Monday 6 September 2021

عظمت و فضیلت شہدائے کرام حصہ اول

0 comments

 عظمت و فضیلت شہدائے کرام حصہ اول

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : سب سے بلند مرتبہ انبیائے کرام عَلَیْھِمُ السَّلَام کا پھر صِدِّیْقِیْن کا اور پھر شہدا کا مرتبہ ہے ۔ قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَۚ-وَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًاؕ ۔ (پارہ ۵ سورہ النساء:۶۹)

ترجمہ : اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اُسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ ۔


وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌؕ-بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ ۔ (سورہ البقرہ 154)

 ترجمہ : اور جواللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں ۔


صبر کے ذکر کے بعد اب صبر کرنے والوں کی ایک عظیم قسم یعنی شہیدوں کا بیان کیا جارہا ہے ۔ یہ آیت ِکریمہ شہداء کے حق میں نازل ہوئی۔ بعض لوگ شہداء کی شہادت پر افسوس کرتے ہوئے کہتے تھے کہ وہ لوگ شہید ہو کر نعمتوں سے محروم ہو گئے۔ تب یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی ۔ (تفسیر خازن ، البقرۃ ، ۱۵۴ ، ۱ / ۱۰۳)


جس میں فرمایا گیا کہ انہوں نے فانی زندگی اللہتعالیٰ کی راہ میں قربان کر کے دائمی زندگی حاصل کرلی ہے ۔


اس آیت میں شہداء کو مردہ کہنے سے منع کیا گیا ہے، نہ زبان سے انہیں مردہ کہنے کی اجازت ہے اور نہ دل میں انہیں مردہ سمجھنے کی اجازت ہے ، جیسا کہ ایک اور مقام پر فرمانِ باری تعالیٰ ہے : وَ  لَا  تَحْسَبَنَّ  الَّذِیْنَ  قُتِلُوْا  فِیْ  سَبِیْلِ  اللّٰهِ  اَمْوَاتًاؕ-بَلْ  اَحْیَآءٌ  عِنْدَ  رَبِّهِمْ  یُرْزَقُوْنَ ۔ (سورہ ال عمران:۱۶۹)

ترجمہ : اور جو اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ہر گز انہیں مردہ خیال نہ کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں ، انہیں رزق دیا جاتا ہے ۔


موت کے بعد اللہ تعالیٰ شہداء کو زندگی عطا فرماتا ہے ، ان کی ا رواح پر رزق پیش کیا جاتا ہے ، انہیں راحتیں دی جاتی ہیں ، ان کے عمل جاری رہتے ہیں ، ان کا اجرو ثواب بڑھتا رہتا ہے ، حدیث شریف میں ہے کہ شہداء کی روحیں سبز پرندوں کے بدن میں جنت کی سیر کرتی اور وہاں کے میوے اور نعمتیں کھاتی ہیں ۔ (شعب الایمان، السبعون من شعب الایمان، ۷ / ۱۱۵، الحدیث: ۹۶۸۶،چشتی)


حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا : اہل جنت میں سے ایک شخص کو لایا جائے گا تو اللہتعالیٰ اس سے فرمائے گا : اے ابن آدم!تو نے اپنی منزل و مقام کو کیسا پایا۔ وہ عرض کرے گا:اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، بہت اچھی منزل ہے۔ اللہتعالیٰ فرمائے گا:’’تو مانگ اور کوئی تمنا کر۔ وہ عرض کرے گا: میں تجھ سے اتنا سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے دنیا کی طرف لوٹا دے اور میں دس مرتبہ تیری راہ میں شہید کیا جاؤں۔ (وہ یہ سوال اس لئے کرے گا ) کہ اس نے شہادت کی فضیلت ملاحظہ کر لی ہو گی۔(سنن نسائی ، کتاب الجہاد، ما یتمنی اہل الجنۃ، ص۵۱۴، الحدیث: ۳۱۵۷)


حضرتِ سَیِّدُناسمرہ بن جندب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبیِّ مُکَرَّم،نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایاکہ گزشتہ رات میں نے  دیکھا کہ دوشخص میرے پاس آئے اور مجھے ساتھ لے کر ایک درخت کے اوپر چڑھ گئے اور مجھے ایک بہت خوبصورت اورفضیلت والے گھر میں داخل کردیا،میں نے اس جیسا گھر کبھی نہیں دیکھا تھا پھر انہوں نے مجھ سے کہا: کہ ’’یہ شُہَدَا   کا گھر ہے ۔‘‘(بخاری، کتاب الجہاد، باب درجات المجاھدین فی سبیل اللہ، ۲/۲۵۱، حدیث:۲۷۹۱)


حضرتِ سَیِّدُناراشد بن سعد عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَحَد ایک صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی : یَا رَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!کیا وجہ ہے کہ قبر میں سب مسلمانوں کا امتحان ہوتا ہے لیکن شہید کا نہیں ہوتا؟ ارشاد فرمایا: اس کے سر پر تلواروں کی بجلی گرناہی اس کے امتحان کے لئے کافی ہے ۔ (نسائی، کتاب الجنائز، باب الشہید،  صفحہ ۳۴۵، حدیث:۲۰۵۰،چشتی)


حضرتِ سَیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:’’ شہید کو قتل ہوتے وقت اتنی ہی تکلیف ہوتی ہے جتنی تم میں سے کسی کو چٹکی کی تکلیف ہوتی ہے ۔‘‘(ترمذی، کتاب فضائل الجہاد، باب ماجاء فی فضل المرابط، ۳/۲۵۲، حدیث:۱۶۷۴)


حضرتِ سَیِّدُنا اَنَس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبیِّ کریم، رء وف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: جب لوگ حساب کے لئے کھڑے ہوں گے تو ایک قوم اپنی تلوار یں اپنی گردنوں پررکھے ہوئے آئے گی جن سے خون بہہ رہا ہوگا اور جنت کے دروازے پر آکر بِھیڑ کر دے گی، پوچھا جائے گا: یہ کون ہیں ؟ جواب دیاجائے گا: یہ شہدا ہیں جو زندہ تھے اور رزق دئیے جاتے تھے ۔ (معجم الاوسط، ۱/۵۴۲، حدیث:۱۹۹۸،چشتی)


شہید کون ؟


حضرتِ سَیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا :تم شہدا میں کسے شمار کرتے ہو ؟ صحابۂ کرام عَلَیْہم الرِّضْوَان نے عرض کی : جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں مارا جائے وہ شہید ہے ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:اس طرح تو میری امت میں شہید بہت کم ہوں گے۔ صحابۂ کرام عَلَیْہم   الرِّضْوَان نے عرض کی:یَا رَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم !(اس کے علاوہ) اور کون شہید ہے؟ فرمایا:جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں مارا جائے وہ شہید ہے ،جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں مر جائے وہ شہید ہے ،جو طاعون میں مبتلا ہوکر مرے وہ بھی شہید ہے اور جو پیٹ کی بیماری میں مبتلا ہو کر مرے وہ بھی شہید ہے ۔حضرتِ سَیِّدُنا اِبْنِ مِقْسَم علیہ الرحمہ نے فرمایا : میں گواہی دیتا ہوں کہ ابو صالح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ جو سمندر میں ڈوب کر مرے وہ بھی شہید ہے ۔ایک روایت میں ہے کہ شہدا پانچ ہیں (۱)طاعون میں مبتلا ہوکر مرنے والا (۲) پیٹ کی بیماری کے سبب مرنے والا (۳) سمندرمیں ڈوب کر مرنے والا (۴)ملبے تلے دب کر مرنے والا (۵) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں قتل کیا جانے والا ۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب بیان الشہدائ، ص۱۰۶۰، حدیث:۱۹۱۴،چشتی)


شہید وہ مسلمان ، مُکَلَّف ، طاہر ہے جو تیز ہتھیار سے ظلماً مارا گیا ہو اور اس کے قتل سے مال بھی واجب نہ ہوا ہو یا معرکہ جنگ میں مردہ یا زخمی پایا گیا اور اس نے کچھ آسائش نہ پائی۔ اس پر دنیا میں یہ احکام ہیں کہ نہ اس کو غسل دیا جائے نہ کفن، اسے اس کے کپڑوں میں ہی رکھا جائے، اسی طرح اس پر نماز پڑھی جائے اور اسی حالت میں دفن کیا جائے ۔ (بہار شریعت، شہید کا بیان،۱ / ۸۶۰)


بعض شہداء وہ ہیں کہ ان پر دنیا کے یہ احکام تو جاری نہیں ہوتے لیکن آخرت میں ان کے لیے شہادت کا درجہ ہے جیسے ڈوب کر یا جل کر یا دیوار کے نیچے دب کر مرنے والا ، طلب ِعلم اورسفرِحج غرض راہ خدا میں مرنے والا یہ سب شہید ہیں ۔ حدیثوں میں ایسے شہداء کی تعداد چالیس سے زائد ہے ۔


شہید کی اقسام


بہارِ شریعت میں ہے: شہادت صرف اسی کا نام نہیں کہ جہاد میں قتل کیا جائے بلکہ ایک حدیث میں فرمایا : اس کے سوا سات شہادتیں اور ہیں :


(1)جو طاعون سے مرا شہید ہے۔


(2)جو ڈوب کر مرا شہید ہے۔


(3)ذَاتُ الْجَنْب میں (پسلیوں کے درد کی وجہ سے) مرا شہید ہے۔


(4) جو پیٹ کی بیماری میں مرا شہید ہے۔


(5) جو جل کر مرا شہید ہے۔


 (6)جس کے اوپر دیوار وغیرہ گر پڑے اور مر جائے شہید ہے۔


(7) عورت کہ بچہ پیدا ہونے یا کنوارے پن میں مر جائے شہید ہے۔


امام احمد کی روایت حضرتِ سَیِّدُنا جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ہے کہ رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:طاعون سے بھاگنے والا اس کے مثل ہے ،جو جہاد سے بھاگا اور جو صبر کرے اس کے لیے شہید کا اجر ہے۔‘‘


(8) ابن ماجہ کی روایت ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہم  اسے ہے کہ ارشاد فرمایا مسافرت کی موت شہادت ہے۔


ان کے سوا اور بہت صورتیں ہیں جن میں شہادت کا ثواب ملتا ہے، امام جلال الدین سیوطی وغیرہ ائمہ نے ان کو ذکر کیا ہے۔ بعض  یہ ہیں :


(9) سِل(ایک بیماری (ہے)جس سے پھیپڑوں میں زخم ہو جاتے ہیں اور منہ سے خون آنے لگتا ہے) کی بیماری میں مرا۔


(10) سواری سے گِر کر یا مر گی سے مرا۔


(11)بخار میں مرا۔


(12) مال یا


(13) جان یا


(14) اہل یا


(15) کسی حق کے بچانے میں قتل کیا گیا۔


(16) عشق میں مرا بشرطیکہ پاکدامن ہو اور چھپایا ہو۔


(17) کسی درندہ نے پھاڑ کھایا۔


(18) بادشاہ نے ظلماً قید کیا یا۔


(19) مارا اور مر گیا۔


(20) کسی موذی جانور کے کاٹنے سے مرا۔


(21) علم دین کی طلب میں مرا۔


(22) مؤذن کہ طلب ثواب کے لیے اذان کہتا ہو۔


(23) تاجر راست گو۔


(24) جسے سمندر کے سفر میں متلی اور قے آئی۔


(25) جو اپنے بال بچوں کے لیے سعی کرے، ان میں امر الٰہی قائم کرے اور انھیں حلال کھلائے۔


(26) جو ہر روز پچیس بار یہ پڑھے اللھُمَّ بِارِکْ لِیْ فِی الْمَوْتِ وَفِیْمَا بَعْدَ الْمَوْتِ۔


(27) جو چاشت کی نماز پڑھے اور ہر مہینے میں تین روزے رکھے اور وتر کو سفر و حضر میں کہیں ترک نہ کرے۔


(28) فسادِ اُمّت کے وقت سنت پر عمل کرنے والا، اس کے لیے سو شہید کا ثواب ہے۔


(29) جو مرض میں لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُـنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ چالیس بار کہے اور اسی مرض میں مر جائے اور اچھا ہوگیا تو اس کی مغفرت ہو جائے گی۔


(30) کفار سے مقابلہ کے لیے سرحد پر گھوڑا باندھنے والا۔


یہ بات تو قطعی ہے کہ شہداء زندہ ہیں لیکن ان کی حیات کیسی ہے اس کا ہمیں شعور نہیں اسی لئے ان پر شرعی احکام عام میت کی طرح ہی جاری ہوتے ہیں جیسے قبر ، دفن ، تقسیمِ میراث ، ان کی بیویوں کا عدت گزارنا ، عدت کے بعد کسی دوسرے سے نکاح کرسکنا وغیرہ ۔


ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جو زمین پر چلتا پھرتا ہو وہ زندہ ہے اور جو زمین کے نیچے دفن کردیا جائے وہ مردہ ہے ‘ لیکن ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ اللہ کے نزدیک زندہ وہ ہے جس کی زندگی کی اللہ راہ میں بسر ہو وہ زمین کے اوپر ہو پھر بھی زندہ ہے ‘ اور زمین کے نیچے ہو پھر بھی زندہ ہے اور جس کی زندگی لہو ولعب اور کفر میں بسر ہو وہ زمین کے اوپر بھی مردہ ہے اور زمین کے نیچے بھی مردہ ہے ‘ اسی لیے فرمایا : (آیت) ” انک لا تسمع الموتی “ (النمل : ٨٠) آپ مردوں کو تو نہیں سناتے “ کافر زمین پر چلتے پھرتے تھے ان کو مردہ فرمایا اور شہید زمین کے نیچے دفن ہوگئے لیکن ان کو زندہ فرمایا :


امام رازی سورة بقرہ کی اس آیت کے شان نزول میں لکھتے ہیں : حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما بیان فرماتے ہیں کہ یہ آیت شہداء بدر کے متعلق نازل ہوئی ہے ‘ جنگ بدر کے دن چودہ مسلمان شہید ہوئے تھے ‘ چھ مہاجرین میں سے اور آٹھ انصار میں سے ‘ مہاجرین میں سے عبیدہ بن حارث ‘ عمر بن ابی وقاص ‘ ذوالشمالین ‘ عمرو بن نفیلہ ‘ عامر بن بکر اور مہجع بن عبداللہ اور انصار میں سے سعید بن خیثمہ ‘ قیس بن عبدالمنذر ‘ زید بن حارث ‘ تمیم بن ھمام ‘ رافع بن معلی ‘ حارثہ بن سراقہ ‘ معوذبن عفراء اور عوف بن عفراء اس وقت لوگ یہ کہتے تھے کہ فلاں مرگیا اور فلاں مرگیا تو یہ آیت نازل ہوئی کہ راہ خدا میں مرنے والوں کو مردہ نہ کہو ‘ اس آیت کے شان نزول میں دوسرا قول یہ ہے کہ کفار اور منافقین یہ کہتے تھے کہ (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رضا کی خاطر مسلمان بےفائدہ اپنے آپ کو قتل کرا رہے ہیں تو یہ آیت نازل ہوئی۔ (تفسیر کبیر ج ٢ ص ٣٥ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ،چشتی)


اس آیت میں شہداء کی حیات کو بیان کیا گیا ہے ‘ قبر میں حیات کئی قسم کی ہے : 

حیات کی ایک قسم برزخی حیات ہے ‘ یہ حیات ہر مومن اور کافرکو حاصل ہے ‘ دو چیزوں کے درمیان حد اور حجاب کو برزخ کہتے ہیں ‘ اور یہاں برزخ سے مراد موت سے لے کر قیامت تک کا وقت ہے ‘ قرآن مجید میں ہے :  ومن ورآۂم برزخ الی یوم یبعثون ۔ (المؤمنون : ١٠٠)

ترجمہ : اور ان کے آگے اس دن تک ایک حجاب ہے جس دن میں وہ اٹھائے جائیں گے۔


حیات برزخی پر دلیل یہ ہے کہ کافروں اور فاسقوں پر قبر میں عذاب ہوتا ہے اور نیک مسلمانوں کو قبر میں ثواب ہوتا ہے اور حیات کے بغیر عذاب اور ثواب متصور نہیں ہے انسان کا جسم تو کچھ عرصہ بعد گل سڑ جاتا ہے اور ہڈیاں بھی ریزہ ریزہ ہو کر خاک ہوجاتی ہیں پھر عذاب اور ثواب کیا صرف روح کو ہوتا ہے ؟ اس میں تحقیق یہ ہے کہ انسان کے بدن کے اصلی جز کو اللہ تعالیٰ ہرحال میں قائم رکھتا ہے اور اس جز کے ساتھ روح متعلق ہوجاتی ہے اور عذاب اور ثواب کا ترتب روح اور بدن کے اس جز پر ہوتا ہے ‘ لیکن دنیاوی احکام میں یہ مردہ ہوتے ہیں ۔ 


اولیاء اللہ کو قبر میں جسمانی حیات حاصل ہوتی ہے ‘ اس پر دلیل یہ ہے کہ امام ترمذی حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت کرتے ہیں کہ بندہ مومن جب فرشتوں کے سوال کا صحیح جواب دے دیتا ہے تو اس کی قبر میں ستر در ستر وسعت کردی جاتی ہے اور فرشتے اس سے کہتے ہیں کہ اس عروس (دلہن) کی طرح سو جا جس کو اس کے محبوب اھل (زوج) کے سوا کوئی بیدار نہیں کرتا ‘ حتی کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو قبر سے اٹھائے ۔ (جامع ترمذی ص ١٧٣‘ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)


اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بندہ مومن قیامت تک قبر میں سوتا رہے گا اور سونا حیات کی فرع ہے اور جب کہ عام مشاہدہ یہ ہے کہ قبر میں بالعموم مسلمانوں کے اجسام گل سڑ جاتے ہیں اس لیے اس حدیث کو خواص مومنین یعنی اولیاء اللہ کی قبر میں حیا کے متعلق بہ کثرت نقول موجود ہیں۔ شیخ رشید احمد گنگوہی نے لکھا ہے کہ اولیاء کرام بھی بحکم شہداء ہیں اور مشمول آیت ” بل احیاء عندربھم “ (البقرہ : ١٦٩) کے ہیں۔ (فتاوی رشیدیہ کامل مبوب ص ‘ ٨٧ مطبوعہ محمد سعید اینڈ سنز ‘ کراچی)


علامہ قرطبی بیان کرتے ہیں : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت ہے کہ ثواب کی نیت سے اذان دینے والا اس شہید کی طرح ہے جو اپنے خون میں لتھڑا ہوا ہو اگر وہ مرگیا تو اس کی قبر میں کیڑے نہیں پڑیں گے۔ اس حدیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جو مومن ثواب کی نیت رکھتا ہو اس کو بھی زمین نہیں کھاتی۔ ١ (علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ ‘ التذکرہ فی احوال الموتی و امور الاخرۃ ص ١٨٥‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت) یہ حدیث اولیاء الہ کی جسمانی حیات پر واضح دلیل ہے ۔ (مزید حصہ دوم میں پڑھیں) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔