Tuesday 7 September 2021

حضرت محمد ﷺ آخری نبی ہیں حصہ سوم

0 comments

 حضرت محمد ﷺ آخری نبی ہیں حصہ سوم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : امید ہے آپ نے حصہ اول دوم پڑھ لیا ہوگا اب حصہ سوم پڑھتے ہیں : قادیانی لکھتا ہے کہ : حضرت مسیح موعود (علیہ السلام) کے زمانے میں ‘ میں نے اپنی کتاب ” انوار اللہ “ میں ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود بموجب حدیث صحیح حقیقی نبی ہیں اور ایسے ہی نبی ہیں جیسے حضرت موسیٰ و عیسیٰ (علیہما السلام) و آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی ہیں (لانفرق بین احد من رسلہ) ہاں صاحب شریعت جدیدہ نبی نہیں۔ جیسے کہ پہلے بھی بعض صاحب شریعت نبی نہ تھے۔ “یہ کتاب حضرت مسیح موعود نے پڑھ کر فرمایا ” آپ نے ہماری طرف سے حیدر آباد دکن میں حق تبلیغ ادا کردیا ہے۔ “(اخبار الفضل قادیان ج ٣ ص ٣٨۔ ٣٩‘ مورخہ ١٩ ستمبر ١٩١٥ ء)


” غرضیکہ یہ ثابت شدہ امر ہے کہ مسیح موعود (یعنی مرزا غلام احمد قادیانی صاحب) اللہ تعالیٰ کا ایک رسول اور نبی تھا اور وہی نبی تھا جس کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نبی اللہ کے نام سے پکار اور وہی نبی تھا جس کو خود اللہ نے اپنی وحی میں یا ایھا النبی کے الفاظ سے مخاطب کیا “۔ (کلمۃ الفصل مصنف صاحب زادہ بشیر احمد صاحب قادیانی ‘ مندرجہ رسالہ ریویو آف ریلچز قادیان ص ١١٤ نمبر ٣‘ جلد ١٤)


” محترم ڈاکٹر صاحب ! اگر آپ حضرات ( یعنی لاہوری جماعت) صرف مسئلہ خلافت کے منکر ہوتے تو مجھے رنج نہ ہوتا کیونکہ آپ سے پہلے بھی ایک گروہ خوارج کا موجود ہے مگر غضب تو یہ ہے کہ آپ حضرت اقدس (مرزا صاحب) کو مسیح موعود ‘ مہدی نبی نہیں مانتے ۔ اگر حضرت مرزا صاحب نبی نہیں تھے تو مسیح موعود بھی نہ تھے۔ (نعوذ باللہ) اور اس لیے آپ کا ماننا نہ ماننا برابر ہے اور ضرور حقیقی نبی تھے اور خدا کی قسم ضرور بہ ضرور نبی تھے اور آپ کے مخالف حضرات کا بھی وہی حشر ہوگا جو دیگر انبیاء کے مخالفین کا۔ میں اس عقیدہ پر علی وجہ البصیرت قائم ہوں۔ “ (مکتوب محمد عثمان خان صاحب قادیانی ‘ مندرجہ المہدی نمبر ١‘ ص ٥٤‘ مولف حکیم محمد حسین قادیانی لاہوری)


ان حوالوں سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اس امت میں سوائے مسیح موعہد کے اور کوئی نبی نہیں ہوسکتا کیونکہ سوائے مسیح موعود کے اور کسی فرد کی نبوت پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیقی مہر نہیں اور اگر بغیر تصدیقی مہر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اور کسی کو بھی نبی قرار دیا جائے تو اسکے دوسرے معنی یہ ہوں کے گے کہ وہ نبوت صحیح نہیں۔(تشحیذ الاذہان قادیان نمبر ٨‘ جلد ١٢‘ صفحہ ٢٥‘ بابت ماہ اگست ١٩١٧ ء،چشتی)


پس اس وجہ سے (اس امت میں) نبی کا نام پانے کے لیے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں۔ اور ضرور تھا کہ ایسا ہوتا جیسا کہ احدیث صحیحہ میں آیا ہے کہ ایسا شخص ایک ہی ہوگا ‘ وہ پیش گوئی پوری ہوجائے۔(حقیقت الوحی ص ٣٩١‘ روحانی خزائن ص ٤٠٧۔ ٤٠٦‘ ج ٢٢‘ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی صاحب)


اور ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نبوت ختم کی گئی ہے اس لیے آپکے عبد اس کے سوا کوئی نبی نہیں جسے آپکے نور سے منور کیا گیا ہو اور جو بارگاہ کبریائی سے آپ کا وارث بنایا گیا ہو۔ معلوم ہوا کہ ختمیت ازل سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دی گئی ‘ پھر اس کو دی گئی جسے آپ کی روح نے تعلیم دی اور اپنا ظل بنایا۔ اس لیے مبارک ہے وہ جس نے تعلیم دی اور وہ جس نے تعلیم حاصل کی ‘ پس بلاشبہ حقیقی حتمیت مقدر تھی چھٹے ہزار میں جو رحمان کے دنوں میں سے چھٹا دن ہے۔(ما الفرق فی آدم و المسیح الموعود۔ ضمیمہ خطبۃ الہامیہ ص ب ‘ روحانی خزائن ص ٣١٠‘ ج ١٦‘ مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی صاحب)


اسی طرح مسیح موعود چھٹے ہزار میں پیدا کیا گیا۔(ما الفرق فی آدم والمسیع الموعود۔ ضمیمہ خطبۃ الھامیہ ص ج ‘ روحانی خزائن ص ٣١٠‘ ج ٢٢‘ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی صاحب)


آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد صرف ایک ہی نبی کا ہونا لازم ہے اور بہت سارے انبیاء کا ہونا خدا تعالیٰ کی بہت سی مصلحتوں اور حکمتوں میں رخنہ واقع کرتا ہے۔ (تشحیذ الاذہان قادیان ‘ نمبر ٨‘ جلد ١٢ ص ١١‘ ماہ اگست ١٩١٧ ء)


ولکن رسول اللہ و خاتم النبین۔ اس آیہ میں ایک پیش گوئی مخفی ہے اور وہ یہ کہ اب نبوت پر قیامت تک مہر لگ گئی ہے۔ اور بجز بروزی وجود کے ‘ جو خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وجود ہے ‘ کسی میں یہ طاقت نہیں کہ جو کھلے طور پر نبیوں کی طرح خدا سے کوئی علم غیب پاوے۔ اور چونکہ وہ بروز محمدی جو قدیم سے موعود تھا ‘ وہ میں ہوں ‘ اس لیے بروزی رنگ کی نبوت مجھے عطا کی گئی اور اس نبوت کے مقابل پر اب تمام دنیا بےدست و پا ہے کیونکہ نبوت پر مہر ہے ایک بروز محمدی جمیع کمالات محمدیہ کے ساتھ آخری زمانہ کے لیے مقدر تھا ‘ سو وہ ظاہر ہوگیا۔ بجز اس کھڑکی کے اور کوئی کھڑکی نبوت کے چشمے سے پانی لینے کے لیے باقی نہیں۔ (ایک غلطی کا ازالہ ص ١١‘ روحانی خزائن ص ٢١٥ ج ١٨‘ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی)


ہلاک ہوگئے وہ جنہوں نے ایک برگزیدہ رسول کو قبول نہ کیا۔ مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا۔ میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں اور اس کے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں۔ بدقسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے۔ (کشتی نوح ص ٥٦‘ روحانی خزائن ص ٦١ ج ١٩‘ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی صاحب)


بروزی کمالات گویا مرزا صاحب خود سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات 


غرض خاتم النبیین کا لفظ ایک الہٰی مہر ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر لگ گئی ہے۔ اب ممکن نہیں کہ کبھی یہ مہر ٹوٹ جائے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ دنیا میں بروزی رنگ میں آجائیں اور بروزی رنگ میں اور کمالات کے ساتھ اپنی نبوت کا بھی اظہار کریں اور یہ بروز خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک قرار یافتہ عہدہ تھا ‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : واخرین منھم لما یلحقوا بھم۔(اشتہار ‘ ایک غلطی کا ازالہ ‘ روحانی خزائن ‘ ص ٢١٤۔ ٢١٥‘ ج ١٨‘ مندر جہ تبلیغ رسالت جلد دہم ‘ مجموعہ اشتہارات مرزا غلام احمد قادیانی صاحب)


 ہم بارہا لکھ چکے ہیں کہ حقیقی اور واقعی طور پر تو یہ امر ہے کہ ہمارے سید و مولا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم الانبیاء ہیں اور انجناب کے بعد مستقل طور پر کوئی نبوت نہیں اور نہ کوئی شریعت ہے اور اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے تو بلاشبہ وہ بےدین اور مردود ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ نے ابتداء سے ارادہ کیا تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کمالات معتدبہ کے اظہار و اثبات کے لیے کسی شخص کو آنجناب کی پیروی اور متابعت کی وجہ سے وہ مرتبہ کثرت مکالمات اور مخاطبات الہٰیہ بخشے کہ جو اس کے وجود میں عکسی طور پر نبوت کا رنگ پیدا کردے ‘ سو اس طرح سے خدا نے میرا نام نبی رکھا۔ یعنی نبوت محمدیہ میرے آئینہ نفس میں منعکس ہوگئی اور ظلی طور پر نہ اصلی طور پر مجھے یہ نام دیا گیا۔ تاک میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیوض کا کامل نہ ٹھہروں۔(چشمہ معرفت ص ٣٢٤‘ روحانی خزائن ص ٣٤٠ ج ٢٣‘ حاثیہ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی صاحب)


مگر میں کہتا ہوں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ‘ جو درحقیقت ” خاتم النبیین “ تھے ‘ رسول اور نبی کے لفظ سے پکارے جانا کوئی اعتراض کی بات نہیں اور نہ اس سے مہر ختمیت ٹوٹتی ہے کیونکہ میں بار ہا بتلا چکا ہوں کہ میں بموجب آیہ واخرین منھم لما یلحقوا بھم۔ بروزی طور پر وہی نبی خاتم الانبیاء ہوں اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے اور مجھے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وجود قرار دیا ہے پس اس طور سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خاتم الا نبی اء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا۔ اور چونکہ میں ظلی طور پر محمد ہو (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پس اس طور سے خاتم النبیین کی مہر نہیں ٹوٹی کیونکہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی مع نبوت محمدیہ کے میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں۔ تو پھر کون سا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا۔ (ایک غلطی کا ازالہ ‘ روحانی خزائن ص ٢١٢‘ ج ١٨‘ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی)


یہ مسلمان کیا منہ لے کر دوسرے مذاہب کے بالمقابل اپنا دین پیش کرسکتے ہیں تاوقتیکہ وہ مسیح موعود کی صداقت پر ایمان نہ لائیں جو فی الحقیقت وہی ختم المرسلین تھا کہ خدائی وعدے کے مطابق دوبارہ آخرین میں مبعوث ہوا۔وہ وہی فخر اولین و آخرین ہے جو آج سے تیرہ سو برس پہلے رحمۃ للعالمین بن کر آیا تھا اور اب اپنی تکمیل تبلیغ کے ذریعہ ثابت کردیا گیا کہ واقیع اس کی دعوت جمیع ممالک و ملل عالم کے لیے تھی۔ (اخبار الفضل قادیان ‘ ج ٣‘ نمبر ٤١‘ مورخہ ٢٦‘ ستمبر ١٩١٥ ء)


مرزا قادیانی کا دعوی کہ وہ تشریعی نبی ہیں 


یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند امر ونہی بیان کیے اور اپنی امت کے لیے ایک قانون مقرر کیا۔ وہی صاحب شریعت ہوگیا۔ میری وحی میں امر بھی ہے اور نہی بھی۔ مثلا یہ الہام قل للمؤمنین بغضوا من ابصارھم ویحفظوا فروجھم ذالک ازکی لھم یہ براہین احمد یہ میں درج ہے اور اس میں امر بھی ہے اور نہی بھی۔ اور اس پر تیس برس کی مدت بھی گزر گئی اور ایسا ہی اب تک میری وحی میں امر بھی ہوتے ہیں اور نہی بھی اور اگر کہو کہ شریعت سے وہ شریعت مراد ہے جس میں نئے احکام ہوں تو باطل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان ھذا لفی الصحف الاولی صحف ابراھیم و موسیٰ یعنی قرآنی تعلیم تورات میں بھی موجود ہے۔ (اربعین نمبر ٤‘ ص ٧‘ ٨٣‘ روحانی خزائن ص ٤٣٥۔ ٤٣٦ ج ١٧)


چونکہ میری تعلیم میں امر بھی ہے اور نہی بھی اور شریعت کے ضروری احکام کی تجدید ہے اس لیے خدا تعالیٰ نے میری تعلیم کو اور اس وحی کو جو میرے پر ہوتی ہے ‘ فلک یعنی کشتی کے نام سے موسوم کیا۔ اب دیکھو خدا نے میری وحی اور میری تعلیم اور میری بیعت کو نوح کی کشتی قرار دیا اور تمام انسانوں کے لیے اس کو مدار نجات ٹھہرایا۔ جس کی آنکھیں ہوں دیکھے اور جس کے کان ہوں سنے۔ (حاثیہ اربعین نمبر ٤‘ ص ٧‘ ٨٣‘ روحانی خزائن ص ٤٣٥‘ ج ١٤‘ حاثیہ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی صاحب)


مرزا قادیانی کا جہاد کو منسوخ قرار دینا 


جہاد یعنی دینی لڑائیوں کی شدت کو خدا تعالیٰ آہستہ آہستہ کم کرتا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ کے وقت میں اس قدر شدت تھی کہ ایمان لانا بھی قتل سے بچا نہیں سکتا تھا اور شیر خوار بچے بھی قتل کیے جاتے تھے۔ پھر ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وقت میں بچوں اور بڈھوں اور عورتوں کا قتل کرنا حرام کیا گیا اور پھر بعض قوموں کے لیے بجائے ایمان کے صرف جزیہ دے کر مواخذہ سے نجات پانا قبول کیا گیا اور پھر مسیح موعود کے وقت قطعاً جہاد کا حکم موقوف کردیا گیا۔

(اربعین نمبر ٤‘ ص ١٥‘ حاثیہ روحانی خزائین ص ٤٤٣‘ ج ١٧ حاثیہ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی صاحب)


آج سے انسانی جہاد جو تلوار سے کیا جاتا تھا ‘ خدا کے حکم کے ساتھ بند کیا گیا۔ اب اس کے بعد جو شخص کافر پر تلوار اٹھاتا اور اپنا نام غازی رکھتا ہے ‘ و اس رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کرتا ہے ‘ جس نے آج سے تیرہ سو برس پہلے فرما دیا ہے کہ مسیح موعود کے آنے پر تمام تلوار کے جہاد ختم ہوجائیں گے۔ سو اب میرے ظہور کے بعد تلوار کا کوئی جہاد نہیں۔ ہماری طرف سے امان اور صلح کاری کا سفید جھنڈا بلند کیا گیا۔ (تبلیغ رسالت ج ٩‘ ص ٤٧‘ مجموعہ اشہتارات ص ٢٩٥ ج ٣)


اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال دیں کے لیے حرام ہے اب جنگ اور قتال 

اب آگیا مسیح جو دیں کا امام ہے دین کے تمام جنگوں کا اب اختتام ہے 


اب آسماں سے نور خدا کا نزول ہے اب جنگ اور جہاد کا فتویٰ فضول ہے 

دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد 

(اعلان مرزا غلام احمد قادیانی صاحب ‘ مندر جہ تبلیغ رسالت جلد نہم ‘ مولف میر قاسم علی صاحب قادیانی ص ٤٩‘ مجموعہ اشتہارات ص ٢٩٨۔ ٢٩٧‘ ج ٣‘ روحانی خزائن ص ٧٧ ج ٧)


١٤ اگست ١٩٤٧ ء کو جب مملکت پاکستان قائم ہوگئی تو مسلمانوں کو اس مسئلہ سے بےچینی ہوئی کہ قادیانی جو مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی مان کر اسلام سے نکل چکے ہیں اور وہ خود بھی اہل اسلام کو کافر کہتے ہیں ‘ ان کا اس ملک میں بہ حیثیت مسلمان رہنا اور اس مملکت کے کلیدی عہدوں پر فائز رہنا کس طرح جائز ہے ‘ پاکستان کے ہر طبقہ اور ہر مکتب فکر کے مسلمانوں کا متفقہ مطالبہ تھا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے پس ١٩٥٣ ء میں پاکستان کے تمام علماء کی طرف سے اس سلسلہ میں زبردست تحریک چلائی گئی۔


١٩٥٣ ء کی تحریک ختم نبوت 


مولانا محمد صدیق ہزاروی مجاہد تحریک ختم نبوت مولانا عبدالستار خاں نیازی (علیہ الرحمہ) کے تذکرہ میں لکھتے ہیں : برکت علی اسلامیہ ہال لاہور میں آل مسلم پارٹیز کنونشن منعقد ہوا۔ اس کنونشن نے کراچی کے مرکزی کنونشن کے لیے مندوبین منتخب کیے۔ ٢٠۔ ٢١ جنوری ١٩٥٣ ء کو کراچی میں مرکزی کنونشن منعقد ہوا ‘ جس میں مطالبات مرتب کیے گئے :


(١) وزیر خارجہ سر ظفر اللہ کو برخاست کیا جائے 


(٢) قادیانیوں کو کافر اقلیت قرار دیا جائے۔


(٣) قادیانیوں کو کلیدی اسامیوں سے الگ کیا جائے۔


تحریک ختم نبوت میں آپ نے مثالی کردارادا کیا۔ آپ کو اس تحریک میں خصوصیت حاصل تھی ‘ وہ یہ کہ آپ اسمبلی کے ممبر تھے۔ نیز تحریک پاکستان میں کام کرنے کی وجہ سے مسلم لیگی کارکنوں سے آپ کے گہرے تعلقات تھے۔


مجلس عمل تحفظ ختم نبوت نے کراچی میں کنونشن کیا تو اس کے تیرہ نمائندوں میں آپ کا نام بھی تھا ‘ لیکن آپ کو اس میں شامل نہ کیا گیا ‘ کیونکہ انہیں آپ کی تیزی طبع کی وجہ سے خطرہ تھا کہ وقت سے پہلے تصادم نہ ہوجائے۔


جب تحریک تیز ہوئی اور مجلس عمل کے نمائندے خواجہ ناظم الدین سے کراچی میں ملاقات کرنے گئے تو مورخہ ٢٥ فروری ١٩٥٣ ء کو انہیں گرفتار کرلیا گیا۔


گرفتاری اور پھانسی 


آپ کا پروگرام تھا کہ قصور سے بس کے ذریعے اسمبلی گیٹ تک پہنچ جائیں اور اسمبلی میں تقریر کرکے ممبران اسمبلی کو تحریک کے بارے میں مکمل تفصیلات سے آگاہ کردیں ‘ لیکن قصور میں آپ جن لوگوں کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے ‘ انہوں نے غداری کرتے ہوئے ملٹری کو بتادیا ‘ آپ صبح کی نماز کی تیاری کر ہی رہے تھے کہ اپنے کارکن مولوی محمد بشیر مجاہد کے ہمراہ گرفتار کرلیے گئے۔


قصور سے گرفتار کر کے آپ کو لاہور شاہی قلعہ لایا گیا ‘ جہاں سے بیانات لینے کے بعد ١٢ اپریل کو آپ جیل منتقل کردیئے گئے اور آپ کو چارج شیٹ دے دی گئی۔ ملٹری کورٹ میں کیس چلا ‘ جو ١٧ اپریل کو شروع ہوا اور مئی تک چلتا رہا۔


٧ مئی کی صبح کو سپیشل ملٹری کورٹ کا ایک آفیسر اور ایک کیپٹن آپ کو بلا کر ایک کمرے میں لے گئے جہاں قتل کے نو اور ملزم بھی تھے ‘ مگر ڈی ایس پی فردوس شاہ قتل کا کیس ثابت نہ ہوسکا اور آپ کو بری کردیا گیا۔


دوسرا کیس بغاوت کا تھا جس میں آپ کو سزائے موت کا حکم سنا یا گیا جو اس طرح تھا :

you will be hanged by neck till you are dead.

” تمہاری گردن پھانسی کے پھندے میں اس وقت تک لٹکائی جائے گی ‘ جب تک تمہاری موت نہ واقع ہوجائے۔ “

Is that all? I was prepared to take more than that. If I would have got One hundred thousan lives. I would have laid down those lives for the cause Of Holy Prophet Mohammad may the peace Glory Of God be Upon Him.

یہی کچھ سزا لائے ہو ‘ اگر میرے پاس ایک لاکھ جانیں ہوتیں ‘ تو میں ان کو محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات پر قربان کردیتا۔

١٤ مئی کو آپ کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کردی گئی اور پھر مئی ١٩٥٥ ء کو آپ کو باعزت طور پر بری کردیا گیا۔

(تعارف علماء اہل سنت ص ١٦٤‘ ٥٧ ١ ملخصا مکتبہ قادریہ لاہور ‘ ١٣٩٩ ھ)

تحریک ختم نبوت (١٩٥٣ ء) میں آپ کراچی میں مولانا عبدالحامد بدایونی (م ١٥ جمادی الاولیٰ ‘ ٢٠ جولائی ١٣٩٠ ھ ‘ ١٩٧٠ ء) اور دیگر علماء کے ساتھ تحریک میں شریک ہوئے۔ آرام باغ میں جمعہ کے دن تحریک کا آغاز ہا ‘ تو علامہ نورانی پیش پیش تھے۔ گرفتاری کے لیے رضا کاروں کی تیاری کے علاوہ دیگر ضروری انتظامات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

کراچی میں آل پاکستان مسلم پارٹیز کے پہلے اجلاس کے بعد آئندہ اجلاس کے انتظامات کے لیے گیارہ ممبروں پر مشتمل جو بورڈ بنایا گیا ‘ آپ اس کے ممبر تھے۔

١٩٦٩ ء میں پاکستان آنے کے بعد آپ نے سب سے پہلا بیان قادیانیوں ہی کے بارے میں جاری کیا تھا۔ آپ نے یحییٰ خان (اس وقت کا صدر) کو مخاطب کرتے ہوئے صاف کہا تھا کہ تمہارا قادیانی مشیر ایم ایم احمد پاکستان کی معیشت کو تباہ کر رہا ہے جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان ہمارے ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔ (تعارف علماء اہل سنت ص ٣٩۔ ٣٨‘ مکتبہ قادریہ لاہور ١٣٩٩ ھ)

١٩٧٤ ء کی تحریک ختم نبوت 

تحریک ختم نبوت (١٩٧٤ ء) میں مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قراردینے کی خاطر قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی طرف سے جو قرار داد ٣٠ جون ١٩٧٧ ء کو پیش کی گئی ‘ اس کا سہرا بھی علامہ شاہ احمد نورانی کے سر ہے ‘ اس قرار داد پر حزب اختلاف کے بائیس افراد ( جن کی تعداد بعد میں ٣٧ ہوگئی) نے دستخط کیے ‘ البتہ مولوی غلام غوث ہزاروی اور مولوی عبدالحکیم نے اس قرار داد پر دستخط نہیں کیے۔ اس تحریک میں آپ کو قومی اسمبلی کی خصوص یکمیٹی اور رہبر کمیٹی کم ممبر بھی منتخب کیا گیا اور آپ نے پوری ذمہ داری کے ساتھ دونوں کمیٹیوں کے اجلاس میں شرکت کی۔

آپ نے قادیانیت سے متعلقہ ہر قسم کا لٹریچر اسمبلی کے ممبروں میں تقسیم کرنے کے علاوہ ممبروں سے ذاتی رابطہ بھی قائم کیا اور ختم نبوت کے مسئلہ سے انہیں آگاہ کیا۔

اس تحریک میں تین ماہ کے دوران آپ نے صرف پنجاب کے علاقے میں تقریباً چالیس ہزار میل کا دورہ کیا۔ ڈیڑھ سو شہروں ‘ قصبوں اور دیہاتوں میں عام جلسوں سے خطاب کرنے کے علاوہ سینکڑوں کتابوں کا مطالعہ کیا۔

(تعارف علماء اہل سنت ص ٣٩‘ مکتبہ قادریہ لاہور ‘ ١٣٩٩ ھ،چشتی)

سید محمد حفیظ قیصر لکھتے ہیں : پیپلزپارٹی کے جے رحیم اور شیخ رشیدنے بہت ہنگامہ کیا مگر وزیر اعظم بھٹو ‘ مولانا شاہ احمد نورانی سے مکالمے کے دوران اپنے منشور کے اس جملے کی بناء پر شکست کھاچکے تھے کہ ” اسلام ہمارا دین ہے “۔ اب بھٹو کا موقف یہ تھا کہ اسلام کی بات ہے اور پیپلزپارٹی اس کی مخالفت نہیں کرے گی۔ آخر مولانا شاہ احمد نورانی کا سچا عشق رسول جیت گیا اور مرزاناصر قومی اسمبلی میں 180 سوالات میں لاجواب ہو کر شکست سے دوچار ہوا۔ مرزائیت کو اپنے انجام تک پہنچانے والی جو تاریخی قرارداد 30 جون 1974 ء کو پیش کی گئی اس کا متن یہ تھا :

٭ چونکہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد جو اللہ کے آخری نبی ہیں نبوت کا دعویٰ کیا۔

٭ چونکہ اسکا جھوٹا دعویٰ نبوت قرآن کریم کی بعض آیات میں تحریف کی سازش اور جہاد کو ساقط کردینے کی کوشش ‘ اسلام سے بغاوت کے مترادف ہے۔

٭ چونکہ مسلم امہ کا اس بات پر کامل اتفاق ہے کہ مرزا غلام احمد کے پیروکار خواہ وہ مرزا غلام احمد کو نبی مانتے ہوں یا اسے کسی اور شکل میں اپنا مذہبی پیشوا یا مصلح مانتے ہوں وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔

٭ چونکہ اس کے پیروکار خواہ انہیں کسی نام سے پکارا جاتا ہو وہ دھوکا دہی سے مسلمانوں ہی کا ایک فرقہ بن کر اور اس طرح ان سے گھل مل کر اندرونی اور بیرونی طور پر تخریبی کاروائیوں میں مصروف ہیں۔

٭ چونکہ مسلمانوں کی تنظیموں کی ایک کا نفرنس جو 6 تا 10 اپریل 1974 ء مکہ مکرمہ میں رابطہ عالم اسلامی کے زیر اہتمام منعقد ہوئی۔ جس میں دنیا بھر کی 114 اسلامی تنظیموں اور انجمنوں نے شرکت کی اس میں مکمل اتفاق رائے سے یہ فیصلہ صادر کردیا گیا کہ قادیانیت جس کے پیروکار دھوکا دہی سے اپنے آپ کو اسلام کا ایک فرقہ کہتے ہیں۔ دراصل اس فرقہ کا مقصد اسلام اور مسلم دینا کے خلاف تخریبی کارروائیاں کرنا ہے۔

اس لیے اب یہ اسمبلی اعلان کرتی ہے کہ مرزا غلام احمد کے پیروکار خواہ انہیں لاہوری ‘ قادیانی یا کسی نام سے بھی پکارا جائے مسلمان نہیں ہیں اور یہ کہ اسمبلی میں ایک سرکاری بل پیش کیا جائے تاکہ اس اعلان کو دستور میں ضروری ترامیم کے ذریعے عملی جامہ پہنایا جاسکے۔

7 ستمبر 1974 ء کو وہ گھڑی آن پہنچی جس کا انتظار 1901 ء سے مسلم امہ کو تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے جس طرح مسیلمہ کذاب کو اس کے انجام سے دوچار کیا تھا۔ آج انہیں کی اولاد مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی کی قرارداد کے مطابق حکومت نے باضابطہ طور پر قادیانی گروہ کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیے دیا اور یوں امت مسلمہ کا خواب ٧٣ سال کے بعد حقیقت میں ڈھل گیا۔ (ایک عالم ایک سیاست دان ص ٣٧۔ ٣٥‘ نورانی پر نٹنگ انڈسٹری کراچی ‘ ١٩٩٩ ء)

اس اعتراض کا جواب کہ اگر آپ کے صاجزادے حضرت ابراہیم زندہ رہتے تو نبی بن جاتے 

قادیانیوں کے اہل اسلام کے دلائل پر بعض اعتراضات ہیں ان میں سے ایک مشہور اعتراض اس حدیث پر ہے :

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیٹے حضرت ابراہیم زندہ ہوتے تو سچے نبی ہوتے۔

(مسند احمد ج ٣ ص ١٣٣ طبع قدیم ‘ تاریخ دمشق الکبیر ج ٣ ص ٧٦‘ رقم الحدیث : ٥٧٩)

اس حدیث پر قادیانیوں کا یہ اعتراض ہے کہ اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ حضرت ابراہیم کے نبی بننے سے مانع ان کی موت تھی اگر وہ زندہ رہتے تو نبی بن جاتے ‘ یہ مطلب نہیں ہے کہ چونکہ آپ کے بعد نبی کا آنا محال تھا اس لیے آپ کے بیٹے کو زندہ نہیں رکھا گیا ‘ اسکی مثال اس طرح ہے جیسے کوئی شخص کہے اگر میرا بیٹا زندہ رہتا تو ایم۔ اے کرلیتا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایم۔ اے پاس کرنا محال ہے ‘ اس لیے میرا بیٹا زندہ نہیں رہا ‘ بلکہ ایم۔ اے پاس کرنا تو ممکن ہے ‘ لیکن چونکہ میرا بیٹا زندہ نہیں رہا اس لیے وہ ایم اے نہیں کرسکا ‘ اسی طرح سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد نبی آنا تو ممکن تھا ‘ لیکن چونکہ آپ کے بیٹے حضرت ابراہیم زندہ نہیں رہے اس لیے وہ نبی نہیں بنے اگر وہ زندہ رہتے تو نبی بن جاتے ‘ سو اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ کے بعد نبی نہیں آسکتا۔

اس کا جواب یہ ہے کہ ” اگر ابراہیم زندہ رہتے تو سچے نبی ہوتے “ اس حدیث میں قضیہ شرطیہ ہے۔ جیسے یہ قضیہ ہے : اگر سورج طلوع ہوگا تو دن روشن ہوگا اور قضیہ شرطیہ میں جز اول کا ثبوت جز ثانی کے ثبوت کو مستلزم ہوتا ہے ‘ جیسے سورج کا طلوع ہونا دن کی روشنی کو مستلزم ہے ‘ اور جز ثانی کی نفی جز اول کی نفی کو مستلزم نہیں ہوتی یعنی سورج کا طلوع نہ ہونا اس کو مستلزم نہیں ہے کہ دن روشن نہ ہو ‘ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ سورج طلوع ہو لیکن دن اس وجہ سے روشن نہ ہو کہ سخت ابر ہو یا بارش ہو یا سورج کو گہن لگا ہو یا سخت آندھی آئی ہوئی ہو اسی لیے جز اول کی نفی جز ثانی کی نفی کو مستلزم نہیں ہوتی ‘ اس لیے اس حدیث کا یہ معنی نہیں ہے کہ چونکہ حضرت ابراہیم زندہ نہیں رہے اس لیے وہ سچے نبی نہیں ہوئے ‘ بلکہ اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کسی سچے نبی کا آنا ممکن نہیں تھا اس لیے حضرات ابراہیم کو زندہ نہیں رکھا گیا۔

الاعراف : ٣٥ سے اجراء نبوت کا معارضہ اور اس کا جواب 

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

یبنی ادم اما یا تینکم رسول منکم یقصون علیکم ایتی لا فمن اتقی واصلح فلا خوف علیہم ولا ھم یحزنون (الاعراف : ٣٥)

اے اولاد آدم ! اگر تمہارے پاس تم میں سے ایسے رسول آئیں جو تمہارے سامنے میری آیتیں بیان کریں سو جو شخص اللہ سے ڈرا اور نیک ہوگیا تو ان پر کوئی خوف نہیں ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

مرزائیہ اس آیت سے اجراء نبوت پر استدلال کرتے ہیں اور پھر اجراء نبوت سے مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت پر دلیل کشید کرتے ہیں ‘ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام اولاد آدم کو حکم دیا ہے جب بھی ان کے پاس ایسے رسول آئیں جو تمہارے سامنے میری آیتیں بیان کریں سو جو شخص اللہ سے ڈرا یعنی جس نے ان رسولوں کے احکام کو مانا اور ان پر ایمان لایا اس پر کوئی غم اور خوف نہیں ہوگا ‘ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے قیامت تک رسول آتے رہیں گے کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسولوں کے آنے کا کوئی استثناء نہیں بیان فرمایا اور نہ کوئی ہے ‘ اس سے معلوم ہوا کہ قیامت تک رسولوں کے مبعوث ہونے کا سلسلہ جاری رہے گا۔

اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید میں بہت جگہ ایک حکم بیان کیا جاتا ہے اور دوسری کسی آیت میں اس حکم کی تخصیص بیان کردی جاتی ہے جس سے وہ حکم عام نہیں رہتا ‘ اسی طرح بہ ظاہر اس آیت میں قیامت تک رسولوں کی بعثت کا حکم عام بیان فرمایا ہے لیکن جب الاحزاب : ٤٠ میں فرما دیا ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین تو اللہ تعالیٰ نے یہ ظاہر فرمادیا کہ الاعراف : ٣٥ میں رسولوں کی بعثت کے سلسلہ کا جو ذکر فرمایا تھا۔ سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد وہ سلسلہ نبوت منقطع اور ختم ہوگیا ہے اور آپ کے بعد قیامت تک کوئی نبی آسکتا ہے نہ رسول ‘ نہ تشریعی نبی نہ امتی نبی ‘ نہ کامل نبی نہ ناقص نبی ‘ نہ اصلی نبی اور نہ ظلی ‘ اور بروزی نبی۔

اب ہم اس کی چند نظائر بیان کرتے ہیں کہ کسی آیت میں کوئی حکم عام بیان کیا جائے پھر دوسری آیت میں اسکی تخصیص کردی جائے تو پھر وہ حکم عام نہیں رہتا ‘ دیکھیے اللہ تعالیٰ نے عام حکم بیان فرمایا :

کل نفس ذآئقۃ الموت (العنکبوت : ٥٧) ہر نفس موت کو چکھنے والا ہے۔

 اور حسب ذیل آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو بھی نفس فرمایا ہے :

قل لمن ما فی السموت والارض ط قل للہ ط کتب علی نفسہ الرحمۃ۔ (الانعام : ١٢)

آپ پوچھیے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے وہ کس کی ملکیت ہے ؟ آپ کہیے وہ سب اللہ ہی کی ملکیت ہے ‘ اس نے اپنے نفس پر رحمت کو لازم کرلیا۔

فقل سلم علیکم کتب ربکم عل نفسہ الرحمۃ۔ (الانعام : ٥٤ )

آپ کہیے تم پر سلام ہو ‘ تمہارے رب نے اپنے نفس پر رحمت کو لازم کرلیا ہے۔

 حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے عرض کریں گے :

تعلم مافی نفسی ولآ اعلم ما فی نفسک ط انک انت علام الغیوب۔ (المائدہ : ١١٢)

(اے اللہ ! ) تو جانتا ہے میرے نفس میں کیا ہے اور میں نہیں جانتا کہ تیرے نفس میں کیا ہے ‘ بیشک تو تمام غیوب کو بےحد جاننے والا ہے۔

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو بھی نفس کہا ہے اور العنکبوت : ٥٧ میں فرمایا ہے ہر نفس موت کو چکھنے والا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی (العیاذ باللہ) موت کو چکھنے والا ہے ‘ سو اس آیت کے عام حکم کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر بھی موت آئے گی اور دوسری آیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس پر کبھی موت نہیں آئے گی وہ آیت یہ ہے :

وتو کل عل الحی الذی لایموت۔ (الفرقان : ٥٨ )

آپ اس پر توکل کیجئے جو ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے جس پر کبھی موت نہیں آئے گی۔

پس اس آیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ موت کو چکھنے کے عام حکم سے مستثنی ہے ‘ اور اب یہ حکم عام نہیں ہے ‘ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خاتم النبیین فرمادیا تو اب الاعراف : ٣٥ میں رسولوں کی بعثت کے عام حکم میں تخصیص ہوگئی اور اب آپ کی بعثت کے بعد کسی اور نبی کا آنا ممکن نہیں۔ اس کی نظیر دوسری یہ آیت ہے :

والمطلقت یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروء۔ (البقرہ : ٢٢٨) 

اور طلاق یافتہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں۔

المطلقات جمع کا صیغہ ہے اور اس میں طلاق یافتہ عورتوں کے لیے عام حکم یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ تین حیض تک عدت گزاریں ‘ لیکن دوسری آیت میں فرمایا ہے کہ غیر مدخولہ عورت کو طلاق دی جائے تو اس کی کوئی عدت نہیں ہے :

یایھا الذین امنوآ اذا نکحتم المؤمنت ثم طلقتموھن من قبل ان تمسوھن فمالکم علیھن من عدۃ تعتدو نھا۔ (الاحزاب : ٤٩ )

اے ایمان والو ! جب تم ایمان والی عورتوں سے نکاح کرو ‘ پھر تم ان کو عمل زوجیت سے پہلے طلاق دے دو تو ان پر تمہاری عدت گزارنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

اسی طرح وہ طلاق یافتہ بوڑھی عورت جس کو حیض نہ آتاہو وہ کمسن لڑکی جس کا حیض شروع نہ ہوا ہو اس کی عدت تین ماہ ہے اور طلاق یافتہ حاملہ کی عدت وضع حمل ہے اور یہ بھی اس عام حکم سے خاص ہیں ان کا ذکر اس آیت میں ہے :

الئی یئسن منالمحیض من نسآ ئکم ان ارتبتم فعدتھن ثلثۃ اشھر لا والئی لم یحضن ط واولات الاحمال اجلھن انیضعن حملھن ط (الطلاق : ٤)

تمہاری جو طلاق یافتہ عورتیں حیض آنے سے مایوس ہوچکی ہوں اور تم کو ان کی مدت میں شبہ ہو تو ان کی عدت تین ماہ ہے اور اسی طرح (ان کم سن مطلقہ عورتوں کی عدت بھی تین ماہ ہے) جن کا ابھی حیض آنا شروع نہ ہوا ہو ‘ اور حاملہ عورتوں کی عدت و ضع حمل تک ہے۔

پس البقرہ : ٢٢٨ میں جو مطلقہ عورتوں کی عدت تین حیض فرمائی ہے اس حکم عام سے غیرمدخولہ ‘ سن رسیدہ ‘ کم سن اور حاملہ عورتوں کی عدت کی تخصیص کرلی گئی ہے ‘ اسی طرح الا عراف : ٣٥ میں جو رسولوں کی بعثت کا عام حکم بیان کیا گیا ہے آیت خاتم النبیین سے اس عام حکم کی تخصیص کرلی گئی ہے اور اب سید نامحمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد کسی اور نبی کا آنا جائز نہیں ہے۔

اس اعتراض کا جواب کہ ختم نبوت کا معنی مہر نبوت ہے اور آپ کی مہر سے نبی بنتے ہیں 

مرزائیوں کا ایک مشہور اعتراض یہ ہے کہ خاتم کا معنی آخر نہیں ہے ‘ بلکہ خاتم کا معنی مہر ہے ‘ اور مہر نبوت کا معنی ہے جس پر آپ کی مہر لگ جاتی ہے وہ نبی بن جاتا ہے ‘ سو غلام احمد قادیانی پر بھی مہر لگ گئی اور وہ بھی نبی بن گئے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ خاتم کا یہ معنی کرنا درست نہیں ہے کہ اگر خاتم کا معنی مہر ہو تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب کسی چیز کو بند کرکے اس پر مہر لگادی جائے تو اس میں کوئی اور چیز داخل نہیں ہوسکتی ‘ سو نبوت کو بند کر کے اس پر آپ کی مہر لگا دی گئی اب نبوت میں کوئی اور چیز داخل نہیں ہوسکتی ۔ (مزید حصہ چہارم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا  دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔