Sunday 19 September 2021

ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی اقتدا کرنا

0 comments

 ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی اقتدا کرنا

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : امام ترمذی اور امام حاکم علیہما الرحمہ نے حضرت سیدنا حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’میرے بعد ابوبکر اور عمر کی پیروی کرنا ۔ (سنن الترمذی، کتاب المناقب ، فی مناقب ابی بکر وعمر ، الحدیث :  ۳۶۸۲،  ج۵، ص۳۷۴)(المستدرک علی الصحیحین کتاب معرفۃ الصحابۃ،  احادیث فضائل الشیخین الحدیث :  ۴۵۰۸، جلد ۴ صفحہ ۲۲)


حَدَّثنا سُفْيَانُ ، قَالَ : حَدَّثنا زَائِدَةُ بْنُ قُدَامَةَ الثَّقَفِيُّ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ رَبِعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " اقْتَدُوا بِالَّذَيْنِ بَعْدِي أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ ، وَاهْتَدُوا بِهَدْيِ عَمَّارٍ , وَتَمَسَّكُوا بِعَهْدِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ ۔ (مسند الحميدي أَحَادِيثُ رِجَالِ الأَنْصَارِ أَحَادِيثُ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ رَضِيَ اللَّهُ ۔ مسند حمیدی رقم الحديث 436)

حدثنا الحسن بن الصباح البزار حدثنا سفيان بن عيينة عن زائدة عن عبد الملك بن عمير عن ربعي وهو ابن حراش عن حذيفة قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :‏‏‏‏ " اقتدوا باللذين من بعدي ابي بكر وعمر ". وفي الباب عن ابن مسعود ۔ (سنن الترمذی ، حدیث نمبر: 3662)

ترجمہ : حضرت حذیفہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اقتداء کرو ان دونوں کی جو میرے بعد ہوں گے ، یعنی ابوبکر و عمر کی ۔ امام ترمذی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں یہ حدیث حسن ہے ۔


اس باب میں ابن مسعود رضی للہ عنہ سے بھی روایت ہے ۔ سفیان ثوری علیہ الرحمہ نے یہ حدیث عبدالملک بن عمیر سے اور عبدالملک بن عمیر نے ربعی کے آزاد کردہ غلام کے واسطہ سے ربعی سے اور ربعی نے حذیفہ کے واسطہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کی ہے ۔ (سنن ابن ماجہ المقدمة ۱۱ (۹۷) (تحفة الأشراف : ۳۳۱۷)۔(صحیح)


اس حدیثِ مبارکہ میں یکے بعد دیگرے ابوبکر اور عمر رضی الله عنہما دونوں کی خلافت کی طرف اشارہ ہے اور یہ دونوں کےلیے فضیلت کی بات ہے ۔


حدثنا سعيد بن يحيى بن سعيد الاموي حدثنا وكيع عن سالم ابي العلاء المرادي عن عمرو بن هرم عن ربعي بن حراش عن حذيفة رضي الله عنه قال:‏‏‏‏ كنا جلوسا عند النبي صلى الله عليه وسلم فقال :‏‏‏‏ " إني لا ادري ما بقائي فيكم فاقتدوا باللذين من بعدي " ، واشار إلى ابي بكر ، وعمر ۔ (سنن الترمذی ،حدیث نمبر: 3663 )

حضرت حذیفہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو آپ نے فرمایا : میں نہیں جانتا کہ میں تمہارے درمیان کب تک رہوں گا ، لہٰذا تم لوگ ان دونوں کی پیروی کرو جو میرے بعد ہوں گے اور آپ نے ابوبکر و عمر رضی الله عنہما کی جانب اشارہ کیا ۔

ترمذی کے علاوہ اس حدیث کو امام احمد نے مسند میں اور فضائل صحابہ میں اور حاکم نے مستدرک میں ،، وابن ماجه (97) ، ، وابن أبي عاصم في "السنة" (1148) ، والبزار في "مسنده" (2829)


حضرت سیدناجبیر بن مطعم رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت اپنی کسی حاجت کی وجہ سے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئی توآپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اسے دوبارہ آنے کا حکم ارشاد فرمایا ۔ وہ کہنے لگی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اگر میں دوبارہ آؤں اور آپ کو نہ پاؤں تو ؟ ‘‘گویا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کا ذکر کررہی تھی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اگر تو مجھے نہ پائے تو ابوبکر کے پاس چلی جانا ۔ (صحیح البخاری، فضائل اصحاب النبی، قو ل النبی لو کنت متخذا خلیلا، الحدیث :  ۳۶۵۹، جلد ۲ صفحہ نمبر ۵۱۸،چشتی)


اُمّ المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مرض وفات میں مجھے ارشادفرمایا : ابوبکر اور ان کے بیٹے کو بلا لاؤ تاکہ میں انہیں پروانہ (خلافت) لکھ دوں ، مجھے خو ف ہے کہ کوئی تمنا کرنے والا اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے یہ نہ کہہ دےکہ میں زیادہ حقدار ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ اور مسلمان ابوبکر کے سوا کسی سے راضی نہ ہوں گے ۔ (صحیح مسلم ، فضائل الصحابہ، من فضائل ابی بکر الصدیق، الحدیث : ۲۳۸۷، صفحہ ۱۳۰۱)


حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ آپ رضی الله عنہا سے پوچھا گیا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی حیات طیبہ میں صرا حتاً کسی کو خلیفہ منتخب فرماتے تو کسے فرماتے ؟ آپ رضی الله عنہا نے ارشاد فرمایا : میرے والد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی الله عنه کو ۔ عرض کیا گیا : ان کے بعدکسے بناتے ؟ فرمایا : حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی الله عنه کو ۔ عرض کیا گیا : ان کے بعد کسے بناتے ؟ فرمایا : حضرت سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی الله عنه کو ۔ (السنن الکبری للنسائی، کتاب المناقب، ابو عبیدہ بن الجراح، الحدیث :  ۸۲۰۱، ج۵، ص۵۷)


عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا لَهُ وَزِيْرَانِ مِنْ أَهْلِ السَّمَاءِ وَوَزِيْرَانِ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ، فَأَمَّا وَزِيْرَايَ مِنْ أَهْلِ السَّمَاءِ فَجِيْرِيْلُ وَمِيْکَائِيْلُ، وَأَمَّا وَزِيْرَايَ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ فَأَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ ۔

ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر نبی کے لئے دو وزیر آسمان والوں میں سے اور دو وزیر زمین والوں میں سے ہوتے ہیں ۔ سو آسمان والوں میں سے میرے دو وزیر، جبرائیل و میکائیل علیھما السلام ہیں اور زمین والوں میں سے میرے دو وزیر ابوبکر اور عمر (رضی ﷲ عنہما) ہیں ۔ اسے امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے اور امام حاکم نے بھی فرمایا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے ۔ (أخرجه الترمذی فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول ﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : فی مناقب أبی بکر وعمر رضي ﷲ عنهما کليهما، 5 / 616، الرقم : 3680، والحاکم فی المستدرک، 2 / 290، الرقم : 3047، وابن الجعد فی المسند، 1 / 298، الرقم : 2026، والديلمی فی مسند الفردوس، 4 / 382، الرقم : 7111، والمبارکفوری فی تحفة الأحوذی، 10 / 114،چشتی)


عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ حَنْطَبٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم رَأَی أَبَابَکْرٍ وَعُمَرَ فَقَالَ : هَذَانِِ السَّمْعُ وَالْبَصَرُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ ۔

ترجمہ : حضرت عبدﷲ بن حنطب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی ﷲ عنہما کو دیکھا تو فرمایا : یہ دونوں (میرے لئے) کان اور آنکھ کی حیثیت رکھتے ہیں (یعنی دونوں میرے وزراء خاص ہیں) ۔ اس حدیث کو امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الترمذی فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول ﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : فی مناقب أبی بکر وعمر رضی ﷲ عنهما کليهما، 5 / 613، الرقم : 3671، والحاکم في المستدرک، 3 / 73، الرقم : 4432)


عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ ﷲِ رضي ﷲ عنهما أَنَّهُ کَانَ يُحَدِّثُ : أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أُرِيَ اللَّيْلَةَ رَجُلٌ صَالِحٌ، أَنَّ أَبَابَکْرٍ نِيْطَ بِرَسُوْلِ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، وَنِيْطَ عُمَرُ بِأَبِي بَکْرٍ، وَنِيْطَ عُثْمَانُ بِعُمَرَ. قَالَ : جَابِرٌ : فَلَمَّا قُمْنَا مِنْ عِنْدِ رَسُوْلِ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قُلْنَا : أَمَّا الرَّجُلُ الصَّالِحُ فَرَسُوْلُ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، وَأَمَّا تَنَوُّطُ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ، فَهُمْ وُلَاةُ هَذَا الْأَمْرِ الَّذِي بَعَثَ ﷲُ بِهِ نَبِيَهُ صلی الله عليه وآله وسلم . رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ ۔

ترجمہ : حضرت جابر بن عبد ﷲ رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : گزشتہ رات ایک نیک آدمی کو خواب دکھایا گیا کہ ابوبکر کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ منسلک کر دیا گیا اور عمر کو ابوبکر کے ساتھ اور عثمان کو عمر کے ساتھ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس سے اٹھے تو ہم نے کہا : اس نیک آدمی سے مراد تو خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہیں۔ رہا بعض کا بعض سے منسلک ہونا تو وہ ان کا اس ذمہ داری کےلیے خلفاء و امراء مقرر کیا جانا ہے جس کے لئے ﷲ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایا تھا ۔ اس حدیث کو امام ابوداود، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه أبوداود في السنن، کتاب : السنة، باب : في الخلفاء، 4 / 208، الرقم : 4636، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 355، الرقم : 14863، وابن حبان في الصحيح، 15 / 343، الرقم : 6913، والحاکم في المستدرک، 3 / 109، الرقم : 4551، 3 / 75، الرقم : 4438، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 537، الرقم : 1134)


عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه قَالَ : إِنَّ ﷲَ نَظَرَ فِي قُلُوْبِ الْعِبَادِ، فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم ، خَيْرَ قُلُوْبِ الْعِبَادِ، فَاصْطَفَاهُ لِنَفْسِهِ، فَابْتَعَثَهُ ﷲُ بِرِسَالَتِهِ، ثُمَّ نَظَرَ فِي قُلُوْبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ، فَوَجَدَ قُلُوْبَ أَصْحَابِهِ خَيْرَ قُلُوْبِ الْعِبَادِ، فَجَعَلَهُمْ وُزَرَاءَ نَبِيِّهِ، يُقَاتِلُوْنَ عَلَی دِيْنِهِ (وفي رواية : فَجَعَلَهُمْ أَنْصَارَ دِيْنِهِ) فَمَا رَأَی الْمُسْلِمُوْنَ حَسَنًا، فَهُوَ عِنْدَ ﷲِ حَسَنٌ، وَمَا رَأَوْا سَيِّئًا، فَهُوَ عِنْدَ ﷲِ سَيِّئٌ ۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَزَّارُ وَالطَّبَرَانِيُّ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُ مُوَثَّقُوْنَ ۔

ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ ﷲ تعالیٰ نے تمام بندوں کے دلوں کی طرف نظر کی تو قلبِ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں کے دلوں سے بہتر دل پایا تو اسے اپنے لئے چن لیا (اور خاص کر لیا) اور انہیں اپنی رسالت کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل کو (صرف اپنے لئے) منتخب کرنے کے بعد دوبارہ قلوبِ انسانی کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام کے دلوں کو سب بندوں کے دلوں سے بہتر پایا تو انہیں اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وزیر بنا دیا وہ ان کے دین کے لئے جہاد کرتے ہیں (اور ایک روایت میں ہے کہ انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کا مددگار بنا دیا) پس جس شے کو مسلمان اچھا جانیں تو وہ ﷲ تعالیٰ کے نزدیک (بھی) اچھی ہے اور جسے بُرا سمجھیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بُری ہے ۔ اسے امام احمد بزار اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کے رجال ثقات ہیں ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل فی المسند، 1 / 379، الرقم : 3600، والبزار فی المسند، 5 / 212، الرقم : 1816،1702، والطبرانی فی المعجم الأوسط، 4 / 58، الرقم : 3602، وفی المعجم الکبير، 9 / 112،115، الرقم : 8582، 8593، والبيهقی فی الاعتقاد، 1 / 322،والهيثمی فی مجمع الزوائد، 1 / 177، 8 / 212،چشتی)


عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ : قِيْلَ : يَا رَسُوْلَ ﷲِ، مَنْ يُؤَمَّرُ بَعْدَکَ؟ قَالَ : إِنْ تُؤَمِّرُوْا أَبَابَکْرٍ تَجِدُوْهُ أَمِيْنًا زَاهِدًا فِي الدُّنْيَا رَاغِبًا فِي الْآخِرَةِ وَإِنْ تُؤَمِّرُوْا عُمَرَ تَجِدُوْهُ قَوِيًا أَمِيْنًا، لَا يَخَافُ فِي ﷲِ تَعَالَی لَوْمَةَ لَائِمٍ، وَإِنْ تُؤَمِّرُوْا عَلِيًا تَجِدُوْهُ هَادِيًا مَهْدِيًا يَأْخُذُ بِکُمُ الطَّرِيْقَ الْمُسْتَقِيْمَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ ۔

ترجمہ : حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا : یا رسول ﷲ ! آپ کے بعد کسے امیر بنایا جائے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تم ابوبکر کو امیر بناؤ گے تو تم اُنہیں امانت دار، دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے والا اور آخرت سے رغبت رکھنے والا پاؤ گے اور اگر عمر کو امیر بناؤ گے تو انہیں ایسا قوی اور امین پاؤ گے جسے ﷲ تعالیٰ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا کوئی خوف نہیں ہو گا اور اگر تم علی رضی اللہ عنہ کو امیر بناؤ گے تو انہیں ہدایت یافتہ اور ہدایت دینے والا پاؤ گے جو تمہیں سیدھے راستے پر چلائے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل فی المسند، 1 / 108، الرقم : 859، والحاکم فی المستدرک، 3 / 73، الرقم : 4434، والبزار فی المسند، 3 / 33، الرقم : 783، والمقدسی فی الأحاديث المختارة، 2 / 86، الرقم : 463)


عِنْ عُوَيْمِ بْنِ سَاعِدَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِنَّ ﷲَ اخْتَارَنِي وَاخْتَارَ لِي أَصْحَابًا فَجَعَلَ لِي مِنْهُمْ وُزَرَاءَ وَأَصْهَارًا وَأَنْصَارًا فَمَنْ سَبَّهُمْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ ﷲِ وَالْمَلَائِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ. لَا يَقْبَلُ ﷲُ مِنْهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفاً وَلَا عَدْلاً. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ ۔

ترجمہ : حضرت عویم بن ساعدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک ﷲ تعالیٰ نے مجھے (اپنا پسندیدہ رسول) اختیار کیا اور میرے لیے میرے صحابہ کو اختیار کیا۔ پس اس نے میر ے لئے ان میں سے وزراء بنائے اور قریبی رشتہ دار اور انصار (مدد گار) پس جس نے انہیں گالی دی تو اس پر ﷲ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو اور قیامت کے روز ﷲ تعالیٰ ان کا فرض قبول کرے گا نہ نفل ۔ اس حدیث کو امام حاکم، طبرانی اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ۔ (أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 732، الرقم : 6656، والطبرانی فی المعجم الأوسط، 1 / 144، الرقم : 456، وابن أبي عاصم فی السنة، 2 / 483، الرقم : 1000، والشيبانی فی الآحاد والمثانی، 3 / 370، الرقم : 1772،چشتی)


عَنْ سَعِيْدِ بْنِ الْمُسَيَبِ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ أَبُوْبَکْرٍ الصِّدِّيْقُ رضی الله عنه مِنَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم مَکَانَ الْوَزِيْرِ. فَکَانَ يُشَاوِرُهُ فِي جَمِيْعِ أُمُوْرِهِ، وَکَانَ ثَانِيْهِ فِي الإِسْلَامِ، وَکَانَ ثَانِيْهِ فِي الْغَارِ، وَکَانَ ثَانِيْهِ فِي الْعَرِيْشِ يَوْمَ بَدْرٍ، وَکَانَ ثَانِيْهِ فِي الْقَبْرِ، وَلَمْ يَکُنْ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يُقَدِّمُ عَلَيْهِ أَحَدًا. رَوَاهُ الْحَاکِمُ ۔

ترجمہ : حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں وزیر کی حیثیت رکھتے تھے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے تمام اُمور میں اُن سے مشورہ فرمایا کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام لانے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دوسرے تھے، وہ غارِ (ثور) میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دوسرے تھے، وہ غزوئہ بدر کے عریش (وہ چھپر جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بنا یا گیا تھا) میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دوسرے تھے ، وہ قبر میں بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دوسرے ہیں اور رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن پر کسی کو بھی مقدّم نہیں سمجھتے تھے ۔ اسے امام حاکم نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 66، الرقم : 4408)


عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ رضی الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَبْعَثَ إِلَی الْآفَاقِ رِجَالًا يُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السُّنَنَ وَالْفَرَائِضَ کَمَا بَعَثَ عِيْسَی ابْنُ مَرْيَمَ عليه السلام الْحَوَارِيِّيْنَ قِيْلَ لَهُ : فَأَيْنَ أَنْتَ مِنْ أَبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ؟ قَالَ : إِنَّهُ لَا غِنَی بِي عَنْهُمَا، إِنَّهُمَا مِنَ الدِّيْنِ کَالسَّمْعِ وَالْبَصَرِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ ۔

ترجمہ : حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سُنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے ارادہ کیا ہے کہ اطراف و اکنافِ عالم میں اپنے نمائندگان بھیجوں جو لوگوں کو سنن و فرائض سکھائیں ، جس طرح عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نے اپنے حواریوں کو بھیجا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا (حضرت) ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک (دینِ اسلام کی ترویج کےلیے) میرے ساتھ ساتھ اُن دونوں کا وجود بھی ناگزیر ہے ۔ یقینا یہ دونوں دین میں کان اور آنکھ کا درجہ رکھتے ہیں (یعنی میرے وزراء خاص ہیں) ۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الحاکم فی المستدرک، 1 / 78، الرقم : 4448) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔