ترتیبِ افضلیت خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : جلیلُ القدر حنفی محدث حضرت امام ابو جعفر احمد بن محمد طحاوی رحمۃ اللہ علیہ (وفات : 321ھ) فرماتے ہیں : وَنُثْبِتُ الْخِلَافَةَ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَوَّلًا لِاَبِي بَكْرِ الصِّدِّيق رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تَفْضِيلًا لَهُ وَتَقْدِيمًا عَلَى جَمِيعِ الْاُمَّةِ ، ثُمَّ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، ثُمَّ لِعُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، ثُمَّ لِعَلِيِّ بْنِ اَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ۔ یعنی ہم رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم کے بعد سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت ثابت کرتے ہیں اس وجہ سے کہ آپ کو تمام اُمّت پر افضلیت و سبقت حاصل ہے ، پھر ان کے بعد حضرت عمر فاروق ، پھر حضرت عثمان بن عفان ، پھر حضرت علیُّ المرتضیٰ رضی اللہ عنہم اجمعین کےلیے خلافت ثابت کرتے ہیں ۔ (متن العقیدۃ الطحاویۃ صفحہ 29)
امامِ اہلِ سنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اہلِ سنّت و جماعت نَصَر َہُمُ اللہُ تعالٰی کا اجماع ہے کہ مُرسلین ملائکہ و رُسُل و انبیائے بشر صَلَوَاتُ اللّٰہِ تَعَالٰی وَتَسْلِیْمَاتُہ عَلَیْھِمْ کے بعد حضرات خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم تمام مخلوقِ الٰہی سے افضل ہیں ، تمام اُمَمِ عالم اولین وآخرین میں کوئی شخص ان کی بزرگی وعظمت وعزت و وجاہت و قبول و کرامت و قُرب و ولایت کو نہیں پہنچتا ۔
مزید فرمایا : پھر اُن کی باہم ترتیب یوں ہے کہ سب سے افضل صدیقِ اکبر ، پھر فاروقِ اعظم ، پھر عثمانِ غنی ، پھر مولیٰ علی رضی اللہ تعالٰی عنہم ۔ (فتاویٰ رضویہ، 28/478)
امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : (حضرت صدیق و عمر کی افضلیت پر) جب اجماعِ قطعی ہوا تو اس کے مفاد یعنی تفضیلِ شیخین کی قطعیت میں کیا کلام رہا؟ ہمارا اور ہمارے مشائخِ طریقت و شریعت کا یہی مذہب ہے ۔ (مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین صفحہ 81،چشتی)
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : بالجملہ مسئلہ افضلیت ہرگز بابِ فضائل سے نہیں جس میں ضعاف (ضعیف حدیثیں) سُن سکیں بلکہ مواقف و شرح مواقف میں تو تصریح کی کہ بابِ عقائد سے ہے اور اس میں اٰحاد صحاح (صحیح لیکن خبرِ واحد روایتیں) بھی نامسموع ۔ (فتاویٰ رضویہ،5/581)
ایک دن نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خطبہ ارشاد فرمایا اور پھر توجہ فرمائی تو حضرت ابوبکر صدیق نظر نہ آئے تو آپ نے ان کا نام لے کر دو بار پکارا۔ پھر ارشاد فرمایا : بےشک رُوحُ القُدس جبریل امین علیہ السَّلام نے ابھی مجھے خبر دی کہ آپ کے بعد آپ کی اُمّت میں سب سے بہتر ابوبکر صدیق ہیں ۔ (معجم اوسط،5/18،حدیث:6448،چشتی)
جگرگوشۂ علیُّ المرتضیٰ حضرت محمد بن حنفیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے اپنے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا : نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد سب سے افضل کون ہے؟ ارشاد فرمایا : ابوبکر ، میں نے پوچھا : پھر کون؟ ارشاد فرمایا : عمر۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر میں نے دوبارہ پوچھا کہ پھر کون؟ تو شاید آپ حضرت عثمان کا نام لے لیں گے ، اس لئے میں نے فورا ً کہا : حضرت عمر کے بعد تو آپ ہی سب سے افضل ہیں؟ ارشاد فرمایا : میں تو ایک عام سا آدمی ہوں۔ (بخاری،2/522،حدیث:3671)
حضرت عبدُاللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ہم رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے زمانے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سب سے افضل شمار کرتے تھے ، ان کے بعدحضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اور ان کے بعد حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو ۔ (بخاری، 2/518، حدیث:3655)
چونکہ صحابۂ کرام حضرت صدیقِ اکبر کی افضلیت کے قائل تھے اسی لئے بڑے بڑے اَئمہ بھی اس عقیدے پر کاربند تھے جیسا کہ حضرت امامِ اعظم ابوحنیفہ ، حضرت امام شافعی ، حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہم صدّیقِ اکبر کو افضل مانتے تھے جیسا کہ حضرت امامِ اعظم نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : انبیائے کرام کے بعد تمام لوگوں سے افضل حضرت ابوبکر صدّیق رضی اللہ عنہ ہیں ، پھر عمر بن خطاب ، پھرعثمان بن عفان ذوالنورین ، پھر علی ابنِ ابی طالب رضوان اللہ علیھم اجمعین ہیں ۔ (شرح فقہ اکبر، صفحہ 61،چشتی)
حضرت امام محمد بن ادریس شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : تمام صحابۂ کرام اور تابعینِ عظام کا اس بات پر اجماع ہے کہ تمام اُمّت سے افضل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ، پھر حضرت عمر ، پھر حضرت عثمان بن عفان ، پھر حضرت علیُّ المرتضیٰ رضوان اللہ علیھم اجمعین ہیں۔ (فتح الباری ،8/15)
حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا : انبیائے کرام کے بعد لوگوں میں سب سے افضل کون ہے؟ فرمایا : حضرت ابوبکر صدّیق ، پھر حضرت عمر فاروق۔ (الصواعق المحرقۃ صفحہ نمبر 57)
حضرت شیخ تقی الدّین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اِنَّ اَبَابَکْر رضی اللہ عنہ اَفْضَلُ مِنْ سَائِرِ الْاُمَّۃِ الْمُحَمَّدِیَّۃِ وَسَائِرِ اُمَمِ الْاَنْبِیَاءِ وَاَصْحَابِھِم لِاَنّہٗ کَانَ مُلَازِماً لِرَسُوْلِ اللہِ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بِالصِّدِّیْقِیَّۃِ لُزُوْمَ الظِّلِّ لِلشَّاخِصِ حَتّٰی فِی مِیْثَاقِ الْاَنْبِیَاءِ وَلِذٰلِکَ کَانَ اَوَّلُ مَنْ صَدَّقَ رَسُوْلَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تمام اُمّت محمدیہ سے اور تمام انبیا کی ساری امتوں اور ان کے اصحاب سے افضل ہیں ، کیونکہ آپ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ اس طرح لازم تھے جس طرح سایہ جسم کے ساتھ لازم ہوتا ہے حتی کہ میثاقِ انبیاء میں اور اسی لئے آپ نے سب سے پہلے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تصدیق فرمائی۔ (الیواقیت والجواھر، جز2، صفحہ 329)
شارحِ بخاری حضرت علّامہ اِبنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اِنَّ الْاِجْمَاعَ اِنْعَقَدَ بَيْنَ اَهْلِ السُّنُّةِ اَنَّ تَرْتِيْبَهُمْ فِيْ الْفَضْلِ كَتَرْتِيْبِهِمْ فِي الْخِلَافَةِ رَضِيَ اللہُ عَنْهُمْ اَجْمَعِيْن یعنی اہلِ سنّت و جماعت کے درمیان اس بات پر اجماع ہے کہ خلفائے راشدین میں فضیلت اسی ترتیب سے ہے جس ترتیب سے خلافت ہے ۔ (فتح الباری ،7/29، تحت الحدیث:3678)
امام شرف الدین نووی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سب صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق پھر حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ہیں ۔ (شرح صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ جلد ۸ الجزء:۱۵، ص۱۴۸)
امام محمد بن حسین بغوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ، عمر فاروق، عثمان غنی، علی شیر خدا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم انبیاء ومرسلین کے بعد تمام لوگوں میں سب سے افضل ہیں ، اور پھر ان چاروں میں افضلیت کی ترتیب خلافت کی ترتیب سے ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہپہلے خلیفہ ہیں لہٰذا وہ سب سے افضل ان کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق ، ان کے بعد حضرت سیدنا عثمان غنی ، ان کے بعد حضرت سیدنا علی شیر خدا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم افضل ہیں ۔ (شرح السنۃ للبغوی، کتاب الایمان، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، ج۱، ص۱۸۲،چشتی)
علامہ ابن حجر عسقلانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : اِنَّ الْإِجْمَاعَ اِنْعَقَدَ بَيْنَ أَهْلِ السُّنُّةِ اَنَّ تَرْتِيْبَهُمْ فِيْ الْفَضْلِ كَتَرْتِيْبِهِمْ فِي الْخِلَافَةِ رَضِيَ اللہُ عَنْهُمْ أَجْمَعِيْنیعنی اہل سنت وجماعت کے درمیان اس بات پر اجماع ہے کہ خلفاء راشدین میں فضیلت اسی ترتیب سے ہے جس ترتیب سے خلافت ہے (یعنی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسب سے افضل ہیں کہ وہ سب سے پہلے خلیفہ ہیں اس کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق ، اس کے بعد حضرت سیدنا عثمان غنی ، اس کے بعد حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم) ۔ (فتح الباری ،کتاب فضائل اصحاب النبی، باب لوکنت متخذا خلیلا،تحت الحدیث:۳۶۷۸، ج۷، ص۲۹)
امام جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : اہل سنت وجماعت کا اس بات پر اجماع ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے بعد تمام لوگوں میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہہیں پھر حضرت سیدنا عمر فاروق، پھر حضرت سیدنا عثمان غنی، پھر حضرت سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمہیں ۔(تاریخ الخلفاء صفحہ ۳۴)
امام عبد الوہاب شعرانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی اُمت کے اولیاء کرام میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ،پھر حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ، پھر حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ،پھر حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ہیں ۔(الیواقیت والجواھر،المبحث الثالت والاربعون، الجزء الثانی، ص۳۲۸)
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : یہ آیت مبارکہ ﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۙ . صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ . حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی امامت پر دلالت کرتی ہیں ، کیونکہ ان دونوں آیتوں کا معنی ہے کہ ’’اے اللہ ہمیں ان لوگوں کے راستے پر چلا کہ جن پر تیرا انعام ہوا ۔‘‘اور دوسری آیت مبارکہ میں فرمایا:﴿اَنْعَمَ اللهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ﴾(پ۵، النساء:۶۹) ’’یعنی اللہ نے انبیاء اور صدیق پر انعام فرمایا ۔اور اس بات میں کسی قسم کا کوئی شک وشبہ نہیں کہ صدیقین کے امام اور ان کے سردار حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہہی ہیں ۔تو اب آیت کا مطلب یہ ہوا کہ ’’ اللہ1نے ہمیں حکم دیا کہ ہم وہ ہدایت طلب کریں جس پر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاور تمام صدیقین تھے،کیونکہ اگر وہ ظالم ہوتے توان کی اقتداء جائز ہی نہ ہوتی ، لہٰذا ثابت ہوا کہ سورۃ الفاتحہ کی یہ آیت مبارکہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی امامت پر دلالت کرتی ہے۔‘‘ (التفسیر الکبیر، الفاتحۃ:۵،۶، ج۱،ص۲۲۱)
علامہ ابن حجر ہیتمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں :’’علماء اُمت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس اُمت میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہہیں ، اور اُن کے بعد حضرت سیدنا عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہہیں ۔‘‘(الصواعق المحرقۃ، الباب الثالث ، ص۵۷)
مجدد الف ثانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : خلفاء اربعہ کی افضلیت ان کی ترتیب خلافت کے مطابق ہے (یعنی امام برحق اور خلیفہ مطلق حضور خاتم النبیین صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ہیں اور اُن کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاُن کے بعد حضرت سیدنا عثمان ذو النورین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاور اُن کے بعد حضرت سیدنا علی ابن ابی طالب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہہیں) تمام اہل حق کا اجماع ہے کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق اور اُن کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ہیں ۔ (مکتوبات امام ربانی، دفتر سوم، مکتوب۱۷، عقیدہ چھاردھم، ص۳۷)
علامہ ملا علی قاری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : وہ قول جس پر میرا اعتقاد ہے اللہ کے دین پر میرا مکمل اعتماد ہے کہ افضلیت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ قطعی ہے اس لیے کہ نبیٔ اکرم نور مجسم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کوبطریق نیابت امامت کا حکم دیا اور یہ بات دین سے معلوم ہے کہ جو اِمامت میں اولی ہے وہ افضل ہے حالانکہ وہاں حضرت سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بھی موجود تھے اور اکابر صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان بھی ۔ اس کے باوجود نبیٔ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو امامت کے لیے معین کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ افضلیت صدیق اکبر نبیٔ کریم رؤفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے علم میں تھی یہاں تک کہ ایک مرتبہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ مصلی مبارک سے پیچھے ہٹے اور حضرت سیدنا عمرفاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو آگے کیا تو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: ’’ابوبکر کے سوا کوئی اور امامت کرے اللہ اور سب مومن انکار کرتے ہیں ۔ (شرح الفقہ الاکبر، ص۶۴،چشتی)
علامہ قسطلانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ حضرت علامہ احمد بن محمد بن ابو بكر بن عبد الملك قسطلاني رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد ساری مخلوق میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ہیں اور اُن کے بعد حضرت سیدنا عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ہیں ۔ (ارشاد الساری ، کتاب فضائل اصحاب النبی،باب مناقب عثمان بن عفان، تحت الحدیث: ۳۶۹۸، ج۸، ص۲۱۵)
میر سید عبد الواحد بلگرامی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : اس پر بھی اہل سنت کا اجماع ہے کہ نبیوں کے بعد دوسری تمام مخلوق سےبہتر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ہیں اُن کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اُن کے بعد سیدنا عثمان ذوالنورین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اور اُن کے بعد سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ہیں ۔ (سبع سنابل، صفحہ ۷)
شیخ عبد الحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : افضلیت اُن کی ترتیب خلافت کے مطابق ہے یعنی تمام صحابہ سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق ہیں پھر سیدنا عمر فاروق پھر سیدناعثمان غنی پھر سیدنا علی المرتضی رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن ہیں ۔ (تکمیل الایمان صفحہ ۱۰۴)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : اور رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد امام برحق حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ہیں پھر حضرت عمر فاروق پھر حضرت عثمان غنی پھر حضرت علی المرتضی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ہیں ۔ (تفھیمات الٰھیہ، ج۱، ص۱۲۸)
علامہ عبدالعزیز پرہاروی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : صوفیاء کرام کا بھی اس بات پر اجماع ہے کہ امت میں سیدنا ابوبکر صدیق پھر سیدنا عمر فاروق پھر سیدنا عثمان غنی پھر سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سب سے افضل ہیں ۔ (النبراس شرح شرح العقائد، صفحہ ۴۹۲)
پیر مہر علی شاہ گولڑوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : آیت ’’﴿مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ١ؕ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ﴾ الآیۃ (پ۲۶، الفتح: ۲۹) ترجمۂ کنزالایمان: ’’مُحَمَّد اللہکے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ہیں ۔‘‘میں اللہ تعالٰی کی طرف سے خلفائے اربعہ عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی ترتیب خلافت کی طرف واضح اشارہ ہے ۔ چنانچہ وَالَّذِیْنَ مَعَہُسے خلیفۂ اول (حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ مراد ہیں ) اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارسے خلیفۂ ثانی (حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ) رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ سے خلیفۂ ثالث (حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ) اور تَرَاھُمْ رُکَّعاً سُجَّداً۔۔۔اِلَخ سے خلیفہ رابع (حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم )کے صفات مخصوصہ کی طرف اشارہ ہے کیونکہ معیت اور صحبت میں حضرت سیدنا صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ، کفار پر شدت میں حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ، حلم و کرم میں حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اور عبادت واخلاص میں حضرت سیدنا مولائے علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ خصوصی شان رکھتے تھے ۔ (مِھر منیر، ص۴۲۴، اللباب فی علوم الکتاب، الفتح:۲۹، ج۱۷، ص۵۱۷،چشتی)
عقیدہ افضلیت کے متعلق حضرے پیر سید نصیر الدین نصیر شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ : جب صدیق اکبر نے دین متین کی خاطر گھر کا سارا مال پیش فرمایا تو حضور نے پوچھا ،
ما ابقیت لاھلک یا ابابکر ، یعنی اے ابوبکر سارا مال تو دین کیلئے پیش کردیا ،اپنے گھر والوں کیلئے کیا چھوڑا ،تو صدیق اکبر نے کہا ، ابقیت لہم اللہ و رسولہ ، میں نے گھروالوں کے لئے اللہ و رسول کو باقی رکھا ہے ۔ پیر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک پلڑے میں ساری اہلبیت اطہار ، سارے صحابہ اور ساری امت کا ایمان رکھا جائے اور دوسری پلڑے میں صدیق اکبر کے ان دو جملوں کو رکھا جائے تو اہلبیت،صحابہ ،اور ساری امت کے ایمان کا وزن کم ہوجائے گا اور صدیق اکبر کے ان جملوں کا وزن زیادہ ھوجائے گا ۔ (راہ و رسم منزل ہا)
امام احمد رضا خان عَلَیْہِ الرَحمَہ ارشاد فرماتے ہیں :حضرات خلفاء اربعہ رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن تمام مخلوق الٰہی سے افضل ہیں ، پھر ان کی باہم ترتیب یوں ہے کہ سب سے افضل صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ پھر فاروق اعظم پھر عثمان غنی پھر مولی علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ۔ (فتاوی رضویہ، جلد ۲۸، صفحہ ۴۷۸،چشتی)
صدرالافاضل حضرت مولانا مفتی نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں
اہل سنت وجماعت کا اجماع ہے کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد تمام عالم سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ہیں اُن کے بعد حضرت عمر اُن کے بعد حضرت عثمان اور اُن کے بعد حضرت علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ۔ (سوانح کربلا، صفحہ ۳۸)
صدر الشریعہ حضرت مولانا مفتی امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بعد انبیاء ومرسلین ، تمام مخلوقات الٰہی انس وجن وملک (فرشتوں )سے افضل صدیق اکبر ہیں ، پھر عمر فاروق اعظم ، پھر عثمان غنی ، پھر مولی علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ۔ (بہار شریعت جلد ۱ صفحہ ۲۴۱)
سیدنا صدیق اکبر وعمر فاروق کی افضلیت قطعی ہے : اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ الرَحمَہ ارشاد فرماتے ہیں : (حضرت سیدنا صدیق و عمرکی افضلیت پر)جب اجماع قطعی ہوا تو اس کے مفاد یعنی تفضیل شیخین کی قطعیت میں کیا کلام رہا ؟ ہمارا اور ہمارے مشائخ طریقت وشریعت کا یہی مذہب ہے ۔ (مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین، ص۸۱)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن ارشاد فرماتے ہیں : میں کہتا ہوں اور تحقیق یہ ہے کہ تمام اجلہ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان مراتب ولایت میں اور خلق سے فنا اور حق میں بقا ء کے مرتبہ میں اپنے ماسوا تمام اکابر اولیاء عظام سے وہ جو بھی ہوں افضل ہیں اور ان کی شان ارفع واعلی ہے ا س سے کہ وہ اپنے اعمال سے غیر اللہ کا قصد کریں ، لیکن مدارج متفاوت ہیں اور مراتب ترتیب کے ساتھ ہیں اور کوئی شے کسی شے سے کم ہے اور کوئی فضل کسی فضل کے اوپر ہے اور صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا مقام وہاں ہے جہاں نہایتیں ختم اور غایتیں منقطع ہوگئیں ، اس لیے کہ صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ امام القوم سیدی محی الدین ابن عربی عَلَیْہِ الرَحمَہ کی تصریح کے مطابق پیشواؤں کے پیشوا اور تمام کے لگام تھامنے والے اور ان کا مقام صدیقیت سے بلند اور تشریع نبوت سے کمتر ہے اور ان کے درمیان اور ان کے مولائے اکرم مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے درمیان کوئی نہیں ۔ (فتاوی رضویہ، ج۲۸، ص۶۸۳)
یہ ہے اہلسنت و جماعت کا مؤقف اور یہی عقیدہ اہلسنت و جماعت کا رہے گا ان شاء اللہ الحمد للہ فقیر نے مستند حوالہ جات کی روشنی میں جمیع اہلسنت کا مؤقف پیش کر دیا ہے اللہ تعالیٰ قبول فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment