(أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 /638، الرقم: 6343،چشتی)

ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن زبیر رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آئے اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پچھنے لگوا رہے تھے ۔ پس جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فارغ ہوئے تو فرمایا : اے عبد اللہ ! اس خون کو لے جاؤ اور اسے کسی ایسی جگہ بہا دو جہاں تمہیں کوئی دیکھ نہ سکے۔ پس جب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی (ظاہری) نگاہوں سے پوشیدہ ہوا تو خون مبارک پینے کا ارادہ کیا اور اُسے پی لیا (اور جب واپس پلٹے) تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دریافت فرمایا: اے عبد اللہ! تم نے اس خون کا کیا کیا ؟ حضرت عبد اللہ نے عرض کیا : (یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میں نے اسے ایسی خفیہ جگہ پر رکھا ہے کہ جہاں تک میرا خیال ہے وہ (ہمیشہ) لوگوں سے مخفی رہے گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : تم نے شاید اُسے پی لیا ہے ؟ اُنہوں نے عرض کیا : جی ہاں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : تمہیں کس نے خون پینے کو کہا تھا ؟ (آج کے بعد) تو لوگوں (کو تکلیف دینے) سے محفوظ ہوگیا اور لوگ تجھ سے (تکلیف پانے سے) محفوظ ہو گئے ۔ اِس حدیث کو امام حاکم ، ابن ابی عاصم اور بیہقی نے روایت کیا ہے ۔


عَنْ حَکِيْمَةَ بِنْتِ أُمَيْمَةَ عَنْ أُمِّهَا رضي ﷲ عنها أَنَّهَا قَالَتْ : کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم يَبُوْلُ فِي قَدَحِ عِيْدَانٍ، ثُمَّ يُوْضَعُ تَحْتَ سَرِيْرِه، فَبَالَ فِيْهِ ثُمَّ جَاءَ فَأَرَادَه فَإِذَا الْقَدَحُ لَيْسَ فِيْهِ شَيئٌ فَقَالَ لِامْرَأَةٍ يُقَالُ لَهَا: بَرَکَةُ کَانَتْ تَخْدِمُ أُمَّ حَبِيْبَةَ رضي ﷲ عنها جَائَتْ بِهَا مِنْ أَرْضِ الْحَبَشَةِ: أَيْنَ الْبَوْلُ الَّذِي کَانَ فِي الْقَدَحِ ؟ قَالَتْ: شَرِبْتُه فَقَالَ: لَقَدِ احْتَظَرْتِ مِنَ النَّارِ بِحِظَارٍ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 24 /189،چشتی)

ترجمہ : حضرت حکیمہ بنت اُمیمہ رضی ﷲ عنہا اپنی والدہ سے بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (بیماری کے عالم میں رات کے وقت) لکڑی کے پیالے میں پیشاب کیا کرتے تھے ، پھر اُسے اپنی چارپائی کے نیچے رکھ دیتے تھے ۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ عمل فرمایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دوبارہ تشریف لائے اور اس برتن کو دیکھا (تاکہ گرا دیں) تو اس میں کوئی چیز نہ تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت اُمّ حبیبہ رضی ﷲ عنہا کی خادمہ برکہ سے ، جو کہ حبشہ سے ان کے ساتھ آئیں تھیں ، اس بارے میں استفسار فرمایا کہ اس برتن کا پیشاب کہاں ہے ؟ اس نے عرض کیا : (یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میں نے اسے پی لیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : تو نے خود کو جہنم کی آگ سے بچا لیا ہے ۔ اِس حدیث کو امام طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے ۔


عَنْ سَفِيْنَةَ رضی الله عنه قَالَ: احْتَجَمَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم فَقَالَ لِي: خُذْ هٰذَا الدَّمَ فَادْفِنْهُ مِنَ الطَّيْرِ وَالدَّوَابِ وَالنَّاسِ، فَتَغَيَّبْتُ فَشَرِبْتُه، ثُمَّ سَأَلَنِي أَوْ أُخْبِرَ أَنِّي شَرِبْتُه فَضَحِکَ۔رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَرِجَالُه ثِقَاتٌ ۔

ترجمہ : حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پچھنے لگوائے پھر مجھے حکم فرمایا، یہ خون لے جاؤ اور اسے کسی ایسی جگہ پر دفن کردو جہاں پرندے، چوپائے اور آدمی نہ پہنچ سکیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں جب نظروں سے اوجھل ہوا تو میں نے اُسے پی لیا پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا یا آپ کو بتایا گیا کہ میں نے اسے پی لیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم مسکرا پڑے ۔ اس حدیث کو امام بخاری نے التاریخ الکبیر میں اور بیہقی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ اس کے رجال ثقہ ہیں ۔ (أخرجه البخاري في التاريخ الکبير، 4 /209، الرقم: 2524، والطبراني المعجم الکبير، 7 /81، الرقم: 6434، والبيهقي في السنن الکبری، 7 /67، الرقم: 13186، وأيضًا في شعب الإيمان، 5 /233، الرقم: 6489، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 /270، وقال: رواه الطبراني والبزار ورجال الطبراني ثقات)


عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ زُبَيْرٍ رضی الله عنه، أَنَّه أَتَی النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم وَهُوَ يَحْتَجِمُ، فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ: يَا عَبْدَ ﷲِ، اِذْْهَبْ بِهٰذَا الدَّمِ فَأَهْرِقْه حَيْثُ لَا يَرَاکَ أَحَدٌ، فَلَمَّا بَرَزْتُ عَنْ رَسُوْلِ ﷲِ صلی الله عليه واله وسلم عَمَدْتُ إِلَی الدَّمِ فَحَسَوْتُه، فَلَمَّا رَجَعْتُ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم قَالَ: مَا صَنَعْتَ يَا عَبْدَ ﷲِ؟ قَالَ: جَعَلْتُه فِي مَکَانٍ ظَنَنْتُ أَنَّه خَافَ عَلَی النَّاسِ، قَالَ: فَلَعَلَّکَ شَرِبْتَه؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: وَمَنْ أَمَرَکَ أَنْ تَشْرَبَ الدَّمَ؟ وَيْلٌ لَکَ مِنَ النَّاسِ وَوَيْلٌ لِلنَّاسِ مِنْکَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَالْبَيْهَقِيُّ ۔

ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن زبیر رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس آئے اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پچھنے لگوا رہے تھے۔ پس جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فارغ ہوئے تو فرمایا: اے عبد اللہ ! اس خون کو لے جاؤ اور اسے کسی ایسی جگہ بہا دو جہاں تمہیں کوئی دیکھ نہ سکے ۔ پس جب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی (ظاہری) نگاہوں سے پوشیدہ ہوا تو خون مبارک پینے کا ارادہ کیا اور اُسے پی لیا (اور جب واپس پلٹے) تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دریافت فرمایا : اے عبد اللہ! تم نے اس خون کا کیا کیا ؟ حضرت عبد اللہ نے عرض کیا : (یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم) میں نے اسے ایسی خفیہ جگہ پر رکھا ہے کہ جہاں تک میرا خیال ہے وہ (ہمیشہ) لوگوں سے مخفی رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تم نے شاید اُسے پی لیا ہے؟ اُنہوں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کس نے خون پینے کو کہا تھا؟ (آج کے بعد) تو لوگوں (کو تکلیف دینے) سے محفوظ ہوگیا اور لوگ تجھ سے (تکلیف پانے سے) محفوظ ہو گئے ۔ اِس حدیث کو امام حاکم، ابن ابی عاصم اور بیہقی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 /638، الرقم: 6343، والبيهقي في السنن الکبری، 7 /67، الرقم: 13185، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني،1 /414، الرقم: 578، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 9 /308، الرقم: 267، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 /270، والعسقلاني في الإصابة، 4 /93، وأيضًا في تلخيص الحبير، 1 /30، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 3 /366، والحکيم الترمذي في نوادر الأصول،1 /186،چشتی)


عَنْ حَکِيْمَةَ بِنْتِ أُمَيْمَةَ عَنْ أُمِّهَا رضي ﷲ عنها أَنَّهَا قَالَتْ: کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم يَبُوْلُ فِي قَدَحِ عِيْدَانٍ، ثُمَّ يُوْضَعُ تَحْتَ سَرِيْرِه، فَبَالَ فِيْهِ ثُمَّ جَاءَ فَأَرَادَه فَإِذَا الْقَدَحُ لَيْسَ فِيْهِ شَيئٌ فَقَالَ لِامْرَأَةٍ يُقَالُ لَهَا: بَرَکَةُ کَانَتْ تَخْدِمُ أُمَّ حَبِيْبَةَ رضي ﷲ عنها جَائَتْ بِهَا مِنْ أَرْضِ الْحَبَشَةِ: أَيْنَ الْبَوْلُ الَّذِي کَانَ فِي الْقَدَحِ ؟ قَالَتْ: شَرِبْتُه فَقَالَ : لَقَدِ احْتَظَرْتِ مِنَ النَّارِ بِحِظَارٍ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ ۔

ترجمہ : حضرت حکیمہ بنت اُمیمہ رضی ﷲ عنہا اپنی والدہ سے بیان کرتی ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم (بیماری کے عالم میں رات کے وقت) لکڑی کے پیالے میں پیشاب کیا کرتے تھے، پھر اُسے اپنی چارپائی کے نیچے رکھ دیتے تھے ۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ عمل فرمایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم دوبارہ تشریف لائے اور اس برتن کو دیکھا (تاکہ گرا دیں) تو اس میں کوئی چیز نہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت اُمّ حبیبہ رضی ﷲ عنہا کی خادمہ برکہ سے، جو کہ حبشہ سے ان کے ساتھ آئیں تھیں، اس بارے میں استفسار فرمایا کہ اس برتن کا پیشاب کہاں ہے ؟ اس نے عرض کیا: (یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم) میں نے اسے پی لیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : تو نے خود کو جہنم کی آگ سے بچا لیا ہے۔اِس حدیث کو امام طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 24 /189، الرقم: 477، والبيهقي في السنن الکبری، 7 /67، الرقم: 13184، والمزي في تهذيب الکمال، 35 /156، الرقم: 7819، والعسقلاني في الإصابة، 7 /531، وأيضًا في تلخيص الحبير، 1 /32، وابن عبد البر في الاستيعاب، 4 /1794)


ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم رات کو اُٹھے ایک برتن میں پیشاب فرمایا حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ایک خادمہ جن کا نام اُم ایمن یا برکہ ہے وہ فرماتی ہیں کہ مجھے پیاس لگی تو میں نے پانی سمجھ کر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا پیشاب مبارک پی لیا، صبح کو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دریافت فرمایا تو میں نے عرض کیا کہ حضور وہ میں نے پی لیا، حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا کہ تجھے کبھی پیٹ کی بیماری نہ ہوگی۔(نسیم الریاض شرح شفاء قاضی عیاض، جلد۱، ص۴۴۸، ۴۴۹،چشتی)


محدثین کرام ملا علی قاری ، علامہ شہاب الدین خفاجی علیہما الحمہ نے فرمایا کہ یہ حدیث بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح ہے اور اسی لئے دارقطنی محدّث نے امام بخاری اور امام مسلم پر الزام عائد کیا کہ جب یہ حدیث بخاری ومسلم کی شرط کے موافق صحیح تھی تو انہوں نے اس کو اپنی صحیحین میں کیوں درج نہ کیا، اگرچہ یہ الزام صحیح نہیں اس لیے کہ شیخین نے کبھی اس بات کا التزام نہیں کیا کہ جو حدیث ہماری مقرر کی ہوئی شرط پر صحیح ہوگی ہم ضرور اس کو اپنی صحیحین میں لائیں گے، لیکن دارقطنی کے اس الزام سے یہ بات ضرور ثابت ہوگئی کہ یہ حدیث علی شرط الشیخین صحیح ہے ۔ (نسیم الریاض، جلد۱، ص۴۴۸ اور شرح شفاء ملا علی قاری، جلد۱، صفحہ ۱۶۳)


اس حدیث سے اور اسی مضمون کی دیگر احادیثِ صحیحہ سے جلیل القدر ائمہ دین اور اعلام اُمت محدثین کرام اور فقہاء نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بول مبارک بلکہ جمیع فضلات شریفہ کی طہارت کا قول کیا جیسا کہ بالتفصیل عبارات نقل کی جائیں گی بلکہ بعض روایات حضرات محدثین وشارحین کرام نے اس مضمون میں وارد فرمائی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا بول وبراز مبارک مشک و عنبرسے زیادہ خوشبودار تھا ۔


علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ شارح بخاری فتح الباری شرح بخاری میں طہارت فضلات شریفہ کا مضمون یوں ارقام فرماتے ہیں : وقد تکاثرت الادلۃ علی طہارۃ فضلاۃ وعد الائمۃ ذلک فی خصائصہ فلا یلتفت الی ماوقع فی کتب کثیر من الشافعیۃ مما یخالف ذلک فقد استقر الامر بین أئمتھم علی القول بالطہارۃ ۔

ترجمہ : بے شک بڑی کثرت سے دلیلیں قائم ہیں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے فضلات شریفہ کے طاہر ہونے پر اور ائمہ نے اس کو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خصائص سے شمار کیا ہے لہٰذا اکثر شافعیہ کی کتابوں میں جو اس کے خلاف واقع ہوا ہے قطعاً قابل التفات نہیں اس لیے کہ ان کے ائمہ کے درمیان پختہ اور مضبو ط قول طہارت فضلات ہی کا ہے ۔ (فتح الباری شرح صحیح بخاری جلد نمبر ۱ صفحہ ۲۱۸،چشتی)


امام بدرالدین عینی حنفی علیہ الرحمہ شارح بخاری عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے فضلات شریفہ کی طہارۃ کا قول کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں : وقد وردت احادیث کثیرۃ ان جماعۃ شربوا دم النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم منھم ابو طیبۃ الحجام وغلام من قریش حجم النبی علیہ الصلوٰۃ والسلام وعبد ﷲ ابن الزبیر شرب دم النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم رواہ البزار والطبرانی والحاکم والبیہقی وابونعیم فی الحلیۃ ویروی عن علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ انہ شرب دم النبی علیہ الصلوٰۃ والسلام وروی ایضًا ان اُم ایمن شربت بول النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم رواہ الحاکم والدارقطنی وابو نعیم واخرج الطبرانی فی الاوسط فی روایۃ سلمی امرأۃ ابی رافع انہا شربت بعض ماء غسل بہ رسول ﷲ علیہ الصلوٰۃ والسلام فقال لہا حرم ﷲ بدنک علی النار وقال بعضہم الحق ان حکم النبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کحکم جمیع المکلفین فی الاحکام التکلیفیۃ الافیما یخص بدلیل قلت یلزم من ھذا ان یکون الناس مساویًا للنبی علیہ الصلوۃ والسلام ولا یقول ذلک الاجاھل غبییٌ واین مرتبتہٗ من مراتب الناس والایلزم ان یکون دلیل الخصوص بالنقل دائمًا والعقل لہٗ مدخل فی تمیز النبی علیہ الصلوٰۃ والسلام من غیرہ فی مثل ھذا الاشیاء وانا اعتقد انہ لا یقاس علیہ غیرہ وان قالوا غیر ذلک فاذنی عنہ صما۔ انتہیٰ ۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، جلد۱، ص۷۷۸) ۔ (مزید تفصیل و تحقیق حصہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔