Friday 17 September 2021

جو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرے وہ جہنم کے کتّوں سے ایک کُتا ہے

0 comments

 جو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرے وہ جہنم کے کتّوں سے ایک کُتا ہے

محترم قارئینِ کرام : صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی تعظیم و تکریم امت پر فرض اور ان کی شان میں بدگوئی کرنا حرام ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے جاں نثار صحابۂ کرام کے متعلق نامناسب کلمات کہنے سے منع فرمایاہے اور بدکلامی کرنے والوں کو تنبیہ فرمائی کہ وہ اللہ سے ڈریں ، اللہ تعالی ان کی سخت گرفت فرمائے گا چنانچہ جامع ترمذی میں حدیث پاک ہے : عن عبداللہ بن مغفل قال قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللّٰہ اللّٰہ فی اصحابی لاتتخذوہم غرضا بعدی فمن احبہم فبحبی احبہم ومن ابغضہم فببغضی ابغضہم ومن اٰذاہم فقد اٰذانی ومن اٰذنی فقداٰذی اللہ ومن اٰذی اللہ یوشک ان یأخذہ۔ ترجمہ :حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ سے ڈرتے رہو ،میرے بعد انہیں بدگوئی کا نشانہ مت بناؤ ،پس جس کسی نے ان سے محبت کی توبالیقین اس نے میری محبت کی خاطر ان سے محبت کی ہے اور جس کسی نے ان سے بغض رکھا تواس نے مجھ سے بغض کے باعث ان سے بغض رکھاہے اور جس کسی نے ان کو اذیت پہنچائی یقیناً اس نے مجھ کو اذیت دی ہے اور جس نے مجھ کو اذیت دی یقینا اس نے اللہ کو اذیت دی ہے اور جس نے اللہ کو اذیت دی قریب ہے کہ اللہ اس کی گرفت فرمائے۔(جامع ترمذی ، ابواب المناقب ، حدیث نمبر:3797)


صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں بے ادبی اور ان کے حق میں بدکلامی موجب لعنت ہے جیساکہ امام طبرانی کی معجم کبیر میں حدیث پاک ہے :عن ابن عباس: قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : من سب أصحابی فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس أجمعین ۔ ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو میرے صحابہ کے بارے میں بدگوئی کرے اس پر اللہ کی ، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی ، باب العین، حدیث نمبر:12709،چشتی)


صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں بے ادبی کرنے والا‘بد گوئی کرنے والا بروز محشر بھی ملعون ہوگا، کنز العمال میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کل الناس یرجو النجاۃ یوم القیامۃ إلا من سب أصحابی فإن أہل الموقف یلعنونہم. ترجمہ : سارے لوگ قیامت کے دن نجات کی امید رکھینگے لیکن وہ بدگو شخص نہیں ‘جس نے میرے صحابہ کو برا کہا ، اہل محشر اس پر لعنت بھیجیں گے ۔ (کنز العمال ، الفصل الاول فی فضائل الصحابۃ، حدیث نمبر:32539) اور مصنف ابن ابی شیبہ میں حدیث پاک ہے :عن ابن عمر یقول:لا تسبوا أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلمقام أحدہم ساعۃ خیر من عمل أحدہم عمرہ ۔

ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ کو برا نہ کہو، ان میںسے کسی کے ایک گھڑی کا قیام لوگوںمیں سے کسی کے زندگی بھر عمل سے بہتر ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ،کتاب الفضائل ، حدیث نمبر:32415)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صحابہ کرام کے متعلق امت کو خیر خواہی، دعائے خیر اور ان کا اچھا ذکر کرنے کی نصیحت فرمائی۔ فرمایا:الله الله فی اصحابی، الله الله فی اصحابی، لا تتخذوهم غرضا من بعدی فمن احبهم فبحبی احبهم ومن ابغضهم فببغضی ابغضهم ومن اذا هم فقد اذانی ومن اذانی فقد اذی الله ومن اذی الله فيوشک ان ياخذه . (ترمذی، بحواله مشکوٰة، 554،چشتی)

ترجمہ : میرے صحابہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ میرے صحابہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ بعد انہیں (طعن و تشنیع کا) نشانہ نہ بنانا ۔ سو جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی وجہ سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا، اس نے میرے ساتھ بغض رکھنے کی بنا پر ان سے بغض رکھا اور جس نے ان کو تکلیف دی اس نے یقینا مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے یقینا اللہ کو تکلیف دی اور جس نے اللہ کو تکلیف دی تو عنقریب اسے اللہ پکڑے گا ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اصحابی کالنجوم فبايهم اقتديتم اهتديتم . (مشکوٰة، 554)

ترجمہ : میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں جس کی پیروی کرو گے راہ پاؤ گے ۔


صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اللہ راضی ہوچکا اور وہ حضرات اپنے رب سے راضی ہوچکے۔ قرآن کریم میں ہے : رَّضِیَ ﷲُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ ۔ (سورہ التوبة:100)

ترجمہ : اللہ ان (سب) سے راضی ہوگیا اور وہ (سب) اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لیے جنتیں تیار فرما رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی زبردست کامیابی ہے۔


پس ہر شخص کو آگاہ ہونا چاہئے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے محبت رکھنا، ان کے راستے پر چلنا، ان کے باہمی تنازعات میں پڑے بغیر ان کے لئے دعائے خیر کرنا، امت پر فرض ہے۔ ان سے بغض رکھنا، ان کی بے ادبی کرنا، ان کی شان و شوکت سے جلنا طریقِ کفار و منافقین ہے۔


حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم المرتبت صحابی ہیں، کاتب وحی ہیں ۔ ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں۔ اس لحاظ سے تمام اہل اسلام کے قابل صد تکریم روحانی ماموں ہیں۔ لہذا کوئی مسلمان ان کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کرسکتا اور جو گستاخی کرے وہ مسلمان نہیں ہوسکتا کیونکہ مسلمانوں کی پہچان قرآن میں یہ بتلائی گئی ہے کہ وہ اہل ایمان کے لئے ہمیشہ دعائے مغفرت کرتے ہیں ۔ يَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا.(سورہ مومن:7)


جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرے وہ جہنم کے کتّوں میں سے ایک کُتا ہے


امام شہاب الدین خفاجی رحمۃُ اللہ علیہ رحمہ ﷲ تعالٰی علیہ نے نسیم الریاض شرح شفاء امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ میں فرمایا: ومن یکون یطعن فی معٰویۃ فذالک کلب میں کلاب الہاویۃ ۔

ترجمہ جو امیر معاویہ پر طعن کرے وہ جہنم کے کتّوں سے ایک کُتا ہے ۔ (نسیم الریاض جز رابع صفحہ 525 مطبوعہ دارالکتب علمیہ بیروت لبنان)


امام اہلسنت امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃُاللہ علیہ فرماتے ہیں : جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرے وہ جہنمی کتوں میں سے ایک کتا ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد29 صفحہ 264 ۔ امام اہلسنت اعلیٰحضرت رحمۃ اللہ علیہ)


امام اہلسنت امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر طعن کرنے والا جہنّمی کتوں میں سے ایک کتا ہے اور بد تر خبیث تبرائی رافضی ہے ایسے شخص کو امام بنانا جائز نہیں ہے ۔ (احکام شریعت صفحہ نمبر 120 ، 121)


حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا گستاخ جہنمی کتا ہے ، اگر کوئی چورہ شریف سے تعلق رکھ کر حضرت امیر معاویہ کی شان میں گستاخی کرتا ہے تو ہم گدی نشین ہونے کی حیثیت سے اسے تنبیہ کرتے ہیں انسان بن جاؤ ۔ (الدرّۃ الحیدریہ علیٰ کلب الھاویہ عدوّ معاویہ صفحہ نمبر 8 مطبوعہ کرمانوالہ بک شاپ لاہور،چشتی)


پاکستان کے نقشبندی مجددی آستانوں کے مرکزی آستانہ عالیہ چورہ شریف کا واضح حکم آ جانے کے بعد بھی اگر چورہ شریف کا کوئی مرید حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی گستاخی کے گھناؤنے فعل میں ملوث ہے تو وہ باز آ جائے اور آئندہ کے لیے توبہ کرے ۔ اور یہ بات کبھی نہ بھولے کہ ایک صحیح العقیدہ آستانے کے مرید نہ تو خارجیوں کے عقیدہ کے داعی ہیں اور نہ ہی رافضیوں کے عقیدہ کے داعی ۔


صحیح بخاری شریف کی ایک حدیث ِقدسی میں ارشاد ِ الہٰی ہے : مَنْ عَادَى لِى وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ الخ ۔۔۔

ترجمہ : جو شخص میرے کسی ولی سے دشمنی کرے تومیں اس کے خلاف جنگ کا اعلان کرتاہوں ۔ (صحیح بخاری شریف ،کتاب الرقاق باب التواضع حدیث نمبر 6502)


اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بڑا ولی کون ہوسکتا ہے ؟


مولائے کائنات شیر خدا حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اس اُمّت میں سب سے افضل ہیں ۔ ان کے گستاخ کو توبہ نصیب نہیں ہوگی ، میں اُن کے گستاخ سے بری الذمہ ہوں ۔ (کنزُ العُمّال مترجم اردو جلد نمبر 7 صفحہ نمبر 17 مطبوعہ دارالاشاعت کراچی)


یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ حب علی رضی اللہ عنہ والے دل میں بغض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہو ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت تو صحابہ و ال رسول رضی اللہ عنہم کا غلام بننے کا درس دیتی ہے ۔ اور ان لوگوں کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے جوکہ اپنے آپ کو سنی کہتے ہیں لیکن اپنے دلوں میں منکرین صحابہ کیلئے محبت بھی رکھتے ہیں ۔ کہیں منکرین صحابہ کی نحوست تمہیں بھی برباد نا کر دے اور جسطرح بغض صحابہ رضی اللہ عنہم کے سبب اللہ نے ن سے توبہ کی توفیق سلب کرلی تمھارے ساتھ بھی یہی معاملہ نا ہو ۔


صحیح بخاری ومسلم شریف میں ایک ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یوں ہے ’’میرے صحابہ کو گالیاں مت دو ، مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ،تم میں سے اگر کوئی شخص اُحد پہاڑ جتنا سونا بھی راہ ِ للہ خرچ کردے تو میرے صحابہ کے ایک مٹھی دانے صدقہ کرنے بلکہ اس سے آدھے ثواب کو بھی نہیں پہنچ سکتا ‘‘ طبرانی میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہے’’ جس نے میرے صحابہ کو گالیاں دیں ، اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو‘‘ ایک اور حدیث میں ہے ’’ جس نے میرے صحابہ کو گالیاں دیں ، اس نے مجھے گالیاں دیں اور جس نے مجھے گالیاں دیں ، اس نے اللہ تعالیٰ کو گالیاں دیں ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي. فَلَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلَا نَصِيْفَهُ ۔

ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کو برا مت کہو، پس اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کردے تب بھی وہ ان میں سے کسی ایک کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا ۔ (بخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم : لو کنت متخذا خليلا، 3 / 1343، الرقم : 3470، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب : (59)، 5 / 695، الرقم : 3861، وأبو داود في السنن، کتاب السنة، باب في النهي عن سب أصحاب رسول ﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، 4 / 214، الرقم : 4658)


عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لاَ تَسُبُّوْا أَصْحَابِي، لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي، فَوَالَّذِي نَفْسِي بَيَدِهِ، لَو أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَکَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيْفَهُ ۔

ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کو گالی مت دو، میرے صحابہ گالی مت دو، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کردے تو بھی وہ ان میں سے کسی ایک کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر نہیں پہنچ سکتا ۔ (مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب تحريم سبّ الصحابة، 4 / 1967، الرقم : 2540، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 84، الرقم : 8309، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فضل أهل بدر، 1 / 57، الرقم : 161،چشتی)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : إِذَا رَأَيْتُمُ الَّذِينَ يَسُبُّونَ أَصْحَابِي فَقُولُوا: لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى شَرِّكُمْ ۔

ترجمہ : جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہتے ہیں تو ان سے کہو تم میں سےجو بُرا ( یعنی صحابہ کو بُرا کہتا ) ہے اس پر اللہ کی لعنت ہے ۔ (ترمذی، باب فيمن سب أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، حدیث نمبر ۳۸۶۶)


غرض آیات ِ قرآنیہ اور اِن احادیـث ِ نبویہ کے پیش ِ نظر اہل ِ علم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالی دینا اور لعن طعن کرنا کفر قرار دیا ہے ۔


فتاویٰ بزازیہ میں ہے : ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا منکر کافر ہے ۔ حضرت علی، طلحہ، زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کو کافر کہنے والے کو کافر کہنا واجب ہے ۔ (فتاویٰ بزازیہ:۳/۳۱۸،چشتی)


ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ : شرح فقہ اکبر میں فرماتے ہیں: ’’جو شخص ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا انکار کرے تو وہ کافر ہے، کیونکہ ان دونوں کی خلافت پر تو صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے ۔ (شرح فقہ اکبر:۱۹۸)


حضرت مجدِّد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ : مختلف مکتوبات میں روافض کو کافر فرماتے ہیں، ایک رسالہ مستقل ان پر لکھا ہے جس کا نام رد روافض ہے، اس میں تحریر فرماتے ہیں: ’’اس میں شک نہیں کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما صحابہ میں سب سے افضل ہیں، پس یہ بات ظاہر ہے کہ ان کو کافر کہنا ان کی کمی بیان کرنا کفر و زندیقیت اور گمراہی کا باعث ہے ۔ (ردّ روافض:۳۱)


فتاویٰ عالمگیری میں ہے : روافض اگر حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی شان میں گستاخی کریں اور ان پر لعنت کریں تو کافر کافر ہیں، روافض دائرۂ اسلام سے خارج ہیں اور کافر ہیں اور ان کے احکام وہ ہیں جو شریعت میں مرتدین کے ہیں ۔ (فتاویٰ عالمگیری:۲/۲۶۸،چشتی)


حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ اپنی کتاب مسویٰ شرح مؤطا امام محمد رحمۃ اللہ علیہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ : اگر کوئی خود کو مسلمان کہتا ہے لیکن بعض ایسی دینی حقیقتوں کی جن کا ثبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے قطعی ہے ایسی تشریح و تاویل کرتا ہے جو صحابہ رضی اللہ عنہم تابعین رضی اللہ عنہم اور اجماعِ امت کے خلاف ہے تو اس زندیق کہا جائے گا اور وہ لوگ زندیق ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اہل جنت میں سے نہیں ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد کسی کو نبی نہ کہا جائے گا ، لیکن نبوت کی جو حقیقت کسی انسان کا اللہ کی طرف سے مبعوث ہونا ، اس کی اطاعت کا فرض ہونا اور اس کا معصوم ہونا ، یہ سب ہمارے اماموں کو حاصل ہے ، تو یہ عقیدہ رکھنے والے زندیق ہیں اور جمہور متأخرین حنفیہ، شافعیہ کا اتفاق ہے کہ یہ واجب القتل ہیں ۔ (مسویٰ شرح مؤطا محمد)


درّ مختار میں ہے : ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما میں سے کسی ایک کو برا بھلا کہنے والا یا ان میں سے کسی ایک پر طعن کرنے والا کافر ہے اور اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی ۔(درمختار)


علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائے یا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کرے تو اس کے کفر میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ۔ (شامی:۲/۲۹۴،چشتی)


جس نے تمام صحابہ یا اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم کو کافر ، مرتد اور فاسق کہہ کر گالی دی ایسے شخص کے کافر ہونے میں کوئی شبہہ نہیں ، اس لئے کہ قرآن وسنت کے ناقلین کو کافر یا فاسق کہنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اُسے قرآن اور حدیث میں شک ہے ، ناقلین پر افتراء پردازی کا مطلب ہے کہ منقول (قرآن وسنت) بھی جھوٹا ہے ، جب کہ قرآن نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی شان میں قصیدے پڑھے ہیں اور اللہ اُن سے راضی ہوچکا ہے ۔ قرآن اور احادیث کے نصوص سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی فضیلت پر قطعی دلالت کرتا ہے ۔ (الرد علی الرافضۃ: ۱۹) ، تو جس نے قطعیت کا انکار کیا وہ کافر ہوگیا ۔


صحابہ رضی اللہ عنہم کو گالی دینے کا مطلب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ایذاء پہنچانا ہے ، اس لئے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خواص ، محبوب اور ساتھی تھے ، اور کسی کے محبوب و خواص کو گالی دینے پر اُسے تکلیف پہنچے گی ہی ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو تکلیف دینا کفر ہے ۔


علامہ ابن تیمیہ نے اس قسم کا حکم بیان کیا ہے : جو اپنے گمان میں اس قدر تجاوز کرجائے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے انتقال کے بعد چند صحابۂ کرام کو چھوڑ کر سب مرتد ہوگئے تھے ، یا ان کی اکثریت فاسق ہوگئی تھی ، تو ایسے شخص کے کافر ہونے میں کوئی شک نہیں ، اس لئے کہ اس نے قرآن کے نصوص کو جھٹلایا ، جو ان کی فضیلت میں کئی جگہ واردہیں ، جیسے اللہ کا اُن سے راضی ہوجانا ، اُن کی مدح و ثناء بیان کرنا ، تو ایسے لوگوں کے کافر ہونے میں جو شک کرے وہ خود کافر ہے ۔ ابن تیمیہ نے آگے لکھا : کہ ایسے لوگوں کا یہ کفر دین اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں لازما جانا جائے ۔ (الصارم المسلول: ۵۸۶)


امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : کہ علماء کا اختلاف بعض صحابہ کو گالی دینے کے سلسلے میں ہے کہ وہ کافر ہے یا نہیں ؟ لیکن تمام صحابہ کو گالی دینے والایقیناًکافر ہے ۔(الصواعق المحرقۃ: ۳۷۹)


مذکورہ دلائل کی توضیح کے ساتھ یہاں بعض علماء کے دوسرے تفصیلی دلائل بیان کئے جارہے ہیں :


سورۂ فتح کی آخری آیت (محمد رسول اللہ والذین معہ ۔۔الی ۔۔لیغیظ بہم الکفار) امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت سے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ جو صحابہ سے بغض رکھے وہ کافر ہے ، ایسے لوگوں سے صحابہ خود بغض رکھتے تھے ، اور صحابہ جس سے نفرت کریں ، وہ کافر ہے ، امام شافعی اور دوسرے علماء کا بھی یہی موقف ہے ۔ (الصواعق المحرقۃ،ص: ۳۱۷)


امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ انہوں نے ایک مرتبے ایک شخص کو دُرّے لگائے جس نے اُن کو ابو بکر رضی اللہ عنہ پر فوقیت دی تھی،اور پھر عمر نے فرمایا تھا : ’’ابو بکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد لوگوں میں سب سے زیادہ افضل ہیں ، فلاں فلاں چیزوں میں ۔۔۔‘‘ پھر کہا : جو اس کے خلاف کہے گا ، اُس پر ہم حد نافذ کریں گے جیسا کہ اُس جھوٹے کو دُرّے لگائے گئے ۔ (فضائل الصحابۃ للامام أحمد: ۱؍۳۰۰)


اسی طرح امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مجھ کو کوئی بھی ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما پر فضیلت نہ دے ، ورنہ میں اُس پر افتراء پردازی کی حد نافذ کروں گا ۔ (فضائل الصحابۃ للامام أحمد: ۱؍۸۳)


جب دو خلیفۂ راشد عمر و علی رضی اللہ عنہما اُن لوگوں پر افتراء پردازی کی حد نافذ کرنے کا عزم کرتے ہیں جوعلی کو ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم پر ترجیح دیتے ہیں یا جو عمر کو ابو بکر پر فوقیت دیتے ہیں ۔ حا لانکہ محض افضلیت کو اوپر نیچے کرنے میں نہ کوئی عیب ہے اور نہ ہی گالی ۔ تو اندازہ لگائیں کہ گالی کی سزا ان دونوں کے نزدیک کتنی بھاری رہی ہوگی ۔ (الصارم المسلول،ص:۵۸۶)


حضرت سحنون رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : جس نے ابوبکر ، عمر ، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم کے بارے یہ کہا : کہ وہ لوگ گمراہی اور کفر کی راہ پر تھے ، وہ واجب القتل ہے ، ان کے علاوہ اگر دوسرے صحابہ کو بھی گالی دی گئی تو اُسے سخت سزا دی جائے گی ۔ (الشفاء للقاضی عیاض ۲؍۱۱۰۹)


ہشام بن عمار کہتے ہیں : میں نے امام مالک کو یہ کہتے ہوئے سناجو ابو بکر و عمر کو گالی دے اُسے قتل کردیا جائے گا ، جو ام المؤمنین عائشہ کو گالی دے ، وہ بھی واجب القتل ہے ، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں فرماتا ہے ( یعظکم اللہ أن تعودوا لمثلہ ، أبدا ان کنتم مؤمنین) ، (النور:۱۷) اللہ تعالیٰ تم کو نصیحت کرتا ہے کہ پھرکبھی بھی ایسا کام نہ کرنا ، اگر تم سچے مؤمن ہو ۔ تو جس نے عائشہ کو متہم کیا ، اُس نے قرآن کی خلاف ورزی کی ، اور قرآن کی خلاف ورزی کرنے والا قتل کردیا جائے گا ۔ (الصواعق المحرقۃ، صفحہ نمبر ۳۸۴،چشتی)


امام ہیثمی لکھتے ہیں : جو لوگ ابو بکر اور ان کے ہمراہی کو کافر قرار دیتے ہیں ، جن کے لئے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جنت کی بشارت دی ہے ۔ (الصواعق المحرقہ صفحہ نمبر ۳۸۵)


علامہ خرشی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : جس نے حضرت عائشہ پر ایسی تہمت لگائی ، جس سے اللہ نے ان کی برأت فرمائی ہے ، یا جو لوگ ابوبکر کی صحابیت ، یا عشرۂ مبشرہ کے اسلام ، یا تمام صحابہ کے اسلام کا انکار کرے یا خلفائے اربعہ میں سے کسی تکفیرکرے تو وہ کافر ہے ۔ (الخرشی علیٰ مختصر خلیل:۸؍۷۴)


خطیب بغدادی کہتے ہیں کہ علماء لکھتے ہیں : وہ شخص کافر ہے جو عشرۂ مبشرہ میں سے کسی کی تکفیر کرے ، اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تمام ازواج مطہرات کا احترام اور ان سے محبت واجب ہے ، جو شخص ان میں سے کسی کی بھی تکفیر کرے ، اُسے کافر قرار دیا جائیگا ۔ (الفرق بین الفرق،ص: ۳۶۰)


قاضی عیاض کہتے ہیں : صحابہ میں کسی کو بھی گالی دینا گناہ کبیرہ ہے ، گالی دینے والے کو قتل کے علاوہ دوسری سزائیں دی جائیں گی ، یہی میرا اور جمہور علماء کا مسلک ہے ۔ (مسلم بشرح النووی۱۶؍۹۳)


عبد الملک بن حبیب کہتے ہیں : ’’کوئی غالی شیعہ عثمان سے بغض اور برأت کا اظہار کرے ، اُسے سخت سزادی جائے گی ، اور وہ اگر ابوبکر و عمر سے نفرت و عداوت کا اظہار کرے تو اُس پر سزا بڑھادی جائے گی ، اُس کی پٹائی ڈبل کی جائے گی ، اور اُسے تا حیات جیل میں رکھا جائے گا ۔ (الشفاء:۲؍۱۱۰۸)


فضیلت کے حاملین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالی دینے والا کافر ہے ، اور جن کے بارے میں متواتر نص وارد نہیں ہیں ، جمہور علماء ان کو کافر قرار نہیں دیتے ، ہاں اگر کوئی صحابیت کو طعن و تشنیع کرے تو وہ کافر ہے ۔


شرفِ صحابیت کا لحاظ لازم ہے خوب یاد رکھئے


صحابیت کا عظیم اعزاز کسی بھی عبادت و ریاضت سے حاصل نہیں ہوسکتا لہٰذا اگر ہمیں کسی مخصوص صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فضیلت کے بارے میں کوئی روایت نہ بھی ملے تب بھی بلاشک و شبہ وہ صحابی محترم و مکرم اورعظمت و فضیلت کے بلند مرتبے پر فائز ہیں کیونکہ کائنات میں مرتبۂ نبوت کے بعد سب سے افضل و اعلیٰ مقام و مرتبہ صحابی ہونا ہے ۔ صاحبِِ نبراس علّامہ عبدالعزیز پرہاروی چشتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یاد رہے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّم کے صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کى تعداد سابقہ انبىائے کرام علیہم السّلام کى تعداد کے موافق ( کم و بىش) ایک لاکھ چوبىس ہزار ہے مگر جن کے فضائل مىں احادىث موجود ہىں وہ چند حضرات ہىں اور باقى صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کى فضىلت مىں نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا صحابی ہونا ہی کافی ہےکیونکہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّم کی صحبتِ مبارکہ کی فضیلت عظیمہ کے بارے میں قراٰنِ مجید کی آیات اوراحادیثِ مبارکہ ناطِق ہیں ، پس اگر کسى صحابى کے فضائل مىں احادىث نہ بھی ہوں ىا کم ہوں تو ىہ ان کى فضىلت و عظمت مىں کمى کى دلىل نہىں ہے ۔ (الناھیۃ صفحہ نمبر 38،چشتی)


سارے صحابہ عادل ہیں صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت کیلئے یہ ایک ہی آیت کافی ہے : وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ۔

ترجمہ : اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار جو بھلائی کے ساتھ ان کے پَیرو ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہسے راضی اور ان کے لئے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔ (پ11،سورہ التوبۃ :100)


علّامہ ابوحَیّان محمد بن یوسف اندلسی رحمۃ اللہ علیہ (وفات:745ہجری) فرماتےہیں : وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ سے مراد تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہیں ۔ (تفسیرالبحر المحیط،ج 5،ص96، تحت الآیۃ المذکورۃ)


یاد رہے سارے صحابَۂ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم عادل ہیں ، جنتی ہیں ان میں کوئی گناہ گار اور فاسق نہیں ۔ جو بدبخت کسی تاریخی واقعہ یا روایت کی وجہ سے صحابَۂ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم میں سے کسی کو فاسق ثابت کرے ، وہ مَردُود ہے کہ اس آیت کے خلاف ہے ۔


ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ درج ذیل حدیثِ پاک کو دل کی نظر سے پڑھ کر عبرت حاصل کرنے کی کوشش کرے ، چنانچہ حضرت عبدُاللہ بن مُغَفَّل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ (رضی اللہ تعالٰی عنہم) کے بارے میں اللہ سے ڈرو ، اللہ سے ڈرو ۔ میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو ا س نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بُغض رکھا تو اس نے میرے بُغض کی وجہ سے ان سے بُغض رکھا اور جس نے انہیں ستایا اس نے مجھے ستایا اور جس نے مجھے ستایا اس نے اللہ پاک کو ایذا دی اور جس نے اللہ پاک کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ پاک اس کی پکڑ فرما لے ۔ (ترمذی جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 463 حدیث نمبر 3888) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔