حضرت محمد ﷺ آخری نبی ہیں حصہ چہارم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : امید ہے آپ نے حصہ اول ، دوم اور سوم پڑھ لیا ہوگا اب حصہ چہارم پڑھتے ہیں : علامہ جمال الدین محمد بن مکرم افریقی مصری متوفی ٧١١ ھ لکھتے ہیں : معنی ختم الغطیۃ علی الشیء والا ستیثاق من ان لا ید خلہ شیء ۔ ختم کا معنی ہے کسی چیز کو ڈھانپنا اور اس کو اس طرح بند کردینا کہ اس میں کوئی اور چیز داخل نہ ہو سکے ۔
نیز لکھتے ہیں خاتمھم اخر ھم ‘ خاتم القوم کا معنی ہے اخرالقوم ‘ وخاتم النبیین ای آخر ھم اور خاتم النبیین کا معنی ہے آخر النبیین (لسان العرب ج ١٢ ص ١٦٥۔ ١٦٣‘ مطبوعہ ایران ‘ ١٤٠٥ ھ)
اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک نبوت منقطع ہوچکی ہے پس میرے بعد کوئی نبی ہوگا نہ رسول۔(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٢٧٢)
اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
وانا اخر الانبیاء وانتم اخر الا مم۔ میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو۔(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٠٧٧)
اور قتادہ نے خاتم النبیین کی تفسیر میں کہا ای آخرھم۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢١٧٦٥ )
تصریحات لغت ‘ احادیث صحیحہ اور تابعین کی تفسیر سے واضح ہوگیا کہ خاتم کا معنی مہر کرنا باطل ہے بلکہ خاتم کا معنی آخر ہے۔
جب یہ کہا جاتا ہے کہ شاہ عبدالعزیز خاتم الحدثین ہیں تو کیا اس کا عرف میں یہ معنی ہوتا ہے کہ شاہ عبدالعزیز کی مہر سے محدث بنتے ہیں اور جب یہ کہا جاتا ہے کہ علامہ شامی خاتم الفقہاء ہیں تو کیا اس کا یہ معنی ہوتا ہے کہ علامہ شامی کی مہر سے فقہاء بنتے ہیں اور جب یہ کہا جاتا ہے کہ علامہ آلوسی خاتم المفسرین ہیں تو کیا اس کا یہ معنی ہوتا ہے علامہ آلوسی کی مہر سے مفسرین بنتے ہیں۔
معلوم ہوا کہ احادیث ‘ تفاسیر ‘ لغت اور عرف سب کے اعتبار سے خاتم کا معنی مہر کرنا صحیح نہیں ہے۔
مرزائی کہتے ہیں کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی متوفی ١١٧٦ ھ نے اس آیت کے تحت و خاتم النبیین کے ترجمہ میں لکھا ہے و مہر پیغامبر ان است (ترجمہ شاہ ولی اللہ ص ٥١٠‘ تاج کمپنی لمیٹیڈ لاہور،چشتی)
اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں پر مہر اس معنی میں نہیں ہے جیسا کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے لکھا ہے : جس کامل انسان پر قرآن شریف نازل ہوا ۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ خاتم الانبیاء بنے مگر ان معنوں سے نہیں آئندہ اس سے کوئی روحانی فیض نہیں ملے گا ‘ بلکہ ان معنوں سے کہ وہ صاحب خاتم ہے ‘ بجز اس کی مہر کے کوئی فیض کسی کو نہیں پہنچ سکتا۔ اور بجز اس کے کوئی نبی صاحب خاتم نہیں۔ ایک وہی ہے جس کی مہر سے ایسی نبوت بھی مل سکتی ہے جس کے لیے امتی ہونا لازمی ہے۔(حقیقۃ الوحی ص ٢٧‘ روحانی خزائن ج ٢٣ ص ٣٠۔ ٢٩ )
خاتم النبیین کے بارے میں حضرت مسیح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ آپ کی مہر کے بغیر کسی کی نبوت کی تصدیق نہیں ہوسکتی۔ جب مہر لگ جاتی ہے تو وہ کاغذ سند ہوجاتا ہے اور مصدقہ سمجھا جاتا ہے اسی طرح آنحضرت کی مہر اور تصدیق جس نبوت پر نہ ہو وہ صحیح نہیں ہے ۔ (ملفوظات احمد یہ حصہ پنجم ص ٢٩٠)
قادیانیوں نے خاتم کا جو یہ معنی بیان کیا وہ غلط اور باطل ہے اور شاہ ولی اللہ کے نزدیک مہر سے مراد مہر تصدیق نہیں ہے بلکہ مہر سے مراد یہ ہے کہ کسی چیز کو بند کر کے اس پر مہر لگادی جائے تاکہ اس میں اور کوئی چیز داخل نہ ہو سکے جیسا کہ لغت ‘ عرف ‘ احادیث اور تفاسیر سے واضح ہوچکا ہے ‘ خود شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ایک حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں : سچا خواب انبیاء کے حق میں نبوت کا ایک جزو ہے پس یقین رکھو کہ وہ برحق ہوتا ہے اور نبوت کے اجزاء ہیں اور اس کا ایک جز خاتم الانبیاء کے بعد بھی باقی ہے۔ (المسوی ج ٢ ص ٤٢٦‘ المطبعۃ السفیہ مکہ المکرمۃ ‘ ١٣٥٣ ھ)
مرزا غلام احمد قادیانی کے متبعین نے لکھا ہے :
ان حوالوں سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اس امت میں سوائے مسیح موعود کے اور کوئی نبی نہیں ہوسکتا کیونکہ سوائے مسیح موعود کے اور کسی فرد کی نبوت پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیقی مہر نہیں اور اگر بغیر تصدیقی مہر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اور کسی کو بھی نبی قرار دیا جائے تو اس کے دوسرے معنی یہ ہوں گے وہ نبوت صحیح نہیں۔( ” تشحیذ الاذھان “ قادیان نمبر ٨‘ جلد ١٢ ص ٢٥‘ بابت ماہ اگست ١٩١٧ ء)
اور خود مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے :
پس اس وجہ سے ( اس امت میں) نبی کا نام پانے کے لیے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں ‘ اور ضرور تھا کہ ایسا ہوتا ‘ تاجیسا کہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ ایسا شخص ایک ہی ہوگا۔ وہ پیش گوئی پوری ہوجائے۔(حقیقت الوحی ص ٣٩١‘ روحانی خزائن ص ٤٠٧۔ ٤٠٦ ج ٢٢‘ مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی)
اگر مرزائیہ کے دعوی ٰ کے مطابق بہ فرض محال ختم نبوت کا معنی مہر تصدیق ہو اور اس کا معنی یہ ہو کہ جس پر آپ اپنی مہر لگا دیتے ہیں وہ نبی بن جاتا ہے تو پھر اس کا تقاضا یہ تھا کہ آپ کی مہر سے زیادہ س زیادہ نبی بنتے ‘ تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس مہر سے صرف غلام احمد قادیانی ہی نبی بنا ! صحابہ کرام رضوان اللہ علہم اجمعین جن کی اطاعت پر مقبولیت کی سند اللہ تعالیٰ نے رَضِیَ اللہ عَنْہُم فرما کر عطا کردی وہ نبی نہیں بنے ‘ اگر ختم نبوت کا معنی مہر تصدیق ہوتا تو وہ نبی بنتے اور جب وہ نبی نہیں بنے تو معلوم ہوا کہ ختم نبوت کا معنی مہر تصدیق نہیں ہے بلکہ وہ مہر ہے جو کسی چیز کو بند کرنے کے لیے لگائی جاتی ہے ‘ علاوہ ازیں نبی بنانا اور رسول بھیجنا اللہ کا کام ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ منصب نہیں ہے کہ وہ اپنی مہر لگا کر کسی کو نبی بنا کر بھیج دیں۔
مرزائی یہ بھی کہتے ہیں کہ جس طرح خاتم المحدثین ‘ خاتم المفسرین وغیرہ کہا جاتا ہے اسی طرح آپ کو خاتم النبیین کہا گیا ہے ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ جن علماء کو خاتم الحدثین اور خاتم المفسرین کہا گیا ہے وہ مجاز کہا گیا ہے اور آپ حقیقۃ خاتم النبیین ہیں نیز مجاز کا ارتکاب اس وقت کیا جاتا ہے جب حقیقت محال ہو اور آپ کے خاتم النبیین ہونے میں کوئی شرعی یا عقلی استحالہ نہیں ہے۔
اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے چچا حضرت عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو خاتم المہاجرین فرمایا اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عباس نے مکہ سے سب کے آخر میں ہجرت کی تھی اس کے بعد مکہ دار الاسلام بن گیا تھا سو اس حدیث میں بھی خاتم یہ معنی آخر ہے۔
مرزائی یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ہے میری مسجد آخر المساجد ہے اس کا جواب یہ ہے کہ اس ارشاد کی وضاحت دوسری حدیث میں ہے آپ نے فرمایا میں خاتم الانبیاء ہوں اور میری مسجد ‘ مساجد الانبیاء کی خاتم ہے۔(کنزالعمال رقم الحدیث : ٣٤٩٩٩،چشتی)
اس اعتراض کا جواب کہ لا نبی بعدی میں لا نفی کے لیے نہ کہ نفی جنس کے لیے
مرزائیوں کا ایک اور مشہور اعتراض یہ ہے کہ لا نبی بعدی میں لا نفی جنس ہے ‘ نفی کمال کے لیے ہے جیسے لا صلاۃ الا بفاتحۃ الکتاب میں ہے۔ یعنی سورة فاتحہ کے بغیر نماز کامل نہیں ہوتی اسی طرح لا نبی بعدی کا معنی ہے میرے بعد کوئی کامل نبی نہیں ہوگا اور ناقص اور امتی نبی کی نفی نہیں ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اس طرح تو کوئی مشرک کہہ سکتا ہے کہ لا الہ الا اللہ میں بھی نفی کمال کے لیے ہے یعنی اللہ کے علاوہ کامل خدا کوئی نہیں ہے ‘ ناقص خدا موجود ہیں ‘ اور اس کا حل یہ ہے کہ لا نفی جنس کا نفی کمال کے لیے ہونا اس کا مجازی معنی ہے اور نفی جنس کے لیے ہونا اس کا حقیقی معنی ہے اور جب تک حقیقت محال یہ متعذر نہ ہو اس کو مجاز پر محمول نہیں کیا جاتا لا نبی بعدی میں حقیقت متعذر نہیں ہے اس لیے اس کا معنی ہے میر بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ‘ اور لاصلوۃ الا بفاتحۃ الکتا میں اس طرح نہیں ہے سورة فاتحہ کے بغیر نماز ہوجاتی ہے لیکن چونکہ سورة فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے اس لیے نماز کامل نہیں ہوتی اور یہاں حقیقت متعذر ہے اس لیے لا کو نفی کمال اور مجاز پر محمول کیا ہے۔
اسی طرح مرزائیہ اعتراض کرتے ہیں کہ حدیث میں ہے جب کسری مرجائے گا تو اس کے بعد کوئی کسری نہیں ہوگا اور جب قیصر ہلاک ہوجائے گا تو پھر اس کے بعد کوئی قیصر نہیں ہوگا ۔ (صحیح مسلم ج ٢ ص ٣٩٦‘ کراچی) اور کسریٰ ایران کے بادشاہ کو اور قیصر روم کے بادشاہ کو کہتے ہیں اور ان کے بعد بھی ایران اور روم کے بادشاہ ہوتے رہے ہیں۔
علامہ نووی اس کے جواب میں لکھتے ہیں :
اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں کسریٰ ایران کا بادشاہ تھا اور قیصر روم کا باد شاہ تھا اس طرح وہ بعد میں بادشاہ نہیں ہوں گے اور اسی طرح ہوا ‘ کسریٰ کا ملک روئے زمین سے منقطع ہوگیا اور اس کا ملک ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا ‘ اور قیصر شکست کھا کر شام سے بھاگ گیا اور مسلمانوں نے ان دونوں ملکوں کو فتح کرلیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ بعد میں اس نام کے باد شاہ نہیں گزرے۔
مرزائیہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے فرمایا : خاتم النبیین کہو اور یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔(مصنف ابن ابی شیبہ ج ٥ ص ٣٣٧‘ رقم الحدیث : ٢٦٦٣٣‘ دارالکتب العلمیہ بیروت)
اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کا منشاء یہ ہے کہ چونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے آسمان سے نازل ہونا ہے اس لیے یوں نہ کہو کہ کوئی نبی نہیں آئے گا بلکہ یوں کہو کہ کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا کیونکہ جب مطلقاً یہ کہا جاۓ کہ کوئی نبی نہیں آئے گا تو اس کا متبادر معنی یہ ہے کہ کوئی نیا نبی آئے گا نہ پرانا ‘ اور حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کا یہ قول ان احادیث کے خلاف نہیں ہے جن میں یہ تصریح ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا خود حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا سے صحیح سند کے ساتھ روایت ہے : حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مبشرات کے سوا میرے بعد نبوت میں سے کوئی چیز باقی نہیں رہے گی ‘ صحابہ نے پوچھا اور مبشرات کیا ہیں ؟ فرمایا سچے خواب جن کو کوئی شخص دیکھتا ہے یا کوئی شخص اس کے لیے دیکھتا ہے ۔ (مسند احمد ج ٦ ص ١٢٩‘ حافظ زین نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے ‘ حاشیہ مسند احمد رقم الحدیث : ٢٤٨٥٨ ‘ دارالحدیث قاہرہ ‘ ١٤١٦ ھ)
تیسرا مشہور اعتراض یہ ہے کہ اگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کسی نبی کا آنا محال ہے تو پھر ان احادیث کی کیا توجیہ ہوگی جن کے مطابق قرب قیامت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا نزول ہوگا وہ احادیث حسب ذیل ہیں :
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے عنقریب تم میں ابن مریم نازل ہوں گے ‘ احکام نافذ کرنے والے ‘ عدل کرنے والے ‘ وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے ‘ خنزیر کو قتل کریں گے ‘ جزیہ موقوف کردیں گے اور اس قدر مال لٹائیں گے کہ اس کو قبول کرنے والا کوئی نہیں ہوگا ‘ حتیٰ کہ ایک سجدہ کرنا دنیا اور مافیہا سے بہتر ہوگا ‘ اور تم چاہو تو (اس کی تصدیق میں) یہ آیت پڑھو :” وان من اھل الکتب الا لیؤ منن بہ قبل موتہ “” اہل کتاب میں سے ہر شخص حضرت عیسیٰ کی موت سے پہلے ان پر ایمان لے آئے گا “۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٤٤٨‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤٢‘ سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٤٤٠‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٠٧٨‘ مسند احمد ج ٣ رقم الحدیث : ١٠٩٤٤‘ صحیح ابن حبان ج ١٥‘ رقم الحدیث : ٦٨١٨‘ مصنف عبدالرزاق ج ١١ ص ٣٩٩‘ رقم الحدیث : ٢٠٨٤٠‘ مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٥ ص ١٤‘ رقم الحدیث : ١٩٣٤١‘ شرح السنہ ج ٧ ص ٤١٧٠،چشتی)
نیز امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس وقت تمہاری کیا شان ہوگی جب تم میں ابن مریم نازل ہوں گے اور تمہارا امام تم میں سے ہوگا ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٤٤٩‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤٤۔ مسند احمد ج ٢ ص ٣٣٦‘ مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٢٠٨٤١‘ شرح السنہ ج ٧‘ رقم الحدیث : ٤١٧٢)
امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہ کر جنگ کرتی رہے گی اور وہ قیامت تک غالب رہے گی حتی کہ عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نازل ہوں گے ‘ ان (مسلمانوں) کا امیر کہے گا آئیے آپ ہم کو نماز پڑھائیے۔ حضرت عیسیٰ اس امت کی عزت افزائی کے لیے فرمائیں گے نہیں تمہارے بعض ‘ بعض پر امیر ہیں ۔ (مسند احمد ج ٣ ص ٣٨٤۔ ٣٤٥ ذ مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت)
امام مسلم بن حجاج قشیری متوفی ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے ‘ عیسیٰ بن مریم فج روحاء (مدینہ سے چھ میل دور ایک جگہ) میں ضرور بلند آواز سے تلبیہ (لبیک الھم لبیک ‘ لبیک لاشریک لک لبیک) کہیں گے درآں حالیکہ وہ حج کرنے والے ہوں گے ‘ یا عمرہ کرنے والے ہوں گے یا (دونوں کو ملاکر) حج قران کرنے والے ہوں گے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٢٥٢،چشتی)
امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے ‘ خنزیر کو قتل کریں گے ‘ صلیب کو مٹادیں گے ‘ اور ان کے لیے نماز جماعت سے پڑھائی جائے گی ‘ وہ مال عطا کریں گے ‘ حتی کہ اس کو ‘ کوئی قبول نہیں کے گا ‘ وہ خراج کو موقوف کردیں گے ‘ وہ مقام روحاء پر نازل ہوں گے ‘ وہاں حج یا عمرہ کریں گے یا قران کریں گے ‘ پھر حضرت ابوہریرہ نے یہ آیت تلاوت کی وان من اھل الکتاب الا لیؤ منن بہ قبل موتہ حنظلہ کا خیال ہے حضرت ابوہریرہ نے ” قبل موت عیسیٰ “ پڑھا تھا ‘ پتا نہیں یہ بھی حدیث کا جز ہے یا حضرت ابوہریرہ نے خود تفسیر کی تھی۔(مسنداحمد ج ٢ ص ٢٩٠‘ مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت)
حضر سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خاتم النبیین ہونے کا معنی یہ ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا ‘ اور جو نبی پہلے مبعوث ہوچکے ہیں ان کا آپ کے بعد دنیا میں آنا آپ کی ختم نبوت کے منفی نہیں ہے ‘ جیسے شب معراج تمام نبی مسجد اقصیٰ میں آئے اور انہوں نے آپ کی اقتداء میں نماز پڑھی یا جس طرح جن لوگوں کے نزدیک حضرت خضر (علیہ السلام) زندہ ہیں تو ان کا آپ کے بعد دنیا میں آنا آپ کے خاتم النبیین ہونے کے منافی نہیں ہے ‘ اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قرب قیامت میں آسمان سے زمین پر نازل ہونا بھی آپ کی ختم نبوت کے منافی نہیں ہے ‘ کیونکہ یہ تمام انبیاء آپ سے پہلے مبعوث ہوچکے ہیں آپ کے بعد مبعوث نہیں ہوئے۔
اب رہا یہ سوال کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ہمارے رسول سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کا علم کیسے ہوا حتی کہ وہ اس علم کے مطابق آپ کی شریعت کے مطابق اس امت میں احکام جاری کرسکیں ‘ تو اس کے متعدد جوابات ہیں ایک جواب یہ ہے کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) کو ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کا علم تھا تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی آپ کی شریعت کا علم تھا اور اسی کے مطابق آپ اس امت میں احکام جاری کریں گے ‘ انبیاء سابقین کو ہماری شریعت کا علم تھا اس کی دلیل حسب ذیل احادیث ہیں :
امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی متوفی ٤٥٨ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : وہب بن منبہ نے ذکر کیا ہے کہ جب اللہ عزوجل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے سرگوشی کرنے کے لیے ان کو قریب کیا تو انہوں نے کہا اے میرے رب ! میں نے تورات میں یہ پڑھا ہے کہ ایک امت تمام امتوں میں افضل ہے جو لوگوں کے لیے ظاہر کی گئی ہے وہ نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے اور اللہ پر ایمان رکھیں گے ‘ تو ان کو میری امت بنا دے ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ امت احمد ہے ‘ حضرت موسیٰ نے کہا میں نے تورات میں پڑھا ہے کہ ایک امت تمام امتوں کے آخر میں مبعوث ہوگی اور قیامت کے دن وہ سب پر مقدم ہوگی ‘ تو ان کو میری امت بنا دے اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ امت احمد ہے۔
حضرت موسیٰ نے کہا اے میرے رب ! میں نے تورات میں پڑھا ہے کہ ایک امت صدقات کو کھائے گی اور اس سے پہلے کی امتیں جب صدقہ دیتیں تو اللہ تعالیٰ ایک آگ بھیجتا جو اس صدقہ کو کھا جاتی ‘ اور اگر وہ صدقہ قبول نہ ہوتا تو آگ اس صدقہ کے قریب نہیں جاتی تھی اے اللہ تو ان لوگوں کو میری امت بنادے ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ امت احمد ہے۔
حضرت موسیٰ نے کہا اے میرے رب میں نے تورات میں پڑھا ہے کہ ایک امت جب گناہ کا منصوبہ بنائے گی تو اس کا گناہ نہیں لکھاجائے گا اور جب وہ اس گناہ کا کام کرے گی تو اس کا صرف ایک گناہ لکھاجائے گا اور جب وہ نیکی کا منصوبہ بنائے گی اور اس نیکی کو نہیں کرے گی تو اس کی ایک نیکی لکھی جائے گی اور جب وہ نیکی کرے گی تو اس کو دس گنے سے لے کر سات سو گنے تک اجر دیا جائے گا ‘ اے اللہ تو اس امت کو میری امت بنادے ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ امت احمد ہے۔(دلائل النبوۃ ج ١ ص ٣٨٠۔ ٣٧٩‘ دارالکتب العلمیہ بیروت)
یہ ہماری شریعت کے وہ احکام ہیں جو سابقہ شریعتوں میں نہیں تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ان احکام پر مطلع فرمادیا۔ اسی طرح حضرت دائود (علیہ السلام) کے متعلق ہے : وہب بن منبہ نے حضرت داٶد (علیہ السلام) کے متعلق بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف زبور میں وحی کی کہ اے دائود ! عنقریب تمہارے بعد ایک نبی آئے گا جس کا نام احمد اور محمد ہوگا ‘ وہ صادق اور سردار ہوگا ‘ میں اس پر کبھی ناراض نہیں ہوں گا اور نہ کبھی وہ مجھ سے ملول ہوگا ‘ اس کی امت کو میں نفل پڑھنے پر انبیاء کے نوافل کا اجر عطا فرمائوں گا ‘ اور اس کے فرائض پر انبیاء اور رسل کے فرائض کا جرعطا فرمائوں گا ‘ حتی کہ جب وہ قیامت کے دن میرے پاس آئیں گے تو ان پر انبیاء کی طرح نور ہوگا ‘ کیونکہ میں نے ان پر ہر نماز کے لیے اس طرح وضو کرنا فرض کیا ہے جس طرح ان سے پہلے نبیوں پر وضو فرض کیا تھا ‘ اور ان پر اس طرح غسل جنابت فرض کیا ہے جس طرح ان سے پہلے نبیوں پر فرض کیا تھا ‘ اور ان پر اس طرح حج فرض کیا ہے جس طرح ان سے پہلے نبیوں پر فرض کیا تھا اور ان کو اس طرح جہاد کا حکم دیا ہے جس طرح ان سے پہلے نبیوں کو جہاد کا حکم دیا تھا ۔ (دلائل النبوۃ ج ١ ص ٣٨٠‘ دارالکتب العلمیہ بیروت،چشتی)
یہ بھی ہماری شریعت کے مخصوص احکام ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے حضرت داٶد (علیہ السلام) کو مطلع فرما دیا تھا ‘ سو اسی طرح جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی ہماری شریعت کے احکام سے مطلع فرمادیا ہو اور وہ اس کے مطابق قرب قیامت میں احکام جاری فرمائیں۔
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قرآن مجید میں اجتہاد کرکے احکام جاری فرمانا
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ قرآن مجید میں غور کرکے اس شریعت کے تمام احکام کو حاصل کرلیں ‘ کیونکہ قرآن مجید تمام احکام شرعیہ کا جامع ہے ‘ اور ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن مجید ہی کے تمام احکام کو اپنی سنت سے بیان فرمایا ہے اور امت کی عقلیں نبی کی طرح ادراک کرنے سے عاجز ہیں۔
حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اسی چیز کو حلال کرتا ہوں جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کیا ہے اور میں اسی چیز کو حرام کرتا ہوں جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کیا ہے۔(المعجم الاوسط لبطبرانی بہ حوالہ الحاوی للفتاوی ج ٢ ص ١٦٠)
اسی لیے امام شافعی نے فرمایا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس قدر احکام بیان فرمائے ہیں ان سب کو آپ نے قرآن مجید سے حاصل فرمایا ہے۔ پس جائز ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی اسی طرح قرآن مجید سے اور ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت سے اسلام کے احکام حاصل کرکے اس امت میں نافذ فرمائیں۔
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -------
بالمشافہ اسلام کے احکام کا علم حاصل کرنا
تیسری صورت یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نبی ہونے کے باوجود ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں شامل ہیں اور اس پر حسب ذیل احادیث شاہد ہیں :
حافظ ابوالقاسم علی بن الحسن ابن عسا کر المتوفی ٥٧١ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کعبہ کے گرد طواف کررہا تھا ‘ میں نے دیکھا کہ آپ نے کسی سے مصافحہ کیا اور ہم نے اس کو نہیں دیکھا ‘ ہم نے کہا یا رسول اللہ ! ہم نے آپ کو کسی سے مصافحہ کرتے ہوئے دیکھا ہے ‘ اور جس سے آپ نے مصافحہ کیا اس کو کسی نے نہیں دیکھا ‘ آپ نے فرمایا وہ میرے بھائی عیسیٰ بن مریم ہیں میں ان کا انتظار کررہا تھا حتی کہ انہوں نے اپنا طواف مکمل کرلیا پھر میں نے ان کو سلام کیا۔(تاریخ دمشق الکبیر ج ص ٣٣٩‘ رقم الحدیث : ١١٣٠٢‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ،چشتی)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمام انبیاء باپ شریک بھائی ہیں ‘ ان کی مائیں (شریعتیں) مختلف ہیں اور ان کا دین واحد ہے ‘ اور میں عیسیٰ بن مریم کے سب سے زیادہ قریب ہوں ‘ کیونکہ میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے ‘ اور وہ جس وقت نازل ہوں گے تو میری امت پر خلیفہ ہوں گے ‘ جب تم ان کو دیکھو گے تو پہچان لوگے ‘ وہ متوسط القامت ہوں گے ان کا سرخی مائل سفیدرنگ ہوگا ‘ ان کے سر پر پانی نہ بھی ہو تو یوں معلوم ہوگا کہ ان کے سر سے پانی ٹپک رہا ہے ‘ وہ دو گیروے رنگ کے کپڑے پہن کر چل رہے ہوں گے ‘ وہ صلیب کو توڑ الیں گے ‘ خنزیر کو قتل کریں گے اور مال بہت تقسیم کریں گے ‘ جزیہ کو موقوف کردیں گے اور اسلام کے لیے جنگ کریں گے حتی کہ ان کے زمانہ میں تمام بد مذاہب ختم ہوجائیں گے اور زمین میں امن ہوجائے گا ‘ سیاہ سانپ کے ساتھ اونٹ چریں گے اور چیتے بیلوں کے ساتھ گشت کریں گے اور بھیڑیے بکریوں کے ساتھ ‘ اور بچے سانپوں کے ساتھ کھیلیں گے اور وہ ان کو نقصان نہیں پہنچائیں گے ‘ وہ زمین میں چالیس سال ٹھہریں گے پھر فوت ہوجائیں گے اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے (اس حدیث سے یہ وہم نہ کیا جائے کہ حضرت عیسیٰ ہمارے نبی کی شریعت کو منسوخ کرنے والے ہیں بلکہ منسوخ کرنے والے ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی ہیں ‘ کیونکہ آپ نے بتادیا کہ جزیہ اور جہاد کی مشروعیت کی مدت نزول عیسیٰ تک ہے)۔(تاریخ دمشق الکبیر ج ٥٠ ص ٢٥٩‘ رقم الحدیث : ١١٢٧٤‘ داراحیاء التراث بیروت : ١٤٢١ ھ)
ان احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کے حکم میں ہیں اس لیے یہ ہوسکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ ے ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہ راہ راست اور بالمشافہ احکام حاصل کیے ہوں ‘ اور نزول عیسیٰ کے بعد چونکہ سب لوگ مسلمان ہوجائیں گے اس لیے پھر جہاد اور جزیہ کی ضرورت نہیں رہے گی۔
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ------
قبر انور سے اسلام کے احکام کا علم حاصل کرنا
چوتھی صورت یہ ہے کہ یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہمارے نبی سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک پر جائیں اور قبر پر جا کر آپ سے استفادہ کریں ‘ اس کی تائید ان احادیث سے ہوتی ہے :
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس ذات کے قبضہ وقدرت میں ابوالقاسم کی جان ہے ‘ عیسیٰ بن مریم ضرور نازل ہوں گے ‘ امام اور انصاف کرنے والے حاکم اور عادل ہوں گے وہ صلیب کو توڑدیں گے ‘ خنزیر کو قتل کریں گے ‘ لوگوں میں صلح کرائیں گے اور بغض کو دور کریں گے ‘ ان پر مال کو پیش کیا جائے گا تو وہ مال کو قبول نہیں کریں گے ‘ پھر اللہ کی قسم ! اگر وہ میری قبر پر کھڑے ہو کر مجھے پکار کر کہیں ” یا محمد “ تو میں ان کو ضرور جواب دوں گا۔ (مسند ابو یعلی رقم الحدیث : ٦٥٨٤‘ تاریخ دمشق الکبیر رقم الحدیث : ١١٣١٣‘ مجمع الزوائد ج ٨ ص ٥‘ المطالب العالیہ ج ٤ ص ٢٣،چشتی)
ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عیسیٰ حج یا عمرہ کے لیے جائیں گے اور فج روحاء کے راستہ سے گزریں گے اور میری قبر پر کھڑے ہو کر مجھ کو سلام کریں گے اور میں ان کے سلام کا جواب دوں گا۔ (تاریخ دمشق الکبیر ج ٥٠ ص ٢٣٤‘ رقم الحدیث : ١١٣١٢)
حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ اور ان کی اتباع میں علامہ آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ نے ان احادیث سے اس صورت پر استدلال کیا ہے۔ (الحاوی للفتاوی ج ٢ ص ١٦٣۔ ١٦٢‘ روح المعانی جز ٢٢ ص ٥١۔ ٥٠)
ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قبر میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٧٤) حضرت موسیٰ اور حضرت یونس (علیہما السلام) کو تلبیہ پڑھتے ہوئے دیکھا (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٦٦) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) حج کرتے ہوئے دیکھا (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧١) اور جس طرح ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبی اء سابقین سے ملاقات ممکن ہے اسی طرح حضرت عیسیٰ کی ہمار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ملاقات ممکن ہے تو ہوسکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ نے ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کر کے آپ سے اسلام کے احکام حاصل کیے ہوں۔
حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ نے لکھا ہے کہ امام غزالی ‘ علامہ تاج الدین سبکی ‘ علامہ یافعی ‘ علامہ قرطبی مالکی ‘ علامہ ابن ابی جمرہ اور علام ابن الحاج نے مدخل میں یہ تصریح کی ہے کہ اولیاء اللہ نیند اور بیداری میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کرتے ہیں اور آپ سے استفادہ کرتے ہیں ‘ ایک مرتبہ ایک فقیہ نے ایک ولی کے سامنے حدیث بیان کی ‘ ولی نے کہا یہ حدیث باطل ہے ‘ فقیہ نے کہا آپ کو کیسے علم ہوا ؟ ولی نے کہا تمہارے سر کے پاس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے فرما رہے ہیں میں نے یہ حدیث نہیں کہی اور اس فقیہ کو بھی آپ کی زیارت کرادی ‘ سو جب اس امت کے اولیاء کا یہ حال ہے تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا مرتبہ اس سے کہیں زیادہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیادرت سے مستفید نہ ہوں اور آپ کی تعلیم سے مستفیض نہ ہوں ۔ (الحاوی للفتاوی ج ٢ ص ١٦٣‘ مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ لائل پور)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment