Thursday 9 September 2021

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ

0 comments

 اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کا نسبی سلسلہ افغانستان کے مشہور و معروف قبیلہ بڑہیچ سے ہے جو افغانوں کے جدِا مجد قیس عبد الرشید (جنہیں سرکار دو عالم ،نور ِ مجسم ، شاہِ بنی آدم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمتِ عالیہ میں حاضری دی کر دینِ اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل ہوئی) کے پوتے ’’شرجنون‘‘ الملقب بہ شرف الدین کے پانچ بیٹوں میں سے چوتھے بیٹے بڑہیچ سے جا ملتا ہے ۔ (گویا آپ ایک صحابی رسو ل صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اولاد سے ہیں) ۔ (شاہ احمد رضا خان بڑیچ افغانی از قلم محمد اکبر اعوان مطبوعہ کراچی صفحہ نمبر 35)


مولانا شاہ نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے والدِ گرامی ہیں ۔ آپ زبر دست عالمِ دین ،کثیر التصانیف بزرگ اور بڑے پائے کے عاشقِ رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم تھے ۔


رئیس الاتقیا ءحضرت مولاناشاہ نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ بریلی شریف میں یکم رجب 1246ھ بمطابق 1830 ء میں مولانارضا علی خان رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں پیداہوئے ۔


اپنے والدِ ماجد سے تعلیم وتربیت پائی اور ان ہی سے درسی علوم سے فراغت حاصل کی ۔ حق تعالیٰ نے اُن کو اپنے ہمعصر وں میں معاش ومعاد میں ممتاز فرمایا تھا۔ فطری شجاعت کے علاوہ سخاوت،تواضع اور استغناء کی صفات سے متصف تھے ۔ اپنی عمر عزیز کو سنت کی اشاعت اوربدعت کے رد میں صر ف کیا ۔ (تذکرہ علمائے ہند صفحہ نمبر 449 مطبوعہ کراچی،چشتی)


اعلیٰ حضرت اپنے والد ِ گرامی کے تذکر ے میں تحریر فرماتے ہیں :

فراستِ صادقہ کی یہ حالت تھی کہ جس معاملے میں جو کچھ فرمایا وہی ظہور میں آیا،عقلِ معاش ومعاد دونوں کا بروجہِ کمال اجتماع بہت کم سنا،یہاں آنکھوں سے دیکھا۔علاوہ بریں سخاوت،شجاعت ،علو ّ ِہمت ،کرم و مروت ،صدقاتِ خفیہ ،میراث ِ جلیہ ، بلندی ء اقبال ، دبدبہ و جلال،موالاتِ فقرائ، حکام سے عزلت ،رزقِ موروث پر قناعت وغیرہ ذالک ۔


فضائلِ جلیلہ و خصائلِ جمیلہ کا حال وہی جانتا ہے جس نے اُس جناب کی برکتِ صحبت سے شرف پایا ہے ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور ص65)


ٓآپ کو حضورِ اکرم رحمت ِ دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ ٖوسلم سے کمال درجہ کا عشق تھا ۔ ایک بار بیما ر ہوگئے جس کی وجہ سے نقاہت بہت ہو گئی، محبو بِ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ ٖوسلم نے اپنے فدائی کے جذبہء محبت کی لاج رکھی،اور خواب ہی میں ایک پیالے میں دوا عنایت فرمائی، جس کے پینے سے افاقہ ہوا اور آپ جلد ہی رُو بصحت ہوگئے ۔


اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ  علیہ کے بیشمار القابات ہیں ،جن میں سے آپ کا مشہور ترین لقب ’’اعلیٰ حضرت‘‘ہے ۔مولانا بدر الدین احمد قادری صاحب’’سوانح امام احمد ر ضا‘‘ میں’’اعلیٰ حضرت‘‘کے اس لقب کی وجہِ تسمیہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں ۔


خاندان کے لوگ امتیاز و تعارف کے طور پر اپنی بول چال میں اُنھیں ’’اعلیٰ حضر ت ‘‘کہتے تھے۔ معارف و کمالات اور فضائل و مکارم میں اپنے معاصرین کے درمیان برتری کے لحاظ سے یہ لفظ اپنے ممدوح کی شخصیت پر اس طرح منطبق ہو گیا کہ آج ملک کے عوام و خواص ہی نہیں بلکہ ساری دُنیا کی زبانوں پر چڑھ گیا۔ اور اب قبول عام کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ کیا موافق کیا مخالف ،کسی حلقے میں بھی ، اعلیٰ حضرت کہے بغیر شخصیت کی تعبیر ہی مکمل نہیں ہوتی ۔ (سوانح امام احمد رضا از علامہ بدر الدین قادری مطبوعہ سکھر صفحہ 8)


علمائے اہلِ سنت آپ کو بے شمار القابات سے یاد کرتے ہیں مثلاً : اعلیٰ حضرت ۔ عظیم البرکت۔عظیم المرتبت۔امامِ اہلسنت ۔ مجدّدِ دین و ملت۔ پروانہءشمع ِرسالت ۔عالَمِ شریعت ۔واقفِ اَسرارِ حقیقت ۔پیرِ طریقت۔رہبرِ شریعت۔ مخزنِ علم وحکمت ۔پیکرِ رُشد و ہدایت۔عارفِ شریعت وطریقت ۔غواصِ بحرِحقیقت ومعرفت۔تاجدارِ ولایت ۔شیخ الا سلام والمسلمین ۔حُجۃ اللہ فی الارضین۔تاج الفحول الکاملین۔ضیاء الملۃ ِوالدِّین ۔وارثُ الانبیا ء والمرسلین۔سراج ُالفقہا و المحدِّثین ۔زبدۃ العارفین والسالکین۔آیتُٗ من آیت اللہ ربّ العالمین۔معجزۃُٗ من معجزات رحمتہ للعالمین۔ تاج المحققین۔سراج المدققین۔حامی السنن۔۔ماحی الفتن۔بقیۃ السلف۔حجۃ الخلف ۔مجددِ اعظم۔ وغیرہ من ذالک۔


علمائے حجاز نے آپ کو ان القابات سے یاد فرمایا ہے : معرفت کا آفتاب۔فضائل کاسَمندر۔بلندستارہ۔دریاے ذخار۔بحرنا پیدکنا ر۔یکتائے زمانہ، دین ِاسلام کی سعادت ۔دائرہ ء علوم کا مرکز۔ سحبان ِفصیح اللسان ۔یکتائے روز گار۔ وغیرہ او ر علامہ اسمعیل خلیل المکی نے تو یہاں تک فرمادیا:’’اگر اس کے حق میں یہ کہا جائے کہ وہ اس صدی کا مجد دہے تو بلا شبہ حق و صحیح ہے‘‘ ۔ (فاضلِ بریلوی اور ترکِ موالات از پروفیسر مسعود احمد صاحب مطبوعہ لاہور ص 15،چشتی)


مولانا حسنین رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے اعلٰی حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حلیہ مبار کہ اپنے مکتوب میں یوں تحریر فرمایا ہے :

ابتدائی عمر میں آپ کا رنگ چمکد ار گند می تھا۔

چہر ہء مبار ک پر ہر چیز نہایت موزوں و مناسب تھی۔

بلند پیشانی ،بینی مبارک نہایت ستواں تھی۔

ہر دو آنکھیں بہت موزوں اور خوبصورت تھیں ۔

نگاہ میں قدرے تیزی تھی جو پٹھان قوم کی خاص علامت ہے۔

ہر دو ابر و کمان ابرو کے پورے مصداق تھے۔

لاغری کے سبب سے چہر ہ میں گدازی نہ رہی تھی مگران میں ملاحت اس قد رعطا ہوئی تھی کہ دیکھنے والے کو اس لاغری کا احسا س بھی نہ ہوتا تھا۔

کنپٹیا ں اپنی جگہ بہت مناسب تھیں ۔

داڑھی بڑی خوبصورت گردار تھی۔

سر مبارک پرپٹے(زلفیں) تھے جو کان کی لو تک تھے۔

سرمبارک پر ہمیشہ عمامہ بند ھا رہتا تھا جس کے نیچے دو پلی ٹوپی ضر ور اوڑھتے تھے۔

آپ کا سینہ باوجود اس لا غری کے خوب چوڑا محسوس ہوتا تھا۔

گرد ن صراحی دار تھی اور بلند تھی جو سرداری کی علامت ہوتی ہے۔

آپ کا قد میانہ تھا۔

ہر موسم میں سوائے موسمی لباس کے آپ سپید(سفید) ہی کپڑ ے زیب ِ تن فرماتے ۔

موسم سرما میں رضائی بھی اوڑھا کرتے تھے۔

مگر سبز کا ہی اونی چادر بہت پسند فرماتے تھے اور وہ آپ کے تن ِمبارک پر سجتی بھی خوب تھی۔

آپ بچپن ہی میں کچھ روز گداز رہے پھر تو سب نے آپ کو چھریرا اور لاغر ہی دیکھا ۔

آپ کی آواز نہایت پر درد تھی اور کسی قدر بلند بھی تھی۔

آپ جب اذان دیتے تو سننے والے ہمہ تن گوش ہو جاتے۔

آپ بخاری طرز پر قرآن ِپا ک پڑھتے تھے۔

آپ کا طرز اداعام حفاظ سے جدا تھا۔

آپ نے ہمیشہ ہندوستانی جوتا پہنا جسے سلیم شاہی جوتا کہتے ہیں ۔

آپ کی رفتا ایسی نرم کہ برابر کے آدمی کو بھی چلتا محسوس نہ ہوتا تھا ۔


مولانا حسنین رضا خان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اُن کے ہم عمروں سے اور بعض بڑوں کے بیان سے معلوم ہواہے کہ وہ بدوِ(ابتدائے) شعورہی سے نمازِ باجماعت کے سخت پابند رہے ،گویا قبلِ بلوغ ہی و ہ اصحابِ ترتیب کے ذیل میں داخل ہو چکے تھے اور وقت ِ وفات تک صاحب ِترتیب ہی رہے ۔ (سیرتِ اعلیٰ حضرت از مولانا حسنین رضا خان مطبوعہ کراچی ص48)


جب بچپن میں آپ نے پہلا روزہ رکھا تو روزہ کشائی کی تقریب بڑی دھوم دھام سے ہوئی، اس کا نقشہ مولا نا حسنین رضا خان رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ یوں کھینچتے ہیں:سارے خاندان اور حلقہء احباب کو مدعو کیا گیا ، کھانے دانے پکے، رمضان المبارک گرمی میں تھا اور اعلیٰ حضرت خوردسال تھے مگر آپ نے بڑی خوشی سے پہلا روزہ رکھا تھا ۔ ٹھیک دوپہر میں چہرہ ء مبارک پر ہوائیاں اُڑنے لگیں ،آپ کے والدِ ماجد نے دیکھا تو انہیں کمرے میں لے گئے اور اندر سے کواڑ بند کرکے اعلیٰ حضرت کو فیرنی کا ایک ٹھنڈا پیالہ اٹھا کر دیا اور فرمایا کہ کھالو! آپ نے فرمایا میرا تو روزہ ہے ۔ اُنھوں نے فرمایا کہ بچوں کے روزے یوں ہی ہوا کرتے ہیں کمرہ بند ہے نہ کوئی آسکتا ہے نہ دیکھ سکتا ہے ۔ تو اعلیٰ حضرت نے عرض کی کہ’’جس کا روزہ رکھا ہے وہ تو دیکھ رہا ہے‘‘اس پر باپ آبدیدہ ہو گئے ۔ اور خدا کا شکر ادا کیا کہ خداکے عہد کو یہ بچہ کبھی فراموش نہ کرے گا ۔ جس کو بھوک پیاس کی شدت، کمزوری اور کم سنی میں بھی ہر فرض کی فرضیت سے پہلے وفائے عہد کی فرضیت کا اتنا لحاظ وپا س ہے ۔ (سیرتِ اعلیٰ حضرت از مولانا حسنین رضا خان مطبوعہ کراچی صفحہ 87،چشتی)


آپ کی بچپن ہی سے یہ عادت رہی کہ اجنبی عورتیں اگر نظر آجاتیں توکرتے کے دامن سے اپنا منہ چھپا لیتے ۔آپ کی عمر شریف جب کہ محض چار سال کی تھی ایک دن صرف بڑ ا سا کرتہ زیب ِ تن کئے ہوئے دولت کدہ سے باہر تشریف لائے تو آپ کے سامنے سے چند بازاری طوائفیں گزریں ،جنہیں دیکھتے ہی آ پ نے کرتہ کا دامن چہرہ پر ڈال لیا ،یہ حالت دیکھ کر ان میں سے ایک عورت بولی’’واہ میاں صاحبزادے! آنکھیں ڈھک لیں اور ستر کھول دیا‘‘ آپ نے اِسی عالم میں بغیر اُن کی طرف نگاہ ڈالے ہوئے برجستہ جوا ب دیا’’جب آنکھ بہکتی ہے تو دل بہکتا ہے او ر جب دل بہکتا ہے تو ستر بہکتا ہے‘‘۔ آپ کے اس عارفانہ جواب سے وہ سکتہ میں آگئیں ۔ آ پ کے اِس مبارک عمل اور حیرت انگیز جواب کے پیشِ نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب آپ ننھی سی عمر میں اس قدر فکر و شعور رکھتے تھے تو پھر دامن کی بجائے اپنے ہاتھوں ہی سے کیوں نہ آنکھیں چھپالیں کہ اس صورت میں اپنا سِتر بے پردہ نہ ہوتا اور مقصد بھی حاصل رہتا ،لیکن تھوڑی سی توجہ کے بعد یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ اگر آپ ہاتھوں ہی سے آنکھیں چھپالیتے تو اس طوائف کا مسخرہ آمیز سوال نہ ہوتا اور نہ اُس کو وہ نصیحت آموز جواب ملتا جو آپ نے دیا اورنہ گزرنے والے دوسرے سامعین کو وہ سبق ملتا جو بصیر ت افروز ہے ۔ پھر آپ نے بالقصد و ہ طریقہ اختیار نہ فرمایا بلکہ من جانبِ اللہ غیر ارادی طور پر آپ نے دامن سے آنکھیں چھپائیں کہ بچپنے کی ادا یوں ہی ہوا کرتی ہے یہ اور بات ہے کہ اس ننھی ادا میں علم النفس کے حقائق پوشیدہ تھے ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ۔ (سوانح امام احمد رضا از علامہ بدر الدین قادری مطبوعہ سکھر ص117،چشتی)


حضرتِ جناب سَیِّد ایوب علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ بچپن میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو گھرپر ایک مولوی صاحب قراٰنِ مجید پڑھانے آیا کرتے تھے۔ ایک روز کا ذِکْر ہے کہ مولوی صاحِب کسی آیتِ کریمہ میں بار بار ایک لفظ آپ کوبتاتے تھے۔ مگر آپ کی زبان مبارک سے نہیں نکلتا تھا۔ وہ “زَبَر” بتاتے تھے آپ “زَیر” پڑھتے تھے یہ کیفیت آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دادا جان حضرت مولانا رضا علی خان صاحب رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے دیکھی حضور کواپنے پاس بلایا اور کلام پاک منگوا کر دیکھا تو اس میں کاتب نے غلطی سے زَیر کی جگہ زَبَر لکھ دیا تھا، یعنی جو اعلیٰ حضر ت رحمۃ ﷲ تعالیٰ علیہ کی زبان سے نکلتا تھا وہ صحیح تھا۔ آپ کے دادا نے پوچھا کہ بیٹے جس طرح مولوی صاحب پڑھاتے تھے تم اُسی طرح کیوں نہیں پڑھتے تھے۔ عرض کی میں ارادہ کرتا تھا مگر زبان پر قابو نہ پاتا تھا ۔اِس قسم کے واقعات مولوی صاحب کو بار ہا پیش آئے تو ایک مرتبہ تنہائی میں مولوی صاحب نے پوچھا ،صاحبزادے ! سچ سچ بتا دو میں کسی سے کہوں گا نہیں، تم انسان ہو یا جن ؟ آپ نے فرمایا کہ ﷲ کا شکر ہے میں انسان ہی ہوں، ہاں ﷲ کا فضل و کرم شامل حال ہے ۔ (حیات اعلٰی حضرت،ج ۱، ص۶۸، مکتبۃ المدینہ، بابُ المدینہ کراچی) ۔ آپ بچپن ہی سے نہایت نیک طبیعت واقع ہوئے تھے ۔


چھ سال کی عمر شریف میں ربیع الاول کے مبار ک مہینہ میں منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور ایک بہت بڑے مجمع کے سامنے آ پ نے پہلی تقریر فرمائی، جس میں کم وبیش دو گھنٹے علم و عرفا ن کے دریا بہائے اور سرور ِعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے ذکر ِولاد ت کے بیان کی خوشبو سے اپنی زبان کو معطر فرمایا، سامعین آپ کے علوم ومعارف سے لبریز بیان کو سن کر وجد میں آگئے اور تصویر ِحیرت بن گئے کہ ُان کے سامنے ایک کمسن بچے نے مذہبی دانشمندی کی وہ گراں مایہ باتیں بیان کیں جو بڑے بڑے صاحبانِ عقل و ہوش کے لیے باعثِ صد رشک ہیں، حقیقت یہ ہے کہ رَبُّ العالمین اپنے جس بندے کو اپنی معرفت کی دولت سے سرفراز کرنا چاہتا ہے اس کی حیاتِ پاک کی ایک ایک گھڑی اور ہر ہر ساعت میں ظہور پذیر ہونے والے واقعات عام انسانوں کے فہم اور ادراک سے باہر ہوتے ہیں، لیکن جن کو خداوندِ قدوس نے بصارت و بصیر ت دونوں ہی کی روشنی عطافرمائی ہے وہ خوب سمجھتے ہیں کہ خاصانِ خدا کے سینے علوم ومعرفت کے لیے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں اور ان کے لیے بچپن،جوانی،بڑھاپاکوئی دور کوئی زمانہ رکاوٹ نہیں بن سکتا ۔ (مجد دِ اسلام از مولانا نسیم بستوی مطبوعہ لاہور صفحہ 41)


ایک مرتبہ رِیاست نانپارہ (ضِلع بہرائچ یوپی) کے نواب کی مَدح میں شعراء نے قصائد لکھے ۔کچھ لوگوں نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے بھی گزارِش کی کہ حضرت آپ بھی نواب صاحِب کی مَدح میں کوئی قصیدہ لکھ دیں۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس کے جواب میں ایک نعت شریف لکھی جس کا مَطْلَع ( غزل یا قصیدہ کے شروع کا شعر جس کے دونوں مصرو ں میں قافیے ہوں وہ مَطْلَع کہلاتا ہے) یہ ہے :


وہ کمالِ حسنِ حضورہے کہ گمانِ نقص، جہاں نہیں

یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں


اور مَقْطَع (غزل یا قصیدہ کا آخری شعر جس میں شاعر کا تخلّص ہو وہ مَقْطَع کہلاتا ہے) میں “نانپارہ” کی بندِش کتنے لطیف اشارہ میں ادا کرتے ہیں


کروں مدح اہلِ دُوَل رضاؔپڑے اس بلا میں مِری بلا

میں گدا ہوں اپنے کریم کا مِرا دین “پارہ ناں” نہیں


فرماتے ہیں کہ میں اہلِ ثروت کی مَدح سرائی کیوں کروں۔ میں تو اپنے کریم اور سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم کے در کا فقیر ہوں۔ مرا دین ”پارہ نان ” نہیں۔ ”نان” کا معنیٰ روٹی اور ”پارہ” یعنی ٹکڑا۔ مطلب یہ کہ میرا دین روٹی کا ٹکڑا نہیں ہے جس کے لیے مالداروں کی خوشامدیں کرتا پھروں اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ میں دنیاکے تاجداروں کے ہاتھ بکنے والا نہیں ہوں۔(تذکرہ امام احمد رضا ص۹ مکتبۃ المدینہ بابُ المدینہ کراچی)


اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے تیرہ سال دس ماہ چاردن کی عمرمیں رضاعت کے ایک مسئلے کا جواب لکھ کر والدِ ماجد صاحب قبلہ کی خدمت ِ عالی میں پیش کیا ،جواب بالکل دُرست تھا آپ کے والد ماجدنے آپ کے جواب سے آپ کی ذہانت و فراست کا اندازہ کرلیا اور اسی دن سے فتویٰ نویسی کا کام آپ کے سُپر دکر دیا چنانچہ عرصہء دراز کے بعد ایک بار ایک سائل نے آپ سے سوال کیا کہ’’اگر بچے کی ناک میں دودھ چڑھ کر حلق میں اتر جائے تو رضا عت ثابت ہو گی یا نہیں‘‘۔؟

آپ نے جواب دیا’’منہ یا ناک سے عورت کا دودھ بچے کے جوف میں پہنچے گا حر مت ِ رضاعت لائے گا‘‘۔ اور یہ فرمایا یہ وہی فتویٰ ہے جو چودہ شعبان 1286ھ 1869ء میں اس فقیر نے لکھا اور اسی چودہ شعبان میں منصب ِ افتاء عطا ہوا اور اسی تاریخ سے بحمد اللہ تعالیٰ نماز فرض ہوئی اور ولادت 10شوال المکرم 1272ھ بروزشنبہ(ہفتہ) وقتِ ظہر مطابق 14جون 11جیٹھ سد ی 1913ء سمبت بکرمی تو منصب ِ افتاء ملنے کے وقت فقیر کی عمر 13برس 10مہینے 4دن کی تھی جب سے اب تک برابر یہی خد متِ دین جاری ہے والحمد للہ ۔ (سیرتِ اعلیٰ حضرت از مولانا حسنین رضا خان مطبوعہ کراچی ص48)

مولانا ظفر الدین بہار ی صاحب کے نام ایک مکتوب(محررہ 7شعبان 1336ھ بمطابق 1918) میں اعلیٰ حضرت تحریر فرماتے ہیں:

بحمد للہ تعالیٰ فقیر نے 14شعبان 1286کو 13برس 10مہینے 4دن کی عمر میں پہلا فتویٰ لکھا،اگر سات دن اور زندگی بالخیر ہے تو اس شعبان 1336ھ کو اس فقیر کو فتاویٰ لکھتے ہوئے بفضلہ تعالیٰ پور ے 50سال ہوں گے ، اس نعمت کا شکر فقیر کیا ادا کرسکتا ہے؟ (حیاتِ مولانا احمد رضا خان بریلوی از پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد مطبوعہ کراچی ص50) (سیرتِ اعلیٰ حضرت از مولانا حسنین رضا خان مطبوعہ کراچی ص48،چشتی)


مستقل فتویٰ نویسی


پروفیسر مسعود احمد رحمۃ اللہ علیہ تحر یر فرماتے ہیں : مولانا احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ نے تیر ہ سال دس مہینے اور چاردن کی عمر میں 14شعبان 1286ھ کو اپنے والد مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی نگرانی میں فتویٰ نویسی کا آغا ز کیا ، سات برس بعد تقریباً 1293ھ میں فتویٰ نویسی کی مستقل اجازت مل گئی۔پھر جب 1297میں مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا انتقال ہوا تو کلی طور پر مولانا بریلوی فتویٰ نویسی کے فرائض انجام دینے لگے ۔ (حیاتِ مولانا احمد رضا خان بریلوی از پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد مطبوعہ کراچی ص50)


تعلیم مکمل ہوجانے کے بعد اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی شادی کا نمبر آیا ۔آپ کا نکاح سن 1291ھ میں جناب ِ شیخ فضل حسین صاحب (رامپور) کی صاحبزادی’’ارشاد بیگم‘‘سے ہوا ،یہ شادی مسلمانوں کے لیے ایک شرعی نمونہ تھی ،مکان تو مکان آپ نے لڑکی والے کے یہاں بھی خبر بھجوا دی تھی کہ کوئی بات شریعتِ مطہرہ کے خلاف نہ ہو ،چنانچہ اُن حضرات نے غلط رسم ورواج سے اتنا لحاظ کیا کہ لوگ ان کی دین داری اور پاسِ شرع کے قائل ہو گئے اور بڑی تعریف کی۔ (مجد د اسلام از علامہ نسیم بستوی مطبوعہ لاھور صفحہ 45،چشتی)


اہلیہ محترمہ ارشاد بیگم  رحمۃ اللہ علیہا


مولانا حسنین رضا خان صاحب’’سیر تِ اعلیٰ حضرت‘‘میں لکھتے ہیں : یہ ہماری محترمہ اماں جان رشتہ میں اعلیٰ حضرت کی پھوپھی زادی تھیں ۔ صوم و صلوٰۃ کی سختی سے پابند تھیں ۔ نہایت خوش اخلاق،بڑی سیر چشم، انتہائی مہمان نواز،نہایت متین و سنجیدہ بی بی تھیں۔ اعلیٰ حضرت کے یہاں مہمانوں کی بڑی آمد ورفت تھی ،ایسا بھی ہوا ہے کہ عین کھانے کے وقت ریل سے مہمان اترآئے اور جو کچھ کھاناپکنا تھا وہ سب پک چکا تھا اب پکانے والیوں نے ناک بھوں سمیٹی آپ نے فوراً مہمانوں کے لیے کھانا اُتار کر باہر بھیج دیا اور سارے گھر کے لیے دال چاول یا کھچڑی پکنے کو رکھوا دی گئی کہ اس کا پکنا کوئی دشوار کام نہ تھا۔ جب تک مہمانوں نے باہر کھانا کھایا گھروالوں کے لئے بھی کھانا تیار ہوگیا۔ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوئی کہ کیا ہوا۔ اعلیٰ حضرت کی ضروری خدمات وہ اپنے ہاتھ سے انجام دیتی تھیں ۔ خصوصاً اعلیٰ حضرت کے سر میں تیل ملنا یہ اُن کا روز مرہ کا کام تھا،جس میں کم وبیش آدھا گھنٹہ کھڑا رہنا پڑتا تھا اور اس شان سے تیل جذب کیا جاتا تھا کہ اُن کے لکھنے میں اصلاً فرق نہ پڑے ،یہ عمل اُن کا روزانہ مسلسل تاحیاتِ اعلیٰ حضرت برابر جاری رہا۔سارے گھر کا نظم اور مہمان نوازی کا عظیم بار بڑی خاموشی اور صبر و استقلا ل سے برداشت کر گئیں ۔ اعلیٰ حضرت قبلہ کے وصال کے بعد بھی کئی سال زندہ رہیں ،مگر اب بجز یاد ِالٰہی کے انھیں اور کوئی کام نہ رہاتھا۔


اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے گھر کےلیے اُن کا انتخاب بڑا کامیاب تھا،رب العزت نے اعلیٰ حضرت قبلہ کی دینی خدمات کے لیے جو آسانیاں عطا فرمائی تھیں اُن آسانیوں میں ایک بڑی چیز اماں جان کی ذات گرامی تھی۔ قرآنِ پاک میں رب العزت نے اپنے بندوں کو دعائیں اور مناجاتیں بھی عطا فرمائی ہیں ۔تاکہ بندوں کو اپنے رب سے مانگنے کا سلیقہ آجائے ان میں سے ایک دُعا یہ بھی ہے : رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ ۔

ترجمہ کنزالایمان : اے ربّ ہمارے ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور ہمیں آخرت میں بھلائی دے اور ہمیں عذاب دوزخ سے بچا ۔ (سورۃ بقرہ آیت 201)

تو دُنیا کی بھلائی سے بعض مفسرین نے ایک پاکدامن، ہمدرد اور شوہر کی جاں نثار بی بی مراد لی ہے ۔ ہماری اماں جان عمر بھر اس دُعا کا پورا اثر معلوم ہوتی رہیں، اپنے دیوروں اور نندوں کی اولاد سے بھی اپنے بچوں جیسی محبت فرماتی تھیں گھرانے کے اکثربچے انھیں اماں جان ہی کہتے تھے۔ اب کہاں ایسی پاک ہستیاں۔رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہا ۔ (سیرتِ اعلیٰ حضرت از مولانا حسنین رضا خان برکاتی پبلیشرز صفحہ 53،چشتی)


اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ عزوجل نے سات اولادیں عطا فرمائیں ، دو صاحبزادے اور پانچ صاحبزادیاں ۔

صاحبزادوں کے نام یہ ہیں :

حجۃ الاسلام مولانا محمد حامد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ

مفتیٔ اعظم ِہند مولانا محمد مصطفی رضا خان رحمۃ اللہ علیہ

اور صاحبزادیوں کے نام یہ ہیں ۔

مصطفائی بیگم

کنیزِ حسن

کنیزِ حسین

کنیزِ حسنین

مرتضائی بیگم


اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی وفات سے چارماہ بائیس دن پہلے خود اپنے وِصال کی خبر دے کر ایک آیتِ قرآنی سے سالِ وفات کا اِستخراج فرمایا تھا۔وہ آیتِ مبارکہ یہ ہے : وَ یُطَافُ عَلَیۡہِمۡ بِاٰنِیَۃٍ مِّنۡ فِضَّۃٍ وَّ اَکْوَابٍ ۔

ترجمہ کنزالایمان : اور ان پر چاندی کے برتنوں اور کُوزوں کا دَور ہوگا ۔ (پ ۲۹، الدھر:۱۵) ۔ (سوانح امام احمد رضا ، ص ۳۸۴، مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر )


۲۵ صفَر الْمُظَفَّر ۱۳۴۰ھ مطابق ۱۹۲۱ کو جُمُعَۃُ الْمبارَک کے دن ہندوستان کے وقت کے مطابق2 بج کر38 منٹ پر،عین اذان کے وقت اِدھر مُؤَذِّن نے حَیَّ عَلَی الفَلاح کہا اور اُدھر اِمامِ اَہلسُنَّت ولی نِعمت ، عظیمُ البَرَکت، عظیمُ الْمَرْتَبَت، پروانہ شمعِ رِسالت، مُجَدِّدِ دین ومِلّت، حامیِ سُنّت، ماحیِ بدعت، عالِمِ شَرِیْعَت، پیرِطریقت، باعثِ خَیْروبَرَکت، حضرتِ علامہ مولٰینا الحاج الحافِظ القاری الشاہ امام اَحمد رَضا خان علیہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن نے داعئ اَجل کو لبیک کہا ۔ اِنّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیہِ رَاجِعُون ۔


آپ رحمۃ اللہ علیہ کا مزارِ پُر اَنوار بریلی شریف میں آج بھی زیارت گاہِ خاص و عام بنا ہوا ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔