نبی کریم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم کےچچاٶں کی تعداد اور کافر کو کافر نہ کہو کا جواب
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : نبی کریم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم کے چچاؤں کی تعداد کے بارے میں مؤرخین کا اختلاف ہے ۔ بعض کے نزدیک ان کی تعداد نو ، بعض نے کہا کہ دس اور بعض کا قول ہے کہ گیارہ ۔ مگر صاحبِ مواہب لدنیہ نے ذخائر العقبيٰ في مناقب ذوي القربيٰ سے نقل کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ آپ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم کے والد ماجد حضرت عبد ﷲ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ عبد المطلب کے بارہ بیٹے تھے جن کے نام یہ ہیں : (1) حارث (2) ابوطالب (3) زبیر (4) حمزہ (5) عباس (6) ابولہب (7) غیداق (8) مقوم (9) ضرار (10) قثم (11) عبدالکعبہ (12) جحل ۔
ان میں سے صرف حضرات حمزہ و حضرت عباس رضی اللہ عنہما نے اسلام قبول کیا ۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بہت ہی طاقتور اور بہادر تھے ۔ ان کو نبی کریم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم نے اسد الله و اسد الرسول (ﷲ و رسول کا شیر) کے معزز و ممتاز لقب سے سرفراز فرمایا ۔ یہ 3 ھ میں جنگِ اُحد کے اندر شہید ہو کر سید الشهداء کے لقب سے مشہور ہوئے اور مدینہ منورہ سے تین میل دور خاص جنگِ اُحد کے میدان میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مزارِ پر انوار زیارت گاہ عالم اسلام ہے ۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں ۔ نبی کریم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے اور ان کی اولاد کے بارے میں بہت سی بشارتیں دیں اور اچھی اچھی دعائیں بھی فرمائی ہیں ۔
32 ھ یا 33 ھ میں ستاسی یا اٹھاسی برس کی عمر پاکر وفات پائی اور جنة البقیع میں مدفون ہوئے ۔ (زرقانی جلد۳ ص۲۷۰ تا ۲۸۵)(مدارج جلد۲، ص:٢٨٨،چشتی)
ابوجہل نبی کریم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم کا چچا نہیں تھا کیونکہ ابو جہل قبیلئہ بنی مخزوم کا تھا اور نبی کریم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم بنو ہاشم سے تھے جیسا کہ شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ ابو جہل نبی کریم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم کا چچا تھا یہ بالکل غلط بھی ہے اور مسلمانوں کے لئے اشتعال انگیز بھی ہے ابو جہل کا قبیلہ بنو مخزوم کا تھا اور نبی کریم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم بنی ہاشم سے تھے پھر ابو جہل نبی کریم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم کا چچا کیسے ہو سکتا ہے ابوجہل بہت سرکش فسادی کافر تھا کسی فسادی وسرکش بد نام آدمی کو اگر کسی شریف عزت دار آدمی کا چچا بتایا جائے اور رشتے میں وہ اس کا چچا نہ ہو تو یہ ایک طرح کی گالی ہوتی ہے ۔ (فتاویٰ شارح بخاری جلد اول صفحہ ٤۱۱ مکتبہ دائرۃ البرکات گھوسی)
کافر کو کافر نہ کہو کا جواب
محترم قارئینِ کرام : حیرت کی بات ہے کچھ لوگ ہماری پوسٹوں پر کمنٹس میں آکر کہتے ہیں کافر کو بھی کافر نہ کہو عجب حماقت ہے خود کہہ رہے ہیں کسے کافر نہ کہو یعنی کافر کو خود کافر کہہ دیا تو ٹھیک ہمیں روکتے ہیں عجب الٹی کھوپڑی کے لوگ ہیں یہ خیر آیئے اس کا شرعی حکم کیا ہے پڑھتے ہیں :
کافِر کو کافِر کہنا نہ صِرف جائز بلکہ بعض صورتوں میں فرض ہے ۔ صَدْرُالشَّرِیْعَہ ، بَدْرُ الطَّريقہ حضرت علامہ مَوْلانا مُفتی محمد امجَد علی اَعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں : ایک یہ وَبا بھی پھیلی ہوئی ہے کہتے ہیں کہ ہم تو کافِر کو بھی کافِر نہ کہیں گے کہ ہمیں کیا معلوم کہ اِس کا خاتِمہ کُفْر پر ہو گا ۔ يہ بھی غَلَط ہے ۔ قُرآ نِ عظیم نے کافِر کو کافِر کہا اور کافِر کہنے کاحکْم دیا ۔ چُنانچِہ ارشاد ہو تا ہے : قُلْ یٰۤاَیُّھَا الْکٰفِرُوۡنَ ۔ ترجمہ : تم فرماؤ اے کافرو ۔ (پ 30 الکافرون 1)
اور اگر ايسا ہے تو مسلمان کو بھی مسلمان نہ کہو ، تمہيں کيا معلوم کہ اِسلا م پرمرے گا ، خاتِمہ کا حال تو خدا (عَزَّوَجَلَّ ) جانے ۔
آگے چل کر مزید فرماتے ہیں : بعض جاہِل يہ کہتے ہيں کہ ہم کسی کو کافِر نہيں کہتے عالم لوگ جانيں وہ کافِر کہيں ۔ مگر کيا يہ لوگ نہيں جانتے کہ عوام کے تو وُہی عقائِد ہونگے جو قُرآن و حديث وغيرہُما سے عُلَما نے اُنہيں بتائے يا عوام کے لیئے كوئی شرِيعت جُدا گانہ ہے ؟ جب ايسا نہيں تو پھر عالِمِ دين کے بتائے پر کيوں نہيں چلتے ؟ نيز يہ کہ ضَرورِيا تِ (دین) کا انکار کوئی ايسا اَمْر نہيں جو عُلَما ہی جانيں ۔ عوام جو عُلَما کی صُحْبت سے مُشَرَّف ہوتے رہتے ہيں وہ بھی اُن سے بے خبر نہيں ہوتے ۔ پھر ايسے مُعامَلہ ميں پہلُوتَہی اور اِعراض (یعنی منہ پھیرنے) کے کيا معنٰی ۔ (بہارِ شریعت حصّہ 9 ص 173 ،174،چشتی)
قَطعی کافِر کے کفر میں شک کرنے والا بھی کافِر ہو جاتا ہے : مزید بہارِ شریعت حصّہ اوّل میں ہے : مسلمان کو مسلمان ، کافِر کو کافِر جاننا ضَرور يا تِ دین سے ہے . قَطْعی کافِر کے کُفر میں شک بھی آدَمی کو کافِر بنا دیتا ہے ۔ اِس زمانہ میں بعض لوگ يہ کہتے ہیں کہ میاں جتنی دیر اسے کافِر کہو گے اُتنی دیراللہ اللہ کرو یہ ثواب کی بات ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم کب کہتے ہیں کہ کافِر کافِر کا وظیفہ کر لو مقصود یہ ہے کہ اسے کافِر جانو اور پوچھا جائے تو قطعاً (یعنی یقینی طور پر) کافِرکہو ، نہ یہ کہ اپنی صُلْحِ کُل سے اس کے کُفْر پر پردہ ڈالو ۔ (ماخوذ ازبہارِ شریعت حصّہ 1 ص 98)
جو کہتے ہیں کافر کو کافر نہیں کہنا چاہیئے ان لبرل کی خدمت میں
ان لبرل بچوں سے پو چھیے ننھے کاکے کافر کو کافر کیوں نہیں کہنا چاہیئے ؟
تو ننھے کاکے نے کہا : آگے چل کر مسلمان ہو گیا تب ‘‘کیا ہوگا ؟
ننھے کاکے کی بات سُن کر مجھے ایک واقعہ یاد آگیا وہ یہ کہ میں نے دیکھا ایک بچہ اور بچی کھیل رہے ہیں کسی بات پر دونوں میں لڑائی ہو گئی لڑکے نے لڑکی پر مٹی پھینک دی ۔
میں لڑکے کے پاس گیا اور اس سے پوچھا : تم نےاس پر مٹی کیوں پھینکی ؟
لڑکے نے جواب دیا : یہ میری لگتی ہے ۔
میں نے پوچھا تمہاری کیا لگتی ہے ؟
کہنے لگا : بس میری لگتی ہے ۔
میں نے سوال گھما کر پوچھا اس لڑکی کا باپ تمہارا کون ہے ؟
اس لڑکے نے کہا اس لڑکی کا باپ میرا ماموں ہے ۔
تو میں نے پوچھا کہتا کیوں نہیں ہے یہ میری ماموں زاد بہن ہے ؟
تو لڑکا کہنے گا آگے جا کر بیوی ہو گئی تب ؟
میں نے کہا جب بیوی ہو گئی تب بیوی کہنا ابھی تو بہن کہو ۔
بس مجھے تو لگتا ہے کافر کوکافر نہ کہو یہ وہی بچہ ہے یا اس کی ذریت ۔
دین کو “انفرادی سطح” تک محدود کرکے لغو بنا دینے والے اس ڈسکورس کی منازل یوں ہیں:- کسی غیر مسلم کو کافر نہ کہو اس لئے کہ یہ اللہ اور بندے کے درمیان معاملہ ہے ۔۔۔۔۔۔ کسی ملحد کو کافر نہ کہو اس لئے کہ یہ اللہ اور بندے کے درمیان معاملہ ہے ۔۔۔۔۔ کسی کے عمل فسق پر کوئی حکم نہ لگاؤ اس لئے کہ یہ اللہ اور بندے کے درمیان معاملہ ہے ۔۔۔ خدا کیا چاہتا ہے اور بندے کے کس عمل سے خوش ہوگا یہ اللہ اور بندے کے درمیان معاملہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔ تم کون ہوتے ہو بندے اور رب کے درمیان مفتی بننے والے ؟
گویا اللہ نے اپنی کتاب بندوں کے مابین حکم جاری کرنے کے لئے نہیں بلکہ اپنے لئے نازل کی تھی۔ فرماتے ہیں”تم مذھبی لوگ خود کو خدا کے مقام پر بٹھا کر گفتگو کرتے ہو کہ خدا یہ کہتا ہے اور وہ کہتا ہے” جناب یہ جو آپ خود کو خدا سے بھی اوپر مقام پر بٹھا کر خدا کے احکامات منسوخ کرتے ہیں کہ اجتماعی دائرے میں خدا کا حکم لائق عمل نہیں’ وہ کیا ہے؟
“خدا کسی کے ساتھ یوں کرے گا یا ووں، ایسا کہنا خدا کے اختیار میں مداخلت کرنا ہے۔” یہ ایک اور غلط دلیل ہے جو کسی ملحد کی گمراہی بیان کرنے سے روکنے کے لئے پیش کی جاتی ہے۔ اگر کوئی اپنی طرف سے ایسا کہے تو یقینا یہ خدا کی سلطنت میں مداخلت ہے۔ لیکن اگر وہ خدا کی نازل کی ہوئی دلیل کی بنیاد پر ایسا کہے کہ خدا بدکار کو عذاب دے سکتا ہے تو یہ مداخلت نہیں بلکہ سچ بولنا ہے۔اسی طرح یہ کہنا کہ “خدا فلاں کے ساتھ ایسا کرے گا”، اس میں بھی مراد خدا کے اس وعدے کی طرف حوالہ دینا ہوتا ہے جو خود اس نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ مثلا خدا اگر کہتا ہے کہ “میں فلاں گناہ یا نیک کام کرنے والے کے ساتھ ایسا کروں گا” اور کوئی شخص ایسے گناہ یا نیک کام کرنے والے کے بارے میں کہے کہ خدا تمہارے ساتھ یہ کرے گا تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ خدا نے جو وعدہ کیا ہے ھمیں امید ہے کہ وہ اسے پورا کرے گا۔ اس کا ھرگز بھی یہ مطلب نہیں ہوتا کہ خدا کو حکم دیا جارہا ہے یا خدا کی مرضی پرکوئی پہرہ بٹھایا جارہا ہے۔
کفر کے انتخاب کی آزادی: حق یا صلاحیت؟
بعض لوگوں کو یہ دھوکہ لگ گیا ہے گویا اللہ تعالی نے “فمن شاء فلیؤمن ومن شاء فلیکفر” کے اعلان کے ذریعے انسانوں کو “کوئی سیکولرانہ حق کفر” تفویض کردیا ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کو ایمان و کفر کے درمیان انتخاب کا “اختیاری حق” دیا ہے، مطلب کفر اختیار کرنا “حق” نہیں بلکہ “مراعت یا مہلت” ہے؟
جاننا چاہئے کہ اللہ تعالی نے انسان کو ایمان و کفر کے مابین اختیار کا حق نہیں دیا بلکہ “صلاحیت” دی ہے۔ صلاحیت و حق کا یہ فرق سمجھنا لازم ہے۔ صلاحیت کا تعلق اس امر سے ہے کہ “میں کیا کرسکتا ہوں”، جبکہ حق کا تعلق اس امر سے ہوتا ہے کہ “مجھے کیا کرنا چاہئے؟” صلاحیت تو ایک میسر ذریعے (resource) کا نام ہے۔ مثلا خدا نے انسان کو آنکھ سے دیکھنے کی صلاحیت عطا فرمائی، تو کیا اس کا معنی یہ ہوا کہ اب آنکھ سے اچھا یا برا دیکھنا، یہ انسان کا حق ہے؟ ہرگز بھی نہیں بلکہ اس ذریعے و صلاحیت کو استعمال کرنے کا حق اسی قدر اور وہی ہے جو خدا نے بتایا۔ اب اگر میں صلاحیت کو اس فعل کے لئے استعمال کروں جس سے منع کیا گیا تو یہ اس صلاحیت کا غلط استعمال کہلائے گا، نہ کہ حق۔ اسی طرح مثلا خدا نے مجھے یہ صلاحیت عطا فرمائی ہے کہ میں کسی کی جان لے سکوں، مگر ظاہر ہے یہ میرا حق نہیں۔ چنانچہ کسی امر کی صلاحیت ہونا اس کے حق ہونے کی دلیل نہیں ہوتی اور یہ بات بالکل واضح ہے۔
بعینہہ جب خدا کہتا ہے کہ ہم نے انسان کو اچھائی و برائی کے دونوں راستے دکھا کر اسے انتخاب کے لئے چھوڑ دیا ہے، تو اس کا معنی یہی ہے کہ خدا نے انسان کو اچھائی و برائی کے معاملے میں مجبور نہیں کردیا بلکہ اسے انتخاب کی صلاحیت دی ہے۔ یہاں ایمان و کفر کے مابین انتخاب کی آزادی بمعنی ایک “ریسورس” ہے، یعنی جس طرح انسان کے پاس دیکھنے کے لئے آنکھ کا ریسورس میسر ہے اسی طرح اس کے پاس انتخاب کا ریسورس و ذریعہ (آزادی) بھی میسر ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس صلاحیت کے ذریعے کفر اختیار کرنا انسان کا حق ہے، ہرگز بھی نہیں۔ حق کا تعین صلاحیت کے میسر ہونے سے نہیں بلکہ اس کو استعمال میں لانے کے سوال سے ہوتا ہے۔ انسان کا حق وہ ہے جسے خدا نے اس کے لئے مشروع کیا اور وہ اس سے راضی ہوا۔
یاد رکھنا چاہئے کہ باطل اختیار کرنے کی اجازت کبھی “حق” کا معاملہ نہیں ہوتا بلکہ اس کی حیثیت محض ایک “وقتی مہلت” یا “اضافی مراعت” (privilege) کی سی ہوتی ہے۔ خدا کے بنائی ہوئے اس دارالامتحان میں انسانوں کو کفر کا “اختیار” دینے کا یہی معاملہ ہے، یہ کوئی “حق” نہیں۔ اس دنیا میں کوئی ایک بیوقوف بھی ایسا نہیں کہ جسے وہ قطعی طور پر “باطل” کہتا ہو پھر اسے کسی کا “حق” بھی قرار دے، چہ جائیکہ خدا سے اس کی امید رکھی جائے۔ اس رویے کی امید صرف کسی ایسے ہی شخص سے رکھی جاسکتی ہے جسے اپنے بیان کردہ حق پر کوئی شک ہو یا وہ حق ہی کو اضافی معاملہ سمجھتا ہو۔ تو کیا خدا کو اپنے حق ہونے پر کوئی شک تھا اور یا وہ اپنی بات کے سواء کسی دوسرے معاملے کو بھی حق سمجھتا تھا کہ اپنی بات کے “کفر کا حق” دے کر ایمان و کفر کو مساوی سطح پر ایک ہی لڑی میں پرو دیا؟ کچھ تو عقل کی بات کرو۔ جو ہے ہی “باطل” اس کے “حق” ہونے کا کیا مطلب بھائی؟ یہ تو contradiction in term ہے۔ انسان کو “حق” اسی امر کا ہے جو “حق” ہے، ہاں اگر کہیں حق ہونا واضح ہی نہیں تو پھر بات الگ ہے۔ مگر خدا کے لئے اس امکان کا کیا مطلب؟ کیا اس پر بھی حق کا کچھ اخفا تھا کہ وہ “کفر کا حق” دیتا رہا؟ خدا کی نظر میں کفر جس قدر قبیح امر ہے اگر دنیا کو دارالامتحان بنانا مقصود نہ ہوتا تو لازم تھا کہ خدا بندوں کو زبردستی (by default) اسی طرح ایمان والا بنا دیتا جیسے دیگر مخلوقات کو اپنے ارادے کا پابند بنایا۔ تو جناب خدا کی طرف سے کفر کا اختیار محض ایک وقتی privilege و مہلت نما چیز ہے، یہ کسی کا کوئی “حق” نہیں۔ “حق” یہ ہے کہ کفر اختیار کرنے کی اس صلاحیت سے دستبردار ہوکر اس کی بات پر ایمان لایا جائے ۔
کافر کو کافر ہی کہا جائے گا ۔ قرآن کا اسلوب یہ ہی ہے ۔ جب مسلمان ہو گا تب اس کو مسلمان کہیں گے ابھی تو کافر ہے کافر ہی کہا جائے گا ۔ اس فارمولے کے مطابق تو مسلمان کو مسلمان نہ کہو آگے جا کر مرتد ہو گیا تب ؟ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment