Saturday 4 September 2021

جنابِ ابو طالب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے کہا تو تو ایک محتاج آدمی ہے

0 comments

 جنابِ ابو طالب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے کہا تو تو ایک محتاج آدمی ہے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : جس نے بڑی حقارت سے رشتہ دینے سے انکار کر دیا آج اسے کفیل بنا کر پیش کیا جا رہا ہے ۔ سوال یہ ہے اگر جنابِ ابو طالب اتنے شفیق و مہربان اور کفیلِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تھے تو تحقیر آمیز انداز میں رشتہ کیوں ٹھکرا دیا ؟


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی معاہدے کے وقت عبد ﷲ بن جدعان کے گھر میں موجود تھے ۔ چچا زبیر کے مرنے کے بعد اپنی متاہل (شادی شدہ) زندگی کا خیال آیا ۔ حضرت ابنِ عبّاس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ابوطالب کو اُمِّ ہانی رضی اللہ عنہا سے نکاح کا پیغام دیا تھا ، جس پر ابوطالب نے کہا’’ بھتیجے ! مَیں بنو مخزوم کو زبان دے چُکا ہوں ۔ قریبی قرابت داری کی بنا پر اب اُنہیں منع کرنا مناسب نہ ہوگا ۔ (طبقات ابنِ سعد 343/8)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا جنابِ ابو طالب (عبدِ مناف) کے پاس اُمِّ ہانی کےلیے شادی کا پیغام بھیجا مگر جنابِ ابو طالب نے اپنے ماموں کے بیٹے ہبیرۃ بن ابی وہب سے نکاح کردیا اور بھتیجے کو جواب دے دیا ۔ (طبقاتِ ابن سعد، ج:۲، ص:۱۵۲)(تاریخِ طبری،  الاصابہ،کتاب المجر،چشتی)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب اپنے جنابِ ابو طالب سے شکوہ کیا تو جنابِ ابو طالب نے جو جواب دیا وہ تاریخ کے صفحات پر مرقوم ہے ۔ بھتیجے ! ان لوگوں سے ہماری قرابتیں پہلے سے ہوتی آئی ہیں اور اشراف کا میل اشراف سے ہی ہوتا ہے مگر تو تو ایک محتاج آدمی ہے ۔ (طبقاتِ ابن سعد، تاریخِ طبری، الاصابہ) ۔ (أَسْتَغْفِرُ اللّٰه)


حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا جنابِ ابو طالب کی بڑی بیٹی تھیں ، آپ کا اصلی نام فاختہ تھا ، لیکن ابن اسحاق آپ کا نام ہند بتاتے ہیں ، آپ کو اپنے بیٹے ہانی کی نسبت سے ام ہانی کہا جاتا تھا ۔ روایتوں کےمطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اُم ہانی سے شادی کرنا چاہتے تھے ، لیکن آپ کے چچا نے یہ سوچ کر آپ کو رشتہ دینے سے انکار کر دیا کہ جو آدمی اپنا بوجھ نہیں اٹھا سکتا وہ میری بیٹی کو کیا کھلائے گا ، لہٰذا انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی ھبیرہ بن عبدالوہاب سے کر دی ۔ فتح مکہ کے بعد آپ نے پھر ام ہانی سے شادی درخواست کی ، لیکن انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ وہ اس شادی کے بعد اپنے بچوں کا ٹھیک طرح سے خیال نہیں رکھ پائیں گی ۔ (ماخوذ : سیرۃ سبن اسحاق)


جس شخصیت نے اپنے کسی بیٹے کی پرورش خود نہ کی ہو اور جنابِ ابو طالب کا یہی اشرافِ خاندانی داماد (ہبیرہ بن ابی وہب) اعلانِ نبوت کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں ہجو بکتا رہا اور ہر غزوے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مقابل آتا رہا ۔ آخر فتحِ مکہ کے روز نجران کی طرف بھاگ گیا اور بحالتِ کفر کہیں مر گیا ۔


صحیح بخاری کتاب الاجارۃ حدیث:۴۶۳ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ’’ ﷲ نے کوئی پیغمبر ایسا نہیں بھیجا کہ جس نے بکریاں نہ َ چرائی ہوں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا آپ نے بھی ؟ آپ نے فرمایا : نَعَمْ ! کُنْتُ اَرْعَاھَا عَلٰی قَرَارِیْطَ لِاَھْلِ مَکَّۃَ‘‘ ہاں ! میں اہلِ مکہ کی چند قیراط تنخواہ پر بکریاں َ چراتا تھا ۔


جن حضرات کے ذہنوں پر جنابِ ابوطالب کی کفالت والی فرضی روایات چھائی ہوئی ہیں ، اس حدیث کا جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ قراریط سے مراد سکّے نہیں بلکہ قراریط ایک جگہ کا نام ہے مگر امام بخاری علیہ الرحمہ نے اسے اُجرت کے باب میں نقل کیا ہے ۔ دوم اہلِ مکہ کی بکریاں چرانے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے جبکہ کفالت چچا ابوطالب کی تسلیم کرتے ہیں؟ …… پھر بھی اگر کوئی مصر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کفالت ابوطالب نے کی تو فقیر کا جواب ادباً یہ ہوگا کہ جنابِ ابوطالب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اہلِ مکہ کی بکریاں چروا کر اپنا اور اپنے اہل کا گزارہ کر رہے تھے ۔ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ابوطالب پر احسان ہے نہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ابوطالب کا ۔


قابلِ غور بات یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پیدائش کے معدودے چند روز بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا چچا ! آپ تو جانتے ہیں کہ میرا چچا ابوطالب تنگدست ہے ۔ کیوں نہ ہم اس سے ایک بیٹا لے کر اس بیٹے کی ذمہ داری اپنے سر لے لیں ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے جعفر رضی اللہ عنہ کو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے  حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی کفالت میں لے لیا ۔ طالب اور عقیل اس وقت جوان تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شادی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ سے ہوچکی تھی ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت سے دس سال پہلے پیدا ہوئے ۔ جنابِ ابو طالب چوں کہ کثیرالعیال اور مالی و معاشی تنگی سے نہایت پریشان تھے ، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے محبوب چچا کی تنگ دستی اور مفلسی سے متاثر ہوکر حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ہمیں اس مصیبت و پریشاں حالی میں چچا کا ہاتھ بٹانا چاہیے ۔ چناں چہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حسب ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی کفالت کی ذمے داری لی اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نگاہِ انتخاب نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پسند فرمایا ۔ پھر سوچیۓ کفیل کس کا کون ہے ؟ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔