نمازِ جنازہ کے بعد دعا کرنا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : اللہ سبحانہ وتعالی نے جن وانس کواپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ۔ قرآن عظیم میں فرمایا : وماخلقت الجن والانس الالیعبدون ۔ (الذاریات ۵۶)
ترجمہ : اورمیں نے جن وانس کوتواپنی عبادت کے لیے بنایا ۔
اوراللہ تعالی کی عبادت کے طریقوں میں سے ایک محبوب ترین طریقہ ”دعا“ ہے ۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا : الدعاء مخ العبادۃ ۔ دعاعبادت کامغز ہے ۔ (جامع الترمذی ۳۹۲۳، المعجم الاوسط للطبرانی رقم الحدیث ۴۲۳۳، الدعاء للطبرانی رقم الحدیث۵)
بلکہ بعض احادیث طیبہ میں تویہاں تک فرمایاکہ : عبادت تودعاہی ہے …… جیسا کہ جناب نعمان بن بشیر سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا : الدعاء ھوالعبادۃ ۔ دعاء ہی عبادت ہے ۔ (سنن ابی داودرقم الحدیث۴۶۲۱، جامع الترمذی رقم الحدیث ۵۹۸۲، ۰۷۱۳، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث ۸۱۸۳، الدعاء للطبرانی رقم الحدیث ۱، ۲، ۳، ۴)،(امام ترمذی نے اس حدیث سے متعلق فرمایا:حسن صحیح)
یوں ہی جناب براء رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا : ان الدعاء ھوالعبادۃ ۔ بے شک دعاء ہی عبادت ہے ۔ (تاریخ بغدادج۵ص۶۵۳)
اوراللہ سبحانہ وتعالی نے حضرت سیدناابراہیم خلیل اللہ علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کی ، دعا میں کثرت کرنے پرمدح فرمائی ، قرآن عظیم میں ہے : ان ابراہیم لاواہ حلیم ۔ بے شک ابراہیم ”اواہ“اورحلم والے ہیں ۔ (التوبۃ۴۱۱)
اورحضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں : الاواہ الدعاء ۔ ”اواہ“ کے معنی ہیں : دعاکی کثرت کرنے والا ۔ (جامع البیان للطبری ج۴۱ص۳۲۵)
اور شاید یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی کے محبوب جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے کثرت سے دعا کرنے کا حکم ارشاد فرمایا …… حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا : اکثرو االدعاء ۔ دعاء کثرت سے کرو ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث۴۴۷، سنن ابی داود رقم الحدیث۱۴۷، سنن النسائی ۵۲۱۱، مسنداحمد۳۸۰۹،چشتی)
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہافرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا : ان اللہ یحب الملحین فی الدعاء ۔ بے شک اللہ تعالی باربار دعاء کرنے والوں کومحبوب رکھتاہے ۔ (نوادرالاصول ج۲ص۲۸۲)
لیکن نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج ، بعض مسلمان کہلانے والے لوگ …… جہاں اہلِ اسلام کو دیگر نیک کاموں سے منع کرتے ، اور بدعت ، گمراہی وغیرہ کا راگ الاپ کے اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا قرب حاصل کرنے سے روکتے ہیں ۔ وہاں دعاء ایسی عبادت پر بھی پابندی لگاتے دکھائی دیتے ہیں ۔ فلاں وقت دعا کرنا ناجائز ہے ، نمازکے بعد اللہ تعالی سے مانگنا بدعت ہے ، نمازِجنازہ کے بعد اللہ سے سوال کرنا گمراہی ہے ۔ سبحنک ھذابھتان عظیم ۔
وہ کریم تواپنی کتاب میں بغیرکسی قید کے فرمائے : وقال ربکم ادعونی استجب لکم ۔
اورتمہارے رب نے فرمایا : مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا ۔ (سورہ غافر۶۰)
اوراس کے حبیب کریم رؤف رحیم فرمائیں : اذاسأل احدکم فلیکثر فانہ یسأل ربہ ۔
جب تم میں سے کوئی دعاکرے توکثرت سے مانگے …… کیونکہ وہ اپنے رب سے مانگ رہا ہے ۔ (صحیح ابن حبان رقم الحدیث۰۹۸)
لیکن یہ لوگ ہیں کہ سارے دلائل و براہین سے آنکھیں میچ کرصرف ایک عذر لنگ پیش کرتے ہیں : نمازجنازہ بھی تو دعا ہے ، پھربعد میں دعاکیوں مانگیں ؟
حیرت کی بات ہے …… کیا ایک بار جوعبادت کرلی جائے ، اس کے بعد دوبارہ وہ عبادت کرنا ممنوع ہو جاتا ہے ؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : وکان اذا دعا دعا ثلاثا ۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جب دعافرماتے توتین باردعافرماتے تھے ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث۹۴۳۳)
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم تو بار بار دعا کریں ، لیکن یہ دوبارہ دعاء سے بھی منع کریں …… اور اس کے باوجود اپنے آپ کوسنت کا متبع اور شریعت مطہرہ کا پابند بتائیں ……!!! مالکم کیف تحکمون ؟
نمازجنازہ کے بعد دعا کرنا قرآن ، حدیث اورعملِ صحابہ ، سب سے ثابت ہے ۔ قرآن عظیم میں فرمایا : فاذافرغت فانصب ۔ (الشرح۷)
اورصحابیٔ رسول حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما اس کی تفسیرمیں فرماتے ہیں : اذافرغت من الصلاۃ فانصب فی الدعاء واسأل اللہ وارغب الیہ ۔
یعنی جب آپ نمازسے فارغ ہوجائیں تودعاء میں کوشش کریں اور اللہ تعالی سے مانگیں اوراس کی طرف متوجہ ہوں ۔ (جامع البیان للطبری ج۴۲ص۶۹۴، تفسیرابن ابی حاتم الرازی ج۲۱ص۷۲۴)
اورجناب قتادۃ اس آیہ مقدسہ کی تفسیرمیں فرماتے ہیں : امرہ اذافرغ من صلاتہ ان یبالغ فی الدعاء ۔ یعنی اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کوحکم دیا ہے کہ : جب اپنی نمازسے فارغ ہوجائیں تودعاء میں مبالغہ کریں ۔ (جامع البیان للطبری ج۴۲ص۶۹۴،چشتی)
اس آیۂ مقدسہ سے ہر نماز کے بعد دعاء کا جائز ہونا ، بلکہ شرعا مندوب و مطلوب ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ اور واضح بات ہے کہ نمازجنازہ بھی تو نماز ہے ، پھراس کے بعد دعاء ناجائز کیسے ہوجائے گی ؟
اوراگرکوئی کہے کہ نمازجنازہ نماز نہیں ، یا اس آیۂ مقدسہ سے نمازجنازہ مراد نہیں تو ہم اسے کہں گے : ھاتوابرھانکم ان کنتم صادقین۔فاذلم یأتوابالشھداء فاولئک عنداللہ ھم الکاذبون ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں : اذاصلیتم علی المیت فاخلصوالہ الدعاء ۔ جب میت پرنمازپڑھ چکوتواخلاص کے ساتھ اس کے لیے دعاء کرو ۔ (سنن ابی داودرقم الحدیث۴۸۷۲، سنن ابن ماجہ۶۸۴۱، السنن الکبری للبیہقی ج۴ص۰۴، صحیح ابن حبان رقم الحدیث۱۴۱۳، الدعاء للبطرانی رقم الحدیث ۷۰۱۱)
اس حدیث میں ”فاخلصوا“ فرمایا …… یعنی ”فاء“ لائی گئی …… اورامام رازی ”المحصول“ میں اور امام عبید اللہ بن مسعود رحمہ اللہ تعالی ”التوضیح“ میں رقمطرازہیں : الفاء للتعقیب ۔ فاء تعقیب کے لیے آتی ہے ۔ (المحصول ج۱ص۳۷۳، التوضیح ج۱ص۰۹۳)
اور امام بدرالدین زرکشی ذکرفرماہیں : الاجماع علی ان الفاء للتعقیب ۔ یعنی فاء کے تعقیب کے لیے ہونے پراجماع ہے ۔ (البحرالمحیط ج۳ص۷۹۱)
لہذا حدیث کا حاصل یہ ہوگا کہ : نمازجنازہ سے فارغ ہو کر میت کے لیے اخلاص سے دعا کرو ۔ مالکم لاتنطقون ؟ فلیأتوا بحدیث مثلہ ان کانوا صادقین !!!
اورنہ صرف یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے نمازجنازہ کے بعد دعاء کرنے کاحکم فرمایا …… بلکہ نماز جنازہ کے بعد خود دعاء فرماتے بھی رہے ۔ امیرالمؤمنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں : کان النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اذافرغ من دفن المیت وقف علیہ فقال استغفروالاخیکم وسلوالہ بالتثبیت فانہ الآن یسأل ۔
نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جب میت کے دفن سے فارغ ہوجاتے تواس کی قبرپہ کھڑے ہوکرفرماتے : اپنے بھائی کے لیے مغفرت کی دعاء کرو ، اوراس کے لیے ثابت قدمی کاسوال کرو …… کیونکہ اس سے اس وقت سوال کیا جا رہا ہے ۔ (سنن ابی داود رقم الحدیث ۴۰۸۲)
ان النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم علی جنازۃ فلما فرغ جاء عمر و معہ قوم فارادان یصلی ثانیا فقال لہ النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم الصلوۃ علی الجنازۃ لا تعاد و لکن ادع للمیت و استغفرلہ ۔ (بدائع الصنائع جلد نمبر 3،چشتی)
ترجمہ : نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی جب آپ نماز جنازہ سے فارغ ہوچکے تو حضرت عمر اور ان کے ساتھ کچھ لوگ (جونماز جنازہ سے رہ گئے تھے) اس ارادے سے آئے کہ وہ دوبارہ نماز جنازہ پڑیں ، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے انہیں (دوبارہ نماز جنازہ پڑھنے سے روکتے ہوئے) فرمایا:نماز جنازہ دوسری بار نہیں پڑھی جائے گی لیکن میت کیلئے دعا اور استغفار کرو ۔
حضرت عبداللہ ابن عباس اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے ایک موقع پر نماز جنازہ نکل گئی تو ان (دو معروف صحابہ اکرام نے) دعائے مغفرت پر اکتفاء فرمایا ۔ (بدائع الصنائع جلد نمبر 3)
حضرت عبداللہ بن سلام سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما کی نماز جنازہ رہ گئی (یعنی جب وہ آئے تو لوگ نماز جنازہ سے فارغ ہوچکے تھے) تو آپ نے وہاں موجود حاضرین کو کہا : ان سبقتمونی بالجنازۃ فلا تسبقونی بالدعاء لہ ۔ (بدائع الصنائع جلد نمبر3)
ترجمہ : اگرچہ تم لوگ نماز جنازہ میں مجھ سے پہل کرچکے ہوں (لیکن ٹھہرو) دعا میں مجھ سے پہل نہ کرنا (یعنی دعا میں مجھے شریک ہو لینے دو)
معروف صحابی حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی کا انتقال ہوگیا انہوں نے نماز جنازہ پڑھائی ۔ ثم کبر علیھا اربعا ثم قام بعد الرابعۃ قدر مابین التکبیریتین یدعوثم قال کان اللہ یصنع فی الجنازۃ ھکذا ۔ (سنن ابن ماجہ، مسند احمد، مصنف عبدالرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ،چشتی)
ترجمہ : (جنازہ اس طرح پڑھا کہ) چار تکبیریں کہیں، چوتھی تکبیر کے بعد (اور سلام پھیرنے کے بعد) دو تکبیروں کے درمیانی مقدار کے برابر وقفہ کیا اور اس وقت دعا کرتے رہے اور (دعا کرلینے کے بعد حاضرین سے مخاطب ہوکر) فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نماز جنازہ میں اس طرح فرماتے تھے ۔
عن عمیر بن سعید قال صلیت مع علیّ ؓ علی یذید بن المکفف فکبرّ علیہ اربعا ثم مشاہ حتی اتاہ وقال اللہم عبدک… الخ ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ جلد ثالث)
ترجمہ : عمیر بن سعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ یزید بن مکفف کی نماز جنازہ پڑھی۔ آپ (یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ) نے ان پر جنازے کی چار تکبیرات پڑھیں (پھر سلام پھیرنے کے بعد) چلے یہاں تک کہ میت کے قریب تشریف لے آئے اور یوں دعا کرنے لگے ۔ اے اللہ! یہ تیرا بندہ ہے اور تیرے بندے کا بیٹا ہے آج تیرے حضور حاضر ہے تو اس کے گناہوں کو معاف فرما دے اس کی قبر کو اس کے لئے وسیع فرما دے ہم اس کے بارے میں خیر کے سوا کچھ نہیں جانتے اور تو اس کے حال کو بہتر جانتا ہے ۔
اور دفن کے بعد دعاء کرنا ، نمازجنازہ کے بعد ہی ہوتا ہے …… پس نمازجنازہ کے بعد خود رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے دعا فرمائی ۔ بلکہ تدفین کی تکمیل سے پہلے …… یعنی دوران تدفین دعا کرنا بھی واردہوا ہے …… جیسا کہ مستدرک علی الصحیحین وغیرہ کی روایت کے کلمات ہیں : مر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بجنازۃ عندقبروصاحبہ یدفن فقال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم استغفروالاخیکم سلوااللہ لہ التثبیب فانہ الآن یسأل ۔
جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم قبرکے پاس رکھے ایک جِنازہ کے پاس سے گزرے جبکہ قبروالے کودفن کیاجارہاتھا …… تورسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا : اپنے بھائی کے لیے مغفرت کی دعاء مانگواوراللہ تعالی سے اس کے لیے ثابت قدمی کا سوال کروکیونکہ وہ ابھی سوال کیا جائے گا ۔ (مستدرک علی الصحیحین رقم الحدیث۰۲۳۱) ، امام حاکم نے اس حدیث کوصحیح قراردیا ہے ۔
اورنمازجنازہ کے بعد، دفن کرنے سے پہلے بھی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے دعاء فرمائی ہے …… واقدی رحمہ اللہ تعالی نے جنگ مؤتۃ کے بیان میں روایت کیا ہے : لماالتقی الناس بمؤتۃ جلس رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم علی المنبر وکشف لہ مابینہ وبین الشام فھوینظر الی معترکھم فقال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اخذ الرأیۃ زیدبن حارثۃ…………حتی استشھد فصلی علیہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فقال استغفروالہ فقد دخل الجنۃ وھویسعی۔ثم اخذ الرایۃ جعفر بن ابی طالب…………حتی استشھد فصلی علیہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ودعالہ ثم قال استغفروالاخیکم فانہ شھید، دخل الجنۃ فھویطیرفی الجنۃ بجناحین من یاقوت حیث یشاء من الجنۃ ۔
جب مؤتۃ میں جنگ شروع ہوئی تورسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم منبر اقدس پرجلوہ فرماہوئے اورآپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے اورشام کے درمیان سے پردے ہٹا دئیے گئے……پس آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ان کے معرکہ کودیکھ رہے تھے۔پس رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:زیدبن حارثۃ نے جھنڈاپکڑا……یہاں تک کہ وہ شہیدکردئیے گئے تورسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ان پرنمازپڑہی، پھر فرمایا:ان کے لیے مغفرت کی دعاکرو، پس تحقیق وہ جنت میں دوڑتے ہوئے داخل ہوئے۔ پھر جناب جعفر بن ابی طالب نے جھنڈاپکڑا…………یہاں تک کہ وہ شھیدکردئیے گئے تورسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ان پرنمازپڑھی اوران کے لیے دعافرمائی۔ پھرفرمایا:اپنے بھائی کے لیے مغفرت کی دعاکرو، کیونکہ وہ شھید ہیں، جنت میں داخل ہوگئے۔پس وہ جنت میں یاقوت کے دوپروں کے ساتھ جنت میں جہاں چاہتے ہیں اڑرہے ہیں ۔ (المغازی للواقدی ص۲۶۷،چشتی)
یہ حدیث واضح طورپرفرمارہی ہے کہ حضورسیدعالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے جناب زیدبن حارثہ کی نمازجنازہ اداء کرنے کے بعداپنے صحابہ کوان کے لیے دعائے مغفرت کاحکم فرمایا……یونہی جناب جعفربن ابی طالب کی نمازجنازہ کے بعد خودبھی دعاء فرمائی اورپھراپنے صحابہ کوان کے لیے مغفرت کی دعاکاحکم فرمایا ۔ وللہ الحمد ۔
جس طرح رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے نمازجنازہ کے بعددعاء فرمائی ، یونہی صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے بھی نمازجنازہ کے بعددعاء کرنا مروی ہے …… جناب سعیدبن مسیب رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں : حضرت ابن عمرفی جنازۃ فلماوضعھافی اللحد قال:بسم اللہ وفی سبیل اللہ وعلی ملۃ رسول اللہ، فلمااخذ فی تسویۃ اللبن علی اللحد قال اللھم اجرھامن الشیطان ومن عذاب القبراللھم جاف الارض عن جنبیہاوصعدروحھاولقھامنک رضوانا۔قلت:یاابن عمر اشئ سمعتہ من رسول اللہ ام قلتہ برأیک؟قال انی اذالقادرعلی القول بل شیئ سمعتہ من رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ۔
میں حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہماکے ساتھ ایک جنازہ میں حاضر ہوا۔پس جب آپ نے اسے لحدمیں رکھاتوآپ نے کہا:اللہ کے نام سے اوراللہ کی راہ میں اوررسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی ملت پر۔پس جب لحدپرکچی اینٹیں برابرکرنے لگے توکہا : اے اللہ!اسے شیطان سے اورقبرکے عذاب سے پناہ عطا فرما ۔ اے اللہ ! زمین کواس کی دونوں کروٹوں سے جدافرما اوراس کی روح کواوپرپہنچااوراسے تیری خوشنودی عطافرما ۔ میں نے کہا:اے ابن عمر!یہ بات آپ نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے سنی ہے یاآپ نے اپنی رائے سے کہا ہے ؟ آپ نے فرمایا : تب تومیں بہت کچھ کہہ سکتاہوں …… بلکہ میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے سنا ۔ (ابن ماجہ رقم الحدیث۲۴۵۱،چشتی)
اس حدیث سے جہاں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کا عمل معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے نمازجنازہ کے بعد ، تدفین کی تکمیل سے پہلے میت کے لیے دعاء کی …… وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمل جناب عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے سیکھا …… اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے بھی نمازجنازہ کے بعد ، اس کی تدفین کی تکمیل سے پہلے اس کے لیے دعافرمائی ۔
ابراہیم ہجری بتاتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی نے اپنی بیٹی کی نمازِ جنازہ کیسے اداء کی ، فرمایا : ثم کبر علیھا اربعا ثم قام بعد الرابعۃ قدر ما بین التکبیرتین یدعو ۔ یعنی حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی نے اپنی بیٹی کی نماز اداء کرتے ہوئے چار تکبیرات کہیں۔ پھر چوتھی تکبیر کے بعد اتنی دیر کھڑے ہو کر دعا میں مصروف رہے جتنا وقت دو تکبیروں کے درمیان ہوتا ہے ۔ یہ فعل کرنے کے بعد حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی نے فرمایا : کان رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یصنع فی الجنازۃ ھکذا ۔ یعنی حضور سیدِ عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جنازہ میں یونہی کیا کرتے تھے ۔ (مسند احمد بن حنبل حدیث 19447)
حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی کے کلمات تو استمرار پر دلالت کر رہے ہیں ، لیکن نہ جانے پھر کیوں بعض احباب کو اصرار ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے کبھی بھی ایسا نہ کیا ۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے …… فرمایا : وضع عمربن الخطاب علی سریرہ فتکنفہ الناس یدعون ویثنون ویصلون علیہ قبل ان یرفع وانا فیھم ۔
جناب عمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہ کوآپ کی چارپائی پر رکھا گیا تولوگ آپ کو گھیرے میں لے کر ، چارپائی اٹھانے سے پہلے آپ کے لیے دعاء اور ثناء کرنے لگ گئے اورمیں بھی ان دعاء کرنے والوں میں تھا ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث ۹۰۴۳، صحیح مسلم رقم الحدیث ۲۰۴۴)
یہ حدیث تو صاف دلالت کر رہی ہے کہ صحابہ کرام میں نمازجنازہ کے بعد …… چارپائی اٹھانے سے پہلے دعاء کرنا بھی رائج تھا ، اوراسی لیے وہ لوگ حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی چارپائی اٹھانے سے پہلے ان کے لیے دعاء وثناء میں مصروف رہے ۔
عمیربن سعید کہتے ہیں : صلیت مع علی علی یزید بن المکفف فکبرعلیہ اربعاثم مشی حتی اتاہ فقال:اللہم عبدک وابن عبدک نزل بک الیوم فاغفرلہ ذنبہ ووسع علیہ مدخلہ فانالانعلم منہ الاخیراوانت اعلم بہ ۔
میں نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی معیت میں یزید بن المکفف کی نمازجنازہ اداء کی توآپ رضی اللہ تعالی عنہ نے ان پرچار تکبیریں کہیں، پھرچل کر ان کے قریب آئے اورکہا : اے اللہ!تیرابندہ اورتیرے بندے کابیٹاآج تیرے پاس حاضر ہواہے۔پس تواس کے گناہ کوبخش دے اوراس پراس کے مدخل کوکشادہ فرما، پس بے شک ہم اس سے بھلائی ہی جانتے ہیں اورتواسے زیادہ بہتر جاننے والاہے ۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ ج۳ص۲۱۲،چشتی)
ابراہیم ہجری بتاتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی نے اپنی بیٹی کی نمازِ جنازہ کیسے اداء کی ، فرمایا : ثم کبر علیھا اربعا ثم قام بعد الرابعۃ قدر ما بین التکبیرتین یدعو ۔
یعنی حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی نے اپنی بیٹی کی نماز اداء کرتے ہوئے چار تکبیرات کہیں ۔ پھر چوتھی تکبیر کے بعد اتنی دیر کھڑے ہو کر دعا میں مصروف رہے جتنا وقت دو تکبیروں کے درمیان ہوتا ہے ۔ یہ فعل کرنے کے بعد حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی نے فرمایا : کان رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یصنع فی الجنازۃ ھکذا ۔ یعنی حضور سیدِ عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جنازہ میں یونہی کیا کرتے تھے ۔ (مسند احمد بن حنبل حدیث ۱۹۴۴۷)
حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی کے کلمات تو استمرار پر دلالت کر رہے ہیں ، لیکن نہ جانے پھر کیوں بعض احباب کو اصرار ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے کبھی بھی ایسا نہ کیا ۔
حضرت عبد اللہ بن سلام سے متعلق مروی ہے کہ ان سے حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی نمازجنازہ فوت ہوگئی …… پس جب وہ پہنچے توفرمایا : ان سبقتمونی بالصلاۃ علیہ فلاتسبقونی بالدعاء لہ ۔ اگرتم ان پرنمازمیں مجھ سے سبقت کرگئے ہوتوان کے لیے دعاء میں مجھ سے پہل مت کرو ۔ (المبسوط ج۲ص۷۴۴، بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع ج۳ص۶۸۲)
بلکہ بدائع الصنائع میں یہ روایت بھی موجود ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ایک جنازہ پرنمازاداء فرمائی ۔ پس جب فارغ ہوئے توحضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہ حاضر ہوئے اوران کے ساتھ کچھ اورلوگ بھی تھے تو آپ نے دوبارہ نماز اداء کرنے کا ارادہ کیا تو نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے نے ان سے فرمایا : الصلاۃ علی الجنازۃ لاتعاد ولکن ادع للمیت واستغفرلہ ۔
جنازہ پر نماز دہرائی نہیں جاتی …… لیکن تم میت کے لیے دعا اور استغفار کرو ۔ (بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع ج۳ص۵۸۲)
الحاصل : نمازجنازہ کے بعد میت کو دفن کرنے کے بعد ، تدفین کے دوران ، اور تدفین سے پہلے …… ہر وقت دعاء کرنا قرآن ، حدیث نبوی ، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے فعلِ شریف ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال وافعال سے ثابت ہے …… بلکہ تدفین کے بعد دعاء ، جو نمازجنازہ کے بعد ہی ہوتی ہے ، سے متعلق تو کثیر احادیث موجود ہیں ۔ اور امام ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں اس سے متعلق ایک مستقل باب باندھاہے ۔ لیکن اگراس کے باوجود کوئی یہی رٹ لگائے جائے کہ نمازجنازہ کے بعد دعاء کرنا جائز نہیں ، بدعت ہے ، گمراہی ہے ، اور لوگوں کو اس سے روکنے کی کوشش میں لگا رہے تواس کے لیے ہدایت کی دعاء ہی کی جاسکتی ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment