افضلیتِ ابو بکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہما
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : مسلہ افضلیت پر رافضی شیعہ اور سنیوں کے لبادے میں چھپے تفضیلی رافضی آئے دن کوئی نا کوئی گھٹیا بات کرتے رہتے ہیں فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے مختلف اوقات میں بہت کچھ اس مسلہ پر لکھا ہے آئیے اس میں سے کچھ حوالہ جات پڑھتے ہیں احباب سے گذارش ہیں ایک بار ضرور پڑھیں پھر اپنی قیمتی آراء سے نوازیں :
اہلسنت و جماعت کا اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام حضرت میکائیل علیہ السلام حضرت اسرافیل علیہ السلام حضرت عزرائیل علیہ السلام اور رسل ملائکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے افضل ہیں ۔ مگر بعض متقشفہ نے وفورِ محبت میں اور غلبہ عشق کی وجہ سے کہا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تمام فرشتوں سے افضل ہیں اور یہ قول ان کی تردید کرتا ہے ۔
فرشتے افضل ہیں یا اولیاء ؟
کیا باقی فرشتے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دیگر اولیاء کرام سے افضل ہیں یا نہیں ؟
تو اس بارے میں علماء کے چند اقوال ہیں
(1) بعض حضرات کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ وغیرہ فرشتوں سے افضل ہیں ۔
(2) اور بعض دوسرے حضرات نے کہا کہ فرشتے افضل ہیں اور یہی بات صحیح ہے اس لیے کہ تمام فرشتے محلِ نبوت ہیں کیونکہ معنی نبوت (یعنی انباء و الہام اور وحی خفی) اللہ تعالٰی کے حکم سے ان سے حاصل ہے تو جس بھی شخص کے ہاتھ اور زبان سے ظاہری و باطنی طور پر انزال وحی جائز ہو تو اسکا حکم نبوت کا حکم ہوگا ۔
(3) اور اس لیے کہ فرشتہ سے بغض رکھنا جائز نہیں ۔ اور جو کسی فرشتہ سے بغض رکھے کافر ہے اور کسی فرشتہ کو گالی دے کافر ہو جاۓ گا فرشتوں پر ایمان لانا واجب ہے ۔ (تمہدید المعروف عقائد اہلسنت صفحہ 63 از امام ابوشکور سالمی علیہ الرحمہ)
امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ : ابوبکر و عمر خیر الاولین وخیر الاٰخرین وخیر اہل السمٰوٰت وخیر اھل الارضین الا الانبیاء والمرسلین لاتخبرھما یا علی ۔ (کنزالعمال حدیث ۳۲۶۴۵و ۳۲۶۵۲ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۱ /۶۱۔۵۶۰)(تاریخ بغداد ترجمہ عبداللہ بن ہارون ۵۳۳۱ دارالکتاب العربی بیروت ۱۰ /۱۹۲)
ترجمہ : ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سب اگلوں پچھلوں سے افضل ہیں اور تمام آسمان والوں اورسب زمین والوں سے بہتر ہیں سوا انبیاء و مرسلین علیہم السلام کے ، اے علی تم ان دونوں کو اس کی خبر نہ دینا ۔
علامہ مناوی علیہ الرحمہ نے تیسیر میں اس کے یہ معنی بتائے ہیں کہ ارشاد ہوتاہے اے علی (کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم) تم ان سے نہ کہنا بلکہ ہم خود فرمائیں گے تاکہ ان کی مسرت زیادہ ہو۔ واللہ تعالٰی اعلم ۔ (التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت الحدیث ابو بکر وعمر سیداکہول اہل الجنۃ مکتبۃ الامام الشافعی ریاض ۱ /۱۸)
دوسرے مقام پر فرماتے ہیں کہ : ہمارے رسول ملائکہ کے رسولوں سے افضل ہیں ، اور ملائکہ کے رسول ہمارے اولیاء سے افضل ہیں ، اور ہمارے اولیاء عوام ملائکہ یعنی غیر رسل سے افضل ہیں ۔
اور یہاں عوام مومنین سے یہی مراد ہے ۔ نہ فسّاق و فجار کہ ملائکہ سے کسی طرح افضل نہیں ہو سکتے ۔ انسان صفت ملکوتی و بہیمی و سبعی و شیطانی سب کا جامع ہے جو صفت اس پر غلبہ کرے گی اس کے منسوب الیہ سے زائد ہو جائے گا کہ اگر ملکوتی صفت غالب ہوئی کروڑوں ملائکہ سے افضل ہوگا ۔ اور بہیمی غالب ہوئی تو بہائم سے بدتر اولئٰک کالا نعام بل ھم اضل ۔
(جو چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بڑھ کر گمراہ ہیں۔ت) یونہی سبعی و شیطانی وہابیہ کو دیکھو ، شیطان کہ ان سے سبق لیتا ہے ، ابلیس کو ہزاروں برس کی عمر میں نہ سوجھی تھیں جو انہیں سوجھتی ہیں ۔ وﷲ تعالٰی اعلم ۔ (فتاوی رضویہ شریف)
شارح بخاری علامہ مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ فتاوی شارح بخاری جلد اول صفحہ 661 باب العقائد میں ایک سوال کے جواب میں شرح عقائد کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ : حضرت جبرائیل علیہ السلام رسل ملائکہ میں سے ہیں اور اس عبارت میں عامہ بشر سے مراد ہر انسان ہے انبیاء کرام علیہم السلام کے علاوہ اگرچہ وہ صحابی رضی اللہ عنہ ہو جب رسل ملائکہ کا عامہ بشر سے افضل ہونا ضروریات دین سے ہے اور جبرائیل علیہ السلام رسل ملائکہ میں سے ہیں تو یہ کہنا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جبرائیل آمین علیہ السلام سے افضل ہیں کفر ہوا اس لیے کہ ضروریات دین کا انکار کفر ہے واللہ اعلم
مراۃ المناجیح میں ہے کہ : چونکہ بعض لحاظ سے فرشتے انسان سے افضل ہیں کہ ہم انسان نیک و بد ہر طرح کے کام کر لیتے ہیں ، فرشتے صرف نیک کام ہی کرتے ہیں اسی لیے انہیں خیرًا منھم کہا گیا ، لہٰذا حدیث پر یہ اعتراض نہیں کہ انسان فرشتے سے افضل ہے پھر یہاں فرشتوں کو انسان سے افضل کیوں فرمایا گیا ۔مسئلہ : ماہیت انسان ماہیت فرشتہ سے افضل ہے ، رب تعالٰی فرماتاہے:"وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیۡۤ اٰدَمَ" اسی لیے انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے رہے افراد اس میں تفصیل یہ ہے کہ خاص انسان جیسے انبیاء و اولیاء خاص و عام تمام فرشتوں سےافضل ہیں ۔ مگر عام مسلمان سے خاص فرشتے افضل ، رہے کفار وہ تو گدھے کتے سے بھی بدتر ہیں ، ر ب تعالٰی فرماتاہے : "اُولٰٓئِکَ ہُمْ شَرُّ الْبَرِیَّۃِ" ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ذکر بالجہر افضل ہے کہ آہستہ ذکر کرنے والوں کا ذکر وہاں بھی خفیہ ہی ہوتا ہے اور مجمع لگا کر اونچا ذکر کرنے والوں کا وہاں بھی علانیہ ذکر ہی ہوتا ہے جیسے فرشتے و انبیاء و اولیاء سنتے ہیں ذکر بالجہر والوں کی یہ حدیث قوی دلیل ہے ۔
حضرت عمرو رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو منبر پر فرماتے سنا کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وصال باکمال کے بعد افضل ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی ﷲ عنہم اجمعین ہیں ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی حدیث 178 جلد اول صفحہ 107)
ابوالبختری طائی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو فرماتے سنا کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا ، میرے ساتھ ہجرت کون کرے گا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابوبکر اور وہی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وصال کے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اُمّت کے والی یعنی خلیفہ ہوں گے اور وہی اُمّت میں سب سے افضل اور سب سے بڑھ کر نرم دل ہیں ۔ (ابن عساکر، تاریخ دمشق، جلد نمبر 30 صفحہ نمبر 73)
حضرت محمد بن حنفیہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے (فرماتے ہیں) کہ میں نے اپنے باپ حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے عرض کی کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ حضرت ابوبکر ، میں نے عرض کی ، پھر کون ؟ فرمایا حضرت عمر رضی ﷲ عنہم ۔ (بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی حدیث 3671، جلد 2، ص 522،چشتی)
حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ۔ میری امت میں میرے بعد سب سے بہتر شخص ابوبکر ہیں ، پھر عمر ۔ (ابن عساکر)
حضرت ابو حجیفہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے گھر میں داخل ہوا ۔ میں نے عرض کی اے رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد لوگوں میں سب سے افضل شخص ! تو آپ رضی ﷲ عنہ نے فرمایا اے ابو حجیفہ ! کیا تجھے بتاؤں کہ رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد سب سے افضل کون ہے ؟ وہ حضرت ابوبکر ہیں ، پھر حضرت عمر ، اے ابو حجیفہ ! تجھ پر افسوس ہے ، میری محبت اور ابوبکر کی دشمنی کسی مومن کے دل میں جمع نہیں ہوسکتی اور نہ میری دشمنی اور ابوبکر و عمر کی محبت کسی مومن کے دل میں جمع ہوسکتی ہے ۔ (المعجم الاوسط للطبرانی من اسمہ علی، حدیث 3920، جلد 3، ص 79)
حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ پھر عرض کی کہ اے ﷲ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ! ہم پر کسی کو خلیفہ مقرر فرمایئے ۔ ارشاد فرمایا کہ نہیں ! ﷲ تعالیٰ اسے تم پر خلیفہ مقرر فرمادے گا جو تم میں سب سے بہتر ہوگا پھر ﷲ تعالیٰ نے ہم میں سے سب سے بہتر ابوبکر رضی ﷲ عنہ کو جانا ، جنہیں ہم پر خلیفہ مقرر فرمایا ۔ (دارقطنی، تاریخ دمشق، جلد 30، ص 290-289)
ہمدانی سے باکمال روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنے وصال کے وقت مجھے سرگوشی کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے بعد ابوبکر ، ان کے بعد عمر ، ان کے بعد عثمان خلیفہ ہے۔ بعض روایات میں یہ لفظ ہے کہ پھر انہیں خلافت ملے گی ۔ (ابن شاہین، فضائل الصدیق لملا علی قاری، ابن عساکر، تاریخ دمشق، جلد 5، ص189،چشتی)
حکم بن حجل سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ۔ جو بھی مجھے حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما پر فضیلت دے اس پر جھوٹ بولنے کی حد جاری کروں گا ۔ (الصارم المسلول، ص 405)
اصبغ بن نباتہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ۔ جو مجھے حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ پر فضیلت دے گا، اسے بہتان کی سزا میں درے لگاؤں گا اور اس کی گواہی ساکت ہوجائے گی یعنی قبول نہیں ہوگی ۔ (کنزالعمال، کتاب الفضائل، حدیث 36097، جلد 13،ص 6/7)
حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے معلوم ہوا کہ کچھ لوگ مجھے حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما سے افضل بتاتے ہیں۔ آئندہ جو مجھے ان سے افضل بتائے گا وہ بہتان باز ہے ۔ اسے وہی سزا ملے گی جو بہتان لگانے والوں کی ہے ۔ (تاریخ دمشق، جلد 30، ص 382)
حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کو گالیاں دینے والا مولا علی رضی ﷲ عنہ کی نظر میں
سالم بن ابی الجعد سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ۔ جو شخص حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کو گالیاں دے گا تو میرے نزدیک اس کی توبہ کبھی بھی قبول نہیں ہوگی ۔ (ابن عساکر، فضائل الصحابۃ للدار قطنی،چشتی)
ابن شہاب عبد ﷲ بن کثیر سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا کہ آخری زمانہ میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو ہم سے محبت اور ہماری جماعت سے ہونے کا دعویٰ کریں گے ، مگر وہ ﷲ تعالیٰ کے بندوں میں سب سے شریر ہوں گے جوکہ حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کو گالیاں دیں گے ۔ (ابن عساکر، کنزالعمال، کتاب الفضائل، حدیث 36098)
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی فضیلت بر سر ممبر بیان فرمائی
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس امت میں نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد سب سے افضل ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہیں ۔ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ بات حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تواتر کے سات ثابت ہے ۔ تاریخ الاسلام باب عہد الخلفاء جلد نمبر صفحہ نمبر 115 امام ذھبی رحمۃ اللہ علیہ،چشتی)
حضرت عمرو رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو منبر پر فرماتے سنا کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وصال باکمال کے بعد افضل ابوبکر، عمر اور عثمان رضی ﷲ عنہم اجمعین ہیں ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث 178 جلد اول، ص107)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اس امت میں سب سے بہتر ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں پھر عمر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (فضائل صحابہ صفحہ 33 امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اسناد صحیح ہیں)
جو مجھے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما پر فوقیت دے گا میں اسے مفتری کی حد کوڑے لگاؤں گا اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد افضل ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں۔فرمان حضرت مولیٰ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( فضائل صحابہ رضی اللہ عنہم صفحہ 34 امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اس امت میں سب سے افضل ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما ہیں ۔ (فضائل صحابہ صفحہ 37 اس روایت کےرجال ثقہ ہیں)
حضرت ابراہیم نخعی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ مولیٰ علی رضی ﷲ عنہ کو خبر پہنچی کہ عبد ﷲ بن اسود حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کی توہین کرتا ہے تو آپ نے اسے بلوایا ، تلوار منگوائی اور اسے قتل کرنے کا ارادہ کیا پھر اس کے بارے میں سفارش کی گئی تو آپ نے اسے تنبیہ کی کہ جس شہر میں رہوں ، آئندہ تو وہاں نہیں رہے گا ، پھر اسے ملک شام کی طرف جلا وطن کردیا ۔ (کنزالعمال، کتاب الفضائل، حدیث 36151،چشتی)
افضلیتِ ابوبکر صدیق پر مولا علی رضی ﷲ عنہما کے اقوال کتب شیعہ سے
حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ۔ ابوبکر کو سب لوگوں سے زیادہ حقدار سمجھتے ہیں کہ وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے نماز کے ساتھی اور ثانی اثنین ہیں اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنی حیات ظاہری میں ان کو نماز پڑھانے کا حکم فرمایا ۔ (شرح نہج البلاغہ ابن ابی حدید شیعی، جلد اول، ص 332)
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : ان خیر ہذہ الامۃ بعد نبیہا ابوبکر و عمر ۔
ترجمہ : اس امت میں حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد سب سے بہتر حضرت ابوبکر و عمر ہیں ۔ (کتاب الشافی، جلد دوم، ص 428)
حضرت علی علیہ السلام نے ابوبکر و عمر کے بارے میں فرمایا : انہما اماما الہدی و شیخا الاسلام والمقتدی بہما بعد رسول اﷲ ومن اقتدی بہما عصم ۔
ترجمہ : یہ حضرت ابوبکر و عمر دونوں ہدایت کے امام اور شیخ الاسلام اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد مقتدیٰ ہیں اور جس نے ان کی پیروی کی، وہ برائی سے بچ گیا ۔ (تلخیص الشافی للطوسی، جلد 2،ص 428)
حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ان ابابکر منی بمنزلۃ السمع وان عمر منی بمنزلۃ البصر ۔
ترجمہ : بے شک ابوبکر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میرے کان اور عمر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میری آنکھ ۔ (عیون اخبار الرضا لابن بابویہ قمی، جلد اول، ص 313، معانی الاخبار قمی، ص 110، تفسیر حسن عسکری،چشتی)
حضرت علی علیہ السلام نے کوفہ کے منبر پر ارشاد فرمایا : لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر الا جلدتہ حد المفتری ۔
ترجمہ : اگر ایسا شخص میرے پاس لایا گیاتو جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر پر فضیلت دیتا ہوگا تو میں اس پر مفتری کی حد جاری کروں گا ۔ (رجال کشی ترجمہ رقم (257) معجم الخونی (جلد ص 153)
مولا علی رضی ﷲ عنہ کو صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ پر فضیلت دینے والوں کو تنبیہ شیعہ حضرات کی کتب سے شیعہ حضرات کی اسماء الرجال کی کتاب رجال کشی میں مولا علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ سے ان کو افضل کہنے والوں کے لئے درّوں کی سزا اور حد کا حکم فرمایا ہے ۔ اصل عبارت درج کی جاتی ہے : انہ رای علیا (علیہ السلام) علی منبر بالکوفۃ وہو یقول لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر لا جلدنہ حد المفتری ۔
ترجمہ : انہوں نے حضرت علی (علیہ السلام) کو کوفہ کے منبر پر بیٹھے ہوئے دیکھا اور وہ فرما رہے تھے اگر میرے پاس کوئی ایسا آدمی آئے جو مجھے ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور درّے لگاؤں گا جوکہ مفتری کی حد ہے ۔ (رجال کشی، ص 338، سطر 4 تا 6، مطبوعہ کربلا) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment